30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِ اللّٰہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللّٰہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمالمدینۃ العلمیۃ
(از شیخ طریقت، امیر اہلسنّت ،بانی دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطاؔر قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ) اَ لْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی اِحْسَا نِہٖ وَبِفَضْلِ رَسُوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم عاشقانِ رسول کی مَدَنی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘ نیکی کی دعوت، اِحیائے سنّت اور اشاعتِ علمِ شریعت کو دنیا بھر میں عام کرنے کا عزمِ مُصمّم رکھتی ہے، اِن تمام اُمور کو بحسنِ خوبی سر انجام دینے کے لئے متعدد مجالس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں سے ایک’’ المدینۃ العلمیۃ ‘‘بھی ہے جو دعوتِ اسلامی کے عُلماء و مُفتیانِ کرام کَثَّرھُمُ اللّٰہ تَعَالٰی پر مشتمل ہے، جس نے خالص علمی، تحقیقی او راشاعتی کام کا بیڑا اٹھایا ہے، اِس کے مندرجہ ذیل چھ شعبے(1) ہیں: (1)شعبہ ٔکتُبِ اعلیٰ حضرت (2)شعبہ ٔ درسی کُتُب (3)شعبہ ٔ اصلاحی کُتُب (4)شعبہ ٔ تراجمِ کتب (6)شعبہ ٔ تفتیشِ کُتُب (6)شعبہ ٔ تخریج ’’ المدینۃ العلمیۃ ‘‘کی اوّلین ترجیح سرکارِ اعلی حضرت اِمامِ اَہلسنّت،عظیم البَرَکت، عظیم المرتبت، پروانۂ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین و مِلَّت، حامی سنّت، ماحی بِدعت، عالم شریعت، پیرطریقت، باعثِ خیر و بَرَکت، حضرتِ علامہ مولانا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی گِراں مایہ تصانیف کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق حتَّی الْوَسْعْ سَہْل اُسلُوب میں پیش کرنا ہے۔ تمام اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اِس عِلمی،تحقیقی اور اِشاعتی مدنی کام میں ہر ممکن تعاون فرمائیں اور مجلس کی طرف سے شائع ہونے والی کُتب کا خود بھی مطالَعہ فرمائیں اور دوسروں کو بھی اِس کی ترغیب دلائیں۔ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی تمام مجالس بَشُمُول ’’ المدینۃ العلمیۃ ‘‘کو دن گیارہویں اور رات بارہویں ترقّی عطا فرمائے اور ہمارے ہر عملِ خیر کو زیورِ اِخلاص سے آراستہ فرما کر دونوں جہاں کی بھلائی کا سبب بنائے۔ ہمیں زیرِ گنبدِخضراء شہادت، جنّت البقیع میں مدفن اور جنّت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم رمضان المبارک۱۴۲۵ھپیش لفظ
اِمَام اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ الْقَوِی وہ عظیم بزرگ ہیں جنہوں نے حضور نبی رحمت شفیعِ اُمَّت صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اَفعال واَقوال کو اپنی مایہ ناز ومشہورِ زمانہ تصنیف’’ریاض الصالحین‘‘میں نہایت ہی اَحسن انداز سے پیش کیا ہے۔اس کتاب میں کہیں مُنْجِیَات (یعنی نجات دلانے والے اَعمال) مثلاً اِخلاص، صبر، اِیثار، توبہ، توکُّل، قناعت، بُردْباری، صلہ ٔ رحمی،خوفِ خدا، یقین اورتقویٰ وغیرہ کا بیان ہے تو کہیں مُہلِکات (یعنی ہلاک کرنے والے اَعمال)مثلاً جھوٹ ، غیبت، چغلی وغیرہ کا بیان۔ یہ کتاب راہِ حق کے سَالِکِیْن کے لئے مَشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ احادیث کی اس عظیم کتاب کی اسی افا دِیت کے پیشِ نظر تبلیغِ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی مجلس المدینۃ العلمیۃ نے اس کے ترجمے وشرح کا بیڑا اُٹھایا تاکہ عوام وخواص اس نہایت ہی قیمتی علمی خزانے سے مالا مال ہو سکیں، چنانچہ مجلس المدینۃ العلمیۃ نے یہ عظیم کام’’شعبہ ٔفیضانِ حدیث‘‘ کو سونپا۔ اس شعبے کے اسلامی بھائیوں نے خالقِ کائنات پر بھروسہ کر کے فی الفور کام شروع کردیا، بِحَمْدِ اللّٰہ تَعَالٰی قلیل عرصے میں اِس کی پہلی جلد مکمل ہوکر زیور طبع سے آراستہ ہوگئی۔ریاض الصالحین کے اس ترجمے وشرح کا نام شیخِ طریقت امیرِ اہلسنت بانی دعوت اسلامی حضرت علامہ ومولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے ’’ اَنْوَارُ الْمُتَّقِیْن شَرْحُ رِیَاضِ الصَّالِحِیْن المعروف فیضانِ ریاض الصالحین‘‘رکھاہے۔’’فیضانِ ریاض الصالحین‘‘ (جلدپنجم)آپ کے ہاتھوں میں ہےجو30اَبواب اور198اَحادیث پرمشتمل ہے، واضح رہے کہ اَبواب اور اَحادیث کی نمبرنگ ترتیب وارپچھلی جلدوں کے اعتبار سے کی گئی ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہعَزَّ وَجَلَّ اس جلد پر المدینۃ العلمیۃ کے شعبۂ فیضان حدیث کے بالخصوص ان مدنی علمائے کرام کَثَّرَ ھُمُ اللّٰہ السَّلَام نے خوب خوشش کی: (1)سیدابوطلحہ محمد سجاد عطاری مدنی (2)سیدمنیررضا عطاری مدنی (3) ملک محمد علی رضا عطاری مدنی (4)محمد جان رضا عطاری مدنی (5)عبدالعزیز عطاری مدنی (6)ابوالجوادسراج احمد سَلَّمَہُمُ اللّٰہ الْغَنِی ۔ ’’فیضانِ ریاض الصالحین ‘‘(جلدپنجم)پرکام کی تفصیل درج ذیل ہے: (1)ہرباب کے شروع میں تمہیدونئے صفحے سے ابتداء، تمام ابواب، آیات، احادیث کی نمبرنگ، آیات کی سافٹ ویئر سے پیسٹنگ وحتی المقدور ترجمہ ٔکنزالایمان کا التزام کیا گیا ہے۔(2)اَحادیث کی آسان شرح،بعض اَحادیث کی باب کے ساتھ مطابقت، بامحاورہ ترجمہ، موقع کی مناسبت سے شرح میں ترغیبی وترہیبی و دعائیہ کلمات اور بعض جگہ مختلف الفاظ کے معانی بھی دیے گئے ہیں۔(3)مکرراحادیث میں مناسبت والے مواد کو تفصیلاً اور دیگرمواد کو اجمالاً بیان کرکے پچھلے باب یا جلد کی تفصیلی شرح کی طرف نشاندہی کردی گئی ہے۔(4)احادیث کی شرح کے بعد آخر میں مدنی گلدستے کی صورت میں اُن کا خلاصہ،اصل ماخذ تک پہنچنے کے لیے آیات، اَحادیث و دیگر مواد کی مکمل تخریج بھی کردی گئی ہے۔(5)اجمالی وتفصیلی فہرست کے ساتھ آخر میں ماخذومراجع بھی دیے گئے ہیں، نیزکئی بار پروف ریڈنگ کے ساتھ ساتھ مفتیان کرام سے اس کی شرعی تفتیش بھی کروائی گئی ہے۔(6)واضح رہے کہ فیضانِ ریاض الصالحین جلدپنجم میں بھی عمومی طور پر سابقہ جلدوں کے مدنی پھولوں کے مطابق ہی کام کیا گیا ہے البتہ اِختصار کے پیش نظر بعض جگہ مکررات کو حذف کردیا گیاہے۔بعض اَبواب میں چنداَحادیث کی ایک ساتھ شرح بھی بیان کی گئی ہے۔نیزفارمیشن میں بھی اِس بات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے کہ کم سے کم صفحات میں زیادہ سے زیادہ مواد آجائے۔اِن تمام کوششوں کے باوجود اِس کتاب میں جو بھی خوبیاں ہیں وہ یقیناً اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ کے فضل وکرم اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عطا،اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللّٰہ السَّلَام کی عنایت اور امیرِ اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی پُرخلوص دعاؤں کا نتیجہ ہیں اورجو بھی خامیاں ہوں ان میں ہماری کوتاہ فہمی کادخل ہے۔پوری کوشش کی گئی ہے کہ یہ کتاب خوب سے خوب تر ہو لیکن پھر بھی غلطی کااِمکان باقی ہے، اہل ِعلم حضرات سے درخواست ہے کہ اپنے مفید مشوروں اور قیمتی آراء سے ہماری حوصلہ اَفزائی فرمائیں اور اِس کتاب میں جہاں کہیں غلطی پائیں ہمیں تحریری طور پر ضرور آگاہ فرمائیں۔ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ہماری اِس کاوِش کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور اِسے ہماری بخشش ونجات کا ذریعہ بنائے ۔ آمین شعبہ ٔفیضانِ حد یث،مجلس المد ینۃ العلمیۃ صفرالمظفر۱۴۴۰ہجری بمطابق اکتوبر2018عیسویباب نمبر: 56 بُھوک اور ترکِ خواہِشَات کی فضیلت کا بیان
بھوک،سادہ زندگی،کھانے، پینے، پہننے اور دیگر مرغوب چیزوں میں کمی پر اکتفا کرنے اورترکِ خواہشات کی فضیلت کا بیان میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!نفس ایک بے لگام گھوڑے کی طرح ہے کہ جس طرح وہ بے قابو ہو کر بغیرکسی مخصوص سمت کے مسلسل بھاگتا چلا جاتا ہے رُکنے کا نام ہی نہیں لیتا، ویسے ہی یہ نفس بھی بے قابو ہو جاتا اورجائز وناجائز کی پرواہ کیے بغیر خواہشات کے پیچھے دوڑتا ہی چلا جاتا ہے،اسی وجہ سے شریعت مطہرہ نے نہ صرف ناجائز خواہشات پرعمل کی ممانعت فرمائی ہے بلکہ جائز خواہشات کو ترک کرنے کی فضیلت بھی بیان فرمائی ہے۔سادگی میں عظمت ہے، لہٰذا بندے کو چاہیے کہ سادہ زندگی گزارے، کھانے، پینے اور پہننے میں اِعتدال سے نہ بڑھے، جائز خواہشات کو بھی ترک کرنے کی کوشش کرے۔ریاض الصالحین کایہ باب بھی ”بھوک،سادہ زندگی،کھانے، پینے، پہننے اور دیگر مرغوب چیزوں میں کمی پر اکتفا کرنے اورترکِ خواہشات کی فضیلت“کے بارے میں ہے۔ اِمَام اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ الْقَوِی نےاس باب میں 4 آیاتِ مقدسہ اور31 اَحادیثِ مبارکہ بیان فرمائی ہیں۔پہلے آیات اور اُن کی تفسیر ملاحظہ فرمائیے۔(1)نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے کا عذاب
فرمانِ باری تعالیٰ ہے: فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّاۙ(۵۹)اِلَّا مَنْ تَابَ وَ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًا فَاُولٰٓىٕكَ یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ شَیْــٴًـاۙ(۶۰) ( پ ۱۶ ، مریم: ۵۹ ، ۶۰) ترجمۂ کنزالایمان:تو اُن کے بعد ان کی جگہ وہ ناخلف آئے جنھوں نے نمازیں گنوائیں(ضائع کیں)اور اپنی خواہشوں کے پیچھے ہوئے تو عنقریب وہ دوزخ میں غیّ کا جنگل پائیں گے مگر جو تائب ہوئے اور ایمان لائےاور اچھے کام کئے تو یہ لوگ جنت میں جائیں گے اور انھیں کچھ نقصان نہ دیا جائے گا۔ تفسیر طبری میں ہے :”پس جن لوگوں نے گناہ کئے اپنی نمازیں ضائع کیں اور نفسانی خواہشات کے پیچھے چلے وہ ” غَیّ “ نامی وادی میں ڈالے جائیں گے،مگرجنہوں نے توبہ کی، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت کی، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر ایمان لائے، نیک اعمال کئے، اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کاحکم مانا، فرائض وواجبات کی ادائیگی کی اور حرام کاموں سے اجتناب کیا تو وہ لوگ جنت میں داخل ہونگے ۔“(2)(2) ثواب مال سے بہتر ہے
فرمانِ باری تعالیٰ ہے: فَخَرَ جَ عَلٰى قَوْمِهٖ فِیْ زِیْنَتِهٖؕ-قَالَ الَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ الْحَیٰوةَ الدُّنْیَا یٰلَیْتَ لَنَا مِثْلَ مَاۤ اُوْتِیَ قَارُوْنُۙ-اِنَّهٗ لَذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ(۷۹) وَ قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْلَكُمْ ثَوَابُ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَ عَمِلَ صَالِحًاۚ- ( پ ۲۰ ،القصص: ۷۹ ، ۸۰) ترجمۂ کنزالایمان:تو اپنی قوم پر نکلا اپنی آرائش میں بولے وہ جو دنیا کی زندگی چاہتے ہیں کسی طرح ہم کو بھی ایسا ملتا جیسا قارون کو ملا بے شک اس کا بڑا نصیب ہے اور بولے وہ جنھیں علم دیا گیا خرابی ہو تمہاری اللّٰہ کا ثواب بہتر ہےاس کے لیے جو ایمان لائے اور اچھے کام کرے۔ اس آیت مبارکہ میں قارون کا ذکر ہے،اسے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے کثیر دولت عطا فرمائی تھی،ایک دن وہ بڑی شان و شوکت سے بنی اسرائیل کے پاس سے گزرا،اسے دیکھ کر کچھ لوگ تمنا کرنے لگے کہ کاش ہمیں بھی ایسی ہی دولت ملی ہوتی، اس پر علمائے بنی اسرائیل نے انہیں سمجھاتے ہوئے کہا: ”لوگو!یہ دنیا فانی ہے، اس سے بہتر وہ ثواب ہے جو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ملنےوالا ہے۔‘‘چنانچہ اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اِمَام فَخْرُ الدِّیْن رَازِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ الْھَادِی فرماتے ہیں:”قارون ایک سفید خچر پر سوار تھا جس پر سونے کی زِین تھی اور اس کے ساتھ سرخ لباس میں ملبوس چار ہزار گھڑسوار اورتین سو سفید رنگت والی کنیزیں تھیں جو زیورات پہنے اور سرخ رنگ کے کپڑوں میں سفید خچروں پر سوار تھیں۔قارون کی یہ شان و شوکت دیکھ کردنیا میں رغبت رکھنے والے بعض لوگ تمنا کرنے لگے کہ کاش ہمیں بھی قارون کی مثل مال و دولت ملتی، یہ تمنا کرنے والے یا تو کافر تھے یا پھر وہ مسلمان تھے جو دنیا سے محبت کرتے تھے۔ اس پر بنی اسرائیل کے علماء اور دِین دار لوگوں نے اُنہیں سمجھاتے ہوئے کہا :” اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ملنے والا ثواب دُنیاوی مال و دولت سے بہت بہتر ہے کیونکہ ثواب ہمیشہ رہنے والا ہے،اسں میں بہت سے منافع ہیں اور نقصان بالکل نہیں جبکہ دنیاوی نعمتیں اس کے برخلاف ہیں اوربہت جلدفنا ہونے والی ہیں۔“(3)دنیا کی تمنا غفلت ہے:
مُفَسِّرشہِیرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمدیارخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں:”معلوم ہوا کہ دنیا داروں کی دنیا کو لالچ کی نظر سے دیکھنا اور ان کی دنیا کی تمنا کرنا غافلوں کا کام ہے۔ دنیا میں اپنے سے نیچے کو دیکھے، دِین میں اپنے سے اوپر پر نظر کرے۔“(4)(3)نعمتوں کے بارے میں سوال
فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ثُمَّ لَتُسْــٴَـلُنَّ یَوْمَىٕذٍ عَنِ النَّعِیْمِ۠(۸) ( پ ۳۰ ، التکاثر: ۸) ترجمۂ کنزالایمان:پھر بے شک ضرور اُس دن تم سے نعمتوں سے پر سش ہوگی۔ تفسیر رُوح البیان میں ہے:”یعنی آخرت میں تم سے پوچھا جائے گاکہ تم نے نعمتوں کا شکر ادا کیا یا نہیں ؟ یہ سوال روزِ محشر جہنم میں داخلے سے پہلے ہوگا۔یعنی جہنم دیکھنے کے بعد اس میں داخلے سے پہلے تم سے ان نعمتوں کے بارے میں سوال ہوگا جن سے لطف اندوز ہونے کی وجہ سے تم دین اور اس کی راہ میں آنے والی تکالیف برداشت کرنے سے غافل رہے لہٰذا تمہیں ان کی ناشکری پر عذاب کیا جارہا ہے۔ یہ خطاب ہر اس شخص سے ہے جو ہر وقت خواہشوں کی تکمیل میں لگا رہے جیسے وہ شخص جو ہر وقت اچھے کھانے کھائے، اچھا لباس پہنے، اپنے اوقات لہو و لعب میں گزارے، نہ علم سیکھے نہ عمل کی پرواہ کرےاور جن لوگوں نے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی نعمتوں سے فائدہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ خوفِ خدا رکھا اور اس کی اطاعت کی اور شکر گزار رہے تو وہ لوگ اس وعید سے کوسوں میل دور ہیں۔“(5)(4)دنیاہی کو مقصودِ اصلی سمجھنےوالے کا انجام
فرمانِ باری تعالیٰ ہے: مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَۚ-یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا(۱۸) ( پ ۱۵ ، بنی اسرائیل: ۱۸) ترجمۂ کنزالایمان:جو یہ جلدی والی چاہے ہم اسے اس میں جلد دے دیں جو چاہیں جسے چاہیں پھر اس کے لیے جہنم کردیں کہ اس میں جائے مذمت کیا ہوا دھکّے کھاتا۔ تفسیرِ قرطبی میں ہے:’’ جس کا مطلوب صرف دنیا ہی ہو(آخرت سے کوئی غرض نہ ہو) ہم اسے اس دنیا میں سے جو چاہتے ہیں دیتے ہیں اورجسے چاہتے ہیں دیتے ہیں، پھر اس کے اعمال پر اس کی پکڑ کرتے ہیں اوراس کا انجام کار ذِلت ورُسوائی اور رحمتِ الٰہی سے محرومی اور جہنم میں داخلہ ہے ۔یہ منافقوں، فاسقوں، ریاکاروں کا حال ہے جو دنیا کمانے کے لئے اِسلام اور نیکی کا لبادہ اوڑھتے ہیں پس آخرت میں اُن کا کوئی عمل قبول نہ کیاجائے گا اور دنیاوی نعمتیں بھی انہیں اتنی ہی ملیں گی جتنی ان کے نصیب میں لکھ دی گئی ہیں۔“(6) مُفَسِّرشہِیرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں:” طلب دنیا تب بری ہے جب کہ بندہ رب سے غافل ہو کر طلب کرے یا حلال حرام کی پرواہ نہ کرے یا آخرت پر ایمان نہ رکھے صرف دنیا ہی کو اصل متاع سمجھے یا دین کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنائے جیسے کافر و فاسق اور ریاکار۔دنیا اتنی ہی ملے گی جتنی نصیب میں ہے خواہ اسے فکر سے حاصل کرو یا فراغت سے لہٰذا بندے کو چاہیے کہ دنیا کے لیے آخرت برباد نہ کرے، مومن کا دل دنیا میں رہتا ہے اُس میں دنیا نہیں رہتی اُس میں دین رہتا ہے۔ پانی میں کشتی تیرتی ہے کشتی میں پانی ہو تو ڈوبتی ہے۔“(7) صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدحدیث نمبر:491 اَہلِ بَیتِ اَطہار کے حالات
عَنْ عَائِشَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خُبْزِ شَعِيرٍ يَوْمَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ، حَتّٰى قُبِضَ .(8) وَفِی رِوَایَۃٍ: مَا شَبِعَ آلُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْذُ قَدِمَ الْمَدِينَةَ مِنْ طَعَامِ الْبُرِّ ثَلَاثَ لَيَالٍ تِبَاعًا، حَتَّى قُبِضَ. (9) ترجمہ:اُمُّ المومنین حضرتِ سَیِّدَتُناعائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہِا فرماتی ہیں: ”حضور صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے گھروالوں نے مسلسل دو دن بھی جَو کی روٹی پیٹ بھر کر نہ کھائی یہاں تک کہ آپ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا وصال ہوگیا۔‘‘ دوسری روایت میں ہےکہ”جب سے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مدینے تشریف لائے اُس وقت سے آپ کے گھر والوں نے مسلسل تین راتیں بھی گندم کی روٹی نہ کھائی یہاں تک کہ آپ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا وصال ہوگیا۔“حضور کا فقر اِختیاری تھا:
حضورسرورِ کائنات ، فخرموجودات صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور اہلِ بیت اَطہار کا اِس طرح فقر و فاقہ کی زندگی گزارنا اور بھوک کی شدت کو برداشت کرنا کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں بلکہ حضور صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اپنے اختیار سے تھا ورنہ آپ کے ہاتھ میں تو دونوں جہاں کے خزانے ہیں، آپ چاہتے تو مکے کے پہاڑآپ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے سونا بن جاتے،مگرآپ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مالی غَنا کے بجائے قلبی غَنا کو اختیار فرمایا۔ نیز اس میں غریبوں کے لیے بھی تسلی اور اطمینان کا سامان ہے ۔ عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ الْبَارِی فرماتے ہیں:آل سے مراد اہلِ بیت میں سےمَحارِم اور خدام ہیں۔دو روز مسلسل سے یہ پتا چلا کہ اگر ایک دن کھانا کھالیتے تو دوسرے دن بھوکے رہتے اور یہ اس وجہ سے کہ خود نبی کریم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے اختیار فرمایا تھا۔ جب آپ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو زمین کے خزانے پیش کئے گئے اور یہ کہا گیا کہ اگر آپ چاہیں تو مکے کے پہاڑ سونا بنادئیے جائیں تو آپ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فقرکواختیارکرتے ہوئے فرمایا:”میں ایک دن بھوکا رہوں اور صبرکروں اورایک دن کھانا کھاؤں اورشکر کروں۔“ ایمان کے دو حصےہیں:صبراورشکر۔حدیث میں ہے کہ حضور صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اہلِ خانہ نے سیر ہوکر نہ کھایا حتّٰی کہ آپ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وِصال فرماگئے۔ وقتِ وصال آپ عَلَیْہِ السَّلَام کی ذرہ ایک یہودی کے پاس ایک صاع جَو کے عوض رہن رکھی ہوئی تھی۔آپ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس کثیر مال آتا مگر آپ اسے جمع نہ کرتے بلکہ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کے لیے خرچ فرمادیتے۔حضرت عبد اللّٰہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں:”رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مسلسل کئی کئی راتیں بھوک کی حالت میں گزاردیتے تھے،آپ اور اہلِ بیت کو رات کا کھانا میسرنہیں ہوتا تھا اورجب کبھی کھانا میسرآتا تو اکثر اوقات جَو کی روٹی ہی ہوتی تھی۔اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ ہمارے زمانے کے فقراء میں سے کسی نے بھی حضور صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طرح زندگی نہیں گزاری حالانکہ وہ سیدالانبیاء ہیں ۔ نبی کریم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اِس طرزِ زندگی میں غریبوں اور فقیروں کے لیے تسلی و اطمینان کا سامان ہے۔“(10)خود بھوکا رہ کر دوسروں کو کھلانا:
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں:” خیال رہے کہ فتحِ خیبر کے بعد حضورِ اَنور ہر زوجہ پاک کو ایک سال کی کھجوریں عطا فرمادیتے تھے کیونکہ خیبر میں باغات کثرت سے ہیں وہاں سے حضور کے حصے کی کھجوریں بہت آتی تھیں۔یہاں مسلسل دو دن تک روٹی سے سیر ہونے کی نفی ہے لہٰذا یہ حدیث اس واقعہ کے خلاف نہیں کہ وہاں کھجوروں کی عطا ثابت ہے،نیز حضور کے گھر والے ایک دن خود کھاتے تھے دوسرے دن کا کھانا فقراء مسکین کو دیتے تھے۔بہرحال یہ حدیث اُن اَحادیث کے خلاف نہیں۔حضورِ انور پر آخری زمانہ میں دولت کی بارش ہوگئی تھی مگر سب لوگوں پرتقسیم فرما دیتے تھے ان فتوحات سے پہلے طریقہ مبارکہ یہ تھا۔“(11) مدنی گلدستہ ’’غوثِ پاک ‘‘کے6حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اس کی وضاحت سے ملنے والے6مدنی پھول (1) حضورنبی کریم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فقر و فاقہ اختیاری تھا۔ (2) آپ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو زمین کے خزانے پیش کئے گئے لیکن آپ نے فقر کو اختیار فرمایا۔ (3) آپ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس جب بھی کہیں سے مال وغیرہ آتا اسے جمع کرنے کے بجائے رضائے الٰہی کے لئے غریبوں اور فقیروں میں تقسیم فرمادیا کرتے۔ (4) آپ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور اہل بیت اَطہار کی غذا اکثر جَو کی روٹی ہوا کرتی تھی ۔ (5) صحابہ ٔ کرام، تابعین عظام اور دیگر اَسلاف و بزرگانِ دِین رَحِمَہُمُ اللّٰہ الْمُبِیْن کا بھی یہی طرزِ زندگی رہا کہ کبھی کھانا کھاتے تو کبھی بھوکے رہتے۔ (6) حقیقی غنا مال کا نہیں بلکہ دل کا غنی ہونا ہے۔ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں بھی بزرگانِ دِین رَحِمَہُمُ اللّٰہ تَعَالٰی کی سیرت پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدحدیث نمبر:492دو چیزوں پر گُزر بسر
عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِىَ اللهُ عَنْهَا اَنَّهَا كَانَتْ تَقُولُ: وَاللهِ يَا ابْنَ اُخْتِي اِنْ كُنَّا لَنَنْظُرُ اِلَى الْهِلَالِ ثُمَّ الْهِلَالِ ثُمَّ الْهِلَالِ ثَلَاثَةَ اَهِلَّةٍ فِي شَهْرَيْنِ وَمَا اُوْقِدَ فِي اَبْيَاتِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَارٌ قَالَ: قُلْتُ: يَا خَالَةُ فَمَا كَانَ يُعَيِّشُكُمْ؟ قَالَتْ: اَلْاَسْوَدَانِ التَّمْرُ وَالْمَاءُ اِلَّا اَنَّهُ قَدْ كَانَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِيرَانٌ مِنَ الْاَنْصَارِ وَكَانَتْ لَهُمْ مَنَائِحُ فَكَانُوا يُرْسِلُونَ اِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ اَلْبَانِهَا فَيَسْقِينَا .(12) ترجمہ:حضرت سیدنا عُروہ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہےکہ حضرتِ سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہِا اُن سے فرمایا کرتی تھیں: ”اے بھانجے! اللّٰہ کی قسم! ہم چاند دیکھتے، پھر چاند دیکھتے، پھر چاند دیکھتے، دو مہینوں میں تین بار چاند دیکھتے اور اِس دوران رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے کاشائہ اقدس میں چولہانہ جلتا۔‘‘ حضرتِ سیدناعُروہ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:میں نے پوچھاکہ ”پھر آپ لوگوں کا گزارہ کیسے ہوتا تھا؟“فرمایا:”دو سیاہ چیزوں یعنی کھجور اور پانی پر۔البتہ حضور صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے کچھ انصاری پڑوسی تھے جن کے پاس دودھ دینے والی اونٹنیاں تھیں وہ اُن کا دودھ بھیج دیا کرتے تھے تو حضور صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہمیں پلا دیتے ۔دو مہینے میں تین چاند دیکھنے سے کیامراد ؟
مذکورہ حدیث میں اُمُّ المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہِا نے فرمایا کہ ہم دو مہینے میں تین دفعہ چاند دیکھاکرتے اس کا مطلب بیان کرتے ہوئے عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ الْغَنِی فرماتے ہیں:ایک مہینے کا چاند دیکھتے پھر دوسرے مہینے کی ابتداء کا چاند دیکھتے اور پھر دوسرے مہینے کی آخری تاریخ کو تیسرے مہینے کا چاند دیکھتے تھے اس طرح ساٹھ دنوں میں تین چاند ہوئے ۔(13)حضور عَلَیْہِ السَّلَام کی دنیا سےبے رغبتی:
شرح ابن بطال میں ہے:”حدیثِ مذکور سے یہ بھی معلوم ہواکہ حضورنبی کریم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دنیا سے کوئی رغبت نہ تھی، گزر بسر کے لیے بقدرِ کفایت پر اکتفا کرتے اور دنیا پر آخرت کو ترجیح دیتےتھے اس لیے کہ جب آپ کو دنیا و آخرت کی چیزوں میں سے کسی ایک کو چننے کا اختیار دیا گیا تو آپ نے آخرت کو اختیار فرمایا اور اس پر آپ کی مدح و ستائش کی گئی اور آپ نے نبی بادشاہ ہونے کے بجائے نبی بندہ ہونے کو اختیار فرمایا اور یہی آپ کی سنت اور آپ کا طریقہ ہے۔“(14)دو سیاہ چیزیں:
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں:’’دو کالی چیزوں سے مراد چھوہارے اور پانی ہے کہ چھوہارے تو کالے ہوتے ہیں۔پانی کو تغلیبًا کالا فرمایا گیا جیسے چاند و سورج کو قمرَین اور امامِ حسن اورحسین کو حَسَنَیْن اور حضرت ابو بکروعمر کو عمرَین کہا جاتا ہے۔یعنی حضورِ اَنور صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی وفات شریف تک ہم نے کھجوریں وپانی بھی خوب سیر ہو کر نہ کھائیں۔فتح خیبر سے پہلے تو اس لیے کہ گھر میں یہ سامان زیادہ نہ ہوتا تھا اور فتح خیبر کے بعد اس لیے کہ حضورِ انور کو بہت سیر ہوکر کھانا پسند نہ تھا اگرچہ ہر گھر میں سال بھر کے جَو اور چھوہارے موجود ہوتے تھے ۔“(15)کم کھانے میں دونوں جہاں کا فائدہ:
حدیث مذکور سے پتہ چلا کہ سرکارِ دو جہاں رحمتِ عالَمیان صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دنیا سے کوئی رغبت نہیں تھی آپ کھانا کم کھاتے تھےہمیں بھی چاہیے کہ ہم سرکار صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اس سنت پر عمل کرتے ہوئے پیٹ کا قفلِ مدینہ لگائیں ضرورت سے کم کھائیں، اس میں ہمارا دنیاوی اور اُخروی فائدہ ہے کہ دنیا میں بیماریوں سے محفوظ رہیں گے اور آخرت میں حساب کم ہوگا۔”فیضانِ سنت“جلد اول کے صفحہ نمبر 677 پرہے:امیر المؤمنین حضرتِ سَیِّدُناعمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:”تم پیٹ بھر کر کھانے پینے سے بچو کیونکہ یہ جسم کو خراب کرتا، بیماریاں پیدا کرتا اور نماز میں سُستی لاتا ہے اور تم پر کھانے پینے میں مِیانہ رَوی لازِم ہے کیونکہ اس سے جسم کی اِصلاح ہوتی اور فضول خرچی سے نجات ملتی ہے۔“ مدنی گلدستہ ’’قناعت ‘‘کے5حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکوراور اس کی وضاحت سے ملنے والے5مدنی پھول (1) نبی پاک صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دنیا وآخرت کی چیزوں میں سے کسی ایک کو چننے کا اختیار دیا جاتا تو آپ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آخرت کو اختیار فرماتے۔ (2) پڑوسیوں کا خیال رکھنا چاہیے اور انہیں کھانا وغیرہ بھیجنا چاہیے ہوسکتا ہے ان کے گھرفاقہ ہو اور ہمیں علم نہ ہو۔ (3) کم چیزوں پر قناعت کرنا چاہیے اور دنیا کے مقابلے میں آخرت کو ترجیح دینا چاہیے کہ یہی سنت ہے۔ (4) کم کھانے کے کثیردُنیوی واُخروی فوائد ہیں جن میں سے دو بڑے فوائد دنیا میں بیماریوں سے حفاظت اور آخرت میں حساب کی کمی ہے۔ (5) پیٹ بھر کر کھانا پینا جسم کو خراب کرتا، بیماریاں پیدا کرتا اور نماز میں سُستی لاتا ہے۔ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھوک سے کم کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدحدیث نمبر: 493بُھنی ہوئی بکری نہ کھائی
عَنْ اَبي سَعِيدٍ ا لْمَقْبُرِىِّ عَنْ اَبِى هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُ اَنَّهُ مَرَّ بِقَوْمٍ بَيْنَ اَيْدِيهِمْ شَاةٌ مَصْلِيَّةٌ فَدَعَوْهُ فَاَبىٰ اَنْ يَّاْكُلَ وَقَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الدُّنْيَا وَلَمْ يَشْبَعْ مِنْ خُبْزِ الشَّعِير .(16) ترجمہ:حضرت سیدنا ابو سعید مَقْبُری رَحْمَۃُ اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہ سےمروی ہے کہ ایک دن حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ ایک قوم کے پاس سے گزرے، اُن کے درمیان ایک بھنی ہوئی بکری رکھی تھی انہوں نے آپ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ کو دعوت دی تو آپ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ نے کھانے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا: ’’رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اس دنیا سے پردہ فرماگئے اور آپ نے کبھی جَو کی روٹی بھی پیٹ بھر کر نہ کھائی۔“دعوت قبول نہ کرنے کی وجہ:
حضرتِ سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ نے بھنی ہوئی بکری کھانے سے اس لئے انکار کر دیا کہ انہیں حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اور دیگرصحابہ ٔکرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کے ساتھ گزارا ہوا وقت یاد آ گیا تھا کہ وہ حضرات کس طرح فاقے کیا کرتے اور دنیا سے کنارہ کش رہتے اس لئے آپ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ نے وہ دعوت قبول نہ کی ۔ دوسرا یہ ہےکہ صحابہ ٔکرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان حضور صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے محبت کرتے اور آپ کی ہر ادااپنانے کی کوشش کرتے تھے چونکہ رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سادہ غذا تناول فرماتے تھے اس لئے حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ نے لذیذ غذا کھانے سے انکار کردیا ۔دلیل الفالحین میں ہے: ’’ مُحِبّ محبوب کی اتباع کرتا ہے اورمحبوب کے نقشِ قدم پر چلتا ہے چونکہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سادہ غذا استعمال فرمایاکرتے تھے اس لئے حضرت سیدناابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ نے بھی لذیذ کھانے سے انکار کردیا “(17)صحابہ کرام کا عشقِ رسول:.
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمدیارخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتےہیں:”(حضرت سیدنا ابو ہریرہ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ نے بھنی ہوئی بکری کھانے سے انکار اس لئے کیا کہ )اس وقت کچھ حضور کے ان حالات کا دھیان آ گیا تو دل بے قرار ہو گیا،بھونی بکری کھانے کی طرف مائل نہ ہوا اس لیے نہ کھانا کھایا۔ (ورنہ) دوسرے اوقات میں حضرت ابوہریرہ نے اچھے کھانے بھی کھائے ہیں،اچھے کپڑے بھی پہنے ہیں،دل کے حالات مختلف ہوتے ہیں جیساکہ ہرشخص کو تجربہ ہے۔(حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ کو)اس وقت خیال یہ آ گیا کہ میرے محبوب صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّم تو زندگی شریف میں جَو کی روٹی سے مسلسل سیر نہ ہوئے اور میں بھونی بکری کھاؤں، دل نہیں چاہتا۔“(18) مدنی گلدستہ ’’طواف‘‘کے4حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اُس کی وضاحت سے ملنے والے4مدنی پھول (1) صحابہ ٔکرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان حضور صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ہر ہر سنت پرعمل کیا کرتے تھے۔ (2) ہمیں بھی چاہیےکہ کبھی کبھی لذیذ کھانا اس نیت سے ترک کر دیں کہ پیارے آقا، مدینے والےمصطفےٰ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اکثر سادہ غذا استعمال فرمایا کرتےتھے۔ (3) نبی کریم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے وصالِ ظاہری کےبعد صحابہ ٔکرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کی نظروں میں، اس ماہِ رسالت کی جلوہ گری رہتی اوران کے دل ہر وقت محبوب کی یاد سے معموررہتے۔ (4) دل کی کیفیات مختلف ہوتی رہتی ہیں کبھی اس پر تقویٰ و پرہیز گاری اور سادگی کا غلبہ ہوتاہے توکبھی دُنیاوی لذات کا۔لہٰذا بندے کو چاہیے کہ وہ اپنی خواہشات پرقابو پائے اور شریعت و سنت کے مطابق زندگی گزارے۔ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں سادہ غذا استعمال کرنے اور شریعت وسنت کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدحدیث نمبر: 494لذیذ غذا سے پرہیز
عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُ قَالَ لَمْ يَاْكُلِ النَّبِىُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلٰی خِوَانٍ حَتّٰى مَاتَ، وَمَا اَكَلَ خُبْزًا مُرَقَّقًا حَتّٰى مَاتَ. (19) وَفِی رِوَایَۃٍ لَہُ : وَلَا رَاٰی شَاۃً سَمِیْطًا بِعَیْنِہِ قَطُّ. (20) ترجمہ:حضرتِ سَیِّدُنا انس رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں :”نبی کریم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کبھی دسترخوان پر کھانا نہیں کھایا اورنہ ہی کبھی باریک نرم روٹی ( چپاتی)کھائی حتی کہ آپ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم وصال فرماگئے۔‘‘بخاری کی ایک روایت میں ہےکہ”آپ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کبھی بھنی ہوئی بکری ملاحظہ نہ فرمائی ۔“کیا بھنی ہوئی بکری اور چپاتی کھانا منع ہے؟
شرح ابن بطال میں ہے :” نرم باریک روٹی(چپاتی وغیرہ ) کھانا جائز و مباح ہے منع نہیں۔ رہی یہ بات کہ حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے باریک روٹی کیوں تناول نہ فرمائی؟تو اس کی وجہ یہ ہےکہ آپ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم دُنیوی آسائشوں کےبجائے اُخروی نعمتوں کو ترجیح دیا کرتے تھے اس لئے آپ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے زُہد اختیارفرمایا اور باریک روٹی تناول نہ فرمائی ۔ اسی طرح دسترخوان پرکھانا بھی جائز ہے۔اورحضرتِ سَیِّدُنا انس رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ کایہ فرمان کہ”حضور صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے نہ تو کبھی دستر خوان پر کھانا کھایا اور نہ ہی بھنی ہوئی بکری تناول فرمائی ۔“یہ ان کی اپنی معلومات کے مطابق خبر تھی ورنہ دوسری روایت میں ہے کہ حضور صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دستر خوان پر کھانا بھی کھایا اور بھنا ہوا گوشت بھی تناول فرمایا۔ نیز حضرت سَیِّدُنا عیسیٰ عَلٰی نَبِیِّنَاوَعَلَیْہِ السَّلَام کی دعا پرآسمان سے دستر خوان اُتارا گیا اورچپاتی اور بھنی ہوئی بکری کا جواز اس فرمانِ باری تعالیٰ سےبھی ثابت ہوتا ہے : قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِیْنَةَ اللّٰهِ الَّتِیْۤ اَخْرَ جَ لِعِبَادِهٖ وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزْقِؕ ( پ ۸ ، الاعراف: ۳۲) ترجمۂ کنزالایمان:تم فرماؤ کس نے حرام کی اللّٰہ کی وہ زینت جو اس نے اپنے بندوں کے لیے نکالی اور پاک رزق۔ پس تمام پاک چیزیں کھانا حلال ہے، البتہ دنیا سے بے رغبتی، تواضع اور آخرت کی پاکیزہ نعمتوں کے حصول کے لیے ان چیزوں کو ترک کرنا بھی جائز ہے جیسا کہ نبی کریم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِنہیں ترک فرمایا۔“(21)باریک نرم روٹی(چپاتی ):
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں: بہت باریک روٹی اب بھی عرب شریف میں نہیں ہوتی،روٹی قدرے موٹی ہوتی ہے،وہ صحت کے لیے بھی مفید ہے۔بعض شارِحین نے فرمایا کہ حضور صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے لیے چپاتی(باریک،نرم روٹی ) نہیں پکائی گئی لیکن اگر کوئی شخص چپاتی پیش کرتا تو حضورِ انور( صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) قبول فرماتے اور کھاتے تھے۔(اوراُس دور میں)دسترخوان کپڑے کا،چمڑے کا اورکھجور کے پتوں کا ہوتا تھا،ان تینوں قسم کے دسترخوانوں پر کھانا حضور ( صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) نے کھایا ہے،دسترخوان بھی نیچے زمین پر بچھتا تھا اور خود سرکار( صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) بھی زمین پر تشریف فرما ہوتے تھے۔(22)”خِوان“سے کیا مراد ہے؟
حدیث مذکور میں ” خِوَانٍ “ کا لفظ آیا ہے، بعض شارحین نے اس کا معنی ”دستر خوان “بیان کیا جبکہ بعض نےکہا کہ”خِوان“وہ دستر خوان ہے جو اُونچا کر کے بچھایا جائےجیسے آج کل ہمارے ہاں میز (ڈائننگ ٹیبل) وغیرہ پر کھانا کھایا جاتا ہے۔اس طرح میز یا ٹیبل پرحضور صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کبھی کھانا تناول نہیں فرمایا کیونکہ یہ امیروں اور متکبروں کا طریقہ تھا ۔ لیکن واضح رہے کہ اس طرح میز پر کھانا ناجائز نہیں بلکہ جائز ہے۔ بہارِ شریعت میں ہے:”خوان ، تِپائی (یا میز)کی طرح اونچی چیز ہوتی ہے جس پر اُمَراء کے یہاں کھانا چُنا جاتا ہے تا کہ کھاتے وقت جھکنا نہ پڑے اُس پر کھانا کھانا متکبرین کا طریقہ تھا جس طرح بعض لوگ اِس زمانہ میں میز(ٹیبل)پر کھاتے ہیں۔“(23)سَمِیط اور بھونی ہوئی بکری میں فرق:
حدیث مذکور میں”سَمیط“ کا لفظ ہے کہ حضور صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے سمیط نہ کھائی ،سمیط خاص طریقے سے بھنی ہوئی بکری کو کہاجاتاہے اور یہ اُمراء و سلاطین کا طریقہ ہے اورحضور صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے لئے ایسا کھانا پسند نہ فرمایا کرتے تھے ۔ ہاں! عام طریقے سے بھنی ہوئی بکری کھانا آپ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے ثابت ہے۔ چنانچہ مرآۃ المناجیح میں ہے:سَمیط وہ بکری کہلاتی ہے جو کھال میں بُھونی جائے کہ اولًا کھال کے بال اتارے جائیں پھر اسے گرم پانی سے دھوکر اس کے اندر گوشت بھردیا جائے اور اسی میں بھون لیا جائے،اُمراء وسلاطین ایسا گوشت کھاتے ہیں۔سمیط کے یہ معنی خیال میں رہیں، شاۃ مشوی (بھنی بکری) کچھ اور چیز ہے سمیط(کھال میں بھنی بکری) کچھ اور۔حضورِ انور ( صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ) نے ویسے بھنا گوشت ملاحظہ فرمایا ہے۔“(24) مدنی گلدستہ ’’سادگی ‘‘کے5حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکوراور اس کی وضاحت سے ملنے والے5مدنی پھول (1) حضور صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دنیا سے بے رغبتی کی وجہ سے آسائشیں ترک فرمادی تھیں۔ (2) چپاتی اور بھنا ہوا گوشت کھانا اوردستر خوان پر کھانا جائز ہے۔ (3) دورِنبوت میں کپڑے، چمڑے اور کھجور کے پتوں سے بنائے ہوئے دستر خوانوں پر کھانا کھایا جاتاتھا ۔ (4) آخرت کے حصول کے لیے دُنیوی نعمتوں کو ترک کرنا سَلَف صالحین کا مبارک طریقہ ہے۔ (5) میز یا تپائی وغیرہ پر کھانارکھ کر کھانا جائز ہے،مگر بہتر یہ ہے کہ زمین پر بیٹھ کر کھانا کھایا جائے۔ میز وغیرہ پر کھاناکھاتے وقت جوتے اتارلینے چاہئیں ۔ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں سنت کے مطابق کھانا کھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدحدیث نمبر:495اُس شکم کی قَناعت پہ لاکھوں سلام
عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ رَضِىَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ: لَقَدْ رَاَيْتُ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا يَجِدُ مِنَ الدَّقَلِ مَا يَمْلَاُ بِهِ بَطْنَهُ .(25) ترجمہ:حضرتِ سَیِّدُنا نعمان بن بشیر رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُما فرماتے ہیں:”میں نے تمہارے نبی صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کواس حال میں دیکھاکہ انہیں ردی کھجوریں بھی پیٹ بھر میسر نہ ہوتیں ۔‘‘دنیا میں رغبت پر توبیخ:
عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ الْبَارِی فرماتے ہیں:”جب لوگوں نے لذیذکھانے ،مشروبات، دنیوی آسائش اور دیگر خواہشات ترک کرنے میں اپنے پیارے نبی صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی پیروی نہ کی تو حضرت سیدنا نعمان بن بشیر رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ نے انہیں زجر وتوبیخ کرتے ہوئے یہ فرمایاکہ تمہارے نبی صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زُہد کا یہ عالَم تھاکہ وہ ردی کھجوریں بھی شکم سیرہوکر نہ کھاتے تھے جبکہ تمہاری حالت اس کے برعکس ہے ۔“(26) مرآۃ المناجیح میں ہے:”یہ خطاب حضور صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّم کی وفات کے بعد صحابہ ٔ کرام و تابعین سے ہے جب کہ مسلمانوں کو اللّٰہ تعالیٰ نے بڑی فراخی عطا فرمادی تھی خصوصًا عَہدِ فاروقی و عثمانی میں۔مقصد یہ ہے کہ اِس فراخیٔ رزق پر اللّٰہ تعالیٰ کا شکر کرو یا اعتراضًا فرمایا کہ تم لوگوں نے دنیا کی فراوانی پاکر حضور صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا زُہد تقویٰ اور ترکِ دنیا کا طریقہ چھوڑ دیا۔(27) نوٹ:مزیدوضاحت کے لئے فیضانِ ریاض الصالحین،جلد4،باب55،حدیث473کامطالعہ فرمائیں۔حدیث نمبر: 496 بے چھنے جَو کی روٹی
عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رَضِیَ اللّٰہ عَنْہُ قَالَ : مَا رَاٰى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّقِىَّ مِنْ حِينَ ابْتَعَثَهُ اللَّهُ تَعَالٰی حَتّٰی قَبَضَهُ اللَّهُ تَعَالٰی. فَقِیْلَ لَہُ : هَلْ كَانَ لَكُمْ فِى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنَاخِلُ؟ قَالَ : مَا رَاٰى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنْخُلًا مِنْ حِينَ ابْتَعَثَهُ اللَّهُ تَعَالٰی حَتّٰى قَبَضَهُ اللّٰہ تَعَالٰی. فَقِیْلَ لَہُ : كَيْفَ كُنْتُمْ تَأْكُلُونَ الشَّعِيرَ غَيْرَ مَنْخُولٍ؟ قَالَ : كُنَّا نَطْحَنُهُ وَنَنْفُخُهُ ، فَيَطِيرُ مَا طَارَ وَمَا بَقِىَ ثَرَّيْنَاهُ .(28) ترجمہ:حضرتِ سَیِّدُناسہل بن سعد رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:”جب سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مبعوث فرمایا ہے اس وقت سے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے میدہ نہیں دیکھا یہاں تک کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی۔“پوچھا گیا: ”کہیارسولَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے زمانے میں آپ لوگوں کے پاس چھلنیاں ہوتی تھیں ؟ “حضرت سہل بن سعد رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ نے جواب دیا: ”جب سے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مبعوث فرمایا ہے اس وقت سے رسولُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے چھلنی نہیں دیکھی یہاں تک کہ اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو وفات دے دی۔“پوچھا گیا:”آپ لوگ جَو کو چھانے بغیر کیسے کھاتے تھے؟“حضرت سہل رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہُ نے جواب دیا:”ہم جَو کو پیستے تھے اور پھونک مارتے تھے جوکچھ اُڑنا ہوتا تھا وہ اُڑ جاتا تھا اور جو باقی بچتا تھا اس کو گوندھ لیتے تھے۔“حضور عَلَیْہِ السَّلَام کا دُنیوی نعمتوں کو چھوڑ دینا:
اس حدیث پاک میں بیان ہواکہ حضورنبی کریم،رَءُوْفٌ رحیم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بہت سادہ زندگی گزارتے آپ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو دنیا سے کوئی رغبت نہ تھی۔آپ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی غذا اکثر کھجور پانی یا جَو کے بے چھنے آٹے کی موٹی روٹی ہوا کرتی تھی ۔ عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ الْبَارِی فرماتے ہیں:’’حدیثِ مذکور سے معلوم ہواکہ سرورِ کائنات شاہِ موجودات صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم دنیاوی تکلفات اور کھانے پینے کا بہت زیادہ اہتمام نہ فرماتے تھے کیونکہ ان چیزوں کے اہتمام میں لگے رہنا غافلوں، احمقوں اور بے کارلوگوں کاشیوہ ہے۔“(29)اَسلافِ کرام اور ہمارا طرزِعمل:
عَلَّامَہ اَبُو الْحَسَن اِبْنِ بَطَّال عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ذ ی الْجَلَال فرماتے ہیں:”حدیث مذکورسےمعلوم ہوا کہ سلف صالحین کھانے پینے میں نرم ولذیذ چیزوں کو چھوڑ کر سخت غذا استعمال فرماتے اور بے چھنے آٹے کی روٹی کھاتے تھے حالانکہ اُن کے لیے (نرم ولذیذ چیزیں کھانا اور )آٹا چھاننا مباح تھا لیکن انہوں نے سختی کو اختیار کیا اورسہل پسندی کو ترک کیا تاکہ بعد میں آنے والے اُن کی پیروی کریں مگر ہم نے ان کی مخالفت کی اور کھانے پینے میں لذیذ چیزوں کو اختیار کیا اور ہم اس چیز پر راضی نہ ہوئے جس پر وہ راضی تھے تو ہم کیسے اُن پاک ہستیوں سے جاملنے کی امید رکھتے ہیں؟‘‘(30)حضورعَلَیْہِ السَّلَام کی سادہ غذا:
مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں:(حضور عَلَیْہِ السَّلَام نے کبھی میدہ کی روٹی ملاحظہ نہ فرمائی )یعنی میدہ کھانا تو بہت دور،کبھی ملاحظہ بھی نہ فرمایا۔ اللّٰہ کی شان ہے کہ اب مدینہ منورہ میں میدہ کی روٹی عام ہے آٹے کی روٹی بہت کم ملتی ہے اور کہتے ہیں میدہ کی روٹی بہت قسم کی ہوتی ہے مغربی،شامی وغیرہ۔(سرکارِ دوعالَم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جَو کے بے چھنے آٹے کی موٹی تناول فرمایا کرتے تھے ۔) سبحان اللّٰہ ! یہ ہے حضور کی سادہ اور بے تکلف زندگی۔ بعض روایات میں ہے کہ کسی صاحب نے ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہ تَعَالٰی عَنْہِا سے تمنا کی کہ میں حضورِ انور صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا کھانا کھاؤں،آپ فرمانے لگیں تم نہ کھا سکو گے یہ تو ان کی ہی شان تھی جو کھا گئے اور واقعہ (حقیقت)ہے کہ ہم گندم کی روٹی بے چھنے آٹے کی نہیں کھاسکتے چہ جائیکہ جَو کی روٹی وہ بھی بے چھنے آٹے کی۔شعر کھانا جو دیکھو جَو کی روٹی بے چھنا آٹا روٹی موٹی * * * وہ بھی شکم بھر روز نہ کھانا صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّم جس کی تمنا روز نہ کھانا اک دن ناغہ اک دن کھانا * * * س دن کھانا شکر کا کرنا صَلَّی اللّٰہ عَلَیْہِ وَسَلَّم ظہورِ نبوت کے بعد میدہ کی روٹی ملاحظہ نہ فرمائی۔اس سے پہلے حضورِ انور نے شام کا سفر کیا ہے اور بحیرہ راہب کی دعوت میں میدہ کی روٹی ملاحظہ فرمائی ہے۔اس زمانہ میں شام و رُوم میں میدہ کی روٹی بہت مروج تھی۔بعدِ اِعلانِ نبوت حضورصِرف حجاز میں رہے اور مال سے بے رغبتی بھی بہت رہی۔(31)حضور عَلَیْہِ السَّلَام کی سادہ زندگی:
برادرِ اعلیٰ حضرت حضرت علامہ مولانا حَسَن رضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:” ہمارے حضور صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کوخدا عَزَّوَجَلَّ نے اشرف ترین مخلوق بنایااور محبوبیتِ خاص کا خلعتِ فاخرہ عطا فرمایا۔ اسی وجہ سے دنیاکی جوبلائیں آپ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اٹھائیں اورجومصیبتیں آپ صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے برداشت کیں کسی سے ان کا تحمل ممکن نہیں۔ اللّٰہ اللّٰہ !محبوبیت کی تووہ ادائیں کہ فرمایا جاتا ہے: ” لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الدُّنْیَا اے محبوب صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !میں اگرتم کونہ پیداکرتاتودنیاہی کونہ بناتا ۔“ علوِّمرتبت کی وہ کیفیتیں کہ اپنے خزانے کی کنجیاں دے کرمختارکل بنادیاکہ جو چاہو کرو،سیاہ و سپید کا تمہیں اختیارہے۔ایسے بادشاہ جن کے مقدس سرپردونوں عالَم کی حکومت کا چمکتاتاج رکھا گیا، ایسے رفعت پناہ جن کے مبارک پاؤں کے نیچے تختِ الٰہی بچھایا گیا،شاہی لنگرکے فقیرسلاطین ِعالم، سلطانی باڑے کے محتاج شاہانِ معظم، دنیا کی نعمتیں بانٹنے والے، زمانے کی دولتیں دینے والے، بھکاریوں کی جھولیاں بھریں ،منہ مانگی مرادیں پوری کریں۔ اب کاشانہ اَقدس اور دولت سرائے مقدس کی طرف نگاہ جاتی ہے اللّٰہ تعالیٰ کی شان نظرآتی ہے۔ایسے جلیل القدربادشاہ جن کی قاہرحکومت مشرق مغرب کوگھیرچکی اورجن کاڈنکا ہفت آسمان وتمام روئے زمین میں بج رہا ہے،ان کے برگزیدہ گھر میں آسایش کی کوئی چیزنہیں ،آرام کے اسباب تودرکنار، خشک کھجوریں اورجَو کے بے چھنے آٹے کی روٹی بھی تمام عمرپیٹ بھرکرنہ کھائی ۔ کل جہاں مِلک اور جَو کی روٹی غذا * * * اس شکم کی قناعت پہ لاکھوں سلام شاہی لباس دیکھئے توسترہ سترہ پیوند لگے ہیں،وہ بھی ایک کپڑے کے نہیں۔ دو دومہینے سلطانی باورچی خانے سے دھواں بلند نہیں ہوتا ۔دنیوی عیش وعشرت کی تویہ کیفیت ہے، دینی وجاہت دیکھئے تو اس تاجدار صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی شوکت اوراس سادگی پسند کی وجاہت سے دونوں عالم گونج رہے ہیں ۔ مالکِ کونین ہیں گو پاس کچھ رکھتے نہیں * * * دو جہاں کی نعمتیں ہیں ان کے خالی ہاتھ میں یہاں یہ امر بھی بیان کردینے کے قابل ہے کہ یہ تکلیفیں، یہ مصیبتیں محض اپنی خوشی سے اٹھائی گئیں، اس میں مجبوری کو ہر گز دخل نہ تھا۔ایک بارآپ کے بِہی خواہ (بھلائی چاہنے والے) اوررضاجو(خوشی چاہنے والے)دوست جَلَّ جَلَالُہُ نے پیام بھیجا کہ”تم کہوتومکہ کے دوپہاڑوں کوسونے کا بنا دوں کہ وہ تمہارے ساتھ رہیں۔“عرض کی:”یہ چاہتا ہوں کہ ایک دن دے کہ شکربجا لاؤں،ایک دن بھوکا رکھ کہ صبر کروں۔“(32) صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد مدنی گلدستہ ’’یانبی ‘‘کے5حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکوراور اس کی وضاحت سے ملنے والے5مدنی پھول (1) سرکارِ دو جہاں صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےاعلانِ نبوت کے بعد میدے کی روٹی تناول نہ فرمائی ،ہاں! بعثت سے قبل بحیرہ راہب کی دعوت کے موقع پر میدے کی روٹی تناول فرمائی تھی۔ (2) حضورنبی کریم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دنیاوی نعمتوں اور لذات کو اپنی مرضی سے ترک کیا ۔ (3) دنیا کے بڑے بڑے بادشاہ درِ مصطفےٰکے فقیر ہیں،ساراجہاں انہیں کے در کا سوالی ہےکہ وہ حضور نبی کریم صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے ربّ قدیر جَلَّ جَلَالُہ کی نعمتوں کے قاسم ہیں۔ (4) ہر وقت عمدہ غذاؤں اورکھانے پینے ہی کی فکر میں لگے رہنا عقلمندوں کا کام نہیں، بے کار اورفضول لوگ ان چیزوں کے شیدائی ہوتے ہیں۔ (5) تعجب ہے ایسے لوگوں پر جو سادہ غذائیں کھانے میں اَسلاف کی پیروی تو نہیں کرتے لیکن ان سے جاملنے کی امیدرکھتے ہیں۔ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں اپنے اسلاف کی صحیح معنوں میں پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
1……اب ان شعبوں کی تعداد 15 ہوچکی ہے:(۷)فیضانِ قرآن (۸) فیضانِ حدیث (۹) فیضانِ صحابہ واہل بیت (۱۰) فیضانِ صحابیات وصالحات (۱۱) شعبہ امیراہلسنت (۱۲) فیضانِ مدنی مذاکرہ (۱۳) فیضانِ اولیاوعلما (۱۴) بیاناتِ دعوتِ اسلامی (۱۵) رسائل دعوتِ اسلامی۔ مجلس المدینۃ العلمیۃ 2...تفسیر طبری، پ۱۶، مریم ، تحت الآیۃ:۶۹، ۸/۳۵۷ ملخصا۔ 3... تفسیر کبیر، پ۲۹، القصص ، تحت الآیۃ:۷۹،۸۹، ۹/۱۶، ۱۷ملخصا۔ 4...تفسیرنور العرفان، پ۲۰، القصص، تحت الآیۃ:۷۹۔ 5... تفسیر روح البیان، پ۳۹، التکاثر ، تحت الآیۃ:۸، ۱۹/۵۹۴۔ 6...تفسیر قرطبی، پ۱۵، الاسراء ، تحت الآیۃ:۱۸، ۵/۱۷۱، الجزء العاشر۔ 7...تفسیرنور العرفان، پ۱۵،بنی اسرائیل، تحت الآیۃ:۱۸۔ 8...مسلم، کتاب الزھد والرقائق،باب الدنیا سجن المؤمن وجنۃ الکافر، ص۱۲۱۵، حدیث:۷۴۴۵۔ 9...بخاری، کتاب الاطعمۃ، باب ما کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ یاکلون، ۳/۵۳۲، حدیث:۵۴۱۶۔ 10...مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الرقاق، باب فی فضل الفقراء وماکان من عیش النبی صلی اللہ علیہ وسلم، ۹/۸۹، تحت الحدیث:۵۲۳۷۔ 11...مرآۃ المناجیح، ۷/۶۳۔ 12...مسلم، کتاب الزھد والرقائق ،باب الدنیا سجن المؤمن وجنۃ الکافر، ص۱۲۱۵،حدیث:۷۴۵۲۔ 13...عمدۃ القاری، کتاب الھبۃ، باب الھبۃ وفضلھا والتحریض علیھا، ۹/۳۸۹، تحت الحدیث:۲۵۶۷۔ 14...شرح بخاری لابن بطال، کتاب الھبۃ وفضلھا والتحریض علیھا، ۷/۸۵ملخصا۔ 15...مرآۃ المناجیح، ۶/۲۴۔ 16...بخاری، کتاب الاطعمۃ، باب ما کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ یاکلون، ۳/۵۳۲، حدیث:۵۴۱۴۔ 17...دلیل الفالحین، باب فی فضل الجوع وخشونۃ العیش۔۔۔الخ، ۲/۴۳۳، تحت الحدیث:۴۹۲۔ 18...مرآۃ المناجیح، ۷/۶۳۔ 19...بخاری، کتاب الرقاق، باب فضل الفقر، ۴/۲۳۳، حدیث:۶۴۵۹۔ 20...بخاری، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ الخ، ۴/۲۳۶، حدیث:۶۴۵۷۔ 21...شرح بخاری لابن بطال، کتاب الاطعمۃ، باب الخبز المرقق والاکل۔۔۔الخ، ۹/۴۶۹۔ 22...مرآۃ المناجیح، ۶/۱۳۔ 23...بہارشریعت،۳/۳۶۹، حصہ۱۶۔ 24...مرآۃ المناجیح، ۶/۱۳۔ 25...مسلم، کتاب الزھد والرقائق، باب الدنیا سجن المؤمن وجنۃ الکافر، ص۱۲۱۶،حدیث:۷۴۵۹۔ 26...مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الاطعمۃ، الفصل الاول، ۸/۳۹، تحت الحدیث:۴۱۹۵۔ 27...مرآۃ المناجیح، ۶/۲۴۔ 28...بخاری، کتاب الاطعمۃ، باب ما کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم واصحابہ یاکلون، ۳/۵۳۲، حدیث:۵۴۱۳۔ 29...مرقاۃ المفاتیح ، کتاب الاطعمۃ ، الفصل الاول، ۸/۱۴، تحت الحدیث:۴۱۷۱۔ 30...شرح بخاری لابن بطال، کتاب الاطعمۃ، باب النفخ فی الشعیر، ۹/۴۷۹۔ 31...مرآۃ المناجیح، ۶/۱۳ملتقطا۔ 32...آئینہ قیامت، ص۱۵۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع