اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
جانوروں کا احساس( )
شیطان لاکھ سُستی دِلائے یہ رِسالہ(۱۱صَفحات) مکمل پڑھ لیجیے اِنْ شَآءَ اللّٰہ معلومات کا اَنمول خزانہ ہاتھ آئے گا۔
فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم: بروزِ قیامت لوگوں میں سے میرے قریب تر وہ ہوگا جس نے دُنیا میں مجھ پر زیادہ دُرُودِ پاک پڑھے ہوں گے۔( )
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
سُوال: عرض یہ ہے کہ بائىک پر بلّى بىٹھى ہوئى ہے اور اگر اسے ڈسٹرب (Disturb) کرتے ہىں تو اس کے سکون مىں خلل واقع ہوگا تو کىا ىہ اجازت ہے کہ اس کو ہٹا کر بائىک لے جائىں ىا بلّی کے بائیک سے ہٹنے کا انتظار کریں؟
(ایک ویڈیو دکھائی گئی جس میں ایک بائیک پر بلی بیٹھی ہوئی ہے اور یہ سُوال کیا گیا)
جواب: ىہ بھى اىک اچھى سوچ ہے، ورنہ ىہاں تو بندوں کو کان پکڑ کر، دھکا مار کر نکال دىتے ہىں۔ البتہ اگر ىہ بلّى پر شفقت کرے اور اس کو نہ ہٹائے تو اس پر بھى ثواب کا حق دارہے، جب کہ کسى کى حق تلفى نہ ہوتى ہو۔ بہر حال اپنى چىز یا سوارى سے جائز طریقے سے ہٹانے میں حرج نہیں ہے، یہ نہ ہو کہ پتھر اٹھا کر مار دیا یا دُم پکڑ کر گھما کر پھىنک دىا، اس کى اجازت نہىں ہے۔ مکتبۃ المدینہ کی کتاب ”مکاشفۃ القلوب“ کے صفحہ نمبر 135 پر ہے کہ ”صحابۂ کرام رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُم نے عرض کى: یَا رَسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم! جانوروں پر شفقت کرنے سے بھى ہمىں ثواب ملتا ہے؟ آپ نے فرماىا: ہر ذى روح پر شفقت کا اجر ملتا ہے۔“( ) ىعنى جو بھى جاندار ہے اس پر شفقت کرىں تو اس پر اجر ملتا ہے، لہٰذا اگر جانوروں پر شفقت کا موقع ملے تو کرنا چاہىے۔
سلسلہ عالىہ قادرىہ رضوىہ کے عظىم پىشوا حضرتِ سَیِّدُنا ابوبکر شبلى بغدادى رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ ان کا جب انتقال ہوگىا تو کسى نے خواب مىں پوچھا: ”مَا فَعَلَ اللہُ بِکَ“ یعنی اللہ پاک نے آپ کے ساتھ کىا سلو ک فرمایا؟ انہوں نے جواب دیا: مىں سوچتاتھاکہ مىں نے ىہ عمل کىا ہے، وہ عمل کىا ہے، بڑ ى محنتىں کرکے نىکىاں کى ہىں، دىکھو اب کس نىکى سے کام بنتا ہے! تو وہ نىکىاں مجھے کام نہ آسکىں، البتہ اىک نىکى کے بدلے مىرا کام بن گىا اور اللہ پاک نے مىرى مغفرت کردى۔ وہ نىکى ىہ تھی کہ اىک بار سخت سردى کے وقت مىں نے اىک بلى کو سردى سے کانپتے ہوئے دىکھا، تو مىں نے اپنے لباس مىں اس کو چھپا لىا تاکہ اس کو سردى نہ لگے، اللہ پاک کو مىرى ىہ ادا پسند آگئى اور مىرى مغفرت فرمادى۔( ) تو ىوں بسا اوقات جانوروں پر شفقت، مغفرت کا ذرىعہ بن جاتا ہے۔ جىسے امام غزالى رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ کا واقعہ ہے کہ ”انتقال کے بعد کسى نے خواب مىں دىکھ کر پوچھا: آپ کے ساتھ کىا معاملہ ہوا؟ فرماىا: اىک بار مىں لکھ رہاتھا تو ایک مکھی میرے قلم کى نب پر بىٹھ کر انک چوسنے لگى، تو مىں لکھنے کا کام موقوف کر کے انتظار کرنے لگا کہ اگر ىہ اپنی پىاس بجھا لے تو خود ہى اڑ جائے گى۔میرے اس عمل کے سبب اللہ پاک نے مىرى بخشش کردى۔“( )
اسی طرح کىڑىوں پر بھى رحم کرنے کے حوالے سے رسالہ قشیریہ میں ایک بڑا ایمان افروز واقعہ ذکر کیا گیا ہے کہ ”جواں مردوں کی ایک جماعت ایک شخص کی ملاقات کے لئے آئی جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بھی جواں مرد ہے۔ اس نے کہا: اے لڑکے! دستر خوان لاؤ۔ لیکن وہ نہ لایا۔ اس شخص نے دوسری اور تیسری بار کہا۔ ان لوگوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہنے لگے : یہ جواں مردی نہیں ہے کہ یہ شخص اس سے خدمت لے جس نے دستر خوان لانے میں بار بار اس کی نافرمانی کی۔ اس شخص نے پوچھا: تم نے دسترخوان لانے میں کیوں تاخیر کی ؟ لڑکے نے کہا: اس دسترخوان پر چونٹیاں تھیں اور یہ بات ادب سے نہیں ہے کہ جواں مردوں کے سامنے ایسا دستر خوان لایا جائے جس پر چونٹیاں ہوں اور دستر خوان سے چونٹیوں کو پھینکنا جواں مردی کے خلاف ہے، لہٰذا میں نے انتظار کیا حتی کہ چونٹیاں چلی گئیں۔ ان حضرات نے کہا: اے نو جوان! تم نے بہت باریک بات کی ہے۔ جواں مردوں کا خدمت گار تمہاری طرح ہونا چاہیے۔“( ) اللہ کرىم ہمىں بھى جانوروں پرشفقت کرنا نصىب کرے۔ یاد رکھیں! جانوروں پر ظلم کرنا مسلمان پر ظلم کرنے سے زیادہ سخت ہے، کیونکہ مسلمان انتقام لے سکتا ہے، عدالت مىں معاملہ لے جاسکتا ہے، لىکن بے زبان جانور کس کو فرىاد کرے گا! کس کے پاس اپنا معاملہ لے کر جائے گا!!
سُوال: مُسافِر کس وقت نمازِ قصر ادا کرے گا؟ (سید راشد علی)
جواب: شرعی سفر یعنی کسی جگہ 92 کلو میٹر دور کا سفر کرے اور وہاں 15 دن سے کم ٹھہرنے کا ارادہ ہو تو سفر کرتے ہوئے جیسے ہی اپنے شہر کی آبادی سے نکلے گا مسافر ہوجائے گا، اس کے بعد نمازِ قصر اداکرسکتا ہے۔ ( )
سُوال: حدیثِ مبارکہ میں سورۂ ملک پڑھنے کی فضیلت آئی ہے، کیا وہ فضیلت سننے سے بھی حاصل ہوجائے گی؟
(مبلغ دعوت اسلامی محمد اشفاق عطاری مدنی)
جواب:حدیثِ مبارکہ میں سورۂ ملک پڑھنے کا تذکرہ آیا ہے( ) اس لئے اپنی طرف سے قیاس کرکے سننے پر بھی فضیلت حاصل ہوجانے کا نہیں کہاجاسکتا۔ البتہ اسلامی بھائیوں، طلبۂ کرام اور دیگر کے لئے یہ اجازت ہے کہ اگر سورۂ ملک سن لیں تو وہ ’’نیک اعمال‘‘ کے رسالے میں خانہ پُر کرسکتے ہیں۔
سُوال: قیامت کے دن کیا حساب ہوگا؟ نیز اگر کوئی قیامت کے حساب کا انکار کرے تو اُس کے بارے میں شرعی حکم بیان فرمادیجئے۔
جواب:قیامت کا حساب حق ہے، بروزِ قیامت اعمال کا حساب ہوگا۔ اگر کوئی روزِ قیامت ہونے والے حساب سے انکار کرے تو وہ کافر ہے۔( )
سُوال: جتنے بھی آمد ورفت کے ذرائع استعمال کئے جاتے ہیں ان میں سے ہر ایک کی اپنی اہمیت ہوتی ہے، لیکن سب سے محفوظ، آرام دہ اور سستا سفر ٹرین کا سفر سمجھا جاتا ہے۔ اس وقت دنیا کی سب سے تیز ٹرین کی رفتار 600 کلومیٹر فی گھنٹا ریکارڈ کی گئی ہے۔ بہر حال کوئی بھی سفر ہو اپنی روٹین ایڈجسٹ کرنی پڑتی ہے، آپ یہ ارشاد فرمائیں کہ سفر کے دوران کیا کیا احتیاطیں کرنی چاہئیں؟ نیزآپ نے کئی مرتبہ ٹرین کا سفر کیا ہوگا اگر ٹرین کے سفر میں کوئی ایسا واقعہ پیش آیا ہو جو آپ کا یادگار ہو تو وہ بھی ارشاد فرمائیں۔ (محمد ثوبان عطاری کا سُوال)
جواب: سفر کرنے سے پہلے اچھی اچھی نیتیں کرلیں، سفر کی دعا پڑھیں، احتیاطی توبہ اور تجدیدِ ایمان کریں۔ اگر تین افراد سفر کر رہے ہوں تو سنّت ہے کہ کسی ایک کو امیر بنالیں،( ) نیز جب کسی کو امیر بنالیں تو اُس کی اِطاعت بھی کریں اور امیر کو بھی چاہیے کہ وہ خدمت کرے ایسا نہ ہو کہ امیر ہونے کی وجہ سے خدمتیں لیتا رہے۔ دعوتِ اسلامی کے شروع میں جب ہمارے قافلے ٹرین میں سفر کیا کرتے تھے تو اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میری یہ ترکیب ہوتی تھی کہ اگر سیٹ پر جگہ ملتی تو بھی سب سے آخر میں بیٹھتا تھا، ورنہ نیچے بیٹھ جاتا یا کھڑا رہتا تھا۔ اسی طرح بس کے سفر میں بھی یوں ہی کیا کرتا تھا۔ اگر کبھی امیر ِقافلہ مجھے پہلے بیٹھنے کا کہتے تو میں بطورِ تَفَنُّن کہتا کہ ”اگر چہ اِس وقت تم امیر ہو لیکن میری اَمارت ختم تو نہیں ہوگئی۔“ ہوسکتا ہے کہ آپ کو یقین نہ آئے لیکن کئی بار ایسا ہوا کہ سفر سے واپسی پر میں شرکائے قافلہ میں سے ہر ایک کے پاؤں پکڑ کر مُعافی مانگا کرتا تھا کہ ”آپ لوگوں نے میرے ساتھ سفر کیا اور میں نے آپ کی کوئی خدمت نہیں کی، میری کوتاہیاں اور غلطیاں مُعاف کردیں۔“ تو بعض اسلامی بھائی رونے لگ جاتےتھے۔ اس طرح محبتوں بھرے ہمارے سفر ہوا کرتے تھے۔ اب خدا جانے ہمارے امیر ِقافلہ ایسا کرتے ہوں گے یا نہیں! لیکن اگر کسی کے دل میں جگہ بنانی ہے تو اُس کا طریقہ یہ نہیں ہوگا کہ آپ امیرہوں تو سب سے پہلے سیٹ پر بیٹھ جائیں اوربے چارہ آپ کا مامور کھڑا رہ جائے، بلکہ دل میں جگہ بنانے کے لئے یوں ہو کہ آپ کھڑے ہوں اور آپ کا ماتحت مِنتیں کررہا ہو کہ آپ بیٹھیں، تو مزہ آئےگا۔ تمام اراکینِ شُوریٰ اور سارے چھوٹے بڑے ذمّہ دار اگر میرے اِس انداز کو اپنائیں گے تو اِنْ شَآءَ اللّٰہ دعوتِ اسلامی کا یہ سفر جانبِ مدینہ جاری وساری رہے گا۔ سفر کے دوران نمازکی پابندی کا خاص خیال رکھیں۔ آج کل تو لوگ ہول سیل میں نمازیں قضا کررہے ہوتے ہیں، پڑے پڑے سوجاتے ہیں انہیں نمازوں کا ہوش بھی نہیں رہتا۔ اِس لئے جب بھی ٹرین میں سوئیں توکچی نیند سوئیں اور نمازوں کے اوقات میں نہ سوئیں۔ میں نے اپنی زندگی میں سینکڑوں بار سفر کیا ہے ، مجھے یاد نہیں ہے کہ کبھی ٹرین میں نیند یا غفلت کی وجہ سے میری کوئی نماز قضا ہوئی ہو۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ دعوتِ اسلامی کے پہلے سے ہی میرا نمازوں کا ذوق رہا ہے۔ اگر نماز نہیں تو ہم کس کام کے!! ہم ساری دنیا میں تو سنتوں کی دھومیں مچائیں اور ہر کسی کو نماز کی صف میں لگائیں، لیکن ہم خود اپنی نمازیں فرض ہوتے ہوئے قضا کرتے رہیں تو کیسے چلے گا!! اس لئے ہمیں ہر وقت نماز کا خیال رکھنا چاہیے۔ ٹرین میں سفر کریں یا کسی بھی سواری میں سفرکریں تو سونے جاگنے میں احتیاط کرنی چاہیے اور ہر وقت وضو تیار رکھنا چاہیے۔
ٹرین میں سفر کے دوران کئی یادگار واقعات پیش آئے ہیں لیکن اب چونکہ نماز کی بات چل رہی ہے تو اِسی مناسبت سے ایک واقعہ بیان کرتا ہوں: ”ایک مرتبہ ہم ضِلع رَحیم یار خان کی طرف مدنی قافلے میں سفر کر رہے تھے ، کسی چھوٹے سے اسٹیشن پر ٹرین رُکی تو نماز کا وقت ہوگیا تھا ،ہم سب کا وُضو تیار تھا تو ہم نے جماعت کے ساتھ نماز شروع کردی، ابھی نماز کی ایک رکعت ہی پڑھی ہوگی کہ سیٹی بج گئی اور کسی نے آواز بھی دے دی کہ ٹرین چل پڑی ہے، اب ایسے موقع پر نماز توڑسکتے تھے اس لئے ہم نماز توڑ کر ٹرین کی طرف بھاگے، تو ہماری بوگی کا ایک لڑکا جس کی ابھی داڑھی بھی نہیں نکلی تھی، کپڑے بالکل سادہ تھے،بالکل کھویا کھویا سا تھا اور کسی سے کوئی بات چیت نہیں کر رہا تھا، وہ غصے میں آگیا اور مجھے جھاڑتے ہوئے بولا کہ نماز پڑھ! نماز پڑھ! اس کا یہ کہنا تھا کہ ٹرین جو چلنا شروع ہوگئی تھی وہ رک گئی، جبکہ وہ لڑکا اپنی بینچ پر ہی بیٹھا رہا۔ ہم نے باجماعت نماز پڑھی اور جب ہم نماز پڑھ کر ٹرین میں آئے تب جا کر ٹرین چلی اور وہ لڑکا اسی طرح بیٹھا رہا اور ادھر ادھر فضا میں گھورتا رہا۔ مجھے ایسا لگا جیسے وہ لڑکا کوئی مجذوب ہو اور اس نے ہمیں نماز پڑھادی۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سے واقعات ہیں کیونکہ سفر میں واقعات تو ہوتے رہتے ہیں۔