30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلیٰ سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْ ذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمْ ؕ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ؕفیضانِ مِعْرَاج
دُرُود شریف کی فضیلت
سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار، دو عالَم کے مالِک ومختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : جمعہ کے دن مجھ پر کثرت سے دُرُود بھیجو کیونکہ یہ حاضِری کا دن ہے، اس میں فِرِشتے حاضِر ہوتے ہیں۔ جو کوئی بھی مجھ پر دُرُود بھیجتا ہے اُس کا دُرُود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے جب تک کہ وہ دُرُود پڑھتا رہتا ہے۔ حضرتِ ابودرداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ نے عرض کیا : کیا وِصال شریف کے بعد بھی؟ ارشاد فرمایا : ہاں! وصال کے بعد بھی، بےشک اللہ تَعَالٰی نے زمین پر انبیائے کِرَام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے جسموں کو کھانا حرام فرما دیا ہے لہٰذا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے نبی زندہ ہیں، اُنہیں رِزْق دیا جاتا ہے۔“ (1) صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اہل اِسْلام کا عقیدہ ہے کہ تمام انبیائے کِرَام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنی اپنی قبروں میں اُسی طرح بحیاتِ حقیقی زندہ ہیں جیسے دنیا میں تھے۔(2) اُوپر بَیَان کی گئی رِوَایَت سے بھی یہی ظاہِر ہوتا ہے۔ سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ! تمام انبیائے کِرَام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی یہ شان ہے تو سب نبیوں کے سردار، محبوبِ پَروَردگار، حُضُور احمدِ مجتبیٰ، محمد مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شان کا عالَم کیا ہو گا...؟ یقیناً آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آج بھی حَیَات ہیں اور اپنے غُلاموں کی دَسْت گِیْری و مشکل کشائی فرماتے ہیں، مگر ہماری کم بِین (کمزور) نِگاہیں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دیکھنے سے قاصِر ہیں۔ سیِّدی اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃ ُالرَّحْمٰن کیا خوب فرماتے ہیں : ؏تو زِندہ ہے وَاللہ! تو زِندہ ہے وَاللہ! مِرے چشم عالَم سے چُھپ جانے والے(3)معجزۂ معراج اور زمانے کے حالات
جب سے پیارے آقا، میٹھے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اپنی نبوت ورِسالت کا اِعْلان فرمایا تھا اور لوگوں کو خُدائے واحِد عَزَّ وَجَلَّ کی عِبادت کی طرف بُلانا شروع فرمایا تھا تب سے شرک وکفر کی فضاؤں میں پَروان چڑھنے والے لوگ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی جان کے دشمن ہو گئے تھے۔ حالانکہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مُبَارَک حَیَات کے ہر ہر باب کا ہرہر وَرَق اُن کے سامنے تھا جو شبنم سے زیادہ پاکیزہ، پُھول سے زیادہ شگفتہ، آفتاب وماہتاب سے زیادہ روشن وچمک دَار اور ظاہِری باطِنی ہر قسم کے عیب وبُرائی سے پاک تھا، اس کے باوُجود وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو جھٹلانے لگے، نبوت کی روشن نِشانیاں دیکھ کرجب لاجواب ہو جاتے اور کچھ بن نہیں پڑتا تو انہیں سحر وجادوگری قرار دے دیتے۔ ظالموں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی راہ میں کانٹے بچھائے، جسم نازنین پر پتھر برسائے، تکالیف ومَصَائِب کے پہاڑ توڑ ڈالے اور طعن وتشنیع کا بازار خُوب گرم کیا، ان تمام مَظَالم میں اُس وقت اور اِضافہ ہو گیا جب اِعْلانِ نبوت کے دسویں سال آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچا ابوطالِب اور اس کے کچھ روز بعد اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا انتقال ہوا۔ رحمتِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان تمام رکاوٹوں کے باوجود دعوتِ اِسْلام کو موقوف (ترک) نہ فرمایا اور لوگوں کو کفر وشرک سے روکتے رہے۔ اس نازک دَور میں جو کوئی بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دعوتِ حق کو قبول کر کے مُشَرَّف بَہ اِسْلام ہوتا، کُفّار کے جَور وسِتَم کا نِشانہ بن جاتا۔ بہرحال وقت رفتہ رفتہ گزرتا گیا اور ہمیشہ کی طرح یہ سال بھی اپنے اختتام کو پہنچا، پھر گیارہواں سال شروع ہوتا ہے، اس میں بھی طعن وتشنیع اور جَور وسِتَم کا بازار اُسی طرح گرم ہے اور پیارے ومحبوب آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تمام تَر رُکاوٹوں، پریشانیوں اور مصیبتوں کے باوُجود اِعْلَائے کلمۃ الحق (حق کی سربلندی) کے لئے مصروفِ عمل ہیں، کرتے کرتے رَجَب کا مبارک مہینہ آ جاتا ہے اور جب اس کی ستائیسویں شب ہوتی ہے تو اس مبارک رات میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے محبوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو وہ شَرَف عطا فرماتا ہے کہ نہ کسی کو مِلا نہ ملے۔ یہ وہ حیرت انگیز واقعہ تھا کہ سننے والے دَنگ رہ جاتے ہیں، عقل کو دولتِ کُل سمجھنےوالوں کے کفر واِنکار میں اِضافہ ہوتا ہے جبکہ کامِلُ الْاِیمان خُوش نصیبوں کا ایمان اور بڑھ جاتا ہے۔ میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس حیرت انگیز واقِعے کو مِعْرَاج کہا جاتا ہے، قرآنِ کریم میں اللہ رَبُّ الْعِزّت عَزَّ وَجَلَّ اس کا مختصر ذِکْر کرتے ہوئے اِرشاد فرماتا ہے : سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ(۱) (پ١٥، بنى اسرائيل : ١) ترجمهٔ کنزالایمان : پاکی ہے اسے جو راتوں رات اپنے بندے کو لے گیا مسجدِ حرام (خانہ کعبہ) سے مسجدِ اقصا (بیت المقدس) تک جس کے گردا گرد ہم نے بَرَکت رکھی کہ ہم اسے اپنی عَظِیم نِشانیاں دِکھائیں بے شک وہ سنتا دیکھتا ہے۔ آئیے! اب اس کا تفصیلی بیان مُلاحظہ کیجئے، چنانچہواقِعهٔ مِعْرَاج کا بَیَان
بعثت کے گیارہویں سال، ہجرت سے دو۲ سال پہلے، 27 رَجَبُ المرجَّب، پیر شریف کی سُہانی اور نُور بھری رات ہے اور پیکرِ انوار، تمام نبیوں کے سردار، مدینے کے تاجدار، دو عالَم کے مالِک ومختار، شہنشاہِ اَبرار، محبوب ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیۡہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نمازِ عشا ادا فرمانے کے بعد اپنی چچا زاد بہن حضرتِ اُمِّ ہانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے گھر آرام فرما ہیں کہ دولت خانۂ اقدس کی مُبَارَک چھت كھلی، حضرتِ جبرائیل عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نیچے حاضِرہوئے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حضرتِ اُمِّ ہانی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے گھر سے مسجِدِ حرام میں لا کر حطیم کعبہ میں لِٹا دیا۔(4)شَقِّ صَدْر
ابھی پیارے آقا، مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم یہیں (حطیم کعبہ میں) کروٹ کے بَل لیٹے ہوئے تھے اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر اُونگھ کا اثر باقی تھا کہ حضرتِ جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام پِھر حاضِر ہوئے، اس بار انہوں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سینۂ پاک کو ہنسلی کی ہڈی سے لے کر پیٹ کے نیچے تک چاک کیا اور قلبِ اطہر کو باہَر نِکال لیا۔ پھر ایمان وحکمت سے بھرا سونے کا ایک طشت (تھال) لایا گیا، حضرتِ جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قلبِ اطہر کو آبِ زَم زَم سے غسل دیا اور پھر ایمان وحکمت سے بھر کر واپس اُس کی جگہ رکھ دیا۔ (5)بُراق کی سواری
اس کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہِ اقدس میں سواری کے لئے گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ایک سفید جانور حاضِر کیا گیا، جسے بُراق کہا جاتا ہے۔ اس پر زِین کَسی ہوئی تھی، لگام پڑی ہوئی تھی اور اس کی رفتار کا عالَم یہ تھا کہ تاحَدِّ نِگاہ (جہاں تک نظر پہنچتی وہاں) اپنا قدم رکھتا، بلندی پر چڑھتے ہوئے اس کے ہاتھ چھوٹے اور پاؤں لمبے ہو جاتے اور نیچے اترتے ہوئے ہاتھ لمبے اور پاؤں چھوٹے ہو جاتے جس کی وجہ سے دونوں صورتوں میں اس کی پیٹھ برابر رہتی اور سوار کو کسی قسم کی مشقت کا سامنا نہ ہوتا۔(6) سرورِ کائنات، شہنشاہِ موجودات، محبوبِ ربُّ الْاَرْضِ وَالسَّمٰوٰت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جب اُس پر سوار ہونے کا ارادہ فرمایا اور اُس کے قریب تشریف لائے تو اُس نے خُوشی سے پُھولے نہ سَماتے ہوئے اُچھل کود شروع کر دی۔ یہ دیکھ کر حضرتِ جبرائیل عَلَیہِ الصّلوٰۃُ وَالسّلام نے اپنا ہاتھ اس کی گردن کے بالوں کی جگہ پر رکھا اور فرمایا : اے بُراق! تجھے حَیَا نہیں آتی؟ خُدائے ذُوالجلال کی قسم! حُضُور محمدِ مصطفےٰ، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے زیادہ عزت وکرامت والی کوئی ہستی تجھ پر سوار نہیں ہوئی۔ یہ سن کر بُراق حَیَا کے مارے پسینے پسینے ہو گیا اور اُچھل کود ختم کر کے پُرسُکون ہو گیا۔(7)بیت المقدس کی طرف روانگی
پھر سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بُراق پر سوار ہوئے اور اس شان سے بیت المقدس کی طرف روانہ ہوئے جیسا کہ حضرتِ سیِّدُنا علّامہ بوصیری رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں : ؏ سَرَیْتَ مِنْ حَرَمٍ لَیْلًا اِلٰی حَرَمٍ کَمَا سَرَی الْبَدْرُ فِیْ دَاجٍ مِّنَ الظُّلُمِ(8) یعنی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مِعْراج کی شب حرمِ کعبہ سے حرمِ بیت المقدس تک اس شان سے سفر کیا جیسے چودھویں رات کا چاند سخت تاریک رات کے اندھیروں میں نور بکھیرتا ہوا چلتا ہے۔ اس نورانی سفر میں فِرِشتوں کے سردار حضرتِ سیِّدُنا جبریل امین عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بھی آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ تھے۔(9)تین مقامات پر نماز
دورانِ سفر ایک مقام پر حضرتِ جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نے رحمتِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اتر کر نماز پڑھنے کے لئے کہا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نماز ادا فرمائی۔ حضرتِ جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کیا : آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مَعْلوم ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کس جگہ نماز پڑھی ہے؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے طیبہ (یعنی مدینہ شریف) میں نماز پڑھی ہے، اسی کی طرف ہجرت ہو گی۔ پھر ایک اور مقام پر حضرتِ جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اتر کر نماز پڑھنے کے لئے کہا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نماز ادا فرمائی۔ حضرتِ جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام عرض گُزَار ہوئے : آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مَعْلوم ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے طُورِ سِیْنا(10) پر نماز پڑھی ہے جہاں اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو ہَم کلامی کا شَرَف عطا فرمایا تھا۔ پھر ایک اور جگہ حضرتِ جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو اتر کر نماز پڑھنے کے لئے کہا۔ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نماز ادا فرمائی۔ اس کے بعد حضرتِ جبرائیل عَلَیْہِ السَّلَام نے عرض کیا : آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مَعْلوم ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بَیْتِ لَحْم(11) میں نماز پڑھی ہے جہاں حضرتِ عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وِلادت ہوئی تھی۔(12)
1 سنن ابن ماجه، كتاب الجنائز، باب ذكر وفاته الخ، ص ۲۶۳ ، الحديث : ۱۶۳۷. 2 بہارِ شریعت، حصہ اوّل، عقائد متعلقہ نبوت، ۱/ ۵۸. 3 حدائِقِ بخشش، حصہ اوّل، ص۱۵۸. 4 مراٰۃ المناجیح، معراج کا بیان، پہلی فصل، ۸/ ۱۳۵. والسیرة النبوية لابن هشام، ذكر الاسراء والمعراج، ۲/ ۳۸. فتح البارى، كتاب مناقب الانصار، باب المعراج، ۷/ ۲۰۶، تحت الحديث : ۳۸۸۷ 5 صحيح البخارى، كتاب مناقب الانصار، باب المعراج، ص۹۷۶ ، الحديث : ۳۸۸۷ فتح البارى، كتاب مناقب الانصار، باب المعراج، ۲۰۶، تحت الحديث : ۳۸۸۷ 6 صحيح البخارى، كتاب مناقب الانصار، باب المعراج، ص۹۷۶ ، الحديث : ۳۸۸۷. وسنن الترمذى، كتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة بنى اسرائيل، ص٧٢٣، الحديث : ۳۱۳۱ المعجم الاوسط للطبرانى، ۳/ ۶۵، الحديث : ۲۸۷۹٣، ملخصًا. شرح الزرقانى على المواهب، المقصد الخامس فى تخصيصه صلى الله عليه وسلم الخ، ۸/ ۷۵. 2 السيرة النبوية لابن هشام، ذكر الاسراء والمعراج، المجلد الاول، ۲/ ۳۶. وسنن الترمذى، كتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة بنى اسرائيل، ص ۷۲۳، الحديث : ۳۱۳ 8 قصيدة البردة مع شرحها عصيدة الشهدة، الفصل العاشر فى معراج الخ، ص۲۳۷. 9 صحيح البخارى، كتاب مناقب الانصار، باب المعراج، ص٩٧٦، الحديث:۳۸۸۷. 10 طُور سے مُراد وہ پہاڑ ہے جو مصر اور اَیلہ کے درمیان واقع ہے، جس پر حضرتِ موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام كو اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ہم کلامی کا شرف مِلا تھا، اور سِیْنا کے بارے میں حضرتِ عکرمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کا قول ہے کہ یہ اُس جگہ کا نام ہے جہاں طور پہاڑ واقِع ہے۔ (تفسير المظهرى، سورة التين، تحت الآية : ۲، ۱۰/۲۷۳ ، ملتقطًا) 11 یہ جگہ بیت المقدس سے جانِبِ جُنُوب چھ۶ میل کے فاصلے پر واقِع ہے۔ (صورة الارض، القسم الاول، الشام، ص١٥٨) 12 سنن النسائی، كتاب الصلوة، باب فرض الصلوة الخ، ص۸۱، الحديث : ۴۴۸، بتغیر قلیل
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع