اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
یہ رسالہ امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ سے کیے گئے سوالات اور ان کے جوابات پر مشتمل ہے
دُعائے جانشینِ امیرِ اہلِ سنّت :یااللہ پاک جو کوئی 17 صفحات کا رسالہ ”امیرِ اہلِ سنّت سے غوثِ پاک کے بارے میں سوال جواب “ پڑھ یا سن لے اُسے غوثِ پاک کے نقشِ قدم پر چلا ، نیک بنا اور اُس کی بے حساب مغفرت فرما ۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبیِّین صلّی اللہُ علیهِ واٰله وسلّم
فرمانِ آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم:جو مجھ پر دُرُودِ پاک پڑھے گا میں اُس کی شَفاعت فرماؤں گا۔(القول البدیع، ص 117)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
سوال: حضورِ غوثِ پاک رحمۃُ اللہِ علیہ کی ولادتِ مُبارَکہ کب ہوئی ؟
جواب: مىرے مُرشد ، حضورِ غوثِ پاک رحمۃُ اللہِ علیہ رَمَضانُ المبارک کی پہلى تارىخ کو پىر کے دِن صُبح صادق کے وقت دُنىا مىں جَلوہ گر ہوئے ، اُس وقت آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کے ہونٹ آہستہ آہستہ ہل رہے تھے اور زبان پر ”اللہ ، اللہ“جاری تھا ۔ (الحقائق فی الحدائق، ص 139) آپ کی وِلادت چونکہ رَمَضانُ المبارک میں ہوئی اس لیے آپ نے پہلے دِن سے ہى روزہ رکھا۔ آپ سحرى سے لے کر اِفطار تک ىعنى صبحِ صادق سے لے کر غروبِ آفتاب تک اپنی اَمّى جان رحمۃُ اللہِ علیہ ا کا دُودھ نہ پىتے تھے ۔ چنانچہ غوثُ الثقلین، شىخ عبدُالقادر جىلانی رحمۃُ اللہِ علیہ کى والدہ ٔ ماجدہ رحمۃُ اللہِ علیہ ا فرماتى ہىں : جب مىرا بىٹا عبدُالقادر پىدا ہوا تو رَمَضان شرىف مىں دِن بھر دُودھ نہ پىتا تھا ۔ (بہجۃ الاسرار ، ص 172) (ملفوظاتِ امیر اہل سنت، 1/426)
غوثِ اعظم متقى ہر آن مىں چھوڑا ماں کا دُودھ بھى رَمَضان مىں
سوال : سُنا ہے کہ غوثِ پاک رحمۃُ اللہِ علیہ اپنی والدۂ ماجدہ کے پیٹ میں ہی والدۂ ماجدہ کی چھینک کا جواب دیتے تھے؟
جواب:جی ہاں ۔ مىرے غوثِ پاک رحمۃُ اللہِ علیہ جب اپنى ماں کے پىٹ مىں تھے تو جب آپ رحمۃُ اللہِ علیہ کی اَمی جان کو چھىنک آتى اور وہ اَلحمدُ لِلّٰہ کہتیں تو آپ اپنی امی جان کے پىٹ مىں جواباً : یَرْحَمُكَ الله کہتے۔ (الحقائق فی الحدائق، ص 139)آج کل تو بڑے بڑوں کو یَرْحَمُكَ الله کہنا نہىں آتا ہو گا ۔ چھینک کےجواب میں عورت کے لیے یَرْحَمُكَ الله اور مرد کے لىے یَرْحَمُكَ الله کہىں گے ۔ میرے مُرشِد غوثِ پاک رحمۃُ اللہِ علیہ ماں کے پىٹ مىں بھی مَسائل جانتے تھے کیونکہ آپ پىدائشى ولى تھے۔ ہمارى حالت ىہ ہے کہ ہمیں چھىنک آنے پر کىا کرنا ہے اور چھینک کا جواب سُن کر کىا کرنا ہے کچھ بھى پتا نہىں ہوتا اور ہماری غالِب اَکثرىت چھینک پر اَلحمدُ لِلّٰہ نہىں کہتی حالانکہ یہ سُنَّت ہے بلکہ چھىنک آنے پر اللہ کى حمد کرنے ىعنی اَلحمدُلِلّٰہ کہنے کو تفسیر خزائنُ العرفان میں طحطاوى کے حوالے سے سُنَّتِ مُؤکدہ لکھا ہے۔ (تفسیر خزائن العرفان، پ 1 ، الفاتحہ، تحت الآیۃ: 1، ص 3)تجربہ ہے کہ بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کی چھینک آنے پر اَلحمدُلِلّٰہ نہ کہنے کی عادت پکی ہو جاتی ہے اگر انہیں بار بار بولو تب بھی وہ اَلحمدُلِلّٰہ نہیں کہتے۔ چھینک کا جواب دینا اتنی آواز سے کہ چھینکنے والا سُن لے واجب ہے اگر کوئی نہیں دے گا تو گناہ گار ہو گا۔(رد المحتار ، 9/683 ملتقطاً) مگر لوگ جواب نہىں دىتے اور نہ ہی اُنہیں اس کے بارے میں پتا ہوتا ہے۔ مىرے مُرشِد غوثِ پاک رحمۃُ اللہِ علیہ کو ماں کے پىٹ مىں بھی چھینک کے جواب کا پتا تھا حالانکہ آپ پر ىہ واجب بھى نہىں تھا کہ نابالغ پر واجب نہیں ہوتا ، نابالغ ہی کیا غوثِ پاک رحمۃُ اللہِ علیہ تو ابھی ماں کے پىٹ مىں ہی تھے، ىہ غوثِ پاک کی کرامت تھی اور اللہ پاک کی طرف سے یہ بتانا تھا کہ آنے والا کوئى عام شخص نہىں بلکہ ولىوں کا سردار ہے ۔ بہرحال جب چھىنک آئے تو اَلحمدُلِلّٰہ کہنا چاہیے اور جو مسلمان اَلحمدُلِلّٰہ سُنے تو اُس پر ” یَرْحَمُكَ الله “ کہنا واجب ہو جائے گا ۔ (ملفوظاتِ امیر اہل سنت، 1/424-425)
حمد بیان کرنے کے لیے اَلْحَمْدُ لِله کہنا نہایت ہی جامع ہے اور ا س کے بارے میں حدىثِ پاک مىں فرمایا گىا: اَفْضَلُ الدُّعَاءِ اَلْحَمْدُلِله یعنی اَفضل دُعا اَلحمدُلِلّٰہ کہنا ہے۔ (ترمذی، 5/248، حدیث: 3394) بہتر ىہ ہے کہ چھینکنے والا اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن ىا اَلْحَمْدُ لِلہِ عَلٰی کُلِّ حَال کہے اور سننے والے پر واجب ہے کہ فوراً ” یَرْحَمُكَ الله ىعنى اللہ تجھ پر رحم فرمائے “ کہے اور یہ اتنی آواز سے کہے کہ چھینکنے والا سُن لے فقط دِل مىں ” یَرْحَمُكَ الله“ کہنا کافى نہىں ہے۔ (رد المحتار، 9/683-684 ماخوذاً ) جواب سُن کر چھىنکنے والا ” یَغْفِرُ اللہُ لَنَا وَلَکُمْ ىعنى اللہ پاک ہمارى اور تمہار ى مغفرت فرمائے۔“ یا ” یَهْدِیْكُمُ اللہُ وَیُصْلِحُ بَالَکُمْ ىعنی اللہ پاک تمہىں ہداىت دے او ر تمہارا حال دُرست کرے “ کہے۔(فتاویٰ ہندیہ، 5/326) اور یہ کہنا اس کے لىے مستحب یعنی ثواب کا کام ہے۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت، ص 320) اگر نہیں کہے گا تو گناہ گار نہىں ہو گا ۔ اگر ان دو دُعاؤں مىں سے کوئى بھى اىک دُعا کہہ لے گا تو مستحب ادا ہو جائے گا ۔
(ملفوظاتِ امیر اہل سنت، 1/425)
سوال : غوث پاک رحمۃُ اللہِ علیہ (کے بچپن )کا کوئی واقعہ سنا دیجئے۔
جواب:حضور غوثِ اعظم سَیِّد شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: جب میں چھوٹا تھا تو حج کے دِنوں میں مجھے جنگل جانا پڑا وہاں میں ایک بیل کے پیچھے پیچھے چلنے لگا جیسے بچے عام طور پر اِس طرح کرتے ہیں۔ اُس بیل نے میری طرف دیکھ کر کہا:اے عبدُ القادر! تمہیں اِس قسم کے کاموں کے لیے پیدا نہیں کیا گیا۔ میں گھبرا کر گھر واپس آگیا اور امی جان سے عرض کی:امی جان! آپ مجھے مکمل طور پر راہِ خُدا میں بغداد جانے دیں تاکہ میں وہاں جا کر عِلمِ دِین حاصِل کروں اور نیک بندوں کو دیکھ سکوں۔امی جان نے مجھ سے اِس کی وجہ پوچھی تو میں نے بیل والا واقعہ سُنا دیا۔ یہ سُن کر امی جان کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور میرے اَبُو جان کے مال سے جو میرا حِصّہ تھا وہ میرے پاس لے آئیں یعنی 80 سونے کے سکّے، میں نے ان میں سے 40 سونے کے سکے لے لیے اور باقی 40 اپنے بھائی کے لیے چھوڑ دیئے۔ امی جان نے اِس رقم کو میری قمیص میں سِی دیا اور بغداد جانے کی اِجازت دیتے ہوئے مجھے ہر حال میں سچ بولنے کی نصیحت فرمائی اور فرمایا: بیٹا میں تجھے اللہ پاک کی رِضا کے لیے خود سے دُور کر رہی ہوں اور اب مجھے تمہارا چہرہ قیامت کے دِن ہی دیکھنا نصیب ہو گا۔( بہجۃ الاسرار،ذکر طریقہ،ص167-168 )
اِس حکایت سے پتا چلا کہ ہمارے غوث ِپاک رحمۃُ اللہِ علیہ کو بچپن ہی میں عِلمِ دِین حاصِل کرنے کا شوق ہو گیا تھا ، اِسی وجہ سے عِلمِ دِین حاصِل کرنے کے لیے اپنی امّی جان سے اِجازت لی اور امی جان نے بھی زندگی بھر کے لیے راہِ خُدا میں سفر کرنے کی اِجازت دے دی۔ یہ ایک ایسا سچا واقعہ ہے جس میں ہر ماں اور ہر بچے کے لیے بہترین دَرس ہے۔ ہمیں بھی علمِ دِین حاصِل کرنا چاہیے۔ (ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنّت، 4/283-284)
سوال: پیرانِ پیر، حضرت شیخ عبد القاد ر جیلانی رحمۃُ اللہِ علیہ کا حلیہ مبارک کیسا تھا ؟
جواب: بہجۃُ الْاَسرار شرىف کے حوالے سے حضرت شىخ ابو عبدُ اللہ بن احمد بن قُدامَہ مَقْدِسِی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہىں کہ ہمارے امام شىخ الاسلام محىُّ الدىن سىّد عبدالقادر جىلانى رحمۃُ اللہِ علیہ ضعىفُ الْبَدَن ىعنى ظاہرى طور پر کمز ور بدن والے، درمىانہ قد، فراخ سىنہ ، چوڑى داڑھى، اونچى گردن، گندمى رنگ ، ملے ہوئے ابرو، سىاہ آنکھىں ، بلند آواز ، اور وافِر علم و فضل والے تھےىعنى آپ بہت بڑے عالِم اورمفتى بھی تھے۔ ( بہجۃ الاسرار ، ص174 )
(ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنّت، قسط: 180، ص 8)