mozu ka taruf aur is ki zaroorat o ahmiyat
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Fatawa Noriya Jild 01 Kay Manhaj-o-Usloob Ka Tajziyati Mutala | فتاوی نوریہ (جلد اول) کے منہج واسلوب کا تجزیاتی مطالعہ

    mozu ka taruf aur is ki zaroorat o ahmiyat

    book_icon
    فتاوی نوریہ (جلد اول) کے منہج واسلوب کا تجزیاتی مطالعہ
                
    مقدمہ

    موضوع کا تعارف اور اس کی ضرورت و اہمیت:

    اللہ تعا لیٰ کا پسندیدہ دین اسلام ہے ،جسے تا قیا مت با قی رہنا ہے،اس کے سرچشمہ ہدایت اوردستور یعنی قرآن مجید کی حفا ظت کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے خودفر ما یا ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ﴿ اِنا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَاِنَّا لَهُ لَحٰفِظُون ترجمہ :ہم ہی نے قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے نگہبا ن ہیں۔(1) اللہ تعا لیٰ نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کی حیا ت طیبہ کے ہر ہر گو شےکو بہتر ین نمو نہ قرار دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی حیات طیبہ دراصل قر آ ن کریم کی تشریح وتو ضیح ہے ،جو آج بھی کتب ِ احادیث میں موجود ہے۔ دینِ اسلام جو در حقیقت دستور حیات اور طرزِ زندگی کے لیے کامل رہنما ہے،اس کا منبع و ماخذ کتا ب وسنت ہے۔قرآن کریم ،جو منبعِ رشد وہدایت اور اسلامی فقہ کا ماخذِ اول ہے، اس نے انسانی زند گی کے لیے بنیادی زریں اصولوں کی نشا ندہی کر دی ہے اور اس کے اجما لی احکام کی تشریح سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے میسر آجاتی ہے ،جو فقہ اسلامی کے اولین ماخذ میں سے ہے۔ ”فقہ“اسلامی تعلیمات کے رہنما اصول پر مشتمل ،شریعت کے عمومی مزاج کا ترجمان اور اسلامی زندگی کے لیے چراغِ ہدایت بھی ہے ۔ اس لیے علوم اسلامیہ میں فقہ کی جو اہمیت وضرورت ہے ،وہ آفتاب کی طرح روشن ہے۔ اس کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے اور تا قیامت قائم رہے گی۔علمائے کرام قرآن و حدیث میں غوطہ زنی کرکے فقہی اصول کے ذریعے امت کے پیش آمدہ مسائل حل کرتے رہے اوررہیں گے۔ لغت میں لفظ فقہ کو کسی چیز کے جاننے اور سمجھنے کے معنی میں استعمال کیاجاتا ہے اور اسی معنیٰ میں تفقہ فی الدین(دین کی سمجھ) کا لفظ قرآن و حدیث میں وارد ہوا، چنانچہ فرمایا: من یرد اللہ بہ خیرا یفقہ فی الدین۔(2)اللہ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، اسے دین کی فقاہت دے دیتا ہے ۔ عہد صحابہ و تابعین میں فقہ کا لفظ ہر قسم کے دینی احکام کی فہم پر بولا جاتا تھا ،جس میں ایمان و عقائد، عبادات واخلاق، معاملات اور حدود و فرائض سب شامل تھے۔ یہی وجہ ہے کہ امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ سے منقول فقہ کی تعریف:’’ان الفقہ ھو معرفة النفس مالھا وماعلیھا‘‘جس سے انسان اپنے نفع و نقصان اور حقوق و فرائض کو جان لے وہ فقہ ہے“اپنے اندر مذکورہ تمام چیزوں کو سموئے ہوئے ہے، مگر بعد میں جب علیحدہ طور پر ہر فن کی تدوین وتقسیم ہوئی تو ”فقہ“ عبادات و معاملات اور معاشرت کے ظاہری احکام کے لیے خاص ہوگیا۔ یہ بات تو پوری طرح واضح ہے کہ احکام شرعیہ کے استنباط کا اصل منبع کتاب اللہ ، اس کے بعد سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ،پھر اجماع و قیاس ہیں، جس کی حقیقی تصویر اس واقعہ میں دیکھی جاسکتی ہے، جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا قاضی بناکر رخصت کرتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا کہ:’’كيف تقضی اذا عرض لك قضاء‘‘ یعنی اگر کوئی مسئلہ درپیش ہو،تو اپنے فیصلے کی بنیاد کس کو قرار دوگے؟ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : کتاب اللہ کو ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا :اگر اس میں کسی کا حل تم نہ پا سکوتو ۔۔ ؟ عرض کیا: احادیث سے فیصلہ کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دریافت فرمایا کہ اگر وہاں سے بھی نہ پا سکو تو۔۔؟ اخیر میں کہا کہ اپنی رائے سے فیصلہ کروں گا اورحق کی جستجو میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے فہمِ دین اور مزاجِ شریعت سے ہم آہنگی اور آگہی پر خوشی کا اظہار کیا اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرمایا: تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں، جس نے اللہ کے رسول کے قاصد کو اس بات کی توفیق دی ،جس سے اس کا رسول راضی ہے۔(3) اسی طرح کی صورت آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے وصال کے بعد مسئلہ خلافت میں پیش آئی جوصحابہ کرام کے اجماع سے حل ہوئی۔خلاصہ ِ کلام یہ ہے کہ عمارتِ فقہ کی بنیاد ِاول کتاب اللہ ،پھر حدیث ہے اوراجماع بھی حقیقت میں انہی سے مویداورقیاس بھی قرآن و حدیث ہی کے حکم کا مُظہِر ہوتا ہے۔فقہ وفتاوی کی بنیاد تو عہد رسالت ہی میں پڑ چکی تھی کہ خود قرآن مجید نے صحابہ کے استفتاء اور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے وحی الٰہی سے افتاء کو بیان فرمایا ہے۔ صحابہ کرام کو جب کوئی مسئلہ درپیش ہوتا ،تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رجوع کرتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عام صحابہ کو جب کسی مسئلے کا حکم معلوم کرنا ہوتا ،تو وہ فقہاء صحابہ سے دریافت کرتے۔ اسی عمل کو مرتب و مدون انداز میں اَئمہ اربعہ (امام اعظم ،امام شافعی ،امام مالک اور امام احمد بن حنبل علیہم الرحمۃ)نے بامِ عروج تک پہنچایا اوراب تک یہ سلسلہ چلتا آرہا ہے۔ احناف نے فقہ پر جو کام کیا ،وہ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ امام اعظم کے بعد ان کے مذہب کو نقل کیا گیا ،جن کو متون سے تعبیر کیا جاتا ہے ،اس کے بعد ان کی شروحات ہیں، پھر فتاوی ہیں۔

    فتویٰ کا معنی و مفہوم:

    مسئلہ معلوم کرنے کےلیے سوال اوراستفتا کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں اور پوچھنے کے بعد مسئلہ بتانے کے لیے جواب اور افتاء کے الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ شرعی مسئلہ دریافت کرنا ’’استفتاء‘‘ہے اور دریافت کرنے پر جواب دینا ’’افتاء‘‘ یعنی فتویٰ دینا ہے ، سوال پوچھنے والے کو ’’سائل ‘‘اور ’’مستفتی ‘‘ کہا جاتا ہے ، جبکہ جواب دینے والے کو ’’مفتی‘‘ اور ’’مجیب ‘‘ کہا جاتا ہے۔ قرآنِ پاک میں لفظ فتویٰ اپنے مشتقات کے اعتبار سے مختلف مقامات پر اکیس بار استعمال ہوا ہے۔ ان میں سے دس مقامات پر تو یہ لفظ اپنے لغوی معنٰی میں استعمال ہوا ہے، جبکہ گیارہ مقامات پر یہ لفظ تحقیق و تدقیق کے معنی میں آیا ہے۔ احادیث مبارکہ میں بھی یہ لفظ بکثرت استعمال ہواہے،ان احادیث مبارکہ میں یہ لفظ اپنے اصطلاحی معنوں میں مستعمل ہے۔ فتوی دیناایک اہم ذمہ داری ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مفتی ، شارع کے نائب کی حیثیت سے دینی معاملات میں لوگوں کی رہنمائی کرتا ہے۔اس کی اسی اہمیت کے پیش نظر فتوی نویسی کے اصول وقواعد کو باقاعدہ فن کی شکل دی گئی اور اس فن کو ’’رسم المفتی‘‘سے تعبیر کیاگیا۔ فقہ حنفی میں سب سے پہلے متون ، پھر شروحات، پھر فتاوی کا درجہ ہے ، اور اسی اعتبار سے اس کی تدوین ہوئی، عربی فتاوی کے بعد اردو فتاوی جات کا ایک سلسلہ شروع ہوا ،جن میں فتاوی رضویہ، فتاوی امجدیہ اور دیگر کئی فتاوی جات شامل ہیں ۔ اِنہی اردو فتاوی کے سلسلے کی ایک کڑی فتاوی نوریہ ہے ، جو عصر حاضر کا عظیم فقہی شاہکار اور فقہ حنفی کا ممتاز انسائیکلوپیڈیا ہے ، جس کے منہج و اسلوب کے جائزے پر یہ مقالہ لکھا جا رہا ہے۔ فتوی عموما ایک سائل کو دیا جاتاہے، لیکن عوام و خواص سبھی اس سے مستفید ہوتے ہیں ، لہذا فتوی ایسا ہو ،جو عمدگی کے ہر معیار پر پورا اترتا ہو ، جس کے بہت سے تقاضے ، متعدد اسالیب ہیں، مختلف مفتیان کرام مختلف اسلوب اپناتے ہیں ، لیکن بعض اسالیب عمومی اور بعض تحقیقی معیار کے ہوتے ہیں اور ایسے فتاوی جو تحقیقی معیار کے ہوتے ہیں ،اگر فتوی نویسی کی مشق کرنے والے علماء ان کے اسلوب کو مدنظر رکھ کر فتوی لکھیں ، تو ان کے فتاوی میں بھی وہی جامعیت و عمدگی پیدا ہو سکتی ہے۔ اسی بات کو مد نظر رکھتے ہوئے فتاوی نوریہ کی پہلی جلد پر یہ مقالہ لکھا گیا ہے ، جس میں مفتی نور اللہ بصیر پوری علیہ الرحمۃ کے فتاوی کا اسلوب جاننے کی سعی کی جائے گی ، تاکہ ان چیزوں کو سامنے رکھ کر فتوی نویسی کی مشق کی جا سکے، اس مقالے میں فتاوی نوریہ کی پہلی جلد میں موجود فتاویٰ کو تجزیاتی نگاہ سے دیکھا جائے گا کہ مفتی صاحب فتوی لکھتے ہوئے کن چیزوں کو ملحوظ رکھ کر جواب دیتے ہیں اور کس انداز میں دلائل سے استدلال کرتے ہیں؟اس مقالے میں فتاوی نوریہ کی پہلی جلد کے مطالعہ سے حاصل کی گئی ان چیزوں کو بیان کیا جائے گا ، جن سے مفتی صاحب کے اسلوب ،طرزِ استدلال ، منہج اور ذکر دلائل کے انداز اور اختلاف وتردید کاطریقہ سمجھنا آسان ہو جائے گا۔

    موضوعِ تحقیق :

    مقالے کا موضوعِ تحقیق یہ ہے کہ علامہ نوراللہ بصیر پوری علیہ الرحمۃ نے فتاوی نوریہ جلد اول میں کیا اسلوب اختیار کیا ہے اور منہج ِ تحقیق کیا تھا ؟ فتاوی کے جواب، دلائل ذکر کرنے اور ان کی ترتیب کاطریقہ کیا ہے؟ کس طرح آپ اشکال اور ابہام کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ مفتیٰ بہ اقوال کی طرف رہنمائی کرتے ہیں؟کن مسائل کی علل بیان کیں اور کس طرح بیان کیں ؟ اس کا جائزہ لیا جائےگا ۔ مقصدِتحقیق: صاحب فتاوی نوریہ کے طرزِ تحقیق و استدلال اور اندازِ فتوی کو سمجھا سکے۔ خاکہ:

    الباب الاول

    الفصل الاول:مفتی نور اللہ بصیر پوری علیہ الرحمۃ کا شخصی تعارف الفصل الثانی: مفتی نور اللہ بصیر پوری علیہ الرحمۃ کا علمی تعارف الفصل الثالث: فتاوی نوریہ، جلد اول کا مختصر تعارف

    الباب الثانی

    الفصل الاول:جواب و دلائل کا منہج و اسلوب الفصل الثانی:اختلاف و رد کا منہج و اسلوب اس مقالے کے دو ابواب ہیں، پہلا باب تعارف پر مشتمل ہے ، جس کی تین فصلیں ہیں ، پہلی فصل میں مفتی نور اللہ بصیر پوری علیہ الرحمۃ کا شخصی تعارف پیش کیا جائے گا ، اس کے بعد دوسری فصل میں آپ کا علمی تعارف پیش کیا جائے گا، اس کے بعد تیسری فصل میں فتاوی نوریہ، جلد اول کا مختصر تعارف ہو گا ،جس سے پہلی جلد کا ایک اجمالی خاکہ ذہن میں آ جائے گا۔ اس کے بعد دوسرے باب میں دو فصلیں ہیں ۔ پہلی فصل میں فتاوی نوریہ کے فتاوی کے جواب و دلائل کا منہج و اسلوب جاننے کی کوشش کی جائے گی کہ مفتی صاحب کے جواب کا اسلوب ،طرزِ استدلال ، منہج کو سمجھا جائے گا اور فتاوی نوریہ جلد اول میں اختیار کردہ طرزِ استدلال، رفعِ اشکال، فن افتاء اور علم حدیث کا جائزہ لیا جائے گا۔ اور اس کے بعد کی فصل میں فتاوی نوریہ کے فتاوی میں اختلاف و رد کے منہج و اسلوب کا جائزہ لیا جائے گا کہ مفتی صاحب کس انداز میں کسی سے اختلاف کرتے اور اس کے دلائل کا رد کرتے ہیں، اور اس موقع پر کن کن چیزوں کا لحاظ رکھتے ہیں۔
    (1)( پارہ 14، سورۃ الحجر،آیت نمبر 09) (2)(الصحیح البخاری ، کتاب العلم ،باب من یرد اللہ بہ خیرا، جلد 1 ، صفحہ 25، مطبوعہ بیروت) (3)(سنن ابو داؤد ، کتاب الاقضیہ ، باب اجتھاد الرای فی القضاء ،جلد 3 ، صفحہ 303، مطبوعہ بیروت)

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن