اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
گناہ کی پہچان
فرمانِ آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : قیامت کے روز اللہ پاک کے عرش کے سوا کوئی سایہ نہیں ہو گا، تین شخص اللہ پاک کے عرش کے سائے میں ہوں گے۔ عرض کی گئی: یَا رَسُولَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !وہ کون لوگ ہوں گے؟ارشاد فرمایا:(1) وہ شخص جو میرے اُمّتی کی پریشانی دُور کرے( 2) میری سُنّت کو زِندہ کرنے والا( 3) مجھ پر کثرت سے دُرود شریف پڑھنے والا۔ (البدور السافرہ، ص 131، حدیث: 366)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
سوال:خطاپرگُناہ کا اطلاق کب ہوتا ہے؟ نیزکیا شریعت میں بھول پر بھی گناہ ملتا ہے؟ مثلاً: بحالتِ روزہ غلطی و بھول سے کھا،پی لیا، یا نماز کا وقت گزرجانے کے بعد نماز یاد آئی، تو اس کا کیا حکم ہوگا؟
جواب: روزہ دار کو اگر روزہ یاد نہ ہو اور کھا، پی لے،تو اس صورت میں روزہ نہیں جاتا، چہ جائیکہ گناہ ہو اور اگر روزہ یاد ہے،مگر کلّی کرتے وقت غلطی سے پانی حلق میں چلا گیا، تو اس صورت میں روزہ تو ٹوٹ جائے گا ،لیکن اس صورت میں گناہ نہیں، البتہ روزے کی قضاء لازم ہے۔یہی معاملہ نماز کا ہے، اگر کسی شخص کو نماز پڑھنا یاد نہیں رہا، یا سوتا رہ گیا اور نماز کا وقت نکل گیا تو جب یاد آئے تب پڑھ لے کہ اب قضا پڑھنا ذمے پر فرض ہے۔
البتہ اس صورت میں نماز قضا کرنے کا گناہ نہیں ملے گا۔سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: یعنی جو شخص نماز کو بھول جائے یانماز کے وقت میں سوتا رہ جائے ،تو جب اسے یاد آئے اسی وقت نماز پڑھ لے کہ یہی اس کا وقت ہے۔( )
اس حدیثِ مبارک میں سونے والے شخص کی صِرف نیند کی وجہ سے نماز رہ گئی اور قصداً تَرْک کی صورت نہیں پائی گئی، تو بتا دیا گیا کہ اسے نماز چھوڑنے کا گناہ نہیں ملے گا، اسی طرح اگر نماز پڑھنا بھول گیا حتیٰ کہ نمازکاوقت بھی نکل گیا، تو اب بھی گناہ نہیں،لیکن نماز کی قضاء بہرصورت لازِم ہوگی۔
سوال: دل اگر گناہوں کی وجہ سے زنگ آلود ہوجائے، مُردہ و سیاہ ہوجائے،تو اس زنگ، سیاہی اور دل کے مُردہ پن کو دور کرنے کے کیا طریقے ہیں؟
جواب: دل کے زنگ کو دور کرنے کا سب سے بڑا اور بہترین ذریعہ اللہ عَزَّ وَ جَلَّ اور اس کے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت اور اللہ عَزَّ وَ جَلَّ کا خوف ہے، یہ وہ عظیم چیزیں ہیں، جن کے ذریعے دل کا زنگ دور ہوتا ہے، اب رہی یہ بات کہ’’ محبتِ رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم “ کا وہ کون سا پہلو ہے جس سے دل کا زنگ دور ہوتا ہے ؟اور خوفِ خدا کی کس کیفیت کے ذریعے دل کا میل دور کیا جا سکتا ہے؟ تو یاد رکھیں کہ محبّت کا اصل مفہوم ’’قلب کا میلان نیزدل کا پسندیدہ چیز کی طرف مائل ہونا ہے۔‘‘ پھرخوفِ خدا عَزَّ وَ جَلَّ اور محبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی برکت سے جب نیچے بیان کیے گئے اعمال پر استقامت نصیب ہو جائے، تو دلوں کا زنگ اتر جاتا ہے۔وہ اعمال یہ ہیں:
(1) تلاوت قرآنِ مجید:
قرآنِ پاک کی تلاوت تَدَبُّر یعنی غورو فکر کے ساتھ ہو،نیز سمجھ کر اور ظاہری وباطنی آداب کے ساتھ تلاوت کی جائے۔ یہاں آداب سے مراد شرعی اَحکام کے ساتھ اس کے مستحبات کا خیال رکھنا ہے ، جیسے تلاوت کرتے ہوئے پوری توجہ قرآن پاک کی طرف ہو، قاری کلامِ الٰہی کا تصور کرتے ہوئے اور یوں پڑھے جیسے اللہ عَزَّ وَ جَلَّ سے ہم کلام ہورہا ہے اور وہ محسوس کرے کہ قرآنِ پاک کی نورانیت اس کے دل میں داخل ہورہی ہے اور قرآنِ مجید اس کے دل کا زنگ دھو رہا ہے۔اگر کوئی شخص قرآنِ کریم کو ان حَسِین تصوّرات کے ساتھ سمجھتے ہوئے پڑھے گا، تو اِن شاءَ اللہ عَزَّ وَ جَلَّ اس کے دل کا زنگ بہت تیزی کے ساتھ دور ہوگا۔
(2)ذکرِ الٰہی:
اسی طرح اگراللہ عَزَّ وَ جَلَّ کا ذِکر،فکرو توجہ کے ساتھ ہو اور بے تَوَجّہی و غفلت نہ پائی جائے، بلکہ بطورِ خاص بارگاہِ الٰہی کی حاضری کو دل و دماغ میں جماتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا ذِکر کیا جائے ، ذکرِ الٰہی کے کلمات جیسے”لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ “،”سُبْحَانَ اللہِ وَاللہُ اَکْبَر “،”وَلَا حَوْلَ وَلَاقُوَّةَ اِلَّابِاللہِ“،”سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم“،”سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْم “یہ اور اس طرح کے جتنے بھی اذکار ہیں ان کے ذریعےاللہ تعالیٰ کو یاد کیا جائے، یونہی ذِکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی نعمتیں یاد کی جائیں، تو ایسے ذِکر کی برکت سےدل کی نورانیت میں بہت تیزی سے اضافہ ہوتا ہے۔
(3) موت کی یاد:
موت ،قبراورآخرت یہ تین چیزیں وہ ہیں،جودل کی سیاہی دور کرنے میں بہت مُعاوِن ہیں۔ آدمی موت کو یاد کرتا ہے ،تواس کا دل نرم پڑجاتا ہے۔ وہ قبروں کو دیکھتا اور دوسروں کی موت پر توجہ کرتا ہے،تو اسے اپنی قبر یاد آتی ہے۔وہ قبر میں جانے اوراپنے بدن کی بوسِیدْگی یاد کرتا ہے،تو اُس کا دل نرم پڑتا ہے۔ وہ آخرت کے معاملات، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیشی اور حاضری کا تصور کرتا ہے، نامۂ اعمال دیئے جانے ،قیامت کی گرمی، حشر کی پیاس اورپل صراط سے گزرنے کویاد کرتا ہے،تو اس کے دل سے دنیا کی محبّت، گناہوں کی لذّت اور خواہشات کی کثرت نکل جاتی ہےاور اسے ظلمتِ قلب سے نَجات مل جاتی ہے۔ اسی کو ”شرحِ صدر “ بھی کہا جاتا ہے ، حدیثِ پاک میں ہے، نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: یعنی نور جب سینہ میں داخل ہوتا ہے ،تو سینہ کُھل جاتا ہے، تو عرض کی گئی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !کیا اس کی کوئی نشانی ہے جس سے نور پہچانا جائے؟ ارشاد فرمایا: ہاں دھوکے کی جگہ (دنیا) سے دور رہنا، دائمی گھر (آخرت)کی طرف رجوع کرنا اور موت آنے سے پہلے اس کی تیاری کرنا۔( )
(4) صحبتِ صالحین:
اچھی صحبت دل کا زنگ دور کرنے کے لیے عملی طورپر سب سے زیادہ مؤثّر ہے۔ بعض اوقات ایک اچھی نشست آدمی کی زندگی بھر کے زنگ کو دور کردیتی ہے ،جیسے ہمارے سامنے بیسیوں نہیں ، بلکہ سینکڑوں ایسے واقعات ہیں کہ کسی نیک آدمی کی صحبت میں بیٹھنے یا اس کے ساتھ ایک سفر کرنے سے دل کی دنیا بدل گئی اور اِتّباعِ سنت و شریعت کی توفیق نصیب ہوگئی ۔ زندگی میں اتنی بڑی تبدیلی درحقیقت دل کا زنگ صاف ہونے کے سبب ہے کہ جب دل کی سیاہی زائل ہوتی ہے، تو دل میں ایسی نرمی ، چمک، روشنی اور نور پیدا ہوجاتا ہے کہ آدمی فوراً متوجّہ اِلَی اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور نیکیوں کے راستے پر چل پڑتا ہے۔ صحبتِ صالحین کی برکت سے آدمی کوخوفِ خدا، محبتِ الٰہی اور عشق ِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نصیب ہوجاتا ہے،قرآنِ پاک کی تلاوت کی توفیق ملتی اور ذِکْر و دُرود میں مشغولیت کا ذوق پیدا ہوتاہے۔ موت اورقبر وآخرت کی یاد بھی نصیب ہو جاتی ہے۔ الغرض اگر زیادہ توجہ اچھی صحبت کے حصول پر کرلی جائے، تو اوپر درج تمام چیزوں کا حصول بہت آسان ہوجاتا ہے۔ اچھی صحبتیں ویسے تو کم یاب ہیں ،مگر ناپید نہیں، سچی طلب کے ساتھ کوشش کرنے والوں کو آج بھی اچھی صحبت نصیب ہوجاتی ہے ۔ فردِ واحد کا قُرب نہ بھی ملے تب بھی ایک اجتماعی نیک ماحول ضرور دستیاب ہے، جیسے دعوت اسلامی کے ہفتہ وار اجتماعات اور مدنی قافلے۔ اگر کوئی شخص انہیں اختیار کرلیتا ہے، تو اللہ تعالیٰ سے بہت حُسنِ ظَن ہے کہ اسے نیک صحبت کی برکتیں عطا فرمادے۔
سوال: گناہ کی پہچان کا کیا طریقہ ہے،جسےاپنا کر گناہوں سے بچا جاسکتا ہے؟
جواب:گناہ کی پہچان کا سب سے پہلا طریقہ حصولِ علم ہی ہے، کیونکہ علم ہی سب سے بڑا ذریعہ ہے جس کے ذریعے گناہ کی پہچان ہوگی۔ اس علم کی کئی جہتیں ہیں، جیسے اگر گناہِ کبیرہ کی تعریف پوری طرح ذہن میں ہو ،تو آدمی بہت سے امور میں گناہ کا حکم فوری طور پر جان لے گا۔ اسی طرح گناہِ صغیرہ کی تعریف معلوم ہو، تو اس سے بہت سارے گناہوں کا پتا چل جائے گا ،جیسے فرض کا ترک گناہِ کبیرہ ہے، واجب کا ترک گناہ ِصغیرہ ہے، لیکن گناہِ صغیرہ بار بار کیا جائے، تو گناہ ِ کبیرہ بن جائے گا۔ سنّتِ مؤکّدہ کے تَرک پر اصرارکرنا ،جیسے ظہر کی پہلی چار سنّت بار بار نہ پڑھنا، گناہ کی حد میں داخل کردیتا ہے ۔ پھر اسی طرح قرآن و حدیث میں وہ چیزیں جن سے صراحتاً منع کیا گیا ہےوہ گناہ ہیں،مثلاً: اپنی جانوں کو قتل کرنا اوربدکاری کرنا، اپنی اولاد کوقتل کرنا وغیرہ، چنانچہ ارشاد فرمایا:
(وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-) (پ 5، النسآء: 29) ترجمہ:اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو۔
(وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى)(پ 15، بنی اسرائیل: 32) ترجمہ:زنا کے پاس نہ جاؤ۔
(وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ)(پ 8، الانعام:151) ترجمہ:اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔
اس طرح کی وہ ساری آیات جن میں خصوصی طور پر کوئی حکم یا ممانعت بیان کی گئی ہو، ان کے پڑھنے سےمعلوم ہوجاتا ہے کہ فلاں فلاں کام ناجائز و حرام ہیں مثلا کوئی شخص جب قرآن پاک کی یہ آیت پڑھے گا ۔
(اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۱۹))(پ 18، النور: 19) ترجمہ: بیشک جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بےحیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
یہ آیت پڑھتےیاسنتےہی اسے پتا چل جائے گا کہ بے حیائی پھیلانا حرام ہے، یونہی اگلی آیت پڑھتے ہی واضح ہوجائےگا کہ بے حیائی بذات خود بھی حرام ہے،فرمایا:
(وَ یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِۚ-)(پ 14، النحل: 90) ترجمہ:اور(اللہ)بے حیائی اور ہر بُری بات اور ظلم سے منع فرماتا ہے۔
اسی طرح درج ذیل آیت پڑھتے ہی معلوم ہوجائے گا کہ کسی یتیم کا مال اپنے تصرف میں لانا کیسا ہے ؟ چنانچہ فرمایا:
(اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًاؕ-وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا۠(۱۰)) (پ 4، النسآء:10) ترجمہ:بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آگ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔
معلوم ہوا کہ گناہوں کی پہچان کے لیےعلم ہونا ضروری ہے ،لہٰذا علم میں اضافے کے لیے کلام پاک اور احادیث ِ طیبہ کو فہم و تدبر کے ساتھ پڑھنا ، سمجھنا ،نیز دینی کتابیں پڑھنا نہایت اہم اور مفید ہے۔
قرآن و حدیث میں صراحتاً مذکور گناہوں کے علاوہ علمائے کرام نے عُلومِ دینیہ کے فہم و تدبرکے ذریعے بھی بہت سے گناہوں کو بیان کیا ہوتا ہے، جو صراحتاً قرآن و حدیث میں مذکور نہیں ہیں،لیکن ان ہی کی روشنی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی ناجائز ہیں، جیسے ریا کاری کی باریکیاں ۔ اب ریاکاری کے بارے میں قرآن پاک کی آیت تو اتنی ہے کہ ریا کاری کے ذریعے اپنے اعمال برباد نہ کرو:
(یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-كَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ) (پ 3، البقرۃ:264) ترجمہ:اے ایمان والو! احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے برباد نہ کردو، اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھلاوے کے لئے خرچ کرتا ہے۔
یا دیگر آیات ہیں جن میں ریا کاری کی وجہ سے عمل برباد ہونے کا بیان ہے، لیکن ریا کاری کی تفصیلات اور مختلف صورتیں علما ئے کرام ہی نے مستنبط کی ہیں۔ اکابرین کی اسی استنباط پر مشتمل ایک کتاب ’’اَلزَّوَاجِر‘‘ بنام ’’جہنّم میں لے جانے والے اعمال‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ دعوتِ اسلامی) بھی ہے، یہ کتاب اس حوالے سے بہت زیادہ جامع ہے۔ لیکن ایک بات یہاں قابلِ توجہ ہے کہ معلومات ہونا اور بات ہوتی ہے اور معلومات کے مطابق عمل کرنا دوسری بات ہے، کس کو نہیں پتا کہ نماز فرض ہے، یقیناً نماز کی فرضیت کا سبھی کو علم ہوتا ہے مگرایک بڑی تعدادعلم کے باوجود نماز نہیں پڑھتی۔ معلوم ہوا کہ صرف معلومات ہی کافی نہیں ہوتیں اس کے ساتھ دل میں جذبہ ، ترغیب اورعمل کی نیّت ہونا بھی ضروری ہے، اس کے بغیر صرف کتابیں ہی پڑھتے رہنا مفید نہیں۔ ایسے لوگ دیکھے جاتے ہیں کہ جنہوں نے پوری صِحاح سِتّہ (حدیث کی مستند چھ کتب)پڑھی ہوتی ہیں،لیکن اس کے باوجود نماز کا کوئی جذبہ نہیں پایا جاتا، یا دیگر نیک اعمال کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوتی یا دیگر اعمال میں کمی، کوتاہی موجود ہوتی ہے، لہٰذاعلم کے ساتھ عمل بھی ہونا چاہیے اور عمل کے لیے دل میں ترغیب و ترہیب کی موجودگی نہایت مفید ہے اوران دونوں کے حصول کے دوطریقے ہیں:
پہلا طریقہ: تو یہ ہے کہ صرف اَحکام ہی نہ پڑھے جائیں، بلکہ اس عمل کے فضائل اور وعیدیں بھی پڑھیں یعنی نیک عمل کی فضیلت اورعملِ بد یعنی گناہ کی وعیدیں پڑھیں ،اس کی برکت سے دل پر چوٹ لگتی ہے اور وہ عمل کی طرف مائل ہوتا ہے۔
دوسرا طریقہ:اچھی صحبت ہے۔اچھی صحبت، دل میں عمل کا جذبہ پیدا کرتی ہے، ورنہ محض معلومات اکثر وبیشتر عمل کے لیے کفایت نہیں کرتیں۔
... ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، باب من نام عن الصلاة او نسيہا،ص227،حدیث695
… شعب الایمان، باب فی الزھد و قصر الامل، 7/352، حدیث10552