30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِینَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیّٖن ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط (1)غوثِ پاک رحمۃُ اللہِ علیہ کا شوقِ عِلمِ دین
دُعائے عطار : یاربَ المصطفٰے !جوکوئی 17صفحات کا رسالہ ”غوثِ پاک کا شوقِ عِلمِ دین“پڑھ یا سن لے اسے عِلمِ دین حاصل کرنے کا شوق اور عمل کی توفیق عطا کر اور ماں باپ سمیت اس کی مغفرت فرما۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّٖن صلی اللہ علیہ و اٰلہٖ و سلمدرود شریف کی فضیلت
فرمانِ آخِری صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم: میں نے گزشتہ رات عجیب واقعہ دیکھا ، میں نے اپنے ایک امّتی کو دیکھا جو پُل صِراط پر کبھی گِھسٹ کر اور کبھی گُھٹنوں کے بَل چل رہا تھا ، اتنے میں وہ دُرُود آیا جو اس نے مجھ پر بھیجا تھا، اُس نے اُسے پُل صِراط پر کھڑا کر دیا یہاں تک کہ اُس نے پُل صِراط پار کر لیا۔ (معجم کبیر،25/282،حدیث39) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدسچ کی بَرَکت سے 60ڈاکوتائِب ہوگئے
9 ذِی الْحج شریف کو ایک لڑکا اپنے گھر سے باہر نکلا اور کھیت میں ہَل چلانے والے ایک بیل کے پیچھے ہو لیا ۔ اَچانک بیل اُس لڑکے کی جانب مُڑا اور نام لے کر یوں بولا: اے فُلاں! تم کھیل کُودکے لئے نہیں پیدا کئے گئے ۔ لڑکے نے بیل کو اِس طرح بات کرتے سُنا تو خوفزدہ ہو کر فورا ًگھر آیا اور گھر کی چھت پر پہنچا تو کیا دیکھتا ہے کہ سینکڑوں مِیل دور میدانِ عَرَفات کا مَنْظر دکھائی دے رہا ہے جس میں حُجّاجِ کرام گھروں سے دور اللہ پاک کی رِضا کے حُصول کی خاطِر جمع تھے ۔اس لڑکے نےیہ دیکھا تو اپنی والدہ کی خدمت میں حاضرہو کر عرض گزار ہوا: ’’میری پیاری اَمی جان! مجھے اللہ پاک کی رِضا کے لئے راہِ خُدامیں وَقْف کر دیجئے اور مجھے بغداد شریف جا کر عِلمِ دین حاصل کرنے اور اللہ پاک کے نیک بندوں کی خدمت میں حاضر ہو کر اُن کا فیضان حاصل کرنے کی اِجازت عنایت فرمایئے ۔ ‘‘امی جان نے اِس کا سبب پوچھا تو اُس لڑکے نےبڑے اِحترام کے ساتھ ساراواقعہ کہہ سُنایا۔ اللہ پاک کی مَرضی و رِضا پر امی جان نے لبَّیْک کہا اور راہِ خدا کے اِس نَنھے مُسافر کے لئے سامان تیار کرنا شروع کر دیا اور چالیس دِینار (یعنی سونے کے سِکے) اپنے لَخْتِ جگر(یعنی son) کی قمیص کے اَندر سی دیئے ۔ پھر سفر پر روانہ ہونے سے پہلے اپنے لختِ جگر سے وَعدہ لیا کہ ہمیشہ اور ہر حال میں سچ بولنا اور اِس کے بعد اپنے بیٹے کو یہ کہتے ہوئے اَلوداع کہا:’’جاؤ! میں نے تمہیں راہِ خدا میں ہمیشہ کے لئے وقف کر دیا، اَب میں یہ چہرہ قیامت سے پہلے نہ دیکھوں گی۔(اللہ کی یہ نیک بندی جانتی تھی کہ اَب میں جیتے جی اپنے بیٹے کو نہیں دیکھ سکوں گی۔) (بہجۃ الاسرار، ص167) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدماں کی نصیحت ماننے کا صِلہ
یہ لڑکا ایک چھوٹے سے قافلے کے ساتھ بغداد کی جانب چل پڑا، راستے میں ایک واقعہ پیش آیا کہ 60ڈاکو قافلے کا راستہ روک کر لوٹ مار کرنے لگے ، اُنہوں نے کسی کو بھی نہ چھوڑا اور ہر ایک سے اُس کا مال واَسباب چھین لیا مگر اِس لڑکے کو کم عمر جانتے ہوئے کسی نےکچھ بھی نہ کہا، ایک ڈاکو نےقریب سے گزرتے ہوئے ایسے ہی پوچھا:کیا تمہارے پاس بھی کچھ ہے ؟ لڑکے نے بغیر ڈَرےجواب دیا:ہاں ! میرے پاس 40 دینار (یعنی چالیس سونے کے سِکّے ) ہیں ۔ ڈاکو نے سمجھا کہ یہ ہم سے مذاق کررہا ہے اور آگے چلاگیا، اس لڑکے سے کسی اور ڈاکو نے بھی پوچھا تو اُسے بھی یہی جواب دیا کہ اُس کے پاس 40سونے کے سکِے ہیں۔ جب یہ دونوں ڈاکو اپنے سردار کے پاس گئے تو اُسے بتایا کہ ہم نے قافلے میں ایک ایسا جُرْأت مند لڑکا دیکھا جو اِس حالت میں بھی ہم سے نہیں ڈرتا اور ہم سے مذاق کرتا ہے ۔سَردار نے کہا: کیا مذاق کرتا ہے ؟ اس کو بُلا کرلاؤ ، جب وہ لڑکا آیا تو سردار کے پوچھنے پر اَب بھی وہی کہا جو پہلے کہا تھا کہ میرے پاس چالیس سونے کے دینار ہیں،سردار نے تلاشی لی تو واقعی اس کے لباس میں سے چالیس دینار(40 سونے کے سِکّے) مل گئے ۔ لڑکے کے اِس سچ بولنے پر سب حیران ہوئے اور اُس سے سچ بولنے کا سبب پوچھا تولڑکا کہنے لگا : میری امی نے گھر سے نکلتے ہوئے وَعدہ لیا تھا کہ ہمیشہ اور ہر حال میں سچ بولنا اور میں اپنی امی کا وعدہ نہیں توڑ سکتا ۔ ڈاکوؤں کا سرداریہ سن کرروپڑا اور کہنے لگا:ہائے افسوس! یہ لڑکا اپنی امی سے کئے ہوئے وعدے کی اس طرح پاسداری کرے اور ایک میں ہوں کہ سالہا سال ہو گئے اپنے رَبّ کے عَہد کی خلاف وَرزی کر رہا ہوں ۔اُس سردار نے روتے ہوئے راہِ خدا کے اِس ننھے مُسافر کے ہاتھ پر توبہ کر لی اور اُس کے باقی ساتھی بھی یہ کہتے ہوئے توبہ کرنے لگے کہ اے سردار! جب لُوٹ مار کے بُرے کاموں میں تُو ہمارا سردار تھا اَب نیکی کی راہ پر بھی تُو ہی ہمارا سردار ہو گا۔ (بہجۃالاسرار، ص168) نگاہِ ولی میں یہ تاثیر دیکھی بدلتی ہزاروں کی تقدیر دیکھی اے عاشقانِ غوثِ اعظم !راہِ خدا کا یہ نَنھا مسافر کوئی اور نہیں بلکہ ہمارے اور آپ کے پیارے پیارےپِیرو مُرشِد ، پِیروں کے پِیر، پِیرِ دستگیر، روشن ضمیر، قطبِ ربّانی، محبوبِ سُبْحانی، پیرِ لاثانی، پیرِ پیراں ، مِیرِ میراں ، شیخ سید ابو محمد عبدُ القادِر جیلانی رحمۃُ اللہِ علیہ تھے سچ بولنے کی بھی کیا خوب برکتیں ہیں کہ سچ کی برکت سے ڈاکوؤں کوسردار سمیت توبہ کی سعادت نصیب ہوگئی۔ہرمُسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے دِینی ودُنیوی تمام معاملات میں سچ بولے ، سچ بولنا نجات دِلانے اور جنّت میں لے جانے والا کام ہے۔تین فرامینِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
1”سچائی کو اپنے اُوپر لازم کرلو کیونکہ یہ نیکی کے ساتھ ہے اوریہ دونوں جنّت میں (لے جانے والے) ہیں اور جھوٹ سے بچتے رہو کیونکہ یہ گناہ کے ساتھ ہے اوریہ دونوں جہنّم میں (لے جانے والے )ہیں ۔ “(ابن حبان، 7 / 494، حدیث:5704) 2”جب بندہ سچ بولتا ہے تو نیکی کرتا ہے اور جب نیکی کرتا ہےتو مَحْفوظ ہوجاتا ہے اور جب مَحْفوظ ہوجاتا ہے تو جنّت میں داخل ہو جاتا ہے۔“(مسندامام احمد،2 / 589، حدیث:6652ملتقطا) 3”کتنی بڑی خِیانت ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی سے کوئی بات کہو جس میں وہ تمہیں سچا سمجھ رہا ہو حالانکہ تم اُس سے جُھوٹ بول رہے ہو۔“(ابوداود،4 / 381، حدیث:4971) اے عاشقانِ غوثِ اعظم !بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بندہ اپنی عزت بچانے کے لیے جُھوٹ بولتا ہے کہ اگر سچ بولے گا تو لوگ ملامت کریں گے، بُرا بھلا کہیں گے حالانکہ عزت سچ میں ہی پوشیدہ ہے جبکہ جھوٹ میں اگرچہ ظاہری طورپر دُنیا میں بے عزتی سے بچ بھی گئے لیکن اللہ پاک کی بارگاہ میں بروزِ قیامت جو نَدامت و شرمِنْدَگی ہوگی وہ بیان سے باہر ہے ، جُھوٹ سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بندہ دُنیوی ذِلّت کے مقابلے میں جہنّم کی اُخرَوِی ذلّت اور عذابات کو پیشِ نظر رکھے کہ دُنیوی ذلّت تو چند لمحوں کی ہے اور عنقریب ختم ہوجائے گی لیکن اُخروی ذلّت تو اِس سے کہیں بڑھ کر ہے، لہٰذا کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ مت کیجئے، ہمیشہ سچ بولیے۔ غیبت سے اور تُہمت و چُغلی سے دُور رکھ خُوگر تُو سچ کا دے بنا یا ربِّ مصطفےٰ عُجْب و تکبُّر اور بچا حُبِّ جاہ سے آئے نہ پاس تک رِیا یا ربِّ مصطَفٰے اَمراضِ عِصیاں نے مجھے کرنیم جاں دیا مُرشِد کا صدقہ دے شِفا یاربِّ مصطَفٰے (وسائلِ بخشش،ص132) حضورغوثِ پاک،شہنشاہِ بغداد رحمۃُ اللہِ علیہ نے ابتدائی تعلیم قصبہ جیلان میں حاصل کی پھر مزید تعلیم کے لئے سن 488ھ میں بغداد تشریف لائے ،آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے بڑے اچھے طریقے سے علم حاصل کیا اوراپنی تعلیم مکمل فرما کر اپنےزمانے کےعُلما میں نمایاں مقام حاصل کیا۔دورانِ طالب ِعلمی آپ کو فاقہ کَشی (یعنی بھوکے رہنے) کی نَوبت بھی آئی اور نہ جانے کِن کِن دُشوار گُزار مرحلوں سے گزرنا پڑا مگر اِس کے باوجود عِلمِ دِین حاصل کرنے کا جذبہ ٹھنڈا نہ ہوا۔ نہایت محنت و مَشَقَّت کے ساتھ عِلمِ دین حاصل کرتے رہے اور جب اِس سلسلہ کی تکمیل ہو گئی اورآپ رحمۃُ اللہِ علیہ فَضْل و کمال پر پہنچ گئے ،بہت بڑے عالم ِ دین بن گئے، آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کی عِلْمِیّت کی شُہرت دور دور تک پہنچ گئی تو آپ کے اُستاذِ مُحترم و مرشدِ گرامی حضرت شیخ ابو سعید مخزومی رحمۃُ اللہِ علیہنے دَرس و تدریس کے واسطے اپنا مدرسہ آپ کے حوالےکر دیا جس کی ذمہ داری آپ نے خوش دِلی کے ساتھ نہ صِرف قبول فرمائی بلکہ مَسندِ تدریس کو رونق بخش کر عُلُوم و فُنُون کے پیاسوں کو سیراب کرنے لگے۔ ( الطبقات الکبرٰی للشعرانی،1/178 ۔ نزہۃ الخاطر الفاتر، ص20، بتغیر ۔تاریخ مشائخ قادریہ، ص125، 126 ۔ قلائد الجواہر، ص134) میرے مرشد،حُضورغوثِ پاک رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے قصیدہ ٔ غوثیہ میں اِرشاد فرماتے ہیں: دَرَسْتُ الْعِلْمَ حتّٰی صِرْتُ قُطْبًایعنی میں نے عِلم کادَرس لیایہاں تک کہ مقامِ قُطْبِیَّت پر پہنچ گیا۔ (قصیدہ غوثیہ،مدنی پنج سورہ264) مزید اِرشادفرمایا:’’ فِقْہ سیکھ اِس کے بعدتنہائی اختیار کر جو بغیر عِلم کے خُدا کی عبادت کرتا ہے وہ جتنا سَنوارے گا اُس سے زیادہ بگاڑے گا۔ اپنے ساتھ شریعت کی شمع لے لو، اﷲ پاک کی طرف سے سب سے زیادہ قریب راستہ بندگی کے قانون کو لازم پکڑنا اور شریعت کی گِرہ کوتھامے رکھنا ہے۔‘‘ (بہجۃ الاسرار،ص106) احکامِ شریعت رہیں مَلْحوظ ہمیشہ مُرشِد مجھے سنّت کا بھی پابند بناؤ اَچھّوں کے خریدار تو ہر جا پہ ہیں مُرشِد بَدکار کہاں جائیں جو تم بھی نہ نبھاؤ عطّارؔ کو ہر ایک نے دُھْتکار دیا ہے یا غوث ! اسے دامن ِرحمت میں چُھپاؤ (قبالۂ بخشش،ص570) اے عاشقانِ غوث اعظم !اَولیا ئے کرام کی سب سے اَفضل قِسم صدیق کہلاتی ہے اوراَلحمدُ لِلّٰہ ہمارے غوثِ اعظم رحمۃُ اللہِ علیہ صدیق تھے۔(نیکی کی دعوت، ص580)عِلمِ لَدُنِّی کے 70دَروازے
شیخ ابُوالْحَسَن عِمرانی کِیماتی اوربزّار رحمۃُ اللہِ علیہما نے بغداد میں 591ھ میں کہا کہ ہم شیخ مُحْیُ الدِّین ابُومحمد عبدُالقادر جیلانی رحمۃُ اللہِ علیہ کے پاس مدرسہ میں ’’دروازۂ اَزج‘‘ میں557 ھ میں حاضر ہوئے اوروہ اَنجیر کھارہے تھے ،تب آپ نے کھانا چھوڑدیا اوردیر تک بے ہوشی میں رہے پھر فرمایا:اِس وقت میرے دِل پر عِلمِ لَدُنِّی کے 70دَروازے کھول دئیے گئے ۔ہر ایک دروازہ اتنا کُشادہ (یعنی وسیع) ہے جیساکہ آسمان وزمین کی کُشادگی،پھر خاص لوگوں میں اللہ پاک کی پہچان کی باتیں دیر تک کرتےرہےحتّٰی کہ حاضرین کے ہوش جاتے رہےاور ہم نے کہا کہ ہم کویہ گُمان نہیں کہ شیخ کے بعد کوئی اور بھی ایسا کلام کرسکے۔(بہجۃ الاسرار، ص 56)اللہ کے ولی کو جگہ دے دو
میرے پیرو مرشدسیدی حُضورغوثِ پاک رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے بچپن کے ایک واقعے کے بارے میں فرماتے ہیں: ایک شخص میرے پاس سے گزرا جسے میں نہیں جانتا تھا، اُس نے فرشتوں کو اُس دن یہ فرماتے ہوئے سُناکہ” اللہ کے ولی کو جگہ دے دو۔“اُس نے فرشتوں میں سے ایک سے پوچھا:یہ لڑکا کون ہے؟ توفرشتے نے کہا کہ عنقریب اِس کی شان عظیم ہوگی،اِس کو عطا کیاجائے گا، منع نہیں کیا جائے گا ،اِس کو اختیار دیا جائے گااورروکا نہیں جائے گااوراِ س کو قریب کیاجائے گا اِس سے دھوکہ نہ کیا جائے گا۔ حُضورِغوثِ پاک رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:پھر میں نے اُس شخص کو چالیس سال کے بعد پہچانا تو وہ اُس وقت کے ابدال ( 2) میں سے تھا ۔ (بہجۃ الاسرارص48) خُدا کے فضل سے ہم پر ہے سایہ غوثِ اعظم کا ہمیں دونوں جہانوں میں ہے سہارا غوثِ اعظم کا عزیزو کر چُکو تیار جب میرے جنازے کو تو لکھ دینا کفن پر نامِ والا غوثِ اعظم کا لَحد میں جب فرشتے مجھ سے پوچھیں گے تو کہہ دوں گا طریقہ قادری ہوں نام لیوا غوثِ اعظم کا (وسائلِ بخشش،ص93 ، 98 ، 99) ہیں پیرِ پیراں غوثِ پاک ہیں میرِ میراں غوثِ پاک مَحبوبِ سُبْحاں غوثِ پاک ولیوں کے سلطاں غوثِ پاک مَحبوبِ یَزْداں غوثِ پاک سلطانِ ذیشاں غوثِ پاک مشکل ہوآساں غوثِ پاک دو درد کا درماں غوثِ پاک فرماؤ احساں غوثِ پاک راحت کا ساماں غوثِ پاک بُلواؤ جاناں غوثِ پاک بن جاؤں مہماں غوثِ پاک جس وقت چلے جاں غوثِ پاک یا پِیر! ہو احساں غوثِ پاک پورا ہو جاناں غوثِ پاک دیدار کا ارماں غوثِ پاک ہو جائے مری جاں غوثِ پاک بس آپ پہ قرباں غوثِ پاک ٹل جائے شیطاں غوثِ پاک بچ جائے ایماں غوثِ پاک اُف !حشر کا میداں غوثِ پاک لو زیرِ داماں غوثِ پاک ہو میری جاناں غوثِ پاک بخشش کا ساماں غوثِ پاک صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
1… امیرِاہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ نے 3 اور 4 ربیعُ الآخِر1441 ہجری مطابق 30 نومبر اورپہلی دسمبر 2019 کو عالَمی مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ (کراچی)میں مَدَنی مذاکرے سے قبل ”غوثِ پاک کا شوقِ علمِ دین “ اور ”غوث پاک کی عِلْمِی شان “ کے موضوع پر بیان فرمایا اَلحمدُ لِلّٰہ ِالکریم! شعبہ ہفتہ وار رسالہ مطالعہ کی طرف سےان بیانات کو کچھ ضروری ترمیم و اضافے کے ساتھ تحریری صورت میں پیش کیاجارہا ہے ۔ 2 … یہ اولیائے کِرام کی ایک قسم ہے ۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع