30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیٖن ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم طبِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم طفیضانِ معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ
دُعائے عطّار: یااللہ پاک !جو کوئی 25 صفحات کا رسالہ فیضانِ معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ پڑھ یا سُن لے اُسے بُزُرگانِ دین رحمۃُ اللہ علیہم کے فیضان سے مالامال فرما کر ماں باپ سمیت بے حساب بخش کر جنّتُ الفِردوس میں اپنے پیارے پیارے آخِری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا پڑوس نصیب فرما۔ اٰمین بِجاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلّی اللہ علیهِ واٰلہٖ وسلّمکبھی عذاب نہیں دیتا
(درود شریف کی فضیلت)
فرمانِ آخِری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم :جو شخص مجھ پر دُرود شریف پڑھتا ہے، اللہ پاک اُس پر نظر ِرحمت فرماتا ہے اور جس پر اللہ پاک رحمت کی نظر فرمائے اُسے کبھی عذاب نہیں دیتا۔ ( افضل الصلوات علی سید السادات ، ص 40) حشر کی تیرگی، سیاہی میں نور ہے، شمع پُر ضِیا ہے دُرود چھوڑیو مت درود کو، کافؔی! راہِ جنّت کا رہنما ہے درود (دیوانِ کافی، ص 23) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد500سونے کے سِکّے
حضرتِ سیّدُنا ابوعباس مؤدِب رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ایک سیدصاحب میرے پڑوس میں رہتے تھے جن کے مُعاشی حالات پہلے اچھے نہ تھے،انہوں نے مجھے اپنا واقعہ سنایا کہ ہمارے ہاں بچے کی ولادت ہوئی تو گھر میں کوئی ایسی چیز نہ تھی جو اپنی زوجہ(wife) کو کِھلاتا۔غمزدہ بیوی نے مجھ سے فریاد کی :اے میرے سرکےتاج! آپ پر میری حالت ظاہرہے، مجھے غذا کی سخت ضرورت ہے تاکہ میری کمزوری دور ہو ،خدا کےلئے کچھ کیجئے۔ سیدصاحب فرماتے ہیں :میں اپنی زوجہ کی یہ حالت دیکھ کر بے تا ب ہوگیا اور نماز ِ عشا کے بعد سودا سَلَف(یعنی راشن )والی دُکان پرگیا،جس سے میں سامان لیاکرتاتھا اُس کا مجھ پر کچھ قرض بھی تھا۔ میں نے اُس سے اپنے گھر کی حالت بیان کر کےجلد رقم دینے کی نیت کے ساتھ کچھ کھانے پینے کا سامان طَلَب کیا مگراُس نے صاف منع کر دیا۔ مَیں اِسی پریشانی کے عالَم میں دوسرے دکاندار کے پاس گیا اوراس سے بھی اِسی طرح کہاجیسا پہلے سے کہا تھا مگر اس نے بھی انکار کردیا ۔ اَلغَرَ ض! جس جس سے اُمّید تھی ،اُن سب کے پاس گیا لیکن کسی نے میری مدد نہ کی۔ میں بہت اُداس ہوکر سوچنے لگا کہ اب کس کے پاس جاؤں ؟اسی سوچ بچار میں مَیں دریائے دِجلہ کی طرف گیا ، وہاں ایک ملّاح (یعنی کشتی چلانے والے)کو دیکھا جو مسافروں کا انتظار کر رہا تھا۔ مجھے دیکھ کر اس نے آواز لگائی کہ اگر کوئی مسافر ہے تو آ جائے ۔ مَیں کشتی میں سوار ہوا اورکشتی چل پڑی ۔کشتی چلانے والے نے مجھ سے پوچھا : آپ کہاں جائیں گے؟ میں نے کہا: مجھےمعلوم نہیں ۔مَلّاح حیران ہوکر کہنے لگا: آپ کو اپنی منزل کا ہی علم نہیں اورکشتی پر بیٹھ گئے ہیں؟مَیں نے مَلّاح کو اپنے گھر کی حالت بتائی تو وہ بڑی ہمدردی کے ساتھ کہنے لگا: میرے بھائی! غم نہ کرو،مجھ سے جہاں تک بَن پڑا میں تمہاری پریشانی حل کرنے کی کوشش کروں گا ۔پھر اُس نے ایک جگہ کشتی روکی اور دریائے دجلہ کے کنارے پرایک مسجد میں لے جاکر کہنے لگا: میرے بھائی! اس مسجد میں ایک بُزُرگ دن رات مصروف ِعبادت رہتے ہیں، آپ اُن سے دُعا کروائیں ، اللہ پاک نے چاہا تو ضرور آپ کی پریشانی کا حل نکل آئے گا۔ سیدصاحب فرماتے ہیں: میں وضو کر کے مسجد میں داخل ہو ا تو دیکھا کہ وہ بُزُرگ محراب میں نماز ادا فرما رہے ہیں ۔ میں نے بھی دو رَکْعت ادا کیں اور سلام کرکے اُن کے قریب بیٹھ گیا ۔ اپنے معمولات سے فارغ ہوکر وہ بزرگ مجھ سے فرمانے لگے: اللہ پاک آپ پررحم فرمائے! آپ کون ہیں؟میں نے اپنا ساراواقعہ بیان کردیا،اُن بزرگ نے میری بات بڑی توجہ سے سنی اور پھر نماز پڑھنے لگے۔ باہربارش ہونے لگی اور میں بہت گھبرایا اور سوچنے لگا کہ میں اپنے گھر سے کتنا دور آگیا ہوں، نجانے گھر والے کس حال میں ہوں گے؟ میں اس سخت بارش میں اپنے گھر کیسے پہنچو ں گا۔اتنے میں ایک شخص مسجد میں داخل ہوااور اُن بزرگ کے قریب آکر بیٹھ گیا۔ وہ بزرگ جب نماز سے فارغ ہوئے تواس شخص نے عرض کی:حضور! میں فلاںشخص کا نمائندہ ہوں، انہوں نے آپ کو سلام اور کچھ نذرا نہ پیش کیا ہے ۔یہ سُن کر وہ بزرگ فرمانے لگے: یہ ساری رقم اِس سید شہزادے کی خدمت میں پیش کر دو ۔اُس نے تَعَجُّب کرتے ہوئےعرض کی: حضور! یہ پانچ سو (500) دینار ہیں۔فرمایا:ہاں! یہ سب اِن کودے دو۔اُس نے ساری رقم مجھے دے دی۔ میں نے تمام رقم چادرمیں رکھی اورحضرت کا شکر یہ ادا کرکے بارش میں بِھیگتا گھر کی طرف چل پڑا، اپنے علاقے میں پہنچ کراُسی راشن والے دُکان دار کو کہا: اللہ پاک نے اپنے رزق کے خزانوں میں سے مجھے پانچ سو(500)دینارعطا فرمائے ہیں۔ تمہارا مجھ پر جتنا قرض ہے وہ لے لو اور مجھے کھانے کا سامان دے دو۔ دکاندار نے کہا:فی الحال یہ رقم کل تک اپنے پاس ہی رکھیں اورجو چیزیں چاہئیں وہ لے لیجئے، پھر اس نے شہد ، شکّر ، تِلوں کا تیل، چاول ،چربی اور بہت سا کھانے کاسامان مجھے دیا، میں نے کہا: میں اتنا سارا سامان کیسے اٹھاؤں گاپھرہم دونوں سامان اُٹھاکر گھر کی طرف چل دیئے۔ گھر پہنچے تو دروازہ کھلا ہوا تھا،میری زوجہ مجھے دیکھ کر شِکْوہ کرتے ہوئے بولی: آپ اِس نازک حالت میں مجھے چھوڑ کر کہا ں چلے گئے ، بھوک اور کمزوری نےمیری حالت خراب کردی۔میں نے کہا: اللہ پاک کے فضل وکرم سے ہماری پریشانی دور ہوگئی، یہ دیکھو! گھی ، چربی ، شَکّر ، تیل اور بہت سارا کھانے کاسامان لے آیا ہوں، وہ بہت خوش ہوئی ، پھر سب نے کھا نا کھاکر اللہ پاک کا شکر ادا کیا۔صبح میں نے اپنی زوجہ کو وہ دینار دِکھا کر جب سارا واقعہ سنایاتووہ بہت خوش ہوئی اور اس غیبی مددپر اللہ پاک کا شُکْر اداکیا پھر ہم نے کچھ زمین خرید لی تاکہ کاشت کرکےاس کے ذریعے اپنےاخراجات پورے کریں ۔ اللہ پاک نے اُن بزرگ کی بَرَکت سے ہماری تنگدستی و غُربت دور فرمادی اللہ پاک اُن کو ہماری طرف سے اچھی جزا عطا فرمائے ۔ ( عیون الحکایات ، ص 277،276) اللہ ربُّ العزَّت کی اُن سب پر رحمت ہو اور اُن کے صد قے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلّی اللہ علیهِ واٰلہٖ وسلّم کیاآپ جانتے ہیں! اللہ پاک کے یہ نیک بندے اورمقبولُ الدُّعا بُزرگ کون تھے؟یہ سلسلہ ٔ قادریہ رضویہ عطاریہ کے نَویں پیرومرشدحضرتِ معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ تھے۔تَعارُف اور وِلادت
سلسلہ ٔ قادریہ رضویہ عطاریہ کے نویں پیرومرشد،عظیم تبعِ تابِعی بزرگ حضرت معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ کا نام: معروف،کُنْیت:ابومَحْفوظ ہے۔آپ بغداد شریف کے علاقے ’’کَرْخ‘‘ میں پیدا ہوئے اِسی وجہ سے آپ کو ’’ کَرْخی‘‘ کہاجاتاہے۔آپ تبعِ تابعی (1) بُزرگ اور امامِ اعظم امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمۃُ اللہ علیہ کے مُقلِّد تھے۔ ( مسالک السالکین ،1/287،286)قبولِ اسلام کا واقعہ
حضرتِ معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ کا خاندان پہلے غیرمسلم تھا ۔ اللہ پاک کی رحمت اورآپ کی بَرَکت سے سب دامنِ اسلام سے وابستہ ہوئے۔آپ کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ بڑادلچسپ اور حیرت اَنگیز ہے،آپ کے بھائی بیان کرتے ہیں کہ مَیں اور میرے بھائی حضرتِ معروف رحمۃُ اللہ علیہ پڑھنے جاتے تھے ۔ ہم اس وقت غیرمسلم تھے، ہمارا غیرمسلم اُستاد بچوں کو مَعَاذاللہ کُفرو شرک کا سبق دیتا تومیرے بھائی ’’معروف ‘‘بُلند آوا ز سےاَحَد،اَحَد(یعنی اللہ اکیلا ہے،وہ ایک ہے)کہتے تو غیرمسلم اُستاد انہیں خوب مارتا یہاں تک کہ ایک دن اُس نے انہیں اِتنا مارا کہ آپ کہیں تشریف لےگئے۔میری والدہ روتی اور کہتیں :اگر اللہ پاک نےمجھے’’ معروف ‘‘واپس عنایت فرما دیا تو وہ جس دین پرہوگا میں بھی اسی دین پر عمل کروں گی۔ کئی سال کے بعد حضرتِ معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ اپنی والد ہ کے پاس آئے تو والدہ نے پوچھا : بیٹا! تم کس دین پرہو ؟آپ نے ارشاد فرمایا: ’’دین ِاسلام پر‘‘ والدہ نے اَشْھَدُ اَنْ لّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہ پڑھا ۔اس طرح میری والدہ ٔ محترمہ اور ہم سب مسلمان ہوگئے ۔ (بحر الدموع،ص39) اللہ ربُّ العزَّت کی اُن سب پر رحمت ہو اور اُن کے صد قے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلّی اللہ علیهِ واٰلہٖ وسلّمشجرۂ قادریہ رضویہ عطاریہ میں ذکرِ خیر
امیرِاہلِ سنّت حضرت علامہ مولانا محمدالیاس عطّار قادری رضوی ضیائی دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ نے اپنے ہر مُرید و طالِب کو شجرۂ قادِرِیَّہ رَضَوِیَّہ عَطَّارِیَّہ عطافرمایا ہے،اُس میں سلسلۂ قادریہ رضویہ عطاریہ کے نَویں تبعِ تابعی بزرگ حضرت ِ معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ اور دسویں پیرومرشد حضرت ِ سَری سَقَطی رحمۃُ اللہ علیہ کے وسیلے سے یوں دُعا کی گئی ہے: بَہرِ مَعْروف و سَری معروف دے بےخُود سَری الفاظومعانی:بہر:واسطے۔معروف:بھلائی۔بےخُود سَری:عاجزی، فرمانبرداری۔دُعائیہ شعرکا مفہوم
یا اللہ پاک!مجھے حضرتِ معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ کے طُفیل نیکی اور بھلائی عطا فرما اورحضرتِ سَری سَقَطی رحمۃُ اللہ علیہ کا واسطہ مجھے عاجزی واِنکسار کا پیکر بنا۔ اٰمین بِجاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلّی اللہ علیهِ واٰلہٖ وسلّم صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدعَربی شجرہ
امامِ اہلِ سنّت،اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ نے ایک عربی شجرہ شریف، بَصیغہ ٔ دُرود شریف تحریر فرمایا ہے ،آپ اُس میں حضرتِ معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ کا ذکرِ خیر اس طرح کرتے ہیں:’’ اَللّٰهُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ بَارِكْ عَلَیْهِ وَ عَلَیْهِمْ وَ عَلَی الْمَوْلَی الشَّیْخِ مَعْرُوْفِ نِ الْکَرْخِیْ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْهُ “اے اللہ پاک تُو حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر رحمت و بَرَکت نازل فرما اورحضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے آل و اَصْحاب اور ہمارے سردار شیخ معروف کرخی رضی اللہ عنہ پر بھی۔ (تاریخ و شرح شجرۂ قادریہ برکاتیہ رضویہ ،ص 154)غیرمسلم گھرانے کا قبولِ اسلام
حضرت عامر بن عبدُ اللہ کرخی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرے پڑوس میں ایک غیرمسلم رہا کرتا تھا۔ ایک دن وہ میرے پاس آکرکہنے لگا:اےابوعامر!پڑوسی ہونے کی حیثیّت سے میرا آپ پر حق ہے،میں آپ کو رات اور دن کےپیداکرنے والےکا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ مجھے اللہ پاک کے کسی ولی کے پاس لے چلئے تاکہ وہ میرے لئے بیٹے کی دعا کرے۔ میرے دل میں بیٹے کی بہت خواہش ہے ،میں اس کو ساتھ لے کر حضرتِ معروف کرخی رحمۃاللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اورسارامعاملہ عرض کیا۔ آپ نے اُسے اسلام کی دعوت دی تووہ کہنے لگا:اے معروف! اللہ پاک جب تک مجھے ہدایت نہ دے تب تک آپ مجھے ہدایت نہیں دے سکتے، میں آپ کے پاس صرف دعاکے لئے حاضر ہوا ہوں ۔آپ رحمۃُ اللہ علیہ نے کچھ اس طرح دعاکی: یااللہ پاک! اِسے ایسا بیٹاعطا فرما جو والدین کے ساتھ حُسنِ سُلوک کرے اوروہ دونوں اس کے ہاتھ پر مسلمان ہو جائیں۔ اللہ پاک نے اپنے مقبول بندے کی دعا قبول فرمائی اوراس غیرمسلم کو ایک ایسا بیٹا عطا فرمایا جو اپنی ذہانت کے سبب اپنے وقت کے تمام بچوں سے آگے بڑھ گیا۔جب وہ کچھ بڑا ہوا تو اُس کا باپ اُسے اپنے دین کی تعلیم دلانے کے لئے چھوڑآیا۔اُس کے غیرمسلم اُستاد نے اُسے ہاتھ میں تختی پکڑا کر ابھی ’’بولو‘‘ ہی کہا تھا تو وہ بچہ کہنے لگا: میری زبان غیر ِ خُدا کو خدا بولنےسےروک دی گئی اور میرادل میرے ربِّ کریم کی مَحبّت میں مصروف ہے۔اس کے بعد بچے نے ایسی خوبصورت اور اللہ پاک کی پہچان کی گہری باتیں کیں جنہیں سُن کر استاد حیران رہ گیااور اُس کا دل زندہ ہو گیا۔اُس نے جان لیاکہ دینِ اسلام ہی سچّا دین ہے۔ اِس کے بعد بچے نے چند اَشْعار پڑھے، جن کا مفہوم کچھ یوں ہے:کیاوہی سچّا نہیں جو رُلاتا ،ہنساتا ، زندگی اور موت دیتا ،مخلوق کے لئے کھیتی اُگاتا ہے؟ یقیناً وہی عبادت کےلائق ہے لہٰذاجو اس کا دروازہ چھوڑ کر کسی دوسرےکے دروازے پرجاتا ہے وہ نقصان اُٹھاتاہے ،وہ اپنے بندے کو گناہ کرتے ہوئے دیکھتاہے پھر بھی اس کی پَرْدہ پوشی فرماتا(یعنی گُناہوں کو چُھپاتا)ہے اور اپنے بندے کو بِن مانگے عطا کرتا ہے۔ وہ گنہگاروں سے بخشش کامعاملہ کرتاہے۔ جب غیرمسلم استادنے بچے کا یہ ایمان اَفْروز کلام سُنا تواُس کے ہوش اُڑگئے اور اس نے دل ہی دل میں کلمۂ شہادت” اَشْھَدُ اَنْ لَّا ۤ اِلٰہَ اِلَّا اللہ وَاَشْھَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللہ “ پڑھا۔ پھر بچے کواُس کے باپ کے پاس لایا۔ جب باپ نے دونوں کو آتے دیکھاتو خوش ہوکر استاد سےپوچھا: آپ نےمیرے بچے کوکیسا ذہین پایا؟ پھر اس نے ساری گفتگوبچے کے باپ کو بتائی ۔ باپ بولا: خدا کی قسم !میرا بیٹا حضرتِ معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ کی دُعا کی بَرَکت سے ہی اس مقام و مرتبے تک پہنچا ہے۔میں گواہی دیتاہوں کہ اللہ پاک کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اُس کے سچے رسول ہیں۔اس کے بعد بچے کی ماں اور تمام گھروالے اسلام لے آئے ۔ ( الروض الفائق ،ص 186ملتقطاً) دُعائے ولی میں یہ تاثیر دیکھی بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدشانِ معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ
حضرتِ ابومحفوظ معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ نے چراغِ اہلِ بیتِ نُبُوَّت،حضرت امام علی رضا رحمۃُ اللہ علیہ سے خوب علمِ دین حاصل کیا ۔آپ اپنے وقت کے بہت بڑے اولیائے کِرام میں سے تھے۔ حضرت ِعبدُ الوہّاب رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں میں نے حضرتِ معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ سے بڑا زاہِد (یعنی دُنیا سے بے رغبت)کوئی نہیں دیکھا۔ (تاریخ بغداد،13/208)پانی پر چلتے اور ہوا میں اُڑتے
حضرتِ ابنِ مَرْدَوَیْہ رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرتِ معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ کی صُحبت میں بیٹھے ہوئے تھے، اس دن میں نے آپ رحمۃُ اللہ علیہ کا چہرہ مبارک کِھلاہوا دیکھ کر عرض کی:اے اَبو محفوظ! مجھے پتا چلا ہے کہ آپ پانی پر چلتے ہیں؟تو آپ نے ارشاد فرمایا: میں کبھی پانی پر نہیں چلابلکہ جب میں پانی کو پار کرنے کا ارادہ کرتاہوں تو اس کی دونوں طرفیں (Sides)آپس میں مِل جاتی ہیں اورمیں اُس پر قدم رکھ کر چلنے لگ جاتا ہوں۔ حضرت حَسَن بن عَبدُ الوہّاب رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: لوگ کہتے ہیں کہ حضرت معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ پانی پر چلتے ہیں اگر مجھے کہاجائے کہ آپ ہَوا میں اُڑتے ہیں تو میں اس بات کی بھی تصدیق کروں گا۔ ( الروض الفائق ،ص183) بارگاہِ معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ میں اعلیٰ حضرت اما م احمدرضاخان رحمۃُ اللہ علیہ فارسی شعر میں عرض کرتے ہیں : یا شہِ مَعروف ما را رہ سوئے معروف دِہ ترجمہ: اے حضرتِ معروف کرخی (اے نیکیوں کے بادشاہ)!ہمیں نیکی کی طرف راہ دے!مقامِ معروف اور عُلوم کی اصل
کروڑوں حَنبلیوں کےعظیم پیشوا،حضرت ِامام احمد بن حَنبل اور بہت بڑے محدّث حضرت ِ یحییٰ بن مَعِین رحمۃُ اللہ علیہم ا اکثر حضرت ِ معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ کےپاس تشریف لاکر مسائل معلوم کیا کرتے،حضرت سیِّدُنا امام احمد بن حَنبَل رحمۃُ اللہ علیہ کے بیٹےحضرتِ عبدُ اللہ رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والدِ محترم سے عرض کی: مجھے پتا چلا ہے کہ آپ حضرتِ معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ کے پاس جایا کرتے تھے، کیااُن کے پاس علمِ حدیث تھا؟تو آپ رحمۃُ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: اے میرے لختِ جگر! ان کے پاس معاملے کی اَصل یعنی اللہ پاک کا تقویٰ (یعنی اللہ پاک کا ڈر)تھا۔ ( قوت القلوب ،1/263)سجدۂ سَہْوْ کا معاملہ
کروڑوں حَنبلیوں کے عظیم پیشوا،حضرت ِامام احمد بن حَنبَل اور بہت بڑے محدّث حضرت ِ یحییٰ بن مَعِین رحمۃُ اللہ علیہم ا ایک مرتبہ حضرت معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ کے پاس تشریف لائے ۔حضرتِ یحییٰ بن مَعِین رحمۃُ اللہ علیہ نے فرمایا:میں ان سے’’ سجدۂ سَہْو ‘‘کے متعلق پوچھنا چاہتاہوں۔امام احمد بن حنبل رحمۃُ اللہ علیہ نےاِنہیں خاموش رہنے کا فرمایالیکن وہ خاموش نہ رہے اور عر ض کی :اے ابومحفوظ!آپ سجدۂ سَہْو کےمتعلق کیا فرماتے ہیں؟ حضرتِ معروف کرخی رحمۃُ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا:یہ دل کے لئے سزا ہے کہ وہ نماز سے غافل ہو کر دوسری طرف کیوں مُتوجہ ہُوا۔ یہ سُن کرحضرت سیِّدُنااحمد بن حنبل رحمۃُ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا: یہ بات آپ کی ذَہانَت پر دلالت کرتی ہے۔ (تاریخ بغداد ،13/202،201)
1 … تابِعی سے مراد وہ شخص ہے جس نے صحابی سے بحالتِ ایمان ملاقات کی اور اس کا خاتمہ بھی ایمان پر ہوا اور تبعِ تابعی سے مراد وہ شخص ہے جس نے تابعی سے بحالتِ ایمان ملاقات کی اور اس کا خاتمہ بھی ایمان پر ہوا ۔ (معجم لغۃ الفقہاء، ص 117)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع