30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
’’مَدَنی اِنعامات‘‘ پر عَمَل کا ذوق و شوق بڑھانے والے 455 صفحات پر مشتمل 18 بیانات کا حسین مجموعہ گلدستۂ مَدَنی اِنعامات پیش کش: مجلس اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَہ (دعوت اسلامی) ناشر: مکتبۃ المدینہ (کراچی) اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَاَصْحٰبِکَ یَا حَبِیْبَ اللہ نام کتاب: گلدستۂ مدنی انعامات پیش کش: مجلس اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَہ (دعوت اسلامی) صفحات: پہلی بار: ناشر: مکتبۃ المدینہ (کراچی) Email: ilmia@dawateislami.net www.dawateislami.net اِلتِجا: کسی اور کو یہ کتاب چھاپنےکی اجازت نہیں(1)فیضان نیّت
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْن وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْن اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَا حَبِیْبَ اللہ اَلصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا نَبِیَّ اللہ وَعَلٰی اٰلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَا نُوْرَ اللہ نَوَیْتُ سُنَّتَ الْاِعْتِکَاف پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! جب کبھی داخل مسجد ہوں یاد آنے پر اعتکاف کی نیت کر لیا کریں ، کہ جب تک مسجد میں رہیں گے اعتکاف کا ثواب ملتا رہے گا ۔ یہ بھی یاد رکھئے کہ مسجد کے اندر کھانے ، پینے ، سحری ، افطاری کرنے یہاں تک کہ آب زم زم یا دم کیا ہوا پانی پینے کی بھی شرعا اجازت نہیں ہے ۔ لیکن اگر اعتکاف کی نیت کی ہوگی تو یہ ساری چیزیں ضمنا جائز ہوجائیں گی ۔ لیکن اعتکاف کی نیت صرف کھانے ، پینے یا سونے کے لئے نہ کی جائے بلکہ ثواب کے لئے کی جائے ۔دُرود شریف کی فضیلت
حضرتِ سیِّدُناابوحفْص رُومی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بہت بڑے سردار تھے،ان کی وفات کے بعد کسی نے انہیں خواب میں دیکھ کرپوچھا :’’ مَافَعَلَ اللہُ بِکَ ‘‘ یعنی اللہ پاک نےآپ کے ساتھ کیا معاملہ فرمایا؟اُنہوں نے جواب دیا کہ اللہ پاک نےمجھ پر رحم فرمایا ، میری مغفرت فرمادی اور مجھے جنت میں داخل فرمایا۔پوچھا گیا:کس عمل کے سبب؟جواب دیاکہ جب میں اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضر ہواتو اللہ پاک نے فرشتوں سے میرے گناہوں اور میرے پڑھے گئے درود کا حساب لگانے کا حکم دیا ،جب حساب لگایا گیا تو میرے دُرود میرے گناہوں سے زیادہ نکلے۔تو اللہ پاک نےارشاد فرمایا :اے میرے فرشتوں: اس کی قدرومنزلت تمہارے لئےواضح ہوگئی ہے، لہذااس سے مزید حساب مت لو !اور اِسے جنت میں لے جاؤ۔(1) درود ان پہ بھیجو سلام ان پہ بھیجو یہی مومنوں سے خدا چاہتا ہے اگر کوئی اپنا بھلا چاہتا ہے اسے چاہے جس کو خدا چاہتا ہے صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے: نِیّۃُ الْمُؤمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ ۔ یعنی مسلمان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے ۔ ( معجم کبیر، ۶ / ۱۸۵ ،حدیث: ۵۹۴۲) 1 اہم نکتہ : جتنی اچھی نیتیں زیادہ اتنا ثواب بھی زیادہ ۔ پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! آئیے! اللہ پاک کی رِضا پانے اور ثواب کمانے کے لئے بیان سننے سے پہلے اچھی اچھی نیتیں کرلیتے ہیں ۔بیان سننے کی نیتیں
*…نگاہیں نیچی کئے خوب کان لگا کر بیان سنوں گا*…ٹیک لگا کر بیٹھنے کے بجائے عِلْمِ دین کی تعظیم کی خاطِر جہاں تک ہو سکا دو زانو بیٹھوں گا*…ضَرورَتاً سِمَٹ سَرَک کر دوسرے کے لئے جگہ کشادہ کروں گا*…دَھکَّا وغیرہ لگا تو صبرکروں گا*… گھورنے،جِھڑکنے اوراُلجھنے سے بچوں گا*…’’ صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبِ ‘‘’’ اُذْکُرُوا اللّٰـہ ‘‘ ’’ تُوبُوْا اِلَی اللّٰـہ ‘‘وغیرہ سُن کر ثواب کمانے اور صدا لگانے والوں کی دل جوئی کے لئے بلند آواز سے جواب دوں گا *… بیان کے بعد خود آگے بڑھ کر سلام و مُصَافَحہ اور اِنْفرادی کوشش کروں گا۔ صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدبُری نیّت وبال جان بن گئی
مروی ہے کہ ایک مرتبہ عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور نے لوگوں کو خطبہ دینا شرو ع کیاتوزور زور سے رونے لگا ۔اسی دوران ایک شخص نے کھڑے ہو کر بڑے جرأت مندانہ انداز میں کہا :’’اے نصیحت کرنے والے! توایسی باتوں کی نصیحت کررہا ہے جن پرتُو خود عمل نہیں کرتا اور ایسی با تو ں سے لوگو ں کو منع کر رہاہے جن سے تُوخود نہیں بچتا ، پہلے تُو اپنی اصلاح کر، پھر دو سروں کو نصیحت کرنا‘‘۔خلیفہ یہ گفتگو سن کر خاموش ہوگیااور اپنے مشیر خاص سے کہا : اس شخص کو یہاں سے لے جاؤ! اس کے بعدخلیفہ نے دو بارہ خطبہ شروع کردیا ۔ نماز ختم کر کےاپنے محل کی طرف آیا اوراپنے مشیر خاص کو بلا کر اس سے پوچھا: وہ شخص کہا ں ہے ؟عرض کی: اس کو قید میں ڈال دیا گیا ہے۔خلیفہ نے کہا: اس کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ! پھر اُسے مال ودولت کا لالچ دو! اگر وہ شخص مال ودولت کی طرف تو جہ نہ دے تویقیناًاُس نے اِصلاح کی نیت سے مجھے دوران خطبہ ٹو کا ہوگا اور اگر مال ودولت کی طرف راغب ہو تو پھروہ دنیا وی مال کاحریص ہے۔ جاؤ جاکر اسے آزماؤ!چنانچہ مُشیر گیا اور اس شخص کو اپنے گھر ناشتے کی دعوت دی ۔جب وہ وہاں پہنچا تو مشیر نے اُس سے پوچھا : تجھےخلیفہ کے سامنے اس طرح گفتگو کرنے پر کس چیز نے اُبھارا ؟کہا: یہ مجھ پر اللہ پاک کی جانب سے حق تھا جسے میں نے ادا کیا۔یہ سن کر مشیر نے کہا : اچھا! اب کھانا کھا لو وہ بولا:مجھے حاجت نہیں ، مشیر بولا: اگر تمہاری نیت اچھی تھی توکھانے میں کیا حرج ہے؟ اب وہ شخص کھانے کے قریب ہوا اور خوب سیر ہوکر کھایااسکے بعد مشیر نے اسے بھیج دیا ۔ کچھ دنوں بعد دوبارہ مشیر نے اسے اپنے پاس بلایا اور کہا:خلیفہ تمہارے معاملے کو بھول چکاہے اور تم ابھی تک قید میں ہو۔ اگر تم چاہو تو میں تمہیں ایک لونڈی دے دو ں جو تمہاری خدمت کرے ۔وہ بولا: اگر ایسا ہوجائے تو آپ کی مہربانی ہوگی ۔اس کے بعد مشیر نے اس سے کہا :جب تک تمہیں خلیفہ اپنے دربا ر میں بلاکر کوئی فیصلہ نہیں کرتا ،تب تک اگر تم چاہوتو میں تمہارے اور تمہارے گھر والوں کے پہننے کے لئے کچھ کپڑوں کااور روز مرہ کے خرچ کا انتظام کردوں ؟ تووہ لالچی شخص کہنے لگا:یہ تو آپ کابڑا احسان ہوگا۔اس کے بعد دن گز رتے رہے۔ ایک دن مُشیر اس شخص کے پاس آیا اور کہا: اگر تم چاہو تو ایک ایسی راہ بتاؤں جس کے ذریعے تم خلیفہ کا قُرب حاصل کر سکو؟اس نے کہا : بتاؤوہ کون سا طریقہ ہے جس کے ذریعے مجھے دربار ِشاہی میں کوئی مقام مل جائے ۔مشیر نے کہا : مَیں تمہیں مُحتسِب مقرر کرتا ہوں، لوگوں کو ناجائز اُمور سے روکو اور اچھی باتوں کا حکم دو۔ یہ سن کر اس لالچی شخص کی خوشی کی اِنتہانہ رہی۔ اسی طرح تقریبا ًایک مہینہ گزرگیا ۔اس کے بعد مشیر خلیفہ کے پاس آیا اور کہا:حضور! میں نے اس شخص کو خوب آزما لیا ہے،اب اس کی حالت یہ ہے کہ وہ خوب عیش وعشرت کی زندگی گزار رہا ہے پھر اسے سر کاری عہدے کی پیشکش کی تو اس نے وہ بھی قبول کر لی ہے ۔ اگر آپ پسند فرمائیں تو اسے آپ کے دربار میں حاضر کروں۔ خلیفہ نے اجازت دیدی ۔ مشیر اس شخص کے پاس پہنچا اور کہا: خلیفہ تم سے ملاقات کرنا چاہتا ہے تم اس کے دربار میں حاضر ہوجاؤ جیسا لباس تم کہو گے تمہیں مہیا کر دیا جائے گا۔چنانچہ اس نے ایک بہترین جبہ پہنا ، خنجرلیا ، گلے میں تلوار لٹکائی اور بڑی مغرور انہ چال چلتے ہوئے دربار کی طرف روانہ ہوا۔ اس کے بال اتنے بڑے تھے کہ کندھوں سے نیچے آرہے تھے۔ دربارمیں پہنچ کر بڑے ادب سے اس نے خلیفہ کو سلام کیا ۔خلیفہ نے جواب دیا اور کہا :کیا تُو وہی شخص ہے جس نے بھرے مجمع میں بڑے سخت کلمات کے ساتھ مجھے نصیحت کی تھی؟اس نے کہا :ہا ں، میں وہی شخص ہو ں ۔خلیفہ نے کہا : اب تجھے کیا ہو گیاہے ؟ تو وہ بولا:اے مہربان خلیفہ! اس واقعہ کے بعد میں نے غورو فکر کیا تو مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا ،یہ سن کر خلیفہ نے کہا:تجھ پر افسوس ہے، تُو اپنے مؤقف سے پھر گیا حالانکہ تُو نے بالکل حق بات کی تھی لیکن تُو اپنی نیت میں مخلص نہ تھا، تیراغصہ اللہ پاک کی رضا کی خاطر نہ تھا۔ میں نے اس وقت یہ سوچ کر تجھے سزا نہیں دی تھی کہ میں سمجھا تھا کہ تیراغضب وغصہ اللہ پاک کی خاطر ہے ۔اب میں تجھے درد ناک سزادوں گا اور تجھے عبرت کا نشان بنادو ں گا تا کہ لوگ تجھ سے عبرت پکڑیں ۔ اس کے بعد خلیفہ نے مشیر کو حکم دیا کہ اس کا سرقلم کردیا جائے، چنانچہ اس لالچی کا سر تن سے جداکردیا گیا۔ (2) صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد پیارے پیارےاسلامی بھائیو ! دیکھا آپ نے ! اچھی نصیحت چونکہ بری نیت سے تھی اس لئے وبال جان بَن گئی اور بالآخر وہ لالچی شخص اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اگر ہم صحیح معنوں میں غور کریں تو معلوم ہوگا کہ جیسی ہماری نیت ہوتی ہے ویسا ہی ہمیں نتیجہ ملتا ہے ، اگر نیت اچھی ہوتی ہے تو نتیجہ بھی اچھا ملتا ہے ، اور اگر نیت بری ہوتی ہے تو اس کا نتیجہ بھی برا ہی ہوتا ہے ۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ نیت کی اہمیت کو سمجھا جائے اور اس کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہر جائز کام اچھی نیت سے کیا جائے تاکہ ہمیں نتیجہ بھی اچھا ملے اور ہم ثواب کے بھی حقدار ٹھہریں ۔ آئیے نیت کی اہمیت کے پیش نظر دو فرامینِ مصطفےٰ سنتے ہیں ۔ چنانچہ(1)اعمال کا مدار
سرکار مدینہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے: ’’ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّات ‘‘ یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں ہے ۔ (3) حکیم ُالاُمّت مفتی احمد یار خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس حدیث کے تحت فرماتے ہیں : کوئی عمل اخلاص کے بغیر ثواب کا باعث نہیں،خواہ عباداتِ مَحْضَہ (یعنی خالص عبادات) ہوں، جیسے: نماز، روزہ وغیرہ۔ یا عباداتِ غیرِ مقصودہ، جیسے: وضو، غسل،کپڑا،جگہ،بدن کا پاک کرنا وغیرہ ،کہ ان پر ثواب اخلاص سے ہی ملے گا۔ (4)(2)نیت عمل سے بہتر
سرکار دو عالم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کا فرمان عظمت نشان ہے: ’’ نِیَّۃُ الْمُوْمِنِ خَیْرٌ مِّنْ عَمَلِہٖ ‘‘ یعنی مسلمان کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے۔ (5)نیت کے عمل سے بہتر ہونے کی وجوہات
اعلیٰ حضرت کے والدِ گرامی حضرت مولانا مفتی نقی علی خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنی کتاب’’ انوارمصطفیٰ‘‘ میں نیت کی اہمیّت کے بارے جو فرمایا، اُس کا خلاصہ ہے : ارادے و نىت کو عمل پر کئى وجہ سے فضیلت ہے:۔(1)اول :نىت برباد ہونے سے محفوظ ہے جبکہ عمل کسی شرعی غلطی کی بنا پر ضائع بھی ہوسکتا ہے ۔ (2)دُوُم :نىت بغیرعمل کےعبادت ہے جبکہ عمل بغیرنیت کے ثواب نہیں ملتا ۔اِسى لئے علما کہتے ہىں: پہلے نىت سىکھ !پھر عمل کر !(3) سِوُم : دل کی صفائی اور پاکیزگی کےلئے عمل کیا جاتا ہے جبکہ عمل کی پاکیزگی کے لئے نیت نہیں کی جاتی ،پس عمل نىت کے واسطے کرتے ہىں کہ بدن کى مدد سے دل کے افعال درست اورمضبوط ہوجاتے ہیں ، حضرتِ عزّت (یعنی اللہ پاک) دل کو دىکھتا ہے جَوارح یعنی اعضا پر توجہ نہىں فرماتا ۔ (4) چہارم: رِیاکاری کو عمل مىں مداخلت ہے ،اور نىت مىں اصلاً یعنی بالکل رِیا کاری کا دخل نہىں لہٰذا مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہے ۔ (6) اچھی اچھی نیتوں کا ، ہو خدا جذبہ عطا بندۂ مخلص بنا ، کر عفو میری ہر خطا صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ در اصل نیت ہی عمل کی بنیاد ہوتی ہے ، جیسی نیت ہوتی ہے ویسا ہی صلہ دیا جاتا ہے ، نیز آپ نے یہ بھی سنا کہ مومن کی نیت اس کے عمل سے بہتر ہوتی ہے ۔ بزرگان دین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْھِمْ نیت کی اہمیت کے پیش نظر اپنے چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں بھی بہت احتیاط کرتے تھے اور ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ان کا کوئی بھی کام نیت کے بغیر نہ ہو ، تاکہ ان کا ثواب کا میٹر چلتا رہے ، آئیے ایسے ہی بزرگوں کے چند واقعات سنتے ہیں تاکہ ہمیں بھی مزید ترغیب ملے ۔ چنانچہ(1)چہل قدمی کے لئے بھی نیت
مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرتِ سیِّدُنا یحییٰ بن یحییٰ نِیشاپُوری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے دوا پی تو آپ کی زوجہ نے عرض کی : اگر آپ گھر میں تھوڑی چہل قدمی کرلیں تاکہ دوا کا اثر اچھی طرح ہو تو بہتر ہوگا ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا : مجھے اس چلنے کے لئے کوئی نیت سمجھ نہیں آرہی ، اور میں تو 30 سال سے اپنا محاسبہ کر رہا ہوں ۔ (7) صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد(2)آئینہ دیکھنے کی بھی نیت کی
ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے اپنی زوجہ سے کنگھی لانے کوکہا ، وہ بالوں میں کنگھی کرنا چاہتے تھے ، تو زوجہ محترمہ نے عرض کی : آئینہ بھی لے آؤں ؟ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا : ہاں (وہ بھی لے آؤ) ۔ سکوت کی وجہ پوچھی گئی تو فرمایا : کنگھی کی تو میری نیت تھی ،لیکن آئینہ دیکھنے کی نہیں تھی ، اِس لئے میں نے غوروفکر کیا ، یہاں تک کہ اس کی نیت بھی اللہ پاک نے دل میں پیدا فرما دی ۔ (8)(3)نماز جنازہ کیوں نہ پڑھی ؟
منقول ہے کہ حضرتِ سیِّدُناامام محمد بن سِیْرین رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے حضرتِ سیِّدُنا امام حسن بَصْرِی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کی نمازِ جنازہ نہ پڑ ھی ،( پوچھنےپر)فرمایا: میرے دل میں نیت حاضر نہ تھی ۔ (9)(4)نیت ہوتی تو چلا جاتا
حضرتِ سیِّدُنا حمّادبن سلیمان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا انتقال ہوا جو عُلَمائے کوفہ میں سے تھے تو کسی نے حضرتِ سیِّدُناسُفیان ثَوری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے عرض کیا :آپ ان کے جنازے میں تشریف کیوں نہیں لے جاتے؟فرمایا:اگر میری نیت ہوتی تو ضرور جاتا۔ (10)(5)دعا کے لئے نیت حاضر نہیں
حضرتِ سیِّدُنا طاؤس رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے کسی نے عرض کی: ہمارے لئے دعا فرمادیں۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فرمایا:اِس وقت نیّت مُستَحضر نہیں جب حاضر ہوگی تو دعا کردوں گا۔ (11)(6)بغیر نیت حدیث بیان نہیں کرتے
حضرتِ سیِّدُنا طاؤس رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نیت کے بغیر حدیث بیان نہیں فرماتے تھے۔ آپ سے حدیث بیان کرنے کا کہا جاتا لیکن آپ بیان نہ کرتے اور بعض اوقات بغیر مطالبے کے حدیث بیان کرنا شروع کردیتے،آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ سے اس کا سبب پوچھا گیاتوفرمایا:کیا تم پسند کرتے ہو کہ میں بغیر نیت کے حدیث بیان کروں ؟ جب میری نیّت مُسْتَحْضَر ہوتی ہے تو میں حدیث بیان کردیتا ہوں۔ (12)(7)ایک مہینہ اور تیمارداری کی نیت
ایک بزرگ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں:میں ایک مہینے سے ایک شخص کی تیمار داری کے لئے نیّت تلاش کر رہا ہوں جو ابھی تک درست نہیں ہوئی۔ (13) صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد پیارے پیارے اسلامی بھائیو !جس طرح کسی چیز میں گُڑ شامل کیا جائے تو وہ میٹھی ہوجاتی ہے اور جتنا گُڑ ڈالتے جائیں اُتنی ہی مٹھاس بھی بڑھتی چلی جاتی ہے ، ٹھیک اسی طرح جب کوئی بھی جائز کام کرنے سے پہلے اچھی نیت کرلی جائے تو وہ کام ثواب والا ہوجاتا ہے ، اور اگر اس میں مزید نیتیں بھی بڑھالی جائیں تو ثواب بھی مزید بڑھ جاتا ہے ۔ چنانچہایک عبادت میں دس نیکیاں
والدِ اعلیٰ حضرت، مفتی نقی علی خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں :جو شخص علمِ نىت رکھتا ہے وہ اىک طاعت (یعنی عبادت)مىں دس ثواب حاصل کرسکتا ہے، مثلا اىک شخص مسجد مىں اعتکاف کرے اور (1)نىت کرے کہ ىہ خانۂ خدا ہے جو اس مىں آتا ہے گوىا خدا کا زائر ( یعنی اللہ پاک کا دیدارکرنے والا)ہے ، اور مَزُور (یعنی جس کی زیارت کی جائے اُس )پر حق ہے کہ اپنے زائر کا اکرام کرے۔(2)دوسرے انتظار نماز کى نىت کرے کہ منتظر ِنماز (یعنی نماز کا انتظار کرنے والا)نماز مىں ہے۔(3)تىسرے خیال کرے کہ ىہاں بىٹھنے سے اعضا گناہوں سے محفوظ رہىں گے۔(4) چوتھے اس جگہ دنىا سے بے شَغْلى حاصل ہوتى ہے ۔(5) پانچوىں نىت کرے کہ ىہاں بىٹھنے سے ذکر و فکر مىں مشغول رہوں گا۔(6) چھٹے مخلوق کے شر سے بچوں گا ۔ (7)ساتوىں نَہْىِ مُنْکَر (یعنی برائی سے منع)و اَمْر بالمَعْرُوف (یعنی بھلائی کا حکم)کروں گا۔ (8)آٹھوىں اوروں کو نماز کے مسئلے اور اس کے پڑھنے کى ترکىب سکھاؤں گا۔ (9) نوىں علما اور صُلَحا کى زىارت اور ان کى صحبت مىسر ہوگى۔ (10) دسوىں مىرے بىٹھنے سے اوروں کو بھى بىٹھنے کا شوق ہوگا۔ (14) ’’عالم نیت ‘‘اعلی حضرت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ نے فتاوی رضویہ شریف جلد نمبر 05صفحہ نمبر 673پر مسجد جانے کی 40نیتیں بیان فر مائی ہیں اور اس سے پہلے ارشاد فرمایا ہے : بیشک جو علم نیت جانتا ہے، ایک ایک فعل کو اپنے لئے کئی کئی نیتیں کرسکتا ہے ، مثلاً جب نماز کے لئے مسجد کو چلا اور یہی قصد (ارادہ)ہے کہ نماز پڑھوں گا تو بیشک اس کا یہ چلنا محمود ، ہر قدم پر ایک نیکی لکھیں گے اور دوسرے پر گناہ مَحْو کریں (یعنی مٹائیں)گے ، مگر عالم نیت اس ایک ہی فعل میں اتنی نیتیں کرسکتا ہے ۔ صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدنماز کی نیت سے مسجد چل کر آئے
حضرتِ سیِّدُنا فقیہ مَہْدی بن یحییٰ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : ایک دن میں صوفی بزرگ حضرتِ سیِّدُنا شیخ ابو عبداللہ محمد عَرَبی فِشْتالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کے ساتھ (مغربی شہر ’’فاس‘‘ کی ایک گھاٹی کی مشہور جامع) مسجد قَرَوِیِّین میں بیٹھا (علمی ودینی) گفتگو میں مشغول تھا کہ ہمیں مؤذِّن کے اذان دینے کی آواز آئی ، آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اٹھے اور مسجد سے باہر چلے گئے ، اور تھوڑی ہی دیر میں واپس آگئے ، میں نے عرض کیا : آپ باہر کیوں چلے گئے تھے ؟ کیونکہ آپ کو اگر کوئی حاجت ہوتی تو آپ بتاتے کہ فلاں حاجت کے لئے جارہے ہیں ۔ آپ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ خاموش رہے ، میں نے جب بہت اصرار کیا تو فرمانے لگے : تم سوال بہت کرتے ہو ؛ میں چند قدم چلنے کے لئے گیا تھا تاکہ اُس شخص کی مانند ہو جاؤں جو نماز پڑھنے کے لئے (چل کر) مسجد آتا ہے (اور یوں مجھے نماز کے لئے مسجد چل کر آنے کی فضیلت حاصل ہوجائے)، کیونکہ اس سے پہلے جو چل کر آیا تھا اُس کا مقصد تمہارے ساتھ بیٹھنا تھا ۔ (15) صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! دیکھا آپ نے ! کہ حضرتِ سیِّدُنا شیخ ابو عبد اللہ محمد عَرَبی فِشْتالی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ صرف اس نیت سے مسجد سے باہر تشریف لے گئے کہ دوبارہ مسجد نماز کے ارادے سے چل کر آئیں تاکہ نماز کے لئے مسجد چل کر آنے کی فضیلت انہیں حاصل ہوجائے ۔ آئیے اس ضمن میں ایک حدیث مبارکہ سنتے ہیں ۔ چنانچہہر قدم پر ایک درجہ بلند
حضرتِ سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے روایت ہے کہ رسولُ اﷲ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : مرد کاجماعت کے ساتھ نَماز ادا کرنا اس کے اپنے گھراور بازار میں نَماز ادا کرنے سے پچیس درجے افضل ہے ،اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ اچھے طریقے سے وضو کرتاہے پھر مسجد کی طرف نکلتاہے اور اس کی نیت صرف نَماز کی ہوتی ہے تواس کے ہر قدم پر اﷲ پاک اس کا ایک درجہ بلند فرماتاہے اور اس کی ایک خطا کو معاف فرمادیتاہے۔ جب وہ نَماز پڑھ لیتاہے تو جب تک اپنی جگہ پر بیٹھا رہتاہے ،فرشتے اس کے لئے دعائے مغفر ت کرتے رہتے ہیں،اور کہتے ہیں:اے اﷲ پاک! اس کی مغفرت فرما !اے اللہ پاک!اس پر رحم فرما! اورجب تک تم میں سے کوئی نَماز کے انتظارمیں ہوتاہے نَماز ہی میں ہوتاہے ۔ (16) حکیم الامت حضرت مفتی احمد یارخان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس حدیث پا ک کی شرح کرتےہوئے فرماتے ہیں :معلوم ہوا کہ گھر سے وضوکرکے مسجدکو جانا ثواب ہے کیونکہ یہ چلنا عبادت ہے اورعبادت باوضو افضل۔مزید فرماتے ہیں : یہ (یعنی ہر قدم پر ایک درجہ بلند ہونے اور ایک خطا معاف ہونے کا انعام)گنہگاروں کے لیے ہے ۔ نیک کاروں کے لئےہر قدم پر دو نیکیاں اور دو درجے بلند ۔کیونکہ جس چیز سے گنہگاروں کے گناہ معاف ہوتے ہیں اُس سے بے گناہوں کے درجے بڑھتے ہیں۔ (17) صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد پیارے پیارے اسلامی بھائیو! جس طرح ثواب حاصل کرنے کے لئے اچھی نیت کا ہونا ضروری ہے اسی طرح جس کام کے لئے نیت کی جارہی ہے کہ اس کا بھی اچھا یعنی خلاف شریعت نہ ہونا ضروری ہے ، کہ نیتِ خیر عملِ خیر میں ثواب کا حقدار تو بناسکتی ہے ، لیکن نیتِ خیرکسی برے عمل کو بَھلا نہیں بنا سکتی ۔چنانچہاچھی نیت برائی کو بھلائی نہیں بناسکتی
والدِ اعلیٰ حضرت، مفتی نقی علی خان رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : نىت وارادت کو مَعْصِیّت (یعنی نافرمانی)مىں اصلاً مداخلت(بالکل عمل دخل) نہىں ، کوئى مَعْصِیَّت (یعنی نافرمانی) بہ نىت خىر(یعنی بھلائی کی نیت کرنے سے) خىر(نیکی) نہىں ہوسکتى، خىر وہ ہے کہ جسے شرىعت خىر فرماوے۔ اِنَّمَاالْاَعْمَالُ بِالنِّيَّات (یعنی اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے)سے ىہ مطلب نہىں کہ بد(یعنی برے)کام اچھى نىت سے نىکى ہوجاتا ہے ،بلکہ بُرى بات سے نىکى کا قصد (ارادہ کرنا)اور بھلائى کى امىد رکھنا دوسرى بدى (یعنی برائی)ہے کہ اگر اِسے بُرا سمجھتا ہے اور پھر اِس سے امىد بھلائى کى رکھتا ہے فاسق اور احمق ہے۔ (18) صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدبدنیتی کا ہاتھوں ہاتھ برا انجام
حضرتِ سیِّدُنا علّامہ عبد المصطفےٰ اعظمی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْقَوِی فرماتے ہیں :یَمَن میں ”صَنْعَا“ شہر سے دو کوس کی دوری پر ایک باغ تھا جس کا نام’’ضردان “ تھا۔ اس باغ کا مالک بہت ہی نیک نفس اور سخی آدمی تھا۔ اُس کا دستور یہ تھا کہ پھلوں کو توڑنے کے وقت وہ فقیروں اور مسکینوں کو بلاتا تھا اور اعلان کردیتا تھا کہ جو پھل ہوا سے گرپڑیں یاجوہماری جھولی سے الگ جاکرگریں وہ سب تم لوگ لے لیاکرو۔اس طرح اس باغ کابہت ساپھل فقرا ومساکین کو مل جایا کرتا تھا۔ باغ کا مالک مر گیا تو اُس کے تینوں بیٹے اس باغ کے مالک ہوئے مگر یہ تینوں بہت بخیل ہوئے۔ ان لوگوں نے آپس میں طے کرلیا کہ اگر فقیروں اور مسکینوں کو ہم لوگ بلائیں گے تو بہت سے پھل یہ لوگ لے جائیں گے اور ہم لوگوں کے اہل وعیال کی روزی میں تنگی ہوجائے گی۔ چنانچہ ان تینوں بھائیوں نے قسم کھا کر یہ طے کر لیا کہ سورج نکلنے سے قبل ہی چل کر ہم لوگ باغ کا پھل توڑ لیں تاکہ فقراء و مساکین کو خبر ہی نہ ہو۔ چنانچہ ان لوگوں کی بدنیتی کی نحوست نے یہ اثر بد دکھایا کہ ناگہاں رات ہی میں اللہ پاک نے باغ میں ایک آگ بھیج دی۔ جس نے پورے باغ کو جلا کر خاک سیاہ کرڈالا اور ان لوگوں کو اس کی خبر بھی نہ ہوئی۔ یہ لوگ اپنے منصوبہ کے مطابق رات کے آخری حصے میں نہایت خاموشی کے ساتھ پھل توڑنے کے لئے روانہ ہو گئے اور راستہ میں چپکے چپکے باتیں کرتے تھے تاکہ فقیروں اور مسکینوں کو خبر نہ مل جائے۔ لیکن یہ لوگ جب باغ کے پاس پہنچے تو وہاں جلے ہوئے درختوں کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ چنانچہ ایک بول پڑا کہ ہم لوگ راستہ بھول کر کسی اور جگہ چلے آئے ہیں مگر ان میں سے جو بہ نسبت دوسرے بھائیوں کے کچھ نیک نفس تھا۔ اُس نے کہا کہ ہم راستہ نہیں بھولے ہیں بلکہ اللہ پاک نے ہم لوگوں کو پھلوں سے محروم کردیا ہے لہٰذا تم لوگ خدا کی تسبیح پڑھو تو ان سبھوں نے یہ پڑھنا شروع کردیا کہ سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنَّاکُنَّا ظٰلِمِیْنَ یعنی ہمارے رب کے لئے پاکی ہے ہم لوگ یقینا ظالم ہیں کہ ہم نے فقرا و مساکین کا حق مار لیا پھر وہ تینوں بھائی ایک دوسرے کو ملامت کرنے لگے اور آخر میں یہ کہنے لگے کہعَسٰى رَبُّنَاۤ اَنْ یُّبْدِلَنَا خَیْرًا مِّنْهَاۤ اِنَّاۤ اِلٰى رَبِّنَا رٰغِبُوْنَ ( پ ۲۹ ،القلم: ۳۲) ترجَمۂ کنز الایمان :امید ہے کہ ہمیں ہمارا رب اس سے بہتر بدل دے ہم اپنے رب کی طرف رغبت لاتے ہیں۔ (19) حضرت عبداللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے فرمایا کہ ان لوگوں نے سچے دل سے توبہ کرلی تو اللہ پاک نے ان لوگوں کی توبہ قبول فرما لی اور پھر ان لوگوں کو اس کے بدلے ایک دوسرا باغ عطا فرما دیا جس میں بہت زیادہ اور بہت بڑے بڑے پھل آنے لگے۔ اِس باغ کا نام ”حیوان“تھا اور اس میں ایک ایک انگور اتنا بڑا بڑا ہوتا تھا کہ اُس کا ایک خوشہ ایک خچر کا بوجھ ہوجایا کرتا تھا۔ ابوخالد یمانی کا بیان ہے کہ میں اُس باغ میں گیا تھا تو میں نے دیکھا کہ اُس باغ میں انگوروں کے خوشے حبشی آدمی کے قد کے برابر بڑے تھے۔ (20) صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! دیکھا آپ نے ! بری نیت کا کس قدر برا انجام ہوتا ہے کہ ایک پھولا پھلا باغ منٹوں میں تاراج (یعنی تباہ و برباد)ہوگیا ۔عوامی محاورہ بھی ہے :’’نیت صاف منزل آسان۔‘‘نیّت صاف منزل آسان
حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم نَخْعی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : ایک آدمی اپنی بری بات کی صفائی میں کوئی بات کہتا ہے ، اس کی نیت بھی بھلائی کی ہوتی ہے ، لہٰذا اللہ پاک لوگوں کے دل میں اس کے متعلق نرمی پیدا فرمادیتا ہے ، یہاں تک کہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کی نیت بھلائی ہی کی تھی ۔جبکہ ایک شخص جو بات تو اچھی کرتا ہے مگر اس کی نیت بھلائی کی نہیں ہوتی ، تو اللہ پاک لوگوں کے دلوں میں اس کے متعلق (برائی) ڈال دیتا ہے ، یہاں تک کہ لوگ کہتے ہیں کہ اس کی نیت بھلائی کی نہیں تھی ۔ (21)انوکھی شرکت انوکھی کاشت
منقول ہے کہ ایک نوجوان شخص اور ایک بوڑھے آدمی نے کسی زمین میں گندم کاشت کرنے کی شراکت (Partner ship)قائم کرلی ۔ جب پیداوار کی تقسیم کا وقت آیا تو بوڑھے آدمی نے چپکے سے اپنا کچھ حصہ نوجوان کے حصے میں شامل کردیا ، اور نیت یہ تھی کہ اس طرح نوجوان کو کچھ کشادگی حاصل ہوجائے گی ۔ جبکہ دوسری طرف اس نوجوان نے بھی اپنا کچھ حصہ چپکے سے بوڑھے آدمی کے حصے میں شامل کردیا ، اس کی نیت یہ تھی کہ یہ بوڑھا شخص ہے ، بال بچے والا ہے (اسے کچھ کشادگی مل جائے گی ) ۔ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا ، اور ان کے اس عمل کا نتیجہ یہ ہوا کہ گندم کے دانے بھی عام دانوں کی نسبت بڑے پیدا ہونے لگے اور گندم کی مقدار بھی بڑھنے لگی ۔ جب یہ معاملہ بڑھنے لگا تو دونوں شریک (Partners) حیران ہوگئے ، اور یوں دونوں نے اپنا راز ایک دوسرے کو بتادیا ۔ جب بادشاہِ وقت کو اس بات کی خبر پہنچی تو اس نے ان کی کاشت کردہ گندم کا ایک دانہ لے کر اپنے خزانے میں اس نیت سے رکھ لیا کہ یہ بعد والوں کے لئے یادگار بن جائے ۔ (22) صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدپیر بھائی کی اولاد سے نیک نیتی کا صلہ
ایک مرید کے پیر بھائی کا انتقال ہوگیا ، جب بھی اللہ پاک اسے کوئی مال عطا فرماتا تو وہ اسے اپنی اور اپنے پیر بھائی کی اولاد میں تقسیم کر دیتا ۔ اس مرید کی اپنے بھائیوں کے ساتھ ایک مشترکہ زمین تھی ، کچھ ظالم لوگوں کی وجہ سے جب وہ زمین بیچنی پڑی تو اُس مرید کے حصے میں چالیس مثقال چاندی آئی ، بھائیوں نے پوچھا کہ اس کا کیا کرو گے ؟ بولا : اپنی اور پیر بھائی کی اولاد میں تقسیم کردوں گا ، بھائیوں نے کہا : ہم نے تمہارے جیسا بیوقوف نہیں دیکھا ، اس مال کو استعمال میں لاؤ ! فلاں فلاں چیز خریدو ! اور اِس حماقت کو چھوڑو ! یہ سن کر اس مریدنے اپنے آپ سے پوچھا : تیرا کیا خیال ہے ؟ کل جب تو بارگاہ الٰہی میں پیش ہوگا اور اللہ پاک فرمائے گا : میں نے تجھے چالیس مثقال چاندی عطا کی تھی لیکن تو نے اپنی ذات کو ترجیح دے کر اپنے بھائی کا حق ضائع کیا ، لہٰذا میں بھی آج تیرا حق ختم کرتا ہوں جیسا کہ تو نے کیا تھا ، (تب تو کیا کر پائے گا ؟) اس ذہن سازی کے نتیجے میں اللہ پاک نے اسے توفیق خیر عطا کی اور اس نے وہ مال اپنی اور پیر بھائی کی اولاد میں تقسیم کر دیا ، بعد ازاں اللہ پاک نے اسے وہ کمال عطا کیا جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا ، نہ کسی کان نے سنا ، اور نہ ہی کسی دل پراس کا خیال گزرا ، اور اسے اس کی سچی نیت کی بدولت اولیائے کرام رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْھِمْ کے گروہ میں شامل فرمالیا۔ (23) صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! یہ تو واضح ہے کہ اگر عمل میں خرابی نہ ہو اور نیت بھی اچھی ہو تو رحمت الٰہی سے ثواب ضرور ملتا ہے ، اور یقینا ثواب حاصل کرنے کے لئے نیت کرنا بھی بہت بڑی سعادت ہے ۔ لیکن اس بات کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ نیت ثواب حاصل کرنے کی نہ ہو بلکہ صرف یہ ہو کہ اللہ پاک راضی ہوجائے، اس کے علاوہ کسی چیز کے حصول کی نیت نہ ہو ، اور نیت کا یہ مقام’’سب سے بڑا ‘‘ہے ۔مقرّب بندوں کی نیت
حضرتِ سیِّدُنا اِسماعیل حَقّی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : انسان کی نیت چار حال سے خالی نہیں ہوتی ۔ (1)اس کے دل میں بھی دنیا حاصل کرنے کی نیت ہوگی اور وہ زبان سے بھی دنیا حاصل کرنے کی نیت ظاہر کرے گا ، ایسا شخص اپنی نیت اور عمل دونوں اعتبار سے بچے جیسا ہے ۔ (2)اس کے دل میں تو دنیا حاصل کرنے کی نیت ہوگی لیکن زبان سے آخرت حاصل کرنے کی نیت کا اظہار کرے گا ، ایسا شخص نیت اور عمل دونوں طرح سب سے برا ہے ۔ (3)اس کے دل میں بھی آخرت حاصل کرنے کی نیت ہوگی اور زبان سے بھی اسی نیت کا اظہار کرے گا ، ایسا شخص نیت اور عمل دونوں طرح اچھا ہے ۔ (4)اس کے دل میں بھی اللہ پاک کی رضا حاصل کرنے کی نیت ہوگی اور زبان سے بھی رضائے الٰہی حاصل کرنے کی نیت کا اظہار کرے گا ، ایسا شخص نیت اور عمل دونوں اعتبار سے سب سے اچھا ہے ۔ پہلی حالت کافروں کی ہوتی ہے ۔ دوسری حالت منافقوں کی ہوتی ہے ۔ تیسری حالت نیکوکاروں کی ہوتی ہے ۔ جبکہ چوتھی حالت مقرب بندوں کی ہوتی ہے ۔ مزید فرماتے ہیں : مقرب بندے تمام روئے زمین کو چھوڑکر صرف اللہ پاک ہی سے لو لگائے رہتے ہیں ، اور اس کی ذات کے علاوہ کسی چیز کی طرف توجہ نہیں کرتے ،وہ اللہ پاک سے بس اُسی کی ذات کا سوال کرتے ہیں ۔اوریہی صراط ِمستقیم (سیدھاراستہ)ہے۔ (24)بایزیدبسطامی صرف مجھے چاہتا ہے
منقول ہے کہ ٭حضرت سیِّدُنااحمد بن خَضْرَوَیْہرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ خواب میں دیدارِ باری تعالیٰ سے مشرف ہوئے تو اللہ پاک نے ان سے ارشادفرمایا: سب لوگ مجھ سے جنت مانگتے ہیں سوائے بایزیدبسطامی کے کہ وہ صرف مجھے چاہتا ہے۔٭حضرت سیِّدُنا بایزید بِسطامی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ خواب میں دیدارِباری سے مشرف ہوئے تو عرض کی:مولا!تیری طرف آنے کا راستہ کیا ہے؟تو اللہ پاک ارشادفرمایا:اپنے نفس کو چھوڑ اور میری طرف آجا۔ (25) صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدمجذوب بزرگ صدقہ کی نیت جان گئے
حضرتِ سیِّدُنا ابو فارِس عبد العزیز بن مسعود دَبّاغ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: میں ایک مجذوب بزرگ کو جانتا ہوں جن کے پاس خود کو سردی سے بچانے کے لئے کپڑے تک نہیں ہوتے تھے ، مجھے اُن پر بہت ترس آتا تھا ، اگر کوئی کبھی اُن کو کپڑے دے بھی دیتا تھا تو کوئی خوف خدا نہ رکھنے والا اُن سے چھین لیتا تھا ، وہ ایک چَکّی میں رات گزارا کرتے تھے ، ایک دن میں اُنہیں سردی سے بچنے کے لئے ایک کپڑا دینے گیا جس سے میری نیت یہ تھی کہ اللہ پاک میری فلاں حاجت پوری فرمادے گا ، اور اس بات کا میرے اور اللہ پاک کے سوا کسی کو علم نہیں تھا ، تو اُنہوں نے فرمایا : مجھے یہ کپڑا قبول نہیں ، میں نہیں پہنوں گا ۔ جب میں نے لینے پر اصرار کیا تو فرمایا : میں وہ کپڑا نہیں پہنوں گا جو تو نے فلاں حاجت پوری ہونے کی غرض سے دیا ہے ، میں وہی کپڑا پہنوں گا جو خالصۃً اللہ پاک کے لئے دیا گیا ہو ۔ یہ سن کر میں کپڑا وہیں چھوڑ کر چلا آیا ، اور چکی والوں کو کہہ آیا کہ انہیں یہ کپڑا پہنادینا ، لیکن کافی دن گزرنے کے بعد بھی انہوں نے وہ کپڑا نہیں پہنا ۔ جب مخلوق نے ایسی چیز کو قبول نہیں کیا جو غیرُ اللہ کے لئے ہو تو اللہ پاک ایسی چیز کیسے قبول فرماسکتا ہے!(26)شیطان نے گلا دبادیا
منقول ہے کہ کسی علاقے میں ایک بہت بڑا درخت تھا ،لوگ اس کی پوجا کیا کرتے تھے ۔ایک شخص کا وہاں سے گزر ہوا تو اسے یہ دیکھ کر بہت غُصّہ آیا کہ یہاں غیراﷲ کی عبادت کی جارہی ہے ۔چنانچہ وہ کلہاڑا لے کر اس درخت کو کاٹنے چلا،اتنے میں شیطان مردود اس کے سامنے اِنسانی شکل میں آکر کہنے لگا : کہا ں جا رہے ہو ؟ جواب دیا : میں اس درخت کو کاٹنے جا رہا ہوں جس کی لوگ عبادت کرتے ہیں ۔یہ سُن کر شیطان بولا : جب تُو اس درخت کی عبادت نہیں کرتا تو دوسروں کا اس درخت کی عبادت کرنا تجھے کیا نقصان دیتاہے ؟اس شخص نے کہا : میں ہرگز واپس نہیں جاؤں گا۔ شیطان نے اسے لالچ دیتے ہو ئے کہا : اگر تُو اس درخت کو کاٹ بھی دے گا تو تجھے اس سے کیا فائدہ حاصل ہوگا۔میرا مشورہ ہے کہ تو اس درخت کو نہ کاٹ، اگر تُوایسا کریگا تو روزانہ تجھے اپنے تکیے کے نیچے سے دو دینار ملا کریں گے ۔وہ شخص کہنے لگا: کون میرے لئے دو دینار رکھا کریگا ۔شیطان نے کہا : میں رکھاکروں گا ۔وہ شخص شیطان کی اِن لالچ بھری باتوں میں آگیااور دودینار کی لالچ میں اس نے درخت کاٹنے کاارادہ ترک کیا اور واپس گھر لوٹ آیا۔ پھر جب صبح بیدارہوا تو اس نے دیکھا کہ تکیے کے نیچے دو دینار موجود تھے۔دوسری صبح جب اس نے تکیہ اٹھایاتو وہاں دینار موجود نہ تھے،اسے بڑا غُصّہ آیا اور کلہاڑ ااٹھا کر پھر درخت کاٹنے چلا۔شیطان پھرانسان کی شکل میں اس کے پاس آیا اور کہا: کہاں کا ارادہ ہے؟ کہنے لگا : مَیں اس درخت کو کاٹنے جارہا ہوں جس کی لوگ عبادت کرتے ہیں،شیطان نے کہا:اب تُوکبھی بھی اس درخت کو نہیں کاٹ سکتا ۔چنانچہ شیطان اور اس شخص کے درمیان کُشتی شروع ہوگئی۔ شیطان نے اس شخص کو بری طرح پچھاڑدیا اور اس کا گلا دبا نے لگا ،قریب تھا کہ اس شخص کی موت واقع ہو جاتی۔اس نے شیطان سے پوچھا: تُو کون ہے؟ شیطان نے کہا: میں ابلیس ہوں اور جب تُوپہلی مرتبہ درخت کاٹنے چلاتھاتواس وقت بھی میں نے ہی تجھے روکا تھا لیکن اس وقت تیرا غصہ اللہ پاک کے لئے تھا ، اس لئے میں تیرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا ، لیکن اب میں تجھ پر اس لئے غالب آگیا ہو ں کیونکہ اب تیراغُصّہ اﷲ پاک کے لئے نہیں بلکہ دیناروں کے نہ ملنے کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا اب تو میرا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ (27) میرا ہر عمل بس ترے واسطے ہو کر اِخلاص ایسا عطا یا الٰہی (28) صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! بیان کا خلاصہ یہ ہے کہ *…نیت عمل سے پہلے کی جاتی ہے *…نیت اچھی ہونی چاہیے*…جس کام کے لئے نیت کی جائے وہ کام بھی جائز اور شریعت کے مطابق ہونا چاہیے*…کم ازکم ایک ورنہ جتنی ممکن ہوسکیں نیتیں کرنی چاہییں *…زہے نصیب ہر نیک کام میں رضائے الٰہی کی نیت کی جائے کہ یہ سب سے اعلی مرتبہ ہے ۔ اللہ پاک ہمیں فیضان نیت خوب خوب نصیب فرمائے ۔ پیارے پیارے اسلامی بھائیو ! شیخ طریقت امیر اہل سنت بانیٔ دعوت اسلامی حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اس پُر فتن دور میں آسانی سے نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کے طریقوں پر مشتمل شریعت و طریقت کا جامع مجموعہ بنام ’’مدنی انعامات‘‘بطور سوالات عطا فرمایا ہے ۔ جس کی تفصیل درج ذیل ہے :۔ (1)۔۔۔72مدنی انعامات (اسلامی بھائیوں کے لئے)۔ (2) ۔۔۔63مدنی انعامات (اسلامی بہنوں کے لئے ) ۔(3)۔۔۔92مدنی انعامات (طلبا کے لئے )۔ (4)۔۔۔83مدنی انعامات (طالبات کے لئے)۔ (5)۔۔۔40مدنی انعامات (مدنی منوں اور مدنی منیوں کے لئے)۔ (6)۔۔۔52مدنی انعامات (جیل خانہ جات کے لئے)۔ (7)۔۔۔27مدنی انعامات (خصوصی اسلامی بھائیوں کے لئے)۔ (8)۔۔۔ 19 مدنی انعامات (برائے عمرہ وسفر مدینہ)۔ (9)۔۔۔19مدنی انعامات (برائے حج و سفر مدینہ)۔ ’’فیضان نیت‘‘ کو عام کرنے اور لوگوں کو ثواب کا حریص بنانے کی غرض سے ان مدنی انعامات میں سب سے پہلا مدنی انعام جو آپ نے عطا فرمایا ہے وہ یہ ہے : ’’کیا آج آپ نے کچھ نہ کچھ جائز کاموں سے پہلے اچھی اچھی نیتیں کیں ؟ نیز کم از کم دو کو اس کی ترغیب دلائی‘‘۔ خود امیر اَہلِ سُنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ اپنے مختلف معاملات چاہے وہ کھانا پینا ہو یا سونا جاگنا ، مدنی مذاکرہ ہو یا مدنی مکالمہ ، عاشقان رسول کے ساتھ ملاقات ہویا کوئی مدنی مشورہ وغیرہ سب میں نیت کو بہت اہمیت دیتے ہیں ۔ یہاں تک کہ آپ نے نیتوں پر مشتمل ایک چارٹ ترتیب دیا ہے جو آپ کے مکتب میں آویزاں ہے اور مدنی مذاکرے میں تشریف لانے سے قبل آپ اس چارٹ کو پڑھ کر نیتیں کرتے ہیں اور پھر مدنی مذاکرے میں تشریف لاتے ہیں ، اتنا ہی نہیں آپ مدنی مذاکرے میں حاضرین اور ناظرین کو بھی ترغیب دلاتے ہیں کہ وہ بھی حسب حال اچھی اچھی نیتیں کرلیں تاکہ ثواب کا سلسلہ بڑھ جائے ۔ اس کے علاوہ آپ نے ایک رسالہ بنام ’’ثواب بڑھانے کے نسخے‘‘بھی تحریر فرمایا ہے جس میں آپ نے تقریبا 72چیزوں کی مختلف نیتیں ذکر کی ہیں کہ ایسا اسلامی بھائی جس کو نیت کرنے میں دشواری ہوتی ہو وہ بھی اس رسالے سے اپنے مطلوبہ کام کی نیتیں دیکھ کر کرسکتا ہے ۔ یوں ہی آپ نے نیتوں پر مشتمل مختلف پمفلٹ بھی مرتب فرمائے ہیں ، جو مکتبۃ المدینہ سے ہدیۃً حاصل کر کے دکان ، مکان ودیگر جگہوں پر آویزاں کئے جاسکتے ہیں ۔ اب صرف ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی ذہن سازی کی جائے ، خود کو تیار کیا جائے کہ اِنْ شَآءَاللہ میں خود بھی نیت کا فیضان حاصل کروں گا اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دلاؤں گا ۔ اور ان سب کے لئے بہترین ذریعہ دعوت اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستگی ہے ۔ کیونکہ مدنی ماحول میں مدنی انعامات پر عمل اور مدنی مذاکرہ نیز سنتوں بھرے اجتماعات میں شرکت کا ذہن بنے گا اور ان سب کی برکت سے اِنْ شَآءَاللہ فیضان نیت کے ساتھ ساتھ فیضان مدینہ بھی نصیب ہوگا ۔ اللہ کرم ایسا کرے تجھ پہ جہاں میں اے دعوت اسلامی تیری دھوم مچی ہو اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
[1…… القول البدیع،الباب الثانی فی ثواب الصلوة … الخ،ص ۲۵۵ ۔ 2…… عیون الحکایات،الحکایة الثالثة والاربعون بعد المائة ، ص ۱۶۲ ملتقطا۔ 3…… بخاری ، کتاب بدء الوحی ، باب کیف کان بدء الوحی … الخ ، ۱ / ۵ ، حدیث : ۱ ۔ 4…… مراٰۃ المناجیح،۱ / ۲۲۔ 5…… معجم کبیر ، ۶ / ۱۸۵ ، حدیث : ۵۹۴۲ ۔ 6…… خلاصہ ازانوارِ جمال مصطفےٰ ،ص۴۱۹۔ 7…… منھاج القاصدین ، کتاب الحلال والحرام، الباب الاول ، ۱ / ۳۹۰ ۔ 8…… احیاء العلوم ، کتاب النیة والاخلاص والصدق ، ۵ / ۱۰۱ ۔ 9…… احیاء العلوم ،کتاب النیة و الاخلاص و الصدق، ۵ / ۱۰۱ ۔ 10…… احیاء العلوم ،کتاب النیة و الاخلاص و الصدق، ۵ / ۱۰۱ ۔ 11…… احیاء العلوم ،کتاب النیة و الاخلاص و الصدق، ۵ / ۱۰۱ ۔ 12…… احیاء العلوم ،کتاب النیة و الاخلاص و الصدق، ۵ / ۱۰۱ ۔ 13…… احیاء العلوم ،کتاب النیة و الاخلاص و الصدق، ۵ / ۱۰۱ ۔ 14…… انوار ِجمال مصطفےٰ ،ص۴۲۰ملتقطاً۔ 15…… الابریز ، مقدمة المؤلف ، الفصل الاول ، ۱ / ۴۶ ۔ 16…… بخاری،کتاب الاذان،باب فضل صلوٰۃ الجماعة، ۱ / ۲۳۳ ،حدیث: ۶۴۷ ۔ 17…… مراٰۃالمناجیح،۱ / ۴۳۶۔ 18…… انوارِ جمال مصطفےٰ ،ص۴۱۹۔ 19…… عجائب القرآن مع غرائب القرآن،ص۲۱۰۔ 20…… صاوی،پ ۲۹ ، سورةالقلم ، تحت الاٰیة: ۳۲ ، ۶ / ۲۲۱۶ ۔ 21…… حلیة الاولیاء ،ابراہیم بن یزید النخعی ، ۴ / ۲۵۶ ، رقم : ۵۴۷۴ ۔ 22…… نزھةالمجالس،باب الکرم والفتوةوردالسلام، ۱ / ۲۸۲ ۔ 23…… الابریز،الباب الخامس فی ذکر التشایخ...الخ، ۲ / ۸۳ ۔ 24…… روح البیان ، ۹ / ۲۴۰ ملتقطا۔ 25…… احیاءعلوم الدین،کتاب النیةوالاخلاص والصدق ، ۵ / ۱۰۲ ۔ 26…… الابریز،الباب الثالث فی ذکر الظلام...الخ، ۱ / ۴۸۱ ۔ 27…… عیون الحکایات ، الحکایة العاشرة بعد المائة ، ص ۱۲۹ ۔ 28…… وسائل بخشش مُرَمَّم،ص۱۰۵۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع