30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلحمدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط یہ مضمون کتاب”نیکی کی دعوت“کے صفحہ450تا467 سے لیا گیا ہے۔ گناہوں کے 5 دنیاوی نقصانات دُعائے عطار: یاربَّ المصطفےٰ !جوکوئی 17صفحات کا رسالہ’’ گناہوں کے 5 دنیاوی نقصانات ‘‘پڑھ یاسُن لے اُسےہمیشہ اچھے کام کرنے اور برے کاموں سے بچنے کی توفیق عطا فرما اور قیامت کے روز سب سے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شفاعت نصیب فرما ۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہ علیهِ واٰله وسلّمدُرُود شریف کی فضیلت کی حِکایت
حضرتِ اَبُو المواہِب شاذِلی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں:جنابِ رسالت مَآب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مجھے خواب میں اپنے دیدارِ فیض آثار سے مُشَرّف کیا اور فرمایا:”تم بروزِقیامت میرے ایک لاکھ اُمّتیوں کی شفاعت کرو گے۔ “میں نے عرض کی:اے میرے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! مجھ پر اِس قدر اِنعام وا ِکرام کیسے ہوا؟ ارشاد فرمایا:اِس لیے کہ تم مجھ پر دُرُود کا ہَدِیّہ پیش کرتے رہتے ہو۔ (طبقات الکبریٰ للشعرانی، جز:ثانی، ص101) پڑھتے رہو دُرود و سلام بھائیو! مُدام فضلِ خدا سے دونوں جہاں کے بنیں گے کام صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدحِکایتِ دُرُود کے ضِمن میں” شفاعت“ کے متعلق مَدَنی پھول
عُلَمائے کرام شَفاعت فرمائیں گے
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! سبحانَ اللہ!دُرودِ پاک پڑھنے کی بھی کیا خوب برکتیں ہیں! اِس حِکایتِ دُرود سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بروزِ قِیامت اہلُ اللہ (یعنی اللہ والے) گنہگاروں کی شَفاعت فرمائیں گے۔ یاد رہے! مُطْلقاً شَفاعت کا انکار حکمِ قرآنی کا انکار اورکُفر ہے۔ موقع کی مُناسَبَت سے شَفاعت کے بارے میں نیکی کی دعوت کے کچھ مَدَنی پھول آپ کی طرفبڑھاتا ہوں،قَبول فرما کر اپنے دل کے مَدَنی گلدستے میں سجاتے جایئے، اِن شاءَ اللہ ایمان کو تازگی ملنے کے ساتھ ساتھ کئی وَسوَسوں کی کاٹ بھی ہو جا ئے گی۔شَفاعت کے معنیٰ ہیں:” گُناہوں سے مُعافی کی سِفارِش۔“سب سے پہلے عُلَمائے کرام کے شَفاعت کرنے کے متعلّق ایک ایمان افروز رِوایت سَماعت فرمایئے چُنانچِہ حضرتِ جابِر بن عبدُ اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ خاتَمُ الْمُرسَلین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کاارشاد ِ دلنشین ہے: (میدانِ قیامت میں) عالِم اور عابِد لائے جائیں گے،عابِد(یعنی عبادت گزار)سے کہا جائے گا:جنَّت میں داخِل ہوجاؤ اور عالِم سے کہا جائے گا:تم ابھی ٹھہرو تاکہ لوگوں کی شَفاعت کرو،اِس صلے میں کہ تم نے ان کو ادب سکھایا۔ (شعب الایمان،2/268،حدیث:1717) مجھ کو اے عطّارؔ سُنّی عالموں سے پیار ہے اِن شاءَ اللہ دو جہاں میں میرا بیڑا پار ہے (وسائل بخشش ،ص 646)جن آیات میں شفاعت کاانکار ہے ان کی وَضاحت
قرآنِ کریم کی جن آیتوں میں شَفاعت کی نفی(یعنی انکار)ہے وہا ں مُراد ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی بھی جبرًا شفاعت نہیں کرسکتا یا غیر مسلموں کی شَفاعت نہیں یا بُت شَفیع(یعنی شفاعت کرنے والے)نہیں ہیں۔مَثَلاً پارہ 3سورۃُ الْبَقَرہ آیت نمبر 254 میں ہے: (یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْهِ وَ لَا خُلَّةٌ وَّ لَا شَفَاعَةٌؕ )(پ3،البقرۃ:254) ترجَمۂ کنزُ الاِیمان : ”وہ دن جس میں نہ خرید فروخت ہے نہ کافروں کے لئے دوستی اور نہ شفاعت۔“ پارہ 29 سورۃُ الْمُدَّثِر آیت نمبر 48میں ارشاد ہوتا ہے: (فَمَا تَنْفَعُهُمْ شَفَاعَةُ الشّٰفِعِیْنَؕ(۴۸) ) (پ29،المدثر:48) ترجَمۂ کنزُالاِیمان:”تو انہیں سِفارشیوں کی سِفارش کام نہ دے گی۔“قرآن سے شفاعت کا ثُبُوت
جہاں قرآن شریف میں شفاعت کاثُبُوت ہے وہاں اللہ کے پیاروں کی مومِنوں کے لئے ” شَفاعَت بِالْاِذن “مُراد ہے یعنی اللہ پاک کے پیارے بندے اپنی مَحبوبیَّت اور وجاہت و مرتبے کی بِنا پر اللہ پاک کی اجازت سے مومنوں کو بخشوائیں گے۔مَثَلا ًپارہ3 سورۃُ الْبَقَرَہ آیت 255 میں ارشادِ ربُّ العبادہے: (مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖؕ ) ترجَمۂ کنزُ الاِیمان :”وہ کون ہے جو اس کے یہاں سِفارش کرے بے اس کے حکم کے۔“ (پ3،البقرۃ:255) پارہ 16سورۂ مریم آیت نمبر 87میں ہے: (لَا یَمْلِكُوْنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنْدَ الرَّحْمٰنِ عَهْدًاۘ(۸۷) ) ترجَمۂ کنزُالاِیمان:”لوگ شفاعت کے مالک نہیں مگر وُہی جنہوں نے رحمٰن کے پاس قرارکر رکھا ہے۔“ نیکیاں بِالکل نہیں ہیں نامۂ اعمال میں کیجئے عطّارؔ کی آکر شَفاعت یارسول (وسائل بخشش، ص142)کون کون شفاعت کرے گا؟
دعوتِ اسلامی کےمکتبۃُ الْمدینہ کی 1250 صفحات پر مشتمل کتاب،”بہارِ شریعت جلد اوّل ‘‘ صفحہ139 تا141 پر قِیامت کی منظر کشی میں شفاعت کے مُتَعَلّق تفصیلی مضمون میں یہ بھی ہے:اب تمام انبیا اپنی اُمّت کی شَفاعَت فرمائیں گے،اولیائے کرام،شُہَدا(شُ۔ہَ۔دا)،عُلَما،حُفّاظ،حُجّاج بلکہ ہر وہ شخص جس کو کوئی منصبِ دینی عنایت ہوا اپنے اپنے مُتَعَلّقین کی شَفاعت کرے گا۔نابالِغ بچّے جو مرگئے ہیں(وہ)اپنے ماں باپ کی شَفاعت کریں گے،یہاں تک کہ عُلَما کے پاس کچھ لوگ آکرعرض کریں گے:ہم نے آپ کے وُضُو کے لیے فُلاں وقت میں پانی بھر دیا تھا،کوئی کہے گا کہ میں نے آپ کو اِستنجے کے لیے ڈَھیلا دیا تھا،عُلَما اُن تک کی شَفاعت کریں گے۔ حِرزِ جاں ذکرِ شَفاعت کیجیے نار سے بچنے کی صورت کیجیے (حدائقِ بخشش ،ص 194) شَرحِ کلامِ رضا:اِس شعر میں میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اے عاشِقانِ رسول! شَفاعتِ مصطَفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا خوب تذکرہ کرتے رہئے گویا اپنے لئے اسے مثلِ پناہ گاہ بنا لیجئے کہ” ذِکرِشَفاعت“ آخرت کی بھلائی اور عذابِ جَہَنَّم سے نجات کا وسیلہ بن جائے۔ تجھ سا سیاہ کار کون اُن سا شَفیع ہے کہاں پھر وہ تُجھی کو بھول جائیں دل یہ ترا گمان ہے (حدائقِ بخشش ،ص 179) شَرحِ کلامِ رضا:اِس شعر میں اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ اپنے آپ سے تَواضُعًا(یعنی بطورِ انکساری)فرما رہے ہیں:تُوسب سے بڑا گنہگار ہی سہی مگر تو جس پیارے مصطَفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا غلام ہے اُن سے بڑا شَفاعت کرنے والا بھی تو کوئی نہیں۔اس لئے اے میرے غمگین دل! تَسَلّی رکھ! بروزِحشر شفیعِ محشر صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تجھے ہرگز نہیں بھولیں گے۔ ؎ یارسولَ اللہ! مجرم حاضرِ دربار ہے نیکیاں پلّے نہیں سر پر گنہ کا بار ہے تم شہِ ابرار یہ سب سے بڑا عِصیاں شِعار یوں شَفاعت کا یِہی سب سے بڑا حقدار ہے (وسائل بخشش ،ص 222) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدشَفاعت کی 8 اَقسام
مُحَقِّق عَلَی الِاْطلاق،خاتِمُ الْمُحَدّثین،حضرتِ علّامہ شیخ عبدُ الْحق مُحَدِّث دہلوی رحمۃُ اللہ علیہ شفاعت کی قسمیں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:(1) شَفاعت کی پہلی قسم شَفاعَتِ عظمیٰ ہے جس کا تمام مخلوقات کو نفع ملے گا اوریہ ہماری محترم نبی،مکی مَدَنی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہی کے ساتھ خاص ہے یعنی انبِیاءِ کرام علیہمُ السّلام میں سے کسی اور نبی کو اِس پر جُرات (جُر۔اَت)اور پیش قدمی کی مَجال نہ ہوگی اور یہ شَفاعت لوگوں کو آر ام پہنچانے،میدانِ حشر میں دیر تک ٹھہرنے سے چُھٹکارا دلانے،اللہ کریم کے فیصلے اور حساب کے جلدی کرنے اور قیامت کے دن کی سختی و پریشانی سے نکالنے کے لئے ہوگی (2) دوسری قسم کی شَفاعت ایک قوم کو بے حساب جنَّت میں داخل کروانے کے لئے ہوگی اور یہ شَفاعت بھی ہمارے نبیِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے لیے ثابِت ہے اور بعض عُلَماءِ کرام کے نزدیک یہ شَفاعت حُضُورِ انور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہی کے ساتھ خاص ہے (3) تیسری قسم کی شَفاعت اُن لوگوں کے بار ے میں ہوگی کہ جن کی نیکیاں اور بُرائیاں برابر برابر ہوں گی اور شَفاعت کی مدد سے جنَّت میں داخِل ہوں گے (4) چوتھی قسم کی شَفاعت اُن لوگوں کے لئے ہوگی جو کہ دوزخ کے حق دار ہوچکے ہوں گے تو حضورِ پُرنور،شافعِ یومُ الُنشُور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم شَفاعَت فرما کر اُن کو جنَّت میں لائیں گے (5) پانچویں قسم کی شَفاعت مرتبے کی بُلندی اور بُزرگی کی زیادتی کے لئے ہوگی (6) چھٹی قسم کی شَفاعت اُن گنہگاروں کے بارے میں ہوگی جو کہ جَہَنَّم میں پہُنچ چکے ہوں گے اورشَفاعت کی وجہ سے نکل آئیں گے اور اِس طرح کی شَفَاعت دیگرانبیا ءِ کرام علیہمُ السّلام ،فِرِشتے،عُلَما اور شُہَدا بھی فرمائیں گے (7) ساتویں قسم کی شَفاعت جنَّت کھولنے کے بارے میں ہوگی (8) آٹھویں قسم کی شَفاعت خاص کر مدینۂ منورہ والوں اور مدینے کے تاجور،سلطانِ بَحرو بَر صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے روضۂ انور کی زیارت کرنے والوں کے لئے خُصُوصی طریقے پر ہوگی۔ (اشعۃ اللمعات ،4/404ملخصًا) حشر میں ہم بھی سیر دیکھیں گے مُنْکِر آج ان سے التجا نہ کرے (حدائقِ بخشش،ص 142) شَرحِ کلامِ رضا:میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ اِس شعر میں فرماتے ہیں:جو لوگ آج دنیا میں اللہ پاک کے پیاروں کو ”بے اختیار“ سمجھتے ہیں،بروزِ محشر ہم بھی ان کا خوب تماشا دیکھیں گے کہ کس طرح بے بسی او ر بے چینی کے ساتھ انبیاءِ کرام علیہمُ السّلام کے پاک درباروں میں شَفاعت کی بھیک لینے کیلئے دھکّے کھا رہے ہوں گے! مگر ناکامی کا منہ دیکھیں گے۔جبھی تو کہا جا رہا ہے: ؎ آج لے ان کی پناہ آج مدد مانگ ان سے پھر نہ مانیں گے قِیامت میں اگر مان گیا (حدائقِ بخشش،ص 56) شَرحِ کلامِ رضا:یعنی آج اختیاراتِ مصطَفٰے صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا اِعتراف کرلے اور ان کے دامنِ کرم کی پناہ میں آ جا اور اِن سے مدد مانگ۔اگر تُو نے یہ ذہن بنا لیا کہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کی عطا سے بھی مدد نہیں کر سکتے تو یاد رکھ! کل بروزِ قِیامت جب اللہ پاک کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شانِ محبوبی ظاہر ہو گی او ر تُو اختیارات تسلیم کر لے گا اور شَفاعت کی صورت میں مدد کی بھیک لینے دوڑے گاتو اُس وَقت سرکارِ نامدار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نہیں ” مانیں“ گے کہ دنیا ” دارُ الْعَمَل “(یعنی عمل کی جگہ)تھی اگر وَہیں ”مان لیتا “ تو کام ہو جاتا،اب”ماننا “ کام نہ دے گا کیوں کہ آخرت دارُ الْعَمَل نہیں ”دارُ الجَزا “ (یعنی دنیا میں جو عمل کیا اُس کا بدلہ ملنے کی جگہ)ہے۔شَفاعت کی اُمّید پر گناہ کرنے والا کیسا ہے؟
شَفاعت کی اُمّید پر گناہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے اچّھا ڈاکٹر مل جانے کی اُمّید پر کوئی زہر کھالے یا ہڈّیوں کے ماہِر ڈاکٹر کے ملنے کی اُمّید پرگاڑی کے نیچے خود کو گراکر سارے بدن کی ہڈّیاں تُڑوالے۔اور یقیناً کوئی بھی ایسا نہیں کر سکتا۔لہٰذا ہر دم گناہوں سے بچتے رہنا ضروری ہے۔شَفاعت کی اُمید پر اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نافرمانیاں کر کے خود کو جَہَنَّم کے عذاب کیلئے پیش کرتے رہنا نہایت خطرناک ہے۔اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے ہر وقت ڈرتے رہنا چاہئے اگر گناہوں کی نُحوست سے ایمان ہی برباد ہو گیاتو شفاعت کیسی! خدا کی قسم! ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دوزخ کی بھڑکتی آگ اور گُونا گُوں عذابوں کا سامنا ہو گا۔وَالْعِیَاذُ باللہ(اللہ پاک کی پناہ)ہاں بچنے کی لاکھ کوشش کے باوُجُود نہ چاہتے ہوئے بھی بسا اوقات جو آدمی گناہوں میں پھنس جاتا ہے،اُسے چاہئے کہ توبہ استِغفار بھی کرتا رہے اور شفیعِ روزِ محشر صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے شفاعت کی خیرات بھی مانگتا رہے۔ اے شافِعِ اُمَم شہِ ذی جاہ لے خبر لِلّٰہ لے خبر مِری لِلّٰہ لے خبر مجرم کو بارگاہِ عدالت میں لائے ہیں تکتا ہے بےکسی میں تِری راہ لے خبر اہلِ عمل کو اُن کے عمل کام آ ئیں گے میرا ہے کون تیرے سوا آہ! لے خبر (حدائق بخشش،ص 67،68) شَرحِ کلامِ رضا! اے تمام اُمَّتوں کی شَفاعت فرمانے والے عزّت والے شہنشاہ! صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم خدارا!مجھ گنہگار کی خبر لیجئے! اے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مُجرِم کی عدالت میں پیشی ہو چکی ہے،گنہگار غلام نہایت بے کسی کے عالم میں شفاعت کی امّید لئے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تشریف آوَری کا مُنْتَظِر ہے۔یا رسولَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بےشک نیک بندوں کیلئے اُن کی نیکیاں کار آمد ہوں گی،آہ! مجھ نیکیوں سے تہی دامن(یعنی بالکل خالی)اور سَرتاپا گناہوں سے لِتھڑے ہوئے غلام کا آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سوا کون ہے جو شَفاعت کر کے عذابِ نار سے بچا لے! تسلّی رکھ تسلّی رکھ نہ گھبرا حشر سے عطّارؔ تِرا حامی وہاں پر آمِنہ کا لاڈلا ہوگا (وسائل بخشش ص 188) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدکَشتی کے مسافر
حضرتِ نُعمان بن بَشیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسولوں کے سالار،نبیوں کے سردار،دو عالم کے مالک و مُختار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ مُشْکْبار ہے:اللہ پاک کی حُدُود میں سستی کرنے والے اور اُن میں مُبْتَلا ہونے والے کی مِثال اُن لوگوں جیسی ہے جنہوں نے کَشتی میں قُرعہ اندازی کی،تو بعض کے حصّے میں نیچے والا حصّہ آیااور بعض کے حصّے میں اُوپر والا۔پس نیچے والوں کو پانی کے لیے اُوپر والوں کے پاس جانا ہوتا تھا،تو اُنہوں نے اِ سے زحمت شمار کرتے ہوئے ایک کُلہاڑ ی لی اورکشتی کے نِچلے حصّے میں ایک شخص سوراخ کرنے لگا ،تو اوپر والے اُس کے پاس آئے اورکہاکہ تجھے کیا ہو گیا ہے؟کہا کہ تمہیں میری وجہ سے تکلیف ہوتی تھی اور پانی کے بِغیر گزارہ نہیں۔اب اگر اُنہوں نے اُس کا ہاتھ پکڑ لیا تو اُسے بچا لیا او ر خود بھی بچ جائیں گے اور اگر اُسے چھوڑے رکھا تو اُسے ہلاک کریں گے اور اپنی جانوں کو بھی ہلاک کریں گے۔(بخاری ،2/208، حدیث:2686)گناہوں کی نُحُوست دوسروں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیتی ہے
اس حدیثِ پاک کے تَحت مِراٰۃُ الْمَناجِیْح میں ہے:اِس حدیث شریف میں ایک مثال کے ذریعے بُرائی سے روکنے اور نیکی کا حکم دینے کی اَہَمِیت کوواضِح کیا گیا اور بتایا گیا کہ اگر یہ سمجھ کر اَمرٌ بِالمَعرُوف وَ نَھیٌ عَنِ الْمُنْکَر (یعنی نیکی کی دعوت دینے اور بُرائی سے مَنع کرنے)کا فریضہ ترک کردیا جائے کہ بُرائی کرنے والا خود نقصان اُٹھائے گا ہمارا کیا نقصان ہے ! تو یہ سوچ غَلَط ہے،اِس لیے کہ اُس کے گناہ کے اَثرات تمام مُعاشَرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں اور جس طرح کشتی توڑنے والا اکیلا ہی نہیں ڈوبتا بلکہ وہ سب لوگ ڈوبتے ہیں جو کشتی میں سُوار ہیں اِسی طرح بُرائی کرنے والے چند افراد کا یہ جُرم تمام مُعاشَرے میں ناسُور بن کر پھیلتا ہے۔ (مراٰۃ المناجیح ،6/504)یا شیخ ! اپنی اپنی دیکھ!
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ”یاشیخ! اپنی اپنی دیکھ!“ کے تحت صرف اپنی اِصلاح کی فِکر میں لگے رہنے کے بجائے دُوسروں کی دُرُستی کی طرف بھی تَوَجُّہ دینی چاہئے،کیونکہ کثیر گناہ ایسے ہیں کہ جن کا نقصان دوسروں کو بھی پہنچتا ہے مَثَلاًاگرکوئی شخص چوری کا گناہ کرے تو اُس شخص کو بھی نقصان ہوگا جِس کی چیز چُرائی گئی بِالکل یِہی مُعامَلہ ڈاکہ ڈالنے، امانت میں خِیانت کرنے،گالی دینے،تُہْمَت لگانے،غیبت کرنے،چُغلی کھانے،کسی کے عَیب اُچھالنے، ناحق کسی کا مال کھانے،خون بہانے،کسی کو بِلااجازتِ شَرعی تکلیف پہنچانے، قرض دبالینے، کسی کی چیز اُسے ناگوار گزرنے کے باوُجُودبِلااجازت استِعمال کرنے،ماں باپ کو ستانے اور بدنِگاہی کرنے وغیرہ کا ہے۔اب اگر ہر ایک کو ان گناہوں کے اِرتکِاب کی کُھلی چھوٹ دے دی جائے پھر نہ توکسی کامال سَلامت رہے گا اور نہ ہی عزّت!بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ ہمارا مُعاشَرہ ”دَرِندوں کے جنگل “ کا منظر پیش کرنے لگے گا۔بعض گناہ ایسے ہیں جن کے اِرتکاب سے انسان کی عزّت کو بھی نقصان پہنچتا ہے مَثَلاً جو شخص چُغل خور یا زانی یا شرابی کے طور پر مشہور ہوجائے تو سب پر عِیاں(یعنی ظاہر)ہے کہ معاشرے میں اس کا کیا مقام ہوتا ہے ؟ اور بعض گناہ ایسے ہیں جو انسان کے مال کو نقصان پہنچاتے ہیں مَثَلاً جُوا کھیلنے کی لَت پڑ جانا،سُود پر قرض لینا،کام کاج کرنے کے بجائے فلمیں ڈِرامے دیکھنے میں مشغول رہنا،مذکورہ کاموں میں مُلَوَّث افراد مالی طور پر جس طرح ”دن دُگنی رات چوگنی“اُلٹی ترقّی کرتے ہیں یہ کسی صاحِب عقل سے مخفی(یعنی چُھپا)نہیں۔ان تمام دنیاوی نقصانات کے ساتھ ساتھ ایسے شخص کو اُخروی(اُخْ۔رَ۔وی)طور پر بھی خسارے (یعنی نقصان)کا سامنا ہے،جو جَہَنَّم کے بھیانک اور ہولناک عذاب کی صورت میں پیش آسکتا ہے۔وَالْعِیاذُ بِاللہ۔گناہوں کے پانچ دُنیوی نقصانات
گناہوں کے دنیاوی نقصانات کے ضِمن میں دعوتِ اسلامی کےمکتبۃُ الْمدینہ کی کتاب، ’’نیکیوں کی جزائیں اور گناہوں کی سزائیں ‘‘صفحہ51 پر ہے:حُضُور نبیِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کافرمانِ عبرت نشان ہے:اے لوگو!پانچ باتوں سے بچنے کے لئے پانچ باتوں سے بچو (1) جو قوم کم تولتی ہے اللہ پاک انہیں مہنگائی اور پھلوں کی کمی میں مبتلا کردیتاہے (2) جو قوم بدعَہدی(یعنی وعدہ خلافی)کرتی ہے اللہ پاک اُن کے دشمنوں کوان پر مُسَلَّط کردیتاہے (3) جو قوم زکوٰۃ ادا نہیں کرتی اللہ پاک ان سے بارِش کاپانی روک لیتا ہے اور اگر چَوپائے نہ ہوتے تواُن کو پانی کا ایک قَطرہ بھی نہ دیاجاتا (4) جس قوم میں فُحاشی اور بے حیائی پھیل جاتی ہے اللہ پاک اُن کو طاعون (1) کے مرض میں مُبْتَلا کردیتاہے اور (5) جوقوم قرآنِ پاک کے بِغیر فیصلہ کرتی ہے اللہ پاک ان کو زیادَتی(یعنی غَلَط فیصلے )کا مزا چکھاتا ہے اور انہیں ایک دوسرے کے ڈر میں مبتلا کر دیتاہے۔(قرۃالعیون ،ص392)دُعا قبول نہ ہوگی
افسوس! صدکروڑافسوس! آج کل مسلمانوں میں نیکیوں کا ذِہن بَہُت کم ہو گیا ہے بس ہر طرف گناہوں کا دَور دَورہ ہے،نیکی کی دعوت کی طرف بھی کوئی خاص رغبت نہیں رہی، آیئے! ایک عبرتناک رِوایت سنئے اور اپنے آپ کو عذابِ الٰہی سے ڈرایئےِ چُنانچِہ سرکارِ مدینہ،سُرورِ قلب و سینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ باقرینہ ہے:قسم ہے اُس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،یا تو تم اچھی بات کا حکم کرو گے ا ور بُری بات سے مَنع کرو گے یا اللہ پاک تم پر جلد اپنا عذاب بھیجے گا پھر دُعا کرو گے اور تمہاری دُعا قبول نہ ہوگی۔(ترمذی ، 4/69، حدیث:2176) اِس حدیثِ پاک کے تَحت مِراٰۃُ الْمناجیح میں ہے: اَمْرٌ بِالْمَعْرُوْف وَ نَهْیٌ عَنِ الْمُنْکَر (یعنی نیکی کا حکم دینے اور بُرائی سے منع کرنے)کی ذِمّے داری سے پہلوتَہی(یعنی ٹالَم ٹَول) کتنا بڑ ا جُرم ہے اِس حدیث میں نہایت وَضاحت کے ساتھ اِس کا بیان کیا گیا۔ رسولِ اَکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:یا تو تمہیں یہ فریضہ انجام دینا ہوگا یااللہ پاک کے عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا اور اس کے بعد اگر دُعا بھی کرو گے تو قَبول نہ ہوگی،یہ نہایت سخت قسم کی وعید(یعنی سزا دینے کی دھمکی)ہے یعنی جب تک تم اپنی کوتاہی کا اِزالہ(یعنی اِسے دور)نہیں کرو گے اور اللہ پاک سے مُعافی نہیں مانگو گے تمہاری کوئی دُعا قبول نہ ہوگی۔ (مراٰۃالمناجیح ،6/505) دے دُھن مجھ کو نیکی کی دعوت کی مولیٰ مچا دوں میں دھوم اُن کی سنّت کی مولیٰ صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدمیں گُناہوں کی تاریکیوں میں گم تھا
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! نیک بننے اور گناہوں سے بچنے اور ایمان کی حفاظت کیلئے فی زمانہ دعوتِ اسلامی کا دینی ماحول کسی نِعمتِ غیر مُتَرَقَّبہ(غیر۔مُ۔تَ۔رَق۔قَ۔بَہ یعنی وہ دولت جس کے حصول کا گمان نہ ہو)سے کم نہیں،آج کے گناہوں بھرے ماحول میں پلنے والے بڑے بڑے مجرِم مَدَنی ماحول میں آکر اَلحمدُ لِلّٰہ سنّتوں کے سانچے میں ڈھل گئے۔ آیئے ! اِس ضِمن میں ایک ” مَدَنی بہار“ سنتے ہیں، چُنانچِہ گجرات(پنجاب،پاکستان) کے مقیم اسلامی بھائی کے بیان کاخلاصہ پیشِ خدمت ہے:عاشقانِ رسول کی دینی تحریک ، ’’ دعوتِ اسلامی“ کے دینی ماحول سے وابَسْتہ ہونے سے قبل وہ گناہوں کی تاریکیوں میں گم تھے۔ غفلت کے اندھیروں نے اُنہیں دین سے عَمَلاً اِس قدر دُور کر رکھا تھا کہ نماز،روزے کی کچھ پر واہ نہ تھی۔ایک روزجب حسبِ معمول اُن کے قاری صاحِب گھرمیں اُنہیں قرآنِ پاک پڑھانے کے لیے آئے تواُس وقت وہ T.V.پر ڈرامہ دیکھنے میں مصروف تھے، اُنہوں نے کہا:”قاری صاحِب! آپ تشریف رکھئے میں ڈرامہ دیکھ کر ابھی آرہاہوں بس تھوڑا ہی رہ گیا ہے۔“قاری صاحِب کاحوصلہ بھی کمال کا تھا،ڈانٹ ڈپٹ کے بجائے نہایت ہی شَفْقَت سے اِنفرادی کوشِش کرتے ہوئے اُنہوں نے دعوتِ اسلامی کےمکتبۃُ الْمدینہ کا مطبوعہ رسالہ ”ٹی وی کی تباہ کاریاں“ پڑھ کراُن کو سنایا۔رسالہ سن کربے اختیارندامت و شرمندگی اُن پر غالِب آئی اور وہ خوفِ خدا سے سرتا پا لرز اُٹھے!قاری صاحِب کی نصیحت پرعمل کرتے ہوئے اُنہوں نے جب اپنی گزشتہ زندگی کا اِحتساب کیا تو اُن کا دل رونے لگا کہ آہ!صد ہزار آہ! میں نے زندگی کا اِتنا بڑا حصّہ فُضُولیات و لغوِیات میں صَرف ہوگیا اور اِس کا اِحساس تک نہ ہوا! اَلحمدُ لِلّٰہ اُنہوں نے صِدقِ دل سے توبہ کی اورعَزمِ مُصَمّم کر لیا کہ آئندہ اِن شاءَ اللہ گناہوں سے بچتے رہیں گے،نماز کی پابندی کرتے ہوئے سنّتوں بھری زندگی گزارنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نافرمانی، جھوٹ،غیبت،چغلی اور وعدہ خِلافی وغیرہ وغیرہ سے بچتے رہیں گے۔ اَلحمدُ لِلّٰہ دعوتِ اسلامی کے مُشْکْبار دینی ماحول نے ان کی کایا پلٹ دی اور ایسا بگڑا ہوا انسان بھی سُدھرنے پر کمر بستہ ہوگیا۔اللہ پاک سے دعاہے کہ ہمیں دینی ماحول میں اِستِقامت عطا فرمائے۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہ علیهِ واٰله وسلّم تُو نرمی کو اپنانا جھگڑے مٹانا رہے گا سدا خوشنما مَدَنی ماحول تُو غصّے جھڑکنے سے بچنا وگرنہ یہ بدنام ہو گا ترا مَدَنی ماحول (وسائل بخشش، ص 604) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدانفِرادی کوشِش کرنا سنت ہے
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اِس مَدَنی بہار میں انفرادی کوشش اور دعوتِ اسلامی کےمکتبۃُ الْمدینہ کا رسالہ ”ٹی وی کی تباہ کاریاں“ پڑھ کر سنانے کی بَرَکت کا بیان ہے،ہم سبھی کو چاہئے کہ موقع بہ موقع اِنفرادی کوشِش کے ذریعے نیکی کی دعوت کی ترکیب کیا کریں۔یقیناً انفِرادی کوشِش کے ذریعے نیکی کی دعوت دینا ہمارے میٹھے میٹھے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پیاری پیاری سنّت ہے اوربے شمار احادیثِ مبارکہ اِس پر دالّ(یعنی دلیل) ہیں۔مَدَنی بیگ اور لنگرِ رسائل
بیان کردہ مَدَنی بہار میں ”ٹی وی کی تباہ کاریاں “ رسالے کا بھی ذِکر موجود ہے کہ جب قاری صاحِب نے اپنے شاگِرد کو مذکورہ رِسالہ پڑھ کر سنایا تو اُن کو توبہ کی سعادت نصیب ہوئی،وہ نمازی بنے اور دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے وابَسْتہ ہوئے۔جن جن اسلامی بھائیوں اوراسلامی بہنوں سے بن پڑے ایک” مَدَنی بیگ“خریدلیں اور اُس میں حسبِ توفیق مکتبۃُ الْمدینہ کے مطبوعہ رسائل،سنّتوں بھرے بیانات کی کیسٹیں وغیرہ رکھیں۔ بے شک سارا دن نہ سہی صِرف حسبِ موقع وہ مدنی بیگ اپنے ساتھ ہو اور رسائل وغیرہ دوسروں کو تحفۃً پیش کئے جائیں۔موقع کی مُناسبت سے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ بعض کو صرف پڑھنے کیلئے دیں،جب وہ پڑھ کر لوٹا دیں تو دوسرا رِسالہ پیش کریں اِسی طرح کیسٹوں اور بڑی کتابوں کی بھی ترکیب کی جاسکتی ہے۔یوں کرنے سے آپ بے اندازہ ثواب کما سکتے ہیں مگر یہ سب کچھ اپنی جیبِ خاص سے ہو اِس کیلئے چندہ نہ کیا جائے۔نیز جشنِ ولادت کے موقع پر یا اپنے مرحوم عزیزوں کے ایصالِ ثواب کیلئے مختلف اوقات میں لنگرِ رسائل کی ترکیب بھی فرمایئے۔درس و اجتماعات اور مدنی مشوروں میں اور ایصالِ ثواب کی مجالس میں مکتبۃُ الْمدینہ کے مَدَنی رسائل وغیرہ تقسیم فرما کر خوب خوب نیکی کی دعوت عام کرنے کا ثواب کمایئے۔ ؎ بانٹئے مَدَنی رسائل مَدَنی بیگ اپنایئے اور حقدارِ ثوابِ آخِرت بن جایئے صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
1]…طاعون کو انگلش میں پلیگ(PLAGUE)بولتے ہیں،یہ چوہے کے پِسّوؤں کے کاٹنے سے لاحق ہونے والا مُہْلِک مرض ہے،اس میں چھاتی،بغل یا خُصئے کے نیچے گلٹیاں(یعنی گانٹھیں) نکلتی ہیں اور تیز بخار ہوجاتا ہے۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع