my page 1
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Gharelu Masjid Banana Sunnat Hai | گھریلو مسجد بنانا سنت ہے

    book_icon
    گھریلو مسجد بنانا سنت ہے
                

    گھریلو مسجد بنانا سنَّت ہے

    یاربَّ المصطفیٰ! جو کوئی 32صفحات کا رسالہ ’’گھریلو مسجد بنانا سنَّت ہے‘‘ پڑھ یا سن لے اُس کو سجدوں کی لذتیں نصیب فرما اور اُس کی بے حساب مغفرت فرما۔ امین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم

    دُرُودِ پاک کی فضیلت

    فرمانِ مصطَفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم : ’’جس نے مجھ پر ایک مرتبہ دُرُودِ پاک پڑھا اللہ پاک اُس پر دَس رحمتیں بھیجتا اور اس کے نامۂ اعمال میں دس نیکیاں لکھتا ہے۔‘‘ (تِرمِذی ج ۲ص ۲۸ حدیث ۴۸۴) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد اے عاشقانِ رسول! ’’مسجد ِ بیت‘‘ بنانا یعنی اپنے گھر کے اندر نماز کے لئے کوئی جگہ مقرر (یعنی فکس۔ FIX) کر لینا سنّتِ انبیا بھی ہے اور سنّتِ مصطفی بھی، ہمیں بھی اس سنّت پر عمل کرنا چاہئے۔ اللہ پاک کے سب سے آخری نبی ،محمدِ عربی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کے مکانِ عا لی شان کے اندر بھی مسجد ِ بیت تھی۔ اللہ پاک پارہ11 سورۃ یونس آیت 87میں اِرشاد فرماتا ہے: وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰى وَ اَخِیْهِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا وَّ اجْعَلُوْا بُیُوْتَكُمْ قِبْلَةً وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَؕ-وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ(۸۷) ترجَمۂ کنزالایمان:اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی کو وحی بھیجی کہ مصر میں اپنی قوم کے لیے مکانات بناؤ اور اپنے گھروں کو نماز کی جگہ کرو اور نماز قائم رکھو اور مسلمانوں کو خو ش خبری سنا۔

    گھر میں نماز کیلئے جگہ مقرر کرنا ’’ سُنّت ‘‘ ہے

    ’’نورُ العرفان‘‘ میں ہے: اِس سے معلوم ہوا رہنے سہنے کے گھروں میں ’’گھریلو مسجد‘‘ بنانا، جسے مسجد ِبیت کہا جاتا ہے، سنتِ انبیا ( علیھم السلام ) ہے کہ مسلمان اپنے گھر کا کوئی حصہ پاک و صاف رکھیں نماز کے لئے اوراِس میں عورت اعتکاف کرے،یہ بھی معلوم ہوا کہ گھروں میں کچھ نمازیں پڑھنی چاہئیں، فرض مسجد میں، سُنّت نفل گھر میں،کچھ آگے چل کر مفتی صاحب مزیدفرماتے ہیں: گھر میں نماز کیلئے جگہ مقرر کرنا(یعنی مسجد ِ بَیت بنانا) ’’سُنّت‘‘ ہے۔ (نورالعرفان ص۳۴۷) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

    پیارے آقا کے نماز پڑھنے کی جگہوں کو’’ مسجد ِ بیت‘‘ بناناحکایت

    حضرتِ اُمِّ سُلَیم رَضِیَ اللہُ عَنْھا نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم میں عرض کی: َیا رَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم ! آپ میرے گھر تشریف لائیں اورنماز ادا فرمائیں تاکہ میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کی نماز پڑھنے کی جگہ کو اپنی نماز کی جگہ (یعنی مسجد ِ بَیت) بنالوں، اللہ پاک کے پیارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم اُن کے گھر تشریف لائے اورنماز ادافرمائی۔ (نَسائی ص۱۲۸ حدیث۷۳۴ مُلَخَّصًا) ’’مرآت ‘‘میں ہے: گھر کے گوشے میں نماز تو اِس لیے پڑھی تاکہ وہ گھر حضورِ اَنور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کے نفل (ادا فرمانے)سے مُتَبَرَّک(یعنی بابرکت) ہوجا ئے اور یہ جگہ گھر والوں کے لیے دائمییعنی (PERMANENT)جائے نماز(یعنی مسجدِ بیت) بن جائے۔ (مِراٰۃ ج۳ ص۱۹۹) الٰہی! جس کے سبب سے یہ عرش و فرش بنے اُسی کا میرے بھی دِل میں قیام ہو جائے (قبالۂ بخشش ص۲۷۲) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد #**

    پیارے آقاسے گھر میں تشریف لانے کی درخواست حکایت

    **# صحابیِ نبی، حضرتِ عتبان بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: میں اپنی قوم ’’بنی سالم‘‘ کو نماز پڑھاتا تھا۔ میرے اور اُن کے درمیان ایک نالا(یعنی برساتی نہر) تھا،جب بارِش ہوتی تو میرے لیے مسجِد تک پہنچنا بہت مشکل ہوجاتا تھا۔ اللہ پاک کے پیارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر میں نے عرض کی کہ میری نظر کمزور ہوگئی ہے اور میرے اورمیری قوم (بنی سالم) کے درمیان ایک ’’نالا‘‘ بہتا ہے، جب بارش ہوتی ہے تو میرا مسجد پہنچنا بہت مشکل ہوجاتا ہے ، میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے گھر تشریف لائیں اور وہاں نماز ادا فرمائیں تاکہ میں آپ کی اُس جگہ کو اپنا مُصَلّٰی(یعنی نماز کی جگہ) بنا لوں ۔ اللہ پاک کے پیارے پیارے نبی ،مکی مَدَنی،محمد ِ عربی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا: ’’ اِنْ شَآءَاللہ میں عنقریب آؤں گا۔‘‘ حضرتِ عتبان بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: دوسرے دِن سورج بُلند ہونے کے بعدحضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم حضرتِ ابو بکرصدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے ساتھ تشریف لے آئے اور (اپنی عادت کریمانہ کے مطابق )گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب فرمائی، میں نے اندر تشریف لانے کی درخواست کی ۔حضور رحمت ِ عا لم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم نے تشریف لاکربیٹھنے سے پہلے اِرشادفرمایا: ’’ تمہیں کون سی جگہ پسند ہے جہاں میں نماز پڑھوں؟‘‘ حضرتِ عتبان بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: میں جس جگہ چاہتا تھااُس طرف میں نے اشارہ کردیا۔حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کھڑے ہوئے اور ہم نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کے پیچھے صف بنائی، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم نے 2رکعت نماز پڑھ کرسلام پھیر ا اور ہم نے بھی سلام پھیر دیا ۔میں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کیلئے تیار کیا گیا ’’خَزِیرہ‘‘ (یعنی گوشت سے تیار کیا گیاایک طرح کا کھانا)حاضر کرنے کے لیے سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کو روک لیا۔محلے والوں کو جب معلوم ہوا کہ رسول پاک صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم میرے گھر تشریف لائے ہوئے ہیں تو وہاں لوگ اکٹھے ہونا شروع ہوگئے حتّٰی کہ بہت سارے لوگ جمع ہوگئے۔(بخاری ج ۱ ص ۳۹۹ حدیث ۱۱۸۶ ) اللہ رب العزت کی اُن سب پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ امین بِجاہِ النَّبِیِّ الْاَمین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد سُنا ہے آ پ ہر عاشق کے گھر تشریف لاتے ہیں مرے گھر میں بھی ہوجائے چراغاں یا رسولُ اللہ شارِحِ بخاری حضرت مفتی شر یف الحق امجدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں: حدیث سے ثابت ہواکہ جن مقامات پر حضورِ اَقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم نے نماز پڑھی ہے وہ بابرکت ہو گئے اور اُن سے بَرَکت حاصل کرنا، بالقصد(یعنی ارادۃً) وہاں نماز پڑھنی صحابۂ کرام ( رَضِیَ اللہُ عَنْہُم )کی سنَّت ہے۔ (نزہۃ القاری ج۲ ص۱۴۱ بتغیر قلیل) حضرتِ امام ابوزَکریایحییٰ بن شرف نووِی(نَ۔وَ۔وی) رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں: مَحَلَّے والوں اورپڑوسیوں کے لئے مستحب ہے کہ اگر اُن میں سے کسی کے گھر کوئی نیک شخص تشریف لائے تو وہ اُن کی زیارت کرنے اوراُن سے برکتیں حاصل کرنے کیلئے جمع ہوں۔ اوراِس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ گھر میں نماز وغیرہ پڑھنے کیلئے ایک جگہ خاص کر(یعنی مسجد ِ بیت بنا)لی جائے۔ (شرحِ مسلم للنووی ج۵ص۱۶۱) شاہِ جنّ و بشر! خیر سے میرے گھر تیرے آئیں قدم، تاجدارِ حرم (وسائل بخشش ص
    ۲۵۳) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

    مسجِد بَیت ‘‘کسے کہتے ہیں؟

    گھرمیں جوجگہ نمازکے لیے مقررکی جائے اُسے’’ مسجد ِبیت‘‘ کہتے ہیں۔ (فتاوی رضویہ ج۲۲ ص ۴۷۹ بتغیر)

    ’’مسجد‘‘ اور’’مسجِدِ بَیت ‘‘کی نَماز کے ثواب میں فرق ہے

    مفتی شریف الحق امجدی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ فرماتے ہیں: وہ(یعنی گھریلو مسجد)فقہی اِصطلاح میں مسجد نہ ہوگی اور نہ اُس میں نماز پڑھنے کا وہ ثواب ہے جو مسجد میں پڑھنے کا ہے، جب تک اُسے برائے مسجد’’ وَقف‘‘ کرکے اُس کا راستہ گھر کے راستے سے الگ کرکے ایسانہ کردے کہ مسلمان جب چاہیں نماز پڑھیں۔ (نزہۃ القاری ج۲ ص۱۷۷)

    وَقف کسے کہتے ہیں؟

    ابھی آپ نے ’’وَقف‘‘ کے بارے میں پڑھا،آیئے !اسلام میں ’’وَقف‘‘ کسے کہتے ہیں یہ بھی جانتے ہیں چنانچہ بہارِ شریعت جلد2صفحہ523پر ہے: وَقف کے یہ معنٰی ہیں کہ کسی شے کو اپنی ملک سے خارج کرکے خالص اللہ پاک کی مِلک کردینا ا س طرح کہ اُس کا نفع بند گانِ خدا میں سے جس کو چاہے ملتا رہے۔ (عالمگیری ج۲ص۳۵۰)

    مدینے میں سب سے پہلے مسجد ِ بیت کس نے بنائی؟

    صحابی ِ رسول حضرتِ عمار بن یاسر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے(مدینۂ پاک کے اندر تمام صحابۂ کرام میں) سب سے پہلے اپنے گھر میں مسجد بنائی جس میں آپ عبادت فرماتے تھے۔ (البدایۃ والنہایۃ ج۵ ص۴۱۸)

    اللہ پاک کے آخِری نبی صلَّی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سجدے کی جگہحکایت

    اُمّ المؤ منین(یعنی تمام مسلمانوں کی ماں) حضرتِ بی بی عائشہ صدّیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہا اِرشاد فرماتی ہیں: میں نے ایک رات سرورِ کائنات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کوبِستر پر آرام فرماتے نہ پایا توتلاش کیا،تلاش کرتے ہوئے میرے ہاتھ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کے مبارک تلوؤں پر لگے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم سجدے کی حالت میں اپنی سجدہ کرنے کی جگہ پر یہ پڑھ رہے تھے: اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخْطِکَ، وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ، وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ، لَا اُحْصِیَ ثَنَائً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ یعنی اے اللہ پاک! میں تیر ی رضا کے سبب تیری ناراضی سے اور تیری معافی کے سبب تیرے عذاب سے پناہ چاہتا ہوں میں تیری تعریف اس طرح نہیں کر سکتا جیسے تو نے اپنی تعریف خود فرمائی۔ (مسلم ص۱۹۹حدیث ۱۰۹۰) حضرتِ علامہ علی قاری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ حدیثِ پاک کے اِس حصے ’’اپنے سجدہ کرنے کی جگہ‘‘ کی شرح میں لکھتے ہیں: وہ مقام جہاں اللہ پاک کے پیارے رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم اپنے مبارک حجرے میں نماز ادا فرماتے تھے، اوریہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ’’مسجد ِنبوی‘‘ ہو۔ (مرقاۃ المفاتیح ج۲ص۶۱۲ملخّصًا)’’ مرآت‘‘ میں ہے :یعنی سجدے میں گرکر دعائیں مانگ رہے تھے،مسجدِ نبوی چونکہ حضرت عائشہ کے حجرے رَضِیَ اللہُ عَنْہَا سے بالکل ملی ہوئی تھی،اسی طرف دروازہ تھا اس لیے آپ کا ہاتھ اپنے بستر پر بیٹھے بیٹھے مسجدمیں پہنچ گیا۔ (مرآت ج۲ ص۸۲)

    پیارے آقا کی مسجدِ بیت

    اُمّ ُالمؤمنین (یعنی تمام مسلمانوں کی ماں) حضرتِ بی بی میمونہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا اِرشاد فرماتی ہیں: ’’میں اپنے نماز نہ پڑھنے کے دِنوں میں حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کی سجدہ گاہ (یعنی سجدے کی جگہ) کے برابر میں لیٹی ہوئی ہوتی تھی۔‘‘ (بخاری ج۱ ص۱۳۲ حدیث ۳۳۳) حضرتِ امام کِرما نی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ اِس حدیثِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں:یہاں سجدہ گاہ سے مُراد حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کے سَجدہ کرنے کی جگہ (مسجد ِ بیت) ہے، یہاں مسجد ِ نبوی شریف مُراد نہیں۔ (عمدۃ القاری ج۳ص۱۸۴ ملخّصًا) اہلِ اسلام کی مادَرانِ شَفیق بانوانِ طہارت پہ لاکھوں سلام (حدائقِ بخشش ص۳۱۰) الفاظ ومعانی: اہلِ اسلام: مسلمان۔مادر: ماں۔شفیق: مہربان۔بانو: عزّت دار خاتون۔ طہارت: پاکیزگی۔ شَرحِ کلامِ رضا: نور والے آقا، مکی مَدَنی مصطَفٰی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم کی عزت دار، پاک بیویاں جو کہ سارے مسلمانوں کی مہربان مائیں ہیں، اِن پاکیزہ خواتین پر لاکھوں سلام ہوں۔ ہر زوجۂ نبی جنّتی جنّتی سب صحابیات بھی جنّتی جنّتی صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

    گھروں کو قبر نہ بناؤ

    فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم : ’’اپنی کچھ نمازیں اپنے گھروں کے لئے مقررکرو اور گھروں کو قبر نہ بناؤ۔‘‘ (مسلم ص ۳۰۶ حدیث ۱۸۲۱) حضرتِ مفتی احمدیارخان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ اِس حدیثِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں: اِس طرح کہ فرض مسجد میں پڑھو اورسنت ونفل گھر میں آکر یا نمازِ پنجگانہ مسجد میں پڑھو اور نمازِ تہجد، چاشت وغیرہ گھر میں، تاکہ نماز کا نور گھروں میں رہے اور عورتوں ا ور بچوں کوتمہیں دیکھ کرنماز کا شوق ہو، نیز گھر کی نماز میں رِیاکم ہوتی ہے۔ (مراۃ ج۱ص۴۴۱) حضرت علامہ ابنِ بَطّال رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ اِس حدیثِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں:جس گھر میں نماز نہ پڑھی جاتی ہو اُس گھر کو قبر سے تشبیہ (تَشْ۔بِیْہ) دی(یعنی قبر کی طرح قرار دیا) ہے۔۱؎ ( (1 یعنی یوں نہ کرو کہ جس طرح مردے قبروں میں نماز نہیں پڑھتے، تم بھی اپنے گھروں میں نماز نہ پڑھو۔

    گھرمیں نفل پڑھنا باعثِ خیروبَرَکت ہے

    اللہ پاک کے پیارے پیارے نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وسلَّم نے اِرشادفرمایا: ’’جب تم میں سے کوئی شخص اپنی مسجد میں نماز ادا کرلے تو اُسے چاہیے کہ اپنے گھر کے لئے نماز میں سے کچھ حصہ بچا رکھے کیونکہ اللہ پاک اُس نماز کے سبب اُس کے گھر میں خیر وبر کت عطا فرمائے گا۔‘‘۲؎(2) حضرتِ علّامہ عبد رَّء ُ وْف مُناوی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ اِس حدیثِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں: فرض نماز جماعت کے ساتھ مسجد میں ادا کروکیونکہ یہ مساجد خاص اِسی لئے قائم کی گئی ہیں۔ نفل نمازاپنے رہنے کی جگہ گھر وغیرہ میں اداکروتاکہ اُس نماز کی برکتیں تمہارے گھر اور اِس میں رہنے والوں کو حاصل ہوں۔ حضرت امام عراقی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے اس موقع پر یہ بھی اِرشاد فرمایا کہ ’’نماز رِزق لانے والی ہے۔‘‘ (فیض القدیرج۱ص۵۳۵) ایک اورحدیث ِ پاک میں ہے: اللہ پاک کے ذِکرو تلاوتِ قرآن کی کثرت سے اپنے گھروں کو روشن کرو۔ (شرحِ ابنِ بطال ج۳ ص ۱۷۷)

    نفلیں مسجدِ بَیت میں پڑھئے

    نیک بننے کا ایک بہترین طریقہ روزانہ اپنے اَعمال کا’’ جائزہ‘‘ لے کر مکتبۃُ المدینہ کے رسالے: ’’نیک اعمال‘‘ میں دئیے ہوئے خانے پر کر کے ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو اپنے یہاں کے ’’شعبۂ اِصلاحِ اعمال‘‘ کے ذمّہ دار کو جمع کروانا بھی ہے۔ اِس رِسالے میں اپنی مسجد ِ بیت(یعنی گھریلومسجد)میں نماز پڑھنے کی ترغیب موجود ہے۔لہٰذا جہاں تک ہو سکے اِسلامی بھائی تہجد،اشراق ،چاشت، اوّابین، صلوٰزۃُ التَّوبہ وغیرہ اپنے گھر کی مسجد یعنی مسجد ِ بیت میں ادا کریں اور اسلامی بہنیں پانچوں فرض نمازیں بھی اپنی’’ مسجد ِ بیت‘‘ میں پڑھیں۔

    سُنّتیں مسجِد ہی میں پڑھئے

    بے شک فرض رکعتوں کے پہلے اور بعد والی سنتیں گھر پر پڑھنے کی احادیثِ مبارکہ میں ترغیب موجود ہے مگر اب مسلمانوں کا انداز بد ل چُکا ہے، جو مسجد میں صرف فرض رکعتیں ہی پڑھے اُس کے متعلق لوگوں کو یہ وسوسہ آسکتا ہے کہ یہ شخص سنتیں نہیں پڑھتا۔ لہٰذا مسلمانوں کو غیبت، تہمت اور بدگمانی وغیرہ کے گناہوں سے بچانے کی نیّت سے سنتیں اب بھی مسجد ہی میں پڑھئے۔ اِس حوالے سے میرے آقااعلیٰ حضرت رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ کافرمان آسان الفاظ میں پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں: ’’آج کل عام مسلمان سنّتیں مسجدوں ہی میں پڑھتے ہیں اورعام مسلمانوں کے معمو ل سے ہٹنا اُنگلیاں اُٹھنے اور بُرا بھلاکہے جانے کا سبب ہے اور اس سے غیبت و بدگمانی کا دروازہ کھلتا ہے۔گھر میںسنتیں پڑھنا ایک مستحب کام تھا لیکن اِن حکمتوں (یعنی عوام کے بدگمانی وغیرہ کے گناہ میں پڑنے کے خطروں) کے پیشِ نظر اِس(یعنی گھر میں سُنتیں پڑھنے کے) کام کو چھوڑنا زیادہ اَہم ہے۔‘‘ (دیکھئے:فتاویٰ رضویہ،جلد7صفحہ416)

    گھرگھر’’ مسجدِ بیت ‘‘ بنائیے

    اے عاشقانِ نماز! پہلے کے پاکیزہ دَور کے مسلمانوں کے گھروں میںمسجد ِ بیت (یعنی گھریلو مسجد)ہوا کرتی تھی۔ افسوس! اب گھروں میں بیڈ روم، ڈرائنگ روم،ڈریسنگ روم، اسٹڈی روم، فٹنس روم، T.V لاؤنچ اور نہ جانے کیا کیا بنایا جارہا ہے!اگر نہیں بناتے تو ’’مسجد ِ بیت‘‘ اور وضو خانہ نہیں بناتے۔ ہمت کیجئے! اچھی اچھی نیتوں کے ساتھ اپنے گھر میں مسجد ِ بیت بنایئے اور ثواب کے حقدار بنئے۔ ’’بہارِ شریعت ‘‘میں مسجد ِ بیت کی ترغیب دِلاتے ہوئے لکھا ہے: ’’عورت کے لیے یہ مستحب بھی ہے کہ گھر میں نماز پڑھنے کے لیے کوئی جگہ مقرر(یعنی فکس) کر لے اور چاہیے کہ اس جگہ کو پاک صاف رکھے اور بہتر یہ کہ اس جگہ کو چبوترا وغیرہ کی طرح بلند کرلے۔ بلکہ مرد کو بھی چاہیے کہ نوافل کے لیے گھر میں کوئی جگہ مقرر کر لے کہ نفل نماز گھر میں پڑھنا افضل ہے۔‘‘ (درمختاروردالمحتارج۳ص۴۹۴، بہارِ شریعت ج۱ ص ۱۰۲۱) یاد رہے! مسجد ِ بیت کیلئے پورا کمرہ (ROOM) ہونا جائز تو ہے مگر ضروری نہیں ، کسی کمرے میں ایک فرد نماز پڑھ سکے اتنی جگہ بھی اگر فکس(FIX) کرلی تو وہ بھی کافی ہے، اِس کی الگ سے تعمیر وغیرہ بھی ضروری نہیں۔ (فیضانِ نماز ص۵۳۷ بتغیر)

    گھر وں میں مسجدیں بنانا بزرگوں کا طریقہ ہے

    گھریلو مسجد نماز اداکرنے کی جگہوں میں سے ہے اور بزرگانِ دین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِم کی عادتِ مبارکہ ہے کہ وہ اپنے گھروں میں نمازپڑھنے کی جگہ کو خاص کرتے (یعنی ’’مسجد ِ بیت‘‘ بناتے) تھے۔ (فتح الباری لابن رجب ج۳ص۱۶۹)

    مسجدِ بیت بنانے کا حُکمِ مُصطَفٰے

    گھروں میں مسجد ِ بیت بنانے کے متعلق اُمُّ المؤمنین(یعنی تما م مسلمانوں کی ماں) حضرت بی بی عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا بیان فرماتی ہیں کہ تمام نبیوں کے سردار ، جنابِ احمد ِ مختار رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ نے گھروں میں مسجدیں بنانے اوراِنہیں پاک وصاف اور خوشبودار رکھنے کا حکم اِرشاد فرمایا۔ (ابوداؤد ج۱ص۱۹۷حدیث ۴۵۵) حضرتِ مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ اِس حدیث پاک کی شرح میں لکھتے ہیں: اِس سے ’’مسجد ِبیت‘‘ مراد ہے،یعنی گھر میں کوئی حجرہ(یعنی ROOM) یا گوشہ(یعنی کونا) نماز کے لیے رکھا جائے جہاں کوئی دُنیوی کام نہ کیا جائے، اس جگہ صفائی ہو اورخوشبو کا لحاظ رکھا جائے۔ ہم نے اپنے بزرگوں کو اس پر عامل(یعنی عمل کرنے وا لا) پایا،اَب اِس کا رواج جاتا رہا۔ نیزاِس حدیث سے معلوم ہوا کہ مسجدوں میں خوشبوئیں سلگانا، عطر مَلنا مستحب ہے۔ (مراٰۃ ج۱ ص۴۴۳) یاد رہے! خوشبو لگانے یا سلگانے سے ابھی یا آئندہ لوگوں کو اُس کا فائدہ ہوگا تو ہی خوشبو لگا سکتے ہیں ورنہ نہیں۔
    1 شرح بخاری لابن بطال ج ۳ ص ۱۴۶ 2 مسلم ص ۳۰۶ حدیث ۷۷۸

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن