30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلحمدُ لِلّٰہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط حضرتِ عثمان بھی جنّتی جنّتی دُعائے عطار : یارَبَّ المصطفٰے!جو کوئی 17صفحات کا رسالہ “ حضرتِ عثمان بھی جنتی جنتی “ پڑھ یا سُن لے ، اُسےاپنے پیارے پیارے ، آخِری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پیارے صحابی حضرتِ عثمان ِ غنی رضی اللہ عنہ کی سخاوت و حیا سے حصہ نصیب فرما اور اُسے جنَّتُ الفردوس میں بِلا حساب داخِلہ نصیب فرما۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ۔دُرُود شریف کی فضیلت
فرمانِ مولیٰ علی مشکل کُشا رضی اللہ عنہ : ہرشخص کی دُعا پَردے میں ہوتی ہے یہاں تک کہ محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اورآلِ محمدپر دُرُودِ پاک پڑھے۔ (معجم اوسط ، 1 / 211 ، حدیث : 721 ) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدجنّتی کُنواں
اللہ پاک کےپیارے پیارے آخری نبی ، مَکّی مَدَنی ، محمدِ عربی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پیارے پیارےصحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان جب مکّۂ پاک سے ہجرت (Migrate) کرکے مدینہ ٔ پاک تشریف لائے تو مہاجرین کی کثرت سے پانی کی کمی محسوس کی جانے لگی ، بنی غِفار کے ایک شخص کے پاس ایک کُنواں تھا جس کا نام ’’رُومہ ‘‘ تھا۔ وہ اِس کا ایک مشکیزہ ایک مُد (1)کے بدلے بیچتے تھے۔ مالکِ جنَّت ، مصطفےٰ جانِ رحمت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اُس شخص سے اِرشاد فرمایا : یہ چشمہ مجھے جنَّت کے چشمے کےبَدلے بیچ دو۔ اُس نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !میرا اورمیرے بچوں کا اِس کے عِلاو ہ کوئی اور کمانے کا ذریعہ نہیں ہے لہٰذا میں اِس معاملے کی طاقت نہیں رکھتا۔ جب یہ بات حضرتِ عثمان ِ غنی ذُوالنُّورَیْن رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو آپ نے وہ کُنواں 35ہزار دِرہم کاخرید کر بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !اگر میں وہ کُنواں خریدوں توکیا آپ میرے ساتھ بھی ویسا معاملہ فرمائیں گے؟(یعنی جنّتی چشمے کے بدلے مجھ سے قبول فرمالیں گے؟) رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نےاِرشادفرمایا : بالکل ، حضرتِ عثمان ِ غنی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !میں نے وہ کُنواں خریدکر تمام مسلمانوں کے لئے وَقف کردیا ہے۔ (معجم کبیر ، 2 / 41 ، حدیث : 1226) ایک روایت کے مطابق حضرتِ سیِّدُناشیخ عبد الحق محدثِ دِہلوی رحمۃُ اللہ علیہ علامہ عبدالبَّر رحمۃُ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ یہ کُنواں ایک یہودی کاتھا۔ و ہ اِس کا پانی مسلمانوں کوبیچتاتھا۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اِس کنوئیں کو خریدنے کی ترغیب اِرشاد فرمائی تو حضرتِ عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے اُس یہودی سے 12000درہم کے بدلے میں آدھا کُنواں خریدلیا ، جب اُس یہودی کو بقیہ حصے سے نفع کمانا مُشکل ہوگیاتو آپ رضی اللہ عنہ نے 8000کے بدلے بقیہ حصہ بھی خرید لیا (اور تمام مسلمانوں پر وقف کردیا۔ )(تاریخِ مدینہ ، اُردو ، 205) اللہ ربُّ الْعِزَّت کی ان پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ۔ اے عاشقانِ رسول!اِس مُبارک کُنوئیں کی شان و عظمت پہ لاکھوں سلام کہ اِس مبارک کُنوئیں سے اللہ پاک کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا پانی پینا بھی ثابت ہے۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ایک مرتبہ یہاں سے تشریف لے کر جارہے تھےکہ آپ کی خدمتِ بابرکت میں عرض کی گئی کہ حضرتِ عثمان ِ غنی رضی اللہ عنہ نے اِسے خرید کر صدقہ کردیا ہے تو آپ نے دُعامانگی : مولا!عثمان کے لئے جنَّت لازم کردے۔ پھراُس میں سے پانی منگواکر پیا اور اِرشادفرمایا : اِس وادی میں عنقریب بہت سے چشمے ہوں گے جو بہت میٹھے ہوں گے لیکن بئرِ مُزنی(یعنی بیرِ رُومہ)اُن سب سے میٹھا ہوگا۔ (سبل الہدی والرشاد ، 7 / 227)حضرتِ عثمانِ غنی کے لئے دُعائے مصطفیٰ
اللہ پاک کے رحمت والے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اِس کُنوئیں کے خریدنے پر یہ دُعا اِرشادفرمائی تھی : “ جو بِئرِ رُومہ خریدے وہ جنت میں سیراب کیا جائے گا۔ “ (تاریخِ مدینہ لابن شبہ ، 1 / 154 ماخوذا ) ’’رُومہ‘‘ اُس کُنوئیں کے مالک کا نام تھا جس سے(حضرتِ)عثمانِ غنی نے خریدا۔ یہ (کُنواں ) مسجد ِقِبْلَتَیْن کے شمالی جانب واقع ہے ، اِس کا پانی بہت ہی میٹھا لذیذ اور ہلکا زُودہضم (یعنی جلد ہضم ہونے والا)ہے ، اَب اِسے ’’بیرِ عثمان‘‘ بھی کہتے ہیں اور’’ بیر ِجنَّت‘‘ بھی ، کیونکہ اِس کُنوئیں کی خرید پر حضرت ِعثمان رضی اللہ عنہ سے جنَّت کا وعدہ فرمایا گیا۔ (مِرآۃ المناجیح ، 8 / 398) اللہ سے کیا پیار ہے عثمانِ غنی کا محبوبِ خدا یار ہے عثمانِ غنی کا صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدحضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کا تعارف
اے عاشقانِ صحابہ واہلِ بیت!جامِعُ القرآن ، تیسرے خلیفہ ، حضرتِ عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ واقعۂ فیل کے چھٹے (6th) سال مکہ ٔپاک میں پیدا ہوئےاورآپ کا سلسلۂ نسب 5واسطوں سے اللہ پاک کے پیارے پیارے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سلسلۂ نسب سے جاملتا ہے۔ (تاریخ الخلفاء ، ص118) آپ رضی اللہ عنہ نےآغازِ اسلام ہی میں قبولِ اسلام کر لیا تھا ، آپ کی کنیت ’’ابو عَمرو‘‘اور لقب جامع ُالقرآن ہے ، آپ کو’’ صَاحِبُ الْہِجْرَتَیْن ‘‘(یعنی دو ہجرتوں والے) کہا جاتا ہے کیونکہ آپ نے پہلےحبشہ اور پھرمدینے شریف کی طرف ہجرت فرمائی۔ (کراماتِ عثمان غنی ، ص 3-4 )حضرتِ عثمانِ غنی کی بے مثال خصوصیت
اے عاشقانِ صحابہ و اہلِ بیت!حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کی بھی کیا شان ہے! اللہ پاک کے نبی کا’’ داماد ‘‘ہونے کی حیثیت سے جو خصوصیّت اور اِنفرادیّت حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کو حاصل ہوئی ، وہ کائنات میں کسی اورکوحاصل نہ ہوسکی ، حضرت آدم علیہ السّلام سے لے کر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تک کسی کے نکاح میں کسی نبی کی دو بیٹیاں نہیں آئیں لیکن حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ وہ خوش نصیب ، جنّتی صحابی ہیں کہ جن کےنکاح میں کسی اور نبی کی نہیں بلکہ سارے نبیوں کے سردار ، جنابِ احمدِ مختار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی دو صاحبزادیاں ایک کے بعد دوسری نکاح میں آئیں۔ اِسی لئے آپ کا ایک لقب “ ذُوالنُّورَین “ (یعنی دو نور والے)بھی ہے ، اللہ پاک کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نےفرمایا : اگر میری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں (ایک کے بعد دوسری سے )تمہارا نکاح کردیتا ۔ (معجم کبیر ، 22 / 436 ، حدیث : 1061)حضرت عثمانِ غنی کا غم
اللہ پاک کے پیارے رسول ، رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پیاری شہزادی حضرتِ رُقَیَّہ ( رضی اللہ عنہا ) وفات پاگئیں توحضرتِ عثمان غنی بہت روئے ، حضور( صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ) نے پوچھا : عثمان کیوں روتے ہو؟ عرض کیا : میں حضور کی دامادی سے محروم ہوگیا ہوں ، یہ سُن کرآپ نے اِرشادفرمایا : مجھ سے جبریلِ امین نےعرض کیا ہے کہ اللہ پاک کا حکم ہے کہ میں اپنی دوسری صاحبزادی اُمِّ کُلثوم کا نکاح تم سے کردوں بشرطیکہ وہی مہر ہو جو رُقَیَّہ کا تھا اور تم اِس سے وہ ہی سُلوک کرو جو رُقَیَّہ سے کیا ، چنانچہ حضرتِ اُمِّ کُلثوم ( رضی اللہ عنہا )کا نکاح آپ سے کر دیاگیا۔ دُنیا میں ایسا کوئی نہیں جس کے نکاح میں نبی کی دو بیٹیاں آئی ہوں اِس لیے آپ کو ذُو النُّورَیْن کہا جاتا ہے یعنی دو نور والے۔ معلوم ہوا کہ حضور بھی نور ہیں اور آپ کی اولاد بھی نور۔ (مرقاۃ ، 10 / 445 ، تحت الحدیث : 6080 ، مرآۃ المناجیح ، 8 / 405)میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ اِس نسبت کو کتنے پیارے اَنداز میں بیان فرماتےہیں : نور کی سرکار سے پایا دو شالہ نُور کا ہو مبارَک تم کو ذُوالنُّورَین جوڑا نور کا (حدائقِ بخشش ، ص246)دونوروالا کہنے کی ایک اوروَجہ
حضرت علّامہ عبد الرَّء ُوف مُناوی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں : حضرتِ عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کو ذُوالنُّورَیْن اِس لئے کہا جاتاہے کہ جب آپ جنَّت کے ایک محل سے دوسرے محل میں تشریف لے جائیں گے تو آپ پر دوبار نور کی تجلّی(تَجَلْ -لِیْ) ظاہر ہوگی۔ (فیض القدیر ، 4 / 399 ، تحت الحدیث : 5379) نورِدِل وعین ہیں صاحبِ نورَین ہیں سب کے دل کے چین ہیں مومنوں کی جان ہیں صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
1…مُد ایک پیمانہ ہے جو 2 رطل یعنی 787.32 گرام کے برابر ہے ۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع