اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
دُعائے عطار:یارَبَّ المصطفےٰ! جوکوئی 17صفحات کا رسالہ ’’ حضرتِ آدم علیہ السّلام کے بارے میں دلچسپ معلومات ‘‘پڑھ یا سُن لے ،اُسےحضرتِ آدم علیہ السّلام کے فیضان سے مالا مال فرما اوراُس سے ہمیشہ ہمیشہ کےلئے راضی ہوجا۔
اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبیِّین صلّی اللہُ علیهِ واٰله وسلّم
اللہ پاک نے جب حضرتِ آدم علیہ السّلام سے حضرتِ بی بی حوّا رضی اللہُ عنہا کو پیدا فرمایا تو حضرتِ آدم علیہ السّلام نے اُن کی طرف دستِ محبت بڑھانے کا ارادہ کیا تو فرشتوں نے عرض کی:اے آدم! علیہ السّلام ،ٹھہر جائیں ،پہلےاِن کا مہر ادا کریں۔آپ علیہ السّلام نے فرمایا: اِن کا مہر کیاہے ؟ فرشتوں نے عرض کی:ان کا مہر یہ ہے کہ آپ ہمارے سردار محمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر تین یا دس مرتبہ درودِ پاک پڑھیں۔ چنانچہ آپ علیہ السّلام نے درود پڑھا اور فرشتوں کی گواہی سے آپ علیہ السّلام کا حضرتِ بی بی حوا رضی اللہُ عنہا سے نکاح ہوگیا۔اِس سے معلوم ہوا کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہر موجود چیز کے لیے وسیلہ ہیں یہاں تک کہ اپنے والد حضرتِ آدم علیہ السّلام کا بھی وسیلہ ہیں۔ (تفسیرصاوی،پ 5،النساء،تحت الآیۃ:2،1 /355، شرح الزرقانی علی المواہب،1/101ماخوذا)
حوا سے جب آدم کا عہد مہر دُرود ہوا
آدم سے وہ نورِ خدا زوجہ کو تفویض ہوا
لَآاِلٰهَ اِلَّا اللہ اٰمَنَّا بِرَسُوْلِ اللہ
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اللہ کریم نے زمین و آسمان بنانے سے پہلے فرشتوں کو پیدافرمایا پھر جنّات کو آگ کے شعلے سے پید اکیا گیا اوراِن کے بعد انسان کو پیدا کیاگیا ۔ سب سے پہلے انسان اللہ پاک کےپیارےپیارے نبی حضرتِ آدم علیہ السّلام ہیں اورآپ پہلے رسول بھی ہیں جو شریعت لے کر اپنی اَولاد کی جانب بھیجے گئے۔ حضرتِ نوح علیہ السّلام کو اَوّلُ الرُّسُل اِس وجہ سے کہا جاتاہے کہ آپ علیہ السّلام کفروشرک پھیلنے کے بعد سب سے پہلے مخلوق کی ہدایت کےلئے بھیجے گئے۔(نزہۃ القاری،5/52مفہوما) حضرتِ آدم علیہ السّلام پہلے خلیفۃ اللہ بھی ہیں جیساکہ پارہ1، سورۃ البقرۃ آیت نمبر30میں اِرشادہوتاہے:
وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ-
ترجَمۂ کنز الایمان: اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایا میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔
اِس آیت کی تفسیر میں ہے:خلیفہ اُسے کہتے ہیں جو احکامات جاری کرنے اور دیگر اختیارات میں اَصل کا نائب ہوتا ہے ۔اگرچہ تمام انبیا علیہم السّلام اللہ پاک کے خلیفہ ہیں لیکن یہاں خلیفہ سے حضرتِ آدم علیہ السّلام مُراد ہیں اور فرشتوں کو حضرتِ آدم علیہ السّلام کی خِلافت کی خبر اِس لیے دی گئی کہ وہ اِن کے خلیفہ بنائے جانے کی حکمت معلوم کریں اور اُن پر خلیفہ کی عظمت و شان ظاہر ہو کہ اُن کو پیدائش سے پہلے ہی خلیفہ کا لقب عطا کردیا گیا ہے اور آسمان والوں کو اُن کی پیدائش کی خوشخبری دی گئی۔ (تفسیرصراط الجنان ،پ1،البقرة ،تحت الآیۃ:1،30/96)
اے عاشقانِ رسول!اللہ کریم اِس سے پاک ہے کہ اُسے کسی سے مشورے کی ضرورت ہو البتہ یہاں خلیفہ بنانے کی خبر فرشتوں کوظاہری طور پرمشورے کے اَنداز میں دی گئی ۔
اِس سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اَہم کام کرنے سے پہلےاپنے ما تحت افراد سے مشورہ کر لیا جائے تاکہ اُس کام سے متعلق اُن کے ذہن میں کوئی بات ہو تو اُس کا حل ہو سکےیا کوئی ایسی مفید رائے مل جائے جس سے وہ کام مزید بہتر انداز سے ہو جائے ۔اللہ پاک نے اپنے پیارےپیارےآخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بھی صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم سے مشورہ کرنے کا قرآنِ کریم میں حکم اِرشادفرمایا۔بے شک اللہ پاک کو فرشتوں اور حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اپنے اصحاب سے مشورہ کرنے کی حاجت نہیں ہے لیکن مشورہ کرنے کا فرمانا تعلیمِ اُمت کےلئے ہے تاکہ اُمت بھی اِس سنّت پر عمل کرے حضرتِ عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے روایت ہے کہ جب یہ آیتِ مبارکہ ( وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ- ) (پ 4،آل عمران:159) ترجَمۂ کنز الایمان : ”اور کاموں میں اِن سے مشورہ لو “نازل ہوئی تو نبی ِرحمت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : بے شک اللہ پاک اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مشورے سے مستغنی(بے پرواہ) ہیں لیکن اللہ پاک نے مشورے کو میری اُمت کے لئے رحمت بنادیا ہے۔ ( شعب الایمان،6/76، حدیث:7542)
(1)جو شخص کسی کام کااِرادہ کرے اوراُس میں کسی مسلمان شخص سے مشورہ کرے اللہ پاک اُسے دُرست کام کی ہدایت دے دیتا ہے۔ (تفسیر درمنثور ،7/357 )
(2)جس نے مشورہ کیا وہ نادم (یعنی شرمندہ)نہیں ہوگا۔ (معجم اوسط،5/77، حدیث:6627)
(3)جو بندہ مشورہ لے وہ کبھی بدبخت نہیں ہوتا اور جو بندہ خود رائے اور دوسروں کے مشوروں سے مستغنی ( یعنی بے پرواہ)ہو وہ کبھی نیک بخت نہیں ہوتا۔( تفسیرقرطبی، پ4،آل عمران، تحت الآیۃ:159 ،2/193)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!اللہ پاک نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو بغیر ماں باپ کےمٹی سے پیدا فرمایا ہے،آپ کی پیدائش کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ اللہ پاک نے حضرتِ جبرائیل علیہ السّلام کو حکم اِرشادفرمایا کہ زمین سے ایک مٹھی مٹّی اُٹھاکر لاؤ ۔ حضرتِ جبرائیل علیہ السّلام نے زمین سےمٹّی اُٹھانی چاہی تو زمین نے اِس کا سبب پوچھا۔ آپ نےسارا واقعہ بیان کیا، اِس پر زمین کہنے لگی: میں خدا کی پناہ چاہتی ہوں اِس بات سے کہ مجھ سے کچھ کم کیا جائے یا میری کوئی چیز خراب کی جائے،حضرتِ جبریل علیہ السّلام مٹی لیے بغیرواپس لوٹ آئے اور عرض کی:اے میرے رب! زمین نے تیری پناہ مانگی تو میں تیرے نامِ پاک اور تیری عزّت کا اَدب کرتے ہوئے واپس آگیااوراُسےپناہ دے دی ۔ پھر اللہ پاک نے حضرت ِمیکائیل علیہ السّلام کو بھیجاتو اُنہوں نے بھی اُسے پناہ دے دی اور بارگاہ الٰہی میں وہی عرض کی جو حضرتِ جبریل علیہ السّلام نے کی تھی۔پھر اللہ پاک نے حضرتِ اسرافیل علیہ السّلام کوبھیجا تو وہ بھی اِسی طرح واپس آگئے،پھر حضرت عزرائیل علیہ السّلام کو بھیجا جب زمین نے اُن سے پناہ مانگی تو اِنہوں نے فرمایا:میں اِس بات سے اللہ پاک کی پناہ مانگتا ہوں کہ اُس کےحکم پر عمل کئے بغیر واپس چلا جاؤں۔چنانچہ اُنہوں نے زمین سے مٹی لے لی تواللہ پاک نے روح قبض کرنے کا کام بھی اِنہی کے ذمے لگایا کہ تم نے ہی اِس مٹی کو زمین سے الگ کیا ہے ،تم ہی اِس کو مِلانا اوراِن کانام مَلَکُ الموت یعنی موت کافرشتہ رکھا گیا۔
(تفسیر نعیمی،پ 1، البقرۃ ،تحت الآیۃ:30، 1/ 225،تفسیرِ عزیزی ،1/336)
اللہ پاک کے پیارے پیارے آخری نبی ،مکی مَدَنی ،محمدِ عربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اﷲ پاک نے آدم علیہ السّلام کو ایک مٹھی سے پیدا کیا جو تمام روئے زمین سے لی
گئی لہذا اولاد آدم زمین کے اندازے پر آئی ان میں سرخ سفید اور کالے اور درمیانے اور نرم وسخت پلید و پاک ہیں۔ ( ترمذی،4/444، حدیث:2965)بعض حضرات نے فرمایا کہ حضرتِ آدم علیہ السلام کی مٹی میں 60قسم کے رنگ شامل تھے وہ تمام آپ کی اَولاد میں پائے جاتے ہیں۔(تفسیرصاوی،پ1 ،البقرۃ،تحت الآیۃ:30 ،1/48)
حضرتِ عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما نے اِرشادفرمایا:بے شک اللہ پاک نے آدم کو جمعہ کے دِن عصر کے بعد پیدا فرمایا اورآپ کو اَدِیْمُ الْاَرْض یعنی ظاہری زمین کی ایک مٹھی مٹّی سےپیدا فرمایااِس لئے آپ کو آدم کہتے ہیں۔(تاریخ ابن عساکر،7/375) اور آپ کی اَولاد کو آدمی یعنی آدم والا کہتے ہیں۔
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! حضرتِ آدم علیہ السّلام چونکہ تمام انسانوں کے والد ہیں اِس لئے آپ کی ایک کنیت اَبُوالْبَشَر یعنی تمام انسانوں کےوالد ہے ،آپ علیہ السّلام کی ایک کنیت ابومحمد بھی ہےاور جنت میں بھی یہ کنیت آپ کی ہوگی جیساکہ حدیثِ پا ک میں ہے کہ جنت میں کسی کی کنیت نہیں ہوگی سوائے حضرتِ آدم علیہ السّلام کے ،اورآپ کی عزّت و تعظیم کےلئے جنت میں کنیت ابومحمد ہوگی ۔(تاریخ ابن عساکر،7/388)
ایک روایت میں ہے کہ جب اللہ پاک نے حضرتِ آدم علیہ السّلام کو پیدافرمانے کا اِرادہ کیا تو زمین سے فرمایا:میں تجھ سے ایک مخلوق پیدا فرمانے لگا ہوں تو جس نےمیری فرمانبرداری کی اُسے میں جنت میں داخل کروں گااورجس نے میری نافرمانی کی اُسے میں جہنم میں ڈال دوں گا تو زمین نے عرض کیا :اے میرے رب! کیا تُو مجھ سے ایسی مخلوق کو
پیدا فرمائے گا جو جہنم میں جائے گی تو اللہ پاک نے اِرشادفرمایا :ہاں،اِس پر زمین اِس قدر روئی کہ چشمے جاری ہو گئے اوریہ قیامت تک جاری رہیں گے۔ (تفسیرصاوی،پ1 ،البقرۃ،تحت الآیۃ:30 ،1/49)
میت کو خوشبو کیوں لگاتےہیں؟
اللہ پاک کی بارگاہ میں زمین نے عرض کی:یااللہ پاک! مجھ سے مٹّی اُٹھا نے سے میری مٹی کم ہوگئی ہے،اللہ پاک نے اِرشادفرمایا:گھبرا مت،(جب کوئی انسان)تجھ میں واپس آئے گاتوپہلے سے زیادہ حسین و خوشبودار ہوگا یہی وجہ ہے کہ مُردے کو عِطر و مُشک سے خوشبودار کیا جاتاہے۔(تفسیرروح البیان، پ1،البقرۃ،تحت الآیۃ:31، 1/98)
انسان کی زندگی میں خوشیاں کم اورغم زیادہ کیوں؟
اللہ پاک کے حکم سے جب زمین سے مٹی جمع کرلی گئی تو اللہ پاک نے حکم ارشاد فرمایاکہ اِس کو وہاں رکھو جہاں آج خانۂ کعبہ ہے پھر فرشتوں کو حکم ہو اکہ اِس مٹی کا مختلف پانیوں سے گارابنائیں۔پھر اُس پر چالیس دِن بارش ہوئی 39دِن غم کی اورایک دِن خوشی کی،اِسی لئے اِنسان کی زندگی میں خوشی کم اورغم زیادہ ہیں۔
( تفسیر نعیمی،پ 1،البقرۃ،تحت الآیۃ:30، 1/ 225)
کھجور، اَنگور اوراَنار کی پیدائش
حضرتِ آدم علیہ السّلام کا مبارک خمیر جس مٹی سے تیار ہوا اس سے بچ جانے والی مٹی شریف سےکھجور کا درخت بنایا گیاجیساکہ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ حضرتِ مولیٰ علی شیرِ خُدا رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حُضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:”کھجور کا احترام کرو کیونکہ یہ تمہارے والد حضرتِ آدم علیہ السّلام کی بچی ہوئی مٹی سے پیدا کی گئی ہے“اورایک
روایت میں ہےکہ کھجور ،اَنار اوراَنگو ر کو حضرتِ آدم علیہ السّلام کی بچی ہوئی مٹی سے پیدا کیا گیا ہے۔(فيض القدير،3/600،تحت الحدیث:3937)
حضرت ِ آدم علیہ السلام کی مبارک صورت
پیارے پیارےاسلامی بھائیو! جب حضرتِ آدم علیہ السّلام کے مبارک وُجود کا گارا بنالیا گیاتو اُسے ہواؤں کے ذریعے اِتناخُشک کیاگیا کہ وہ بجنے والی مٹی کی طرح ہوگیا جیسے ٹھیکری،پھر فرشتوں کو حکم اِرشادفرمایاکہ اِس کو میدانِ عرفات کے پاس وادیٔ نعمان میں رکھ دو اِس کے بعد اللہ پاک نے اپنے دستِ قدرت سے حضرتِ آدم علیہ السّلام کا وجود بنایا فرشتوں نے پہلے کبھی ایسی خوبصورت شکل و صورت نہیں دیکھی تھی لٰہذاحضرتِ آدم علیہ السّلام کا مبارک وجود دیکھ کر وہ بڑے حیران ہوئے اوراُن کے اِرد گرد تعجب سے دیکھتے رہے۔ ( تفسیر نعیمی،پ 1،البقرۃ،تحت الآیۃ:30، 1/226مفہوما)
ابلیس لعین کی بد نصیبی
حضرتِ انس رضی اللہُ عنہ کی روایت میں ہے: حضور پُر نور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نےارشاد فرمایا: جب اللہ پاک نے جنت میں حضرت آدم علیہ السّلام کی صورت بنائی تو جب تک اُسی حالت میں رکھنا چاہاتو اُنہیں چھوڑے رکھا۔ابلیس اُن کے آس پاس گردش کرنے لگا،وہ دیکھتا تھا کہ یہ کیا چیزہے تو جب اُس نے انہیں خالی پیٹ دیکھا تو سمجھ گیا کہ یہ ایسی مخلوق پیدا کی گئی ہے جواپنے اوپر قابو نہ رکھےگی۔( یعنی یہ مخلوق شہوت اور غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو نہ رکھے گی اور وسوسے آسانی سے دور نہ کر سکے گی۔)(مسلم، ص1079، حدیث:6649) ( شرح السیوطی علی مسلم، 5/538،تحت الحدیث:2611)ایک اورروایت میں ہےکہ حضرتِ آدم علیہ السّلام کے مبارک وُجود کودیکھ کر ابلیس نے یہ بھی کہا :ہاں،اِس کے سینے کی بائیں جانب ایک بند کوٹھڑی ہے یہ خبر نہیں کہ اِس میں کیاہے شاید یہی وہ لطیفۂ ربّانی کی جگہ ہو جس کی وجہ سے
یہ خلافت کا حقدارہوا ہے۔( تفسیر نعیمی،پ 1،البقرۃ،تحت الآیۃ:30، 1/226)ابلیس نے فرشتوں سے پوچھا اگر اِسے(یعنی حضرتِ آدم علیہ السّلام کو) تم سے اَفضل بنایاگیاتوتم کیا کروگے؟اُنہوں نےکہا:ہم اللہ پاک کا حکم مانیں گے ، بدبخت شیطان لعین اپنے دل میں کہنے لگا اگراِسے مجھ سے اَفضل بنایا گیا تو میں اِس کے تابع نہیں رہوں گا۔(تفسیر روح البیان ،پ1،البقرہ،تحت الآیۃ:1،31/99)
مشہور غلط فہمی
بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرتِ آد م علیہ السّلام کے مبارک جسم میں روح ڈالنے سے پہلےشیطان نے اِن پرمَعاذَ اللہ تھوکا تھا اوراُس تھوک سے کتا پیداہوا اِس واقعے کے بارے میں حضرت مفتی وقارالدین رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:کتابننے کی یہ روایت بے بُنیاد اور لَغْو (یعنی فضول)ہے صحیح روایت میں اِس کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا۔(وقارالفتاویٰ ،1/344)
کتے کی اولادِ آدم سے محبت کی وجہ
حضرت ِ امام حکیم ترمذی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اللہ پاک نے جب حضرتِ آدم علیہ السّلام کو زمین پر بھیجا تو شیطان نے درندوں کو آپ علیہ السّلام کے خلاف بھڑکا دیا ،جس کے نتیجے میں کتّے نے سب سےپہلے آپ پرحملہ کیا۔ اتنے میں حضرت جبرائیل علیہ السّلام اُترے اور عرض کی: ”اپنا ہاتھ اس پر رکھیں۔“ حضرت آدم علیہ السّلام نے ایسا کیا تو کتّا سکون میں آگیا، مانوس ہوگیا اور آپ کی حفاظت کرنے لگا، کتے کی طبیعت میں قیامت تک کے لئے اولادِ آدم کی محبت رکھ دی گئی۔( الامثال من الکتاب والسنۃ، ص27-28ملتقطا)
جمعہ کو جمعہ کہنے کی وجہ
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! جمعہ کے معنی ہیں مجتمع ہونا مکمل ہونا ،جمعہ کو جمعہ اِسی لیے کہتے ہیں کہ اِس دن میں حضرتِ آدم ( علیہ السّلام )کے جسم شریف کی تکمیل ہوئی۔ فرمانِ آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : بہترین دن جس میں سورج نکلے وہ جمعہ کا دن ہے، اِسی
دن حضرتِ آدم علیہ السّلام کو پیدا کیا گیا،اِسی دن اُنہیں(جنّت سے زمین پر)اُتارا گیا،اِسی دِن اُن کی توبہ قبول فرمائی گئی،اسی دن ان کی وفات ہوئی اور اسی دن قیامت قائم ہو گی۔ (ابوداود، 1/390، حدیث:1046)یہاں حضرت آدم علیہ السّلام کی پیدائش سے مراد یا تو ان کے جسم شریف کی تکمیل ہے، یا جسم شریف میں روح پھونکنا مراد ہے کیونکہ حضرتِ آدم علیہ السّلام کے جسم کی ساخت تو بہت عرصہ تک ہوتی رہی،ہر قسم کی مٹی پانی کا جمع فرمانا پھر اس کا خمیر کرنا،پھر اعضاء ِظاہری باطنی کا بنانا،پھر بہت روز تک سُکھانا،اِس میں بہت دن لگے،یہ ایک دن اور ایک ساعت میں نہیں ہوا۔(مرآۃالمناجیح،7/606)
دو شنبہ مصطفیٰ کاجمعۂ آدم سے بہتر ہے سکھانا کیا لحاظِ حیثیت خوئے تأمُّل کو
الفاظ معانی: دوشنبہ :پیرشریف کا دِن۔ خوئے تأمّل:سوچنے کی عادت۔
شرحِ کلامِ رضا:میرے آقا اعلیٰ حضرت بڑ ی پیاری بات فرمارہے ہیں کہ اللہ پاک کے پیارے پیارے آخری نبی،مکی مدنی،محمدِعربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہی کی وجہ سے ساری کائنات کو پیدا کیاگیا آپ نہ ہوتے تو کچھ نہ ہوتا لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یومِ وِلادت پیر شریف کا دِن حضرتِ آدم علیہ السّلام کے یومِ ولادت جمعہ کے دِن سے اَفضل ہے،سوچ وبچار کی عادت کو یہ سمجھانا مشکل نہیں ہےکیونکہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تو حضرتِ آدم علیہ السّلام کے بھی آقا اورسارے نبیوں کے سردار ،شہنشاہِ ابرار ہیں۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
انسان کے جسم سے رُوح نکلتے وقت تکلیف کیوں ہوتی ہے؟
اللہ پاک نے جب رُوح کوحضرتِ آدم علیہ السّلام کے جسم میں داخل ہونے کا حکم اِرشادفرمایا تو رُوح نے عرض کیا :یا اللہ پاک !یہ جگہ نہایت گہری اوراندھیری ہے ۔ تین بار حکمِ الٰہی ہوا اور تینوں بار روح نے یہی عرض کی تو اللہ پا ک نے فرمایا: نہ چاہتے ہوئے داخل
ہورہی ہے توپھر نکلنے میں بھی سخت تکلیف ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ جب انسان کے جسم سے روح نکلتی ہے تو سخت تکلیف ہوتی ہے ۔ (تفسیر روح البیان،پ1/100،البقرۃ،تحت الآیۃ:31)تفسیرِ نعیمی میں ہےکہ بعض روایات میں ہے: تب نورِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سےوہ مبارک قالب (یعنی وجود )جگمگادیا گیا یعنی وہ نورپیشانیِ آدم علیہ السّلام میں امانت رکھاگیا اَب روح آہستہ آہستہ داخل ہونے لگی۔(تفسیرِ نعیمی،1/226)
سب سے پہلے چھینک کس کو آئی
سب سے پہلے روح سرِمبارک میں داخل ہوئی تو حضرتِ آدم علیہ السّلام کو چھینک آئی ، اللہ پاک نے آپ کے دِل میں اَلحمدُ لِلّٰہ کہنے کا اِلہام فرمایاتوآپ نے اَلحمدُ لِلّٰہ پڑھا اِس پر خود اللہ کریم نے یَرْحَمُكَ اللہ فرمایا۔( ) جب روح کمر شریف تک پہنچی تو آپ علیہ السّلام نے اُٹھنا چاہا مگر نیچے تشریف لے آئے کیونکہ نیچے کے حصے تک اَبھی روح نہیں پہنچی تھی ،جب تمام جسم میں روح پہنچ گئی تو اللہ پاک نے آپ کو اِرشادفرمایا:اےآدم!میں کون ہوں؟حضرتِ آدم علیہ السّلام نے عرض کیا: تُواللہ ہے تیرے سِواکوئی عبادت کے لائق نہیں ،اللہ پاک نے ارشاد فرمایا:تم نے صحیح کہا۔(تاریخِ ابنِ عساکر ،7/385)ترمذی شریف میں ہے کہ اللہ پاک نے آپ کو اِرشاد فرمایا: اے آدم!فرشتوں کی اِس بیٹھی ہوئی جماعت کے پاس جاؤاور کہو: اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم ۔ چنانچہ انہوں نے” اَلسَّلَامُ عَلَیْکُم“ کہا تو فرشتوں نے جواب دیا:عَلَیْکَ السَّلَامُ وَرَحْمَۃُاللہِ۔ پھر آپ علیہ السّلام اللہ پاک کی بارگاہ میں واپس حاضر ہوئےتو اللہ پاک نےاِرشاد فرمایا: یہ تمہارا اور تمہاری اولاد کا آپس میں سلام ہے۔ ( ترمذی،5/241، حدیث:3379)
سلام کی برکتیں
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اِس واقعے سے یہ بھی پتا چلا کہ سلام کرنا بہت پُرانی سنّت ہے،فیضانِ سلام عام کریں اور خوب رحمتِ خداوندی سے حصہ پائیں،اَلحمدُ لِلّٰہ! عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی سنتیں عام کرتی اورگھر گھر سنت کا پیغا م پہنچاتی ہے ۔72نیک اعمال کے رسالے میں نیک عمل نمبر30 ہے: ”کیاآج آ پ نے گھر، دفتر، بس، ٹرین وغیرہ میں آتے جاتے اورگلیوں سے گزرتے ہوئے راہ میں کھڑے یابیٹھے مُسلمانوں کو سلام کیا؟“
شہا!ایسا جذبہ پاؤں کہ میں خوب سیکھ جاؤں تری سنّتیں سکھانا مَدنی مدینے والے
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
آنکھ،کان اورناک میں قدرت کے کرشمے
عظیم تابعی بُزرگ،اہلِ بیتِ اَطہار کے روشن چراغ،حضرتِ امام جعفرصادق رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے دادا (حضرتِ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ )سےرِوایت کرتے ہیں کہ حُضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نےارشادفرمایا:’’اللہ پاک نے اپنے فَضل وکَرم سے ابنِ آدم(یعنی اِنسان) کی آنکھوں میں ’’نمکینی ‘‘رَکھی کیونکہ یہ دونوں چَربی کے ٹکڑے ہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ پگھل جاتے۔ اللہ پاک نے اِبْنِ آدم پرمہربانی کرتے ہوئےاِس کے کانوں میں’’کَڑواہٹ‘‘ رَکھی، جو کیڑے مکوڑوں کےلئےرُکاوٹ ہےکیونکہ اگرکوئی کیڑا کان میں داخل ہوجائےتودِماغ تک پہنچ جائےلیکن جب کڑواہٹ چکھتا ہے تو نکل بھاگتا ہے۔ اللہ پاک نے اپنی رَحمت سے اِبْنِ آدم کے ناک کے سوراخوں میں ’’حَرارت ‘‘(یعنی گرمائش) رکھی جس سے وہ بُو سونگھتا ہے اگر یہ نہ ہو تو دِماغ بدبودار ہو جائے۔اللہ پاک نے اِبْنِ آدم پر فضل واِحسان کرتے ہوئے اِس کے ہونٹوں میں’’مِٹھاس‘‘رکھی جس کے ذریعے وہ ذائقہ چکھتا ہے اور لوگ اِس
کی گفتگو کی مِٹھاس سےلُطف اَندوزہوتےہیں۔“ (حلیۃالاولیاء ،3/229،رقم:3797،اللہ والوں کی باتیں،3/285)
کون فرمانبرداری کرتاہے
پیارے پیارے اسلامی بھائیو!اللہ پاک نے جب حضرتِ آدم صفی اللہ علیہ السّلام کو پیدا فرمایا تو فرشتوں نے کہا:اللہ پاک ایسی مخلوق پیدا نہیں فرمائے گا جو ہم سے زیادہ علم والی اور بارگاہِ الٰہی میں ہم سے زیادہ عزت والی ہو۔ فرشتے حضرتِ آدم علیہ السّلام کے ذریعے آزمائے گئےاِسی طرح اللہ پاک بندوں کو آزمائش میں مبتلا فرماتا ہےتاکہ ظاہر ہو کہ کون فرمانبرداری کرتا اور کون نافرمانی کرتا ہے او رجو دُنیا و آخرت کے بارے میں غور وفکر کرتا ہے وہ ایک کی دوسرے پر فضیلت جان لیتا ہے اور پہچان لیتا ہے کہ دنیا آزمائش کا گھراور فنا ہونے والی ہے جبکہ آخرت بدلے کا ہمیشہ باقی رہنے والا گھر ہے، لہٰذا (اگر تم طاقت رکھتے ہو تو ) ان لوگوں میں سے ہوجاؤ جو دنیا کی ضرورت کو آخرت کی ضرورت کی خاطر چھوڑ دیتے ہیں اور نیکی کی توفیق اللہ پاک ہی کی طرف سے ملتی ہے۔
(تفسیر طبری،پ1، البقرۃ، تحت الآیۃ: 30، 1/242، تفسیر در منثور ، البقرۃ،تحت الآیۃ: 219 ، 1/611 ملتقطاً )
حضرتِ آدم علیہ السلام کا قد مبارک
بُخاری شریف میں ہے: حضرتِ آدم علیہ السّلام کا(مبارک)قد 60گز(یعنی 90 فٹ) تھا۔ جو بھی جنت میں جائے گا وہ حضرت آدم علیہ السّلام کی صورت پر ہوگا اور اُس کا قد 60 گز ہوگاپھر حضرتِ آدم علیہ السّلام کے بعداَب تك مخلوق(قدو قامت میں) کم ہوتی رہی ہے۔ ( بخاری،4/164، حد یث:6227)
حضرتِ مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃُاللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں: جنت میں صِرف انسان ہی جائیں گے، جانور یا جنّات نہ جائیں گے اور تمام جنّتی انسان آدم علیہ السّلام کی طرح حسین و جمیل تندرست ہوں گے کوئی بدشکل یا بیمار نہ ہوگا اور سب کا قد 60ہاتھ ہوگا کوئی اِس سے کم یا زیادہ نہ ہوگا،دُنیا میں خواہ پست (یعنی چھوٹا)قد تھا یا دراز (یعنی لمبا)قد،بچہ تھا یا بوڑھا، مگر یہ کمی صرف دنیا میں ہے آخرت میں جنت میں پوری کردی جاوے گی۔(مرآۃ المناجیح ،6/313-314 ملتقطا)
اے عاشقانِ رسول!بظاہر اتنا لمبا قد ہونا عجیب اور ناممکن معلوم ہوتا ہے لیکن اللہ پاک کی قدرت پر نظر کی جائے تو نہ یہ عجیب ہے اور نہ ہی ناممکن ، کیونکہ اللہ پاک اتنے لمبے قد والا انسان بنانے پر بالکل قادِر ہے۔
ہے پاک رُتبہ فکر سے اُس بے نیاز کا کچھ دَخل عقل کا ہے نہ کام اِمتیاز کا
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد