30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
فیضان سَیِّد احمد کبیر رَفاعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی
سرکارِنامدار،مدینے کے تاجدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کافرمانِ خُوشبودار ہے : ”بے شک تُمہارے نام مع شَناخت مجھ پرپیش کئے جاتے ہیں لہٰذا مجھ پراَحْسَن (یعنی خوبصورت الفاظ میں) دُرُودِپاک پڑھو۔“([1])
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا کروڑہا کروڑ احسان کہ جس نےآسمانِ ولایت کو روشن ستاروں سے مُز یَّن فرماکر ان کی کرنوں سےسارے عالم کو منوّرفرمایا نیز قُربِِ الٰہی کی منازل طے کرنے اوران کے فُیُوض وبَرکات سےمُسْتَفِیْض ہونے کیلئے ان کی تعلیمات سے مخلوق کو راہِ ہدایت پر چلنا سکھایا ۔حضرت مُحْیُ الدین سَیِّد ابُوالعباس احمدکبیر رفاعی حسینی شافعیعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی بھی انہی دَرَخْشاں ستاروں میں سے ایک چمکتا ستارہ ہیں۔ آئیے! حصولِ برکت کیلئے ان کا ذکرِ خیرسُنئے اور اپنی عقیدتوں کو چار چاند لگائیے ۔
آپ کا نام احمدبن علی بن یحیٰ بن حازم بن علی بن رَفاعہ ہے۔جَدِّامجد رفاعہ کی مناسبت سےرفاعی کہلائے۔ آپ سَیِّدُالشُّہدا امام حسین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی اولاد میں سے ہیں،آپ کی کُنیت ابو العباس اورلقب مُحْیُ الدین ہےجبکہ مسلک کے اعتبار سے شافعی ہیں ۔([2])
حضرت سَیِّدناعلی بن یحیٰ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کانکاح حضرت سَیِّدمنصور بَطائحی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی کی ہمشیرہ سے ہوا تھا جو کہ نہایت پرہیزگار خاتون تھیں انہی کے بطن سے۱۵ رجبُ المرجب ۵۱۲ ھ بمطابق یکم نومبر1118ء میں حضرت سَیِّد احمدکبیر رَفاعیعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی کی ولادت ہوئی۔([3])
حضرت سَیِّدُنا امام احمدکبیر رفاعیعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی کی ولادت سے پہلے ہی آپ کی وِلایت کی بشارتیں دی جانے لگی تھیں۔چنانچہ تاجُ العارفین،حضرت ابوا لوفا محمدبن محمد کاکیس رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا گزر اُمِّ عَبیدہ گاؤں کے قریب سے ہوا تو کہا : اَلسَّلامُ عَلَیۡکَ یا احمد!مریدوں نے عرض کی : ہم نے تو کسی احمد کو نہیں دیکھا،ارشاد فرمایا : وہ اس وقت اپنی والدہ کے پیٹ میں ہیں میری وفات کے بعدپیدا ہوں گے ، ان کا نام احمد رفاعی ہے اورروئے زمین کا ہر عبادت گزار ان کے سامنے عاجزی سے پیش آئے گا۔([4])
آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی پیدائش سے چالیس دن پہلے آپ کے ماموں حضرت سید منصور بطائحی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی خواب میں پیارے آقا محمد مصطفےٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے دیدار سے مشرف ہوئے،دیکھا کہ مکی مدنی سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ارشادفرما رہے ہیں : اے منصور ! چالیس دن بعد تیری بہن کے بطن سے ایک لڑکا پیدا ہوگا اس کا نام احمد رکھنا اور جب وہ کچھ سمجھدارہوجائے تو اُسے تعلیم کے لئے شیخ ابُوالفضل علی قاری واسطی کے پاس بھیج دینا اور اس کی تربیت سے ہرگزغفلت نہ برتنا۔اس خواب کے پورے چالیس دن بعدحضرت سَیِّدُنااحمد کبیر رفاعی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی اس دنیا میں جلوہ افروز ہوگئے۔([5])
بچپن میں آپرَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کےقریب سے سات دَرْویشوں کاگزر ہوا تو وہ ٹھہر کرآپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کو دیکھنے لگے۔ان میں سے ایک نےکلمۂ طیبہ لَا اِلٰهَ اِلَّا اللّٰه مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللّٰه پڑھا اور کہنے لگا : اس بابرکت درخت کا ظہور ہوچکا ہے ، دوسرے نے کہا : اس درخت سے کئی شاخیں نکلیں گی،تیسرے نے کہا : کچھ عرصے میں اس درخت کا سایہ طویل ہوجائے گا،چوتھے نے کہا : کچھ عرصے میں اس کاپھلزیادہ ہوگااورچاندچمک اُٹھے گا،پانچویں نے کہا : کچھ عرصے بعد لوگ ان سےکرامات کا ظہور دیکھیں گے اوربہت زیادہ ان کی جانب مائل ہوں گے،چھٹے نے کہا : کچھ ہی عرصے بعد ان کی شان وعظمت بلند ہوجائے گی اورنشانیاں ظاہر ہوجائیں گی،ساتویں نے کہا : نجانے(برائی کے )کتنے دروازے ان کی وجہ سے بند ہوجائیں گےاور بہت سے لوگ ان کے مُرید ہوں گے ؟([6])
آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے سات سال کی عمر میں قرآنِ مجید حِفْظ کیا، اسی سال آپ کے والدِماجد کسی کام کے سلسلے میں بغداد تشریف لے گئےاور وہیں ان کا انتقال ہوگیا۔والد کے انتقال کے بعد آپ کے ماموں جان شیخ منصورعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْغَفُور نے آپ اورآپ کی والدہ کو اپنے پاس بلالیاتاکہ اپنی سرپرستی میں آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی ظاہری و باطنی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رکھ سکیں،قرآنِ پاک تو آپ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ پہلے ہی حفظ کرچکے تھے لہٰذا کچھ دنوں بعد حضرت شیخ منصور عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْغَفُوْر نےحُضور ِاکرم،نورِمجسّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہدایت کےمطابق واسط میں حضرت شیخ علی قاری واسِطیعَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی کی خدمت میں علم حاصل کرنے کے لئے آپ کو بھیج دیا، شیخ علی قاری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْبَارِی نے آپ کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی ۔ اُستاد
[1] مصنف عبدالرزاق ، کتاب الصلاة، باب الصلاة علی النبی ، ۲/ ۱۴۰، حدیث:۳۱۱۶
[2] سیرت سلطان الاولیا، ص۲۲، ملتقطاً، وغیرہ، الزاویۃالرفاعیہ، باب المدینہ کراچی
[3] سیرت سلطان الاولیا، ص۲۴، ملتقطاً ، وغیرہ
[4] طبقات الصوفية للمناوی ، ۴/ ۱۹۱، دارصادر بیروت
[5] سیرت سلطان الاولیا، ص۴۴، ملخصاً
[6] جامع کرامات الاولیاء ، ۱/ ۴۹۰، مرکز اهل سنت برکات رضاھند
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع