30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
پہلے اِسے پڑھیں اللہ پاک کی انسان کے لئے ایک بڑی نعمت ’’والدین ‘‘ بھی ہیں۔والدین کی شرافت و عبادت کا اثر اَولاد پر ضرورپڑتاہے ۔والدین نیک سیرت اوربااخلاق ہوں تو اَولاد بھی نیکی کے راستے پرچلتی نظر آتی ہے،خوش نصیب ہیں وہ والدین جو اپنی اولاد کی اچھی تربیت کریں ۔شیخِ طریقت ،بانیِ دعوت اسلامی ، امیرِاہلِ سنّت حضرتِ علامہ مولانا محمد الیا س عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ کی ذاتِ گرامی تعارف کی محتاج نہیں۔آپ کی عمر تقریباً ایک دوسال تھی کہ آپ کے ابوجان حج پرگئے اوروہاں فوت ہوگئے۔آپ کی امی جان نے آپ کی پرورش اورتعلیم و تربیت کا انتظام کیا۔مَدَنی چینل پر ہونے والے امیراہل سنت کے مختلف مدنی مذاکروں کے سوال جواب اوردیگر پروگرامز کےمَدَنی پھولوں ، اور مختلف کتابوں اور تحریرات وغیرہ سے روشنی لے کر یہ مضمون بنام ’’فیضانِ اُمِّ عطار‘‘تیار کیاگیا جو آپ کی امی جان کی 47ویں برسی 17 صفر شریف 1445 ہجری (2023) کے موقع پر منظرِ عام پرآیا ہے ۔اس کا مطالعہ کرنے سے امیرِاہلِ سنّت کی امی جان کے بارے میں مختلف معلومات حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ’’ماں کو کیساہونا چاہئے ‘‘ اس بارے میں بھی مدنی پھول ملیں گے اور اسلامی بھائی اور اسلامی بہن دونوں کے لئے یہ رسالہ یکساں فائدے مند ثابت ہوگا۔ ان شاء اللہ الکریم ثواب حاصل کرنے اورنیکی کی دعوت عام کرنے کےلئے اِس رسالےکو خوب عام کیجئے اور ڈھیروں نیکیاں حاصل کیجئے۔ طالبِ دعائے غمِ مدینہ و بقیع و بے حساب مغفِرت ابومحمد طاہر عطاری مَدَنی عُفِیَ عَنہ اَلحمدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی خاتمِ النَّبِیّن ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِ اللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط فیضانِ اُمِّ عطّار دُعائے خلیفۂ امیرِاہلِ سنّت:یا اللہ کریم ! جو میری دادی جان کے بارے میں رسالہ ”فیضانِ اُمِّ عطّار“ کے 21صفحات پڑھ یاسن لے اُسے اوراس کے سارے خاندان کو نیک نمازی اور سچّا عاشقِ رسول بنا۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّن صلّی اللہ علیهِ واٰلهٖ وسلّمدُرودِ پاک کی فضیلت
فرمانِ آخِری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درودبھیجا اللہ پاک اس پر دس مرتبہ درود(یعنی رحمت)بھیجتا ہے اورجس نے مجھ پر دس مرتبہ دُرود بھیجا اللہ پاک اُس پر سو مرتبہ درود (یعنی رحمت)بھیجتا ہے اورجس نے مجھ پر ہزار مرتبہ دُرود بھیجا ، جنّت کے دروازے پر اُس کا کندھا میرے کندھے کےساتھ ہوگا۔ (مطالع المسرّات،ص 52بحوالہ شفاء الصدور) بچیں بے کار باتوں سے ،پڑھیں اے کاش کثرت سے ترے محبوب پر ہر دم، دُرُودِ پاک ہم مولیٰ صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہ عَلٰی مُحَمَّدخوشبودار جگہ
1398ہجری مطابق1978 عیسوی کی بات ہے۔گؤگلی،میٹھادَر اولڈ سٹی ایریا (کراچی) میں واقع ”بادامی مسجد “کے قریب ایک امام صاحب اپنی امّی جان وغیرہ کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ ماہِ صفر کی 17ویں رات نمازِ عشا پڑھانے کےلئےجانے لگےتواپنی امّی جان کے پاس آئے۔ امام صاحب کی دینی معلومات”عالم ِ دین“سے کم نہ تھیں۔بیمارماں کی زندگی کی آج آخِری رات تھی۔خوش بخت بیٹے نےنمازِ عشا کےلئے جانے کی اجازت چاہی تو حیرت انگیز طورپر امّی جان نے فرمایا:بیٹا ! اپنے ہاتھ لاؤ تاکہ میں چوموں، سعادت مند بیٹے نے کہا: ماں ! یہ کیسی بات کررہی ہیں؟میں آپ کے ہاتھ چوموں گا۔بالآخردونوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ چوم لئے۔اس عقیدت ومحبت بھرے انداز سے فارغ ہوکر وہ نوجوان امام صاحب گھر سےنورمسجد(کھارادَر،کراچی)کی جانب نماز پڑھانے کےلئے روانہ ہوئے اورنمازِ عشا اداکرکےحسبِ معمول وہاں ہونے والےہفتہ وار اجتماع (1)میں اپنی باری آنے پروہ حاضرین کے سوالات کے جوابات دینے میں مشغول تھےکہ ایک لڑکااُن کو گھر بُلانےکے لئے آیا،مگرہ وہ دینی مسائل بتانے میں مشغول رہے،کچھ ہی دیر میں وہ لڑکا پھر آگیا اور قریب آکر بولایاکسی کے ذریعے کہلوایا کہ آپ کی بڑی بہن آپ کو گھر بُلارہی ہیں تو اَب اُس نوجوان کو کھٹکا ہواکہ شایدماں کی طبیعت خراب ہوگئی ہوگی،دراصل چند دن قبل اتوار کوامی جان کی طبیعت خراب ہوئی تووہ امام صاحب ڈاکٹر کو گھر بُلاکر لائےتھےاور ڈاکٹر نے چیک اَپ کرکےاشاروں میں کچھ کہا جس سے ایسالگاکہ دل کا کچھ مسئلہ ہواہے۔بس پھر کیا تھاامام صاحب نے اپنے پاس موجود ایک دوست کے کان میں کہا:شاید امی جان کوکچھ ہوا ہے، میں گھر جارہا ہوں ،آپ بھی پہنچیں، جب جلدی سے گھر پہنچےتوکیا دیکھا کہ امی جان پر سَکرات کی کیفیت (یعنی موت)طاری ہے اور زبان بند ہوگئی ہےاورموت کے جھٹکے آرہے ہیں۔بڑی بہن نےبھائی کو بتایا:امی جان آپ کو بہت یاد کر رہی تھیں (دراصل یہ نوجوان اپنے والدین کاسب سے چھوٹابیٹا تھا۔ماں پیار سے اِسے”بابو“بولتی تھیں۔)ماں نے بار بار کہا: میرے بابو کو بُلاؤ کہیں وہ مجھ سےدُورنہ رہ جائے، اُسے جلدی بُلاؤ ! ہم نےامی جان کو زم زم شریف پِلایا پھران کو اِستِغفار اورکلمہ شریف بھی پڑھایا۔ مگر آہ ! جب آپ پہنچےتو ماں کا ہوش جاتارہا تھا اورانہوں نےبات چیت کرنا بندکردی تھی۔ نیک بخت بیٹے نےاِس اَلمناک (یعنی دردناک)منظر کو دیکھ کرجیسے تیسے اپنے آپ کو سنبھالا اور فوراً سورۂ یسین شریف کی تلاوت شروع کردی کیونکہ حدیثِ پا ک میں فوت ہونے والے کے پاس سورۂ یسین شریف پڑھنے کی ترغیب ہے۔(2) رات تقریباًسوا دس بجے تلاوتِ قرآنِ کریم کے دوران امی جان کی روح جسم سے جُدا ہوگئی۔ غسل کے بعد چہرۂ مبارکہ کافی روشن ہوگیا اورجس جگہ والدہ کی روح قبض ہوئی،اس زمین سے خوشبو آتی رہی اوروفات کے تقریباً چالیس دن تک را ت سوادس بجے گھر میں بڑی مہکی مہکی بھینی بھینی خوشبو آتی رہی۔وہ امام صاحب اپنے دوستوں کو رات کے وقت اپنےگھر لاتےاوران کووہ غیبی خوشبوسنگھاتے،تیجے کے(یعنی انتقال کے تیسرے)دن جب امام صاحب نے اپنی والدہ کی قبر پر پھول رکھے تو شام تک وہ پھو ل تروتاز رہے اوران کا ہاتھ سارا دن اُن پھولوں کی خوشبوؤں سے مہکتا رہا ۔ اللہ پاک کی رحمت سے کیا بعید کہ لوگوں کو دکھانا مقصود ہوکہ صحابہ واہل بیت علیہمُ الرّضوان سے محبت کرنے والی ،غوث و خواجہ رحمۃُ اللہ علیہما کی چاہنے والی اس شان سے دنیا سے گئی کہ ہرطرف خوشبو پھیل گئی۔یہ سب غلامیِ مصطفےٰ کا صدقہ ہے جس پر اُن کی نظر ہوجاتی ہے تونہ صرف اس سے بلکہ اس کی برکت سے عالَم مہک اُٹھتا ہے۔ ان کی تربت پہ بارش ہو اَنوار کی مولا رتبہ بڑھا اُمِّ عطار کا اللہ پاک کی ان پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّٖن صلّی اللہ علیهِ واٰلهٖ وسلّم میرے آقااعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت مولانا شاہ امام احمدرضا خان رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں: واسِطہ پیارے کا ایسا ہو کہ جو سُنّی مرے یوں نہ فرمائیں تِرے شاہِد کہ وہ فاجِرگیا عرش پر دُھومیں مچیں وہ مومن صالِح مِلا فرش سے ماتَم اُٹھے وہ طیب و طاہِر گیا (حدائق ِ بخشش، ص53) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہ عَلٰی مُحَمَّد کیا آپ جانتے ہیں یہ نیک سیرت نوجوان، دینی مسائل سکھانے والامسجد کا پیش امام اور امی جان کے ہاتھ چومنے والاسعادت مند بیٹا کون تھا؟جی ہاں ! یہ کوئی اور نہیں بلکہ بانیِ دعوتِ اسلامی امیرِاہلِ سنّت حضرتِ علامہ مولانامحمدالیاس عطار قادری رضوی بَیَّضَ اللہ وجہَہٗ ( یعنی اللہ پاک ان کا چہر ہ روشن کرے)تھےاورفوت ہونے والی خوش نصیب خاتون ان کی امی جان تھیں ۔جنّت میں داخلہ
پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! اللہ ربُّ الْعِزّت کی رحمت سے امیرِ اہلِ سنّت بیض اللہ وجہَہٗ کی امی جان پر کتنا کرم ہواکہ آبِ زم زم شریف پی کر کلمہ و اِستِغفار پڑھ کر فوت ہوئیں ۔ اللہ پاک کےپیارے پیارے آخری نبی ،مکّی مَدَنی ، محمدِعربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے : ”جس کا آخِر کلام لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اللہ (یعنی کَلِمَۂ طَيِّبَہ)ہو، وہ جنت ميں داخل ہوگا ۔“ (ابوداؤد ، 3/255، حديث:3116)ربِّ غفّار ! اُمِّ عطّار کے مزار پر اپنی رحمتوں کی بارش فرمائے۔ نازل ہوں سدا رحمت کے گُہر عطّار کی پیاری اَمی پر ہو پیارے نبی کی خاص نظر عطّار کی پیاری اَمی پر امیرِاہلِ سنّت کی امّی جان کی وفات کےاِ س واقعے میں ہمارے لئے ایک بات یہ بھی سیکھنے کی ہے کہ امیرِاہلِ سنّت سے ان کی امی جان خوب محبّت کرتی تھیں،جبھی توامّی جان نے ان سے فرمایاکہ آج میں تمہارے ہاتھ چوموں گی ۔ کاش ! گفتار(یعنی باتوں) کے غازی بننے کےبجائے ہم اپنے کردار میں سُدھارلائیں۔جب دنیاوالےکسی کواچھا سمجھیں توبے شک وہ اچھا لیکن جب کسی کے کردارکی گواہی اُس کےگھر والے بھی دیں اُس وقت اس کی اچھائی کے کیاکہنے۔ اللہ کریم ! امیرِاہلِ سنّت کے صدقے ہمیں نیک سیرت بنائے۔ ہوں بظاہِر بڑا نیک صورت کربھی دے مجھ کو اب نیک سِیرت ظاہِر اچھا ہے باطِن بُرا ہےیاخدا تجھ سے میری دُعا ہے صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہ عَلٰی مُحَمَّداُمِّ عطّار کا تعارف
امیرِاہلِ سنّت کی امّی جان کا نام ”امینہ بنت حاجی ہاشم(3) “تھا۔آپ ہند کے صوبہ گجرات ریاست”جُونا گڑھ“ کے ایک گاؤں کُتیانہ میں پاک و ہند کی تقسیم سے پہلےپیدا ہوئیں۔آپ نیک اورپرہیزگار خاتون تھیں۔آپ کے ایک بھائی اورتین بہنیں تھیں۔ بھائی کانام ”نورمحمد بُھنڈی“ اوربہنوں کے نام رابعہ،عائشہ اورحوّا تھے۔ امیرِاہلِ سنّت کی نانی جان کانام ”حلیمہ“تھا۔امیرِاہلِ سنّت کی 3خالائیں
امیرِاہلِ سنّت کی خالہ رابِعہ کراچی ہی میں رہتی تھیں ۔ امیراہل سنت کا ان کےہاں بارہا جاناہوتارہا۔ دوسری خالہ عائشہ کولمبو میں رہتی تھیں ۔1979 میں امیرِاہلِ سنّت جب پہلی بار کولمبو تشریف لے گئے تھے اس وقت ان سے ملاقات ہوئی تھی ۔ نہایت غربت کی حالت میں وقت گزا ر رہی تھیں۔ان کے بچوں کے ابو کانام”احمد پَگّھی “تھا ۔جنہوں نے امیرِاہلِ سنّت سےان کے ابوجان کا قصیدہ ٔ غوثیہ والا (4)واقعہ بیان کیا تھا ۔تیسری خالہ حوّا تھیں۔امیرِاہلِ سنّت کی ان سے کبھی ملاقات یازیارت نہ ہوئی ۔ اُن کے بارے میں معلومات ملیں کہ وہ مدراس(مَ۔دْ۔راس) ہند(5 )میں رہتی تھیں۔ماموں جان کی طرف سےدعوت
امیراہل سنت کے ایک ہی ماموں جان تھے جن کا نام ’’نورمحمدبُھنڈی ‘‘(6)تھا۔ ماموں جان کا گھر کیا تھا بس ایک ہی کمرہ ،جس پر مچان(Mezzanine) سی بنی ہوئی تھی اُس میں بوڑھی نانی لیٹی رہتی تھی، مچان ایسی تھی کہ اوپر جائیں تو سیدھے کھڑے نہیں ہوسکتے تھے کیونکہ سر چھت سے ٹکراتا تھا۔ماموں جان کبھی کبھی اپنی بہن یعنی اُمِّ عطّار کی دعوت کرتے۔جس میں امیرِاہلِ سنّت فرماتے ہیں : ہم بہن بھائی مل کر جاتے۔امیراہل سنت کے ماموں جان عید کےموقع پر گھرآتے اور عیدی میں اپنے بھانجے ، بھانجیوں کو اَٹھنی یعنی آدھا روپیہ دیتے۔(مدنی مذاکرہ بنام رؤیت ہلال،28 رمضان 1439)مدد کرکے دعا نہ کروائیے
امیرِاہلِ سنّت اپنے ماموں جان کا ایک منفرد واقعہ بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں : ایک مرتبہ ماموں جان نے مجھے کسی غریب کوکھانا پہنچانے کےلئے دیا۔میرےمنہ سے نکلا: میں فقیر کو کھانا دے کر اس سے کہوں گا کہ ہمارے لئےدعا کرنا۔ ماموں جان نے فرمایا: فقیر کوکھانا دے کر اُس سے دعا کاکہنا توگویا ایساہواکہ آپ نےکھانا دینے کی نیکی کا بدلہ مانگ لیا۔(تذکرہ امیراہل سنت قسط 7،بالتصرّف) ما شاءَ اللہ الکریم ! ماموں جان کی اِتنی گہری سوچ کی بھی کیا بات ہے ! ہمارے بزرگان دین رحمۃُ اللہ علیہم سے بھی اس طرح کےانداز کتابوں میں لکھے ہیں جیساکہ تمام مسلمانوں کی پیاری امّی جان حضرت ِ بی بی عائشہ صِدّیقہ اور حضرتِ بی بی اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہما جب فقیر کی طرف کوئی تحفہ بھیجتیں تو لے جانے والے سے فرماتیں:اُس کے دُعائیہ الفاظ یاد رکھے ، پھر اُس جیسے الفاظ کے ساتھ جواب دیتیں اور فرماتیں:دعا کے بدلے اس لئے دعا دی ہے تاکہ ہمارا صدقہ (یعنی ان کو دی ہوئی خیرات کا ثواب)محفوظ رہے۔ امام محمد بن محمد بن محمد غزالی رحمۃُ اللہ علیہ یہ واقعہ ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:الغرض ! صالحین (یعنی نیک بندے)تو دعا کی توقُّع بھی نہیں رکھتے تھے کیونکہ یہ بدلے کے مُشابِہ (یعنی مِلتاجلتا ) ہے اور وہ دعا کے بدلے دعا دیا کرتے تھے۔مسلمانوں کے دوسرےخلیفہ حضرت ِ سیدنا عمر فاروق اور آپ کے بیٹے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے ۔ (احیاء العلوم ، 1/292) ہوسکتاہے ماموں جان کےپیشِ نظر بزرگوں کے یہ اعمال ہوں جس وجہ سے اُنہوں نے اپنے بھانجے کو اس پر عمل کی ترغیب دلائی۔ اللہ کریم ہمیں بھی اپنی رضا کےلئے غریبوں کی مدد کرنے کی توفیق عطافرمائے ۔ اللہ ربُّ الْعِزّت کی ان سب پر اپنی رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّٖن صلّی اللہ علیهِ واٰلهٖ وسلّم مِرا ہر عمل بس تِرے واسطے ہو کر اخلاص ایسا عطا یا الٰہی ! (وسائل بخشش،ص 105) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہ عَلٰی مُحَمَّدماموں جان کی وفات کا دردناک واقعہ
افسوس ! ماموں جان کی وفات بڑے درد ناک انداز میں ہوئی چنانچہ ماموں جان اپنی پہلی بیٹی کی شادی کےجہیز کاسوداکرکےواپس گھرآرہے تھے کہ بس پر چڑھتے ہوئے پاؤں پھسلا اورآہ ! ماموں جان چلتی بس سے گرےاوران کاسرپہیےکے نیچے آ گیا اور فوت ہو گئے ۔ ان کی تدفین کراچی کے مشہور قبرستان ”میوہ شاہ “میں ہوئی۔ اللہ ربُّ الْعِزّت مرحوم کی بے حساب مغفِرت فرمائے اوران کے صدقے ہمیں بھی بخش دے۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّٖن صلّی اللہ علیهِ واٰلهٖ وسلّم صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب ! صَلَّی اللہ عَلٰی مُحَمَّد75روپے میں گھر کا گزارہ
ابوجان کی وفات کے بعد امیرِاہلِ سنّت کے بڑے بھائی”عبدُالغنی“ نےاپنی برادری کُتْیانہ میمن ایسویسی ایشن کےایک دواخانے پر ملازمت (Job) اختیارکی۔جہاں اُنہیں شروع میں ماہانہ 75 روپے تنخواہ (Salary) ملتی۔ جس سے وہ اپنی بیوہ ماں اوریتیم بھائی بہنوں کی خدمت کرتے۔اُمِّ عطار کی خودداری
امیرِاہلِ سنّت کی عمر ڈیڑھ یا دوسال ہوگی کہ ان کے ابوجان حاجی عبدالرحمن رحمۃُ اللہ علیہ حج پر گئے اور مِنیٰ شریف میں سخت لُو چلنے کے باعث غالباً14ذی الحج شریف کو فوت ہوگئے ۔گھر کے سربراہ کا انتقال ہونے کے بعد گھر کی ساری ذمّے داری گویا امیراہل سنت کی امّی جان پر آگئی ۔انہوں نےان سخت مشکل حالات میں اپنے بچوں کوسنبھالا اور محنت مزدوری کرکے گھر چلاتی رہیں ۔دو دانے معاف کروائے
امیرِاہلِ سنّت کی امی جان گھر پربھنے ہوئے چنے اورمونگ پھلیاں چھیلنےکےلئے لاتیں ، ایک سیر(7 )چنے چھیلنے پر چارآنے اورایک سیر مونگ پھلی چھیلنے پر ایک آنہ ملا کرتا ۔ گھر کے سب افراد مل کر چھیلتے۔کام کے دوران امیرِاہلِ سنّت جوکہ ان دِنوں غالباً چار پانچ سال کے ہوں گے،دوچار دانے کھالیتےتو والدہ سے کہتے: ماں سیٹھ سے معاف کروالینا ۔ امّی جان مزدوری لیتے وقت کبھی سیٹھ کو کہہ دیتیں: بچے دودانے کھالیتے ہیں۔ مُعاف کر دینا۔گھر میں عبادت کا رجحان
امیرِاہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ فرماتے ہیں: اَلحمدُ لِلّٰہ ! ہمارے گھر کا ماحول دینی تھا میرے بڑے بھائی اوروالدہ وغیرہ مل کر چادر بچھا کر باداموں پر کچھ پڑھتے تھے ۔کم سِن ہونے کی وجہ سے مجھے یہ یاد تونہیں کہ کیاپڑھتے تھے البتہ گھر کا ماحول عبادات و نماز ، روزے والا تھا۔ ( مدنی مذاکرہ 09صفر المظفر 1442ھ )امی جان کی برکت سے سار ا گھر نمازی
گھر میں ہر مہینے حضورِ غوثِ پاک رحمۃُ اللہ علیہ کی گیارہویں کے سلسلے میں نیاز ہوتی ۔ اُمِّ عطّار نماز روزے کی پابند تھیں ۔ امیرِاہلِ سنّت فرماتےہیں: اَلحمدُ لِلّٰہ ! مَىں نے جب ہوش سنبھالا تو گھرمىں نماز ،مصلّٰى اور امی جان کو چادر اوڑھ کر نماز پڑھتے دىکھا۔ بالخُصوص نمازِ فجر کے لئےمجھےاُٹھایاکرتیں ۔ اَلحمدُ لِلّٰہ ! کڑکڑاتی سردی میں بھی مسجد کی حاضری سے مُشرّف ہوتاتھا۔(مدنی چینل پروگرام پرانی یادیں ،قسط: 2بتغیر)جیسی ماں ویسی اولاد
اُمِّ عطار کی مُشکبار زندگی کے اس حصے میں ہماری اسلامی بہنوں کےلئے بڑا درس ہے ۔ کاش ! جس طرح ماں اپنے بچوں کو صبح سویرے اسکول اور نوکری (Job) پر بھیجنے کےلئے اُٹھا کر ہی دَم لیتی ہیں ۔کاش ! اس سے بڑھ کر نما ز ،روزے اوردیگر عبادات کی ادائیگی کا ذہن بنائے۔کیونکہ” ماں کی گود“بچے کی پہلی درس گاہ ہے ۔ اگر ماں نیک سیرت ، نماز روزے والی،سنّتوں کی پابند ،باحیا و بااخلاق ہوگی تو اُس کی اَولاد میں بھی ایسی اچھی عادات مُنتقل ہوں گی اوراگر خدانخواستہ ماں نیک اعمال سے دُور ،ناجائزفیشن کرنے والی،گناہوں بھرےٹی۔وی چینلز دیکھنے والی ہوگی تو یہ بُرائیاں اَولاد میں بھی آسکتی ہیں۔آج کل کئی والدین اپنی اولاد کی نافرمانی پر دِل جلاتے،امام صاحبان سے دُعا ئیں کرواتے اور اولاد کی بداخلاقیوں کے رونےروتے نظرآتے ہیں۔حالانکہ اولادکے بِگاڑ میں بَسااوقات خود ماں باپ کی بے عملیوں کا بھی حصہ ہوتاہے والدین کو خوب غورکرنا چاہئے کہ خود انہوں نے اپنی اولاد کی کتنی دینی تعلیم و تربیت کی ہے !بچوں کو بچپن ہی سے سنبھالئے
جن کے بچے ابھی چھوٹے ہیں اُن سب سے درخواست ہے کہ ابھی سے اپنے گھرکو سنتوں کا گہوارہ بنائیے۔گھر کو مذہبی اور دینی رنگ دیں گے تو اپنی آخرت کی بہتری کے ساتھ ساتھ بچوں کی تعلیم و تربیت میں بھی بڑا فائدہ ہوگا۔گھر کو نیکیوں بھرا گھر بنانے کےلئے اپنے گھر میں صرف وصرف مَدَنی چینل چلائیے۔ اللہ کریم اوراس کےپیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا مبارک نام ننھے منے بچوں کے کانوں میں رَس گھولتا رہے گا اور اِن شاءَ اللہ الکریم ابھی سے دل میں محبتِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شمع فروزاں ہوجائے گی ۔اپنے بچوں کو میوزیکل کھلونوں اور ایسی تقریبات سے بھی بچائیے جس میں میوزک بجایاجاتاہو۔ آج بچائیں گے تو آگےبچ سکیں گے۔ اپنے بچوں کو حقوقُ الْعِباد (یعنی بندوں کے حق)کے حوالے سے بھی سکھائیے کہ ہمیں کسی کا حق نہیں مارنا اورنہ کسی کی کوئی چیز چُرانی ہے۔اس حوالے سے اُمِّ عطار کی سیرت کا ایک ایمان افروز واقعہ پڑھئے:
1 … اَلحمدُ لِلّٰہ الکریم !امیرِاہلِ سنّت دعوت اسلامی کے آغازسے بھی پہلے لوگوں کو دینی مسائل سکھاتے تھے اور ہر جمعرات نور مسجد میں دینی مسائل کے بارے میں سوال و جواب کا سلسلہ ہواکرتاتھا۔ 2 …سرکارِنامدار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس مرنےوالے کے سرہانے سورۂ ىٰسىن شرىف تلاوت کى جاتى ہے اللہ پاک اس پر آسانی فرماتا ہے۔( موسوعۃ ابن ابی الدنیا ، 5/ 454 ، حدیث :195)ایک اورحدیثِ پاک میں ہے: اپنے مُردوں کے پاس سورۂ یٰسین پڑھو۔( ابو داؤد ،3 /256 ،257، حدیث :3121) 3 … حضرتِ عمر بن عبدالعزیز رحمۃُ اللہ علیہ کی ایک صاحبزادی کا نام بھی امینہ تھا۔ (حضرت سیدنا عمر بن عبدالعزیز کی 25 4حکایات،ص185) 4 … یہ واقعہ تفصیل سے پڑھنے کےلئے امیرِاہلِ سنّت کے والد صاحب کی سیرت پر مشتمل رسالہ” فیضانِ ابوعطار “ پڑھئے۔ 5 …مدراس کا اب نام چنائی ہے یہ بھارت کی ریاست تامل ناڈو کا دار الحکومت اور ملک کا چوتھا بڑا شہر ہے۔ 6 … میمن کمیونٹی میں بُھنڈی Surname ہے ۔ 7 …تقریباً پچاس سال پہلے وزن او ر روپوں کا حساب اس طرح ہوتاتھا۔اب تقریباً یہ نظام ختم ہوگیا ہے ایک سیرکلو سے کچھ کم ہوتاہےجبکہ ایک روپے میں 16آنے ہوتے تھے۔اَب کلو گرام اور روپے میں وزن اور قیمت بیان ہوتی ہے ۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع