Guftagu Kay Adaab
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Guftagu Kay Adaab | گفتگو کے آداب

    Baat Cheet Mein Awaz Buland Karny Ki Muzammat

    book_icon
    گفتگو کے آداب
    اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ  ط
    اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ  ط   بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم  ط
     گفتگو کے آداب
    یا ربَّ المصطَفٰی! جوکوئی ’’گفتگو کے آداب‘‘ کے 37صفحات پڑھ یا سُن لے اُسے سنت کے مطابِق بات چیت کرنا آجائے اور اُس کی بے حساب مغفِرت ہو۔  
    اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم

    دُرُود شریف کی فضیلت

    فرمانِ مصطفی صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ : ’’بے شک بروزِ قیامت لوگوں میں سے میرے قریب تر وہ ہو گا جو مجھ پر سب سے زیادہ دُرُود بھیجے۔‘‘
     (تِرمذی ج۲ص۲۷حدیث۴۸۴)
    اے عاشقانِ رسول!بے شک آدمی کو بات چیت کرنے کی ضرورت پڑتی رہتی ہے مگر یہ یاد رہے کہ غیر ضروری جائز گفتگو سے بھی خاموشی بہتر ہے۔

    بات چیت میں آواز بُلندکرنے کی مَذَمَّت

    اللہ  پاک پارہ 21سورۃ لقمٰن   آیت 19میں ارشاد فرماتا ہے: 
    وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَؕ-اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ۠(۱۹) 
    آسان ترجَمۂ   قرآن کنزُالعِرفان: اور اپنی آواز کچھ پست رکھ، بے شک سب سے بُری آواز گدھے کی آواز ہے۔

    نرم آواز سے بات کرنا سُنَّت ہے

    حضرتِ علامہ مفتی سید محمدنعیم الدین مرادآبادی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ اس مبارک آیت کی تفسیرمیں لکھتے ہیں: شور مچانا اور آوازبُلند کرنا مکروہ و ناپسندیدہ ہے اور اس میں کچھ فضیلت نہیں ہے ، گدھے کی آواز باوجود بلند ہونے کے مکروہ(یعنی ناپسندیدہ) اور وحشت انگیز (یعنی نفرت دلانے والی)ہے ۔ نبیِ کریم صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو نرم آواز سے کلام(یعنی بات چیت) کرنا پسند تھا اور سخت آواز سے بولنے کو ناپسند رکھتے تھے۔ (خزائن العرفان ص۷۶۲)

    مُشرِکینِ عرب اُونچا بولنے کو فخر سمجھتے تھے

    حضرتِ علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ لکھتے ہیں:جب لوگ آپس میں گفتگو کریں تو ان میں سب سے زیادہ بُری اور وحشت ناک(یعنی نفرت دلانے والی) آوازاُس کی ہے جو گدھے کی طرح اُونچی آواز سے بولتا ہے۔ مشرکین عرب اونچا بولنے کو فخر سمجھتے تھے ،اس آیت میں ان کے اس فخریہ طریقے کا رد فرمایا گیا ۔
    (روح البیان ج۷ ص۸۷ سے خلاصہ)  

    گدھا کیوں بولتا ہے؟

    گدھے کی آواز کا تذکرہ ہو رہا ہے تو اس بارے میں ایک معلوماتی روایت پیش کی جاتی ہے۔ چنانچِہ فرمانِ مصطفی صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: ’’جب تم مُرغ کی اذان سنو تو اللہ پاک سے فضل کی دعا کروکیونکہ وہ فرشتے کو دیکھتا ہے۔اور جب تم گدھے کا رَینکنا(یعنی بولنا) سنو تو شیطان سے اللہ پاک کی پناہ مانگو کیوں کہ وہ شیطان کو دیکھتا ہے۔‘‘(بخاری ج۲ص۴۰۵ حدیث۳۳۰۳) مثلاً یوں کہئے: اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم۔
    (تیسیر شرح جامعِ صغیر ج۱ص۱۰۷)

    زور سے چھینکنا بھی مکروہ ہے

    حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ اوپر بیان کی ہوئی آیت مبارکہ کے تعلق سے مزید لکھتے ہیں: اس سے چھینک کا مسئلہ (مَسْ۔اَ۔لہ) بھی واضح (یعنی ظاہر) ہو گیا کہ زور سے چھینکنا مکروہ(یعنی ناپسندیدہ)ہے ،اسی لئے حکم ہے کہ جتنا ممکن ہو آہستہ آواز سے چھینکنے کی کوشش کرے ۔(روح البیان ج۷ ص۸۸ ملخّصًا) فرمانِ مصطفی صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ: ’’زور سے چھینکنا شیطان کی طرف سے ہے ۔ ‘‘ (عمل الیوم وَاللیۃ ص۱۱۹حدیث ۲۶۵) سرکارِدو عالم صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجِد میں زور کی چھینک کو نا پسند فرماتے۔(شعب الایمان ج۷ص۳۲ حدیث۹۳۵۶)حضرت علامہ عبد ُالرَّء ُ وْف مُناوی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ اِس حدیث پاک کے بارے میں فرماتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ مسجد میں زور سے چھینکنا زیادہ مکروہ(یعنی سخت ناپسندیدہ) ہے اور مسجد کے علاوہ کم۔
    (فیض القدیرج۵ص۳۱۱ تحت الحدیث ۷۱۵۶)

    ملنے والے کی طرف چہرہ رکھئے

    پارہ  21سورۃ لقمٰن   آیت18میں ارشاد الٰہی ہے: وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّكَ لِلنَّاسِ   آسان ترجمۂٔ قرآن کنزُالعرفان:’’اور لوگوں سے بات کرتے وقت اپنا رخسار ٹیڑھا نہ کر۔‘‘ حضرت علامہ سیدنعیم الدین مرادآبادی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ اس مبارک آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: جب آدمی بات کریں تو انہیں (یعنی جس سے بات کر رہے ہیں ان کو) حقیر جان کر ان کی طرف سے رُ خ پھیرنا، جیسا متکبرین (یعنی مغروروں) کا طریقہ ہے، اختیار نہ کرنا ، غنی و فقیر(یعنی امیر وغریب) سب کے ساتھ بتواضع (یعنی عاجزی سے) پیش آنا۔ (خزائن العرفان ص۷۶۱)
    حضرت علامہ اسماعیل حقی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ تفسیر روحُ البیان میں لکھتے ہیں کہ سلام وکلام اورملاقا ت کے وقت بطورِ تواضع(یعنی عاجزی کے طور پر) اپنا پورا چہرہ لوگوں کے سامنے لائیے، ان سے چہرہ نہ ہٹائیے اور نہ اس کا کچھ حصہ چھپائیے، متکبرین کی عادت ہوتی ہے کہ لوگوں کو ایسے ہی حقار ت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور فقراو مساکین کو غصے سے دیکھتے ہیں، بلکہ تمہارے ہاں امیر و غریب دونوں اچّھے سُلوک کے معاملے میں برابر ہوں۔(روح البیان ج۷ص۸۴)
    بازاری انداز میں چلا چلا کر باتیں کرنے سے بچنا چاہئے کہ رسولِ پاک صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کبھی بھی اِس طرح باتیں نہیں کرتے تھے۔ آپ  صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی گفتگو شریف میں آوازنہ زیادہ بُلند ہوتی، نہ اتنی دِھیمی کہ سامنے والے کو سننے میں دشواری پیش آئے۔

    سرکار صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی مبارک گفتگو آسان ہوتی

    اُمُّ المؤمنین (یعنی تمام مسلمانوں کی ماں) حضرت بی بی عائشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ  عَنْہَا فرماتی ہیں کہ سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ صاف صاف گفتگو فرماتے ، ہر سننے والا اُسے سمجھ لیتا تھا۔(ابوداوٗد ج۴ ص۳۴۳ حدیث ۴۸۳۹)

    سرکار صلّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم بات تین بار دہراتے

    خادِمُ النبی، حضرت سیِّدُنا اَنَس رَضِیَ اللہُ  عَنْہُ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب کوئی بات فرماتے تو اس کو تین مرتبہ دُہراتے تاکہ اسے سمجھ لیا جائے ۔ (بخاری ج۱ ص۵۲ حدیث۹۵)
    شَرحِ حدیث:’’مِرآت شریف‘‘ میں ہے :یعنی مسائل بیان کرتے وقت ایک ایک مسئلہ تین تین بار فرماتے تاکہ لوگوں کے ذہن میں اُتر جائے،(یہاں) ہر کلام(تین بار دُہرانا ) مراد نہیں۔ (مرآت ج۱ص۱۹۴)

    گفتگوئے مصطَفٰے

     صِراطُ الجنان جلد7صفحہ 502پر ہے:سیرت کی کتابوں میں مذکور (یعنی بیان کیا گیا ) ہے کہ حضور پُر نور صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہت تیزی کے ساتھ جلدی جلدی گفتگو نہیں فرماتے تھے بلکہ ٹھہر ٹھہر کر کلام(یعنی بات چیت) فرماتے تھے اور آپ کا کلام اتنا صاف اور واضح ہوتا تھا کہ سننے والے اس کو سمجھ کر یاد کر لیتے تھے اوراگر کوئی اہم بات ہوتی تو اس جملے کو کبھی کبھی تین تین مرتبہ فرما دیتے تاکہ سننے والے اس کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں۔ آپ صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بلا ضرورت گفتگو نہیں فرماتے تھے بلکہ اکثر خاموش ہی رہتے تھے۔ آپ صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ’’جامِع کلمات‘‘ کا معجزہ عطا کیا گیا تھا کہ مختصر سے جملے میں لمبی چوڑی بات کو بیان فرما دیا کرتے تھے۔

    مُشکل زبان بولنے والا وزیر(چٹکلا)

    بولنے میں الفاظ سادہ اورصاف صاف ہونے چاہئیں ، مشکل الفاظ استعمال کرنے میں ہو سکتا ہے کہ اگلے پر آپ کی ’’زَبان دانی‘‘ کی دھاک تو بیٹھ جائے مگرآپ کہنا کیا چاہ رہے ہیں وہ اُس کی سمجھ میں نہ آئے ۔میری اِس بات کو اِس ’’فرضی چٹکلے‘‘ سے سمجھنے کی کوشش کیجئے: ایک بار وزیرِ زَراعت و آ ب پاشی(یعنی MINISTER FOR IRRIGARION) ایک گاؤں کے دورے(یعنیVISIT) پر تھے ، کسانوں کا ایک وفد (یعنیDELEGATION) ملنے آیا ،ان لوگوں نے وزیر سے اجازت لینے کے لئے ایک کسان کو اندربھیجا ، وزیر صاحِب نے سر اٹھا کر دیکھا اور پوچھا :’’ تمہاری کشت زار پر اِمسال تقاطر اَمطَارہُوا یا نہیں؟‘‘ اَن پڑھ کسان (FARMER)  نے جب یہ جُملہ سنا تو فوراًباہر نکل آیا اور ساتھیوں سے کہنے لگا : ’’وزیر صاحِب تلاوت فرما رہے ہیں ۔‘‘ 
    اے عاشقانِ رسول!  وزیر صاحب اگرمشکل زَبان نہ بولتے تو کسان پریشان نہ ہوتا ، حالانکہ وہ تلاوت نہیں تھی ، بات ذرا بنا سجا کر پیش کی گئی تھی، وزیر کے جملے کا معنٰی ہے:’’ تمہارے کھیت پر اس سال بارش ہوئی یا نہیں ؟‘‘ لہٰذا جب بھی کسی سے بات چیت کریں یا تقریر وبیان فرمائیں یا مضمون و کتاب وغیرہ لکھنے کی ترکیب کریں تو سننے پڑھنے والوں کی سمجھ میں آسکیں ایسے الفاظ استعمال کرنے کی کوشش فرمائیں۔

    سب سے زیادہ جہنَّم میں لے جانے والی دو چیزیں

     پیارے پیارے اسلامی بھائیو!زَبان کو قابو میں رکھنا بہت ضروری ہے، بے شمار لوگ ایسے بھی ہوں گے جو صرف زَبان کی وجہ سے جہنَّم میں داخل ہوں گے، حضرت سیِّدُناابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ  عَنْہُ فرماتے ہیں: سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے پوچھا گیا کون سا عمل لوگوں کو کثرت سے جنت میں داخل کرے گا؟ آپ صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: وہ تقویٰ اوراچھا اَخلاق ہے۔ اور پوچھا گیا: کیا چیز لوگوں کو کثرت سے جہنم میں داخل کرے گی؟ فرمایا: ’’دو چیزیں : منہ اور شرم گاہ۔‘‘ (ابن ماجہ ج۴ ص۴۸۹ حدیث ۴۲۴۶)

    وہ جنَّتی ہے،کون؟

    حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ  عَنْہُ سے روایت ہے کہ مکی مَدَنی آقا صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’اللہ  پاک نے جس کو جبڑوں کے درمیان اور ٹانگوں کے درمیان والی چیزوں(یعنی منہ اور شرم گاہ ) کی برائی سے بچا لیا وہ جنت میں داخل ہو گا ۔‘‘ (ترمذی ج۴ ص۱۸۴حدیث ۲۴۱۷)

    جنَّت کی ضَمانت

    جو اپنے منہ اور شرم گاہ کی حفاظت کرے یعنی اُن کا خلافِ شریعت استعمال نہ کرے وہ جنَّتی ہے۔ چنانچِہ صحابیِ رسول،حضرت سیِّدُنا  سہل بن سعد رَضِیَ اللہُ  عَنْہُ کا کہنا ہے، سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’جو مجھے اپنے جبڑوں اور ٹانگوں کے درمیان والی چیزوں(یعنی منہ اور شرم گاہ) کی ضمانت (GUARANTEE) دے میں اُسے جنت کی ضمانت (یعنی گارنٹی )دیتا ہوں ۔ ‘‘(بخاری ج۴ص۲۴۰ حدیث ۶۴۷۴)یعنی منہ اور شرم گاہ کو شریعت کی منع کی ہوئی چیزوں سے بچانے پر جنت کا وعدہ ہے۔

    %80گناہ زَبان سے ہوتے ہیں

    دو جبڑوں کے درمیان کی چیز زَبان اور تالو وغیرہ ہے اور دوپائوں کے بیچ کی چیز شرم گاہ ہے یعنی اپنی زَبان کو جھوٹ غیبت ناجائز باتیں کرنے سے بچائے، اپنے منہ کو حرام غذا سے محفوظ رکھے، اپنی شرم گاہ کو بدکاری کے قریب نہ جانے دے۔ ظاہر بات ہے کہ ایسا مسلمان متقی(یعنی پرہیزگار) ہوگا۔ خیال رہے کہ تقریباً اسّی(80) فی صد ی(یعنی زیادہ تر) گناہ زَبان سے ہوتے ہیں۔ جو اپنی زَبان کی حفاظت کرے تو وہ چوری ڈکیتی قتل بھی نہیں کرتا ، انسان جُرم جب ہی کرتا ہے جب و ہ جھوٹ بولنے پر آمادہ(یعنی تیّار) ہوجائے کہ اگر پکڑا گیا تو میں انکار کردوں گا۔ جھوٹ تمام گناہوں کی جڑ ہے۔ خیال رہے کہ حضور(صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی یہ ضمانت (یعنی گارنٹی) تاقیامت انسانوں کے لیے ہے اور حضور (صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی ضَمانت خدا کی ضمانت(یعنی گارنٹی) ہے۔  
    (مِرآ ت ج۶ ص ۴۴۷بتغیّر)

    زَبان سے تمام اعضا کی التِجا

    صحابیِ نبی حضرتِ سیِّدُناابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ  عَنْہُ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’جب انسان صبح کرتا ہے تو اس کے اعضا (یعنی بدن کے حصے) جھک کر زَبان سے کہتے ہیں: ہمارے بارے میں اللہ  پاک سے ڈر ! کیونکہ ہم تجھ سے متعلق ہیں، اگر تو سیدھی رہے گی ، ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگی ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔‘‘(ترمذی ج ۴ ص۱۸۳حدیث ۲۴۱۵)

    اجتماعی اعتِکاف اِصلاح کا ذریعہ بن گیا

    پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اگر ہم نے زَبان کا صحیح استعمال کیا تو اس کا جو کچھ فائدہ ہوگا وہ جسم کے سارے اعضا (PARTS)پائیں گے اور اگر یہ سیدھی نہ چلی کسی کو گالی وغیرہ دے دی تو زَبان کو کوئی تکلیف ہو یا نہ ہو پٹائی بدن کے دیگر اعضا (یعنی حصّوں)کی ہو گی ۔زَبان کی احتیاط کا ذہن بنانے کیلئے دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے ہر دم وابستہ رہئے اللہ  کریم توفیق دے توماہِ رَمضانُ المبارَک میں دعوتِ اسلامی والے عاشِقانِ رسول کے ساتھ اعتکاف کی سعادت حاصِل کیجئے سُبْحٰنَ اللہِ!اعتکاف کی بھی کیا خوب برکتیں ہیں! آیئے! ایک ’’مَدَنی بہار‘‘ آپ کے گوش گزار کروں۔ ضلع منڈی بہاؤ الدین(پنجاب) کے ایک اسلامی بھائی کی بیان کردہ تفصیلات کے مطابق وہ دعوت اسلامی کے دینی ماحول میں آنے سے پہلے مَعَاذَ اللہ نشا کیا کرتے تھے، شراب اور چرس کی ایسی لت لگ چکی تھی کہ نشا آور چیزیں خریدنے کے لئے چوری اور ڈکیتی بھی شروع کردی تھی جس کی وجہ سے ان کے گھر، بلکہ علاقے والے بھی پریشان تھے۔ ان کا سدھرنے کی منزل کی طرف سفر اس طرح شروع ہوا کہ انہیں رمضان کے برکت والے مہینے میں دعوتِ اسلامی کے عاشقانِ رسول کے ساتھ سنّتِ اعتکاف کی سعادت حاصل ہوگئی، اعتکاف میں اچھی صحبت بھی ملی اور کتاب ’’فیضانِ سنت‘‘ کا مطالعہ بھی کرتے رہے۔ کچھ عرصے بعد انہیں ’’منڈی بہاؤ الدین‘‘ میں قائم دعوتِ اسلامی کے مَدَنی مرکز ’’فیضانِ مدینہ‘‘ میں ہونے والے ہفتہ وار اجتماع میں شرکت کا موقع ملا جہاں اسلامی حلیے میں موجود عاشِقانِ رسول کی کثیر تعداد دیکھ کر دل کی حالت بدلنے لگی۔ایک ہفتے بعد مقررہ وقت پر یہ پھر ہفتہ وار اجتماع میں پہنچ گئے اور بیان سننے لگے، بیان میں کچھ ایسا اثر تھاکہ ان کے دل کی دنیا زیر و زبر ہوگئی اور یہ اپنے گناہوں سے توبہ کرکے ہی گھر لوٹے۔ وہ نہ صرف پانچ وقت کی فرض نمازوں کی پابندی کرنے لگے بلکہ ان کے چہرے پر ایک مٹھی داڑھی بھی سج گئی اور ان کا لباس بھی سنتوں کے سانچے میں ڈھل گیا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ  الکریم انہیں دعوتِ اسلامی کے مدنی قافلموں یں عاشقانِ رسول کے ساتھ سفر کر کے نیکی کی دعوت کی دھومیں مچانے کا موقع بھی ملا ۔  
    اِنْ شَآءَاللہ  بھائی سُدھر جائو گے،                                                               مَدنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف
    مرضِ عصیاں سے چھٹکارا تم پائو گے،                                                                           مَدنی ماحول میں کر لو تم اعتکاف
    (وسائلِ بخشش ص۶۴۴)
    صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب!                                                                                              صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد 

    آر پار نظر آنے والے اونچے اونچے جنّتی مکانات

    مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ، حضرت سیِّدُنا مولیٰ علی شیر خدا رَضِیَ اللہُ  عَنْہُ سے روایت ہے ،حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : جنت میں ایسے بالا خانے (یعنی اونچے اونچے مکانات) ہیں جن کے باہَری حصے اندر سے اور اندر کے حصے باہَر سے نظر آتے ہیں ۔ ایک اعرابی (یعنی گائوں کے رہنے والے صاحب) نے عرض کیا: یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!یہ کس کے لئے ہوں گے؟ آپ صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ جو اچھی گفتگو کرے، کھانا کھلائے ، ہمیشہ روزے رکھے اور رات کو نماز ادا کرے جب لوگ سوئے ہوئے ہوں۔‘‘ (ترمذی ج۳ ص۳۹۶حدیث۱۹۹۱)

    اچّھی بات صَدَقہ ہے

    اچھی بات کرنا چپ رہنے سے افضل ہے اورچپ رہنا فضول بات کہنے سے افضل جب کہ بُری بات کہنا تو بُرا ہی بُرا ہے اور اچھی بات صَدَقہ ہے، حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ  عَنْہُ بیان کرتے ہیں، حضور نبیِ کریم صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ اچھی بات صَدَقہ ہے۔‘‘ (بخاری ج۲ ص۳۰۶ حدیث ۲۹۸۹)

    صَدَقہ یعنی؟

    یہاں’’ صدقے‘‘ سے مراد’’ صدقے کا ثواب مِلنا‘‘ ہے۔ فرمانِ مصطفی  صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ:ہر بھلائی صَدَقہ ہے ۔(بخاری ج۴ص۱۰۵ حدیث ۶۰۲۱)شرحِ حدیث:یعنی صَدَقہ صرف مال ہی سے نہیں ہوتا بلکہ ہر معمولی (یعنی چھوٹی سے چھوٹی)نیکی(بھی) اگر اخلاص سے کی جائے تو اُس پر صَدَقے کا ثواب ملتا ہے حتّٰی کہ مسلمان بھائی سے میٹھی اور نرم باتیں کرنا بھی صَدَقہ ہے۔ (مراٰت ج۳ص۹۵)

    نیکی کی دعوت فوراً دیجئے

    ایسی کوئی بھی فائدہ مند بات ترک نہ کرے( یعنی ادھوری نہ چھوڑے) جس کے متعلق جانتاہوکہ حاضرین اُس کیلئے دوسری مجلس(یعنی نشست) کے محتاج(یعنی ضرورت مند) ہوں گے (الغرض فوراً پوری بات بتا دے، یہ نہ کہے کہ باقی آئندہ بتائوں گا) کیونکہ (بتانے والے کا اور جس کو بتانا ہے اُس کے ) دوسری مجلس تک زندہ رہنے کا کوئی بھروسا نہیں۔ (اصلاحِ اعمال ص۳۶۰  ،الحدیقۃ الندیۃ ج۱ص۹۵)

    سرکار صلّی  اللہ علیہ واٰلہٖ وسلّم کے قریب اچّھے اَخلاق والے ہوں گے

    صحابیِ رسول حضرتِ سیدنا جابر رَضِیَ اللہُ  عَنْہُ بیان کرتے ہیں کہ مکی مَدَنی آقا صَلَّی اللہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’بیشک تم میں سے مجھے سب سے زیادہ پیارے اور قیامت کے دن میرے نزدیک تر وہ لوگ ہو ں گے جو تم میں سے زیادہ اچھے اَخلاق والے ہیں۔ اور تم میںسے مجھے سب سے زیادہ ناپسند اور قیامت کے دن مجھ سے زیادہ دور وہ لوگ ہو ںگے جو برے اخلاق والے ہیں، جو زیادہ باتیں کرنے والے منہ پھٹ، باچھیں کھول کر اور منہ بھر کر باتیں کرنے والے ہیں۔ ‘‘ 
         (شعب الایمان ج ۶ ص ۲۳۴ حدیث ۷۹۸۹)

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن