Gunnah Ki Pehchan
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Gunnah Ki Pehchan | گناہ کی پہچان

    Gunnah Ki Pehchan Ka Tarika

    گناہ کی پہچان
    اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیِّیْنْ 
    اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط

    گناہ کی تعریف

    سوال:خطاپرگناہ کا اطلاق کب ہوتا ہے؟ نیزکیا شریعت میں بھول پر بھی گناہ ملتا ہے؟ مثلاً: بحالتِ روزہ غلطی و بھول سے کھا،پی لیا، یا نماز کا وقت گزرجانے کے بعد نماز یاد آئی، تو اس کا کیا حکم ہوگا؟
    جواب: روزہ دار کو اگر روزہ یاد نہ ہو اور کھا، پی لے،تو اس صورت میں روزہ نہیں جاتا،       چہ جائیکہ گناہ ہو اور اگر روزہ یاد ہے،مگر کلی کرتے وقت غلطی سے پانی حلق میں چلا گیا، تو اس صورت میں روزہ تو ٹوٹ جائے گا ،لیکن اس صورت میں  گناہ نہیں، البتہ روزے کی قضاء لازم ہے۔
    یہی معاملہ نماز کا ہے،  اگر کسی شخص کو نماز پڑھنا یاد نہیں رہا، یا سوتا رہ گیااور نماز کا وقت نکل گیا تو جب یاد آئے تب پڑھ لے کہ اب قضا پڑھنا ذمے پر فرض ہے۔البتہ اس صورت میں نماز  قضا کرنے  کا گناہ نہیں ملے گا۔سرکارِ دو عالم  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا: یعنی جو شخص نماز کو بھول جائے  یانماز کے وقت میں سوتا رہ جائے ،تو جب اسے یاد آئے اسی وقت نماز پڑھ لے کہ یہی اس کا وقت ہے۔( )
    اس حدیث مبارک میں سونے والے شخص کی صِرف نیند کی وجہ سے نماز رہ گئی اور قصداً تَرْک کی صورت نہیں پائی گئی، تو بتا دیا گیا کہ اسے نماز چھوڑنے کا گناہ نہیں ملے گا، اسی طرح اگر نماز پڑھنا بھول گیا حتی کہ نمازکاوقت بھی نکل گیا، تو اب بھی گناہ نہیں،لیکن نماز کی قضاء بہرصورت لازِم ہوگی۔

    دل کا زنگ دور کرنے کے4 طریقے

    سوال: دل اگر گناہوں کی وجہ سے زنگ آلود ہوجائے، مُردہ و سیاہ ہوجائے،تو اس زنگ، سیاہی اور دل کے مُردہ پن کو دور کرنے کے کیا طریقے ہیں؟
    جواب: دل کے زنگ کو دور کرنے کا سب سے بڑا اور بہترین ذریعہ  اللہ  عَزَّ وَ جَلَّ  اور اس کے رسولِ کریم   صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کی محبت اور اللہ   عَزَّ وَ جَلَّ  کا خوف ہے، یہ وہ عظیم چیزیں ہیں،جن کے ذریعے دل کا زنگ دور ہوتا ہے، اب رہی یہ بات کہ’’ محبتِ رسول  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم   ‘‘ کا وہ  کون سا  پہلو ہے  جس سے دل کا زنگ دور ہوتا ہے ؟اور خوفِ خدا کی کس کیفیت  کے ذریعے دل کا میل دور کیا جا سکتا ہے؟ تو یاد رکھیں کہ محبت کا اصل مفہوم ’’قلب کا میلان نیزدل کا پسندیدہ چیز کی طرف مائل ہونا ہے۔‘‘  پھرخوفِ خدا  عَزَّ وَ جَلَّ اور محبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم   کی برکت سے جب نیچے بیان کیے گئے اعمال پر استقامت نصیب ہو جائے، تو دلوں کا زنگ اتر جاتا ہے۔وہ اعمال یہ ہیں:
    (1)تلاوت قرآنِ مجید:
    قرآن پاک کی تلاوت تَدَبُّر یعنی  غورو فکر کے ساتھ ہو،نیز سمجھ کر اور ظاہری وباطنی آداب کے ساتھ تلاوت کی جائے۔ یہاں آداب سے مراد  شرعی اَحکام  کے  ساتھ اس کے مستحبات کا خیال رکھنا ہے ، جیسے  تلاوت کرتے ہوئے پوری توجہ قرآن پاک کی طرف ہو،قاری  کلامِ الٰہی  کا تصور کرتے ہوئے اور یوں پڑھے جیسے  اللہ  عَزَّ وَ جَلَّ   سے ہم کلام ہورہا ہےاور وہ محسوس کرے کہ  قرآنِ پاک کی نورانیت اس کے دل میں داخل ہورہی ہے اور قرآن مجید اس کے دل کا زنگ  دھو رہا ہے۔اگر کوئی شخص قرآن کریم کو ان حَسِین تصورات کے ساتھ سمجھتے ہوئے پڑھے گا، تو ان شاء اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اس کے دل  کا زنگ بہت تیزی کے ساتھ دور ہوگا۔
    (2)ذکر الٰہی:
    اسی طرح اگر اللہ  عَزَّ وَ جَلَّ   کا ذِکر،فکرو توجہ کے ساتھ ہو اور بے تَوَجُّہی و غفلت نہ پائی جائے، بلکہ بطورِ خاص بارگاہِ الٰہی کی حاضری کو دل و دماغ میں جماتے ہوئے اللہ تعالیٰ  کاذِکرکیاجائے ، ذکرِ الٰہی کے کلمات جیسے’’ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ ‘‘،’’سُبْحَانَ اللہِ وَاللہُ اَکْبَر ‘‘،’’وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللہِ ‘‘،’’سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم‘‘،’’ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْم ‘‘یہ اور اس طرح کے جتنے بھی اذکار ہیں ان کے ذریعےاللہ تعالیٰ کو یاد کیا جائے، یونہی ذِکر کرتے ہوئے اللہ تعالی کی نعمتیں یاد کی جائیں، تو ایسے ذِکر کی برکت سےدل کی نورانیت میں بہت تیزی  سے اضافہ ہوتا ہے۔
    (3)موت کی یاد: 
    موت ،قبراورآخرت یہ تین چیزیں وہ ہیں،جودل کی سیاہی دور کرنے میں بہت مُعاوِن ہیں۔ آدمی موت کو یاد کرتا ہے ،تواس کا دل نرم پڑجاتا ہے۔ وہ  قبروں کو دیکھتا اوردوسروں کی موت پر توجہ کرتا ہے،تو اسے اپنی قبر یاد آتی  ہے۔وہ  قبر میں جانے اوراپنے بدن کی بوسِیدْگی یاد کرتا ہے،تو اس کا دل نرم پڑتا ہے۔ وہ  آخرت کے معاملات، اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیشی اور حاضری کا تصور کرتا ہے، نامہ اعمال دیئے جانے ،قیامت کی گرمی،  حشر کی پیاس اورپل صراط سے گزرنے  کویاد کرتا ہے،تو اس کے دل سے دنیا کی محبت، گناہوں کی لذت اور خواہشات کی کثرت نکل جاتی ہےاور  اسے ظلمتِ قلب سے نجات مل جاتی ہے۔اسی کو شرحِ صدر بھی کہا جاتا ہے ، حدیث پاک میں ہے، نبی کریم   صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا: یعنی نور جب سینہ میں داخل ہوتا ہے ،تو سینہ کُھل جاتا ہے، تو  عرض کی گئی: یارسول اللہ  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم !کیا اس کی کوئی نشانی ہے جس سے نور پہچانا جائے؟ ارشاد فرمایا: ہاں دھوکے کی جگہ (دنیا) سے دور رہنا، دائمی گھر (آخرت)کی طرف رجوع کرنا اور موت آنے سے پہلے اس کی تیاری کرنا۔( )

    (4)صحبتِ صالحین: 
    اچھی صحبت دل کا زنگ دور کرنے کے لیے عملی طورپر سب سے زیادہ موثر ہے۔ بعض اوقات ایک اچھی نشست آدمی کی زندگی بھر کے زنگ کو دور کردیتی ہے ،جیسے ہمارے سامنے بیسیوں نہیں ، بلکہ سینکڑوں ایسے واقعات ہیں کہ کسی نیک آدمی کی صحبت میں بیٹھنے یا اس کے ساتھ ایک سفر کرنے سے دل کی دنیا بدل گئی اور اِتّباعِ سنت و شریعت کی توفیق نصیب ہوگئی ۔ زندگی میں اتنی بڑی تبدیلی  درحقیقت دل کا زنگ صاف ہونے کے سبب ہے کہ جب  دل کی سیاہی زائل ہوتی  ہے، تو دل میں ایسی نرمی ، چمک، روشنی اور نور پیدا ہوجاتا ہے کہ آدمی فوراً  مُتَوَجِّہ اِلَی اللہ یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور نیکیوں کے راستے پر چل پڑتا ہے۔ صحبتِ صالحین  کی برکت سے آدمی کوخوفِ خدا، محبت الٰہی اور عشق ِ مصطفی  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نصیب ہوجاتا ہے،قرآن پاک کی تلاوت کی توفیق ملتی اور ذِکْر و دُرود میں مشغولیت کا ذوق  پیدا ہوتاہے۔ موت  اورقبر وآخرت کی یاد بھی نصیب ہو جاتی ہے۔ الغرض اگر زیادہ توجہ اچھی صحبت کے حصول پر کرلی جائے، تو اوپر درج تمام  چیزوں کا حصول  بہت آسان ہوجاتا ہے۔ اچھی صحبتیں ویسے تو کم یاب ہیں ،مگر ناپید نہیں، سچی طلب کے ساتھ کوشش کرنے والوں کو آج بھی اچھی صحبت  نصیب ہوجاتی ہے ۔ فردِ واحد کا قُرب نہ بھی ملے تب بھی ایک اجتماعی نیک ماحول ضرور دستیاب ہے، جیسے دعوت اسلامی کے ہفتہ وار اجتماعات اور مدنی قافلے۔ اگر کوئی شخص انہیں اختیار کرلیتا ہے ،تو اللہ تعالیٰ سے بہت حسنِ ظن ہے کہ اسے نیک صحبت کی برکتیں عطا فرمادے۔  

    گناہ کی پہچان کا طریقہ

    سوال: گناہ کی پہچان کا کیا طریقہ ہے،جسےاپنا کر گناہوں سے بچا جاسکتا ہے؟
    جواب:گناہ کی پہچان کا سب سے پہلا طریقہ حصولِ علم ہی ہے،  کیونکہ علم ہی سب سے بڑا ذریعہ ہے جس کے ذریعے گناہ کی پہچان ہوگی۔ اس علم کی کئی جہتیں ہیں، جیسے اگر گناہِ کبیرہ کی تعریف پوری طرح ذہن میں ہو ،تو آدمی بہت سے امور میں گناہ کا حکم فوری طور پر جان لے گا۔ اسی طرح گناہِ صغیرہ کی تعریف معلوم ہو، تو اس سے بہت سارے گناہوں کا پتا چل جائے گا ،جیسے فرض کا ترک  گناہِ کبیرہ ہے،  واجب کا ترک گناہ ِصغیرہ ہے، لیکن  گناہِ صغیرہ بار بار  کیا جائے، تو گناہ ِ کبیرہ بن جائے گا۔ سنتِ مؤکدہ کے ترک پر اصرارکرنا ،جیسے ظہر کی پہلی چار سنت بار بار نہ پڑھنا، گناہ کی حد میں داخل کردیتا ہے ۔  پھر اسی طرح قرآن و حدیث میں وہ چیزیں جن سے صراحتا منع کیا گیا ہےوہ گناہ ہیں،مثلاً: اپنی جانوں کو قتل کرنا اوربدکاری کرنا، اپنی اولاد کوقتل  کرنا وغیرہ، چنانچہ ارشاد فرمایا:
    (وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُم ) ( ) ترجمہ:اور اپنی جانوں کو قتل نہ کرو۔ 

    (وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى) ( ) ترجمہ:زنا کے پاس نہ جاؤ۔

    (وَ لَا تَقْتُلُوْۤا اَوْلَادَكُمْ) ( ) ترجمہ:اور  اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔
    اس طرح  کی وہ ساری آیات  جن میں خصوصی طور پر کوئی حکم یا ممانعت بیان کی گئی ہو، ان کے  پڑھنے سےمعلوم ہوجاتا ہے کہ فلاں فلاں کام ناجائز و حرام ہیں مثلا کوئی شخص جب  قرآن پاک کی  یہ آیت پڑھے گا ۔
    (اِنَّ الَّذِیْنَ یُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِیْعَ الْفَاحِشَةُ فِی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌۙ-فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِؕ-وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ) ( ) ترجمہ:بیشک جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بےحیائی کی بات پھیلے ان کے لیے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
    یہ آیت پڑھتےیاسنتےہی اسے پتا چل جائے گا کہ بے حیائی پھیلانا حرام ہے، یونہی اگلی آیت پڑھتے ہی واضح ہوجائےگا کہ بے حیائی بذات خود بھی حرام ہے،فرمایا:
    (و یَنْهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ وَ الْبَغْیِ)( ) ترجمہ:اور(اللہ)بے حیائی اور ہر بُری بات اور ظلم سے منع فرماتا ہے۔
    اسی طرح درج ذیل آیت پڑھتے ہی معلوم ہوجائے گا کہ کسی یتیم کا مال  اپنے تصرف میں لانا کیسا ہے ؟ چنانچہ فرمایا:
    (اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا) ( ) ترجمہ:بیشک وہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بالکل آگ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں جائیں گے۔
    معلوم ہوا کہ  گناہوں کی پہچان کے لیےعلم ہونا ضروری ہے ،لہٰذا علم میں اضافے کے لیے کلام پاک اور احادیث ِ طیبہ کو فہم و تدبر کے ساتھ  پڑھنا ، سمجھنا ،نیز دینی کتابیں پڑھنا نہایت اہم اور مفید ہے۔  
    قرآن و حدیث میں صراحتاً مذکور گناہوں کے علاوہ علمائے کرام نے علوم دینیہ کے فہم و تدبرکے ذریعے بھی بہت سے  گناہوں کو بیان کیا ہوتا ہے، جو صراحتاً قرآن و حدیث میں مذکور نہیں ہیں،لیکن ان ہی کی  روشنی سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی ناجائز ہیں، جیسے ریا کاری کی باریکیاں ۔ اب ریاکاری کے بارے میں قرآن پاک کی آیت تو اتنی ہے  کہ ریا کاری کے ذریعے اپنے اعمال برباد نہ کرو:
    ( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-كَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ)( ) ترجمہ:اے ایمان والو! احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے برباد نہ کردو،اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھلاوے کے لئے خرچ کرتا ہے۔
    یا دیگر آیات ہیں  جن میں ریا کاری کی وجہ سے عمل برباد ہونے کا بیان ہے، لیکن  ریا کاری کی  تفصیلات اور مختلف صورتیں  علما ئے کرام  ہی نے مستنبط کی ہیں۔ اکابرین کی اسی استنباط پر مشتمل ایک کتاب ’’الزواجر‘‘ بنام ’’جہنم میں لے جانے والے اعمال‘‘ (مطبوعہ مکتبۃ المدینہ دعوتِ اسلامی)  بھی ہے، یہ کتاب اس حوالے سے بہت زیادہ جامع ہے۔
    لیکن ایک بات یہاں قابلِ توجہ ہے کہ معلومات ہونا اور بات ہوتی ہے اور معلومات کے مطابق عمل کرنا دوسری بات ہے، کس کو نہیں پتا کہ نماز فرض ہے، یقینا نماز کی فرضیت کا سبھی کو علم ہوتا ہے مگرایک بڑی تعدادعلم کے باوجود نماز نہیں پڑھتی۔ معلوم ہوا کہ صرف معلومات  ہی کافی نہیں ہوتیں اس کے ساتھ دل میں جذبہ ، ترغیب اورعمل کی نیت ہونا بھی ضروری ہے، اس کے بغیر صرف کتابیں ہی پڑھتے رہنا مفید نہیں۔ ایسے لوگ دیکھے جاتے ہیں کہ جنہوں نے پوری صحاح ستہ (حدیث کی مستند چھ کتب)پڑھی  ہوتی ہیں،لیکن اس کے باوجود نماز کا کوئی جذبہ نہیں پایا جاتا، یا  دیگر نیک اعمال کی طرف کوئی توجہ نہیں ہوتی  یا دیگر اعمال میں کمی، کوتاہی موجود ہوتی ہے، لہٰذاعلم کے ساتھ عمل بھی ہونا چاہیے اور عمل کے لیے دل میں  ترغیب و ترہیب کی موجودگی نہایت مفید ہے اوران دونوں کے حصول کے دوطریقے ہیں:
    پہلا طریقہ: تو یہ ہے کہ صرف اَحکام ہی نہ پڑھے جائیں، بلکہ اس عمل کے فضائل اور وعیدیں بھی پڑھیں یعنی نیک عمل کی فضیلت  اورعملِ بد یعنی  گناہ کی وعیدیں پڑھیں ،اس  کی برکت سے دل پر  چوٹ لگتی ہے  اور وہ عمل کی طرف مائل  ہوتا ہے۔
    دوسرا  طریقہ:اچھی صحبت ہے۔اچھی صحبت، دل میں عمل کا جذبہ پیدا کرتی ہے، ورنہ محض معلومات اکثر وبیشتر عمل کے لیے کفایت نہیں کرتیں۔

    دل کا اطمینان

    سوال: کسی کام پر دل کے اطمینان و غیر اطمینان کا گناہ سے کوئی تعلق ہے؟یعنی بعض لوگ کوئی غلط کام کرتے ہیں اور سمجھانے پر جواب دیتے ہیں کہ میں نے صحیح کیا ،کیونکہ میرا دل مطمئن ہے ، میرے ضمیر پر کوئی بوجھ نہیں۔ کیا دل یا ضمیر کا اطمینان اس بات کی دلیل ہے کہ کیا گیا عمل گناہ نہیں، غلط نہیں، برا نہیں؟
    جواب: اس بات کی کچھ حقیقت ہے بھی اور نہیں بھی۔ تفصیل یہ ہے کہ دل اور ضمیر کی ایسی کیفیت کے بارے میں نبی کریم  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:’’ اَلْاِثْمُ مَاحَاکَ فِیْ نَفْسِکَ‘‘یعنی گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے۔( ) یعنی جو دل میں کھٹکے، ضمیر جس پر ملامت کرے ، برا سمجھے وہ گناہ ہے یا بری بات ہے۔لیکن اس حدیث کے ساتھ دوسری حدیث  بھی یاد رکھیں کہ نبی کریم  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا ہے:’’ اِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَاصْنَعْ مَا شِئْتَ‘‘( ) ترجمہ: جب  تم میں شرم وحیا نہ رہے، تو پھر جو چاہے کر۔ مراد یہ ہے کہ جب آدمی کی شرم و حیا ہی ختم ہوجاتی ہے، توپھر اسے کوئی پروا نہیں ہوتی اور اس کا دل جو چاہے، وہ کرتا ہے ۔اگر کسی کی یہ کیفیت ہے کہ اس کی شرم و حیا اور اس کا لحاظ ختم ہوچکا ہے اور وہ جرأت ،بے باکی اور نڈر پن کے ساتھ گناہوں کا ارتکاب کرتا ہے اوراس کے بعدکہتا ہے کہ میرا ضمیر مطمئن ہے، تو ایسے آدمی کا ضمیر  کسی طرح معتبر نہیں،  بلکہ  ایسے کا ضمیر ہی بےضمیر ہے، ایساضمیر تو مردہ ہے۔ ایسے آدمی کا یہ کہنا کہ میرا ضمیر مطمئن ہے، اس کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا۔ یہ بات تو بہت سی جگہوں پر ڈاکو اور قاتل بھی بول دیں گے اور ان کا دل بھی مطمئن ہوگا ،تو کیا معاذاللہ اس سے قتل و ڈکیتی حلال ہوجائے گی؟  ہرگز نہیں۔
    بلکہ ایک اور حدیث مبارک بھی اس حوالے سے بڑی خوبصورت رہنمائی کرتی ہے۔سرکار دوعالم  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے فرمایا کہ:’’دَعْ مَا یُرِیْبُکَ اِلٰی مَالَا یُرِیْبُکَ ‘‘یعنی جس شے میں شک ہے ،اس کو چھوڑ دے اور اس کو اختیار کرلے جس میں شک نہیں ہے۔( ) یعنی تَرَدُّد و شُبہ اورشک والے کام کو نہ کیا جائے، جیسے اگر کسی کام کے بارے میں شک ہو کہ پتا نہیں جائز ہے یا ناجائز ہے، تو اسے چھوڑ کر وہ صورت اختیار کی جائے ،جو  بلاشبہ  درست ہو۔
    اس بات کو گہرائی سے سمجھنے کے لیے درج ذیل  تفصیل ذہن نشین کرلیں ۔ 
    معاملہ یہ ہے کہ کچھ احکام وہ ہیں جن کا شریعت نے واضح طور پر حکم بتادیا ،جیسے نبی کریم  صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے ارشاد فرمایا:’’ اَلْحَلَالُ بَیِّنٌ وَالْحَرَامُ بَیِّنٌ وَبَیْنَھُمَامُشْتَبِھَاتٌ‘‘یعنی حلال بھی بالکل واضح ہے اور حرام بھی بالکل واضح ہے، لیکن ان کے درمیان میں کچھ شبہ والے اُمور ہیں۔( )اب شُبہ والی چیزوں کے بارے میں کیا کیا جائے؟ تو فرمایا کہ:’’ فَمَنِ اتَّقٰی الشُّبُھَاتِ فَقَدِ اسْتَبْرَءَ لِدِیْنِہِ وَ عِرْضِہِ ‘‘( ) یعنی جو شُبہ کے کاموں سے بچ گیا ،اس نے اپنے دین اور  عزت کو بچالیا۔تو شریعت کا اصول یہ ہوا کہ جو واضح طور پرحلال ہے،  جس کا قرآن و حدیث میں حلال ہونا واضح طور پربیان کردیا گیا، اس کے بارے میں کسی کا ضمیر کہےکہ نہیں، یہ کام صحیح  نہیں لگ رہا، تو یہاں ضمیرکے کہنے  پر عمل نہیں ہوگا ،کیونکہ جب اس کو دین نے واضح طور پر حلال کردیا، تو اب وہاں ضمیر کا کوئی عمل دخل نہیں رہا۔ہاں کسی خارجی حکمت کی وجہ سے مباح  وغیرہ کو ترک کرنا ایک جدا معاملہ ہے۔ 
    اسی طرح جن کاموں کوشریعت نے واضح طور پر حرام کہہ دیا، ناجائز کہہ دیا، گناہ کہہ دیا، وہ ناجائز و گناہ ہیں اور انہیں چھوڑنا ضروری ہے،ایسی جگہ  اگرضمیر کہےکہ یہ کام کر لیں،  کوئی مسئلہ نہیں،تو وہاں بھی ضمیر کی نہیں مانی جائے گی اور ضمیر صاحب کو کہیں سائڈ میں رکھ دیا جائے گا۔
    تیسرے نمبر پر وہ کام ہیں  جن میں شرعی اعتبار سے شبہ وتردد ہو، دلیل کی رُو سے جائز و ناجائزہونا معلوم نہ ہو،علماء کا اختلاف ہو، وہاں شریعت نے رہنمائی یہ فرمائی کہ شُبہ کے کاموں سے بچو۔ جو بچ جائے گا، وہ اپنے دین اور اپنی عزت کو بچالے گا، یعنی نہ تو لوگ اس کے متعلق کہیں  گے کہ دیکھو یہ کیا کررہا ہے اور نہ خود تذبذب کا شکار رہے گا،  نیز  اس طرح اس کا دین بھی محفوظ رہے گا، کیونکہ یہ شے  تقوی میں داخل ہے۔
    اس کے بعد بعض اوقات ایسی چیزیں آجاتی ہیں ، جن کے بارے میں واقعی  تردد ہوسکتا ہے کہ یہ میں کروں یا نہ کروں؟  اس کا کرنا درست ہوگا یا درست نہیں ہوگا؟ دونوں  طرف ذہن جاتا ہے ،  اب ایسی صورت میں  کس شخص کو اجازت ہے کہ  اپنے دل سے فتویٰ لے، اپنے ضمیر سے پوچھ لے اور کس کو اجازت نہیں ہے؟ اس کے کچھ اہم معیارات ہیں۔جیسے ایسا شخص  جس کی حیا ہی ختم ہوچکی ہے  اور وہ برے اعمال پر جری ہو، شریعت پر عمل کا کوئی شوق نہ ہو، تو ایسا شخص شرعی اُمور میں  ہرگز اپنے ضمیر سے نہ پوچھے، جبکہ جوشخص شریعت پر عمل کرنے والاہو، اعمال صالحہ سے  محبت  رکھتا ہو، گناہوں سے بچنے کا  پورا ذہن ہو اور وہ بچتا بھی ہو،  نیکیوں سے محبت ہواور وہ نیکیاں کرتا  بھی ہو، بلکہ  نیکیوں سے محبت بھی ایسی ہو کہ نیک عمل سے اس کے دل کو سُرور ملتا ہے، قلبی نورانیت محسوس ہوتی ہے،  دل کو ٹھنڈک اور قرار ملتا ہو، اسے حلاوتِ ایمانی یعنی ایمان کی مٹھاس  نصیب ہو،تو ایسا شخص اگر کسی معاملے میں متردد ہو اور اس کا ضمیر اسے یہ کہے کہ یہ کام کرلو، اس میں حرج نہیں ہے،  تو وہ شخص دل کی بات مان سکتا ہے کہ اس کا ضمیر اعلیٰ و مقبول درجے پر ہے۔ لیکن ایسے کو تلاش کرنا کارِ دشوار اور خود کو اس مرتبہ پر سمجھنا خوش فہمی کے دریا میں غوطے لگانے  کے مترادف ہے۔

    دل کا گنہگار ہونا

    سوال: قرآن مجید میں ایک جملہ بیان ہوا ہے کہ ’’اس کا دل گنہگار ہے ‘‘اور عوامی طور پر بھی یہ جملہ بولا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ  دل کا گنہگار ہونا کیا ہے؟
    جواب: دل کے گناہ بہت ہیں، جیسے کفرو شرک کہ یہ بنیادی طور پر دل  ہی کے گناہ ہیں، کیونکہ کفر کا معنیٰ ہے: ضروریاتِ دین میں سے کسی شے کا انکار کرنا اور انکار وتصدیق دونوں دل کے افعال ہیں ۔ ایمان تصدیقِ قلبی کا نام ہے اور کفرانکارِ قلبی کو کہتے ہیں، پھر ان ہی پر دلالت کرنے والے متعدد افعال ہیں،جنہیں کفر قرار دیا گیا ہے، لیکن جو اصل تعریف ہے، وہ یہی ہے کہ دل میں تصدیق کےبجائے انکار پایا جائے۔
    اسی طرح شر ک یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، اصل میں قلب کا فعل ہے کہ آدمی دل میں کسی کو اللہ کا  شریک سمجھتا ہے، پھرآگے اس کے مظاہر آجاتے ہیں۔ یونہی منافقت بھی دل کے ساتھ ہوتی ہے،کیونکہ بندہ ظاہری طور پر ساری حرکتیں مسلمانوں والی کرتا ہے، روزہ رکھتا ہے، نمازپڑھتا ہے، لیکن دل میں  تصدیق موجو د نہیں ہوتی ۔ لہٰذا کفر وشرک اور منافقت  کا، دل کے گناہ ہونا  بڑی آسانی سے سمجھا جاسکتا ہے۔
    اس کے علاوہ دیگر بہت سے  گناہ ہیں جن کا تعلق دل سے ہے،مثلا:تکبر یعنی دوسرے کو حقیر سمجھنا  اوردوسرے کو کچھ  نہ سمجھنا ،  دل کا فعل ہے۔  حسد  یعنی یہ تمنا کرنا کہ دوسرے مسلمان سے نعمت زائل ہوجائے۔ یہ  تمنا دل  ہی میں  ہوتی ہے،اب اس کا بعض اوقات اظہار ہوجاتا ہے اور  بعض اوقات صرف دل میں یہ خواہش جما کر رکھتا ہے۔ 
    اسی طرح ریا کاری بھی قلبی عمل ہےاوریقینا دل ہی سے ہوتی ہے کہ لوگ مجھے اچھا(نیک) سمجھیں، عبادت گزار سمجھیں۔اسی طرح تکبر،حسد،(اس کا ذِکر ابھی ہو چکا)،بغض و کینہ بھی گناہ ہیں اور یہ گناہ بھی افعالِ قلب سے ہیں ۔  ان گناہوں کا مرتکب ’’دل کا گنہگار‘‘ کہلائے گا۔ اسی لیے شرعی اصطلاح میں بھی انہیں ’’امراض ِقلب‘‘ کہا جاتا ہے یعنی دل کی بیماریاں/  باطنی امراض۔ حدیث مبارک میں فرمایا گیا ہےکہ’’ بدن کے اندر ایک ٹکڑا ہے اگر وہ سدھر جائے،تو سارا بدن سدھر جاتا ہے، اگر وہ بگڑ جائے ،تو سارا بدن بگڑ جاتا ہے، سن لو وہ دل ہے۔‘‘( )
    کیونکہ اگردل سے حسد ،کینہ، بغض ،تکبر نکل جائے اور اس میں اخلاص، صبر، شکر، توکل، یقین، مراقبہ، محاسبہ اور اللہ تعالیٰ سے محبت پیدا ہوجائے،تو دل سُدھر جاتا ہے۔ یوں اگر دل سدھر جائے ، تو تمام اعضاء سدھر جاتے ہیں اور اگر دل بگڑ جائے،کہ اس سے اخلاص نکل  کر ریا کاری داخل ہوجائے ،اس سے عاجزی نکل کر تکبر داخل ہوجائے، اس سے خیر خواہی نکل جائے اورحسد داخل ہوجائے، اس سے دوستی نکل کر بغض و کینہ  داخل ہوجائے ،تو یہ دل بگڑنے کی علامات ہیں اور جب دل بگڑ گیا، تو پورا بدن بگڑ جاتا ہے، پھر بندہ کام بھی وہی کرتا ہے جو ریاکاری،تکبر، حسد ، بغض و کینہ کا تقاضا ہو۔ 

    ...  ابن ماجہ، کتاب الصلاۃ، باب من نام عن الصلاة او نَسِيَہَا،ص227،حدیث695
     … شعب الایمان، باب فی الزھد و قصر الامل، 7/352، حدیث10552
     … پارہ5، النساء:29
     … پارہ15، بنی اسرائیل:32
     … پارہ8، الانعام:151
     … پارہ 18 ، النور:19
     … پارہ14، النحل:90
     … پارہ4، النساء:10
     … پارہ3، البقرہ:264
     … مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب البر والاثم، ص:1061، حدیث:6517
     … بخاری، کتاب الادب، باب اذا لم تستحی فاصنع، 8/29، حدیث:6120
     … ترمذی، کتاب صفۃ القیامہ، باب-60، 4/232، حدیث:2526
     … ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الوقوف عند الشبہات، ص:1318
     … ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الوقوف عند الشبہات، ص:1318
     …بخاری،كتاب الايمان، باب فضل من استبرألدينہ ،1/ 28، حدیث:52

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن