my page 1
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Ilm e Deen Ke Baray Mein 22 Sawal Jawab | علم دین کے بارے میں 22 سوال جواب

    book_icon
    علم دین کے بارے میں 22 سوال جواب
                
    اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی خاتَمِ النَّبِیّٖن ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمطبِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمط

    علم ِ دین کے بارے میں22 سوال جواب

    دُعائے خلیفۂ امیرِ اہلِ سنّت: یاربَّ المصطفٰے!جوکوئی 21 صفحات کا رسالہ ” علمِ دین کے بارے میں 22 سوال جواب‘‘پڑھ یاسُن لے اُسے علمِ دین حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما کر ماں باپ سمیت بلاحساب جنّت میں داخلہ عطا فرما۔ اٰمِین بجاہِ خاتَم ِالنّبیّٖن صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

    دُرُود شریف کی فضیلت

    فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم :جس نے دن اور رات میں میری طرف شوق و مَحبَّت کی وجہ سے تین تین مرتبہ دُرُودِ پاک پڑھا ، اللہ پاک پر حق ہے کہ وہ اُس کے اُس دن اور اُس رات کے گناہ بخش دے۔ (معجم کبیر،18 /362، حدیث:928) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد سوال: علمِ دین کسے کہتے ہیں؟ کیا صرف نماز روزے کا علم ہی علمِ دین ہے؟ جواب:علم کا مطلب ہے: جاننا، معلوم ہونا۔ نماز روزے کا علم بھی بے شک علم ِ دین ہے، لیکن اس کے علاوہ بھی بہت ساری چیزیں علمِ دین میں داخل ہیں۔ علم ِدین میں بہت وُسعت ہے اور یہ اتنا زِیادہ ہے کہ سارا علم تو کوئی حاصل کر ہی نہیں سکتا۔ سب سے بڑی علم والی ذات اللہ پاک کی ہے،جس کو کسی نے علم نہیں دیا، وہ اپنے آپ عالِم ہے۔ پھر اُس کے دئیے سے اُس کی مخلوق میں حضرتِ آدم علیہ السّلام سے لے کر قیامت تک کے لئے سب سے بڑے عالمِ دین جناب رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہیں۔ ہر نبی عالمِ دین ہوتا ہے اور اپنی امّت میں سب سے بڑا عالِم وہی ہوتا ہے۔ اِس وقت کے نبی میرے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سب سے بڑے عالِم ہیں۔ یوں علمِ دین کی وُسعت اور گہرائی بہت زیادہ ہے، اس لئے جو جتنا زیادہ علمِ دین حاصل کرسکے اس کو کرنا چاہیے۔ (ملفوظات امیر اہل سنت ، 5/271) سوال:تعلیم حاصل کرنا ہر مَرد و عَورَت پر فرض ہے۔ یہ راہ نُمائی فرمائیے کہ کتنا علم حاصل کرنا ضروری ہے؟ جواب: طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ ۔یعنی ہر مسلمان پر علم طلب کرنا فرض ہے۔ ‘‘(1)لفظ ِ’’تعلیم‘‘ پر آدَمی تھوڑا آگے پیچھے ہوجاتا ہےاور تعلیم سے مُراد عُمومًا اِسکول وغیرہ کی تعلیم لی جاتی ہے حالانکہ اِس حدیث سے اِسکول یا کالج کی تعلیم مُراد نہیں ہے۔ (2) بعض لوگ اِس طرح کی اَحادیثِ کریمہ کے ذریعے اپنے اِسکول، کالج اور دُنیاوی تعلیمی اِدارے چَلا رہے ہوتے ہیں،توبہ! اَسْتَغْفِرُ اللہ ۔ اَحادیثِ مُبارَکہ سے اپنی اَٹکل کے ذریعے اِستِدلال کرنا حَرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے،(3) صرف مُحَدِّثِین عُلَمائے کِرام ہمیں اِس کا معنیٰ بتاسکتے ہیں۔ بہرحال! اَعلیٰ حضرت اِمام اَحمد رَضا خان رحمۃُ اللہ علیہ نے اِس حدیثِ پاک کی ’’فتاویٰ رَضَویّہ‘‘ میں تفصیلاً شرح فرمائی ہے جس کا خُلاصہ کچھ یوں ہے کہ ’’ہر مسلمان پر فرض عُلوم جاننا ضروری ہیں جیسے کوئی بالغ ہُوا تو اُس پر نَماز فرض ہوگئی، اب اُس پر نَماز کے ضروری مسائل جاننا بھی فرض ہوگیا،اِسی طرح رَمَضان آیا تو جس پر روزہ فرض ہے اُس پر رَمَضان کے ضروری مسائل جاننا بھی فرض ہوگیا، یُوں ہی تاجِر یعنی Businessman پر تجارت کے، گاہَک پر خریداری کے، نوکر پر نوکری کے، جس پر زکوٰۃ فرض ہے اُس پر زکوٰۃ کے، اِسی طرح جس کو شادی کرنی ہے اُس پر نِکاح و طلاق کے ضروری مسائل جاننا فرض ہیں۔‘‘(4) (ملفوظات امیر اہل سنت ،4/373-374) سوال: علمِ دین کتنا آنا چاہئے؟ جواب: سب سے پہلے تو اپنے عقائد سے واقف ہونا ضروری ہے، اس کے علاوہ گناہوں کی معلومات ہونا فرض ہے، باطنی بیماریاں مثلاً تکبر، حسد، ریا وغیرہ جن کو ”مُہْلِکات“ کہا جاتا ہے ان کی معلومات ہونا بھی فرض ہے ۔ اس کے لئے ”باطنی بیماریوں کی معلومات“ اور ”نجات دلانے والے اعمال کی معلومات“ یہ دونوں کتابیں مکتبۃُ المدینہ سے حاصل کر کے پڑھنا بہت ضروری ہے۔ (ملفوظات امیر اہل سنت ، 7/119) سوال:وقت ہونے کے باوجود علمِ دِین حاصِل نہ کرنے والے کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟ جواب:وقت ہونے کے باوجود عِلمِ دِین حاصِل نہ کرنا بہت بڑی محرومی کی بات ہے ، قیامت کے دِن ایسے شخص کو سب سے زیادہ حسرت ہو گی، چنانچہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اِرشاد فرمایا:سب سے زیادہ حسرت قِیامت كے دِن اُسے ہو گی جسے دُنیا میں عِلم حاصِل كرنے كا موقع ملا مگر اُس نے حاصِل نہ كیا اور اس شخص كو ہو گی جس نے عِلم حاصِل كیا اور دوسروں نے تو اس سے سُن كر نفع اُٹھایا لیكن اس نے نہ اُٹھایا (یعنی اس عِلم پر عمل نہ كیا)۔( تاریخ ابن عساکر،51/137 ) اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ! دعوتِ اسلامی کےدینی ماحول میں عِلمِ دِین حاصِل کرنے کے بے شمار مَواقِع ملتے رہتے ہیں اور وقتاً فوقتاً مختلف کورسز کا بھی سلسلہ ہوتا ہے، لہٰذا تمام اسلامی بھائی ان کورسز میں داخِلہ لیں، اِن شاءَ اللہ عِلمِ دِین سیکھنے سکھانے اور اس پر عمل کا جذبہ پانے کا ذہن نصیب ہو گا۔ (ملفوظات امیر اہل سنت ، 1/183، 184) سوال:ہمارے مُعاشرے میں دِینی تعلیم حاصِل کرنے والے طُلَبا کی حوصلہ شِکنی اور دُنیَوی تعلیم حاصِل کرنے والوں کی حوصلہ اَفزائی کی جاتی ہے،اِس سوچ کو کیسے بدلا جائے؟(5) جواب:دعوتِ اسلامی کےدینی ماحول سے وابستہ اَفراد یا خود عالِم،مُفتی اور قاری والدین اپنی اولاد کی دِینی تعلیم حاصِل کرنے پر نہ صِرف حوصلہ اَفزائی کرتے ہیں بلکہ اِس کے لیے کوششیں بھی کرتے ہیں لیکن مُعاشرے کے عام اَفراد کا بچوں کو دِینی تعلیم دِلوانے کا ذہن نہیں ہوتا بلکہ اگر بچّہ دینی ماحول ملنے کے سبب حفظِ قرآن یا دَرسِ نِظامی کرنا چاہے تو اسے اِس طرح کے طَعنے ملِتے ہیں کہ کیا مولوی بَن کر مسجد کی روٹیاں توڑے گا؟ عالِم بن کر کھائے گا کیا؟B.A کر یا ڈاکٹر یا اِنجینئربن تاکہ اچھا روزگار ملے۔ یہ بات صِرف طَعنوں کی حَد تک نہیں رہتی بلکہ باقاعدہ دِینی تعلیم سے روکنے کے لیے حَربے اِختیار کیے جاتے ہیں مثلاً اگر بیٹا دَرسِ نِظامی میں داخلہ لے لیتا ہے تو اب اس سے کما کر لانے کا مُطالبہ کیا جاتا ہے حالانکہ گھر میں مَعاشی تنگی کا سامنا بھی نہیں ہوتاجبکہ دوسری طرف دُنیوی تعلیم دِلوانے کے لیے پہلے اسکول میں دس سال اور پھر کالج اور یونیورسٹی میں کئی کئی سال جیب سے پیسا دے کر پڑھاتے ہیں۔اِس تعلیمی عرصے میں والدین ہر طرح کی سہولت دے کر اَولاد کو تعلیم کے لیے بالکل فارِغ کر دیتے ہیں۔اگر اپنا ذاتی کاروبار ہو تو اس میں بھی دَخل اندازی سے منع کرتے ہیں تاکہ پڑھائی میں کوئی حَرَج نہ ہو۔ موجودہ مُعاشرے میں بھی دُنیوی تعلیم حاصِل کرنے والوں کی خوب حوصلہ اَفزائی کی جاتی ہے۔ مختلف اِداروں کی طرف سے ان طُلَبا کو اِسکالر شِپ اور نوکریاں دی جاتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مَدارِس میں پڑھنے والے طُلَبا کی تعداد اسکول کالج پڑھنے والوں کے مقابلے میں ایک فیصد بھی نہیں۔ گلی گلی اسکول کُھلے ہوئے ہیں لیکن مَدارس گِنے چُنے ہی مِلیں گے ۔ والدین اپنی اَولاد کو دُنیوی تعلیم کی رَغبت دِلانے کے لیے شروع سے ہی یہ ذہن دیتے ہیں: پڑھو گے لکھو گے بَنو گے نَواب کھىلو گے کُودو گے ہو گے خراب تو ایسے والدین کی بارگاہ میں عرض ہے کہ دُنیا ہی سب کچھ نہیں، اَصْل آخرت ہے اور آخرت میں ڈاکٹریٹ یا انجینئرنگ کیا ہوا بیٹا کام نہیں آئے گا بلکہ حافِظ یا عالِمِ دِین بیٹا شَفاعت کرے گا جیساکہ سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے: قیامت کے دِن عالِم اور عابِد(یعنی عبادت گزار) کو اُٹھایا جائے گا عابِد سے کہا جائے گا کہ جنَّت میں داخِل ہو جاؤ جبکہ عالِم سے کہا جائے گا کہ جب تک لوگوں کی شَفاعت نہ کر لو ،ٹھہرے رہو۔ ( شعب الایمان،2/268،حدیث:1717) یہ کہنا کہ مولوی بن کر کھائے گا کیا؟ یہ مَحض شیطانی وَسوسہ ہے، رِزق اللہ پاک نے اپنے ذِمّۂ کَرم پر لِیا ہُوا ہے اور دِینی تعلیم حاصِل کرنے والے دُنیوی تعلیم والوں کے مقابلے میں زیادہ پُرسکون زندگی گزارتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ یہ خبریں تو سننے کو ملتی ہیں کہ فُلاں ڈاکٹر یا افسر نے خودکُشی کر لی لیکن یہ خبر آج تک سننے کو نہیں ملی کہ فُلاں عالِمِ دِین نے پریشانیوں سے تنگ آ کر موت کو گلے لگا لیا۔میرا بَرسوں سے چیلنج ہے کہ ایسی مثال آج تک کوئی نہیں لا سکا کہ کسی عالِمِ دِین نے خود کشی کر لی ہو۔اِس کا بُنیادی سبب یہ ہے کہ عُلَمائے کِرام کو اللہ پاک کی مَعْرِفَت صاصل ہوتی ہے۔ وہ اللہ پاک سے ڈرنے والے ہوتے ہیں اور ان کی یہ صِفَت خود قرآنِ پاک نے بیان فرمائی ہے، جیسا کہ پارہ 22، سورۂ فاطِر کی آیت نمبر 28 میں اِرشادِ خُداوَندی ہے: ﴿ اِنَّمَا یَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُاؕ-”ترجَمۂ کنز الایمان: اللہ سے اس کے بندوں میں وہی ڈرتے ہیں جو عِلم والے ہیں۔“ پیارے پیارے اسلامی بھائیو!دیکھا آپ نے کہ عُلَمائے کِرام کے کِس قدر فَضائِل ہیں کہ انہیں قیامت والے دِن شَفاعت کا منصب دیا جائے گا لہٰذا اپنی آخرت کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے سارے ہی بچوں کو عالِمِ دِین اور حافِظِ قرآن بنانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم از کم ایک بچے کو تو عالِم ِ دِین بنا ہی ڈالیں۔ اللہ پاک نے چاہا تو گھر بلکہ خاندان والوں کی بخشش کا ذَریعہ بن سکتا ہے۔ (ملفوظات امیر اہل سنت ،1 /200-202) سوال: کم وقت مىں زِىادہ علم حاصل کرنے کا کىا طرىقہ ہے؟ جواب: جو ذہىن ہوتا ہے وہ کم وقت مىں زِىادہ علم حاصل کرلىتا ہے کیونکہ ذہین جو پڑھتا ہے اُسے ىاد رہ جاتا ہےجس کی وجہ سے اُسے وقت کم لگتا ہے۔ جبکہ جو کم ذہىن ہوتا ہے اُس کو زِیادہ وقت لگتا ہے۔ کعبۃ ُ اللہ شرىف کى طرف مُنہ کرکے بیٹھ کر ىاد کرنے سے جلدی یاد ہوجاتا ہے۔ شیخ ُالاسلام علّامہ بُرہانُ الدّین ابراہیم زرنوجى رحمۃُ اللہ علیہ نے دو طُلَبا کا واقعہ لکھا ہے جس کا خُلاصہ ىہ ہے کہ’’ کسی جگہ سے دو طالب علموں نے علمِ دین حاصل کرنے کے لئے سفر کیا اور جب پڑھ کر واپس آئے تو اُن میں سے اىک بہت بڑے عالِم بن کر آئے جبکہ دوسرے اىسے نہىں تھے۔ جب عُلَمائے کِرام نے معلومات حاصل کیں کہ ىہ فرق کىوں ہے؟ تو یہ بات سامنے آئی کہ جو بہت اچھے عالِم بن کر آئے تھے وہ جب بھی سبق ىاد کرتے یا علم ِدىن حاصل کرتے تھے تو اِس بات کا اِہتِمام کرتے تھے کہ اُن کا رُخ قبلہ کى طرف رہے۔ تو عُلَمائے کِرام نے فىصلہ دیا کہ یہ کعبے کی طرف منہ کرکے بیٹھنے کی برکت ہے۔“( تعلیم المتعلم، ص114۔ راہِ علم، ص83) کعبے کى طرف رُخ کرکے بىٹھناسُنّت ہے، ( جمع الجوامع، 4/283، حدیث:11876) کیونکہ پىارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اکثر کعبے کی طرف رُخ کرکے بىٹھا کرتے تھے۔ ( احیاء العلوم، 2/449)(ملفوظات امیر اہل سنت، 10/23) سوال:عِلمِ دِین حاصل کرنے کے لیے کس طرح کے بچے کو مدرسے میں داخل کروانا چاہیے؟ (6) جواب: جب دِین کے لیے اِنتخاب کرنا ہی ہے تو پھر ذہىن تَرِىن بىٹے کا دِىن کے لیے اِنتخاب کرنا چاہىے۔ ہوتا یہ ہے کہ جو بچہ والدین کے نزدیک سب سے نِکَمّا ہوتا ہے اسے دِىن کى طرف بھیجتے ہیں، وہ بھى بعض اوقات اپنى جان چُھڑانے کےلىے کہ ماں گھر کے کام کرے گى ىا اس کو سنبھالے گى ، باپ اپنا کام دھندا کرے گا ىا اس کے روزانہ کے جھگڑے نِمٹائے گا۔اس لیے اسے مولوى کے کھاتے میں ڈال دو ، اب مولانا جانے اور اس کا کام جانے۔ (ملفوظات امیر اہل سنت ،7 /63) سوال: چونکہ علم پر عمل نہ کرنے کی بہت سی وعیدیں ہیں،لہٰذا اگر کوئی شخص علمِ دین حاصل ہی نہ کرے اور یوں کہے: ”علم حاصل ہوگا تو عمل بھی کرنا پڑے گا!“ اس حوالے سے کچھ اِرشاد فرمادیجیے۔ جواب: ایسا سمجھنا شىطان کا بہت بڑا وار ہے، اس طرح تو سب لوگ جاہل رہ جائىں گے اور یہ سوچ کر کوئی بھی علمِ دین حاصل نہیں کرے گا کہ”اگر اس نے علم پر عمل نہ کیا تو وہ پَھنس جائے گا!“ بہرحال علم بھی حاصل کیجیے اور اللہ پاک توفىق دے تو اس پرعمل کى بھى بَھرپُور کوشش کیجیے ۔ (ملفوظات امیر اہل سنت ، 7/236) سوال: اگر کوئی اپنے علم پر عمل نہ کرتا ہوتو کیا اسے علم حاصل نہیں کرنا چاہیے؟ جواب: وہ اَعمال جو فَرائض و واجِبات میں سے ہوں اُن پر عمل کرنا ضروری ہے، چاہے عالم بنیں یا نہیں، ان پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے بندہ گناہ گار ہوگا، البتّہ!اعمالِ مُسْتَحَبَّۃ یعنی وہ اعمال جن کے کرنے پر ثواب ہو، لیکن نہ کرنے پر گناہ نہ ہو ان پر عمل نہ کرنے سے بندہ گناہ گار نہیں ہوگا۔ بندے کو چاہیے کہ علم حاصل کرے کہ یہ ثواب کا کام ہے اور جتنا ہوسکے عمل کرتا رہے۔ ثواب کے کام سب کو کرنے چاہئیں عالم ہو یا غیر ِعالم۔علمِ دین سے دور کرنے کے لیے شیطان وسوسہ ڈالتا ہے، لوگ بھی مُبَلِّغِیْن کو طعنہ دیتے ہیں اور گھر والے طالبِ علم کو طعنہ دیتے ہیں کہ” پہلے خود تَو عمل کرلو پھر لوگوں کو نیکی کی دعوت دینا“ گھر والوں کو ایسا نہیں کہنا چاہیے بلکہ اگر کوئی نیکی کا کام کرتا ہو تو اس کی حوصلہ اَفزائی کرنی چاہیے۔ اگر وہ آج عمل میں کمزور ہے تو کَل مضبوط ہو جائے گا، لیکن نیکی کی دعوت چھوڑ دی تو مزید عمل سے دور ہوجائے گا۔ (ملفوظات امیر اہل سنت ،9 /265-266) سوال: آجکل لوگ اسکول،کالج اور یونیورسٹی کی طرف دوڑے چلے جا رہے ہیں جبکہ دِینی مدارس کی طرف لوگوں کا رُجحان کم ہے، تو ایسا کیوں ہے ؟ جواب: دِینی مدارس کی طرف لوگوں کا رُجحان کم تو کیا نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں بھری پڑی ہیں۔ لوگ اپنی جیب سے لاکھوں روپے خرچ کر کے تعلیم حاصل کرتے اور کھانا بھی اپنی جیب سے کھاتے ہیں مگر پھر بھی دُنیوی تعلیم حاصل کرنے کی طرف ہی رُجحان ہے جبکہ دِینی مدارس میں مُفت تعلیم دی جاتی ہے حتّٰی کہ کھانا اور رہائش بھی مُفت دی جاتی ہے پھر بھی لوگوں کا رُجحان دِینی مدارس کی طرف کم ہے۔اِن حالات کو دیکھتے ہوئے ہم نے دارُ المدینہ قائم کیے ہیں جن میں دِینی تعلیم کے ساتھ ساتھ دُنیوی تعلیم بھی دی جاتی ہے تاکہ لوگ کسی بھی طرح دِین کے قریب آ جائیں۔ دارُالمدینہ اِسکول سِسٹم کے تمام مُعاملات شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے عُلَمائے کِرام کی نگرانی میں ہوتے ہیں تاکہ اِن میں کوئی غیر شرعی بات شامل نہ ہو جائے جس کی وجہ سے تعلیم میں خرابی پیدا ہو اور بچوں کی تعلیم و تربیت، ذہن اور اَخلاق پر بُرا اَثر مُرتَّب ہو۔ سب کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں کی آخرت پر بھی نظر رکھیں کہ دُنیا تو جیسے تیسے گزر ہی جائے گی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ نَعُوْذُ بِاللّٰہ آپ فاقے کریں، بھوکے مَریں اور بھیک مانگیں۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ ! ہم بھیک نہیں مانگتے، ہمارے بچے بھی کھاتے پیتے اور پہنتے ہیں۔ دعوتِ اسلامی کے جتنے بھی مُبَلِّغِیْن ہیں ان میں کوئی بھی بھوکا نہیں مَرتا اور کوئی بھی بھیک نہیں مانگتا ، سب اپنے اپنے طور پر روزی کما رہے ہیں۔ سب دُنیوی تعلیم سے کورے بھی نہیں بلکہ ہمارے پاس ایک سے بڑھ کر ایک دُنیوی تعلیم یافتہ بھی ہیں۔
    1… ابن ماجہ،1/146، حدیث:224 2… فتاویٰ رضویہ، 23/623 3… فیض القدیر، 1/172، تحت الحدیث:133ماخوذاً 4… فتاویٰ رضویہ، 23/623-626مفہوماً 5… یہ سوال شعبہ ملفوظاتِ امیر ِاہل ِسنّت کا قائم کردہ ہے اور جواب امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کا عنایت کیا ہوا ہے۔ 6… یہ سوال شعبہ ملفوظاتِ امیر ِاہل ِسنّت کا قائم کردہ ہے اور جواب امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کا عنایت کیا ہوا ہے۔

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن