اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
فرعون کا خواب
فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: جس نے مجھ پر ایک بار دُرُودِ پاک پڑھا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس پر دس رحمتیں بھیجتا ہے۔ (مُسلِم ص۲۱۶حدیث۴۰۸)
فرعون نے ایک مرتبہ خواب دیکھا کہ ’’بیتُ الۡمُقَدَّس (بَے۔ تُلْ۔ مُقَدْ۔ دَسۡ) کی طرف سے ایک آگ نکلی جس نے سارے مِصۡر کو گھیر لیا اور تمام قبطیوں (قِبْ۔ طِی۔ یوں ) کو جلا ڈالا مگر بنی اسرائیل کو آگ سے کوئی نقصان نہ پہنچا ۔ ‘‘ یہ عجیب و غریب خواب دیکھ کر فرعون پریشان ہو گیا۔ اِس نے نجومیوں سے تعبیر معلوم کی تو انہوں نے بتایا کہ ’’بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہو گا جو تیری بادشاہت ختم ہو جانے کا سبب بنے گا۔ ‘‘ یہ سُن کر فرعون نے حُکۡم دیا کہ بنی اسرائیل میں جوبھی لڑکا پیداہو اُسے قَتۡل کردیا جائے۔ اِس طرح فرعون کے حکم سے 12 ہزار یا 70 ہزار لڑکے قَتۡل کردیئے گئے۔ (تفسیرِخازِن ج۱ص۵۲)
میٹھے میٹھے مَدَنی مُنّو اور مُنّیو! پرانے زمانے میں ’’مِصۡر‘‘ کے بادشاہوں کا لَقَب ’’فرعون ‘‘ ہوا کرتا تھا، اِسی طرح ’’رُوم‘‘ کے بادشاہوں کا قَیصَر، ’’فارَس‘‘ (ایران) کے بادشاہوں کا کِسۡریٰ (کس۔ را) ، ’’یمن ‘‘ کے بادشاہوں کا تُبَّع (تُبْ۔ بَعْ) ’’تُرۡک‘‘ بادشاہوں کاخاقان اور ’’حَبۡشہ‘‘ کے بادشاہوں کا لقب نجاشی تھا۔ مِصۡر کے جتنے بھی بادشاہ گزرے ان سب میں حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے دَوۡر کا فرعون سب سے زیادہ بد اَخۡلا ق ، سَخۡت دل اور ظالِم تھا، فرعون کا نام وَلید بن مُصْعَبْ بن رَیّان اوراس کا تعلُّق قبیلۂ قِبطیّہ (قِبْ۔ طِی۔ یَہ) سے تھا۔ حضرتِ سیِّدُنا یوسف عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے دَوۡر کے فرعون کا نام رَیّان بِن وَلید تھاجو کہ اِیمان لے آئے تھے۔ حضرتِ سیِّدُنا یوسف عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام اور سیّدُنا موسیٰ کلیمُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے دَوۡر کے فرعونوں کے درمِیان 400 سال سے زیادہ کا فاصِلہ تھا ۔
حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی کے پاس وہ دائی (Nurse / Midwife) آئی جسے فرعون نے بنی اسرائیل کی عورَتوں کے لیے مقرَّ رکررکھا تھا۔ جب حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام پیدا ہوئے تو آپ کی دونوں آنکھوں کے درمِیان سے نور کی کرنیں نکل رہی تھیں ، جن کو دیکھتے ہی ’’دائی‘‘ کا جوڑ جوڑ کانپنے لگا اور اُس کے دل میں حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی مَحَبَّت پیدا ہو گئی، اُس نے آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی اَمّی جان علیہا رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن سے کہا: میں تو اِس لئے آئی تھی کہ اگر ’’لڑکا‘‘ پیدا ہو تو ا سے ذَبۡح کی ترکیب کروں لیکن اس بچے سے مجھےبَہُت مَحَبَّت ہوچکی ہے اس لیے آپ اپنے بچے کوچُھپالیجئے تاکہ فرعونیوں کو پتا نہ لگ سکے۔ یہ کہہ کر وہ دائی چلی گئی۔ فرعون کے جاسُوسوں نے دائی کو آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے گھر سے نکلتے دیکھا تو دروازے پر پَہُنچ گئے، حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ کلیمُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کے کی بہن (مریم) نے فوراً اپنی اَمّی جان علیہا رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کو جاسُوسوں کی اطِّلاع دی۔ آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کی اَمّی جان علیہا رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کو جلدی میں کچھ سمجھ نہ آئی، گھبرا کر انہوں نے بچے کو کپڑے میں لپیٹ کر جلتے ہوئے تَندُورمیں ڈال دیا! فرعونیوں نے آ کر گھر کا کونا کونا چھان مارا مگر کوئی بچہ نظر نہ آیا، تَندُورکی طرف ان کا دھیان ہی نہ گیا، وا پَس چلے گئے۔ اور اَمّی جان علیہا رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن کی جان میں جان آئی، اتنے میں تَندُورسے آہِستہ آہِستہ رونے کی آواز آنے لگی، جاکر دیکھا تو اللہ تَعَالٰی نے بچے (یعنی حضرتِ سیِّدُنا موسیٰ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) پرآگ ٹھنڈی اورسلامَتی والی بنا دی تھی، چُنانچِہ اَمّی جان علیہا رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن نے آپ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کو تَندُورسے صحیح سلامت باہر نکال لیا۔ (تفسیرِ بَغَوی ج۳ص۳۷۳)
حضرت سیّدُنا موسیٰ کلیمُ اللّٰہ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام کیاَمّی جان علیہا رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن ایک بڑھئی (CARPENTER) کے پاس صندوق (BOX) لینے گئیں ۔ اُس نے پوچھا : تم نے لکڑی کے صندوق کا کیا کرنا ہے؟ تو انہوں نے سچ سچ بتادیا کہ اپنے بیٹے کو اس میں ڈال کر دریا میں ڈالنا ہے، ہوسکتا ہے وہ فرعونیوں سے بچ جائے۔ اُس بڑھئی نے ان کو صندوق تو بیچ دیا لیکن اُس کی نِیَّت خراب ہوگئی اوروہ فرعون کے ان بے رَحۡم جَلاّدوں کے پاس پہنچ گیا جو بنی اسرائیل کے بچّوں کو ذَبۡح کرنے پر مقرَّ رتھے تاکہ انہیں نئے پیدا ہونے والے بچے کے بارے میں بتاسکے۔ جب بڑھئی (CARPENTER) ان کے پاس پہنچا تو اللہ تَعَالٰی نے اُس کی زَبان بند کردی، اُس نے ہاتھ کے اِشارے سے سمجھانا چاہا تو فرعونیوں نے اُسے (پاگل سمجھ کر) مارا اور وہاں سے بھگادیا۔ جب وہ وا پَس اپنے گھر پہنچا تو اللہ تَعَالٰی نے اُس کی زَبان کھول دی، وہ دوبارہ فرعونیوں کی طرف گیا تاکہ انہیں بتاسکے مگر پھر گونگا ہو گیا! ہاتھوں سے اِشارے کرنے کی وجہ سے اُنہوں نے ( پاگل سمجھتے ہوئے) اُسے دوبارہ مارا، جب وہ گھر لَوٹاتواُس کی زَبان پھر ٹھیک ہوگئی، جب وہ تیسری مرتبہ انہیں بتانے کے لیے پہنچا تو زَبان پھر بند ہوگئی اور اندھا ہو گیا، پٹائی کرکے پھر اُسے بھگا دیا گیا۔ اس پراُس نے سچے دل سے توبہ کی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ! اگر تو مجھے اب کی بار زَبا ن اور بینائی دے دیگا تو پھر کسی کو اُس بچے (یعنی حضرتِ سیّدناموسیٰ عَلٰی نَبِیِّناوَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام) کے بارے میں نہیں بتاؤں گا۔ اللہ تَعَالٰی نے اُس کی توبہ قَبول فرمائی اور اس کی بولنے اور دیکھنے کی طاقت لوٹ آئی۔ (ایضاً)
میٹھے میٹھے مَدَنی منو اور منیو! اِس حکایت سے معلوم ہوا کہ بُری نِیَّت کا پھل ہمیشہ بُرا ہوتا ہے ، یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تَعَالٰی دشمنوں سے بچانے پرقدرت رکھتا ہے، یہ بھی جاننے کو ملا کہ بُری نِیَّت سے توبہ کر لینے پر اُس کی وجہ سے آئی ہوئی مصیبت اللہ ربُّ الۡعِزّت چاہے تو دَوۡر ہو جاتی ہے۔ آپ سب اچّھے بچے بن جایئے اوراپنا ذِہۡن بنا لیجئے کہ ہم تو کسی مسلمان کا بُرا دیکھیں سنی نہ بولیں ۔ ؎
ہم تو بُرا کسی کا دیکھیں سنیں نہ بولیں
اچّھی ہی بات بولیں جب بھی زَبان کھولیں
یعنی ہم کسی بھی مسلمان کا عیب نہ دیکھیں اور اگر معلوم ہو تب بھی کسی کونہ بتائیں اور اگرکوئی سُنائے تو سننے سے بھی بچیں ہر مسلمان کے بارے میں شریعت کے دائر ے میں رہ کرصرف اچّھی بات کریں۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد