30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ’’فیضانِ ریاض الصالحین‘‘کے سترہ حروف کی نسبت سے اِس کتاب کو پڑھنے کی ’’17نِیّتیں‘‘ فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم :’’ نِیَّۃُ الْمُؤْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ مسلمان کی نیّت اس کے عمل سے بہتر ہے۔‘‘(1)مدنی پھول:
* …جتنی اچھی نیّتیں زِیادہ، اُتنا ثواب بھی زِیادہ۔ (1)ہر بارحَمد و (2)صلوٰۃ اور (3)تعوُّذ و (4)تَسمِیہ سے آغاز کروں گا۔ (اسی صفحہ پر اُوپر دی ہوئی عَرَبی عبارت پڑھ لینے سے ان نیّتوں پر عمل ہوجائے گا) (5)رِضائے الٰہی کیلئے اس کتاب کا اوّل تا آخر مطالعہ کروں گا۔ (6)حتَّی الوَسْعْ اِس کا باوُضُو اور (7)قِبلہ رُو مطالَعَہ کروں گا (8)قرآنی آیات اور (9)احادیثِ مبارکہ کی زیارت کروں گا (10)جہاں جہاں” اللہ “ کا نامِ پاک آئے گا وہاں عَزَّ وَجَلَّ (11)اور جہاں جہاں ”سرکار“ کا اِسْم مبارک آئے گا وہاں صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پڑھوں گا (12)شرعی مسائل سیکھوں گا (13)اس حدیثِ پاک ’’ تَھَادَوا تَحَابُّوا ایک دوسرے کو تحفہ دو آپس میں محبت بڑھے گی۔(2) پر عمل کی نیت سے (ایک یا حسبِ توفیق) یہ کتاب خرید کر دوسروں کو تحفۃً دوں گا (14) دوسروں کو یہ کتاب پڑھنے کی ترغیب دلاؤں گا۔(15)اس کتاب کا ثواب پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی ساری امت کو ایصال کروں گا۔(16) کتاب مکمل پڑھنے کے لیے بہ نیت حصولِ علمِ دِین روزانہ چند صفحات پڑھ کر علمِ دِین حاصل کرنے کے ثواب کا حق دار بنوں گا۔(17)کتابت وغیرہ میں شرعی غلطی ملی تو ناشرین کو تحریری طورپر مطلع کروں گا۔ اِنْ شَآءَاللہعَزَّ وَجَلَّ (ناشرین کو کتابوں کی اَغلاط صرف زبانی بتا دینا خاص مفید نہیں ہوتا۔) اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمالمدینۃ العلمیہ
(از شیخ طریقت، امیر اہلسنّت ،بانی دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطاؔر قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ) اَ لْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی اِحْسَا نِہٖ وَبِفَضْلِ رَسُوْلِہٖ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم عاشقانِ رسول کی مَدَنی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘ نیکی کی دعوت، اِحیائے سنّت اور اشاعتِ علمِ شریعت کو دنیا بھر میں عام کرنے کا عزمِ مُصمّم رکھتی ہے، اِن تمام اُمور کو بحسنِ خوبی سر انجام دینے کے لئے متعدد مجالس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جن میں سے ایک’’ المدینۃ العلمیۃ ‘‘بھی ہے جو دعوتِ اسلامی کے عُلماء و مُفتیانِ کرام کَثَّرھُمُ اللّٰہُ تَعَالٰی پر مشتمل ہے، جس نے خالص علمی، تحقیقی او راشاعتی کام کا بیڑا اٹھایا ہے، اِس کے مندرجہ ذیل چھ شعبے(3) ہیں: (1)شعبہ ٔکتُبِ اعلیٰ حضرت (2)شعبہ ٔ درسی کُتُب (3)شعبہ ٔ اصلاحی کُتُب (4)شعبہ ٔ تراجمِ کتب (5)شعبہ ٔ تفتیشِ کُتُب (6)شعبہ ٔ تخریج ’’ المدینۃ العلمیۃ ‘‘کی اوّلین ترجیح سرکارِ اعلی حضرت اِمامِ اَہلسنّت،عظیم البَرَکت، عظیم المرتبت، پروانۂ شمعِ رِسالت، مُجَدِّدِ دین و مِلَّت، حامی سنّت، ماحی بِدعت، عالم شریعت، پیرطریقت، باعثِ خیر و بَرَکت، حضرتِ علامہ مولانا الحاج الحافِظ القاری شاہ امام اَحمد رَضا خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی گِراں مایہ تصانیف کو عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق حتَّی الْوَسْعْ سَہْل اُسلُوب میں پیش کرنا ہے۔ تمام اسلامی بھائی اور اسلامی بہنیں اِس عِلمی،تحقیقی اور اِشاعتی مدنی کام میں ہر ممکن تعاون فرمائیں اور مجلس کی طرف سے شائع ہونے والی کُتب کا خود بھی مطالَعہ فرمائیں اور دوسروں کو بھی اِس کی ترغیب دلائیں۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی تمام مجالس بَشُمُول ’’ المدینۃ العلمیۃ ‘‘کو دن گیارہویں اور رات بارہویں ترقّی عطا فرمائے اور ہمارے ہر عملِ خیر کو زیورِ اِخلاص سے آراستہ فرما کر دونوں جہاں کی بھلائی کا سبب بنائے۔ ہمیں زیرِ گنبدِخضراء شہادت، جنّت البقیع میں مدفن اور جنّت الفردوس میں جگہ نصیب فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم رمضان المبارک۱۴۲۵ھپیش لفظ
اِمَام اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی وہ عظیم بزرگ ہیں جنہوں نے حضور نبی رحمت شفیعِ اُمَّت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اَفعال واَقوال کو اپنی مایہ ناز ومشہورِ زمانہ تصنیف’’ریاض الصالحین‘‘میں نہایت ہی اَحسن انداز سے پیش کیا ہے۔اس کتاب میں کہیں مُنْجِیَات (یعنی نجات دلانے والے اَعمال) مثلاً اِخلاص، صبر، اِیثار، توبہ، توکُّل، قناعت، بُردباری، صلہ ٔ رحمی،خوفِ خدا، یقین اورتقویٰ وغیرہ کا بیان ہے تو کہیں مُہلِکات (یعنی ہلاک کرنے والے اَعمال)مثلاً جھوٹ ، غیبت، چغلی وغیرہ کا بیان۔ یہ کتاب راہِ حق کے سَالِکِیْن کے لئے مَشعلِ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ احادیث کی اس عظیم کتاب کی اسی افا دِیت کے پیشِ نظر تبلیغِ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک ’’دعوتِ اسلامی‘‘ کی مجلس المدینۃ العلمیۃ نے اس کے ترجمے وشرح کا بیڑا اُٹھایا تاکہ عوام وخواص اس نہایت ہی قیمتی علمی خزانے سے مالا مال ہو سکیں، چنانچہ مجلس المدینۃ العلمیۃ نے یہ عظیم کام’’شعبہ ٔفیضانِ حدیث‘‘ کو سونپا۔ اس شعبے کے اسلامی بھائیوں نے خالقِ کائنات پر بھروسہ کر کے فی الفور کام شروع کردیا، بِحَمْدِ اللہِ تَعَالٰی قلیل عرصے میں اِس کی پہلی جلد مکمل ہوکر زیور طبع سے آراستہ ہوگئی۔ریاض الصالحین کے اس ترجمے وشرح کا نام شیخِ طریقت امیرِ اہلسنت بانی دعوتِ اسلامی حضرت علامہ ومولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے ’’ اَنْوَارُ الْمُتَّقِیْن شَرْحُ رِیَاضِ الصَّالِحِیْن المعروف فیضانِ ریاض الصالحین‘‘رکھاہے۔چھ جلدیں طبع ہوچکی ہیں۔ ’’فیضانِ ریاض الصالحین‘‘(جلدہفتم)آپ کے ہاتھوں میں ہے،جو55اَبواب اور362اَحادیث پرمشتمل ہے، واضح رہے کہ اَبواب اور اَحادیث کی نمبرنگ ترتیب وارپچھلی جلدوں کے اِعتبار سے کی گئی ہے۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہعَزَّ وَجَلَّ اس جلد پر المدینۃ العلمیۃ کے شعبۂ فیضان حدیث کے بالخصوص ان مدنی علمائے کرام کَثَّرَ ھُمُ اللہُ السَّلَام نے خوب خوشش کی: (1)سیدابوطلحہ محمد سجاد عطاری مدنی (2)سیدمنیررضا عطاری مدنی (3) ملک محمد علی رضا عطاری مدنی (4)محمد جان رضا عطاری مدنی (5)عبدالعزیز عطاری مدنی (6)ابوالجوادسراج احمد سَلَّمَہُمُ اللہُ الْغَنِی ۔ ’’فیضانِ ریاض الصالحین ‘‘(جلدہفتم)پرکام کی تفصیل درج ذیل ہے: (1)ہرباب کے شروع میں تمہیدونئے صفحے سے ابتداء، تمام ابواب، آیات، احادیث کی نمبرنگ، آیات کی سافٹ ویئر سے پیسٹنگ وحتی المقدور ترجمہ ٔکنزالایمان کا التزام کیا گیا ہے۔(2)اَحادیث کی آسان شرح،بعض اَحادیث کی باب کے ساتھ مطابقت، بامحاورہ ترجمہ، موقع کی مناسبت سے شرح میں ترغیبی وترہیبی و دعائیہ کلمات اور بعض جگہ مختلف الفاظ کے معانی بھی دیے گئے ہیں۔(3)مکرراحادیث میں مناسبت والے مواد کو تفصیلاً اور دیگرمواد کو اجمالاً بیان کرکے پچھلے باب یا جلد کی تفصیلی شرح کی طرف نشاندہی کردی گئی ہے۔(4)احادیث کی شرح کے بعد آخر میں مدنی گلدستے کی صورت میں اُن کا خلاصہ،اصل ماخذ تک پہنچنے کے لیے آیات، اَحادیث و دیگر مواد کی مکمل تخریج بھی کردی گئی ہے۔(5)اجمالی وتفصیلی فہرست کے ساتھ آخر میں ماخذومراجع بھی دیے گئے ہیں، نیزکئی بار پروف ریڈنگ کے ساتھ ساتھ مفتیانِ کرام سے اس کی شرعی تفتیش بھی کروائی گئی ہے۔(6)واضح رہے کہ فیضانِ ریاض الصالحین جلدہفتم میں بھی عمومی طور پر سابقہ جلدوں کے مدنی پھولوں کے مطابق ہی کام کیا گیا ہے البتہ اِختصار کے پیش نظر بعض جگہ مکررات کو حذف کردیا گیاہے۔بعض اَبواب میں چنداَحادیث کی ایک ساتھ شرح بھی بیان کی گئی ہے۔نیزفارمیشن میں بھی اِس بات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے کہ کم سے کم صفحات میں زیادہ سے زیادہ مواد آجائے۔ اِن تمام کوششوں کے باوجود اِس کتاب میں جو بھی خوبیاں ہیں وہ یقیناً اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے فضل وکرم اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی عطا،اولیائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کی عنایت اور امیرِ اہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی پُرخلوص دعاؤں کا نتیجہ ہیں اورجو بھی خامیاں ہوں ان میں ہماری کوتاہ فہمی کا دخل ہے۔پوری کوشش کی گئی ہے کہ یہ کتاب خوب سے خوب تر ہو لیکن پھر بھی غلطی کااِمکان باقی ہے، اہل ِعلم حضرات سے درخواست ہے کہ اپنے مفید مشوروں اور قیمتی آراء سے ہماری حوصلہ اَفزائی فرمائیں اور اِس کتاب میں جہاں کہیں غلطی پائیں ہمیں تحریری طور پر ضرور آگاہ فرمائیں۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّ ہماری اِس کاوِش کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور اِسے ہماری بخشش ونجات کا ذریعہ بنائے ۔ آمین شعبہ ٔفیضانِ حد یث،مجلس المد ینۃ العلمیۃ رمضان المبارک۱۴۴۰ہجری بمطابق مئی2019عیسویکتاب الفضائل
باب نمبر:180 قرآن کی شفاعت:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!قرآنِ پاک پڑھنے پڑھانے کے بہت فضائل ہیں۔قرآن کو دیکھنا، چھونا، اس میں غوروفکر کرنا بھی ثواب ہے۔یہ قرآن ہدایت کا سرچشمہ، دِینِ اسلام اور شریعتِ محمدی کی بنیاداور واضح برہان ہے۔یہ بادشاہ کے لیے قانون،غازی کے لیے تلوار،بیمار کے لیے شفا،بے ایمان کے لیے ہدایت،مردہ دل کے لیے زندگی،قلبِ غافل کے لیے تنبیہ،گمراہوں کے لیے مشعلِ راہ اور زنگ آلود دل کے لیے صفائی ہے۔یہ وہ کلامِ الٰہی ہے جو اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت اور انہیں بلنددرجات پر فائز کرے گا۔چونکہ یہ تمام کلاموں سے افضل ہے لہٰذا اس کی تعلیم تمام کاموں سے بہتراور اسے سیکھنا بڑے اجرو ثواب کا باعِث ہے ۔قرآنِ پاک کےعالِم کا درجہ تو بہت زیادہ ہے کہ وہ بروزِ قیامت انبیاء اور مُکَرَّم فرشتوں کے ساتھ ہوگا لیکن جو اٹک کر پڑھتا ہے اور اُسے پڑھنے میں مشکل پیش آتی ہے وہ بھی اجرو ثواب سے محروم نہیں بلکہ اس کے لیے دُگنا اجر ہے۔قرآن پڑھنے والے مومن کی مثال حدیث پاک میں ایسے پھل کے ساتھ دی گئی ہے جس کی خوشبو بھی اچھی اور ذائقہ بھی عمدہ ہے۔(4)الغرض قرآنِ پاک پڑھنے کے احادیث میں بہت فضائل بیان فرمائے گئے ہیں۔ریاض الصالحین کا یہ باب بھی”قرآنِ پاک پڑھنے کی فضیلت‘‘کے بارےمیں ہے۔ اِمَام اَبُوزَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی نے اِس باب میں 11اَحادیثِ مبارکہ بیان فرمائی ہیں۔حدیث نمبر:991 قرآن کی شفاعت قبول ہے:
عَنْ اَبِیْ اُمَامَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ :سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : اِقْرَءُوا الْقُرْآنَ فَاِنَّهُ يَاْتِىْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيْعًا لِاَصْحَابِهِ. (5) ترجمہ:حضرت سَیِّدُناابوامامہ رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ میں نےحضور نبی پاک صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو فرماتے ہوئے سنا:”قرآنِ پاک پڑھو بے شک یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کا سفارشی بن کر آئے گا۔“قرآن کی شفاعت:
عَلَّامَہ مُحَمَّد بِنْ عَلَّان شَافِعِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اﷲ الْقَوِی فرماتے ہیں:”قرآن پاک قیامت کے دن ایک شکل میں آئے گاجسے لوگ دیکھ رہے ہوں گے اور وہ اپنے پڑھنے والوں،اس میں مشغول رہنے والوں، اس سے ہدایت حاصل کرنے والوں اور اس کے اَحکامات پر عمل کرنے والوں کے لئے شفاعت کرے گا۔“(6) مُفَسِّرِ شہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں:”قرآن کی شفاعت بقدرِتعلق ہوگی۔ ظاہرِ قرآن والوں کی شفاعت اور قِسم کی کرے گا اور باطِنِ قرآن سے تعلق رکھنے والوں کی شفاعت اور قِسم کی کرے گا۔“(7)ایک جگہ فرماتے ہیں:” قیامت میں قرآن شریف کی ایک شکل وصورت ہوگی وہ اپنے عاملوں(عمل کرنے والوں) کی شفاعت اور غافلوں کی شکایت کرے گا۔“(8)قرآن کی شفاعت قبول ہے:
حضرت سیِّدُنا عبد اﷲ بن مسعود رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی پاک صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا:قرآن شفاعت کرنےوالاہےاس کی شفاعت قبول ہےاورایسا جھگڑنے والا ہے جس کی مانی جائےگی جس نے اس کو آگے رکھا یہ اسے جنت میں لے جائے گا اور جس نے اسے پسِ پُشت ڈال دیا یہ اسے جہنم میں پھینک دے گا۔(9) مدنی گلدستہ ’’قرآن‘‘کے4حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اس کی وضاحت سے ملنے والے4مدنی پھول (1) قرآن پاک کی قیامت کے دن ایک شکل وصورت ہوگی اور وہ قرآن پڑھنے اور اس پر عمل کرنے والوں کی شفاعت کرے گا۔ (2) قرآن کی شفاعت بقدرِتعلق ہوگی۔ (3) قرآن غافلوں کی شکایت کرے گا۔ (4) قرآن کی شفاعت مقبول اور اس کی بات مانی جائے گی۔ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنِ پاک کا عامل بنائے اور قرآن کی شفاعت سے بہرہ مندفرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدحدیث نمبر:992سورۂ بقرہ و آلِ عمران کی شفاعت
عَنِ النَّوَّاسِ بْنِ سَمْعَانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ :سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : يُؤْتَى يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِالقُرْآنِ وَاَهْلِهِ الَّذِيْنَ كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ بِهِ فِي الدُّنْيَا تَقْدُمُهُ سُوْرَةُ الْبَقَرَةِ وَآلِ عِمْرَانَ تُحَاجَّانِ عَنْ صَاحِبِهِمَا. (10) ترجمہ:حضرت سَیِّدُنانَوَّاس بن سَمْعان رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حُضور نبی کریم صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو فرماتے ہوئے سنا:”قیامت کے دن قرآنِ پاک اور اس پر عمل کرنے والوں کویوں لایا جائے گاکہ سورۂ بقرہ وآلِ عمران آگے ہوں گی اور اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے جھگڑا کریں گی۔“جھگڑنے سے مراد:
مُفَسِّرِشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں:”(یہ سورتیں)یا تو اس کے دشمنوں سے جھگڑا کریں گی یا عذاب کے فرشتوں سے جھگڑکر اسے چھڑائیں گی یا خود رب تعالیٰ سے جھگڑ جھگڑ کر اسے بخشوائیں گی مگر یہ جھگڑا ناز کا ہوگا ۔“(11)مزید آگے چل کر فرماتے ہیں: ”(بروزِ قیامت)یہ سورتیں بعض بڑے مخلصین کے لیے سفید بادل کی طرح اور ان سے کم درجہ والوں کے لیے سیاہ شامیانہ کی طرح اوپر سایہ کئے ہوں گی،جن سے یہ لوگ گرمیٔ محشر سے محفوظ ہوں گے ۔یہ بادل و شامیانے ان لوگوں کے ساتھ چلتے ہوں گے تمام محشر والے انہیں دیکھتے ہی پہچان لیں گے کہ یہ حضرات قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے والے اور اس پر عمل کرنے والے ہیں۔“(12)سورۂ بقرہ وآلِ عمران کے آگے ہونے کی وجہ:
اِمَام شَرَفُ الدِّیْن حُسَیْن بِنْ مُحَمَّدطِیْبِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اﷲ الْقَوِی فرماتے ہیں:”اس حدیث پاک میں اس بات کا اعلان ہے کہ جو قرآن پڑھے اور اس پر عمل نہ کرے ،اس کے حرام کو حرام نہ جانے،اس کے حلال کو حلال نہ سمجھے اور اس کی عظمت کا اعتقاد نہ رکھے تو قرآن پاک قیامت کے دن اس کی شفاعت نہ کرے گا۔سورۂ بقرہ وآلِ عمران کے قرآن کے آگے ہونے میں اس بات پر دلیل ہے کہ یہ دونوں سورتیں دوسروں سے بہت عظیم ہیں کیونکہ یہ طویل ہیں اور ان میں بہت سے احکامات ہیں۔“(13)سورۂ بقرہ کے فضائل:
اَحادیث میں سورۂ بقرہ کے بہت سےفضائل بیان کئے گئے ہیں،پانچ فرامینِ مصطفےٰ صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم :(1)”سورۂ بقرہ پڑھا کرو کیونکہ ا س کو پڑھتے رہنے میں برکت ہے اور نہ پڑھنے میں (ثواب سے محروم رہ جانے پر) حسرت ہے اور جادو گر اس کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔“(14) (2)’’اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ(یعنی اپنے گھروں میں عبادت کیا کرو) اور شیطان ا س گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے۔“(15)(3)”جو شخص رات کو سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھ لے گا تو وہ اسے(آفات سے) کافی ہوں گی۔“(16)(4)’’ہر چیز کی ایک بلندی ہے اور قرآن کی بلندی سورہ ٔ بقرہ ہے، اس میں ایک آیت ہے جو قرآن کی(تمام )آیتوں کی سردار ہے اور وہ آیت الکرسی ہے۔“(17)(5)’’جس نے دن کے وقت اپنے گھر میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی تو تین دن تک شیطان اس کے گھر کے قریب نہیں آئے گا اورجس نے رات کے وقت اپنے گھر میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی تو تین راتیں ا س گھر میں شیطان داخل نہ ہو گا ۔“(18)سورۂ آلِ عمران کے فضائل:
اس سورت کےمختلف فضائل بیان کیے گئے ہیں جن میں سے دو فضائل درج ذیل ہیں:(1)حضرت سَیِّدُناعثمان بن عفان رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں:’’جو شخص ر ات میں سورۂ آلِ عمر ان کی آخری (گیارہ) آیتیں پڑھے گا تو اس کے لیے پوری رات عبادت کرنے کا ثواب لکھا جائے گا۔“(19)(2)حضرت سَیِّدُنا مکحول رَحْمَۃُ اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:’’جو شخص جمعہ کے دن سورۂ آلِ عمران کی تلاوت کرتا ہے تو رات تک فرشتے اس کے لئے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔“(20)مدنی گلدستہ
’’البقرہ‘‘کے6حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اس کی وضاحت سے ملنے والے6مدنی پھول (1) قرآنِ پاک پر عمل کرنے والوں کےلئے سورۂ بقرہ وآلِ عمران شفاعت کریں گی اور ان پر محشر کی گرمی میں سایہ کئے ہوں گی۔ (2) سورۂ بقرہ پڑھنے سے برکت ہوتی ہے اور شیطان ا س گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے (3) رات کو سورۂ بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھنے سے آفات سے حفاظت رہتی ہے۔ (4) آیت الکرسی قرآن کی تمام آیتوں کی سردار ہے۔ (5) جو ر ات میں سورۂ آلِ عمر ان کی آخری گیارہ آیتیں پڑھے گا تو اس کے لیے پوری رات عبادت کرنے کا ثواب لکھا جائے گا۔ (6) جمعہ کے دن سورۂ آلِ عمران کی تلاوت کرنے والے کے لئے رات تک فرشتے دعائیں کرتے رہتے ہیں۔ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن پاک بالخصوص سورۂ بقرہ اور آلِ عمران کی تلاوت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کی برکتوں سے مالا مال کرے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدحدیث نمبر:993 قرآن سیکھنے اور سکھانے کی فضیلت
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِیَ اﷲ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ. (21) ترجمہ:حضرت سَیِّدُناعثمانِ غنی رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ رسولِ مقبول صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:”تم میں سے بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ “قرآن سیکھنے سکھانے سے مراد:
مُفَسِّر شہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْر حَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں:”قرآن سیکھنے سکھانے میں بہت وُسعت ہے، بچوں کو قرآن کے ہجے روزانہ سکھانا،قاریوں کا تجوید سیکھنا سکھانا،علما کا قرآنی اَحکام بذریعۂ حدیث وفقہ سیکھنا سکھانا، صوفیائے کرام کا اَسرار و رُموزِ قرآن بسلسلۂ طریقت سیکھنا سکھانا، سب قرآن ہی کی تعلیم ہے۔ صرف الفاظِ قرآن کی تعلیم مراد نہیں،لہٰذا یہ حدیث فقہا کے اس فرمان کے خلاف نہیں کہ فقہ سیکھنا تلاوتِ قرآن سے افضل ہے کیونکہ فقہ اَحکامِ قرآن ہے اور تلاوت میں الفاظِ قرآن چونکہ کَلامُ اﷲ تمام کلاموں سے افضل ہے لہٰذا اس کی تعلیم تمام کاموں سے بہتر اور اسرار ِقرآن الفاظِ قرآن سے افضل ہیں کہ الفاظِ قرآن کا نزول حضورِ انور صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے کان مبارک پر ہوا اور اَسرار و اَحکام کا نزول حضورِ انور صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے دِل پرہوا۔تلاوت سے عِلمِ فقہ افضل، رب تعالیٰ فرماتا ہے:﴿ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰى قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ ﴾( پ ۱ ،البقرۃ: ۹۷)(ترجمۂکنزالایمان:تواس(جبریل)نے تو تمہارے دل پر اﷲ کے حکم سے یہ قرآن اتارا۔)عمل بالقرآن علمِ قرآن کے بعد ہے لہٰذا عالِم عامِل سے افضل ہے۔آدم عَلَیْہِ السَّلَام عالِم تھے فرشتے عامِل مگر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام افضل و مسجود رہے۔“(22)قرآن پڑھنا افضل ہے یا فقہ سیکھنا؟
علامہ غلام رسول رضوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اﷲ الْقَوِی فرماتے ہیں:”اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآنِ کریم کا پڑھنا تمام نیک اعمال سے افضل ہےچونکہ جو شخص قرآن سیکھے اور پڑھائے وہ تمام لوگوں سے بہترین شخص ہے تو قرآن پڑھنا لازمی طور پر سب نیک اَعمال سےافضل ہوگا۔اگر یہ سوال پوچھا جائے کہ قرآن پڑھنا اور سیکھنا افضل ہے یا فقہ سیکھنا افضل ہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ ابنِ جوزی ( رَحْمَۃُ اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہ )نے کہا:ان دونوں میں سے جو لازم اور ضروری ہےوہ ہرانسان پر فرض ہے۔سارا قرآن اور ساری فقہ سیکھنا فرضِ کفایہ ہے،جب بعض لوگ سیکھ لیں تو باقی لوگوں سے اس کی فرضیت ساقط ہوجاتی ہے۔اگر لوگوں کے حق میں قدرِ واجب پر اِن دونوں میں سے زیادہ میں کلام کریں(یعنی قدرِ واجب کے بعد ان دونوں میں سے کون افضل ہے؟)تو فقہ میں مشغول ہونے والا افضل ہے کیونکہ دِینی مسائل جاننے اور اسلام کی راہِ ہدایت معلوم کرنے کے لوگ محتاج ہیں۔اس سے یہ گمان نہ کرنا کہ فقہ قرآن سے افضل ہے کیونکہ نبی کریم صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے مبارک زمانہ میں قرآنِ کریم کا قاری بہت بڑا فقیہہ ہوتا تھا اس لیے نماز میں قاری کو مُقَدَّم کیا گیا ہےکیونکہ وہ فقیہہ ہونے کے علاوہ قاری بھی ہے۔“(23)مدنی گلدستہ
’’تلاوت‘‘کے5حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اس کی وضاحت سے ملنے والے5مدنی پھول (1) بچوں کو قرآن کے ہجے سکھانا،قاریوں کا تجوید سیکھنا سکھانا،علما کا قرآنی اَحکام بذریعۂ حدیث وفقہ سیکھنا سکھانا، صوفیائے کرام کا اَسرار ورُمُوزِقرآن بسلسلہ ٔطریقت سیکھنا سکھانا، سب قرآن ہی کی تعلیم ہے۔ (2) فقہ سیکھنا تلاوت قرآن سے افضل ہے کیونکہ فقہ احکامِ قرآن ہے۔ (3) اسرارِ قرآن الفاظِ قرآن سے افضل ہیں کہ الفاظِ قرآن کا نزول حضورِ انور صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے کان مبارک پر ہوا اور اَسرار و اَحکام کا نزول حضورِ اَنور صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے دِل پرہوا۔ (4) عمل بالقرآن علمِ قرآن کے بعد ہے لہٰذا عالِم عابِد سے افضل ہے ۔ (5) بقدرِضرورت قرآن اور فقہ سیکھنا ہرمسلمان پر فرضِ عین ہے اور سارا قرآن اور ساری فقہ سیکھنا فرضِ کفایہ ہے۔ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن پڑھنے،سمجھنے اور دوسروں کو پڑھانے،سمجھانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدحدیث نمبر:994 ماہِرِ قرآن کی فضیلت
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الَّذِي يَقْرَاُ الْقُرْآنَ وَهُوَ مَاهِرٌ بِهِ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ وَالَّذِي يَقْرَاُ الْقُرْآنَ وَيَتَتَعْتَعُ فِيْهِ وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌّ لَهُ اَجْرَانِ. (24) ترجمہ:اُمُّ المومنین حضرت سَیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ رسولِ پاک صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:”جو شخص قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس میں ماہر ہے وہ معزز فرشتوں اور محترم ومُعَظَّم نبیوں کے ساتھ ہوگااور جو قرآن پڑھتا اور اس میں اٹکتا ہے اور پڑھنےمیں اسے مشکل پیش آتی ہے تو اُس کے لیے دُگنا ثواب ہے۔“ماہرِ قرآن کون؟
مُفَسِّرِشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْر حَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں:”قرآن کریم کا ماہروہ عالِم ہے جو الفاظِ قرآن،معانی ومسائلِ قرآن،اَسرار ورُمُوزِ قرآن کا واقف ہو۔ سُبْحَانَ اﷲ عالِم بالقرآن کا تووہ مرتبہ ہے جو ابھی (حدیث میں)ذِکر ہوااورجوکُند ذہن،موٹی زبان(یعنی حروف والفاظ صحیح ادا نہ کرسکنے) والا قر آنِ پاک سیکھ تو نہ سکے مگر کوشش میں لگا رہے کہ مرتے دم تک کوشش کئے جائے وہ ڈبل ثواب کا مستحق ہے،شوق محنت(کی وجہ سے)۔خیال رہے کہ یہ دوگنا ثواب عالِمِ قرآن کے مقابلہ میں نہیں ہے،عالِمِ قر آن تو فرشتوں نبیوں اور صحابہ کے ساتھ ہے بلکہ اس کے مقابلہ میں ہے جو بے تکلف قرآن پڑھ کر بس کردے۔“(25)ملائکہ اور انبیا کا ساتھ:
شیخ عبدالحق مُحَدِّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اﷲ الْقَوِی مذکورہ حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:”جو بندہ حفظ وتجویدِ قرآن میں تیز ،اسے اچھی طرح جاننے والا اور ماہر ہو وہ ملائکہ اور انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے ساتھ ہے کہ یہ حضرات بزرگ و نیکوکار لوگ ہیں چونکہ یہ شخص دنیا میں ان جیسے نیک کام کرنے والا ہے تو دنیا میں عمل کی صورت میں ان کے ساتھ ہےاور آخرت میں بھی ان کا رفیق اور ساتھی ہوگا۔جوشخص قرآن اٹک کر پڑھتا ہے اگرچہ قرآن کا ماہر اور جامع عالِم اس سے افضل واکمل ہےمگر مشقت ودِقّت اٹھانے کے لحاظ سے اس دوسرے شخص کوبھی فضیلت حاصل ہے اور اجروثواب بھی۔اس سے حضور اکرم صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مراد ایسے شخص کوتسلی دینا ،اسے ثابت قدم رکھنا اور ریاضت ومشقت پر قائم (پابند)کرنا ہے۔“(26)مدنی گلدستہ
’’رُسُل‘‘کے3حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اس کی وضاحت سے ملنے والے3مدنی پھول (1) قرآنِ پاک کاماہر عالِم مکرَّم فرشتوں اور انبیائے کرام عَلَیْہِمُ السَّلَام کے ساتھ ہوگا۔ (2) قرآنِ کریم کا ماہروہ عالِم ہے جو اَلفاظِ قرآن،مَعانی ومَسائلِ قرآن اَسرار و رُمُوزِقرآن کا واقف ہو۔ (3) جو قرآن اٹک اٹک کرپڑھتا ہے اور اُسے پڑھنے میں مشکل پیش آتی ہے تو اُس کے لئے دُگنا ثواب ہے۔ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن کا عالِم اور ماہر بنائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدحدیث نمبر:995 قرآن پڑھنے والے مومن کی مثال
عَنْ اَبِيْ مُوْسَى الْاَشْعَرِيْ رَضِيَ الله عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي يَقْرَاُالْقُرْآنَ مَثَلُ الْاُتْرُجَّةِ رِيْحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا طَيِّبٌ وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يَقْرَاُ القُرْآنَ كَمَثَلِ التَّمْرَةِ لَارِيْحَ لَهَا وَطَعْمُهَا حُلْوٌ وَمَثلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي يَقْرَاُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الرَّيْحَانَةِ رِيْحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِيْ لاَ يَقْرَاُ الْقُرْاٰنَ كَمَثَلِِ الْحَنْظَلَةِ لَيْسَ لَهَا رِيْحٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ. (27) ترجمہ:حضرت سَیِّدُناابو موسٰی اَشعری رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتےہیں کہ حُضورِ انور صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:”قرآن پڑھنے والے مومن کی مثال نارنگی کی طرح ہے جس کی خوشبو بھی اچھی اور ذائقہ بھی عمدہ ہےاور قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال کھجور کی طرح ہے جس کی خوشبو نہیں لیکن ذائقہ میٹھا ہے۔قرآن پڑھنے والے منافق کی مثال پھول کی طرح ہے جس کی خوشبو اچھی اور ذائقہ کڑوا ہےاورقرآن نہ پڑھنے والے منافق کی مثال اندرائن کی طرح ہے جس کی خوشبو اچھی نہیں اور ذائقہ کڑوا ہے۔“نارنگی سے تشبیہ دینے کی وجہ:
عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اﷲ الْغَنِی فرماتے ہیں:”قرآن پاک پڑھنے والے مومن کو نارنگی کے ساتھ اس لیے تشبیہ دی گئی ہے کہ یہ تمام شہروں میں پائے جانے والے پھلوں میں سب سے بہترین پھل ہے۔اس میں بکثرت صفات مطلوبہ اور خواص ہیں ۔مثلاً اس کا سائز بڑا ہوتا ہے اور دیکھنے میں خوبصورت لگتا ہے،اس کا ذائقہ اچھا اور چھونے میں نرم ہوتا ہے،اس کا رنگ ایسا ہوتا ہے جسے دیکھ کر دیکھنے والے خوش ہوتے ہیں اور طبیعت اس کی طرف مائل ہوتی ہے۔ا سے کھانےسے لذت اور عمدہ مہک کے ساتھ ساتھ معدے اور نظامِ ہضم کی بھی اصلاح ہوتی ہے۔اس سےدیکھنے ،چکھنے،سونگھنے اور چُھونے کی قوت میں تقویت حاصل ہوتی ہے۔یہی نہیں بلکہ اس کے اَجزا کی بھی مختلف تاثیرات ہیں ۔اس کا چھلکا گرم خشک،اس کا گودا گرم تراور اس کی کھٹاس سرد خشک ہے اور اس میں مزید بہت سے فوائد بھی ہیں۔“(28) عَلَّامَہ حَافِظ اِبنِ حَجَر عَسْقَلَانِی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں:”حضور نبی کریم صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ایمان کی صفت کو ذائقہ سے اور تلاوت کو خوشبو سے مخصوص کیا ہےکیونکہ ایمان مومن کو قرآن سے زیادہ لازم ہےیہی وجہ ہے کہ قرآن پڑھے بغیر بھی ایمان کا حصول ممکن ہے۔یونہی ذائقہ جَوہَر(چیزواصل) کے لیے خوشبو سے زیادہ لازم ہےکہ کبھی جوہر کی خوشبو چلی جاتی ہے اور ذائقہ باقی رہتا ہے۔ دوسرے پھلوں کو چھوڑ کرنارنگی کے ساتھ مثال دینے کی حکمت یہ ہے کہ نارنگی کی خوشبو بھی اچھی اور اس کا ذائقہ بھی عمدہ ہے۔ اس کے چھلکوں سے دوائی بنائی جاتی ہے جو فرحت بخش ہوتی ہےاور اس کے بیج سے تیل نکلتا ہے جس کے بہت سے فوائد ہیں۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس گھر میں نارنگی ہوں جنات اس گھر کے قریب نہیں جاتے لہٰذا نارنگی کے ساتھ تشبیہ دینا مناسب تھا کہ جس گھر میں قرآن پڑھا جاتا ہے وہاں شیاطین نہیں جاتےاور اس کے بیج کا غلاف سفید ہے جس سے مومن کے دل کی مناسبت ہے۔“(29)کلامِ مجید کا بندے کے ظاہروباطن پر اثر:
عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اﷲ الْغَنِی فرماتے ہیں:”اس حدیثِ پاک میں حضور نبی پاک صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے معقول چیز کو محسوس چیز سے تشبیہ دی ہے۔ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ کے کلامِ مجید کا بندے کے ظاہر اور باطن پر اثر ہوتا ہے اور بندے اس تاثیر کے حوالے سے مختلف ہیں۔کسی کو اس تاثیر سے وافر حصہ ملتا ہے اور وہ مومن قاری ہے،کسی کو اس میں سے کچھ حصہ نہیں ملتا اور وہ منافق حقیقی ہے۔کوئی وہ ہے جس کے ظاہر پر اثر ہوتا ہے لیکن باطن پر نہیں اور وہ ریاکار ہے اور کسی کے باطن پر اثر ہوتا ہے لیکن ظاہر پر نہیں اور وہ قرآن نہ پڑھنے والا مومن ہے۔“(30) مُفَسِّرِشہِیر مُحَدِّثِ کَبِیْر حَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں:”اس حدیث سے چند مسئلے معلوم ہوئے،ایک یہ کہ تلاوتِ قرآن کا اثر ظاہر و باطن میں ہوتا ہے کہ اس سے زبان، کان،دل،دماغ ایمان سب ہی تازہ ہوتے ہیں۔دوسرے یہ کہ قرآنِ پاک کی تاثیر یں مختلف ہیں جیسے پڑھنے والے کی زبان ویسے ہی تاثیرِ قرآن۔حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رَحْمَۃُ اﷲ عَلَیْہ نے انڈے پر” قُلْ ھُوَ اﷲ “پڑھ کر دم کردیا تو سونا ہوگیااور فرمایا کہ کلامِ رَبَّانی کے ساتھ زبانِ فرید ہونی چاہیے۔ دیکھو یہاں مؤمن ومنافق کی تلاوتوں میں فرق فرمایا گیا پھر جیسا مؤمن ویسی ہی تلاوت کی تاثیر۔ تیسرے یہ کہ ہر تلاوتِ قرآن کرنے والے سے دھوکہ نہ کھاؤ ان میں کبھی منافق بھی ہوتے ہیں۔تلاوت والے کے دل کی سوئی اگر شیطان کی طرف لگی ہوئی ہے تو اس کے سامنے تو قرآن ہوگا مگر اس کے منہ سے شیطان بولے گا اور اگر دل کی سوئی مدینہ پاک کی طرف ہے تو اِنْ شَآءَاﷲ زبان سے مدینہ کے فیضان نکلیں گے۔(31)مدنی گلدستہ
’’مومن‘‘کے4حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اس کی وضاحت سے ملنے والے4مدنی پھول (1) قرآن پڑھنے والے مومن کی مثال نارنگی جیسے خوشبودار پھل کی طرح ہے جس کا ذائقہ عمدہ ہے جبکہ قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال کھجور کی طرح ہے جس میں خوشبوتو نہیں لیکن مٹھاس ہے۔ (2) قرآن پاک پڑھنے والے مومن کو نارنگی کے ساتھ اس لیے تشبیہ دی گئی ہے کہ یہ پھلوں میں سب سےبہترین پھل ہے اور اس کے بہت سے فوائد ہیں۔ (3) تلاوت قرآن کا اثر ظاہر و باطن میں ہوتا ہے کہ اس سے زبان، کان،دل،دماغ اور ایمان سب ہی تازہ ہوتے ہیں۔ (4) قرآنِ پاک کی تاثیر یں مختلف ہیں جیسے پڑھنے والے کی زبان ویسی ہی تاثیر چنانچہ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رَحْمَۃُ اﷲ عَلَیْہ نے انڈے پر سورۂ اخلاص پڑھ کر دم کیا تو وہ سوناہوگیا۔ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ تلاوت قرآن کا اثر ہمارے ظاہر وباطن میں پیدا کردے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدحدیث نمبر:996 قرآن کے ذریعے بلندی اورپستی
عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِیَ اﷲ عَنْہُ اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : اِنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بِهٰذَا الْكِتَابِ اَقْوَامًا وَيَضَعُ بِهِ آخَرِيْنَ. (32) ترجمہ:حضرت سَیِّدُناعمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتےہیں کہ حُضور اکرم صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:”بلاشُبہ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ اس قرآنِ پاک کے ذریعے کچھ لوگوں کوبلندی اور کچھ کو پستی عطا کرتا ہے۔“کسے بلندی اور کسے پستی ملتی ہے؟
شیخ عبدالحق مُحَدِّث دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اﷲ الْقَوِی فرماتے ہیں:قرآن پاک ان لوگوں کوبلندی عطا کرتا ہے جو اس پر ایمان لاتے،اس پرعمل کرتے، اس کی تلاوت کرتے ہیں اور ساتھ ہی اخلاص قائم رکھتے ہیں اور جو اس کا خلاف کرتے ہیں ان لوگوں کو ذلیل وپست کرتا ہے ۔(33) اِمَام شَرَفُ الدِّیْن حُسَیْن بِنْ مُحَمَّدطِیْبِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اﷲ الْقَوِی فرماتے ہیں:جس نے قرآن پاک کو پڑھا اور خلوص کے ساتھ اس پر عمل کیا اﷲ عَزَّ وَجَلَّ اسے بلندی عطا کرے گااور جس نے ریاکاری کے لیے پڑھا اﷲ عَزَّ وَجَلَّ اسے نہایت ذلت اور پستی عطا کرے گا۔(34) مُفَسِّرِشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْر حَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں:جو مسلمان قرآنِ کر یم کو صحیح طرح سمجھیں صحیح طرح عمل کریں تو وہ دنیا و آخرت میں بلند درجے پائیں گے اور جو اس سے غافل رہیں،یا غلط طرح سمجھیں،غلط طور پر عمل کریں وہ دنیا و آخرت میں ذلیل ہوں گے۔قرآن کریم سے زندگی و موت طیب(پاکیزہ) ہوتی ہے یہ محبوبین کے لیے ماء( پانی) ہےاور مَحجوبین(غفلت ودوری میں رہنے والوں)کے لیے دِماء (خون) ہے۔اب بھی قرآن پاک کے صحیح متبع بڑی عظمت وعزت کے مالک ہیں۔(35)قاریٔ قرآن مکہ کا گورنر:
امیر المومنین حضرت سَیِّدُنَا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ کی مقامِ”عُسفان“پر حضرت سَیِّدُنَا نافع بن عبد الحارث خُزاعی رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ سے ملاقات ہوئی جو آپ کی طرف مکہ مکرمہ کے گورنر تھے۔انہیں دیکھ کر پوچھا:”تم نے اپنی غیر موجودگی میں مکہ مکرمہ کا گورنر کسے مقررکیا ہے؟“کہا:اِبنِ اَبزٰی کو۔ پوچھا:”کون ابنِ ابزٰی؟“کہا:ہمارا ایک آزاد کردہ غلام ہے۔فرمایا:”تم نے ایک غلام کو ان پر حاکم بنادیا؟“ کہا:وہ قرآن مجید کا قاری اور فرائض کا علم رکھتا ہے۔یہ سن کر حضرت سَیِّدُنَا عمر فاروق رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا:سنو!تمہارے نبی صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:”بلاشبہ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ اس قرآن پاک کے ذریعے کچھ لوگوں کوبلندی اور کچھ کو پستی عطا کرتا ہے۔“(36)مدنی گلدستہ
’’سنت‘‘کے3حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اس کی وضاحت سے ملنے والے3مدنی پھول (1) قرآن اُن لوگوں کوبلندی عطا کرتا ہے جو اُس پر ایمان لاتے،اس پرعمل کرتے، اس کی تلاوت کرتے ہیں اور ساتھ ہی اخلاص قائم رکھتے ہیں اور جو اس کے برعکس عمل کرتے ہیں ان لوگوں کو ذلیل وپست کرتا ہے ۔ (2) قرآنِ کریم سے زندگی اور موت طیب(پاکیزہ) ہوتی ہے۔ (3) حکومتی عہدے پر قاریٔ قرآن اور عالِم دِین کوفائز کرنا چاہیے۔ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآن کے ذریعے بلندی عطا کرے اور پستی سے بچائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدحدیث نمبر:997 دو چیزوں میں غبطہ
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اﷲ عَنْہُمَا عَنِ النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : قَالَ لَا حَسَدَ اِلَّا فِى اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَقُوْمُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَار. (37) ترجمہ:حضرت سَیِّدُنا عبد اﷲ بن عمر رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتےہیں کہ حُضورِ اَنور صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:”حسد نہیں مگر دو شخصوں پر ،ایک وہ جسے اﷲ عَزَّ وَجَلَّ نے قرآن کا علم دیا وہ رات دن اسے پڑھتا ہےاور دوسرا وہ شخص جسے اﷲ عَزَّ وَجَلَّ نے مال دیا وہ رات دن اس سے خیرات کرتا ہے۔“حسد سے مراد:
صدرُالشریعہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اﷲ الْقَوِی فرماتے ہیں:”(یہاں)حسد سے مراد غِبطہ ہے جس کو لوگ رشک کہتے ہیں، جس کے یہ معنیٰ ہیں کہ دوسرے کو جو نعمت ملی ویسی مجھے بھی مل جائے اوریہ آرزو نہ ہو کہ اسے نہ ملتی یا اس سے جاتی رہے اور حسد میں یہ آرزو ہوتی ہے، اسی وجہ سے حسد مذموم ہے اور غبطہ مذموم نہیں۔ (اس حدیث کے )یہ معنی ہوئے کہ یہی دوچیزیں غبطہ کرنے کی ہیں، کہ یہ دونوں خدا کی بہت بڑی نعمتیں ہیں غبطہ ان پر کرنا چاہیے نہ کہ دوسری نعمتوں پر۔“(38) مُفَسِّرِشہِیر مُحَدِّثِ کَبِیْر حَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں:”یہاں حسد بمعنی غبطہ،رشک ہے۔ حسد تو کسی پر جائز نہیں نہ دنیا دار پر نہ دِین دار پر۔شیطان کو حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلَام پر حسد ان کی دینی عظمت پر ہوا تھا نہ کہ دنیاوی مال و دولت پر،مگر مارا گیا ۔حسد کے معنیٰ ہیں دوسرے کی نعمت پر جلنا اور اس کا زوال چاہنا،رشک کے معنیٰ ہیں دوسرے کی سی نعمت اپنے لیے بھی چاہنا ۔دینی چیزوں میں رشک جائز ہے۔“(39)حضرت سَیِّدُنا میرک رَحْمَۃُ اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:حسد کی دو قسمیں ہیں: (1)حقیقی اور(2)مجازی۔ حقیقی یہ ہے کہ اپنے بھائی سے نعمت کا زوال چاہنا ۔یہ صریح حرام ہے اور مسلمانوں کا اس پر اتفاق ہے۔جو مجازی ہے وہ رشک ہے اور وہ یہ ہےکہ اپنے بھائی سے نعمت کا زوال چاہے بغیر ایسی ہی نعمت اپنے لیے چاہنا۔رشک دنیاوی اُمور میں مباح اور نیکی کے کاموں میں مستحب ہے۔(40)رات دن قرآن پڑھنے سے مراد:
حدیثِ پاک میں بیان کیا گیا کہ ”ایک وہ جسے اﷲ عَزَّ وَجَلَّ نے قرآن کا علم دیا وہ دن رات اسے پڑھتا ہے۔“یعنی عالِمِ دِین ہو دن رات نمازیں پڑھتا ہو قرآن پر عمل کرتا ہو ہر وقت اس کے مسائل سوچتا ہو،اس میں غور و تامُّل کرتا ہو،” يَقُوْمُ “(دن ورات میں اسے پڑھتا ہو)میں یہ سب کچھ داخل ہے۔مبارک ہے وہ زندگی جو قرآن و حدیث میں تامل و غور کرنے میں گزر جائے اور مبارک ہے وہ موت جو قرآن و حدیث کی خدمت میں آئے ﷲنصیب کرے۔ (41) (دوسرا وہ شخص جسے اﷲ عَزَّ وَجَلَّ نے مال دیا وہ رات دن اس سے خیرات کرتا ہے۔)چونکہ خفیہ خیرات علانیہ خیرات سے افضل ہے،اس لیے یہاں رات کا ذِکر دن سے پہلے ہوا یعنی وہ مالدار خفیہ بھی خیرات کرے اور علانیہ بھی،خیال رہے کہ سنت کی نیت سے اپنے اور اپنے بال بچوں پر خرچ کرنا بھی اسی میں داخل ہے۔“(42)مدنی گلدستہ
’’صدقہ‘‘کے4حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اس کی وضاحت سے ملنے والے4مدنی پھول (1) حسد میں یہ آرزو ہوتی ہے کہ دوسرے کو جو نعمت ملی وہ اسے نہ ملتی یا اُس سے وہ نعمت چلی جائے جبکہ رشک میں یہ خواہش ہوتی ہے کہ دوسرے کو جو نعمت ملی ہے ویسی مجھے بھی مل جائے ۔ (2) حسد حرام جبکہ رشک دنیاوی اُمور میں مباح اور نیکی کے کاموں میں مستحب ہے۔ (3) خفیہ خیرات علانیہ خیرات سے افضل ہے۔ (4) سنت کی نیت سے اپنے اور اپنے بال بچوں پر خرچ کرنا بھی خیرات میں داخل ہے۔ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں خوب قرآن پڑھنے اور خیرات کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدحدیث نمبر:998 سکینہ کا نزول
عَنِ الْبَـرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ:كَانَ رَجُلٌ يَقْرَاُ سُورَةَ الْكَهْفِ وَعِنْدَهُ فَرَسٌ مَرْبُوْطٌ بِشَطَنَيْنِ فَتَغَشَّتْهُ سَحَابَةٌ فَجَعَلَتْ تَدْنُو وَجَعَلَ فَرَسُهُ يَنْفِرُ مِنْهَا فَلَمَّا اَصْبَحَ اَتَى النَّبيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذٰلِكَ لَهُ فَقَالَ:تِلْكَ السَّكِيْنَةُ تَنَزَّلَتْ لِلقُرْآنِ. (43) ترجمہ:حضرت سَیِّدُنا براء بن عازب رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص سورۂ کہف کی تلاوت کررہا تھا اور پاس ہی اس کا گھوڑا دو لمبی رسیوں سے بندھا ہوا تھا کہ اچانک ایک بادل گھوڑے پر سایہ فگن ہوا اور قریب ہوتا گیا یہاں تک کہ گھوڑااچھلنے کودنےلگا۔صبح ہوئی تووہ شخص بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوا اور سارا واقعہ سنایا ۔نبی کریم صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:یہ سکینہ تھا جو قرآن کی وجہ سے نازل ہوا۔سورۂ کہف پڑھنے والی شخصیت:
علامہ ابو حفص عمر بن علی المعروف ابنِ مُلَقِّن رَحْمَۃُ اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں:سورۂ کہف پڑھنے والے یہ شخص حضرت سَیِّدُنَا اُسید بن حُضَیْر رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ تھے،اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انسانوں کے سوا دیگر مخلوق بھی قرآن سنتی ہے۔(44)سکینہ کیا ہے؟
شیخ عبدالحق محدث دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اﷲ الْقَوِی فرماتے ہیں:سکینہ بمعنی آرام وآہستگی اور بمعنی رحمت بھی آتا ہےاور اُس چیز پر بھی اِس کا اِطلاق ہوتا ہےجس سے سکون اور صفائی قلب حاصل ہو، جس سے نفسانی تاریکی دور ہو اور ضیائے رحمت،حضورِذوق وغنیمت نصیب ہو۔یہ سکینہ کبھی ابرِ رحمت کی شکل وغیرہ میں بھی نمودار ہوتا ہے۔(45) مُفَسِّرِشہِیر مُحَدِّثِ کَبِیْر حَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں:فرشتوں کی ایک جماعت کا نام سکینہ ہے چونکہ ان کے اترنے سے مؤمن کے دل کو سکون و چین حاصل ہوتا ہے اس لیے اسے سکینہ کہتے ہیں ۔مؤمن پر بعض خاص حالات میں بھی اور خاص عبادات کے موقعہ پربھی یہ فرشتے اترتے ہیں۔ ربّ تعالیٰ ہجرت کے غار کا واقعہ بیان فرماتے ہوئے حضرت صدیق اکبر کےمتعلق فرماتا ہے: ﴿ فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِیْنَتَهٗ عَلَیْهِ﴾ ( پ ۱۰ ،التوبۃ: ۴۰)(ترجمۂ کنزالایمان:تو اﷲ نے اس پر اپنا سکینہ (اطمینان)اتارا)صدیقِ اکبر کو اس وقت حضورِ انور صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّم کا بہت غم اور کفار کا اندیشہ تھا اسی لیے ان پر سکینہ اُتری۔خیال رہے کہ بزرگوں کے تبرکات سے بھی سکونِ قلبی نصیب ہوتا ہے انہیں بھی رب تعالیٰ نے سکینہ فرمایا ہے۔چنانچہ تابوتِ سکینہ جس میں حضرت موسیٰ و ہارون عَلَیْہِمَا السَّلَام کے تبرکات عمامہ نعلین وغیرہ تھے ان کےمتعلق ربّ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ فِیْهِ سَكِیْنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ بَقِیَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوْسٰى وَ اٰلُ هٰرُوْنَ تَحْمِلُهُ الْمَلٰٓىٕكَةُؕ- ﴾ ( پ ۲ ،البقرۃ: ۲۴۸)(ترجمۂ کنزالایمان:جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین ہے اور کچھ بچی ہوئی چیزیں معزز موسیٰ اور معزز ہارون کے ترکہ کی اٹھاتے لائیں گے اسے فرشتے۔) بعض لوگ قبروں پرتلاوتِ قرآنِ پاک کراتے ہیں تاکہ اس تلاوت سے میت کو سکونِ قلبی نصیب ہو اس کا ماخذ یہ حدیث ہے اوربعض لوگ اپنی قبروں میں اپنے بزرگوں کے تبرکات عمامہ وغیرہ اور اپنا شجرہ، آیات قرآنیہ رکھ دینے کی وصیت کرتے ہیں تاکہ سکونِ قبر میسر ہو ان کا ماخذ قرآن کریم کی مذکورہ آیت ہے۔صحابہ کرام نے اپنے کفنوں میں حضور صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے ناخن،بال تہبند شریف رکھوائے،خود حضورِ انور صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اپنی بیٹی بی بی زینب کے کفن میں اپنا تہبند شریف رکھا۔(46)بندۂ مومن کی تائید:
اِمَام شَرَفُ الدِّیْن حُسَیْن بِنْ مُحَمَّدطِیْبِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اﷲ الْقَوِی فرماتے ہیں:بندوں پر ان جیسی نشانیوں کا ظہور اﷲ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے بندۂ مومن کی تائید ہےجسے دیکھ کر مومن بندے کا یقین اور ایمان پر قلبی اطمینان بڑھتا ہے۔(47)سورۂ کہف کے دو فضائل:
دوفرامینِ مصطفےٰ صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم :(1)”جو سورۂ کہف کی ابتدائی دس آیات یاد کرے گا وہ دجال (کے فتنے)سے محفوظ رہے گا۔“ (48)(2)”جو شخص جمعہ کے دن سورۂ کہف کی تلاوت کرے گا تواس کے لئے دونوں جمعوں کے درمیان نور روشن ہوگا۔“ (49)مدنی گلدستہ
’’سکینہ‘‘کے5حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اس کی وضاحت سے ملنے والے5مدنی پھول (1) انسانوں کے سوا دیگر مخلوق بھی قرآن سنتی ہے۔ (2) فرشتوں کی ایک جماعت کا نام سکینہ ہے چونکہ ان کے اترنے سے مؤمن کے دل کو سکون و چین حاصل ہوتا ہے اس لیے اسے سکینہ کہتے ہیں۔مؤمن پر بعض خاص حالات میں بھی اور خاص عبادات کے موقعہ پربھی یہ فرشتے اترتے ہیں۔ (3) بزرگوں کے تبرکات سے بھی سکونِ قلبی نصیب ہوتا ہے انہیں بھی رب تعالیٰ نے سکینہ فرمایا ہے۔ چنانچہ تابوتِ سکینہ میں حضرت موسیٰ و ہارون عَلَیْہِمَا السَّلَام کے تبرکات عمامہ نعلین وغیرہ تھے۔ (4) صحابہ کرام نے اپنے کفنوں میں حضور صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے ناخن،بال تہبند شریف رکھوائے،خود حضورِ انور صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے اپنی بیٹی بی بی زینب کے کفن میں اپنا تہبند شریف رکھا۔ (5) سورۂ کہف کی ابتدائی دس آیات یادکرنے والا دجال کے فتنےسے محفوظ رہے گا۔ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں سورۂ کہف یاد کرنے اور اس کی تلاوت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدحدیث نمبر:999 ایک حرف پڑھنے پردس نیکیاں
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ :مَنْ قَرَاَ حَرْفًا مِّنْ كِتَابِ اللهِ فَلَهُ حَسَنَةٌ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرِ اَمْثَالِهَا لَا اَقُوْلُ : الٓـمّٓ حَرْفٌ وَلٰكِنْ اَلِفٌ حَرْفٌ وَلَا مٌ حَرْفٌ وَمِيْمٌ حَرْفٌ. (50) ترجمہ:حضرت سَیِّدُنا عبد اﷲ بن مسعود رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی کریم صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’جس نےقرآن کا ایک حرف پڑھا اس کے لیے ایک نیکی ہےاورایک نیکی دس کے برابر ہے۔میں نہیں کہتا کہ الٓمٓ ایک حرف ہےبلکہ الف ایک حرف ،لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے۔‘‘ہر نیکی کی جزا دس نیکیاں:
شیخ عبدالحق مُحَدِّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اﷲ الْقَوِی فرماتے ہیں:یہ طے شدہ بات ہے کہ ہر نیکی کی جزا کم از کم دس نیکیاں ہیں اور زیادہ کی کوئی حد نہیں ،اگر یہ سوال کیا جائے کہ یہ بات تو تمام نیکیوں میں پائی جاتی ہے پھر قرآنِ پاک کی فضیلت کہاں گئی۔اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کے ہر ایک حرف پر نیکی ملنا قرآن کی خاص نیکی ہے کہ اس کے ہر جُزپر ثواب ملتا ہے باقی اعمال میں ایک عمل پر ایک نیکی ملتی ہے نہ کہ اس کے ہر حصے پر ایک نیکی عطا ہوتی ہے ہاں وہ عمل جو چند اعمال سے مل کر پورا ہو وہاں ہرعمل پر جو اس پورے عمل کا حصہ ہوتا ہے نیکی عطا کی جاتی ہے۔(51)حرف سے مراد:
مُفَسِّرِشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْر حَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں:ظاہر یہ ہے کہ یہاں حرف سے مراد وہ حرف ہے جو جدا جدا پڑھا جائے لہٰذا الٓمّٓ تین حرف ہیں۔چنانچہ الف ایک حرف، لام ایک حرف اور میم ایک حرف۔مگرقوی تر یہ ہے کہ حرف سے مراد مُطْلَقًا حرف ہے علیحدگی کے قابل ہوں یا نہ ہوں کیونکہ حدیث پاک میں کوئی قید نہیں،لہٰذا قرآنِ کریم میں لفظ ﷲ پڑھنے سے چالیس نیکیاں ملیں گی۔ خیال رہے کہ قر آنِ پاک میں خبیث چیزوں کے نام بھی ہیں جیسے ابی لہب، ابلیس شیطان، خنزیر،وغیرہ مگر ان ناموں کی تلاوت پر بھی ثواب اسی حساب سے ہوگا کہ یہ حروف یا ان کے ترجمے بُرے نہیں،بلکہ ان کے مِصداق خبیث ہیں، یہ تحقیق خیال میں رکھی جائے۔ الف،لام،میم کو حرف فرمانا مجازًا ہے ورنہ یہ حرفوں کے نام یعنی اسمائے حروف ہیں اس میں لطیف اشارہ اس طرف ہے کہ الف میں تین حرف ہیں،ا،ل،ف مگر اس کو ہم ایک حرف ہی مانتے ہیں کہ قرآنی تلاوت میں یہ ایک حرف ہوکر آتا ہے،اگرچہ اس کے اجزا تین ہیں بعض شارحین نے کہا کہ ﴿ اَلَمْ تَرَ كَیْفَ﴾ میں اَلَمْ کی تیس نیکیاں ہیں اور ﴿الٓمّٓۚ(۱) ذٰلِكَ الْكِتٰبُ ﴾ ( پ ۱ ،البقرۃ: ۲ ، ۱)میں الٓمّٓ کی نوے نیکیاں ہیں، کیونکہ اس میں حرف نو ہیں، اسمائے حروف اگرچہ تین ہیں۔(52)ربّ تعالیٰ کافضل شمارسےباہر:
حدیثِ پاک میں بیان ہوا:”جس نے قرآن کا ایک حرف پڑھا اس کے لیے ایک نیکی ہے اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے۔“ اِس فرمان میں اس آیت کریمہ کی طرف اشارہ ہے کہ ﴿ مَنْ جَآءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهٗ عَشْرُ اَمْثَالِهَاۚ- ﴾ ( پ ۸ ،الانعام: ۱۶۰)(ترجمۂ کنزالایمان:جو ایک نیکی لائے تو اس کیلئے اس جیسی دس ہیں)یہ توادنیٰ ثواب ہے، آگے رب تعالیٰ کا فضل ہماری شمار سے باہر ہے: ﴿ وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ- ﴾ ( پ ۳ ، البقرۃ: ۲۶۱) (ترجمۂ کنزالایمان:اور اﷲ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کیلئے چاہے)مرقات میں فر مایا کہ یہ ثواب تو عام تلاوتوں کا ہے،مکہ معظمہ و مدینہ میں تلاوت کا ثواب اس حدیث سے معلوم کر و کہ مکہ معظمہ میں ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ ہے اور مدینہ پاک میں پچاس ہزار۔“(53)مدنی گلدستہ
’’اَجَر‘‘کے3حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اس کی وضاحت سے ملنے والے3مدنی پھول (1) ہر نیکی کی جزا کم از کم دس نیکیاں ہیں اور زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ (2) قرآن کے ہر ایک حرف پر نیکی ملنا قرآن کی خاص نیکی ہے کہ اس کے ہر جز پر ثواب ملتا ہے باقی اعمال میں ایک عمل پر ایک نیکی ملتی ہے نہ کہ اس کے ہر حصے پر ایک نیکی عطا ہوتی ہے۔ (3) مکہ معظمہ میں ایک نیکی کا ثواب ایک لاکھ اور مدینہ پاک میں پچاس ہزار ہے۔ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں زیادہ سے زیادہ تلاوت قرآن کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہمارے لیے خوب نیکیوں کا ذخیرہ جمع ہوسکے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدحدیث نمبر:1000 قرآن سے خالی سینہ
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ:قَالَ رَسُوْلُ الله صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اِنَّ الَّذِي لَيْسَ في جَوْ فِهِ شَيْءٌ مِنَ الْقُرْآنِ كَالبَيْتِ الْخَرِبِ. (54) ترجمہ:حضرت سَیِّدُنا عبد اﷲ بن عباس رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی پاک صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:”جس کے سینےمیں قرآن نہیں وہ ویران گھر کی طرح ہے۔“ویران گھر سے تشبیہ دینے سے مراد:
مُفَسِّرِشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں: گھر کی آبادی انسان و سامان سے ہے، دل کی آبادی قرآن سے،باطن یعنی روح کی آبادی ایمان سے تو جسے قرآن بالکل یاد نہ ہو یا اگرچہ یاد تو ہو مگر کبھی اس کی تلاوت نہ کرے یا اس کے خلاف عمل کرے اس کا دل ایسا ہی ویران ہے جیسے انسان و سامان سے خالی گھر۔شعر آباد وہ ہی دل ہےکہ جس میں تمہاری یادہے جو یاد سے غافل ہوا ویران ہے برباد ہے(55) عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِی فرماتے ہیں:قرآن کا سینے میں جمع کرنا گویا اسے آباد کرنا اور قلت وکثرت کے لحاظ سے مزین کرنا ہے۔ جب دل قرآن کی ضروری تصدیق،اسے حق سمجھنے،اس کے ذریعے اﷲ عَزَّ وَجَلَّ کی نعمتوں میں غوروفکر کرنے اور اس کی محبت وصفات میں نظر کرنے سے خالی ہوگاتو وہ دل ویران گھر کی طرح ہوگا جو خوبصورتی اور سامان سے خالی ہوتا ہے۔(56) شیخ عبدالحق مُحَدِّث دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اﷲ الْقَوِی فرماتے ہیں:ظاہراً اس حدیث سے مراد یہ ہے جسے اتنا بھی قرآن یاد نہ ہو جس سے نماز درست ہوسکے اس کا سینہ ویران گھر کی طرح ہے۔بعض علما نے اس کو عام رکھا ہے اور کہا ہے کہ ناظرہ یا حفظ کسی طرح قرآن نہ پڑھتا ہو اس کا سینہ ویران گھر کی طرح ہے۔(57)مدنی گلدستہ
’’حرم‘‘کے3حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اس کی وضاحت سے ملنے والے3مدنی پھول (1) گھر کی آبادی انسان و سامان سے،دل کی آبادی قرآن سےجبکہ روح کی آبادی ایمان سے ہے۔ (2) جسے قرآن بالکل یاد نہ ہو یا اگرچہ یاد تو ہو مگر کبھی اس کی تلاوت نہ کرے یا اس کے خلاف عمل کرے اس کا دل ایسا ہی ویران ہے جیسے انسان اور سامان سے خالی گھر۔ (3) قرآن کا سینے میں جمع کرنا گویا اسے آباد کرناہے۔ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے دلوں کو قرآن سے آباد کرے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدحدیث نمبر:1001 قرآن والے کا مقام
عَنْ عَبْدِاللهِ بْنِ عَمْرو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيَِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ:اقْرَاْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا فَاِنَّ مَنْزِلَتَكَ عِنْدَ اٰخِرِ آيَةٍ تَقْرَؤُهَا. (58) ترجمہ:حضرت سَیِّدُنا عبد اﷲ بن عَمْرو رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ارشاد ہے:”قرآن والےسے کہا جائے گاپڑھ اورترقی کرتا جا اور یوں آہستگی سے تلاوت کر جیسے دنیا میں کرتا تھاآج تیرا ٹھکانااورمقام وہاں ہے جہاں تو آخری آیت پڑھے۔“قرآن والے سے مراد:
شیخ عبدالحق مُحَدِّث دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اﷲ الْقَوِی فرماتے ہیں:قرآن والے سے وہ شخص مراد ہے جو قرآن کی تلاوت کا عادی اور اس پر عمل پیرا ہے۔اس سے کہا جائے گا: قرآن حکیم پڑھ اور جس قدر قرآنی آیات پڑھ سکتاہے درجاتِ جنت میں اوپر کو بلند ہوتا جا، پھر اگر سارا قرآن پڑھے گا تو جنت کے ان آخری درجات تک پہنچ جائے گا جو اس کے لیے تیار کئے گئے اور اس کے لائقِ حال ہوں گے۔یہ امر وحکم تمام اصحابِ قرآن کو شامل ہے خواہ انبیاء ومُرسلین ہوں یا اولیاوعلما اور دوسرے تمام صالحینِ کرام ان کے درجات کے مطابق۔(59)جنت کے6666درجات:
مُفَسِّر شہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْر حَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں:جنت کے درجات اوپر تلے ہیں جس قدر درجے کی بلندی،اسی قدر بہتر اِنْ شَآءَ اﷲ اس دن تلاوتِ قرآن مؤمن کے لیے پروں کا کام دے گی یا اس سے مراتبِ قربِ الٰہی میں ترقی کرنا مراد ہےیعنی تلاوت کرتا جا اور مجھ سے قریب تر ہوتا جا جہاں تیرا پڑھنا ختم،وہاں تیرا چڑھنا ختم،وہاں اسی قدر تلاوت کرسکے گا جس قدر تلاوت دنیا میں کرتا تھا اور جس طرح آہستہ یا جلدی یہاں تلاوت کرتا تھا اسی طرح وہاں کرے گا۔اس سے چند مسائل معلوم ہوئے:`ایک یہ کہ جنت کے چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ (6666)درجے ہیں کیونکہ قرآن کریم کی آیات(مشہورقول کے مطابق)اتنی ہی ہیں اور ہر آیت پر ایک درجہ ملتا ہے۔اگر درجے اس سے کم ہوں تو یہ حساب کیسے درست ہو اور ہر دو درجوں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا زمین و آسمان کے درمیان۔ دوسرے یہ کہ جنت میں کوئی عبادت نہ ہوگی سوائے تلاوتِ قرآن کے،مگر یہ تلاوت لذت اور ترقیٔ درجات کے لیے ہوگی جیسے فرشتوں کی تسبیح۔ تیسرے یہ کہ دنیا میں تلاوتِ قرآنِ کر یم کا عادی بعدِ موت اِنْ شَآءَ اﷲ حافظِ قرآن ہوجائے گا ورنہ یہ شخص وہاں بغیر قرآن دیکھے سارا قرآن کیسے پڑھتا۔ چوتھے یہ کہ بغیر ترجمہ سمجھے بھی تلاوت بہت مفید ہے کہ یہاں تلاوت کو مُطلَق (بلاقید)رکھا گیا۔ یہاں (صاحبِ)مرقات نے فرمایا کہ قرآن میں تفکر(سوچ بچار) کرنامحض تلاوت سے افضل ہے،اسی لیے حضرت صدیق اکبر حُفَّاظ صحابہ سے افضل ہوئے،جنت میں ساری اُمَّت سے اونچے درجے میں وہ ہی ہوں گے۔(60)مدنی گلدستہ
’’کعبہ‘‘کے4حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اُس کی وضاحت سے ملنے والے4مدنی پھول (1) قرآنِ پاک کی آیات کے برابرجنت میں چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ (6666)درجے ہیں ۔ (2) جنت میں تلاوتِ قرآن کے علاوہ کوئی عبادت نہ ہوگی اور یہ تلاوت بھی لذت اور ترقیٔ درجات کے لیے ہوگی جیسے فرشتوں کی تسبیح۔ (3) دنیا میں تلاوتِ قرآن کر یم کا عادی بعدِ موت اِنْ شَآءَ اﷲ حافظِ قرآن ہوجائے گا۔ (4) قرآنِ کریم میں غوروفکر کرنا تلاوت سے افضل ہے۔ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ سےدعا ہے کہ وہ ہمیں تلاوت قرآن کا عادی اور اس پر عمل پیرا ہونے والا بنائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدباب نمبر:181 قرآنِ پاک کو یاد رکھنےکا بیان
قرآنِ پاک کو یاد رکھنے اور اسے بھلا دینے سے ڈرانےکا بیان
قرآنِ پاک اﷲ عَزَّ وَجَلَّ کا پاکیزہ کلام ہے۔ یہ معرفتِ الٰہی، سکونِ قلبی اور رضائے رحمٰن کا سبب ہے۔ اس کی تلاوت دل کو گناہوں کی سیاہی سے پاک کرتی ہے۔ اسے کثرت سے پڑھنے والا اﷲ عَزَّ وَجَلَّ کا مقرب بندہ بن جاتا ہے۔ قرآنِ پاک حفظ کرنا بھی بہت سعادت کی بات ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی قدرت کے مطابق اسے حفظ کرے۔ مکمل قرآنِ پاک حفظ کرنا فرض یا واجب نہیں بلکہ جو شخص پورا قرآن حفظ نہیں کرسکتا اسے چاہیے کہ مخصوص سورتیں اور آیتیں یاد کرلے تاکہ کَلَامُ اﷲ کی برکتیں حاصل ہوں۔قرآنِ پاک کا جتنا حصہ بھی یاد ہے اسے بار بار پڑھنا ضروری ہے تاکہ بھولنے کی آفت سے محفوظ رہے۔قرآنِ پاک کو یاد کرنے کے بعد بار بار پڑھنا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ بہت جلد انسان کے ذہن سے نکلتا ہے اور جب یہ ایک بار ذہن سے نکل جائے تو پھر اسے دوبارہ یاد کرنا نہایت مشکل ہوتا ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق قرآنِ پاک یاد کرے اور پھر کثرت سے اُس کی تلاوت کا معمول بنائے تاکہ ذہن نشین رہے۔ریاض الصالحین کا یہ باب”قرآنِ پاک کو یاد رکھنے اور اسے بھلادینے سے ڈرانے‘‘کے بیان میں ہے۔ اِمَام اَبُوزَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی نے اس باب میں2 اَحادیث مبارکہ بیان فرمائی ہیں۔حدیث نمبر:1002 قرآن بہت تیزی سے بھول جاتا ہے
عَنْ اَبِیْ مُوْسٰى رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: تَعَاهَدُوْا هٰذَا القُرْآنَ فَوَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَهُوَ اَشَدُّ تَفَلُّتًامِّنَ الْاِبِلِ فِیْ عُقُلِهَا. (61) ترجمہ:حضرت سَیِّدُنا ابو موسٰی رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضورِ انور صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”اِس قرآن کی حفاظت کرو، اُس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! یہ قرآن رسّی میں بندھے ہوئے اونٹ سے بھی زیادہ تیزی سے نکل جاتا ہے (یعنی بھول جاتا ہے)۔“قرآن اور علومِ قرآن کی تکرار کرتے رہو:
مذکورہ حدیثِ پاک میں اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ جسے قرآنِ پاک یاد ہو اسے چاہیے کہ وہ اس کی حفاظت کرے اور اسے یاد رکھنے کے لیے کثرت کے ساتھ اس کی دُہرائی کرتا رہے۔ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا کہ ” تَعَاهَدُوْا هٰذَا القُرْآنَ یعنی اِس قرآن کی حفاظت کرو۔‘‘ تَعَاھَدٌ ، عَہْدٌ سے بنا ہے بمعنیٰ حفاظت و نگرانی ۔مضبوط وعدے کو بھی اسی لیے عہد کہتے ہیں کہ اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔قرآنِ شریف کی نگرانی کرنے سے مراد ہے اس کا دَورکرتے رہنا، اس کی تلاوت کی عادت ڈالنا، خصوصًا حافظ صاحبان کے لیے۔ ظاہر یہ ہے کہ قرآن سے مراد اَلفاظِ قرآن، معانیٔ قرآن، علومِ قرآن اور مسائلِ قرآن سب ہی ہے یعنی حُفَّاظ اپنے حفظ کی، قاری صاحبان تجوید کی، علما عُلومِ قرآنیہ کی تجدید و تکرار کرتے رہیں ورنہ بھول جانے کا اندیشہ ہے۔“(62) شیخ عبدالحق مُحَدِّث دہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اﷲ الْقَوِی فرماتے ہیں:”قراءت اور تلاوت کو اپنی عادت بناؤ اور اس کی حفاظت و نگہداشت کرو تاکہ دِلوں سے اُتر نہ جائے اور بھول نہ جائے۔ یہاں حدیث میں لفظ تَعَاھَدٌ آیا ہے جس کا معنیٰ ہے دو شخصوں کا آپس میں کسی معاہدے کو تازہ کرنا اور اُس کا ذکر کرنا۔ دراصل حضور اکرم صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے اس ارشاد میں اس جانب اشارہ ہے کہ بندہ جب قرآن سے کیا ہوا عہد تازہ رکھتا ہے اور درس و تدریس کی شکل میں اس کی خدمت میں لگا رہتا ہے تو یہ شخص گویا قرآنِ پاک سے کیے ہوئے عہد کی نگہداشت اور حفاظت کرتا ہے۔“(63)کلامِ الٰہی حفظ ہوجانا رب کی مہربانی ہے:
حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ارشاد فرمایا کہ قرآن رسّی میں بندھے ہوئے اونٹ سے بھی زیادہ تیزی سے نکل جاتا ہے ”یعنی رسیوں سے بندھے ہوئے اونٹ رسیوں کو توڑ کر بھاگ جاتے ہیں یونہی قرآن پاک کے الفاظ و معنی اگر اُن کی نگہداشت نہ کی جائے تو یہ انسان کے ذہن سے نکل جانے میں اُن اونٹوں سے بھی زیادہ سخت اور تیز ہیں۔“(64)مُفَسِّرشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں:”جیسے اونٹ کو باندھنے کے باوجود اس سے غافل نہیں ہوتے اسی طرح قرآن شریف حفظ کرنے کے باوجود اپنے یاد پر اعتماد نہ کرو،یہ بہت جلد بھول جاتاہے کیوں نہ ہو کہ کلامِ الٰہی قدیم اور ہم حادث۔ہم کو اس سے نسبت ہی کیا ہے؟ یہ رب تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ ہم اسے سیکھ لیتے ہیں اور یہ ہمارے ذہنوں میں سما جاتا ہے، تو ہماری ذرا سی غفلت اور لاپرواہی سے یہ نعمت ہم سے جاتی رہے گی۔“(65)مدنی گلدستہ
’’جنت‘‘کے3حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اس کی وضاحت سے ملنے والے3مدنی پھول (1) قرآن شریف کی تلاوت کرتے رہنا چاہیے کیونکہ اگر اس کی تلاوت میں غفلت کی جائے تو یہ بہت جلد ذہن سے نکل جاتا ہے۔ (2) جس طرح اُونٹ کی رسّی کھل جائے تو وہ بہت تیزی سے بھاگ جاتا ہے اسی طرح حافظ اگر دُہرائی نہ کرے تو قرآنِ پاک اونٹ کے بھاگنے سے بھی زیادہ تیزی سے اُس کے ذہن سے نکل جاتا ہے۔ (3) قرآنِ پاک اﷲ عَزَّ وَجَلَّ کا کلام ہے اور قدیم ہے اور ہم حادِث ہیں، رب تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ یہ ہمارے ذہنوں میں سماجاتا ہے اور ہم اسے یاد کرلیتے ہیں تو ہماری ذرا سی لاپرواہی ہمارے لیے اس نعمت سے محرومی کا سبب بن سکتی ہے۔ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں قرآن پاک یادرکھنے اورکثرت سے اس کی تلاوت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدحدیث نمبر:1003 حافِظِ قرآن بندھے ہوئے اونٹ کی مثل ہے
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اِنَّمَامَثَلُ صَاحِبِ الْقُرْاٰنِ كَمَثَلِ الْاِبِلِ الْمُعَقَّلَةِ اِنْ عَاهَدَ عَلَيْهَا اَمْسَكَهَا وَاِنْ اَطْلَقَهَا ذَهَبَتْ. (66) ترجمہ:حضرت سَیِّدُنا عبد اﷲ بن عمر رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ حضورنبی کریم صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا:”حافِظِ قرآن کی مثال بندھے ہوئے اونٹ کی طرح ہےکہ اگر(مالک) اس کی حفاظت کرے گا تو اسے روکے رکھے گا اور اگر اسے کھلا چھوڑدے گا تو وہ بھاگ جائے گا۔“قرآن یاد رکھنے کے بہت فوائدہیں:
مذکورہ حدیثِ پاک میں اس بات کو بیان کیا گیا ہے کہ قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے میں غفلت نہیں کرنی چاہیے، اگربندہ تلاوتِ قرآنِ پاک میں سُستی کرے گا اور اس کی تکرار نہیں کرے گا توبہت جلد بھول جائے گا کیونکہ”اونٹ تو مضبوط رسی سے کھونٹے پر رہتا ہے اور قرآن شریف ہمیشہ دُور کرنے اور تکرار کرتے رہنے سے ذہن میں ٹھہرتا ہے، پھر جیسے اونٹ اگر ٹھہر جائے تو بڑے فائدے پہنچاتا ہے، سواری، باربرداری، گوشت، دودھ، نسل، اُون وغیرہ سب ہی دیتا ہے۔ایسے ہی قرآن اگر ذہن میں ٹھہر جائے تو ایمان، عرفان، رضائے رحمٰن وغیرہ سب کچھ اِسی سے مُیَسَّر ہوتے ہیں۔“(67)قرآن پڑھ کربھلادینا گناہ ہے:
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! قرآنِ پاک کی تلاوت کرنا اور اسے مکمل یا اس کی چند سورتیں و آیتیں یاد کرنا بہت سعادت کی بات ہے لہٰذا جس قدر ممکن ہوسکے قرآنِ پاک حفظ کرلیجئے اور جب بھی کوئی آیت یا سورت حفظ کرلیں تو پھر اسے یاد رکھنے کے لیے باربار اس کی تلاوت کرتے رہیں تاکہ وہ آپ کو ذہن نشین رہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کئی افراد ایسے ہیں کہ جو قرآنِ پاک کے چند پارے یا سورتیں یاد کرلیتے ہیں مگر پھر اُن کی دُہرائی نہیں کرتے جس کی وجہ سے انہیں وہ پارے یا سورتیں بھول جاتی ہیں۔ بہار شریعت میں ہے:”قرآنِ پاک پڑھ کر بُھلا دینا گناہ ہے۔“(68) لہٰذا قرآنِ پاک کا جتنا بھی حصہ آپ کو یاد ہے اُسے باربار پڑھتے رہیں اورمسلسل اُس کی تلاوت کرتے رہیں۔ مُفَسِّرشہِیر مُحَدِّثِ کَبِیْرحَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں:”یہ تجربہ بھی ہے کہ بڑے سے بڑا حافِظ یا عالِم اگر کچھ دن یہ مشغلہ نہ رکھے تو بھول جاتا ہے۔اسی لیے علامہ شامی نے فرمایا کہ قاضی کو کچھ روز بعد کُتب بینی کے لیے چھٹی دی جائے تاکہ علمِ قرآن شریف بھول نہ جائے۔“(69)مدنی گلدستہ
’’قرآن‘‘کے4حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اُس کی وضاحت سے ملنے والے4مدنی پھول (1) قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے کا معمول بنانا چاہیے۔ (2) قرآن جب ہمارے دِل و دماغ میں بیٹھ جائے گا تو پھر ہمیں اُس سے ایمان، معرفتِ الٰہی، سکونِ قلبی اور دیگر بہت سے فوائد حاصل ہوں گے۔ (3) مکمل قرآنِ پاک یا اس کی چند سورتیں و آیتیں حفظ کرکے بُھلا دینا گناہ ہے ۔ (4) قرآنِ پاک کی تلاوت کرنے کی عادت ڈالیے اور غفلت و کوتاہی سے پرہیز کیجئے ۔ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پابندی کے ساتھ قرآنِ مجید کی تلاوت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں اسے بھولنے سے بچائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدباب نمبر:182 خوبصورت آواز سے قرآن پڑھنے کا بیان
خوبصورت آواز سے قرآن پڑھنا،پڑھوانا اورتوجہ سے سننا مستحب ہے۔
قرآنِ پاک اﷲ عَزَّ وَجَلَّ کا پاکیزہ کلام ہے۔اس کی تلاوت کرنے اور سننے سے اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے۔ دل سے گناہوں کی سیاہی دُور ہو جاتی ہے اور اس میں نور داخل ہوتا ہے۔ قرآنِ پاک میں نہ صرف ہمارے لیے دِین و دُنیا کے اَحکام ہیں بلکہ اس کے الفاظ و معنیٰ میں ایک خاص کیفیت بھی پوشیدہ ہے اور اس کیفیت سے دِل پر رِقَّت و سُرور طارِی ہوتا ہے۔ قرآنِ پاک کی تلاوت سے یہ خاص کیفیت اسی وقت حاصل ہوتی ہے کہ جب قرآنِ پاک کو نہایت اچھی آواز میں پڑھا یا سنا جائے کیونکہ جتنی خوبصورت و حسین آواز میں اس کی تلاوت کی جائے گی دل پر اس کا اتناہی گہرا اثر ہوگا۔ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان بھی خوش اِلحانی کے ساتھ قرآنِ کریم کی تلاوت کرنا اور دوسروں سے سننا پسند فرماتے تھے۔ اچھی آواز میں قراءت کرنے والوں سے خصوصیت کے ساتھ قرآنِ پاک کی تلاوت سننے کا اہتمام کرتے اور خوش اِلحانی کے ساتھ قراءت کرنے والوں کو دوسروں پر ترجیح دیا کرتے تھے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اچھی آواز میں قرآنِ پاک پڑھنے اور سننے کا اہتمام کرے تاکہ اس کا دل نورِقرآن سے منور ہو جائے۔ریاض الصالحین کا یہ باب”خوبصورت آواز کے ساتھ قرآنِ پاک پڑھنے، پڑھوانے اور سننے کے مستحب ہونے‘‘ کے بارےمیں ہے۔ اِمَام نَوَوِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی نے اس باب میں5 اَحادیثِ مبارکہ بیان فرمائی ہیں۔حدیث نمبر:1004 نبی خوش اِلحانی کے ساتھ تلاوت کرتے ہیں
عَنْ اَبِیْ ہُرَيْرَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: مَااَذِنَ اللهُ لِشَيْءٍ مَا اَذِنَ لِنَبِيٍّ حَسَنِ الصَّوْتِ يَتَغَنَّى بِالْقُرْاٰنِ يَجْهَرُ بِهِ. (70) ترجمہ: حضرت سَیِّدُنا ابو ہریرہ رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:” اﷲ عَزَّ وَجَلَّ کسی چیز کو اس قدر توجہ سے نہیں سنتا جس قدر وہ اپنے اچھی آواز والے نبی کو سنتا ہے کہ وہ خوش الحانی کے ساتھ بآوازِ بلند قرآن پڑھتا ہے۔“حدیث پاک میں نبی سے مراد؟
اِمَام اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰی بِنْ شَرَف نَوَوِیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اﷲ الْقَوِی فرماتے ہیں:” اَذِنَ اﷲ “ کا معنیٰ ہے کہ اﷲ عَزَّوَجَلَّ سنتا ہے اور یہ سننا اﷲ عَزَّ وَجَلَّ کی رضامندی اور قبولیت کی طرف اشارہ ہے۔“(71) مذکورہ حدیثِ پاک میں قرآنِ پاک کو اچھی آواز اور خوبصورت انداز میں پڑھنے کی ترغیب دی گئی ہے ”کیونکہ خوش اِلحانی(اچھی آواز)قرآنِ کریم کی زینت ہے جس سے قرآن کا حُسن اور بھی بڑھ جاتا ہے“(72) حدیثِ پاک میں بیان ہوا کہ ” اﷲ عَزَّ وَجَلَّ کسی چیز کو اس قدر توجہ سے نہیں سنتا جس قدر وہ اپنے اچھی آواز والے نبی کو سنتا ہے۔“ ظاہر یہ ہے کہ یہاں نبی کریم سے مراد تمام انبیائے کرام ہیں اور قرآن سے مراد تمام آسمانی کتابیں اورصحیفے ہیں اورممکن ہے کہ نبی سے مراد حضورِ انور صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّم ہوں اور قرآن سے مراد یہ ہی قرآن شریف ہو۔“(73) حدیثِ پاک میں بیان کیا گیا کہ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ توجہ سے سنتا ہے۔حضرت علامہ ومولانا مفتی شریف الحق امجدی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اﷲ الْقَوِی اِس کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” کسی کی بات کو بغورسننا، کان لگانا، اﷲ تعالیٰ اِس سے مُنَزَّہ (پاک)ہے، یہ بھی متشابہات میں سے ہے، اس کے اصل معنیٰ اﷲ اور اس کے رسول جانیں۔ (اس کی) تاویل میں یہ کہا جاتا ہے کہ مراد خصوصی رحمت کا نزول ہے اور قاری کا اِکرام اور اسے زیادہ سے زیادہ ثواب دینا مراد ہے۔“(74)انبیاعَلَیْہِمُ السَّلَام خوش آواز ہوتے ہیں:
شیخ عبدالحق مُحَدِّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اﷲ الْقَوِی فرماتے ہیں: ” اﷲ عَزَّ وَجَلَّ کسی چیز کو سننے اور توجہ فرمانے پر اتنا راضی نہیں ہوتا یعنی اسے پسند نہیں کرتا جتنا کہ وہ کسی پیغمبر کے قرآن پڑھنے پر توجہ فرماتا ہے اور سنتا ہے کیونکہ پیغمبر نہایت خوش آوازی اور عمدگی سے اس کی تلاوت کرتا ہے۔“ مزید فرماتے ہیں: ”اس حدیث میں اﷲ تعالیٰ نے نبی کی تلاوت کو خوش آوازی سے پڑھنے کا پابند کردیا۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے کوئی نبی نہیں بھیجا مگر وہ انتہائی خوبصورت اور بہت خوش آواز ہوتا تھا۔ خلاصہ یہ ہوا کہ اﷲ کا نبی اﷲ کی وحی جب بھی پڑھتا ہے نہایت خوش آوازی اور خوش اِلحانی سے پڑھتا ہے۔“(75) علامہ کلاباذی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اﷲ الْہَادِی فرماتے ہیں:خوش اِلحانی سے پڑھنے کا مطلب یہ ہے کہ قراءت کے وقت اُن پر اﷲ عَزَّ وَجَلَّ کی خشیت اور دِل میں رِقَّت ہوتی تھی۔ خوش اِلحانی سے پڑھنے کا یہ معنیٰ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ آواز کی خوبصورتی کے لیے وجد کے ساتھ تلاوت کرتے تھے کیونکہ خوش اِلحانی وجد کی علامات میں سے ہے اور جمہور علماءِ کرام نے اِس طرح تلاوت کرنے کو اس صورت میں جائز قرار دیا ہے کہ جب تلاوت کرنے والا کسی حرف کی کمی یا زیادتی نہ کرے ورنہ اس طرح تلاوت کرنا ممنوع ہے۔“(76)مدنی گلدستہ
’’تلاوت‘‘کے5حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اس کی وضاحت سے ملنے والے5مدنی پھول (1) اﷲ عَزَّ وَجَلَّ کسی چیز کی طرف اتنی توجہ نہیں فرماتا جتنا کہ وہ کسی پیغمبر کے قرآن پڑھنے پر توجہ فرماتا ہے کیونکہ پیغمبر نہایت خوش آوازی اور عمدگی سے اُس کی تلاوت کرتا ہے۔ (2) قرآنِ پاک کی تلاوت خوش اِلحانی کے ساتھ کرنی چاہیے کیونکہ خوش اِلحانی قرآنِ کریم کی زینت ہے اور اس سے قرآنِ پاک کا حُسن اور بھی بڑھ جاتاہے۔ (3) اﷲ تعالیٰ کی ذات کسی کی بات کو بغور سننے اور کان لگا کر سننے سے مُنَزَّہ ہے، مذکورہ حدیثِ پاک میں کان لگا کر توجہ سے سننے کامعنیٰ یہ ہے کہ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ اسے قبولیت عطا فرماتا ہے اوربڑا ثواب عطا فرماتا ہے۔ (4) اﷲ عَزَّ وَجَلَّ کا نبی جب اس کی وحی پڑھتا ہے تو نہایت خوش آوازی اور خوش اِلحانی سے پڑھتا ہے۔ (5) جمہور علماءِ کرام نے وجدانی کیفیت میں خوش اِلحانی کے ساتھ تلاوت کرنے کو اِس شرط کے ساتھ جائز قرار دیا ہے کہ تلاوت کرنے والا کسی حرف کی کمی یا زیادتی نہ کرے ورنہ جائز نہیں۔ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ ہمیں خوش اِلحانی کے ساتھ تلاوت قرآنِ پاک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدحدیث نمبر:1005 حضرت داؤدعَلَیْہِ السَّلَام کے مزامیر
عَنْ اَبِیْ مُوْسَى الْاَشْعَرِيْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ:لَقدْ اُوْتِيْتَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيْرِ اٰلِ دَاوُدَ. (77) وَفِيْ رِوَايَةٍ لِمُسْلِمٍ: اَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: لَوْ رَاَيْتَنِيْ وَاَنَا اَسْتَمِعُ لِقِرَاءَتِكَ الْبَارِحَةَ. (78) ترجمہ:حضرت سَیِّدُنا ابو موسٰی اشعری رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضورنبی کریم صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان سے فرمایا: ”بے شک تمہیں حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام کے مزامیر میں سے ایک مزمار عطا کیا گیا ہے۔“اور مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ رسولُ اﷲ صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ابو موسٰی رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ سے فرمایا: ”اگر تم مجھے گزشتہ رات دیکھتے جبکہ میں تمہاری قراءت سن رہا تھا (تو بہت خوش ہوتے)۔“تمام سازوں سے حسین آواز:
مذکورہ حدیثِ پاک میں حضرت سَیِّدُنا ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ کی حُسنِ قراءت کو بیان کیا گیا ہے کہ آپ نہایت خوبصورت انداز میں تلاوتِ قرآن کیا کرتے تھے۔ حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ آپ کو حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام کی خوش اِلحانی میں سے حصہ عطا کیا گیا ہے۔حضرت سَیِّدُنا ابو عثمان نہدی رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: ”حضرت سَیِّدُنا ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ نے ہمیں نماز پڑھائی، میں کہتاہوں کہ میں نے کبھی کسی صنج، بربط(79) اور کسی بھی چیز کی آواز ان کی آواز سے اچھی نہیں سُنی۔“(80)حضرت ابو موسٰی اَشعری رَضِیَ اللہ عَنْہُ :
مُفَسِّرِشہِیر مُحَدِّثِ کبیرحَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں: ”داؤد عَلَیْہِ السَّلَام نہایت خوش آواز تھے کہ جس مجلس میں آپ زبور کی تلاوت کرتے اس مجلس سے جنازے نکلتے تھے۔ حضرت ابو موسٰی بھی بہت ہی خوش آواز تھے۔ خیال رہے کہ حضرت ابو موسٰی کا نام عبد اﷲ ابنِ قیس ہے، مکہ معظمہ میں ایمان لائے، حبشہ کی طرف ہجرت کی پھرکشتی والوں کے ساتھ خیبر میں پہنچے، ۲۰ہجری میں حضرت عمر ( رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ ) نے امیرِ لشکر بنا کر بھیجا، آپ نے اَہواز فتح فرمایا، شروعِ خلافتِ عثمانی تک آپ بصرہ میں رہے پھر وہاں سے کوفہ آگئے، مکہ معظمہ میں وفات پائی۵۲ہجری میں وہاں ہی دفن ہوئے۔“(81)مزامیر سے کیا مراد ہے؟
علامہ غلام رسول رضوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اﷲ الْقَوِی فرماتے ہیں:” زَمْر کے لغوی معنی غنا ہیں، یہاں اس سے حُسنِ صَوت (یعنی اچھی آواز) مراد ہے۔ مَزَامِیْر مِزْمَار کی جمع ہے اور وہ معروف آلہ ہے۔حُسنِ صَوت پر اِس کا اِطلاق کیا گیا ہے کیونکہ یہ ایک دوسرے کے مشابہ ہیں۔ حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام زبور شریف ستّر آوازوں میں پڑھتے تھے۔ بعض اوقات ان کی قراءت سے بیمار آدمی جھومنے لگتے تھے۔ جب وہ رونے کا ارادہ کرتے تھے تو خشکی اور سمندر کے تمام جانور خاموشی سے سُنتے اور رونے لگتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام کی مجلس سے کئی جنازے اُٹھائے جاتے تھے۔“(82)اچھی آواز والے سے قرآن سننا مستحب ہے:
عَلَّامَہ بَدْرُ الدِّیْن عَیْنِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اﷲ الْغَنِی فرماتے ہیں:”اس بات پر اِجماع ہے کہ اچھی آواز والے شخص سے قرآنِ مجید سننا مستحب ہے اور امیر المؤمنین حضرت سَیِّدُناعمر فاروق اعظم رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ اچھی آواز والے نوجوان کو اس کی اچھی آواز کی وجہ سے لوگوں پر مُقَدَّم کرتے تھے۔“(83)حضرت سَیِّدُنا عقبہ بن عامر رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ قرآنِ پاک کی تلاوت بڑی اچھی آواز میں کرتے تھے، امیر المؤمنین حضرتِ سَیِّدُناعمر بن خطاب رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ نے ان سے فرمایا کہ فلاں سورت پڑھو، جب انہوں نے اس صورت کی تلاوت کی تو حضرت سَیِّدُنا عمر رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ رونے لگے۔ عَلَّامَہ اَبُو الْحَسَن اِبْنِ بَطَّالرَحْمَۃُ اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں: ”اِس سے معلوم ہوا کہ قرآن کی زینت یہ ہے کہ اسے اچھی آواز میں پڑھا جائے تاکہ دلوں میں اس کی عظمت بڑھے اور لوگ اس کی نصیحت قبول کریں۔ اور اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جو شخص پابندی کے ساتھ تلاوت قرآنِ پاک کرتا ہے قرآن اس کی آواز کو خوبصورت بنا دیتا ہے۔“(84)مدنی گلدستہ
’’قرآنِ پاک‘‘کے7حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکور اور اس کی وضاحت سے ملنے والے7مدنی پھول (1) حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت سَیِّدُنا ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ کی خوش الحانی کی تعریف فرمائی۔ (2) حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام ستر زبانوں میں زبور شریف کی تلاوت فرماتے۔ (3) حضرت داؤد عَلَیْہِ السَّلَام جس مجلس میں زبور شریف کی تلاوت فرماتے اس سے کئی جنازے نکلتے تھے۔ (4) حضرت سَیِّدُناعمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ نےاچھی آواز سے قرآنِ مجید پڑھنے والے نوجوان کو دوسروں پر مقدم فرمایا۔ (5) اچھی آواز والے شخص سے قرآنِ مجید کی تلاوت سننا مستحب ہے۔ (6) قرآنِ پاک کی تلاوت خوش الحانی کے ساتھ کرنی چاہیے تاکہ لوگوں کے دلوں میں اس کی عظمت بڑھے اور لوگ اس پر عمل پیرا ہوں۔ (7) جو شخص پابندی کے ساتھ تلاوتِ قرآنِ پاک کرتا ہے اس کی آواز میں حُسن پیدا ہو جاتا ہے۔ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھی آواز میں تلاوتِ قرآنِ پاک کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدحدیث نمبر:1006 حضور سے اچھی آواز کسی کی نہ سُنی
عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا قَالَ:سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَاَ فِي الْعِشَاءِ بِالتِّيْنِ وَالزَّيْتُوْنِ فَمَا سَمِعْتُ اَحَدًا اَحْسَنَ صَوْتًامِنْهُ. (85) ترجمہ:حضرت سَیِّدُنا براء بن عازب رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں:”میں نے حضورنبی کریم صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو عشاکی نماز میں سورۂ وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ پڑھتے ہوئے سنا تو میں نے آپ سے اچھی آواز والا کسی کو نہیں سنا۔“سب سے زیادہ بلند آواز والے:
مذکورہ حدیثِ پاک میں حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی حُسنِ قراءت کو بیان کیا گیا ہے۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام بڑی خوبصورت آواز میں تلاوتِ قرآنِ پاک فرمایا کرتے تھے اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام عام لوگوں کے مقابلے میں بہت زیادہ بلند آواز تھے یعنی جب آپ تلاوت فرماتے یا وعظ فرماتے تو آپ کی آواز بہت اونچی ہوا کرتی تھی۔ عَلَّامَہ مُلَّا عَلِی قَارِی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْبَارِی فرماتے ہیں:”حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی آواز اس قدر بلند ہوتی کہ جہاں تک آپ کی آوازپہنچتی وہاں تک کسی اور کی آواز نہ پہنچتی تھی۔حضرت سَیِّدُنَا ابنِ رواحہ رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضور عَلَیْہِ السَّلَام جمعہ کے روز منبرپرتشریف فرماتھے اور ابنِ رواحہ بنی تمیم میں تھے تو آپ نے وہاں حضور عَلَیْہِ السَّلَام کی آواز سُنی کہ بیٹھ جاؤ تو آپ رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ اپنی جگہ پر ہی بیٹھ گئے۔“(86) مُفَسِّرِشہِیرمُحَدِّثِ کَبِیْر حَکِیْمُ الْاُمَّت مُفتِی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں: ”معلوم ہوا کہ رسول اﷲ صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّم بہت ہی خوش آواز تھے۔ ابنِ عساکر کی روایت میں ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے کوئی نبی بد شکل یا بد آواز نہ بھیجا، ہر نبی نہایت خوبصورت اور خوش آواز ہوئے۔ بیہقی شریف میں ہے کہ حضور انور صَلَّی اﷲ عَلَیْہِ وَسَلَّم نہایت خوش آواز اور بلند آواز تھے کہ آپ کی نماز کی تلاوت عورتیں گھروں میں بے تکلف سن لیتی تھیں۔ غرض کہ رب تعالیٰ نے اپنے محبوب کو ہر اندازِ محبوبانہ بخشا۔“(87)مدنی گلدستہ
’’نبی‘‘کے3حروف کی نسبت سے حدیثِ مذکوراور اس کی وضاحت سے ملنے والے3مدنی پھول (1) رسولُ اﷲ صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بہت ہی خوش آواز تھے۔ (2) حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی آواز مبارک عام لوگوں کے مقابلے میں بلند تھی کہ جب آپ تلاوت کرتے یا خطبہ ارشاد فرماتے تو جہاں تک آپ کی آواز جاتی وہاں تک کسی اور کی آواز نہ جاتی تھی۔ (3) صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان ہر حال میں حضور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حکم پر عمل کرتے تھے جیساکہ حضرت ابنِ رواحہ رَضِیَ اﷲ تَعَالٰی عَنْہُ نے خطبہ کے دوران مسجد سے دورحضور عَلَیْہِ السَّلَام کی آواز سُنی کہ بیٹھ جاؤ تو آپ جہاں تھے وہیں بیٹھ گئے۔ اﷲ عَزَّ وَجَلَّ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اچھی آواز میں تلاوتِ قرآنِ پاک سننے اور اس پرعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اﷲ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
1…معجم کبیر ، یحیٰی بن قیس، ۶/۱۸۵، حدیث: ۵۹۴۲۔ 2… مؤطا امام مالک، ۲/۴۰۷، حدیث: ۱۷۳۱۔ 3…اب ان شعبوں کی تعداد 15 ہوچکی ہے:(7)فیضانِ قرآن (8) فیضانِ حدیث (9) فیضانِ صحابہ واہل بیت (10) فیضانِ صحابیات وصالحات (11) شعبہ ا میراہلسنت (12)فیضانِ مدنی مذاکرہ (13) فیضانِ اولیاوعلما (14) بیاناتِ دعوتِ اسلامی (15) رسائل دعوتِ اسلامی۔ مجلس المدینۃ العلمیۃ 4…بخاری،کتاب الاطعمۃ،باب ذکر الطعام،۳/ ۵۳۵،حدیث:۵۴۲۷۔ 5… مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب فضل قراءۃ القرآن وسورۃ البقرۃ ،ص۳۱۴،حدیث:۱۸۷۴۔ 6…دلیل الفالحین،کتاب الفضائل،باب فضل قراء ۃ القرآن، ۳/۴۷۷،تحت الحدیث:۹۸۹ملخصا۔ 7…مرآۃ المناجیح،۳/۲۳۶۔ 8… مرآۃ المناجیح،۳/۲۶۳۔ 9… حلیۃ الاولیاء،شقیق بن سلمۃ،۴/ ۱۱۵،رقم:۴۹۵۴۔ 10…مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب فضل قراءۃ القرآن وسورۃ البقرۃ ،ص۳۱۴،حدیث:۱۸۷۶ بتغیر۔ 11…مرآۃ المناجیح،۳/۲۲۶۔ 12…مرآۃ المناجیح،۳/۲۲۷۔ 13…شرح الطیبی،کتاب فضائل القرآن،الفصل الاول،۴/۲۷۴،تحت الحدیث:۲۱۲۱ ۔ 14…مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب فضل قراء ۃ القرآن وسورۃ البقرۃ، ص۴۰۳، حدیث: ۸۰۴۔ 15…مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا، باب استحباب صلاۃ النافلۃ۔۔۔ الخ، ص۳۱۴،حدیث: ۱۸۷۴۔ 16…بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب فضل البقرۃ، ۳/۳۰۶، حدیث: ۱۸۲۴۔ 17…ترمذی، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل سورۃ البقرۃ۔۔۔ الخ، ۴/۴۰۲، حدیث: ۲۸۸۷۔ 18…شعب الایمان، باب فی تعظیم القرآن،فصل فی فضائل السوروالآیات، ذکر سورۃ البقرۃو آل عمران ، ۲/۴۵۳، حدیث: ۲۳۷۸۔ 19…دارمی، کتاب فضائل القرآن، باب فی فضل آل عمران، ۲/۵۴۴، حدیث: ۳۳۹۶۔ 20…دارمی، کتاب فضائل القرآن، باب فی فضل آل عمران، ۲/۵۴۴، حدیث: ۳۳۹۷۔ 21…بخاری،کتاب فضائل القرآن،باب خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ،۳/۴۱۰،حدیث:۵۰۲۷۔ 22…مرآۃ المناجیح،۳/۲۱۷ملخصا۔ 23…تفہیم البخاری،۷/۷۸۰۔ 24…مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب فضل الماھر بالقرآن والذی یتتعتع فیہ ،ص۳۱۲،حدیث:۱۸۶۲۔ 25…مرآۃ المناجیح،۳/۲۱۹ملتقطا۔ 26…اشعۃ اللمعات،کتاب فضائل القرآن،الفصل الاول،۲/۱۳۱ ،۱۳۲ملخصا۔ 27…بخاری،کتاب الاطعمۃ،باب ذکر الطعام،۳/ ۵۳۵،حدیث:۵۴۲۷۔ 28…عمدۃ القاری،کتاب فضائل القرآن،باب فضل القرآن علی سائر الکلام،۱۳/۵۶۳،تحت الحدیث:۵۰۲۰ملخصا۔ 29…فتح الباری،کتاب فضائل القرآن،باب فضل القرآن علی سائر الکلام،۱۰/۵۷،تحت الحدیث:۵۰۲۰۔ 30…عمدۃ القاری،کتاب فضائل القرآن،باب فضل القرآن علی سائر الکلام،۱۳/۵۶۳،تحت الحدیث:۵۰۲۰۔ 31…مرآۃ المناجیح،۳/۲۲۱بتغیر۔ 32…مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب فضل من یقوم بالقرآن۔۔۔الخ ،ص۳۱۷،حدیث:۱۸۹۷۔ 33…اشعۃ اللمعات،کتاب فضائل القرآن،الفصل الاول،۲/۱۳۳ ۔ 34…شرح الطیبی،کتاب فضائل القرآن،الفصل الاول،۴/۲۶۷،تحت الحدیث:۲۱۱۵ ۔ 35…مرآۃ المناجیح،۳/۲۲۱۔ 36…مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب فضل من یقوم بالقرآن۔۔۔الخ ،ص۳۱۷،حدیث:۱۸۹۷۔ 37…مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب فضل من یقوم بالقرآن۔۔۔الخ ،ص۳۱۶،حدیث:۱۸۹۴۔ 38…بہارشریعت،۳/۵۴۱،حصہ۱۶ ملتقطا۔ 39… مرآۃ المناجیح،۳/۲۲۰۔ 40… مرقاۃ المفاتیح،کتاب فضائل القرآن،الفصل الاول،۴/۶۱۸،تحت الحدیث:۲۱۱۳۔ 41…مرآۃ المناجیح،۳/۲۲۰۔ 42…مرآۃ المناجیح،۳/۲۲۰۔ 43… مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب نزول السكينة لقراءة القرآن،ص۳۱۱،حدیث:۱۸۵۶۔ 44…التوضیح لشرح الجامع الصحیح،کتاب المناقب،باب علامات النبوۃ فی الاسلام، ۲۰/۱۹۷،تحت الحدیث:۳۶۳۱ ۔ 45…اشعۃ اللمعات،کتاب فضائل القرآن،الفصل الاول،۲/۱۳۴ ۔ 46…مرآۃ المناجیح،۳/۲۲۴۔ 47…شرح الطیبی،کتاب فضائل القرآن،الفصل الاول،۴/۲۶۹،تحت الحدیث:۲۱۱۷۔ 48… مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا،باب فضل سورۃ الکھف وآیۃ الکرسی،ص۳۱۵،حدیث:۱۸۸۳۔ 49… مستدرک حاکم،کتاب التفسیر،تفسیر سورۃ الکھف،۳/ ۱۱۷،حدیث:۳۴۴۴۔ 50…ترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب ماجاء فی من قرأحرفا من القرآن۔۔۔الخ،۴/۴۱۷،حدیث:۲۹۱۹۔ 51…اشعۃ اللمعات،کتاب فضائل القرآن،الفصل الثانی،۲/۱۴۲ ۔ 52…مرآۃ المناجیح،۳/۲۳۸، ۲۳۹ملخصا۔ 53…مرآۃ المناجیح،۳/۲۳۸۔ 54…ترمذی،کتاب فضائل القرآن،باب :۱۸، ۴/۴۱۹،حدیث:۲۹۲۲۔ 55…مرآۃ المناجیح،۳/۲۳۷۔ 56…مرقاۃ المفاتیح،کتاب فضائل القرآن،الٖفصل الثانی،۴/۶۴۵،تحت الحدیث:۲۱۳۵۔ 57…اشعۃ اللمعات،کتاب فضائل القرآن،الفصل الثانی،۲/۱۴۱ ۔ 58…ابو داود،کتاب الوتر،باب استحباب الترتیل فی القراءۃ،۲/۱۰۴،حدیث:۱۴۶۴۔ 59…اشعۃ اللمعات،کتاب فضائل القرآن،الفصل الثانی،۲/۱۴۱۔ 60…مرآۃ المناجیح،۳/۲۳۷۔ 61…مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا،باب الامر بتعھد القرآن۔۔۔الخ،ص۳۰۹،حدیث:۱۸۴۴۔ 62…مرآۃ المناجیح،۳/۲۶۳۔ 63…اشعۃ اللمعات،کتاب فضائل القرآن،باب آداب التلاوۃ،۲/۱۵۷۔ 64…اشعۃ اللمعات،کتاب فضائل القرآن،باب آداب التلاوۃ،۲/۱۵۷۔ 65…مرآۃ المناجیح،۳/۲۶۴۔ 66…مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا،باب الامر بتعھد القرآن۔۔۔الخ،ص۳۰۹،حدیث:۱۸۳۹۔ 67…مرآۃ المناجیح،۳/۲۶۵۔ 68…بہارشریعت ،۱/۵۵۲، حصہ۳۔ 69…مرآۃ المناجیح،۳/۲۶۴۔ 70…مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا،باب استحباب تحسین الصوت بالقرآن،ص۳۱۰،حدیث:۱۸۴۷۔ 71…ریاض الصالحین، کتاب الفضائل، باب استحباب تحسین الصوت بالقرآن۔۔۔الخ، ص۲۸۶۔ 72…مرآۃ المناجیح،۳/۲۶۶۔ 73…مرآۃ المناجیح،۳/۲۶۵، ۲۶۶ ملتقطا۔ 74…نزہۃ القاری،۵/۲۶۷۔ 75…اشعۃ اللمعات،کتاب فضائل القرآن،باب آداب التلاوۃ،۲/۱۵۹ملخصا۔ 76…دلیل الفالحین،کتاب الفضائل،باب فی استحباب تحسین الصوت بالقرآن،۳/ ۴۸۶، ۴۸۷، تحت الحدیث:۱۰۰۲ملتقطا۔ 77…بخاری،کتاب فضائل القرآن،باب حسن الصوت بالقراءۃ،۳/۴۱۶،حدیث:۵۰۴۸ بتغیر۔ 78…مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین و قصرھا،باب استحباب تحسین الصوت بالقرآن،ص۳۱۰،حدیث:۱۸۵۲۔ 79…صنج اور بربط ایک قسم کے ساز ہیں۔ 80…شرح بخاری لابن بطال،کتاب فضائل القرآن،باب حسن الصوت بالقراءۃ،۱۰/۲۷۵۔ 81…مرآۃ المناجیح،۸/۵۱۲۔ 82…تفہیم البخاری،۷/۸۰۱ ملتقطا۔ 83…عمدۃ القاری،کتاب فضائل القرآن،باب حسن الصوت بالقراءۃ،۱۳/۵۸۶،تحت الباب۔ 84…شرح بخاری لابن بطال،کتاب التوحید والرد۔۔۔الخ، باب قول النبى صلی اللہ علیہ وسلم: الماهر بالقرآن مع الكرام البررۃ۔۔۔الخ،۱۰/۵۴۶۔ 85…مسلم،کتاب الفضائل،باب القراءۃ فی العشاء،ص۱۹۱،حدیث:۱۰۳۹۔ 86…مرقاۃ المفاتیح،کتاب الصلاۃ،باب القراءۃ فی الصلاۃ،۲/۵۶۳،تحت الحدیث:۸۳۴ملتقطا۔ 87…مرآۃ المناجیح،۲/۵۳۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع