30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْن ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
اٰمِین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمفَضائلِ اِمامِ حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ
دُعائے عطّار : یا اللہ ! جوکوئی رسالہ : ’’فضائلِ امامِ حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ ‘‘ کے 17 صفحات پڑھ یا سُن لےاُس کو جنّتی ابنِ جنّتی ، صحابی ابنِ صحابی ، نواسۂ رسول ، نوجوانانِ جنّت کے سردار امامِ حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا جنّت الفردوس میں جَوار نصیب فرما۔دُرُود شریف کی فضیلت
حضرتِ سیِّدُنا امامِ حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے کہ حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےفرمایا : کنجوس ہے وہ شخص جس کے سامنے میرا ذِکْر ہوا ، پھر اُس نے مجھ پر دُرُودِ پاک نہ پڑھا۔ ( ترمذی ج ۵ ص ۳۲۱ حدیث ۳۵۵۷ ، دار الفکر بیروت ) صَلُّوا عَلَی الْحَبیب صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّدتعارف
سُلطانِ کربلا ، سیِّدُالشُّہدا ، امامِ عالی مقام ، امامِ عرش مقام ، حضرتِ سیِّدُنا امامِ حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کا مبارَک نام : حُسین ، کنیت : ابو عبدُاللّٰہ اورالقاب : سِبطِ رسولُ اللّٰہ اور رَیْحَانَۃُ الرَّسُوْل (یعنی رسول کے پھول ) ہیں۔ آپ رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی وِلادت (Birth) ہجرت کے چوتھے سال 5شعبانُ المعظم کو مدینۂ منورہ میں ہوئی۔ حُضورِ پُر نُور سیِّد ِعالَم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے آپ کانام ’’حُسین ‘‘اور ’’شبیر ‘‘رکھا اور آپ کو اپنابیٹا فرمایا۔ ( اسد الغابة ج ۲ ص ۲۵ ، ۲۶ ملتقطاً ، دار الکتب العلمیة بیروت ) کیا بات رَضاؔ اُس چمنستانِ کرم کی زَہرا ہے کلی جس میں حُسین اور حَسن پھول (حدائق بخشش ص۷۹ ، مکتبۃ المدینہ کراچی) شرحِ کلامِ رضا : اے رضا! اُس رَحمتوں بَرکتوں والے باغ کی کیابات ہے جس کی کَلی حضرت بی بی فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ہیں اور پھول حضراتِ حسنین ِ کریمین (یعنی امام حَسن وحسین رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا )ہیں ۔ صَلُّوا عَلَی الْحَبیب صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّدگُھٹی ، اَذان اورعَقیقہ
اللہ کریم کے آخری نبی صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےاپنے پیارے پیارے نواسے حضرتِ سیِّدُنا امامِ حسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ کےسیدھے(Right)کان میں اَذان دی اور بائیں (Left)کان میں تکبیر پڑھی اور اپنے مبارک جُوٹھے شریف سے گُھٹی عطا فرماتے ہوئے دُعاؤں سے نوازا۔ ساتویں دن آپ کا نام ’’حُسین ‘‘رکھا اور ایک بکری سے عقیقہ کیااور آپ کی امّی جان خاتونِ جنّت حضرتِ بی بی فاطمہ زہرا رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے اِرشاد فرمایا : حَسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ کی طرح اِن کا سرمُنڈاکر بالوں کے برابر چاندی خیرات کرو۔ ( اسد الغابۃج ۲ ص ۲۴ ، ۲۵ ، ملخصاً )(شرح شجرہ قادریہ ص45 ، مکتبۃ المدینہ کراچی)بالوں کے وَزن کے برابر خیرات
حضرت بی بی فاطمۃ الزہرا رَضِیَ اللہ عَنْہَا کے ہاں جب حضرت سیِّدُناامام حسین رَضِیَ اللہ عَنْہ کی وِلادت شریف(Birth)ہوئی توانہوں نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میں عرض کی : ’’ یَارسولَ اللہ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! کیا میں اپنے بیٹے کا عقیقہ نہ کروں؟‘‘اِرشاد فرمایا : ’’نہیں! پہلے اِن کے بال اُترواؤ اور بالوں کے وزن برابر چاندی صفّہ والوں اور دوسرے مسکینوں پر صدقہ کرو۔ ‘‘ ( مسند للامام احمد ج ۱۰ ص ۳۴۰ حدیث ۲۷۲۵۳ ، دار الفکر بیروت ( پیارے پیارے اِسلامی بھائیو!سنَّت یہ ہے کہ بچّے کے بالوں کے وزن کے برابر سونا یا چاندی صدقہ کی جائے۔ (احیاء العلوم ، اردو ج۲ص۲۰۴ ، مکتبۃ المدینہ کراچی ) مُسْتَحَب ہے کہ(پیدائش کے ساتویں دِن) عقیقہ کرے اور جب جانور پر چُھری چلے تو بچّے کے سَر پر اُسترہ پھرے اور بالاُتریں پھر ان بالوں کے وزن کی چاندی یا سونا خیرات کیا جائے نیز بال اُترنے کے بعد زعفران گھول کر سَر پرمَلا جائے ایسا کریں گے تو ثواب ملے گا۔ (بہارِ شریعت ج ۳ص۳۵۵ ، ۳۵۷ ، ملتقطاً ، مکتبۃ المدینہ کراچی ) مرحبا سروَرِ عالَم کے پِسَرآئے ہیں سیِّدہ فاطِمہ کے لختِ جگر آئے ہیں واہ قسمت کہ چَراغِ حَرَمین آئے ہیں اے مسلمانو! مبارَک کہ حُسین آئے ہیں صَلُّوا عَلَی الْحَبیب صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد #**’’شہید ِ کربلا ‘‘کے نو حروف کی نسبت سے 9 فرامینِ مصطفٰی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ
**# (1)حُسین ( رَضِیَ اللہُ عَنْہ )مجھ سے ہیں اور میں حُسین ( رَضِیَ اللہُ عَنْہ )سے ہوں ، اللہ پاک اُس سے مَحَبَّت فرماتا ہے جو حُسین ( رَضِیَ اللہُ عَنْہ )سے مَحَبَّت کرے ، حُسین اَسباط میں سے ایک ’’سِبط ‘‘ ہیں۔ ( ترمذی ج ۵ ص ۴۲۹ حدیث ۳۸۰۰) حضرتِ مفتی احمد یار خان رَحْمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کےتحت اِرشادفرماتے ہیں : میں اورحُسین گویا ایک ہی ہیں ہم دونوں سے مَحَبَّت ہر مسلمان کو چاہیے ، مجھ سے مَحَبَّت حُسین سے مَحَبَّت ہے اور حُسین سے مَحَبَّت مجھ سے مَحَبَّت ہےچونکہ آئندہ واقعات حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پیشِ نظر تھے اِس لیے اِس قسم کی باتیں اُمت کو سمجھائیں۔ ’’سِبط ‘‘ وہ درخت جس کی جڑ ایک ہو اور شاخیں بہت ایسے ہی میرے حُسین سے میری نسل چلے گی اور اِن کی اَولاد سے مشرق و مغرب بھرجائے گی ، دیکھ لو آج سادات ِکرام مشرق و مغرب میں ہیں اور یہ بھی دیکھ لو کہ حَسَنی سیّد تھوڑے ہیں حُسینی سید بہت زیادہ ہیں اِس فرمانِ عالی کا ظہور ہے۔ (مِراٰۃ ج۸ص۴۸۰ ، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور) یاشہیدِ کربلا فریاد ہے نورِ چشمِ فاطمہ فریاد ہے آہ! سِبطِ مصطَفٰے فریاد ہے ہائے! ابنِ مُرتَضیٰ فریاد ہے (وسائلِ بخشش) صَلُّوا عَلَی الْحَبیب صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد (2)حَسن وحُسین( رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا ) جنّتی جوانوں کے سردار ہیں۔ ( ترمذی ج ۵ ص ۴۲۶ حدیث ۳۷۹۳) حکیمُ الْاُمَّت حضرتِ مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : جو لوگ جوانی میں وفات پائیں اور ہوں جنّتی حضرتِ حسنین کریمین( رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا ) اُن کے سردار ہیں ورنہ جنّت میں تو سبھی جوان ہوں گے۔ (مِراٰۃ ج۸ص۴۷۵) صَلُّوا عَلَی الْحَبیب صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد (3)حَسن و حُسین ( رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا )دُنیا میں میرے دو پھول ہیں۔ ( بخاری ج ۲ ص ۵۴۷ حدیث : ۳۷۵۳) مفتی احمد یار خان رَحْمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : فرمان ِنبوی کا مطلب یہ ہے کہ حضرتِ حسن و حسین ( رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا )دُنیا میں جنّت کے پھول ہیں جو مجھے عطا ہوئے ، اِن کے جسم سے جنّت کی خوشبو آتی ہے اِس لیے حضور( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) اِنہیں سونگھا کرتے تھے اور حضرت ِعلی( رَضِیَ اللہُ عَنْہُ ) سے فرماتے تھے’’ اَلسَّلَامُ عَلَیْكَ یَا اَبَا رَیْحَانَیْنِ ‘‘ یعنی اے دو پھولوں کے ابوتم پر سلام ہو۔ (مِراٰۃ ج۸ص۴۶۲) ایک اورمقام پرمفتی صاحب فرماتے ہیں : جیسے باغ والے کو سارے باغ میں پھول پیارا ہوتا ہےایسے ہی دُنیا اور دُنیا کی تمام چیزوں میں مجھے حضرات حسنین کریمین ( رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا ) پیارے ہیں۔ اَولاد پھول ہی کہلاتی ہے سارے نواسی نواسوں میں حضور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو یہ دونوں فرزند (یعنی بیٹے)بہت پیارے تھے۔ (مِراٰۃ ج۸ص۴۷۵) اُن دو کا صَدقہ جن کو کہا میرے پھول ہیں کیجے رَضا کو حشر میں خنداں مثالِ گل (حدائقِ بخشش) عاشقِ صحابہ واہل ِبیت ، امیراہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا محمد الیاس عطّارقادریرضوی دامت برکاتہم العالیہ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کےاِس شعرِ کی وَضاحت یوں فرماتے ہیں : اِن دو سے مُراد حضرتِ سَیِّدُنا امامِ حسن اور حضرتِ سَیِّدُنا امامِ حسین رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُما ہیں۔ اعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اِن دونوں کا صَدقہ بارگاہِ رسالت میں پیش کیا ہے کہ آپ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اپنے اِن دو پُھولوں کے صَدقے میں رَضا پر ایسا کرم کیجیے کہ رَضا بھی قیامت کے دِن پھول کی طرح مسکرا رہا ہو۔ (دوست کسے بنایا جائے ، ص21) صَلُّوا عَلَی الْحَبیب صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد (4)یہ میرے دونوں بیٹے میری بیٹی کے بیٹے ہیں ، الٰہی میں اِن دونوں سے محبت کرتا ہوں تُو بھی اِن سے محبت فرمااور جو اِن سے محبت کرے اُس سے بھی محبت فرما۔ ( ترمذی ج ۵ ص ۴۲۷ حدیث ۳۷۹۳( ’’مِراٰۃ ‘‘میں ہے : یعنی یہ حکُماً میرے بیٹے ہیں اور حقیقتًا میری بیٹی کے بیٹے ہیں ، مجھے اِن سے بیٹوں جیسی محبت ہے۔ خیال رہے کہ حضرت (بی بی )فاطمہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ ( رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ) کی اَولاد حضور ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )کی نسل ہے اِس سے حضور( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کی نسل چلی ، گویا حسن و حسین( رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا ) حضور ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )کی نسل بھی ہیں اور نسل کی اَصل بھی وَرنہ نسب باپ سے ہوتا ہے نہ کہ ماں سے ، ہاں شَرف(یعنی فضیلت) ماں سے بھی ہوجاتا ہے۔ لفظ آل دونوں پر بولا جاتا ہے بیٹے کی اولاد پربھی اور بیٹی کی اولاد پر بھی۔ (مِراٰۃ ج۸ص۴۷۶) ہے رُتبہ اِس لئے کونین میں عصمت کا عِفَّت کا شرف حاصِل ہے اِن کو دامنِ زہرہ سے نسبت کا اِنہی کے ماہ پارے دو جہاں کے لاج والے ہیں یہ ہی ہیں مجمعِ بحرَین سر چشمہ ہِدایت (دیوانِ سالک) مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمۃُ اللہِ علیہ حدیثِ پاک کے اِس حصے ’’ الٰہی میں اِن دونوں سے مَحَبَّت کرتا ہوں تُو بھی اِن سے مَحَبَّت فرمااور جو اِن سے مَحَبَّت کرے اُس سے بھی مَحَبَّت فرما‘‘کے تحت فرماتے ہیں : اِس دُعا کا مقصود (وہاں موجود)حضرت سیدنا اُسامہ ( رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا )کو سنانا اور بتانا ہے کہ اُسامہ میرے حَسن و حُسین سے محبت کرو کہ اِن کی محبت الله پاک کی محبوبیت کا ذریعہ ہے۔ خیال رہے کہ دِلی محبت بجلی کے کرنٹ کی طرح ایک متعدی (یعنی پھیلنےوالی)چیز ہے جس سے محبت ہوتی ہے اُس کی اَولاد گھر والے نوکروں چاکروں حتّٰی کہ اُس کے شہر سے محبت ہوجاتی ہے۔ (مِراٰۃ ج۸ص۴۷۶) سیِّدَہ زاہِرہ طَیِّبَہ طاہِرہ جانِ احمد کی راحت پہ لاکھوں سلام حَسنِ مُجتبٰی سَیِّدُ الْاَسْخِیَا راکبِ دُوشِ عزت پہ لاکھوں سلام دُرِّ دُرْجِ نَجف مِہرِ بُرجِ شرف رنگِ روئے شہادت پہ لاکھوں سلام (حدائق بخشش ) صَلُّوا عَلَی الْحَبیب صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد (5) اللہ کریم کے آخری نبی صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا گیا کہ اہلِ بیت میں آپ کو زیادہ پیارا کون ہے؟ فرمایا : حَسن اورحُسین ، اور حضور(حضرت بی بی) فاطمہ ( رَضِیَ اللہُ عَنْہَا ) سے فرماتے تھے کہ میرے پاس میرے بچّوں کو بُلاؤ پھر اُنہیں سونگھتے تھے اور اپنے سے لپٹاتے تھے۔ ( ترمذی ج ۵ ص ۴۲۸ حدیث ۳۷۹۷) اے عاشقانِ صحابہ و اہلِ بیت!حضور( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) اِنہیں کیوں نہ سونگھتے وہ دونوں تو حضور( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) کے پھول تھے ، پھول سونگھے ہی جاتے ہیں ، اُنہیں کلیجے (یعنی سینے) سے لگانا لپٹانا انتہائی محبت و پیار کے لیے تھا۔ اِس سے معلوم ہوا کہ چھوٹے بچّوں کو سونگھنا ، اُن سے پیارکرنا ، انہیں لپٹانا چمٹانا سُنّتِ رسول الله صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ہے۔ (مِراٰۃ ج۸ص۴۷۸) پیارے پیارے اِسلامی بھائیو!قرآن کریم کے بعد سب سے زیادہ قابلِ اعتماد احادیثِ مبارکہ کی کُتب ’’صحاح سِتہ‘‘یعنی چھ صحیح کُتب کہلاتی ہیں جن میں سے ایک کتاب ’’تِرمذی شریف‘‘بھی ہے اِس میں ہے کہ وَلیوں کے شہنشاہ مولیٰ علی مُشکل کُشا ( رَضِیَ اللہُ عَنْہ ) فرماتے ہیں : حضرت سیدناامامِ حسن ( رَضِیَ اللہُ عَنْہ )کی شکل مبارک سَر سے سینہ تک حضور ( صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ )سے مُشَابِہ (یعنی مِلتی جُلتی)تھی اور امامِ حسین ( رَضِیَ اللہُ عَنْہ ) کی سینے سے ناخن پَا (یعنی پاؤں کے ناخن) تک۔ ( ترمذی ج ۵ ص ۴۳۰ حدیث ۳۸۰۴) امام عشقِ و محبت ، عظیم عاشقِ صحابہ و اہلِ بیت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : مَعْدوم نہ تھا سایۂ شاہِ ثقلین اس نور کی جلوہ گَہ تھی ذاتِ حسنین تَمْثِیْل نے اس سایہ کے دو حصّے کیے آدھے سے حَسن بنے ہیں آدھے سے حُسین (حدائق بخشش) شرحِ کلامِ رضا : انسان و جنات کے شہنشا ہ ، مکّی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مبار ک جسم کا سایہ مبارک نہ تھا مگر نور والے آقا صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سایہ مبارک حضراتِ حسنین کریمین رَضِیَ اللہُ عَنْہَما کی صورت میں نظر آتا تھا کہ سرِ پاک سے سینہ ٔ مبارکہ تک امام حسن رَضِیَ اللہُ عَنْہ اورامام حُسین رَضِیَ اللہُ عَنْہ مبارک سینے سے پاؤں شریف تک حضور صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مِلتے جُلتے تھے۔ حضرت مفتی احمد یار خان رَحْمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : خیال رہے کہ حضرت (بی بی) فاطمہ زہرا ( رَضِیَ اللہُ عَنْہَا )ازسر تا قدم بالکل ہم شکلِ مصطفی( صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ) تھیں اور آپ کے صاحبزادگان (یعنی بیٹوں)میں یہ مشابہت تقسیم کردی گئی تھی۔ (مِراٰۃ ج۸ص۴۸۰) رسولُ اللہ کی جیتی جاگتی تصویر کو دیکھا کیا نظارہ جن آنکھوں نے تفسیرِ نُبُوّت کا (دیوانِ سالک)اَچھوں کی مشابہت
اے عاشقانِ صحابہ و اہلِ بیت : حضور صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے قدرتی مُشابہت بھی الله پاک کی نعمت ہے جو اپنے کسی عمل کو حضور ( صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم )کے مشابہہ کردے تو اُس کی بخشش ہوجاتی ہےتو جسے خدائے پاک اپنے محبوب کے مشابہہ کرے اُس کی محبوبیت کا کیا حال ہوگا اِس لیے یہ حدیث فضائل اہلِ بیت کے سلسلے میں لائی گئی۔ (مِراٰۃ ج۸ص۴۸۰) صَلُّوا عَلَی الْحَبیب صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد (6)حَسن و حُسین ( رَضِیَ اللہُ عَنْہُمَا )سے جس نے محبت کی اُس نے مجھ سے مَحَبَّت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی اُس نےمجھ سے دشمنی کی۔ ( مستدرک ج ۴ ص ۱۵۶ حدیث ۴۸۳۰ ، دار المعرفة بیروت ) (7) اللہ پاک دوست رکھے اُسے جوحُسین ( رَضِیَ اللہُ عَنْہ )کودوست رکھے ، حُسین ( رَضِیَ اللہُ عَنْہ ) سبط ہے اَسباط سے ۔ ( ترمذی حدیث ۳۸۰۰ ج ۵ ص ۴۲۹) (8)حَسن میرے ہیں اور حُسین علی کے۔ ( فیض القدیر ج ۳ ص ۵۵۱ ، دار الکتب العلمیة بیروت ) مفتی احمد یار خان رَحْمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : اِس فرمانِ عالی شان کا مطلب یہ ہے کہ بڑا بیٹا دادا ، نانا کا ہوتا ہے چھوٹا بیٹا باپ کا ، یہ تقسیم اظہار ِکرم کے لیے ہے۔ (مِراٰۃ ج۸ص۴۷۹) (9)جِسے یہ پسند ہو کہ کسی جنتی مَرد کو دیکھے (ایک روایت میں ہے)جنّتی جوانوں کے سردار کو دیکھے وہ ’’حُسین بن علی‘‘کو دیکھے۔ ( الشرف المؤبدلآل ِ محمدللنبہانی ، ص ۶۹) حُسین ابنِ علی کا صدقہ ، ہمارے غوثِ جلی کا صدقہ عطا مدینے میں ہو شہادت ، نبیِّ رَحمت شفیعِ اُمّت (وَسائلِ بخشش)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع