Qubool Islam
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Islam Qabol Karne Ki Ahmiyat o Fazilat | اسلام قبول کرنے کی اہمیت و فضیلت

    Qubool Islam

    book_icon
    اسلام قبول کرنے کی اہمیت و فضیلت
    بسمِ اللہ الرَّحمنِ ا لرَّ حِیم
    الصلوۃ والسلام علیک یارسول اللہ             وعلی آلک واصحبک یا حبیب اللہ
    اما بعد : 
    مذہبِ  اسلام ، دينِ حق ، جامِع ، مکمل ،  تمام دینوں سے اعلیٰ اور عین فطرت کے مطابق  ہے۔ اِس دین کو قبول کیے بغیر  کوئی نیکی بھی اللہ کی بارگاہ میں مقبول نہیں ۔  اگر بغیر اسلام لائے کوئی دنیا سے گیا تو ہمیشہ جہنم میں رہے گا اور جو حالتِ ایمان  میں گیا ، وہ ہمیشہ  جنت میں رہے گا ، ہاں اگر گناہ سرزد ہوئے ہوں تو اللہ کے فیصلے کے بعد بالآخر جنت میں چلا جائے گا۔ غیر مسلموں کو اسلام  کی طرف بلانا ، تمام نبیوں اور رسولوں کی سنت اور بحیثیت ِاُمَّت ہمارے فرائض میں سے  ہے ، کیونکہ تمام  نبیوں ،  رسولوں کو اِس کائنات میں بھیجنے کا بنیادی ترین مقصد یہی تھا کہ وہ لوگوں کو کفر کے اندھیرے سے نکال کر اسلام کے نور میں داخِل کریں ۔   یاد رکھیے کہ قبولِ اسلام دل سے تصدیق کرنے اور زبان سے اقرار کرنے کا نام ہے ، اِس کے لیے بالغ ہونا شرط نہیں ، بلکہ اگر نابالغ سمجھدار اسلام قبول کرے تو اُس کا اسلام معتبر (Valid)ہے اور اُسے  اسلامی نقطہ نظر سے مسلمان ہی سمجھا جائے گا ، خود نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو نابالغی کی عمر میں   دعوتِ اسلام دی اور اُنہیں کلمہ پڑھایا ، اُس وقت آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کی عمر مبارک صرف سات سال تھی ، لہذا نابالغ کا قبولِ اسلام معتبر  اور اُسے کلمہ پڑھانا  اور اسلام کی دعوت دینا ، نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے ثابت ہے ، البتہ جبرا ً  کافر کو مسلمان بنانے کی اجازت نہیں۔   دوسری بات یہ کہ  اگر کوئی غیر مسلم (نابالغ سمجھدار یا بالغ) قبول اسلام کی خواہش کا اظہار کرے تو اُسے فوراً بلاتامُّل کلمہ پڑھا کر مسلمان کرنا فرض ہے ،  لہذا مسلمان کرنے میں تاخیر کرنا ،  اُسے قبولیت اسلام کے حوالے سے غور وفکر کا مشورہ  دینا وغیرہا سخت حرام ہے ، بلکہ علمائے کرام نے لکھا ہے کہ اگر کوئی شخص فرض نماز پڑھ رہا ہو اور اسے کوئی کافر آکر اسلام قبول کروانے کا کہے تو مسلمان پر لازم ہے کہ اپنی نماز توڑ کراسے کلمہ پڑھائے۔ کسی کے قبولِ اسلام کی درخواست پر یہ کہنا کہ ابھی اسلام قبول نہ کرو ، بلکہ پہلے جاکر غور وفکر کرو ، پھر دیکھیں گے ، یہ بات اُس بندے پر سَرَاسر ظلم ہے ،  کیونکہ اگر وہ اِسی وقفے کے زمانے میں مرگیا تو کافر مرا اور اس کے کفر پر مرنے کا ذمہ دار یہی تاخیر کرانے والا ہے ، نیز یہ تاخیر کرانے والا گویا اسے یہ کہہ رہا ہے کہ تم ابھی کافر ہی رہو ، بتوں کو پوجتے رہو ، شرک کرتے رہو معاذاللہ ثم معاذاللہ! کیا یہ تاخیرکرانے والا اُتنی دیر  اُس  شخص کے کفر   پر رضا مندنہیں اور یاد رکھیں کہ کسی کے   کفر پر راضی ہونا ، بھی اس کے برابر کا جرم ہے۔ 

    اگر اسلام قبول نہیں کیا تو کوئی نیکی قبول نہیں :

    چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے : ( وَ مَنْ یَّبْتَغِ غَیْرَ الْاِسْلَامِ دِیْنًا فَلَنْ یُّقْبَلَ مِنْهُۚ-وَ هُوَ فِی الْاٰخِرَةِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۸۵))ترجمہ کنزالعرفان : اور جو کوئی اسلام کے علاوہ کوئی اور دین چاہے گا تو وہ اُس سے ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو گا۔ ( سورۃ آل عمران ، پارہ 3 ، آیت85)
    مسلم شریف میں ہے : ’’عن عائشة قالت : قلت یا رسول اللہ! ابن جدعان کان فی الجاھلیة یصل الرحم ویطعم المساکین فھل ذلک نافعة؟ قال لا ینفعہ إنہ لم یقل یوما رب اغفر خطیئتي یوم الدین‘‘ترجمہ : حضرت عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا  سے مروی ہے ، آپ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! ابنِ جُدْعان زمانہ جاہلیت میں صلہ رحمی کرنے والا ، مساکین کو کھلانے پلانے والا تھا ، تو کیا یہ  اُمور اُسے نفع دیں گے؟ آپ نے فرمایا : یہ چیزیں اُسے نفع نہیں دیں گی ، کیونکہ اُس  نے اللہ تعالیٰ سے کبھی دعا نہیں کی تھی کہ اے پروردگار قیامت کے دن میری مغفرت فرما۔ (یعنی ایمان نہیں لایا تھا۔ )
     (صحیح المسلم ، جلد1 ، صفحہ 196 ، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی ، بیروت)
    اِس حدیث کے تحت امام شرف الدین نَوَوِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات : 676ھ / 1277ء) نے لکھا : ’’ قال القاضي عياض رحمه اللہ تعالى وقد انعقد الإجماع على أن الكفار لا تنفعهم أعمالهم ولا يثابون عليها بنعيم ولا تخفيف عذاب لكن بعضهم أشد عذابا من بعض بحسب جرائمهم‘‘ترجمہ : قاضی عیاض رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فرمایا  کہ اِس بات پر اجماع منعقد ہے کہ کافروں کو اُن کے عمل کسی طرح کا کوئی نفع نہیں دیں گے ، نہ ہی جنتی نعمتوں کے ذریعے انہیں جزا دی جائے  گی ، نہ کسی طرح کی عذاب میں کمی ہو گی ، ہاں اُن کے عذابات اُن کے جرموں کے حساب سے کم زیادہ ہوں گے۔      (المنهاج مع المسلم ، جلد3 ، صفحه 8 6 ، مطبوعه داراحیاء التراث العربی)

    جو ایمان نہ لایا وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا :

    چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے : ( وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا وَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَاۤ اُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ۠(۳۹)) ترجمہ کنزالعرفان : اور وہ جو کفر کریں گےاور میری آیتوں کو جھٹلائیں گے ، وہ دوزخ والے ہوں گے ، وہ ہمیشہ اِس میں رہیں گے۔       (سورۃ البقرۃ ، پارہ1 ، آیت39)
    امام ابو منصور عبدالقاھر بغدادی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات : 429ھ / 1037ء)لکھتے ہیں : ’’ اجمع اھل السنۃ وکل من سلف من اخیار الامۃ علی دوام بقاء الجنۃ والنار وعلی دوام نعیم اھل الجنۃ ودوام عذاب الکفرۃ فی النار ‘‘ترجمہ : اہلِ سنت اور امت  کے بہترین لوگوں کا جنت  وجہنم کی ہمیشگی ، اہلِ جنت کی ہمیشگی اور کافروں کے ہمیشہ   حالتِ عذاب میں رہنے پر اجماع ہے۔ 
    (اصول الدین ، المسالۃ التاسعۃ فی دوام الجنۃ والنار ومافیھما ، صفحہ 263 ، مطبوعہ بیروت)

    اگر کوئی مومن گناہ کے سبب جہنم میں چلا بھی گیا تو بالآخر جنت میں ہی جائے گا :

     چنانچہ امام شرف الدین نَوَوِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں : ’’اعلم أن مذهب أهل السنة وما عليه أهل الحق من السلف والخلف أن من مات موحدا دخل الجنة قطعا على كل حال فإن كان سالما من المعاصي  أو غيره من المعاصي إذا لم يحدث معصية بعد توبته والموفق الذي لم يبتل بمعصية أصلا فكل هذا الصنف يدخلون الجنة ...وأما من كانت له معصية كبيرة ومات من غير توبة فهو في مشيئة اللہ تعالى فإن شاء عفا عنه وأدخله الجنة وإن شاء عذبه القدر الذي يريده سبحانه وتعالى ثم يدخله الجنة فلا يخلد في النار أحد مات على التوحيد ولو عمل من المعاصي ما عمل كما أنه لا يدخل الجنة أحد مات على الكفر ولو عمل من أعمال البر ما عمل هذا مختصر جامع لمذهب أهل الحق في هذه المسألة‘‘ترجمہ : اہلِ حق ،  اہلِ سنت کا مذہب یہ ہے کہ جو شخص حالت ایمان پر مرا ،  وہ قطعاً  جنت میں داخل ہوگا ( ہاں اس کے دخول میں تفصیل ہے ،  وہ یہ کہ ) اگر وہ گناہوں سے محفوظ رہا یا گناہ تو ہوئے لیکن اُس نے  گناہوں سے سچی توبہ کرلی اور پھر توبہ کے بعدکبھی کوئی گناہ نہیں کیا تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور جہنم میں بالکل نہیں جائیں گے اور جس نے کبیرہ گناہ کیا ہو اور پھربغیر توبہ کے مر گیا تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر ہے ، اگر وہ چاہے تو اسے معاف فرماکر جنت میں داخل کردے اور اگر چاہے تو اُسے عذاب دے ، پھر جنت میں داخل فرما دے ، بہر حال جو بھی ایمان پر مرا وہ ہمیشہ جہنم میں نہیں رہے گا اگرچہ اس نے گناہ کیے ہوں جیسے کوئی بھی کافر کبھی بھی جنت میں داخل نہیں ہوسکتا ،  اگرچہ بظاہر اس نے جتنی بھی نیکیاں کی ہوں۔ یہ اِس دخولِ جنت کے مسئلہ میں اہلِ سنت کا چند لفظوں میں جامع ترین عقیدہ ہے۔                                   (المنهاج مع المسلم ، جلد1 ، صفحه 217 ، مطبوعه داراحیاء التراث العربی)

    کسی کو کلمہ پڑھا کر راہِ ہدایت پر لانا عظیم ثواب کا باعث ہے :

     چنانچہ  نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے مولائے کائنات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے فرمایا : ’’ ادعهم ‌إلى الإسلام ، وأخبرهم بما يجب عليهم من حق اللہ فيه ، فو اللہ لأن يهدي اللہ بك رجلا واحدا ، خير لك من أن يكون لك حمر النعم‘‘ترجمہ : انہیں(اہلِ خیبر) کو  اسلام کی دعوت دو اور انہیں بتلاؤ  کہ جو اللہ کے حقوق اُن پر لازم ہیں۔ اللہ کی قسم! (اے علی!) اگر تیری وجہ سے ایک آدمی بھی ہدایت پر آجائے تو تیرے لئے یہ مالِ غنیمت کے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے۔ (صحیح البخاری ، جلد5 ، باب غزوۃ خیبر ، صفحہ134 ، مطبوعہ دار طوق النجاۃ ، بیروت)
    المعجم الکبیر للطبرانیمیں ہے : ’’ لأن يهدي اللہ عز وجل ‌على ‌يديك ‌رجلا خير لك مما طلعت عليه الشمس وغربت‘‘ترجمہ : اگر اللہ پاک تیرے ذریعے کسی کو ہدایت دیدے تو یہ تیرے لیے ہر اُس چیز سے بہترہے ، جس پر سورج  طلوع اور غروب ہوتا ہے۔ (پوری دنیا کے مال و دولت سے بہتر ہے۔ )             (المعجم الکبیر للطبرانی ، جلد1 ، صفحہ 315 ، مطبوعہ قاھرۃ)

    دعوتِ اسلام ، انبیاء کے بنیادی فرائض میں سے ہے :

    تمام انبیاء ورسل اسلام کی ہی دعوت دیتے رہے ، چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کے بارے میں فرمایا : ( وَ وَصّٰى بِهَاۤ اِبْرٰهٖمُ بَنِیْهِ وَ یَعْقُوْبُؕ-یٰبَنِیَّ اِنَّ اللّٰهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّیْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ  اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَؕ(۱۳۲) ) ترجمہ کنزالعرفان : اورابراہیم اور یعقوب نے اپنے بیٹوں کو اسی دین کی وصیت کی کہ اے میرے بیٹو!بیشک اللہ نے یہ دین تمہارے لئے چن لیاہے توتم ہرگز نہ مرنا مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو۔   (سورۃ البقرۃ ، پارہ1 ، آیت132)
    حضرت نوح علیہ الصلٰوۃ والسَّلام کے متعلق ارشاد ہوا : ( اِذْ قَالَ لَهُمْ اَخُوْهُمْ نُوْحٌ اَلَا تَتَّقُوْنَۚ(۱۰۶) اِنِّیْ لَكُمْ رَسُوْلٌ اَمِیْنٌۙ(۱۰۷) فَاتَّقُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوْنِۚ(۱۰۸) ) ترجمہ کنزالعرفان : جب ان سے ان کے ہم قوم نوح نے فرمایا : کیا تم ڈرتے نہیں ؟بیشک میں  تمہارے لیے ایک امانت دار رسول ہوں ۔ تو اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو۔    (سورۃ  الشعراء ، پارہ 19 ، آیت 106.107.108)
    حضرت ہارون علیہ الصلٰوۃ والسَّلام  کے متعلق بتایا گیا : ( وَ لَقَدْ قَالَ لَهُمْ هٰرُوْنُ مِنْ قَبْلُ یٰقَوْمِ اِنَّمَا فُتِنْتُمْ بِهٖۚ-وَ اِنَّ رَبَّكُمُ الرَّحْمٰنُ فَاتَّبِعُوْنِیْ وَ اَطِیْعُوْۤا اَمْرِیْ(۹۰) )  ترجمہ کنزالعرفان : اور بیشک ہارون نے ان سے پہلے ہی کہا تھا کہ اے میری قوم ! تمہیں  اس کے ذریعے صرف آزمایا جارہا ہے اور بیشک تمہارا رب رحمٰن ہے تو میری پیروی کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو۔ (سورۃ طہ ، پارہ16 ، آیت90)

    اگر کوئی اسلام لائے تو اُس کی جانچ پڑتال میں لگنا اور اُس کے اسلام پر شک کرنا ممنوع ہے :

    چنانچہ قرآن ِ مجید میں ہے : (وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰۤى اِلَیْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًاۚ-)ترجمہ کنزالعرفان : اور جو تمہیں سلام کرے ، اُسے یہ نہ کہو کہ  تو مسلمان نہیں۔    (سورۃ النساء ، پارہ5 ، آیت94)
    مسلم شریف میں ہے : عن أسامة بن زيد  قال : بعثنا رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم في سرية ، فصبحنا الحرقات من جهينة ، فأدركت رجلا فقال : لا إله إلا اللہ ، فطعنته فوقع في نفسي من ذلك ، فذكرته للنبي صلى اللہ عليه وسلم ، فقال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم : «أقال لا إله إلا اللہ وقتلته؟» قال : قلت : يا رسول اللہ ، إنما قالها خوفا من السلاح ، قال : «أفلا شققت ‌عن ‌قلبه حتى تعلم أقالها أم لا؟» فما زال يكررها علي حتى تمنيت أني أسلمت يومئذ‘‘ترجمہ : حضرت اسامہ بن زید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہما سے مروی ہے ، آپ بتاتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہمیں ایک لشکر میں (جنگ کے لیے) بھیجا۔ ہم نے صبح  کے وقت قبیلہ جُہینہ کی شاخ “ حرقات “  پر حملہ کیا ، میں نے ایک آدمی پر قابو پا لیا ، تو اس نے “ لا إله إلا اللہ “ کہہ دیا ، لیکن میں نے اسے نیزہ مار دیا ، اس بات سے میرے دل میں کھٹکا پیدا ہوا تو میں نے اس کا تذکرہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سے کیا ، اس پر رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ’’کیا اس نے “ لا إله إلا اللہ “ کہا اور تم نے اسے قتل کر دیا؟‘‘ میں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول! اس نے اسلحے کے ڈر سے کلمہ پڑھا ، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : ’’تو نے اس کا دل چیر کر کیوں نہ دیکھ لیا ، تا کہ تمہیں معلوم ہو جاتا کہ اس نے (دل سے) کہا ہے یا نہیں۔ ‘‘ پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میرے سامنے مسلسل یہ بات دہراتے رہے یہاں تک کہ میں نےتمنا کی کہ (کاش) میں آج ہی اسلام لایا ہوتا۔    (صحیح المسلم ، جلد1 ، صفحہ 96 ، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی ، بیروت)

    اگر کوئی نابالغ اسلام لائے تو اُس کا اسلام بلاشبہ معتبر ہے :

    چنانچہ  مشہور محدث علامہ ابنِ حجر عسقلانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  اپنی کتاب “ التلخیص الحبیر “ میں یہ حدیث نقل کرتے ہیں : ’’ إن النبي صلى اللہ عليه وسلم دعا عليا إلى الإسلام وهو ‌ابن ‌سبع ‌سنين أو دونها فأجاب‘‘ترجمہ : نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کو دعوتِ اسلام دی ،  اِس حال میں کہ اُس وقت آپ کی عمر سات سال یا اِس سے بھی کم تھی ۔ (جب دعوت دی گئی) تو آپ نے اسلام قبول کر لیا۔      (التلخیص الحبیر ، جلد3 ، صفحہ 168 ، مطبوعہ  مؤسسۃ قرطبۃ ، مصر)
    حضرت علی کا بچوں میں سب سے پہلے ایمان لانا ، ہمارے ہر چھوٹے بڑے کو معلوم ہے ، لیکن اہلِ اسلام میں سے کوئی بھی یہ بات نہیں کہہ سکتا  کہ معاذاللہ حضرت علی کا بچپن ،  نابالغی اور  پندرہ یا اٹھارہ سال سے پہلے لایا ہوا ایمان معتبر نہیں ، بلکہ اُن کو دعوت دے کر مسلمان کرنا ، جبراً مسلمان بنانا تھا۔ العیاذ باللہ! امام بخاری  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اپنی معروف کتاب “ صحیح بخاری “ میں باقاعدہ یہ باب باندھا کہ “ بچوں پر اسلام کیسے پیش کیا جائے گا “ ، چنانچہ اُس میں ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ ابنِ صیَّاد کو نابالغی کی حالت میں نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دعوتِ اسلام دی ، چنانچہ بخاری شریف میں ہے : ’’ أن عمر انطلق في رهط من أصحاب النبي صلى اللہ عليه وسلم مع النبي صلى اللہ عليه وسلم قبل ‌ابن ‌صياد ، حتى وجدوه يلعب مع الغلمان ، عند أطم بني مغالة ، وقد قارب يومئذ ‌ابن ‌صياد يحتلم ، فلم يشعر حتى ضرب النبي صلى اللہ عليه وسلم ظهره بيده ، ثم قال النبي صلى اللہ عليه وسلم : أتشهد أني رسول اللہ۔ ۔ ۔ الخ ‘‘ترجمہ : نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ آپ کے صحابہ کرام  کی ایک جماعت ، جس میں حضرت عمر  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بھی شامل تھے ، ابن صیاد کی طرف گئی۔ صحابہ کرام نے  بنو مغالہ کے ٹیلوں کے پاس اُسے بچوں کے ہمراہ کھیلتے ہوئے پایا۔ اُس وقت وہ قریب البلوغ تھا۔ اُسے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی آمد کا کچھ علم نہ ہوا ،  حتی کہ نبی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنا دست مبارک اس کی پشت پر مارا  اور پھر فرمایا :  کیاتو اس بات  کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ 
    (صحیح البخاری ، جلد4 ، باب کیف یعرض الاسلام علی الصبی ، صفحہ70 ، مطبوعہ بیروت)
    اِس كے تحت  شارح بخاری علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات : 855ھ / 1451ء) لکھتےہیں : ’’ قوله “ تشهد أني رسول اللہ “ فإن فيه عرض الإسلام على الصبي ويفهم منه أيضا أنه لو لم يصح إسلام الصبي لما عرض عليه الصلاة والسلام على ابن صياد وهو غير مدرك‘‘ترجمہ : نبی پاک کے  اِس فرمان “ کیاتو اس بات  کی گواہی دیتا ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں؟ “ میں نابالغ بچے  پر اسلام کی دعوت پیش کرنے کا واضح ثبوت موجود ہے اور اِس دعوت دینے سے یہ بھی سمجھ آ رہا ہے کہ اگر بچے کا اسلام لانا صحیح اور معتبر نہ ہوتا تو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کبھی ابنِ صیاد ، جو کہ نابالغ تھا ، اُس پر اسلام پیش نہ کرتے۔ 
    (عمدۃ القاری ، جلد8 ، صفحہ168 ، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ، بیروت)
    اِن کے علاوہ حضرت زبیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بھی  آٹھ سال کی عمر میں ایمان لائے۔ یونہی ایک موقع پر نبی اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ایک یہودی نابالغ بچے کو اسلام کی دعوت دی اور انہوں نے اسلام قبول کیا اور فوراً انتقال کر گئے ، تو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : تمام تعریفیں اللہ کے لیے کہ جس نے اُسے میرے سبب آگ سے بچا لیا۔ 
    مجمع الانہر میں بحر الرائق کے حوالے سے ہے : ’’ أن الصبي العاقل يخاطب بأداء الإيمان كالبالغ لو مات بعده بلا إيمان خلد في النار‘‘ترجمہ : بے شک غیر مسلم سمجھدار  نابالغ ، شریعت کی جانب سے اسلام قبول کرنے کے حکم کا مخاطَب ہے ، جیسا کہ بالغ ہوتا ہے ، حتی کہ اگر وہ بغیر ایمان کے دنیا سے گیا تو ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ 
    (مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر ، جلد2 ، كتاب السير والجهاد ،  صفحہ 500 ، مطبوعہ بیروت)
    بلکہ اگر سمجھدار  نابالغ اسلام لا کر دوبارہ اسلام سے پھرے تو اُسے اسلام لانے پر مجبور کیا جائے گا ، چنانچہ  اِسی میں ہے : ’’یجبر الصبی العاقل اذا ارتد علی الاسلام لما فیہ نفع لہ ‘‘ ترجمہ : سمجھدار نابالغ مرتد ہو جائے تو اُسے اسلام لانے پر مجبور کیا جائے گا ، کہ اِسلام لانے میں اُس کا فائدہ ہے۔  (مجمع الانھر شرح ملتقی الابحر ، جلد2 ،  صفحہ 500 ، مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ ، بیروت)
    جب کوئی شخص ایمان لانا چاہے تو اُسے فوراً کلمہ پڑھاکر دائرہ اسلام میں داخل کرنا ضروری ہے ، بلکہ کوئی فرض نماز پڑھ رہا ہو اور اسے کوئی کافر آکر اسلام قبول کروانے کا کہے تو مسلمان پر لازم ہے کہ اپنی نماز توڑ کراسے کلمہ پڑھائے ، کسی کے قبولِ اسلام کی درخواست کے بعد  اسے کلمہ پڑھانے  میں دیر کرنا گناہِ کبیرہ ہے ، بلکہ علمائے کرام  نے تاخیر کرنے والے کے متعلق حکمِ کفر تک بیان کیا ہے ، چنانچہ علامہ عبدالغنی نابُلُسی حنفی  رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات : 1143ھ / 1730ء)لکھتےہیں : ’’لو قال ذمی للمسلم اعرض علی الاسلام یقطع وان کان فی الفرض کذا فی خزانۃ الفتاویٰ ‘‘ ترجمہ : کسی ذمی نے مسلمان سے کہا : مجھ پر اسلام پیش کرو یعنی مجھے کلمہ پڑھا دو ، تو (مسلمان پر ) نماز توڑنا لازم ہے ، اگرچہ فرض نماز میں ہو ، جیسا کہ خزانۃ الفتاویٰ میں ہے۔ 
    (الحدیقۃ الندیۃ شرح الطریقۃ المحمدیۃ ، ج2 ، الصنف الخامس ،  ص 459 ، مطبوعہ دار الطباعۃ العامرۃ )
      امامِ اہلسنت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(سالِ وفات : 1340ھ / 1921ء) لکھتے ہیں : ’’ جو  کافر تلقین اسلام چاہے اسے تلقین فرض ہے اور اس میں دیر لگانا اشد کبیرہ بلکہ اس میں تاخیر کو علماء نے کفر لکھا ۔ ‘‘               
    (فتاویٰ رضویہ ، جلد21 ، صفحہ172 ، مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ، لاھور)

    نکاح کی خواہش سے قبول ِ اسلام جبر نہیں بلکہ معتبر ہے:

    اسلام اقرار باللسان اور تصدیقِ قلبی کا نام ہے اور تصدیقِ قلبی ایک اختیاری چیز ہے ، لہذا اگر کوئی غیر مسلم مسلمان لڑکی سے شادی کی خواہش میں یا کسی مسلمان کی جانب سے مالی اِمداد  ہونے یا اُس کی خوش اخلاقی سے متاثر ہو کر  بذاتِ خود ، بلا جبر واکراہ  دل سے اسلامی عقائد کی تصدیق کر کے مسلمان ہو جاتا  اور اسلامی معاملات بجا لاتا ہے ،  تو وہ بلاشبہ مومن اور مسلمان ہے ، اِسے جبری مسلمان کرنا ہر گز نہیں کہا جا سکتا ، یہ ایک مُحَرِّک ہے اور ہر کام کا کوئی نہ کوئی مُحَرِّک ہوتا ہے اور نکاح کا مُحَرِّک ہزاروں جگہ پایا جاتا ہے لیکن کوئی اَحْمَق یہ نہیں کہتا ہے کہ یہ جبر ہے ، لہٰذا نکاح کی خواہش میں کسی لڑکے یا لڑکی نے جو اسلام قبول کیا وہ معتبر ہے ، کیونکہ اُس نے ہوش وحواش میں اپنے اختیار سے اسلام قبول کیا ہے ، اورہم پر لازم ہے کہ اُس کے متعلق بدگمانی کرنے سے بچیں کہ اُس نے دل سے اسلام قبول نہیں کیا ،  بلکہ ضروری ہے کہ  اُسے مسلمان سمجھتے ہوئے اُس سے مسلمانوں والا ہی برتاؤ کریں ، چنانچہ  جب حضرت ام سُلیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا نے حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ  سے نکاح کرنا چاہا ، تو حضرت ابو طلحہ  ابھی ایمان نہیں لائے تھے ،  تو حضرت ام سلیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا نے اسلام لانے کو مہر قرار دیا ، کہ پہلے ایمان لاؤ تو پھر نکاح کروں گی ،  تو حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ ایمان لے آئے اور صحابیت کے شرف سے سرفراز ہوئے ،  چنانچہ  سنن نسائی  میں صحیح سند کے ساتھ ہے : ’’عن أنس ، قال : تزوج أبو طلحة أم سليم ، فكان ‌صداق ‌ما ‌بينهما الإسلام ، أسلمت أم سليم قبل أبي طلحة ، فخطبها ، فقالت : إني قد أسلمت ، فإن أسلمتَ نكحتُك ، فأسلم فكان ‌صداق ‌ما ‌بينهما ‘‘ترجمہ : حضرت انس  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ حضرت ابوطلحہ  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے (میری والدہ) حضرت ام سلیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا سے نکاح  کیا تو ان دونوں کے درمیان (حضرت ابو طلحہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کا) اسلام لانا ہی حق مہر قرار پایا۔ (دراصل) ام سلیم  رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ سے پہلے مسلمان ہوگئی تھیں۔ حضرت ابوطلحہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ نے انہیں نکاح کا پیغام بھیجا تو وہ کہنے لگی : میں تو مسلمان ہوچکی ہوں اگر آپ بھی مسلمان ہوجاؤ تو میں آپ سے نکاح کرلوں گی۔ تب وہ مسلمان ہوگئے۔ چنانچہ وہی (ان کا مسلمان ہونا ہی) ان دونوں کے درمیان حق مہر مقرر ہوا۔ (سنن النسائی ، جلد6 ، التزویج علی الاسلام ، صفحہ 114 ، مطبوعہ  حلب)
    بخاری شریف میں ہے : ’’ قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم : إني لم أومر ‌أن ‌أنقب قلوب الناس ولا أشق بطونهم‘‘ترجمہ : رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : مجھے کسی کے دل ٹٹولنے یا پیٹ چیرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔ 
    (صحیح البخاری ، جلد5 ، صفحہ163 ، مطبوعہ دار طوق النجاۃ ، بیروت)
    اللہ پاک ہم سب کو دینِ اسلام پر عمل کرنے ، اس کو پھیلانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سب کا خاتمہ عافیت کے ساتھ ایمان پر ہی فرمائے ۔ 
    آمین بجاہ النبی الامین  صلی اللہ علیہ وآلہ و سلم 
    مفتی محمد قاسم عطاری
    07 صفر المظفر1443ھ / 15 ستمبر 2021ء

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن