اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
یہ مضمون کتاب ”مَدَنی پنج سورہ“ صفحہ 139 تا 161 سے لیا گیا ہے ۔
دعائے عطار : یاربَّ المصطفےٰ !جوکوئی17صفحات کا رسالہ فضائل ِاِستِغفار پڑھ یا سُن لے، اُسے تیری رضا کےلئے زیادہ سے زیادہ ذِکر کرنے کی توفیق عطافرما اوراُسے بے حساب بخش دے ۔
اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیه واٰلہٖ وسلّم
مجھے سوار کے پیالے کی مانند نہ بناؤ کہ سوار اپنے پیالے کو پانی سے بھرتا ہے پھر اُسے رکھتا ہے اور سامان اُٹھاتا ہے، پھر جب اُسے پانی کی حاجت ہوتی ہے تو اُسے پیتا ہے، وضو کرتا ہے ورنہ اسے پھینک دیتا ہے لیکن مجھے تم اپنی دُعا کے اَوَّل وآخِر اور دَرمیان میں یادرکھو۔ (مجمع الزوائد، 10/239، حدیث: 17256)
خدایا واسِطہ میٹھے نبی کا شَرَف عطارؔ کو حج کا عطا ہو
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
حضرت اَنَس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ خاتَمُ النَّبِیِّین، محبوبِ ربُّ العالَمِین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ دِلنشین ہے : بے شک لوہے کی طرح دلوں کو بھی زَنگ لگ جاتا ہے
اور اس کی جِلاء ( یعنی صفائی )اِستِغْفار کرنا ہے ۔ ( مجمع الزوائد، 10/346، حدیث: 17575)
حضرت عبدُ اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ محبوبِ ربِّ ذُوالجلال صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے : جس نے اِستِغفارکو اپنے اوپر لازم کر لیا اللہ پاک اُس کی ہر پریشانی دُور فرمائے گا اور ہر تنگی سے اُسے راحت عطا فرمائے گا اور اُسے ایسی جگہ سے رِزق عطا فرمائے گا جہاں سے اُسے گُمان بھی نہ ہو گا۔(ابنِ ماجہ، 4/257، حدیث: 3819)
حضرت زُبیر بن عوّام رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِّ مکرم، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ مَسرَّت نشان ہے: جو اِس با ت کو پسند کرتاہے کہ اس کا نامۂ اعمال اُسے خوش کرے تو اُسے چاہیے کہ اس میں اِستِغفارکا اضافہ کرے۔
(مجمع الزوائد، 10/347، حدیث: 17579)
حضرت عبدُ اللہ بن بُسْر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے شہنشاہِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سناکہ خوشخبری ہے اُس کے لئے جو اپنے نامۂ اعمال میں اِستِغفار کو کثرت سے پائے۔ (ابنِ ماجہ، 4/257، حدیث: 3818)
حضرت شَدّادبن اَوس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ خاتَمُ المُرسَلین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کہ یہ ” سیِّدُ الْاِسْتِغفار “ ہے: ” اَللّٰهُمَّ اَنْتَ رَبِّیْ لَآ اِلٰهَ اِلاَّ اَنْتَ خَلَقْتَنِیْ وَ اَنَا عَبْدُكَ
وَ اَنَا عَلٰی عَهْدِكَ وَ وَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ اَعُوْذُبِكَ مِنْ شَرِّمَا صَنَعْتُ اَبُوْءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَیَّ اَبُوْءُ بِذَنْبِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَاِنَّه لَایَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ۔“( )
جس نے اِسے دن کے وَقت ایما ن و یقین کے ساتھ پڑھا پھر اُسی دن شام ہونے سے پہلے اُس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنّتی ہے اور جس نے رات کے وقت اِسے ایمان و یقین کے ساتھ پڑھا پھر صبح ہونے سے پہلے اُس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنّتی ہے۔
(بخاری، 4/190، حدیث: 6306)
حضرت ابوہُریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے اِنہوں نے عرض کی: یارسولَ اللہ ! صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شفاعت سے بہرہ مند ہونے والے خوش نصیب لوگ کون ہونگے؟ فرمایا: اے ابو ہُریرہ! میرا گمان یہی تھا کہ تم سے پہلے مجھ سے یہ بات کوئی نہ پوچھے گا کیونکہ میں حدیث سُننے کے معاملہ میں تمہاری حِرص کو جانتا ہوں، قیامت کے دن میری شفاعت پانے والا خوش نصیب وہ ہو گا جو صدقِ دل سے
” لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہُ“کہے گا۔ (بخاری، 1/53، حدیث: 99)
حضرت جابر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : میں نے نبیِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سُنا: سب سے اَفضل ذکر ”لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللہُ“ہے اور سب سے افضل دُعا ” اَلحمدُ لِلّٰہ“ ہے۔
(ابن ماجہ، 4/248، حدیث: 3800)
… ترجمہ : ” اے اللہ پاک ! تو میرا رب ہے تیرے سوا کوئی معبو د نہیں ، تو نے مجھے پیدا کیا میں تیرا بندہ ہوں اور بقدرِ طاقت تیرے عہد و پیمان پر قائم ہوں ، میں اپنے کیے کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، تیری نعمت کا جو مجھ پر ہے اِقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتا ہوں مجھے بخش دے کہ تیرے سوا کوئی گناہ نہیں بخش سکتا۔ “