30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا رَسُولَ اللہ وَعَلٰی اٰلِكَ وَ اَصْحٰبِكَ یَا حَبِیْبَ اللہ اَلصَّلٰوۃُ وَ السَّلَامُ عَلَیْكَ یَا نَبِیَّ اللہ وَعَلٰی اٰلِكَ وَ اَصْحٰبِكَ یَا نُوْرَ اللہایمان کا بیج اور پھل
سرکارِ مدینہ راحت قلب و سینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عالیشان ہے : جو مجھ پر ایک مرتبہ درود پڑھتا ہے ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے، اس کے دس گناہ معاف فرما دیتا ہے اور اس کے دس درجات بلند کر دیتا ہے ۔ (1) صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّدایمان کا بیج:
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے الحمد للہ ہم مسلمان ہیں اور ہمارے دل نورِ ایمان سے روشن ہیں۔ اِس نعمت پر ہم خدا کا جتنا بھی شکر ادا کریں، کم ہے۔ایمان ایک بیج کی طرح ہے، جو دل کی زمین میں اترتا ہے، جس سے نشوونما پانے کے بعد اِس پاکیزہ درخت کے پورے وجود پر پھل ظاہر ہوتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں ایمان کی بہت خوبصورت مثال بیان فرمائی ہے، چنانچہ سورہ ابراہیم میں ارشاد ہوتا ہے:(اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآء ِ() تُؤْتِیْۤ اُكُلَهَا كُلَّ حِیْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّهَا) ترجمہ کنز العرفان:کیا تم نے نہ دیکھا کہ اللہ نے کلمہ پاک کی کیسی مثال بیان فرمائی ہے، جیسے ایک پاکیزہ درخت ہو جس کی جڑقائم ہو اور اس کی شاخیں آسمان میں ہوں ۔ ہر وقت اپنے رب کے حکم سے پھل دیتا ہے۔ (2) اس آیت میں فرمایا گیا کہ پاکیزہ کلمہ یعنی ’’لاالٰہ الا اللہ محمدرسول اللہ‘‘ کی مثال ایسے ہے جیسے ایک پاکیزہ درخت ہو، جس کی جڑیں زمین کی گہرائی میں مضبوطی سے گَڑی ہوئی ہیں، جبکہ شاخیں آسمانوں تک پھیلی ہوئی ہیں اور یہ درخت اپنے رب کے حکم سے ہر آن ،ہر لمحہ پھل دیتا ہے ۔ بیج زمین میں بویا جاتا ہے ، جس سے اندر ہی اندر جڑیں بنتی ہیں اور اِس درخت کی شاخیں فضامیں پھیلی ہوتی ہیں ، جس پر لگنے والے پھلوں سے ہم فائدہ اٹھاتے اور لُطْف اندوز ہوتے ہیں ۔ یہ بڑی واضح سی بات ہے کہ جب کوئی بیج لگایا جائے ، تو اس کامقصد پھل حاصل کرنا ہوتا ہے ۔ بیج کا مقصد اُسے محض زمین میں گاڑ کر بےپرواہ ہونا نہیں ہوتا،کہ اب گلے یا سڑے ، رہے یا نہ رہے، پھل دے یا نہ دے ، ہمارا اِس سے کوئی تعلق نہیں ، ایسا ہر گز نہیں ہوتا ، بلکہ اِسی لیے بیج لگاتے ہیں کہ اُس سے فائدہ حاصل ہو۔ اِس تفصیل کے بعد عرض ہے کہ ایمان کا کلمہ”لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ پڑھ کر یعنی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و اُلُوہِیَّت اور رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت و نبوت کا اقرار کر نے کی وجہ سے ہم مسلمان قرار پاتے ہیں ۔ یہ ایمان کا بیج ہے جس کی جڑیں آیت مبارکہ کے مطابق دل میں ہیں ، لیکن اس کی شاخیں اپنی بلند ی کے اعتبار سے آسمان کو پہنچی ہوئی ہیں ۔ اب اِس بیج سے کیسا پھل نکلے گا، تو یہ بدیہی سی بات ہے کہ جیسا بیج ہوتا ہے ، ویسا ہی اس کا پھل ہوتا ہے۔ آپ آم کا بیج لگا کر امرود کی تمنا نہیں کر سکتے ۔ آپ سبزی کا بیج بَو کر پھل کی تمنا نہیں کر سکتے۔ آپ کڑوی چیز کا بیج لگا کر میٹھی چیز کی تمنا نہیں کر سکتے، گویا جیسا بیج، ویسا پھل ۔اب آیت کریمہ پر غور کریں کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان کے بیج کے بارے میں فرمایا: (كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ ) یعنی کلمہ طیبہ ایک پاکیزہ درخت کی طرح ہے ، تو جس دل میں یہ بیج لگا ہوا ہے، کیا اُس کے اعمال خبیث ہو سکتے ہیں؟کیونکہ اگر بیج پاکیزہ اور خوشبو والا ہے ، تو پھر اس کے اوپر پھل بھی پاکیزہ اور خوشبو والا آنا چاہیے ، لیکن اگرپھل کڑوا آ رہا ہے ، تو اس کا مطلب ہے کہ بیج میں کوئی خرابی آچکی ہے ، ہمارے دل میں کلمہ طیبہ ہے، معاذ اللہ کلمہ بذات خود تو خراب نہیں ہو سکتا۔ کلمہ طیبہ تو پاکیزہ کلمہ ہی ہے ، وہ تو خدا تعالیٰ کی وحدانیت اور رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رسالت پر ایمان کا نام ہے ،اور یہ بیج تو طیب و پاکیزہ ہی ہے، لیکن ہماری حقیقتِ حال کا علم تو پھل سے ہوگا، جیسا پھل ہمارے عملی و اَخلاقی وجود سے ظاہر ہو گا،اُسی سے ہمارے دل کے بیج کی حالت و کیفیت یا حقیقت و متعلقات کا علم ہوگا۔ اگرہمارا وجود ہر وقت اچھے اعمال کا پھل دے رہا ہے ، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے دل کی گہرائیوں میں حقیقتاً پاکیزہ بیج لگا ہوا ہے ، لیکن اگر ہمارے بدن سے ظاہر ہونے والے اعمال بُرے ہیں، مثلاً ، بد اخلاقی، ظُلْم، بدنگاہی، برے اعمال، گندی سوچ، غلط سننا اور غلط بولنا، تو ہمیں غورکرنا پڑے گا کہ ہمارے اند ربیج کون سا لگا ہوا ہے؟ یا بیج کے آگے کہاں خرابی شروع ہورہی ہے؟ یا بیج کے ساتھ یہ کانٹے دار جھاڑیاں کیوں اُگی ہوئی ہیں؟ایمان اور امتحان:
ہمارا ایمان ہے کہ اِسلام اللہ کا پسندیدہ دین ہے اور یہ بات یقیناً حق ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ہماری اپنی ذات کے اعتبار سے صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ اسلام پسندیدہ دین ہے اور میں مسلمان ہوں؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمہارا محض ایمان کا زبانی اقرار کر لینا کافی نہیں، چنانچہ دوٹوک الفاظ میں فرمایا: (اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَكُوْۤا اَنْ یَّقُوْلُوْۤا اٰمَنَّا وَ هُمْ لَا یُفْتَنُوْنَ)ترجمہ کنزالعرفان : کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھاہے کہ انہیں صرف اتنی بات پر چھوڑ دیا جائے گا کہ وہ کہتے ہیں ہم ’’ایمان لائے‘‘ اور انہیں آزمایا نہیں جائے گا؟ (3) یہ آیت مبارکہ بڑے واضح الفاظ میں بیان کرتی ہے کہ لوگوں کاصرف اتنا کہہ دینے ”ہم تو ایمان والے ہیں“ کی بنیاد پر چھوڑا نہیں جائے گا، بلکہ اُن کا مختلف طرح امتحان لیا جائے گا۔ اِسے یوں سمجھیے کہ جب کوئی آدمی کسی جگہ جاب (Job)کے لیے اَپلائی (Apply)کرتا ہے اور وہ زبانی کلامی اپنی ڈِگریاں بتاتا ہے کہ جناب ! میں نے کمپیوٹر کا فلاں کورس کیا ہوا ہے، میں نے مینیجمنٹ (Management)کا کورس کیا ہوا ہے ، تو کیا اُس کے صرف اِتنا بتا دینے پر اُسے نوکری دے کر چئیر (Chair)پر بٹھا دیا جاتا ہے؟ یقیناً نہیں ، بلکہ اَسناد وغیرہا دیکھی جاتی ہیں اور صلاحیت کو جانچنے کے لیے اُسے کچھ کام دیا جاتا ہے کہ آپ اِسے کر کے دکھائیں ، تو یوں معمولی نوکری کے لیے امیدوار کا امتحان لیا جاتا ہے۔ جب دنیا کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر امتحان اور معمولی سے دعویٰ کی جانچ پرکھ ہونا ہمارے مشاہدے میں ہے، تو پھر مومن ہونے کے دعویٰ پر یہ کیسے تصور کیا جاسکتا ہے کہ اِتنا دعویٰ ہی کافی ہے اور بس اِسی بنیاد پر بلاحساب جنت میں بھیج دیا جائے گا، بلکہ قرآن نے بار بار فرمایا کہ تمہارا امتحان لیا جائے گا، جیسے تم سے پہلے آنے والوں کا امتحان لیا گیا۔قرآن مجید نے اس امتحان کی شدت یوں بیان فرمائی:(اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَ لَمَّا یَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰى یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ؕ-اَلَاۤ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِیْب)ترجمہ کنزالعرفان:کیا تمہارا یہ گمان ہے کہ جنت میں داخل ہوجاؤ گے حالانکہ ابھی تم پرپہلے لوگوں جیسی حالت نہ آئی۔ انہیں سختی اور شدت پہنچی اور انہیں زور سے ہلا ڈالا گیا یہاں تک کہ رسول اور اس کے ساتھ ایمان والے کہہ اٹھے: اللہ کی مدد کب آئے گی؟ سن لو! بیشک اللہ کی مدد قریب ہے۔ (4) اوربخاری شریف میں روایت ہے کہ حضرت خَبّاب بن اَرَت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَخانہ کعبہ کے سائے میں اپنی چادر مبارک سے تکیہ لگائے ہوئے تشریف فرما تھے ،ہم نے حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ سے عرض کی:یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ! ہمارے لیے دعا کیوں نہیں فرماتے؟ ہماری کیوں مدد نہیں کرتے؟ ارشادفرمایا: تم سے پہلے لوگ گرفتار کیے جاتے تھے، زمین میں گڑھا کھود کر اس میں دبائے جاتے تھے،آرے سے چیر کر دو ٹکڑے کرڈالے جاتے تھے اور لوہے کی کنگھیوں سے ان کے گوشت نوچے جاتے تھے، لیکن ان میں سے کوئی مصیبت اُنہیں ان کے دین سے روک نہ سکتی تھی۔ (5) ہماراایمان اور دعویٰ ہے کہ خدا کی بارگاہ میں ہمارا دین ِاسلام پسندیدہ ہونے کے ساتھ، دینِ کامل بھی ہے۔ کامل سے مراد ایسا دین ہے کہ جو زندگی کے تمام معاملات میں اچھی تعلیمات دے اور زندگی کے ہر موڑ اور موقع پر راہ نُما بنے، لہذا وہ دین کبھی کامل نہیں ہو سکتا، جو عقیدے توبتائے، لیکن عبادات کا درس نہ دے یا اگر عبادات کا درس دے تو معاشی معاملات کی رہنمائی نہ کرے یا اگر معاملات درست کرے، تو خاندانی زندگی نہ سُدھارے ۔ ایسی کسی بھی کمی کا شکاردین، دینِ کامل نہیں ہوسکتا۔مکمل دین پر مکمل عمل کریں:
اگر کوئی شخص اسلام قبول نہیں کرتا،تو یہ اُس کا مسئلہ ہے، لیکن جب کوئی مسلمان ہوجائے تو اب یہ نہیں ہوسکتا کہ دین اس کی مرضی کےمطابق چلے کہ کچھ احکامات تو وہ مان لے اور جہاں جس مسئلے پر دل راضی نہ ہو، اُسے چھوڑ دے، ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا۔ اِس کی عام سی مثال یہ ہے کہ جب ہم کسی ادارے میں جاب (Job)کے لیے جانا چاہیں ، تو یہ ہماری مرضی ہے کہ ہم ادارے میں جائیں یا نہ جائیں ، لیکن جب چلے گئے اور جاب کرنے لگے، تو اب بہر صورت وہاں کے قوانین پر عمل کرنا پڑے گا ۔ اسی طرح کسی ملک میں جائیں یا نہ جائیں، یہ ہماری مرضی ہے ، لیکن جب چلے جائیں، تو پھر اُس ملک کے قوانین پر چلنا پڑے گا۔ اگر ملک میں داخل ہو جائیں اور بولیں کہ آدھے قوانین مانوں گا اور آدھے نہیں ، تو ایسا نہیں ہو سکتا۔ کچھ اسی قسم کا یااس سے بڑھ کر معاملہ اسلام کا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مسلمان ہونے والوں کو اپنے آخری نبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کے ذریعے قرآن عطا فرمایا، اس کتاب میں اللہ تعالیٰ نے عقائد ، عبادات ، اَخلاقیات ، حلال و حرام اور آدابِ زندگی کی ہدایات دی ہیں، اب اِس کے ساتھ یہ فرمادیا: (اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ وَ تَكْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ ۚفَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ یُرَدُّوْنَ اِلٰۤى اَشَدِّ الْعَذَابِ ؕوَ مَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ) ترجمہ کنزالعرفان : تو کیا تم اللہ کے بعض احکامات کو مانتے ہو اور بعض سے انکار کرتے ہو؟ تو جو تم میں ایسا کرے اس کا بدلہ دنیوی زندگی میں ذلت و رسوائی کے سوا اور کیا ہے اور قیامت کے دن انہیں شدید ترین عذاب کی طرف لوٹایا جائے گا اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں۔ (6) یعنی ایسا نہیں ہو سکتا کہ کوئی مسلمان بعض اسلامی احکام مانے اور بعض نہ مانے ۔ جو یہ کرے گا تو وہ دنیا میں رسوائی اور آخرت میں سزا کا مستحق ہو گا ، لہذا اِس تفصیل کے مطابق واضح ہوگیا کہ دین کی حقیقی روح صرف کلمہ پڑھ لینےیا صرف نماز پڑھ لینے کا نام نہیں، بلکہ عقیدہ درست ہونا، نماز اور عبادات کی پابندی، نیز دیگر اَحکام پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ کلمہ طیبہ کا جو بیج ہمارے دل میں ہے ، اس پر پاکیزہ اسلامی کردار کا پھل بھی نمودار ہونا چاہیے ۔مسلمان کی زندگی کا بنیادی مَحْور:
اصلاً تو سارا قرآن ہی بہترین مشعلِ راہ ہے، لیکن اِسی قرآن میں کچھ ایسی آیات بھی ہیں کہ اگر ہم صرف بطورِمقصد و نصیحت اُنہیں اَپنا لیں تو ہماری ساری زندگی بامقصد ہوجائے گی ۔ اس کی مثال یوں سمجھیں کہ اگر ہم اپنی زندگی میں دنیاوی اعتبار سے ایک مقصد طے کرلیں تو ہمارے دن رات کے سارے اَعمال و اَفعال اُسی مقصد کے حصول اور اُسے مکمل کرنے کی طرف متوجہ ہوجائیں گے۔اُن مقاصِد میں پیسہ، حصولِ عزت، امتحان میں کامیابی یا جیت وغیرہا کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اِسی طرح اللہ تعالیٰ نے ہم اہلِ ایمان کو انتہائی خوبصورت مقصدِ زندگی عطا فرمایا ہے، اگر وہ مقصدہمارے لوح ِدل پر ثَبْت ہو جائے، تو ہماری زندگی بامقصد بھی ہو جائے اور تمام اَعمال بھی درست ہونا شروع ہو جائیں۔ اس مقصد اصلی و حقیقی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یوں رہنمائی فرمائی ہے:( قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ)ترجمہ: تم فرماؤ، بیشک میری نماز اور میری قربانیاں اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے ۔ (7) اگر ہماری زندگی کے مقصد میں یہ چیز شامل ہو جائے کہ دنیاوی اعتبار سے ہمارے جو بھی اَہداف ہوں، لیکن اُس کے پیچھے خدا کے ساتھ تعلق کے لحاظ سے ہمارے ذہن میں یہ بات راسِخ ہوجائے کہ ہماری نمازیں، عبادتیں، زندگی اور موت سب اللہ کے لیے ہے، تو ہماری زندگی کے سارے اعمال رضائے الہی کے مطابق ہونا شرو ع ہو جائیں گے کہ ہم نے جب یہ طے کر لیا ہو گا کہ ہمارا جینا خدا کے لیے ہے، تو خدا کے لیے جینے سے مراد یہ ہے کہ ہمارا کوئی عمل اس کی نا فرمانی پر مشتمل نہ ہو، بلکہ اس کے اَحکام کے مطابق ہو۔ اس سوچ کے بعد ہمارے سارے اَعمال اس کے مطابق ہونا شروع ہو جائیں گے۔
1 (سنن النسائی، 03/50، ط:المکتبۃ التجاریۃ الکبریٰ، مصر) 2 (پ13، ابراہیم:24.25) 3 (پ20، العکنبوت:02) 4 (پ02، البقرۃ:214) 5 (بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ فی الاسلام،۴/ ۲۰۱، الحدیث: ۳۶۱۲) 6 (پ01، البقرۃ:85) 7 (پ08، الانعام:162)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع