30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
المدینۃُ العلمیۃ
(Islamic Research Center) عالمِ اسلام کی عظیم دینی تحریک دعوتِ اسلامی نے مسلمانوں کو درست اسلامی لٹریچر پہنچانے اور اس کے ذریعے اصلاحِ فرد ومعاشرہ کے عظیم مقصد کے لیے 1421ھ مطابق 2001ء کو جامعۃ المدینہ گلستانِ جوہر کراچی میں المدینۃ العلمیۃ کے نام سے ایک تحقیقی ادارہ قائم کیا جس کا بنیادی مقصد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کی کتب کو دورِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق شائع کروانا تھا۔ جمادی الاولیٰ1424ھ/جولائی2003ء اسے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ پرانی سبزی منڈی، یونیورسٹی روڈ کراچی میں منتقل کردیا گیا۔ امیراہل سنّت، بانی دعوتِ اسلامی علامہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کے نیکی کی دعوت، اِحیائے سنّت اور اِشاعتِ علْمِ شریعت کا عزم پیشِ نظر رکھتے ہوئے یہ ادارہ چھ6 شعبہ جات میں تقسیم کیا گیا۔ پھر ان میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا۔ اس کی کراچی کے علاوہ ایک شاخ مدنی مرکز فیضان مدینہ، مدینہ ٹاؤن فیصل آباد، پنجاب میں بھی قائم ہوچکی ہے، دونوں شاخوں میں 120 سے زائد علما تصنیف وتالیف یا ترجمہ وتحقیق وغیرہ کے کام میں مصروف ہیں اور 2021ء تک اس کے 23شعبے قائم کیے جاچکے ہیں: (1)شعبہ فیضانِ قرآن (2)شعبہ فیضانِ حدیث (3)شعبہ فقہ(فقہ حنفی وشافعی) (4)شعبہ سیرتِ مصطفےٰ (5)شعبہ فیضانِ صحابہ واہلِ بیت (6)شعبہ فیضانِ صحابیات وصالحات (7)شعبہ فیضانِ اولیا وعلما (8)شعبہ کتبِ اعلیٰ حضرت (9)شعبہ تخریج (10)شعبہ درسی کتب (11)شعبہ اصلاحی کتب (12)شعبہ ہفتہ وار رسالہ (13)شعبہ بیاناتِ دعوتِ اسلامی (14)شعبہ تراجم کتب (15)شعبہ فیضانِ امیر اہلِ سنّت (16)ماہنامہ فیضانِ مدینہ (17)شعبہ دینی کاموں کی تحریرات ورسائل (18)دعوتِ اسلامی کے شب وروز (19)شعبہ بچّوں کی دنیا (20)شعبہ رسائلِ دعوتِ اسلامی (21)شعبہ گرافکس ڈیزائننگ (22)شعبہ رابطہ برائے مصنفین ومحققین (23)شعبہ انتظامی امور قائم ہیں۔ المدینۃ العلمیۃ کے اغراض ومقاصد یہ ہیں: * باصلاحیت علمائے کرام کو تحقیق، تصنیف وتالیف کے لیے پلیٹ فارم مہیا کرنا اور ان کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا۔ * قرآنی تعلیمات کو عصری تقاضوں کے مطابق منظر عام پر لانا۔ * افادۂ خواص وعوام کے لیے علومِ حدیث اور بالخصوص شرحِ حدیث پر مشتمل کتب تحریر کرنا۔ * سیرتِ نبوی، عہدِنبوی، قوانینِ نبوی، طبِ نبوی وغیرہ پر مشتمل تحریریں شائع کرنا۔ * اہل بیت وصحابہ کرام اور علما وبزرگانِ دین کی حیات وخدمات سے آگاہ کرنا۔ * بزرگوں کی کتب و رسائل جدید منہج واسلوب کے مطابق منظر عام پر لانا بالخصوص عربی مخطوطات (غیرمطبوع) کتب ورسائل کو دورِجدید سے ہم آہنگ تحقیقی منہج پر شائع کروانا۔ * نیکی کی دعوت کا جذبہ رکھنے والوں کو مستند مواد فراہم کرنا۔ * دینی ودنیاوی تعلیمی اداروں کے طلبہ کو مستند صحت مند مواد کی فراہمی نیز درسِ نظامی کے طلبہ واساتذہ کے لئے نصابی کتب عمدہ شروحات وحواشی کے ساتھ شائع کرکے انکی ضرورت کو پورا کرنا۔ اَلحمد للہ اَمِیْرِ اَہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کی شفقت وعنایت، تربیت اور عطاکردہ اصولوں پر عمل پیرا ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ دنیا وآخرت میں کامیابی پانے، نئی نسل کو اسلام کی حقانیت سے آگاہ کرنے، انہیں باعمل مسلمان اور ایک صحت مند معاشرے کا بہترین فرد بنانے، والدین و اساتذہ اور سرپرست حضرات کو اندازِ تربیت کے درست طریقوں سے آگاہ کرنے اور اسلام کی نظریاتی سرحدوں اور دین وایمان کی حفاظت کے لیے المدینۃ العلمیۃ نے اپنے آغاز سے لےکر اب تک جو کام کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اللہ پاک اپنے فضل وکرم سے بشمول المدینۃ العلمیۃ دعوتِ اسلامی کے دینی کاموں، اداروں اور شعبوں کو مزید ترقی عطافرمائے ۔ امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ والہ وسلم تاریخ: 15شوال المکرم 1442ھ/27مئی 2021ءہدیۂ قارئین
قرآنِ کریم اللہ پاک کا انسان کے نام آخری پیغام ہےجو دینِ اسلام کا سرچشمہ، رشدو ہدایت کا گنجینہ اور علوم و معارف کا نہ ختم ہونے والا خزینہ ہے؛ اللہ پاک نے یہ جامع کتاب اپنے آخری نبی کے ذریعے اس اُمَّت کو عطا فرماکر ہمیں علم و عرفان کا وارث مقرر فرمایا! چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے: ( ثُمَّ اَوْرَثْنَا الْكِتٰبَ الَّذِیْنَ اصْطَفَیْنَا مِنْ عِبَادِنَاۚ ) (1) ترجمہ: پھر ہم نے کتاب کا وارث کیا اپنے چنے ہوئے بندوں کو۔قرآن اللہ کی رسی ہے:
قرآن اللہ کی رسی ہے جس کو صحیح معنوں میں مضبوطی سے تھامنے والاکبھی نا مراد نہیں رہتا، کامیابی اس کے قدم چومتی ہے اور سرخ روئی اس کا مقدر ہوتی ہے؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشادفر مایا: بے شک قرآن کا ایک سرا اللہ کے پاس ہے اور دوسرا تمہارے پاس، اس کو مضبوطی سے پکڑے رہو گے تو نہ کبھی تباہ ہوگے نہ گمراہ۔ (2)مخزنِ علم:
قرآنِ پاک علمِ حقیقی کا خزانہ ہے، ا س میں بیان کی گئی باتیں اپنے اصل مفہوم کی سچائی کے ساتھ ساتھ کئی علوم کو اپنے دامن میں لی ہوئی ہیں۔ جیساکہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جو علم حاصل کرنے کی خواہش رکھتا ہو اسے چاہیے قرآن میں خوب غور و خوض کرے کیونکہ قرآن میں اگلوں اور پچھلوں کا علم موجود ہے۔ (3)مقصدِ تصنیف:
قرآنِ پاک کے علوم و معارف سے فیض یاب ہونے کے لیے فہمِ قرآن کے اصول و ضوابط سے مکمل آگاہی ضروری ہےکہ میوے سے وہی لطف اندوز ہوسکتا ہے جس کے دانت مضبوط ہوں، پوپلا (بغیر دانت والا)تو اس سے زخمی ہوجائے گا! اسی لیے کنز المدارس بورڈ پاکستان نے درسِ نظامی کے نصاب میں ابتدائی درجات سے ہی علومِ قرآن پر مشتمل کتب شامل کرنے کا ارادہ کیا ہے۔عملی اقدام:
اس نیک ارادے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن حاجی ابو ماجد محمد شاہد عطاری مدنی دام ظلہ سے رابطہ کیا گیا اور علومِ قرآن کے عنوان سے مختصر اور جامع کتاب تصنیف کروانے کی گزارش پیش کی گئی جس کو آپ نے قبول فرمایا۔مصنف کا انتخاب:
رکنِ شوریٰ نے اس کتاب کی تصنیف کے لیے اسلامک ریسرچ سینٹر کے سینئر محرر مولانا عبد اللہ نعیم صدیقی عطاری مدنی اور مولانا محمد احمد امین عطاری مدنی کا انتخاب فرمایا۔آغاز سے اختتام تک:
20 جولائی 2022 سے اس کام کا آغاز ہوااور21 ستمبر 2022 کو یہ کتاب اختتام پذیر ہوئی؛ جس میں درج ذیل باتوں کا خاص خیال رکھا گیا: * کتاب کی تصنیف کے لیے بیسیوں عربی، اردو کتابوں، ریسرچ پیپرز اور مختلف ویب سائٹس کو پیشِ نظر رکھا گیا ۔ * بنیادی طورپر یہ ایک نصابی کتاب ہے اس لیے شروع میں ”ہدایات برائے اساتذہ“ کے عنوان سے اس کتاب کو پڑھانے والوں کے لیے ضروری ہدایات ذکر کی گئی ہیں۔ * کتاب 19 مضامین پر مشتمل ہے جو 19 اسباق کی صورت میں درج کیے گئے ہیں۔ * کتاب کو نصابی لحاظ سے مفید تر بنانے کے لیے سبق کے آخر میں مشق بھی دی گئی ہے۔ * آیات کا ترجمہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ کے ترجمۂ قرآن ”کنز الایمان“ شریف سے لیا گیا ہے۔ * کتاب کے لیے شیخِ طریقت، امیرِ اہلِ سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری رضوی دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کا تجویز کردہ نام ”علمِ تفسیر آسان لفظوں میں“ جبکہ عربی و درسی نام ” اَلتَّیْسِیْر فِیْ عِلْمِ التَّفْسِیْر “ طے پایا ہے۔ * کتاب کی شرعی تفتیش دار الافتا اہلِ سنت کے سینئر متخصص مولانامحمد ماجد رضا عطاری مدنینے فرمائی ہے۔ * کتاب کی مکمل تصنیف مولانا عبد اللہ نعیم صدیقی عطاری مدنی نے کی ہے جنہیں جمع مواد، تخاریج و تحقیقات وغیرہ میں مولانا محمد احمد امین عطاری مدنی کی معاونت حاصل رہی۔ * کتاب کو ہر طرح کی اغلاط سے پاک رکھنے کے لیے باقاعدہ تین بار الگ الگ تین ماہر پروف ریڈرز سے پروف ریڈنگ کروائی گئی ہے؛ پھر بھی کوئی غلطی رہ جائے تو برائے کرم اسلامک ریسرچ سینٹر (المدینۃ العلمیۃ) کے E.mail ایڈریس پر ضرور مطلع فرمائیں۔ اللہ پاک اس کاوش کو شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور مصنف و معاون کو دارین میں سرخ روئی نصیب کرے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم شعبہ تحقیقی کتب اسلامک ریسرچ سینٹر (المدینۃ العلمیۃ)ہدایات برائے اساتذہ
”علمِ تفسیر آسان لفظوں میں“ اپنے موضوع کی ابتدائی کتاب ہے؛ اس کتاب میں اصولِ تفسیر کی بنیادی باتوں کو آسان انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد طلبہ اور شائقینِ قرآن کے لیے قرآن سمجھنے میں آسانی پیدا کرنا، بیدار مغزی سے قرآن مجید کا مطالعہ کرنے میں مدد کرنا اور علمِ تفسیر کی اصطلاحات کو سمجھانا ہے۔ اس کتاب کی تدریس کے حوالے سے چند گزارشات پیشِ خدمت ہیں:سبق سے پہلے کرنے والے چھ کام:
1- اصول کی کوئی بھی کتاب سرسری پڑھانا مفید نہیں ہوتا اور قرآنِ پاک سے متعلق فن کی کتاب زیادہ اہمیت کی حامل ہے، لہٰذا کتاب کی تدریس وہ ماہر اور تجربہ کار استاذ محترم فرمائیں جو اصولِ تفسیر کا مطالعہ رکھتے ہوں۔ 2- سبق کی تیاری کے لیے *مناہل العرفان از علامہ عبد العظیم زرقانی * احسن البیان از علامہ فیض احمد اویسی * علم القرآن از علامہ منظور احمد شاہ رحمۃُ اللہ علیہم کا مطالعہ معاون ثابت ہوگا۔ 3- کلاس میں ”تمام طلبہ کی ذہنی صلاحیت ایک جیسی نہیں ہوتی“، لہٰذا کتاب کی تدریس کے دوران اس نکتے کو پیشِ نظر رکھ کر تقریر تیار کی جائے۔ 4- سبق سے پہلے طلبہ کو شوق دلانےکے لیے اس کی اہمیت ضرور بیان کی جائے ۔ 5-سبق کی تیاری کے بعد اور تدریس سےپہلے ان سوالوں کے جوابات ہوں تو سبق پڑھائیے: * کیا آپ کو معلوم ہے آج کون سا سبق پڑھانا ہے اور کتنا پڑھانا ہے؟ * کیا آپ سبق کا کم از کم تین مرتبہ مطالعہ کرچکے ہیں؟پہلی بار خود سمجھنے کے لیے۔ دوسری بار سمجھانے کے لیے۔ اور تیسری بار سبق کو آسانی سے سمجھانے کے لیے۔ * کیا آپ نےآج کے سبق کی تمام اصطلاحات اور مشکل الفاظ کے معانی تلاش کرلیے ہیں؟ * کیا آپ سبق کی مشق اچھی طرح حل کرچکے ہیں؟ * کیا آپ نے سبق پر ہونے والے ممکنہ سوالات اور ان کے جوابات تیار کرلیے ہیں؟ * کیا آپ نے معاونت کے لیے بتائی گئیں تین کتابوں میں سے کم ازکم کسی ایک کتاب سے آج کے سبق کی بحث کا مطالعہ کرلیا ہے؟ * کیا سبق کا کوئی مقام ایسا تو نہیں جس پر آپ کو خود تشنگی ہو؟سبق کے دوران کرنےوالے آٹھ کام:
1- سبق میں آنے والی اصطلاحات اور طلبہ کی ذہنی صلاحیت کے مطابق مشکل الفاظ کے معانی ضرور بیان کردیئے جائیں۔ نیز تقریر کے دوران اصطلاحات کو ان کے معانی کے ساتھ بار بار دہرایا جائے تاکہ کسی طالبِ علم کو دشواری نہ ہو۔ 2- اصطلاحات کے معانی اور عددی اشیاء طلبہ کو زبانی یاد کروائی جائیں۔ 3- کسی سبق کا اسلوب سمجھنے میں طلبہ کے لیے مشکل ہو تو پہلے وہ اسلوب مثالوں سے سمجھایا جائے پھر سبق کی طرف توجہ کی جائے مثلاً ناسخ و منسوخ والے سبق سے پہلے تدریسی اصطلاح ”اعتبار“ ، ”لحاظ“ یا ”جہت “سمجھانے کی ضرورت پڑسکتی ہے۔ 4- اسبا ق کو بورڈ پر نقشہ بناکر سمجھایا جائے تو آسانی سے سمجھ آجاتا ہے اور یاد ر کھنے میں بھی آسانی ہوتی ہے۔ لہٰذا جتنا ہوسکے اسباق کی تفہیم کے لیے بورڈ کا استعمال کیا جائے؛ فن میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے مختلف اسباق رنگین کارڈ شیٹ پر دیدہ زیب انداز میں بصورت نقشہ لکھواکر کلاس میں آویزاں بھی کروائے جاسکتے ہیں۔ 5- کتاب کی عبارت اور ا س کی قیودات کو ملحوظ رکھا جائے اور سبق کے خاص اسلوب کو نظر انداز نہ کیا جائے ۔ 6- جن دو چیزوں میں فرق بیان کیے گئے ہیں ان کی وجہِ فرق کو واضح کیا جائے۔ 7-حتَّی الامکان کوشش ہو کہ کتاب کی بحث پر زیادتی نہ کی جائے۔ 8- سبق کا ایک سے زیادہ بار مطالعہ کروایا جائےاور تلفظ کی درستی پر بھی توجہ دی جائے۔سبق کے بعد کرنے والے تین کام:
1- ہر سبق کی مشق لازمی حل کروائی جائے اور کوئی مشق حل کروائے بغیر اگلا سبق شروع نہ کروایا جائے۔ بعض مشقوں میں طلبہ کی جستجو بڑھانے کے لیے آسان خارجی سوالات بھی شامل کیے گئے ہیں استاذ محترم ان کے حل میں راہ نمائی فرمائیں۔ 2- سبق سمجھانے کے بعد اس کا اِجرا بھی کروایا جائے مثلاً اسلوبِ قرآن والے سبق میں سورتوں کا آغاز و اختتام مصحف شریف سے دکھایا جائے۔ 3 -استاذ کی ذمہ داری سبق سمجھانا ہے سبق کے لیے کیا گیا سارا مطالعہ بیان کرنا نہیں! ذاتی مطالعہ طلبہ کے سُوالات کے وقت بقدرِ ضرورت بیان کرنا ہی مفید ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ بیان کرنے سے طلبہ اصل سبق سے ہٹ کر دیگر ابحاث کی جانب متوجہ ہو جاتے ہیں۔سبق 1علمِ تفسیر
علمِ تفسیر کی تعریف:
وہ علم جس میں احوالِ قرآن سے بحث کی جائے یعنی نزولِ قرآن، الفاظِ قرآن، معانیِ قرآن، ناسخ و منسوخ وغیرہ۔(4)وضاحت:
علمِ تفسیر در حقیقت علومِ قرآن اور اس سے متعلق بہت سے مباحث کا مجموعہ ہے ؛ علمِ تفسیر کی طرف بڑھنے سے پہلے اس کی ابتدائی چیزوں کا جاننا ضروری ہے تاکہ علومِ قرآن اور مباحثِ قرآن کو سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔علمِ تفسیر کا موضوع:
مذکورہ احوال کی حیثیت سے قرآن پاک علمِ تفسیر کا موضوع ہے۔غرض و غایت:
معانیِ قرآن کو سمجھنا اور اللہ کی رسی کو تھام کر دنیا و آخر میں کامیاب ہونا۔(5)واضع:
علمِ تفسیر اللہ اور اس کے رسول کاوضع کردہ علم ہے۔ (6)ثمرات:
علمِ تفسیر کی مدد سے عقائد، احکامِ شرعیہ، اخلاقِ حسنہ اور عمدہ نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں۔نسبت:
علمِ تفسیر دینی علوم میں سے ہے بلکہ تمام دینی علوم کا سردار ہے، کیونکہ تمام علوم قرآنِ حکیم سے ہی حاصل کیے جاتے ہیں اور علمِ تفسیر بذات خود قرآن کا علم ہے۔فضیلت:
علمِ تفسیر تمام علوم میں سب سے افضل، اعلیٰ اور عظمت والا ہے کہ ہر علم کی اہمیت اس کے موضوع کی اہمیت سے اجاگر ہوتی ہے اور علمِ تفسیر کا موضوع سب سے بزرگ تر ہے۔ (7)علمِ تفسیر کی ضرورت و حاجت:
قرآنِ مجید کو سمجھنے، اس کی تعلیمات کو جاننے اور اس میں بیان کردہ ہدایات کے مطابق زندگی گزارنے پر دنیا و آخرت میں کامیابی کا دار و مدار ہے جو اللہ پاک کی توفیق سے ہی ممکن ہے ؛ یعنی ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی شخص قرآن سمجھنے کے لیے عربی سیکھ لے، علومِ عربیہ کا ماہر ہوجائے اور قرآن سمجھنے کا دعویٰ کرنے لگے بلکہ یہ چیزیں اس کے لیے بنیادی علوم کا کام دینے والی ہیں؛ اصل علم، ہدایت اور عقل و دانائی جس کا مخزن قرآن ہے اور یہ علم صرف اور صرف توفیقِ الٰہی سے ہی حاصل ہوسکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کِرام فصاحت و بلاغت کے ماہر اور مادری زبان عربی ہونے کے باوجود قرآن سمجھنے کے لیے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوتےتھے کیونکہ وہ بھی قرآن کی بہت سی باتیں از خود نہیں سمجھ پاتے تو پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے سُوال کرتے تھے ۔ چنانچہ جب سورۂ بقرہ کی آیت نمبر 187 ( وَ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى یَتَبَیَّنَ لَكُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ۪ (8) ترجمہ:”اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ تمہارے لیے ظاہر ہوجائے سفیدی کا ڈورا سیاہی کے ڈورے سے پو پھٹ کر۔“ نازل ہوئی جس میں سحری کا اختتامی وقت بیان فرمایا گیا ہے تو صحابیِ رسول حضرت عَدِی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے کالی اور سفید رسی اپنے تکیہ کے نیچے رکھ لی اور خیال کیا کہ یہ سفید رسی کالی سے جدا ہوجائے گی! ظاہر ہے قرآنی آیت کی یہ مراد نہیں تھی جو انہوں نے سمجھی اور رسیاں جدا نہ ہوئیں؛ وہ صبح رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں حاضرہوئے اور رات کی صورتِ حال بیان کی تو آپ نے اِرشاد فرمایا: یہاں خَیْطُ الْاَبْیَض یعنی سفید ڈورے سے دن کی سفیدی اور خَیْطُ الْاَسْوَد یعنی کالے ڈورے سے رات کی سیاہی مراد ہے۔(9) یقیناً صحابۂ کِرام فہم و فراست اور عقل و دانائی میں ہم سے بہت بڑھ کر تھے جب ان حضرات کو قرآن سمجھنے کے لیے تفسیرِ قرآن کی ضرورت تھی تو ہم ان سے کئی گنا زیادہ تفسیرِ قرآن کے محتاج ہیں۔ * * * *مشق
سُوال: علم تفسیر کی تعریف بیان کیجیے اور وضاحت لکھیے۔ سُوال: علم تفسیر کا موضوع اور غرض و غایت بیان کیجیے اور بتائیے اس علم کا واضع کون ہے؟ سُوال: علم تفسیر کے فوائد و ثمرات لکھیے اور فضیلت بیان کیجیے۔ سُوال: علم تفسیر کی حاجت و ضرورت پر نوٹ لکھیے۔سبق 2 قرآنِ پاک کی تعریف
قرآن کی تعریف:
ہُوَ کَلَامُ اللهِ الْمُنَزَّلُ عَلٰی نَبِیِّہٖ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ المُعْجِزُ بِلَفْظِہِ الْمُتَعَبَّدُ بِتِلَاوَتِہِ الْمَنْقُوْلُ إِلَیْنَا بِالتَّوَاتُرِ الْمَکْتُوْبُ فِي الْمَصَاحِفِ مِنْ أَوَّلِ سُوْرَۃِ الْفَاتِحَۃِ إلٰی آخِرِ سُوْرَۃِ النَّاسِ ۔ (10) ترجمہ: قرآن اللہ کاکلام ہے جو اس کے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر نازل کیا گیا، اس کے الفاظ عاجز کرنے والے ہیں،اس کی تلاوت کرنا عبادت ہے، وہ تواتر کے ساتھ نقل ہوتا ہوا ہم تک پہنچا اور سورۂ فاتحہ سے سورۂ ناس تک مَصاحِف میں لکھا ہوا ہے۔”کلامُ اللہ“ کی وضاحت:
”کلام“ اللہ پاک کی صفت ہے جو الفاظ، آواز، رکنے اور ٹھہرنے سے پاک ہے کیونکہ یہ چیزیں مخلوق کے کلام کے لیے ضروری ہیں اور خود مخلوق و حادِث ہیں جبکہ اللہ پاک کا کلام قدیم ہے جس طرح اس کی ذات قدیم ہے۔(11) قرآنِ عظیم جس کی ہم اپنی زبان سے تلاوت کرتے اور مَصاحِف میں لکھتے ہیں اللہ ہی کا کلامِ قدیم بِلاصَوت(بغیر آواز) ہے اور ہمارا پڑھنا لکھنا اور آواز حادِث (12) ہے یعنی ہمارا پڑھنا حادِث ہے اور جو ہم نے پڑھا قدیم، ہمارا لکھنا حادِث ہے اور جو ہم نے لکھا قدیم، ہمارا سننا حادِث ہے اور جو ہم نے سنا قدیم، ہمارا حِفظ کرنا حادِث ہے اور جو ہم نے حِفظ کیا قدیم؛ یعنی مُتَجَلّٰی قدیم ہے اور تَجَلِّی حادِث (13)۔(14) الغرض قرآن اللہ کا کلام ہے کسی مخلوق ؛ انسان، جن یا فرشتے کاکلام نہیں ہے۔” اَلْمُنَزَّلُ عَلٰی نَبِیِّہٖ مُحَمَّد “ کی وضاحت:
اللہ پاک نے اشرف المخلوقات حضرت انسان کی ہدایت کے لیے کئی انبیا اور رسولوں کو بھیجا اور اپنے پاک کلام پر مشتمل 104 مختلف کتابیں اور صحائف نازل کیے: * 50 صحیفے حضرت شیث علیہ السلام پر نازل ہوئے۔ * 30 صحیفے حضرت ادریس علیہ السّلام پر نازل ہوئے ۔ * 10 صحیفے حضرت ابراہیم علیہ السّلام پر نازل ہوئے ۔ * 10 صحیفے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات شریف اترنے سے پہلے نازل ہوئے۔ چار بڑی کتابیں نازل ہوئیں: 1-”تورات“ حضرت موسیٰ علیہ السّلام پر 2- ” زبور“ حضرت داود علیہ السّلام پر 3- ”انجیل“ حضرت عیسیٰ علیہ السّلام پر 4- ”قرآن“ حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر (15) ” اَلْمُنَزَّلُ عَلٰی نَبِیِّہٖ مُحَمَّد “ سے اللہ پاک کی آخری کتاب قرآن مجید مراد ہے۔”اَلْمُعْجِزُ بِلَفْظِہٖ“ کی وضاحت:
اللہ پاک کے کلام پر دلالت کرنے والے قرآن کے الفاظ اپنی حسنِ ترتیب و تاثیر ، فصاحت و بلاغت، سابقہ و آیندہ ہونے والے واقعات کی خبروں اور زبردست راہ نما اصولوں پر مشتمل ہونے کی وجہ سے اس قدر کامل اور درست ہے کہ مخلوق میں سے کوئی بھی اس جیسا ایک اور کلام نہیں لاسکتا۔ بالفاظ دیگر کسی فرشتے، انسان یا جن میں قرآن کی مثل لانے کی طاقت نہیں۔”اَلْمُتَعَبَّدُ بِتِلَاوَتِہٖ“ کی وضاحت:
اللہ پاک کے کلام قرآنِ مجید کی تلاوت عبادت ہے، یہ نماز کی ادائیگی کا بنیادی رکن ہے اور نماز کے علاوہ قرآن کا پڑھنا حصولِ ثواب کا ذریعہ ہے۔ اللہ پاک کا وہ کلام جو حدیثِ قدسی (16) کی صورت میں موجود ہے قرآن نہیں۔”اَلْمَنْقُوْلُ اِلَیْنَا بِالتَّوَاتُرِ“ کی وضاحت:
اللہ پاک کا کلام قرآنِ مجید رسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے صحابۂ کِرام رضی اللہ عنہم کی بڑی تعداد نے روایت کیا اور ان کے بعد ہر طبقے میں اس قدر کثیر لوگ آگے پہنچاتے رہے جن کا جھوٹ پر اتفاق کرلینا ممکن ہی نہیں ہے؛ یوں یہ قرآن ہم تک اسی طرح پہنچا جس طرح اللہ پاک نے اپنے رسول پر نازل فرمایا تھا۔ (17) شاذ قراءتیں اور وہ آیات جو منسوخ ہونے کے بعد مصحف شریف میں موجود نہیں وہ قرآن نہیں۔ (18)”اَلْمَکْتُوْبُ فِی الْمَصَاحِفِ...الخ“ کی وضاحت:
قرآن اللہ کا کلام ہے جس پر دلالت کرنے والے الفاظ سورتوں اور آیتوں میں تقسیم ہوکر از ابتدا تا انتہا کتابی صورت میں لکھے ہوئے ہیں۔خلاصۂ کلام:
قرآن اللہ کا کلام ہے جو اس نے اپنے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم پر نازل فرمایا یہ کسی مخلوق ؛ انسان، جن یا فرشتے کاکلام نہیں ہے، نہ کسی میں اس کی مثل لانے کی طاقت ہے۔ حدیثِ قدسی قرآن نہیں، نہ ہی غیر متواتر قراءتیں قرآن ہیں بلکہ وہ آیتیں جو منسوخ ہونے کے بعد مصحف شریف میں موجود نہیں وہ بھی قرآن کا حصہ نہیں۔ * * * *مشق
سُوال: قرآنِ پاک کی تعریف عربی میں بیان کیجیے اور اس کا سلیس ترجمہ اپنی کاپی پر لکھیے ۔ سُوال:کلام، اللہ کی صفت ہے، اس میں ہمارے لیے کیا عقیدہ رکھنا ضروری ہے؟ سُوال: کسی مخلوق کے لیے قرآن کی مثل بنانا کیوں ممکن نہیں؟ سُوال: لوگوں کی ہدایت کے لیے کتنے صحائف و کتب نازل ہوئیں اور کن کن پر ہوئیں؟ سُوال:تلاوت قرآن کی فضیلت پر کوئی دو حدیثیں تلاش کرکے خوش خط لکھیے۔
1…… پ 22، فاطر: 32۔ 2…… معجم کبیر، 22/188، حدیث: 491۔ 3…… شعب الایمان، 2/332، حدیث: 1960۔ 4……دستور العلماء، 1/444 - مناہل العرفان، ص 335۔ 5…… الاتقان فی علوم القرآن، 2/1196- کشف الظنون، 1/427۔ 6 …… زبدۃ الاتقان،ص25۔ 7……الاتقان فی علوم القرآن، 2/1195۔ 8 ……پ 2، البقرۃ: 187۔ 9……بخاری، 1/632، حدیث:1916۔ 10……مناہل العرفان، ص 19تا 20- علوم القرآن الکریم، ص 10۔ 11…… قدیم کا معنیٰ ہے وہ جو ہمیشہ سے ہو ؛ اللہ تعالیٰ کے حق میں قدیم کا معنیٰ ہے وہ ذات جو ہمیشہ سے موجود ہے اور اس کا معدوم ہونا محال ہے۔ (المعتقد المنتقد، ص76) 12…… حادِث قدیم کی ضد ہے اس کا معنیٰ ہے فنا ہونے والا؛ جو ہمیشہ سے نہ ہو اور کبھی نہ کبھی ختم بھی ہو جائے وہ حادِث ہے۔ 13…… مُتَجَلّٰی یعنی کلامِ الٰہی، قدیم ہے اور تَجَلِّی یعنی ہمارا پڑھنا، سننا، لکھنا، یاد کرنا یہ سب حادِث ہے۔ (حاشیہ بہار شریعت از المدینۃ العلمیۃ،1/10) 14…… المعتمد المستند ، ص 105تا106- بہارِ شریعت، 1/8 تا 10۔ 15…… ابن حبان، 1/288، حدیث: 362۔ 16…… سبق نمبر 4 صفحہ نمبر 22 پر ”حدیث قدسی“ کی تفصیل آرہی ہے۔ 17…… علوم القرآن الکریم، ص 11۔ 18 ……کشف الاسرار، 1/37۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع