Iman Afroz Uswa e Hasna
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Iman Afroz Uswa e Hasna | ایمان افروز اسوہ حسنہ

    ایمان افروز اسوہ حسنہ
                
    اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ طاَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم اَلصَّلوٰۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَارَسُوْلَاللہ وَعَلیٰ آلِکَ وَاَصْحَابِکَ یَا حَبِیْبَاللہ

    سیرتِ رسول بہترین رول ماڈل

    اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں رحمتِ دو عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کثیرشانیں بیان فرمائی ہیں اور اپنےنبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت مبارکہ کو ہمارے لیے بہترین مشعلِ راہ اور رول ماڈل قرار دیا ہے،چنانچہ ارشاد فرمایا:﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَنْ كَانَ یَرْجُوا اللّٰهَ وَ الْیَوْمَ الْاٰخِرَ وَ ذَكَرَ اللّٰهَ كَثِیْرًاؕ ترجمہ کنزالعرفان:’’بیشک تمہارے لیے اللہ کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے، اس کے لیے جو الله اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہے اور الله کو بہت یاد کرتا ہے۔‘‘(1) یعنی اے لوگو! بے شک تمہارے لیے رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زندگی میں بہترین رول ماڈل اور پیروی کرنے کا بہترین طریقہ موجو دہے ۔نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کردار، اسلوبِ حیات اور طرزِ عمل اتنا خوبصورت تھاکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی ِرحمت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی پوری زندگی کو ہمارے لیے بہترین نمونہ قرار دیا۔ یہ نہیں فرمایا کہ صرف فلاں پہلو سے تمہارے لیے رول ماڈل ہیں اور بقیہ میں نہیں، بلکہ مطلقاً بغیر کسی قید کے فرمایا کہ رسول اللہ کی پوری زندگی ہی تمہارے لیے پیروی کا بہترین طریقہ ہے۔ نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک زندگی کو جس حیثیت سے بھی دیکھو گے، اس سے زیادہ اچھی زندگی اور اچھی سیرت نظر نہیں آئے گی۔واقعی اگر ہم نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت کا مطالعہ کریں، تو یہ باب اتنا وسیع ہے کہ سیرت کی جتنی کتابیں ہیں،کوئی دوجلدوں پر ، کوئی پانچ اور کوئی دس جلدوں پرمشتمل ہے ، یہ سب کی سب حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک زندگی کی ہی تفصیلات سے آگاہ کر رہی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مبارک سیرت کے اتنے پہلو ہیں کہ کئی جلدوں پر مشتمل کتابیں اور ہزاروں گھنٹوں کے بیانات بھی حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت اور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے فضائل و کمالات کو کماحقہ بیان کرنے سے عاجز ہیں ۔جس نے بھی آپ کی سیرت اور شان و عظمت کو بیان کیا ،بالآخر مجبور ہوکر یہی کہاکہ: زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے تِرے اوصاف کا اِک باب بھی پورا نہ ہوا

    سیرت کیا ہے؟

    سیرت میں کسی شخصیت کی زندگی کے مختلف گوشوں سے متعلق کلام ہوتا ہے، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت کی کتابوں میں بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا گیا ہے کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زندگی ایسی تھی، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عبادات کا معاملہ ایسا تھا، اپنے خاندان والوں سے معاملہ ایسا تھا، بچوں سے سلوک ایسا تھا، خواتین کے ساتھ حسن ِ سلوک ایسا تھا، لوگوں کے ساتھ اس انداز میں پیش آتے تھے، پڑوسیوں کے ساتھ ایسے تعلقات تھے،آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دن ایسے گزرتاتھااورراتیں ایسے عبادت میں بسر ہوتی تھیں،آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کھانے، پینے،سونے کا انداز یہ ہوتا تھا۔۔۔الغرض! سیرت انہی چیزوں کے بیان کا نام ہے اور یہی وہ چیز ہے جسے سیرت نگاروں نے بڑی بڑی کتابوں میں بیان کیا ،مگر خدا تعالیٰ نے صرف ایک آیت میں مصطفیٰ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی زندگی کو سمودیا اور وہ یہ کہ تمہارے لیے رسول اللہ کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے۔

    نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے کردار کی عظمت

    نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا کرداراور آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اپنا عمل مبارک خود اتنا اعلیٰ ہوتا تھا کہ پیروی کرنے والے بھی خوشی خوشی پیچھے چل پڑتے تھے۔ وجہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص کسی کو کوئی اچھی بات بتائے تو سننے والا سب سے پہلے یہ دیکھتا ہے کہ کہنے والا خود بھی اس پر عمل کرتا ہے یا نہیں؟ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا معاملہ یہ تھا کہ جن اخلاق کو خدا عزوجل نے قرآن میں لکھا ، نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اُسے کر کے دکھایا ،گویا قرآنِ کریم عملی زندگی کا تحریری دستورہےاورحضوراکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ذات مبارکہ اس کا پریکٹیکل (Practical) ہے۔حضور اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاق، آپ کی سیرت،دن رات کے معاملات ،سب کے سب عمل بالقرآن ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ایک مرتبہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا سے پوچھا کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاق کیسے تھے ؟ تو حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا نے ایک بڑے خوبصورت جملے میں نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی سیرت کو بیان کیا، فرمایا کہ اُن کے اخلاق کیا پوچھتے ہو،اُن کے اخلاق تو قرآن ہیں۔ چنانچہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں:”عَنْ يَزِيدَ بْنِ بَابَنُوسَ قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى عَائِشَةَ فَقُلْنَا: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، مَا كَانَ خُلُقُ رَسُولِ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَتْ:كَانَ خُلُقُهُ الْقُرْآنَ“ترجمہ: یزید بن بابنوس سے روایت ہے کہ ہم ام المؤمنین سیدہ عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: اےام المؤمنین رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا ! رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اخلاق کیا تھا؟ انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اخلاق تو قرآن ہی ہیں۔(2)

    نماز کی ادائیگی میں نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا اسوہ حسنہ

    عبادات میں اگر سب سے پہلے نماز کو دیکھیں،تو نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نماز کا عالم یہ تھا کہ اللہ عزوجل نے رات میں عبادت و قیام کی ترغیب دی،جیسے ایک جگہ فرمایا : ﴿ یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ(۱) قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًاۙترجمہ کنزالعرفان:’’اے چادراوڑھنے والے!رات کے تھوڑے سے حصے کے سوا قیام کرو۔‘‘ (3)نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حکمِ خدا وندی پر اس طرح سر ِتسلیم خم کیا کہ آقا کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ساری ساری رات کھڑے ہو کر اللہ عزوجل کی عبادت کیا کرتے تھے،یہاں تک کہ اس قدر قیام فرمانے کی وجہ سے آپ کے پاؤں مبارک سُوج جاتے ۔ محبوب مکرَّم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اس قدر تکلیف و مشقت اٹھانے پر اللہ عزوجل نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمادی:﴿طٰهٰۚ(۱) مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤىۙ ترجمہ کنز العرفان :’’طہ۔ اے حبیب! ہم نے تم پر یہ قرآن اس لیے نہیں نازل فرمایا کہ تم مشقت میں پڑجاؤ۔‘‘(4) یعنی اے طاہر، اے ہادِی، اے پاکیزہ ذات، اے پاکیزہ رہنما! ہم نے آپ پر یہ قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں۔ اندازہ لگائیے کہ خدا ہی کا حکم ہے کہ راتوں کو عبادت کرو اور مصطفیٰ کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی کثرتِ عبادت پر خدا ہی فرمارہا ہے کہ اے حبیب! ہم نے آپ پر قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ آپ مشقت میں پڑ جائیں، لہٰذا آرام بھی کیا کرو۔ سبحان اللہ !کیا شان ہے ہمارے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی۔یہ ہےحضورپُرنور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی عبادت کا وہ بہترین طریقہ جو ہمارے لیے رول ماڈل ہے۔

    نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نفل نمازیں

    حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پانچ نمازوں کے علاوہ رات میں نوافل بھی ادا کیا کرتے تھے اور وہ بھی ایسے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے اور ہمارے نوافل میں زمین و آسمان کا فرق ہے ، اگر ہم چار اور آٹھ رکعت نوافل پڑھیں، تو شاید اپنی روٹین کے مطابق،چار رکعتیں چار منٹ میں اور آٹھ رکعتیں آٹھ منٹ کے اندر پوری بھی کرلیں،لیکن نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ طویل قیام و سجود کے ساتھ نوافل ادا کیا کرتےتھے۔نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی نماز کے متعلق ایک روایت میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنھنے جو مقدار و کیفیت بیان فرمائی ہے اسے ملاحظہ فرمائیں کہ چار رکعات میں چھ پاروں سے زیادہ کی تلاوت فرمائی ۔پھر یہ تو قیام کی طوالت کی بات ہے،نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جتنا لمبا قیام کرتے، اسی طرح کا رکوع اور اسی کے مطابق سجدہ بھی کیا کرتے تھے ،ایسا نہیں کہ قیام تو اتنا لمبا لیکن رکوع ،سجدے چھوٹے چھوٹے ہوں۔ چنانچہ مسنداحمد کی حدیث پاک میں ہے :’’ عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، أَنَّه صَلّی مَعَ النَّبِیِّ صَلَّىاللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ قَالَ: فَلَمَّا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ قَالَ:اللہ أَكْبَرُ ذُو الْمَلَكُوتِ وَالْجَبَرُوتِ وَالْكِبْرِيَاءِ وَالْعَظَمَةِ قَالَ: ثُمَّ قَرَأَ الْبَقَرَةَ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعَه نَحْوًا مِنْ قِيَامِه وَكَانَ يَقُولُ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ، سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَه فَكَانَ قِيَامُه نَحْوًا مِنْ رُكُوعِه، وَكَانَ يَقُولُ: لِرَبِّيَ الْحَمْدُ، لِرَبِّيَ الْحَمْدُ ثُمَّ سَجَدَ فَكَانَ سُجُودُه نَحْوًا مِنْ قِيَامِه، وَكَانَ يَقُولُ: سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلٰى، سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلٰى ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَه، فَكَانَ مَا بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ نَحْوًا مِنَ السُّجُودِ، وَكَانَ يَقُولُ:رَبِّ اغْفِرْ لِي، رَبِّ اغْفِرْ لِي حَتّٰى قَرَأَ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ وَالنِّسَاءَ وَالْمَائِدَةَ أَوِ الْأَنْعَامَ شُعْبَةُ الَّذِي شَكَّ فِي الْمَائِدَةِ وَالْأَنْعَامِ ‘‘ترجمہ :سیدنا حذیفہ بن یمان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سرکارِ دو جہاں صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ ایک رات نماز پڑھی۔ آپ بتاتے ہیں کہ جب نبی رحمت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نماز شروع کی تو پڑھا:’’ اللہ أكبر ذو الملكوت والجبروت، والكبرياء والعظمة ‘‘ اللہ سب سے بڑا ہے، وہ حکومت، طاقت، بڑائی اور عظمت والا ہے۔راوی فرماتےہیں: پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سورہ بقرہ پڑھی، پھر رکوع کیا اور رکوع بھی قیام کی طرح طویل تھا۔ رکوع میں”سبحان ربي العظيم، سبحان ربي العظيم“‏‏‏‏پڑھتے تھے، پھر سر مبارک رکوع سے اٹھایا اور قومہ کیا اور(یہ) قیام بھی رکوع کی طرح تھا اور اس میں” لِرَبِّيَ الْحَمْد، لِرَبِّيَ الْحَمْد‏ ‏‏ پڑھتے تھے۔ پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سجدہ کیا ،تو آپ کا سجدہ بھی قیام کی طرح طویل تھا اور اس میں” سبحان ربي الاعلي،سبحان ربي الاعلي ‏‏ پڑھتے تھے، پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے سجدے سے سر مبارک اٹھایا ،تو آپ دو سجدوں کے درمیان تقریباً سجدہ کے برابر بیٹھے اور” رَبِّ اغْفِرْلِیْ ، رَبِّ اغْفِرْلِیْ “پڑھتے رہے،حتی کہ آپ نے سورہ بقرہ، سورہ آل عمران، سورہ نساء، سورہ مائدہ اور سورہ انعام پڑھی،حضرت شعبہ کو مائدہ اور انعام میں شک ہوا۔(5) نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے نوافل کی طوالت اورحُسنِ ادا کے متعلق ایک اور روایت ملا حظہ کریں۔حضرت ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا سے پوچھا کہ نبی اکرم کی رمضان کی راتوں میں عبادت کے بارے میں ہمیں بتائیے ۔حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا نے جواب دیا : نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چار چار رکعت کر کے نماز پڑھتے تھے اور ساتھ ہی فرمایا کہ تو ان نمازوں کے حُسن اور ان کی طوالت کے بارے میں نہ پوچھ۔ مکمل حدیث مبارك میں یوں ہے:” عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ أَنَّه أَخْبَرَه ، أَنَّه سَأَلَ عَائِشَةَ رَضِيَ اللہ عَنْهَا كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِاللہ صَلَّىاللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ؟ فَقَالَتْ:مَا كَانَ رَسُولُاللہ صَلَّىاللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلَا فِي غَيْرِهِ عَلٰى إِحْدٰى عَشَرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْئَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي أَرْبَعًا فَلَا تَسْئَلْ عَنْ حُسْنِهِنَّ وَطُولِهِنَّ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَلَاثًا، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَاللہ أَتَنَامُ قَبْلَ أَنْ تُوتِرَ؟ فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ إِنَّ عَيْنَيَّ تَنَامَانِ وَلَا يَنَامُ قَلْبِي “ترجمہ:حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمٰن سے روایت ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین سیدہ عائشہ رَضِی َاللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رمضان المبارک میں)رات کی( نماز کی کیفیت کے بارے میں پوچھا، تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ رمضان اور غیر رمضان میں(تہجد میں) گیارہ رکعت سے زائد نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چار رکعت پڑھتے،تو ان کی حسنِ ادائیگی اور طوالتِ قیام کے بارے میں سوال ہی نہ کر۔ (کہ بہت اچھے طریقے اور لمبی قراءت کے ساتھ پڑھتے تھے)پھر تین رکعتیں (وتر) پڑھتے۔ام المؤمنین سیدہ عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا فرماتی ہیں: میں نےعرض کیا:اے اللہ کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ! کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:اے عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں اور دل نہیں سوتا۔(6) نمازوں کی اسی طوالت کے باعث حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے پاؤں مبارک سوج جاتے اور ان میں ورم آجاتا ۔ یہ دیکھ کر ایک مرتبہ عرض کی گئی ، یا رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ کے صدقے تو اگلوں پچھلوں کی بخشش ہوگی، تو آپ اتنی طویل نمازیں کیوں پڑھتے ہیں؟تو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نےاس کے جواب میں فرمایا کہ کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ حدیث مبارک کے الفاظ یہ ہیں :’’ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ:كَانَ رَسُولُاللہ صَلَّىاللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُومُ حَتّٰى تَرِمَ قَدَمَاهُ، فَقِيلَ لَه: أَيْ رَسُولَاللہ أَتَصْنَعُ هٰذَا وَقَدْ جَاءَكَ مِنَاللہ أَنْ قَدْ غَفَرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ؟ قَالَ:أَفَلَا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا ‘‘ترجمہ:سیدنا ابوہریرہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے ،وہ بتاتے ہیں کہ نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قیام فرماتے، یہاں تک کہ آپ کے دونوں قدم مبارک میں ورم آجاتا ، تو آپ سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ اتنی مشقت کیوں کرتے ہیں؟ جبکہ آپ کو تو یہ خوشخبری مل چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے صدقے آپ کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ بخش دئیےہیں ؟ تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: تو کیا میں( اللہ تعالیٰ کا)شکر گزار بندہ نہ بنوں۔(7)
    1…۔ (پارہ 22،سورۃ احزاب21) 2…۔ (الادب المفرد،باب من دعا الله ان یحسن خلقہ ،جلد01، صفحہ 129،رقم الحدیث:308،مطبوعہ دار الصديق للنشر والتوزيع) 3…۔ (پارہ 29،سورۃ المزمل: 2،1) 4…۔ (پارہ 16،سورۃ طہ:1-2) 5…۔ (مسند احمد،جلد38،صفحہ 392،رقم الحدیث:23375، مطبوعہ مؤسسة الرسالة ،بيروت) 6…۔ ( صحیح مسلم ،جلد01،صفحہ 509،رقم الحدیث:738، مطبوعہ دار إحياء التراث العربي ،بيروت) 7…۔ (مسند بزار ،جلد14،صفحہ 330،رقم الحدیث:8002،مطبوعہ مدینۃ المنورۃ)

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن