gustakhan-e-rasol-ka-aamli-boycott-kijiye
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
Type 1 or more characters for results.
ہسٹری

مخصوص سرچ

30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

Gustakhan e Rasol ka Aamli Boycott Kijiye | گستاخانِ رسول کا عملی بائیکاٹ کیجئے

Abu Lahab Ki Gustakhi

گستاخانِ رسول کا عملی بائیکاٹ کیجئے
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ!   فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
(گُستاخان رسول کا عملی بائیکاٹ کیجئے    )     

دُرود شریف کی فضیلت

دو جہاں کے تاجْوَر،    سلطانِ بَحروبَر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:    بندہ جب تک مجھ پر دُرود پڑھتا رہتا ہے،   ملائکہ اُس پر رحمت نازل کرتے رہتے ہیں اب بندے کی مرضی ہے کہ وہ دُرود پاک کم پڑھے یا زیادہ ۔  ( ) 
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

ابولہب کی گستاخی

جب سرزمینِ عرب پر آفتابِ نبوّت طُلُوع ہوا تو اس کی نورانیّت سے  سےکفر کی تاریکیاں چھٹنے  لگیں ،    لوگ آہستہ آہستہ معبودانِ باطلہ کو چھوڑ کر حلقہ بگوشِ اسلام ہونے لگےاور شِرک سے بیزار ہو کر اللہ واحد ویکتا کی عبادت  کرنے لگے لیکن ابھی تک اِعلانیہ دعوتِ اسلام کا آغاز نہیں ہوا تھا ۔  اسی دوران اللہ ربُّ العزّت جَلَّ جَلَالُہٗ کا حکم ہوا کہ اے محبوب!   آپ اپنے قریبی خاندان والوں کو ڈرائیے تو رسولِ اکرم ،   نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم نےتمام قریش کو جمع کرکے انہیں دعوتِ اسلام پیش کی  چنانچہ حضرت سیِّدُنا ابنِ عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُما سے روایت ہے کہ جب یہ آیتِ مبارکہ نازل ہوئی :     
وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَكَ الْاَقْرَبِیْنَۙ(۲۱۴)  (پ۱۹،    الشعرآء:   ۲۱۴) 
ترجَمۂ کنز الایمان:   اور اے محبوب اپنے قریب تر رشتہ داروں کو ڈراؤ۔  
تو پیارے آقا،   مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم نے کوہِ صفا پر چڑھ کر قریش کی شاخوں کو پکارنا شروع کیا:   اے بنی فہر!   اے بنی عدی !   یہاں تک کہ لوگ جمع ہوگئے اور جو نہ آسکا اس نے اپنا نمائندہ بھیجا کہ جاکر دیکھے آخر بات کیا ہے۔ جب ابو لہب سمیت قریش کے دیگر لوگ آچکے تو  مبلغِ اعظم،    رسولِ اکرم  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:   اگر میں یہ کہوں کہ وادی کے اس طرف ایک لشکرِ جرّار ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو  کیا تم لوگ  مجھے سچا مانو گے ؟  سب نے کہا :   جی ہاں !  ہم آپ کی تصدیق کریں گے کیونکہ ہم نے تو ہمیشہ آپ کو سچ بولتے ہی سُنا ہے ۔   فرمایا:   تو پھر میں تمہیں قیامت کے سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو سب کے سامنے ہے۔ اس پر (مَعَاذَ اللہ  عَزَّ  وَجَلَّ) ابولہب بکواس کرنے لگا:    تم  ہمیشہ کے لئے تباہ ہو جاؤ کیا ہمیں اسی لئے جمع کیا تھا؟  تو اس وقت یہ آیات  نازل ہوئیں:   
تَبَّتْ یَدَاۤ اَبِیْ لَهَبٍ وَّ تَبَّؕ(۱) مَاۤ اَغْنٰى عَنْهُ مَالُهٗ وَ مَا كَسَبَؕ(۲)  (پ۳۰،    اللھب:   ۱۔ ۲) 
 ترجَمۂ کنز الایمان:   تباہ ہوجائیں ابولہب کے دونوں ہاتھ اور وہ تباہ ہو ہی گیا اسے کچھ کام نہ آیا اس کا مال اور نہ جو کمایا۔  ( ) 
مُفَسِّرِ شَہِیر،    حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان  نعیمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْقَوِی  نور العرفان میں مذکورہ بالا آیات کے تحت فرماتے ہیں :   اس سے چند مسئلے معلوم ہوئے:   
٭ ایک یہ کہ ربّ (عَزَّوَجَلَّ) کے بدگویوں (گستاخوں) کو  حضور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم)  نے جواب دیا اور حضور کے بدگویوں کا ربّ (عَزَّ  وَجَلَّ) نے جواب دیا ،    دشمنانِ خدا کی جوابدہی سنَّتِ رسول ہے اور دشمنانِ رسول کو جواب دینا سنَّتِ الٰہیہ ہے ۔  
٭ دوسرے یہ کہ جس قسم کی بکواس کفار نے حضور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم)  سے کی اسی قسم کا جواب ربّ نے دیا ،    معلوم ہوتا ہے کہ حضور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم)  ربّ تعالیٰ کے محبوبِ اکبر ہیں۔ 
٭تیسرے یہ کہ قرآنِ کریم نے تمام مجرموں کی سزائیں بیان فرمائیں جن میں سب سے زیادہ سخت سزا حضور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم) کے بدگو کی ہے کہ قرآنِ کریم نے اس کے مُتَعَلِّق کبھی فرمایا  ”زَنِیْم“  (جس کی اصل میں خطا) ،   کبھی فرمایا ” اَبْتَر (ہر خیر سے محروم)  ،   کبھی فرمایا  ”تَبَّتْ یَدَا“ (دونوں ہاتھ تباہ ہوجائیں) ،   کبھی فرمایا  ”لَنْ یَّغْفِرَ اللہُ لَہُمْ“  (اللہ ہرگز انہیں نہیں بخشے گا)  ایسی سخت سزائیں کسی مجرم کی ذکر نہ ہوئیں ایسے ہی جیسے انعام حضور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم) کے ادب پر دیئے گئے ایسے کبھی عبادت پر نہ دیئے گئے ۔     
٭چوتھے یہ کہ بڑی شرافت ،    عزّت ونسب والے ومال والے حضور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم) کی مخالفت سے ذلیل وخوار ہوگئے تو دوسروں کا کیا پوچھنا۔      
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  دیکھا آپ نے کہ جب گستاخ و بے ادب ابولہب نے تاجدارِ رِسالت،    شہنشاہِ نَبوّت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں گستاخانہ جملے بکے تو قہرِ الٰہی جوش میں آیا اور خدائے جبّار و قہّار نے اس بدبخت کے بھیانک انجام کی غیبی خبر دیتے ہوئے سورۃ اللّہب نازل فرمائی ۔ آئیے حصولِ عبرت و نصیحت کے لئے قرآن و حدیث کی روشنی میں ابولہب اور اس جیسے دیگر گستاخانِ رسول کا انجام مُلاحظہ کیجئے۔    

ابولہب کون تھا

ابو لہب نبیِ کریم،    رؤوفٌ رَّحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک چچا تھا ۔ اس کا نام عبدُ العزّٰی بن عبدُ الْمُطّلِب اور کُنیت ابو عتبہ تھی ۔  اس کے چہرے کی چمک کی وجہ سے اسے ابو لہب کہا جاتا تھا۔ یہ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کی شان میں گستاخی کرتا،    آپ سے بغض رکھتا اور بہت زیادہ اذیّت پہنچاتا تھا نیز آپ کو اور دینِ اسلام کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔   ( )  اس کی گستاخی اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ جب سَیِّدِ عالَم،    نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے جاتے تو یہ بدبخت بھی وہاں پہنچ جاتا اورآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کی شان میں نازیبا کلمات کہتا ۔  چنانچہ،    
حضرت سیِّدُنا ربیعہ بن عِباد دِیلی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ اسلام لانے کے بعد زمانہ جاہلیت کا واقعہ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے ذوالمجاز کے بازار میں دیکھا کہ  لوگ نبیِ اَکْرَم ،     رسولِ مُحتشم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کے اردگرد جمع تھے اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم اُن سے فرمارہے تھے:   يَا اَيُّهَا النَّاسُ قُوْلُوْا لاَ اِلَهَ اِلاَّ اللَّهُ تُفْلِحُوا اے لوگو !   لآاِلٰہَ اِلَّا اللہ کہو،   فلاح پاجاؤگے۔ جبکہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کے پیچھے ایک صاف ستھرے چہرے اور بھینگی آنکھوں والا شخص کھڑا تھا جس کے سر پر دوچوٹیاں تھیں وہ لوگوں سے کہہ رہا تھا :   یہ بے دین ،    جھوٹا ہے۔ آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام جہاں جاتے یہ بھی پیچھے پیچھے جاتا ۔   میں نے لوگوں سے اس شخص کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کا چچا ابولہب ہے۔  ( ) 
مذکورہ بالا روایت سے ابولہب کی کمینگی اور رسولِ اَکْرَم،    نُورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کے کِیْنَہ پَرْوَرِی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے مگر یہ ایک قابلِ تسلیم حقیقت ہے کہ گستاخِ رسول کو بالآخر بھیانک انجام سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔  ابولہب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوااور اللہ عَزَّ  وَجَلَّ  نے اسے رہتی دُنیا کے لئے عبرت کا  نِشان بنادیا۔   

ابولہب کا عبرت ناک انجام

غزوۂ بدر کے بعد اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے ابولہب کو عَدَسَہ ( )    کی بیماری میں مبتلا کردیا جس کے بعد وہ صرف سات دن ہی زندہ رہا اور پھر ہلاک ہوگیا ۔  ابولہب کی ہلاکت کے بعد اس کے بیٹوں نے اسے یونہی پڑے رہنے دیا اور تین دن تک دفن ہی نہ کیا یہاں تک کہ اس کی لاش سے بدبو آنے لگی ۔ قریش کے لوگ عدسہ سے اس طرح ڈرتے تھے جیسے طاعون سے ڈرتے ہیں (شایداسی لئے کوئی بھی شخص اس کی مردار لاش کو ہاتھ لگانے کے لئے تیار نہ تھا) بالآخر قریش کے ایک آدمی نے اس کے بیٹوں سے کہا:    تمہارا بیڑا غرق ہو!    کیا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تمہارا باپ گھر میں پڑا سڑ رہاہے اور تم ہو کہ اسے دفن نہیں کرتے۔  وہ کہنے لگے:   ہمیں ڈر ہے کہ اس کی بیماری کہیں ہمارے ہی گلے نہ پڑ جائے۔  اس شخص نے کہا چلو میں اس کام میں تمہاری مدد کر دیتا ہوں پھر ان سب نے غسل کے نام پر دُور ہی سے اس پر پانی پھینک دیا اور کوئی بھی اس کے قریب نہ گیااس کے بعد اسے اُٹھا کر وادیٔ مکہ کے بالائی حصے کی طرف لے گئے جہاں اسے ایک دیوار کے سہارے کھڑا کیا اور اس پر پتھر پھینکتے رہے یہاں تک کہ وہ ان پتھروں کے نیچے ہی دفن ہوگیا۔ ( )  
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  دیکھا آپ نے کہ ابولہب کی ہلاکت کے مُتَعَلّق اللہ عَزَّوَجَلَّ کا فرمان کیسے پورا ہوا ،   اس بدبخت کے لئے اس سے بڑھ کر ذلّت اور کیا ہوسکتی ہے کہ مرنے کے بعد اس کے اپنے ہی بیٹوں نے اس کی لاش کو دفن کرنے کے بجائے گلنے سڑنے کے لئے چھوڑ دیانیز تین دن بعد بھی صرف اور صرف اس وجہ سے اس کے غسل و دفن کا انتظام کیا گیا کہ لوگ کیا کہیں گے۔ یقیناً رسولِ کریم،    رؤوفٌ رَّحِیْم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہِ عظیم میں بے ادبی کرنے والے  بدبختوں کو نہ چین کی موت  نصیب ہوتی ہےاور نہ ہی ان کی ہلاکت پر کسی آنکھ سے آنسو ٹپکتا ہےاور پھر یہ تو صرف دنیا کا عذاب ہے اسی سے جان نہ چھوٹے گی بلکہ مرنے کے بعد قبرکا درد ناک عذاب اور پھر جہنّم کی ہولناک سزاؤں کو ہمیشہ کے لئے جھیلنا ہوگا۔  

ابولہب کی بیوی کا انجام

جس طرح ابولہب ہلاک وبرباد ہوا،   نہ اس کا مال اسے کام آیا اور نہ ہی  اولاد،    اسی طرح اس کی وہ بدبخت بیوی بھی ذلّت کی موت مری جو ہمیشہ رحمتِ عالم،    نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کو تکلیف پہنچانے میں سرگرمِ عمل رہتی تھی ۔ سورۃ اللہب میں اللہ عَزَّ  وَجَلَّ نے ابولہب کے ساتھ ساتھ اس کی بدبخت بیوی کا انجام بھی پیشگی ہی بیان فرمادیا تھا۔  چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :   
وَّ امْرَاَتُهٗؕ-حَمَّالَةَ الْحَطَبِۚ(۴) فِیْ جِیْدِهَا حَبْلٌ مِّنْ مَّسَدٍ۠(۵)  (پ۳۰،    اللھب:   ۴۔ ۵) 
ترجَمۂ کنز الایمان:   اور اس کی جورُو لکڑیوں کا گٹھا سر پر اٹھائے اس کے گلے میں کھجور کی چھال کا رسّا۔  
صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سَیِّدمحمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی ان آیات کے تحت فرماتے ہیں :   اُمِّ جمیل بنتِ حَرْب بن اُمیّہ (حضرت)  ابوسفیان (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ) کی بہن جو رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم سے نہایت عِناد و عداوت (بغض،    دشمنی)  رکھتی تھی اور باوجود یہ کہ بہت دولت مند اور بڑے گھرانے کی تھی لیکن سیّدِ عالَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کی عداوت میں انتہا کو پہنچی تھی کہ خود اپنی سر پر کانٹوں کا گٹھا لاکر رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کے راستہ میں ڈالتی تاکہ حضور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم) کو اور حضور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کے اصحاب کو ایذا  و تکلیف ہو اور حضور (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم) کی ایذا رسانی اس کو اتنی پیاری تھی کہ وہ اس کام میں کسی دوسرے سے مدد لینا بھی گوارا نہ کرتی تھی ۔ ایک روز یہ بوجھ اٹھا کر لارہی تھی کہ تھک کر آرام لینے کے لئے ایک پتّھر پر بیٹھ گئی ایک فرشتے نے بحکمِ الٰہی اس کے پیچھے سے اس گٹھے کو کھینچا وہ گرا اور رسّی سے گلے میں پھانسی لگ گئی اور وہ مرگئی ۔  
اس طرح ابو لہب کی بیوی بھی اللہ عَزَّ  وَجَلَّ اور اس کے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم کو ایذا دینے کے جُرْم میں غضبِ الٰہی کا شکار ہوئی اور اپنے بنائے ہوئے پھندے میں خود ہی پھنس کر نہایت ذلّت کے ساتھ  اپنے انجام کو پہنچی ۔  
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب!  صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

کتاب کا موضوع

کتاب کا موضوع

صراط الجنان

موبائل ایپلیکیشن

معرفۃ القرآن

موبائل ایپلیکیشن

فیضانِ حدیث

موبائل ایپلیکیشن

پریئر ٹائمز

موبائل ایپلیکیشن

ریڈ اینڈ لسن

موبائل ایپلیکیشن

اسلامک ای بک لائبریری

موبائل ایپلیکیشن

نعت کلیکشن

موبائل ایپلیکیشن

بہار شریعت

موبائل ایپلیکیشن