اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَیْطٰنِ الرَّجِیْم ؕبِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمؕ
شیطٰن لاکھ روکے مگر یہ رسالہ (22صَفْحات) مکمَّل پڑھ کر اپنی آخرت کا بھلا کیجئے۔
امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا ابو بکر صِدّیق رَضِیَ اللَّہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ نبیِّ کریم ، رَء ُوْفٌ رَّحیم عَلَیْہِ اَفْضَلُ الصَّلٰوۃِ وَالتَّسْلِیْم پر دُرُودِ پاک پڑھنا گناہوں کو اِس قَدَر جلد مِٹاتاہے کہ پانی بھی آگ کو اُتنی جلدی نہیں بجھاتااورنبی صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر سلام بھیجنا گردنیں (یعنی غُلاموں کو) آزاد کرنے سے افضل ہے۔ (تاریخِ بغداد ج۷ ص ۱۷۲ )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ تعالٰی علٰی محمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!جس کوملازِم رکھنا ہے اُسے ملازِم رکھنے کے اورجس کو ملازَمت کرنی ہے اُسے ملازَمت کے ضَروری اَحْکام جاننے فرض ہیں۔ اگر حسبِ حال نہیں سیکھے گا تو گنہگار اور عذابِ نار کا حقدار ہو گا اورنہ جاننے کی وجہ سے باربار گناہوں کا اِبتِلا مزید بَرآں (یعنی اِس کے علاوہ) ۔ اس رسالے میں صِرْف چیدہ چیدہ مسائل درج کئے گئے ہیں مزید معلومات کیلئے’’ بہارِ شریعت ‘‘ جلد3 صَفْحَہ 104 تا 184پر’’ اِجار ہ کابیان‘‘ پڑھ لیجئے۔ پہلے حلال روزی کی فضیلت اور حرام روزی کی تباہ کاریاں مختصراً پیش کی جاتی ہیں، اللہ تبارَکَ وَتعالٰی 12ویں پارے کی پہلی آیت میں ارشادفرماتا ہے:
وَ مَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَى اللّٰهِ رِزْقُهَا
ترجَمۂ کنزالایمان: اور زمین پر چلنے والاکوئی ایسا نہیں جس کا رِزْق اللہ کے ذمّۂ کرم پر نہ ہو ۔
مُفَسِّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الْحَنَّان’’ نورُالعرفان ‘‘ میں فرماتے ہیں: زمین پرچلنے والے کا اِس لئے ذِکر فرمایا کہ ہم کوانہیں کا مُشاہَدہ ہوتا ہے (یعنی نظر آتے ہیں) ورنہ جِنّات وغیرہ کو (بھی) ربّ (عزوجل ) (ہی) روزی دیتا ہے۔ اس کی رزّاقِیّت صِرْ ف حیوانوں میں مُنْحَصِر نہیں، پھر جو جس روزی کے لائق ہے اُس کو وُہی ملتی ہے۔ بچّے کو ماں کے پیٹ میں اَور قسم کی روزی ملتی ہے اورپیدائش کے بعد دانت نکلنے سے پہلے اورطرح کی ، بڑے ہو کراورطرح کی۔ (نور العرفان ص ۳۵۳بتَغَیُّر قَلِیل)
{1} سب سے زیادہ پاکیزہ کھاناوہ ہے جواپنی کمائی سے کھاؤ ( ) {2} بے شکاللہ تعالٰی مسلمان پیشہ ور کو دوست رکھتا ہے ( ) {3} جسے مزدوری سے تھک کر شام آئے اُس کی وہ شام ، شامِ مغفِرت ہو ( ) {4} پاک کمائی والے کے لئے جنّت ہے ( ) {5} کچھ گناہ ایسے ہیں جن کاکَفّارہ نہ نَماز ہو نہ روزے نہ حج نہ عمرہ ۔ ان کاکفّارہ وہ پریشانیاں ہوتی ہیں جوآدمی کوتلاشِ مَعاشِ حلال میں پہنچتی ہیں۔ ( )
ہمیں ہمیشہ حلال روزی کمانا، کھانا اورکھلانا چاہئے لقمۂ حلال کی تو کیا ہی بات ہے چنانچِہدعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 1548 صَفْحات پر مشتمل کتاب ، ’’ فیضانِ سنَّت‘‘ جلد اوّل صَفْحَہ 179 پر ہے : حضرتِ سیِّدُنا اِمام محمد غزالی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْوَالِی اِحْیاءُ الْعُلُوم کی دوسری جِلد میں ایک بُزُرگ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کا قَول نَقْل کرتے ہیں کہ مسلمان جب حَلال کھانے کا پہلا لُقْمہ کھاتا ہے ، اُس کے پہلے کے گُناہ مُعاف کردئیے جاتے ہیں۔ اور جو شخص طَلَبِ حلال کیلئے رُسوائی کے مقام پر جاتا ہے اُس کے گناہ دَرَخت کے پتّوں کی طرح جَھڑتے ہیں۔ (اِحیاءُ الْعُلوم ج۲ ص۱۱۶)
{1} ایک شخص طویل سفر کرتا ہے جس کے بال پریشان (بکھرے ہوئے) ہیں اور بدن گرد آلود ہے (یعنی اُس کی حالت ایسی ہے کہ جو دُعا کرے وہ قبول ہو) وہ آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھاکر یاربّ! یاربّ! کہتا ہے (دُعا کرتا ہے) مگر حالت یہ ہے کہ اُس کا کھانا حرام، پینا حرام، لباس حرام اور غذا حرام پھر اُس کی دُعا کیونکر مقبول ہو! ( ) (یعنی اگرقبولِ دعا کی خواہش ہو تو کسب حلال اختیار کرو) {2} لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گاکہ آدَمی پرواہ بھی نہ کرے گا کہ اس چیز کو کہاں سے حاصل کیاہے، حلال سے یا حرام سے ( ) {3} جو بندہ مالِ حرام حاصل کرتا ہے، اگر اُس کو صَدَقہ کرے تو مقبول نہیں اور خرچ کرے تو اُس کے لیے اُ س میں بَرَکت نہیں اور اپنے بعد چھوڑ مرے تو جہنَّم کو جانے کا سامان ہے ۔ اللہ تعالٰی برائی سے برائی کو نہیں مٹاتا، ہاں نیکی سے برائی کو مٹاتا ہے، بے شک خبیث (یعنی ناپاک) کوخبیث نہیں مٹاتا ( ) {4} جس نے عیب والی چیز بیع کی (یعنی بیچی) اور اُس (عیب) کوظاہر نہ کیا، وہ ہمیشہ اللہ تعالٰی کی ناراضی میں ہے یا فرمایا کہ ہمیشہ فرشتے اُس پرلعنت کرتے ہیں ۔ ( )
مُکاشَفَۃُ الْقُلوب میں ہے: آدَمی کے پیٹ میں جب لقمۂ حرام پڑا تو زمین و آسمان کا ہر فرشتہ اُس پر لعنت کریگا جب تک اس کے پیٹ میں رہے گا اور اگر اسی حالت میں (یعنی پیٹ میں حرام لقمے کی موجودَگی میں) موت آ گئی تو داخِلِ جہنَّم ہو گا۔ (مکاشَفَۃُ القُلوب ص ۱۰ )
{1} سیٹھ اور نوکر دونوں کے لئے حسب ضرورت اِجارے کے شرعی احکام سیکھنا فرض ہے، نہیں سیکھیں گے تو گنہگار ہوں گے۔
(دعوت اسلامی کے اِشاعتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ بہارِ شریعت جلد3حصّہ14 صَفْحَہ104 تا184میں اِجارے کے تفصیلی احکام درج ہیں)
{2} نوکر رکھتے وقت ، ملازمت کی مدّت ، ڈیوٹی کے اوقات اور تنخواہ وغیرہ کا پہلے سے تَعَیُّن ہونا ضروری ہے۔
{3} میرے آقااعلیٰ حضرت امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں: کام کی تین حالتیں ہیں (۱) سُست (۲) معتدل ( یعنی درمِیانہ اور ) (۳) نہایت تیز۔ اگر مزدوری میں ( کم از کم معتدل بھی نہیں محض) سستی کے ساتھ کام کرتا ہے گنہگار ہے اور اِس پر پوری مزدوری لینی حرام۔ اُتنے کام (یعنی جتنا اس نے کیا ہے) کے لائق (مطابِق) جتنی اُجرت ہے لے ، اس سے جو کچھ زیادہ ملا مستاجر (یعنی جس کے ساتھ ملازمت کامعاہدہ کیا ہے اُس) کو واپس دے۔ (فتاوٰی رضویہ ج ۱۹ ص ۴۰۷ )
{4} کبھی کام میں سست پڑ گیا تو غور کرے کہ’’ مُعتدل ‘‘ یعنی درمِیانہ انداز میں کتنا کام کیا جاسکتاہے مَثَلاً کمپیوٹر آپریٹر ہے اور روز کی 100روپیہ اُجرت ملتی ہے، درمیانہ اندازمیں کام کرنے میں روزانہ 100 سطریں کمپوز کر لیتا ہے مگر آج محض سستی یاغیر ضروری باتیں کرنے کے باعِث 90سطریں تیّار ہوئیں تو 10سطروں کی کمی کے 10 روپے کٹوتی کروا لے کہ یہ 10روپے لینا حرام ہے، اگر کٹوتی نہ کروائی تو گنہگار اور نارِ جہنَّم کا حقدار ہے۔
{5} چاہے گورنمنٹ کا ادارہ ہو یا پرائیویٹ ملازِم اگر ڈیوٹی پر آنے کے معاملے میں عُرف سے ہٹ کر قصداً تاخیر کریگا یا جلدی چلا جائے گا یا چُھٹّیاں کرے گا تو اس نے معاہدے کی قَصْداً خلاف ورزی کا گناہ توکیاہی کیا اور ان صورتوں میں پوری تنخواہ لے گا تومزید گنہگار اور عذابِ نار کا حقدار ہو گا۔ فرمانِ امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن: ’’ جوجائز پابندیاں مشروط (یعنی طے کی گئی ) تھیں ان کا خلاف حرام ہے اوربکے ہوئے وقت میں اپنا کام کرنا بھی حرام ہے اور ناقص کام کرکے پوری تنخواہ لینا بھی حرام ہے۔ ‘‘ (فتاوٰی رضویہ ج۱۹ص۵۲۱)
{6} گورنمنٹ کے اِدارے کا افسر دیر سے آتا ہواور اس کی کوتاہی کے سبب دفتر دیر سے کھلتا ہو تب بھی ہر ملازِم پر لازم ہے کہ طے شدہ وقت پر پہنچ جائے اگر چہ باہر بیٹھ کر انتظار کرنا پڑے۔ خائن و غیر مختار افسر کا ملازِم کو دیر سے آنے یاجلد ی چلے جانے کا کہنا یا اجازت دے دینابھی ناجائز کوجائز نہیں کر سکتا۔ وقت کی پابندی سبھی پر ضروری ہی رہے گی۔
{7} گورنمنٹ اداروںمیں افسر اورعام ملازِم سبھی کامخصوص وقت کااجارہ ہوتا ہے اورہر ایک کوپوری ڈیوٹی دینالازِم ہوتاہے۔ بعض اوقات افسر وقت سے پہلے چلاجاتا ہے اور اپنے ماتحت ملازِم سے بھی کہتا ہے کہ تم بھی جاؤ! چلے جانے والا افسر تو گنہگار ہے ہی اگر ملازِم بھی چلا گیا تو وہ بھی گنہگار ہو گا لہٰذا واجب ہے کہ کام ہو یا نہ ہو وہیں دفتر میں اِجارے کا وقت پورا کرے۔ جو بھی اِس طرح چلاجائے گا اُسے تنخواہ میں سے کٹوتی کروانی ہوگی۔