30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْنط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمطبِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمطدُرود شریف کی فضیلت
حضرت علامہ مَجدُالدّین فیروز آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ سے منقول ہے :جب کسی مجلس میں (یعنی لوگوں میں)بیٹھواورکہو: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ وَصَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد تو اللہ پاک تم پر ایک فِرِشتہ مقرّر فرمادے گا جو تم کو غیبت سے بازرکھے گا۔اور جب مجلس سے اُٹھو تو کہو: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ وَصَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد تو فِرِشتہ لوگوں کو تمہاری غیبت کرنے سے باز رکھے گا ۔ (القول البدیع ،ص278) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدانعام یافتہ بندے
زندگی میں انسان کو مختلف آزمائشوں، پریشانیوں اور مشکلات کا سامنا رہتا ہے، ان سے چھٹکارے اور رہائی کا ایک بہترین طریقہ عجز وانکساری کے ساتھ دعا کی صورت میں بارگاہِ الٰہی میں عرض ومعروض اور گریہ وزاری کرنا بھی ہے کہ حدیث پاک کا مفہوم ہے: ’’دعا بلاؤں کو ٹال دیتی ہے۔‘‘( ترمذی، کتاب الدعوات، باب فی دعآء النبی ، ۵/ ۳۲۱، حدیث: ۳۵۵۹ مفھومًا ) نیز دعا عبادت کا مغز بھی ہے جیسا کہ حدیث شریف میں ہے:’’ اَلدُّعَآءُ مُخُّ الْعِبَادَۃ یعنی دعا عبادت کا مغز ہے۔‘‘( ترمذی، کتاب الدعوات، باب ماجآء فی فضل الدعآء ، ۵/ ۲۴۳، حدیث :۳۳۸۲) جہاں دعا مانگنا عبادت ہے وہیں اس کے بےشمار دینی ودنیاوی فوائد بھی ہے، نیز حضور نبی پاک صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے دعا کی اہمیت وفضیلت اور فوائد کو بیان کرتے ہوئے امت کو دعائیں مانگنے کی ترغیب وتعلیم ارشاد فرمائی ہے۔ چنانچہبارگاہِ الٰہی میں عزت والی چیز
اللہ پاک کے آخری نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’ لَیْسَ شَیْئٌ اَکْرَمَ عَلَی اللہِ مِنَ الدُّعَآء یعنی اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا سے بڑھ کر عزت والی کوئی چیز نہیں۔‘‘ ( ترمذی، کتاب الدعوات، باب ماجآء فی فضل الدعآء ، ۵/ ۲۴۳، حدیث:۳۳۸۱)اللہ پاک کی ناراضی کا باعث
حضور نبی اکرم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’ مَنْ لَّمْ یَسْئَلِ اللہَ یَغْضَبْ عَلَیْہ یعنی جو اللہ پاک سے دعا نہیں مانگتا اللہ پاک اس سے ناراض ہوتا ہے۔‘‘( ترمذی، کتاب الدعوات، باب ماجآء فی فضل الدعآء ، ۵/ ۲۴۴، حدیث :۳۳۸۴) پس دعا کی اہمیت وفضیلت کو سمجھتے ہوئے ہر مسلمان کو دعا مانگتے رہنا چاہئے کہ اس سے مشکلیں حل ہوتی ہیں۔ قرآن و حدیث میں بےشمار دعائیں وارد ہیں جنہیں دعائے ماثور کہا جاتا ہے۔ الغرض جہاں ہم بےشمار دعائیں مانگتے ہیں وہیں ایک دعا ایسی بھی ہے جو ہر مومن بالخصوص ہرنمازی، نماز کی ہر رکعت میں مانگتا ہے اور وہ دعا یہ ہے: اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ(5) صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ﴰ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ(7)(فاتحہ:۵ تا ۷) ترجمۂ کنزالایمان: ہم کو سیدھا راستہ چلا راستہ اُن کا جن پر تو نے احسان کیا نہ اُن کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا۔ آئیے قرآن مجید کی اس دعا کی اہمیت وفضیلت کو سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ انعام یافتہ لوگ کون ہیں جن کے راستے پر چلنے اور ثابت قدم رہنے کی دعا مانگنے کی ہمیں تعلیم دی گئی ہے۔ چنانچہتفسیر نور العرفان
مشہور مفسر، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ اس کے تحت فرماتے ہیں:اس سے تین مسئلے معلوم ہوئے ایک یہ کہ رب کریم کی تمام نعمتوں سے اعلیٰ نعمت سیدھے راستے کی ہدایت ہے کہ ہر رکعت میں اس کی دعا کرائی گئی، دوسرے یہ کہ سیدھے راستہ کی پہچان یہ ہے کہ اس پر اولیاءُ اللہ اور صالحین ہوں کیونکہ وہی ربّ کریمکے انعام والے بندے ہیں ربّ(کریم ارشاد) فرماتا ہے:’’ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ ‘‘(سچوں کے ساتھ ہو)اور وہ راستہ صرف مذہب اہل سنت ہے کہ اس میں اولیاءُ اللہ گزرے اور اب بھی ہیں، تیسرے یہ کہ ہدایت صرف اپنی کوشش سے نہیں ملتی، بلکہ ربّ کریم کے کرم سے ملتی ہے نیز معلوم ہوا کہ گمراہوں کی گمراہی خدا کا غضب ہے نہ ان کے سے عقیدے رکھے نہ ان کی سی شکل وصورت بنائے نہ ان کی بُری رسمیں اختیار کرے۔تفیسر صراط الجنان
صراطِ مستقیم سے مراد’’عقائد کاسیدھا راستہ ‘‘ہے جس پر تمام انبیاء کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چلے یا اِس سے مراد ’’اسلام کاسیدھا راستہ‘‘ ہے جس پرصحابَۂ کرام رَضِیَ اللہُ عَنْہُم ، بزرگانِ دین اور اولیاءِ عِظام رَحْمَۃُاللہِ عَلَیْہِم چلے جیسا کہ اگلی آیت میں موجود بھی ہے اور یہ راستہ اہلسنّت کا ہے کہ آج تک اولیاء ِ کرام رَحْمَۃُاللہِ عَلَیْہِم ْ صرف اِسی مَسلک ِاہل سنّت میں گزرے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں کے راستے پر چلنے اورانہیںکے ساتھ ہونے کا فرمایا ہے۔ چنانچہ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(119) ترجمۂ کنزالایمان :اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو۔ (پ۱۰، التوبة :۱۱۹)تم پرسوادِ اعظم کی پیروی لازم ہے
حضرت سیِّدُنا انس بن مالک رَضِیَ اللہُ عَنْہ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’بےشک میری اُمّت کبھی گمراہی پر جمع نہیں ہو گی اور جب تم (لوگوں میں) اختلاف دیکھو تو تم پر لازم ہے کہ سوادِ اعظم (یعنی مسلمانوں کے بڑے گروہ) کے ساتھ ہو جاؤ۔( ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب السواد الاعظم ، ۴ / ۳۲۷، حدیث: ۳۹۵۰)سوادِ اعظم کی تعریف
حضرت سیِّدُنا اسحاق بن راہویہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ بیان کرتے ہیں کہ اگر تم جاہلوں سے سوادِ اعظم کے متعلق پوچھو گے تو وہ کہیں گے: ’’لوگوں کا بڑا گروہ سواد اعظم ہے۔‘‘ حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ جماعت، رسولِ کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی روایات اور طریقے کو مضبوطی سے تھامنے والے عالِم کو کہا جاتا ہےتو جو اس عالِم کے ساتھ ہوگا اور اس کی پیروی کرے گا وہ جماعت ہے اور جس نے اس معاملے میں عالِم کی مخالفت کی اس نے جماعت کو چھوڑ دیا۔( حلیة الاولیاء وطبقات الاصفیاء ، ۹/ ۲۵۰، رقم:۱۳۸۰۳) مشہور شارح حدیث، حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ مراٰۃ المناجیح، جلد1، صفحہ172 پر فرماتے ہیں:خیال رہے کہ بڑی جماعت سارے مسلمانوںکی معتبر ہے نہ کہ کسی خاص جگہ اور خاص وقت کی۔لہٰذا اگر کسی بستی میں ایک سنی ہے سب بدمذہب تو وہ ایک ہی سواد اعظم ہوگا کیونکہ وہ صحابہ سے اب تک کی جماعت کے ساتھ ہے۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع