30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
دو جہاں کے سلطان ، سَرْوَرِ ذیشان ، محبوبِ رَحْمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ مغفِرت نِشان ہے : مجھ پر دُرُودِپاک پڑھنا پُلْ صِراط پر نور ہے ، جو روزِ جُمُعہ مجھ پر اَسّی بار دُرُودِپاک پڑھے اُس کے اَسّی سال کے گناہ مُعاف ہو جائیں گے۔ ( الجامع الصغیر للسیوطی ، ص۳۲۰ ، الحدیث ۵۱۹۱ )
صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللّٰہُ تعالٰی علٰی محمَّد
ایک شخص کوکسی بادشاہ کے دربار میں خصوصی رُتبہ حاصِل تھا ۔ وہ روزانہ بادشاہ کے رُوبرو کھڑے ہو کر بطورِ نصیحت کہا کرتا تھا : ’’ اِحسان کرنے والے کے اِحسان کا بدلہ دو ، برے شخص سے بُرائی سے پیش نہ آؤ کیونکہ بُرے انسان کے لئے توخود اُس کی برائی ہی کافی ہے ۔‘‘ بادشاہ اس کی بہترین نصیحتوں کی وجہ سے اُسے بہت محبوب رکھتا تھا۔بادشاہ کی طرف سے دی جانے والی عزت ومحبت دیکھ کر ایک درباری کو اُس شخص سے حَسَد ہو گیا ۔ ایک دن حاسِد درباری اس شخص کی عزّت کے خاتمے کے لئے بادشاہ سے جھوٹ بولتے ہوئے کہنے لگا : یہ شخص آپ کے بارے میں لوگوں سے کہتا پھرتا ہے کہ ’’ بادشاہ کے منہ سے بَہُت بدبو آتی ہے۔‘‘ بادشاہ نے پوچھا :
’’تمہارے پاس اِس کا کیا ثبوت ہے؟‘‘ اُس نے عَرض کی : ’’ کل اسے اپنے قریب بلا کر دیکھئے، یہ اپنی ناک پر ہاتھ رکھ لے گا ۔‘‘ اگلے روز حاسِد ، اُس مقرَّب شخص کو اپنے گھر لے گیا اور اُسے بہت سارا کچے لہسن والا سالن کھلا دیا۔ یہ مُقرَّب شخص کھانے سے فارِغ ہو کر حسبِ معمول دربار پہنچا اور بادشاہ کے رُوبَرو نصیحت بیان کی ۔ بادشاہ نے اُسے اپنے قریب بلایا، اُس نے اِس خیال سے کہ میرے مُنہ کی لَہسن کی بو بادشاہ تک نہ پہنچے، اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا ۔ بادشاہ کو اِس حَرَکت کے باعِث یقین ہو گیا کہ دوسرا درباری دُرُست کہہ رہا تھا۔ بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے ایک ’’عامِل ‘‘ (یعنی سرکاری اہل کار)کو خط لکھا : اِس خط کے لانے والے کی فوراً گردن اُڑا دو اور اِس کی لاش میں بُھس بھر کر ہماری طرف روانہ کرو۔
بادشاہ کی یہ عادت تھی کہ جب کسی کو اِنعام و اِکرام دینا مقصود ہوتا تو خود اپنے ہاتھ سے خط لکھتا ، اِس کے علاوہ کوئی بھی حُکْم اپنے ہاتھ سے نہ لکھتا تھا۔لیکن اِس مرتبہ اُس نے خلافِ معمول اپنے ہاتھ سے سزا کا حُکم لکھ دیا ۔ جب وہ مُقَرَّب آدَمی خط لے کر شاہی مَحَل سے باہَر نکلا تو حاسِد نے اُس سے پوچھا : ’’یہ تمہارے ہاتھ میں کیا ہے؟‘‘ اُس نے جواب دیا : ’’بادشاہ نے اپنے ہاتھ سے فُلاں عامِل کے لئے خط لکھا تھا، یہ وُہی ہے۔‘‘ حاسِد نے خط لکھنے کے سابِقہ طریقے پر قِیاس کرتے ہوئے لالچ میں آ کر کہا : ’’ یہ خط مجھے دے دو ۔‘‘مُقَرَّب نے اعلیٰ ظَرفی کا مُظاہَرہ کرتے ہوئے خط اس کے حوالے کر دیا۔ حاسِد فوراً عامِل کے پاس پہنچا اور خط اس کے ہاتھ میں دینے کے بعد اِنعام و اِکرام طلب کیا ۔ عامِل نے کہا : ’’ اِس میں تو خط لانے والے کے قتل کرنے کا حُکم دَرج ہے۔‘‘ اب تو
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع