30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم طتذکرہ حضرت جہجاہ بن سعید غِفاری رَضِیَ اللہُ عَنْہ
رَضِیَ اللہُ عَنْہدُرُود شریف کی فضیلت
حضرتسیّدنااَنَس بن مالک رَضِیَاللّٰہُ عَنْہ سےروایت ہےنبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اللہ پاک کی خاطر آپس میں مَحبت رکھنے والے جب باہم ملیں اورمُصَافَحَہ کریں اورنبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر دُرُودبھیجیں تو اُن کے جُدا ہونے سے پہلے دونوں کے اگلے پچھلے گناہ بَخْش دئیے جاتے ہیں۔ ( مسند ابی یعلی ، مسند انس بن مالک ، ۳ / ۹۵ ، حدیث : ۲۹۵۱) صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدامت کے بہترین افراد !
نبیِ پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کے شرفِ صحبت سے فیضیاب ہوکر جو جلیل القدر ہستیاں صحابیت کے درجوں پر فائز ہوئیں وہ ساری امت میں سب سے افضل ہیں ۔ انہی عظیم صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان میں سے ایک حضرت سیّدنا جہجاہ بن سعید غفاری رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بھی ہیں ۔ تابعین سے لے کر قیامت تک اُمت کا کوئی ولی ، غوث ، قطب یا ابدال جیسے کتنے ہی بلند مرتبےکو پہنچ جائے ہرگز ہرگز ان کے عظیم مرتبے تک نہیں پہنچ سکتا ۔ابتدائی تعارف
آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کا نام جہجاہ مشہور ہے جبکہ حضرت امام محمد بن يوسف شامی رحمۃ اللہ علیہ حضرت امام ابن جریر طبری رحمۃ اللہ علیہ سے نقل فرماتے ہیں : اَلْمُحَدِّثُونَ يَزِيْدُوْنَ فِيهِ الْهَاء ، وَ الصَّوَابُ جَهْجَا ، دُونَ هَاء یعنی محدثین نے اس میں “ ہ “ کا اضافہ کر دیا درست “ ہ “ کے بغیر “ جہجا “ ہے۔ ( سبل الھدیٰ والرشاد ، 4 / 356) آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کی ولدیت کے بارے میں سیرت وتاریخ کی کتابوں میں سعید ، قَیس ، مسعود( الاصابۃ ، جھجاہ بن سعید ، 1 / 621 ، رقم : 1248)اور سعد کے نام موجود ہیں۔ ( عیون الاثر ، ذكر فوائد تتعلق بخبر بنی المصطلق الخ ، 2 / 144)جس سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے والد کے نام میں اختلاف ہے۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے گھوڑوں کی دیکھ بھال کرتے تھے۔ ( غوامض الاسماء المبھمۃ ، 1 / 102) امیرالمؤمنین حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کی شہادت کے کچھ ہی عرصے بعد آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کا انتقال ہوا۔ ( طرح التثریب فی شرح التقریب ، 1 / 38)قبیلۂ غِفار کے لئے دُعائے مصطفےٰ
حضرت سیّدنا جہجاہ بن سعید غفاری رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کا تعلق قبیلہ غِفار سے تھا۔ نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے اس قبیلے کے لیے منبرِ انور پر یوں دُعا فرمائی : غِفَارُ غَفَرَ اللّٰهُ لَهَا یعنی اللہ پاک غِفار کی مغفرت فرمائے۔ ( بخاری ، کتاب المناقب ، باب ذکر اسلم و غفار الخ ، 2 / 477 ، حدیث : 3513 مختصراً )ایک اور روایت میں نبیٔ پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے غِفار سمیت سات قبیلوں کا نام لے کر فرمایا : یہ میرے مددگار ہیں ، اللہ ورسول ہی اِن کےمددگار ہیں۔ ( بخاری ، کتاب المناقب ، باب ذکر اسلم و غفار الخ ، 2 / 475 ، حدیث : 3504 ) جلیل القدر صحابی حضرت سیّدنا اَبو ذَر غِفاری ، حضرت سیِّدُنا خِفاف بن ایماء غِفاری ، حضرت سیِّدُنا اُنَيس بن جُنادہ غِفاری ، حضرت حُذیفہ بن اُسَید غِفاری ، حضرتِ سیِّدُنا عُباد بن خالد غِفاری ، حضرتِ سیِّدُنا حَکَم بن عَمْرْو غِفاری اور حضرت سیّدنا رافع بن عَمْرْو غِفاری رِضْوَانُ اللّٰہ ِ عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن کا تعلق بھی اسی قبیلے غِفار سے تھا۔قبولِ اسلام کا واقعہ
حضرت سیّدنا جہجاہ بن سعید غفاری رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ سے روایت ہے کہ میں اپنے قبیلے کے ایک ایسے گروہ کے ساتھ نبیٔ پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں مغرب کے وقت حاضر ہوا جو اسلام قبول کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے سلام پھیر کر فرمایا : ہر شخص اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے آدمی کا ہاتھ پکڑے اور اُسے اپنے ساتھ لے جائے۔ (جب سب جاچکے تو )اب مسجد میں میرے اور رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ میں دراز قد اور عَظِیْمُ الْجُثَّہ تھا ، میری جانب کوئی بھی نہ بڑھا۔ مجھے نبیٔ پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ اپنے گھر لے آئے ، پھر میرے لیے ایک بکری کا دودھ نکالا میں نے پی لیا ، حتیّٰ کہ نبیٔ پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے سات بکریوں کا دودھ نکالا میں نے وہ سارا پی لیا پھر ایک پتھر کی ہانڈ ی میں کچھ لایا گیا میں نے وہ بھی کھا لیا۔ حضرت اُمِّ اَیْمَن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہا نے کہا : اللہ اُسے بھوکا رکھے جس نے آج رات رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کو بھوکا رکھا۔ نبیٔ پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : اُمِّ اَیْمَن چھوڑو!اس نے اپنا رزق کھایا ہے اور ہمارا رزق اللہ پاک کے ذمے ہے۔ اگلے روز نبیٔ پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ اور صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان جمع ہوئے اور جس کے ساتھ جو ہوا بتانے لگے۔ تو حضرت جہجاہ نے سات بکریوں کے دودھ اور ہانڈی کے کھانے کی بات بتائی ۔ (اس دن اسلام لانےکے بعد حضرت جہجاہ بن سعید غفاری اور دیگر )صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے پھر نبیٔ پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی اور وہی فرمایا کہ ہر شخص اپنے ساتھ بیٹھے ہوئے آدمی کا ہاتھ پکڑے اور اُسے اپنے ساتھ لے جائے۔ (اس بار بھی) مسجد میں میرے اور رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کے علاوہ اور کوئی باقی نہیں رہا۔ نبیٔ پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ مجھے اپنے گھر لے آئے ، پھر میرے لیے ایک بکری کا دودھ لائے میں نے اُسے پیا اور خوب سَیْر ہو گیا۔ حضرت اُمِّ اَیْمَن رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ نے کہا : کیا یہ ہمارا (کل والا ) مہمان نہیں؟نبیٔ پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : کیوں نہیں آج اس نے مومن کی آنت میں کھایا ہے ، پہلے اس نے کافر کی آنت میں کھایا تھا ، بے شک مؤمن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کافر سات آنتوں میں کھاتا ہے۔ ( معرفۃ الصحابۃ ، 1 / 517 ، حدیث : 1746 )غزوہ ٔبنی مُصطَلِق میں شرکت
آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ اسلام کی سربلندی کیلئے 5 ہجری میں غَزوۂ بَنِی مُصْطَلِق ہوا تو نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کی معیت میں حضرت سیدنا جہجاہ بن سعید غفاری رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ بھی اس جنگ میں شریک تھے۔ ( الاستیعاب ، 1 / 268 )اس غزوہ کے وقت آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے اجیر تھے اور آپ کا گھوڑا پکڑ کر چل رہے تھے۔ ( الاستیعاب ، 2 / 656 )بیعتِ رِضوان میں شِرکت کی سعادت
حضرت سیّدنا جہجاہ بن سعید غفاری رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کے بدری صحابی ہونے کی کوئی تصریح تو نہیں مل سکی البتہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کو یہ سعادت حاصل ہے کہ جب نبیِ کریم صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے صلحِ حدیبیہ کے موقع پر ایک درخت کے نیچے صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان سے بیعت لی تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ اس میں شریک تھے جیسا کہ حضرت امام اِبنِ حَجر عَسقَلانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : شَہِدَ بیعۃَ الرضوانِ بالحُدَیبیۃ یعنی آپ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ صلح حدیبیہ کے موقع پر بیعتِ رضوان میں حاضر تھے۔ ( الإصابۃ فی تمییز الصحابۃ ، 1 / 621 ) جوصحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اس بیعت میں شریک تھے قرآنِ کریم میں انہیں رضائے الٰہی کا مُژدہ سنایا گیا ہے جیساکہ ارشادِ خداوندی ہے : لَقَدْ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّكِیْنَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحًا قَرِیْبًاۙ(۱۸) (پ ۲۶ ، الفتح : ۱۸) ترجَمۂ کنز الایمان : بیشک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے تو ان پر اطمینان اتارا اور انہیں جلد آنے والی فتح کا انعام دیا۔ نیز حدیثِ پاک میں اِن تمام صحابَۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کیلئے جہنم سےآزادی کی بَشارت بھی بیان کی گئی ہے جیساکہ نبیٔ پاک صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی ان میں سے کوئی بھی جہنم میں داخل نہیں ہوگا۔ ( ترمذی ، کتاب المناقب ، باب فی فضل من بایع تحت الشجرۃ ، 5 / 462 ، حدیث : 3886) صَلُّو ا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع