my page 1
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Ameer e Ahle Sunnat Se Jhoot Ke Baray Mein 24 Sawal Jawab | امیرِ اہلِ سنّت سے جھوٹ کےبارے میں 24 سوال جواب

    book_icon
    امیرِ اہلِ سنّت سے جھوٹ کےبارے میں 24 سوال جواب
                
    اَلْحَمْدُ للہ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النّبِیٖن ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِ اللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط

    امیرِ اہلِ سنّت سےجھوٹ کے بارے میں24 سوال جواب

    دُعائے خلیفۂ امیرِ اہلِ سُنّت: یاربَّ المصطفٰے ! جوکوئی17صفحات کا رسالہ’’امیرِ اہلِ سنّت سے جھوٹ کے بارے میں 24سوال جواب‘‘پڑھ یاسُن لے اُسےہمیشہ سچ بولنے اور جھوٹ سے بچنے کی توفیق عطا فرما اوراُسے بے حساب بخش دے۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّٖن صلّی اللہ علیهِ واٰلهٖ وسلّم

    دُرُود شریف کی فضیلت

    حضرتِ شیخ ابو بکر شبلی رحمۃُ اللہ علیہ ایک روز بغد ادِمعلّٰی کے جَیِّد عالِم حضرتِ ابو بکر بِن مُجاہد رحمۃُ اللہ علیہ کے پاس تشریف لائے، انہوں نے فوراً کھڑے ہو کر اُن کو گلے لگا لیا اور پیشانی چوم کر بڑی تعظیم کے ساتھ اپنے پاس بٹھایا۔ حاضرین نے عرض کیا: یا سیِّدی! آپ اور اہلِ بغداد آج تک اِ نہیں دیوانہ کہتے رہے ہیں مگر آج ان کی اِس قَدَر تعظیم کیوں ؟ جواب دیا: میں نے یوں ہی ایسا نہیں کیا، اَلحمدُ لِلّٰہ ! آج رات میں نے خواب میں یہ ایمان افروز منظر دیکھا کہ حضرتِ ابو بکرشبلی بارگاہِ رسالت میں حاضِر ہوئے تو سرکار ِدو عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ و سلم نے کھڑے ہوکر ان کو سینے سے لگا لیا اور پیشانی کو بوسہ دے کر اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔ میں نے عرض کی: یَارَسُولَ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! شبلی پر اِس قَدَر شفقت کی وجہ؟ اللہ پاک کے مَحبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے (غیب کی خبر دیتے ہوئے) فرمایا کہ یہ ہر نَماز کے بعد یہ آیت پڑھتا ہے: (لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)) (پ11، التوبہ: 128) اوراس کے بعد مجھ پر دُرُود پڑھتا ہے۔ (القول البد یع ،ص346) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد سوال:کسی کے اچانک اِنتقال پر اس کے قریبی رِشتہ دار کو بُلانے کے لیے کہا جاتا ہے کہ ”بہت بیما ر ہے، آپ جلدی گھر آجائیں“ حالانکہ جس کو بیمار بتایا جا رہا ہوتا ہے اس کا اِنتقال ہو چکا ہوتا ہے ،یہ اس لیے بولا جاتا ہے تاکہ قریبی عزیز کو تکلیف نہ ہو،ایسا کرنا کیسا؟ جواب:یہ جھوٹ ہے لہٰذا اِس طرح کہنے سے اِحتیاط کرنی چاہیے۔اِس کی جگہ یوں کہہ دیا جائے کہ ایمرجنسی ہے جلدی آجائیں۔اب ایمرجنسی میں سخت بیماری بھی آجائے گی اور فوتگی بھی شامل ہوگی۔یہ ایک مُحْتاط جُملہ ہے مگر لوگ سمجھتے نہیں اور خواہ مخواہ گناہوں بھرے اُلٹے سیدھے جُملے بول دیتے ہیں حالانکہ ان کا Alternate(یعنی مُتَبادِل) موجود ہوتا ہے لیکن اس کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے۔ اللہ پاک سے ڈرنا چاہیے۔ آج کسی اور کی موت کی خبر دے رہے ہیں کل ہماری موت کی خبر بھی عام ہوجائے گی،مَرنا تو سب نے ہے کسی کو موت سے فَرار نہیں ہے لہٰذا ہمیشہ سچ بولنا چاہیے۔ (ملفوظات امیراہل سنت،2/244) سوال:آج کل ہم یہ دىکھتے ہىں کہ لوگ بات بات پر جھوٹ بول رہے ہوتے ہىں اور مُعاشرے میں جھوٹ کو بہت معمولی سمجھا جانے لگا ہے بلکہ بعض لوگ جھوٹ بولنے کو اچھا سمجھتے ہىں تو اِس حوالے سے آپ کچھ راہ نمائى فرما دیجیے تاکہ ہمارے معاشرے میں جھوٹ کى بُرائى ختم ہو جائے۔ جواب:واقعى مُعاشرے میں جھوٹ بہت زىادہ عام ہے اور بات بات پر جھوٹ بولا جاتا ہے، مثلاً لوگ تجارت مىں جھوٹ بولتے ہىں،ملازمت مىں جھوٹ بولتے ہىں، مُلازِم رکھنا ہے تو جھوٹ بولتے ہىں، اگر کسی نے مُلازِم رہنا ہے تو وہ جھوٹ بولے گا ، خرىدارى کرنی ہے تو جھوٹ بولىں گے اور مذاق مىں بھی جھوٹ بولىں گے تو یوں قدم قدم پر جھوٹ بولا جا رہا ہے۔ بعض جھوٹ اىسے ہوتے ہىں جن کا خود کو پتا چل جاتا ہے کہ مىں جھوٹ بول رہا ہوں اور بعض اوقات بالکل توجہ نہىں ہوتى اور بندہ جھوٹ بول رہا ہوتا ہے جىسے کسی کی طبىعت بہت خراب ہے تو اب اگر اس سے پوچھىں گے کہ کىا حال ہے؟ طبىعت کیسی ہے؟ تو وہ بولے گا :ٹھىک ہوں ۔ اب اگر ا س کى توجہ اپنے مَرض کى طرف بھی ہے کہ مىں ٹھىک نہىں ہوں،بىمار پڑا ہوں اور بخار مىں تَپ رہا ہوں اور پھر بھی وہ ”ٹھىک ہوں “کہہ رہا ہے تو ىہ جھوٹ ہے۔ ىہاں تک کہ اگر اس نے اس ذہن سے ” اَلحمدُ لِلّٰہ “کہا کہ میں ٹھىک ہوں جیسا کہ لوگ ”ٹھیک ہوں “کے معنیٰ میں بھی” اَلحمدُ لِلّٰہ “کہتے ہىں تو اب ىہ بھى جھوٹ ہے ۔جب بندہ بىمار ہوتا ہے تو لوگ پوچھتے ہىں :کىا حال ہے؟ اب پوچھنے والے بھى رَسمى پوچھ رہے ہوتے ہىں ورنہ اگر مَریض ایسوں کے سامنے اپنى بىماری کی فائل کھولے تو وہ اس کے مُتَحَمِّل نہىں ہوں گے اور اسے برداشت نہیں کریں گے۔ ایسے موقع پر مریض کی توجہ اللہ پاک کى نِعْمتوں کى طرف ہو مثلاً مىں مسلمان ہوں تو اب وہ حال پوچھے جانے پر اپنے مسلمان ہونے کے تَصَوُّر سے” اَلحمدُ لِلّٰہ “کہے تو بچت ہو جائے گی ورنہ ”ٹھىک ہوں “ کے معنیٰ میں”اَلحمدُ لِلّٰہ“ کہے گا تو ىہ جھوٹ قرار پائے گا۔ اِسى طرح تاجر اپنے مال کى تعرىف مىں پتا نہىں کىا کىا بول رہا ہوتا ہے اور بعض اوقات تو مال بیچنے کے لیے صرىح یعنی کُھلے جھوٹ بول رہا ہوتا ہے، مثلاً اتنے میں تو مجھے وارا نہیں کھاتا (یعنی بچت نہیں ہوتی)، اتنے میں تو مجھے پڑا نہیں ہے اور اتنے مىں تو مىرى خرىد بھى نہىں ہے، پھر وہ گاہَک کو ”خرىد بھاؤ“بلکہ بعض اوقات تو ”خرید بھاؤ“(جس ریٹ میں خریدی)سے کم میں بھی دے دىتا ہے حالانکہ خرىد بھاؤ کچھ اور ہوتا ہے مگر وہ اسے خرىد بھاؤ بتا کر جھوٹ بول رہا ہوتا ہے ۔ یونہی اگر کوئى دُکان پر رىز گارى (کُھلے پیسے)لىنے آىا تو جھوٹ بولىں گے کہ نہىں ہے حالانکہ رىز گارى کا ڈھىر لگا ہوتا ہے ۔اس مُعامَلے میں تاجر ىہ بھى بول سکتے ہىں کہ ہمیں خود اس کى ضرورت پڑے گى مگر چونکہ اِس طرح کہنے سے اگلا بحث کرے گا کہ میرے کو دے دو، مجھے بہت ضرورت ہے تو اس لىے جھوٹ بول کر ٹال دىتے ہىں۔ یاد رہے! جھوٹ بولنے کا عذاب برداشت نہىں ہو پائے گا لہٰذا جھوٹ نہ بولیں اور اگر سامنے والا بحث کرے تو آپ اسے اس طرح سمجھا سکتے ہىں کہ اگر مىں بول دىتا کہ ریزگاری(کُھلے پیسے) نہىں ہے تو آپ مجھ سے نہ اُلجھتے لیکن مىں نے جھوٹ سے بچنے کے لىے آپ کو سچ بتا دىا کہ رىزگارى ہے مگر میرے پاس بھی گاہک آتے ہىں اور بڑا نوٹ دىتے ہىں تو کُھلے پیسوں کی مجھے بھی ضرورت ہوتى ہے، اس لىے مىں نے رکھے ہوئے ہیں تو سچ بولنے پر آپ مجھ سے اُلجھ رہے ہىں۔ بہرحال لوگ بات بات پر جھوٹ بولتے ہىں جیسا کہ کہیں پہنچنے میں دیر ہوگئى تو جب پوچھا جائےگا کہ کىوں دىر ہوگئى ؟تو اس کا بھى کوئى نہ کوئى بہانہ تلاش لىں گے کہ فُلاں مل گیا تھا یا پىٹ مىں درد ہوگىا تھا وغیرہ حالانکہ لىٹ ہونے کى وجہ پىٹ مىں دَرد ہونا نہىں تھا کیونکہ پیٹ میں درد ہوتے ہوئے قدم کس طرح چلتے رہے ؟ بلکہ لىٹ ىوں ہوئے کہ گھر سے نکلے ہى دیر سے تھے ۔بعض اوقات لیٹ ہونے پر یہ بھی کہہ دیا جاتا ہے کہ ٹرىفک مىں پھنس گىا تھا اس لیے لیٹ ہوا حالانکہ آپ جب گھر سے نکلے تھے تب ہى لىٹ ہوگئے تھے اور ٹریفک میں پھنس کر مزید لیٹ ہوگئے تو یوں آپ ٹرىفک مىں پھنسنے کى وجہ سے لىٹ نہىں ہوئے بلکہ گھر سے لیٹ نکلنے کی وجہ سے لیٹ ہوئے۔ یاد رکھیے! جس کو جلدى پہنچنا ہوتا ہے وہ گھر سے جلدى نکلتا ہے لىکن دِىنى کام مىں خاص طور پر بندہ لىٹ ہو ہی جاتا ہے ۔اگر کوئی اِجتماع یا مَدَنى مذاکرے میں لیٹ پہنچتا ہے تو وہ بھی ٹرىفک مىں پھنسنے کا بہانہ بناتا ہے تو یوں بعض اوقات نىک کاموں مىں بھى بندہ جھوٹ بول رہا ہوتا ہے، اللہ کریم ہمىں جھوٹ سے بچائے اور سچے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کى پىروى کرتے ہوئے ہمیشہ سچ بولنے کى سعادت بخشے۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّٖن صلّی اللہ علیهِ واٰلهٖ وسلّم (ملفوظات امیر اہل سنت،3/60تا 62 ) سوال:جھوٹ بولنے کے حوالے سے ہمارے مُعاشرے میں بہت ساری چیزیں رائج ہیں اور لوگوں میں ان کا ذِکر بھی ہوتا ہے، مثلاً ”یہاں تو جھوٹ بولنے کی اِجازت ہے“وغیرہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ ایک بہت وَسیع موضوع ہے، جس طرح غیبت کے حوالے سے بہت ساری وضاحتیں بیان کی گئیں اسی طرح جھوٹ کے مُتَعلِّق بھی بھر پور عِلم ہونا ضروری ہے، جیسے آپ فرماتے ہیں کہ میں اِس بارے میں فیصلہ نہیں کر پاتا کہ ہمارے یہاں جھوٹ زیادہ ہے یا غیبت ؟ جواب:ایسا لگتا ہے کہ جھوٹ زیادہ ہے، جھوٹ بولتے ہوئے پتا ہی نہیں چلتا کہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ ایک مرتبہ ہم کسی مریض کو دیکھنے گئے وہ مریض آزمائش میں لگ رہا تھا ہم نے اُس سے ہَمْدَرْدی کی تو اس کے پاس موجود اس کے عزیز نے کہا کہ ان کو کوئی مسئلہ نہیں ہے یہ صحیح ہیں۔ ان کا یہ جملہ جھوٹ تھا، اگر انہیں عِلم نہیں تھا کہ کیسی طبیعت ہے تو الگ بات ہے لیکن معلوم ہونے کے باوجود کہنا کہ ٹھیک ہے یہ جھوٹ ہوگا۔ آج کل مریض کے بارے میں اِس طرح بول دیا جاتا ہے حالانکہ مریض شدید تکلیف میں ہوتا ہے تو اس موقع پر طبیعت ٹھیک ہے کہنا، جھوٹ ہو گا۔ یوں ہی اگر کوئی سخت بات کرنے کے بعد کہے کہ آپ کو میری بات بُری تو نہیں لگی؟ سامنے والا کہتا ہے: نہیں نہیں، کوئی بات بُری نہیں لگی، حالانکہ اس کو وہ بات بہت بُری لگی ہوتی ہے اس کی وجہ سے وہ اندر ہی اندر کَٹ چکا ہوتا ہے لیکن جھوٹ بول دیتا ہے کہ کچھ نہیں ہوا۔جھوٹ میں کافی باتیں آجاتی ہیں بس اِنسان کو اپنی زبان سنبھالنی چاہیے، سوال کرنے والے تو سوال کریں گے مگر انہیں جواب دینے میں جھوٹ شامل نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح کوئی پریشان ہو اور دوسرا اس سے پوچھے کہ کیا بات ہے آپ پریشان لگ رہے ہیں؟ وہ آگے سے اِنکار کردے کہ کوئی پریشانی نہیں ہے تو یہ اس نے جھوٹ بولا۔ پریشانی بتادینے میں کیا حَرج ہے؟ (ملفوظات امیر اہل سنت، 3/318) سوال: جھوٹ بولنے اور بہانہ بنانے میں کیا فرق ہے ؟ جواب:جھوٹ ،سچ کا اُلٹ ہے جبکہ بہانے بعض اوقات دُرُست بھی ہوتے ہیں اور بعض اوقات غلط بھی ۔ ( امیرِ اہلِ سنَّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کے قریب بیٹھے ہوئے مفتی صاحب نے فرمایا : ) جو بات واقع کے خلاف ہوگی اُسے جھوٹ بولا جائے گا جبکہ بہانوں میں دونوں باتیں ہو سکتی ہیں ۔ (ملفوظات امیر اہل سنت،3/238) سوال: جھوٹی تعریف کرنا کیسا؟ جواب: اگر مَسْکا لگانے(خوشامد) کے لئے کسی کی تعریف کی کہ ’’آج آپ بہت اچھے لگ رہے ہو‘‘ تو یہ جھوٹ اور گناہ ہوگا۔ بہرحال! ہمیں مسلمان سے حُسنِ ظن رکھنا چاہئے (الحدیقۃ الندیۃ، 3/174) کہ ہم اُسے اچھے لگ رہے ہوں گے جبھی وہ ایسا کہہ رہا ہے۔ (ملفوظات امیر اہل سنت،3/307) سوال: کىا جِنَّات بھى جُھوٹ بولتے ہىں؟ جواب: سب سے پہلے جھوٹ اىک جنّ نے ہى بولا تھا اور وہ جنّ ” اِبلىس“ ہے جسے ہم شیطان کہتے ہیں۔شیطان دراصل جن ہے۔ ( پ15، الکہف:50۔ مراٰۃ المناجیح، 6/661) بعض لوگ اِسے فرشتہ کہتے ہیں جو دُرُست نہیں ہے۔ ابلیس کا اصل نام ’’ عَزازِىل“ہے۔ ( تفسیر طبری، پ1، البقرة، تحت الآیۃ:34،1/262، حدیث:686)(ملفوظات امیر اہل سنّت، 10/52) سوال :کیا جھوٹ بولنے سے وُضو ٹوٹ جاتا ہے؟ جواب:جھوٹ بولنے سے وُضو نہىں ٹوٹتا لیکن بہتر ہے کہ دوبارہ وُضو کرلیا جائے۔ (بحر الرائق، 1/34)۔ (ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت ، 2/ 101) سوال:کیا بچوں کو سبق آموز جھوٹی کہانیاں بنا کر سُنا سکتے ہیں؟ جواب:ایسا جھوٹ جس کا سب کو پتا ہو اور جو سُنے وہ سمجھ جائے کہ یہ جھوٹ ہے، اس میں کوئی حَرج نہیں۔(احیاء العلوم، 2/419۔ احیاء العلوم مترجم، 2/120)جیسے بلّی نے بندر کو یوں کہا وغیرہ۔ ظاہر ہے سننے والے سمجھتے ہیں کہ یہ جھوٹ ہے، پھر بندر نے بِلّی کو کہا بھی تو سمجھا کس نے؟ لیکن یہ اس وقت دُرُست ہے جب کوئی ضَرورت ہو ورنہ فضول بات ہے۔ (ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت،3/271) سوال: کوئی شخص اکثر جھوٹ بولتا ہو تو اس کی سچی بات بھی جھوٹ لگتی ہے، کیا اس کو بد گُمانی کہا جائے گا؟ جواب: کثرت سے جھوٹ بولنے والا شخص کبھی سچی بات بھی کر دیتا ہے، لیکن یہ فطری چیزہے کہ ایسے شخص کی سچی بات پر بھی یقین نہیں آتا۔ بہر حال اس کو بد گُمانی نہیں کہا جائے گا۔ ( تفسیر قرطبی،پ26،الحجرات، تحت الآیۃ:12،8/238 ماخوذاً)(ملفوظات امیر اہل سنت، 8/29) سوال: کوئی کسی سے کہے کہ ”لوگوں نے آپ کو سلام کہا ہے“ حالانکہ ہر فرد نے نہیں کہا ہوتا تو کیا یہ جھوٹ ہوگا؟ (1) جواب: اگر سب نے اسے اپنا وکیل بنایا ہے کہ ”ہمارا سَلام پہنچادو“ تو ٹھیک ہے، ورنہ درست نہیں۔ لوگ عموماً مجھے کہتے ہیں کہ ”ہمارے سب گھر والوں یا گاؤں والوں نے آپ کو سلام کہا ہے“ اگر واقعی سب نے وکیل بنایا ہو تو حرج نہیں ورنہ اپنی طرف سے اس طرح نہیں کہنا چاہیے۔(ملفوظات امیر اہل سنت، 8/202) سوال:بعض لوگوں نے اِس جملے کو اپنا تَکْیہ کلام (وہ لفظ جو گفتگو میں بار بار بولا جائے اسے تَکْیہ کلام کہتےہیں)بنا رکھا ہے: ”اگر میں جھوٹ بولوں تو مرتے وقت مجھے کلمہ نصیب نہ ہو“ایسا کہنا کیسا ہے؟ جواب: جملہ تو بہت خطرناک ہے اور بڑی جُرْأت مندی ہے۔ ایمان کی جیسے کوئی اَہمیت ہی نہیں ہے کہ جھوٹ بولوں تو ایمان پر خاتمہ ہی نہ ہو۔ ایسی بات تو کبھی خواب میں بھی نہیں بولنی چاہیے۔ اِس کے حکم میں تفصیل ہے،ایسا جملہ نہ بولا جائے۔ (ملفوظات امیر اہل سنت،3/214) سوال:اگر کسى اِنسان نے تىن مرتبہ جھوٹی بات پر قرآنِ پاک اُٹھاىا تو اس کا کىا گناہ ہے؟ جواب:قرآنِ کرىم کى قَسَم کھانا قَسَم ہے البتّہ صِرف قرآنِ کرىم اُٹھا کر ىا اس پر ہاتھ رکھ کر کوئى بات کرنا قسم نہىں فتاوىٰ رضوىہ جلد 13صفحہ 574 پر ہے :جھوٹى بات پر قرآنِ مجىد کى قسم اُٹھانا سخت عظیم گناہ ِکبىرہ ہے اور سچى بات پر قرآنِ عظىم کى قسم کھانے مىں حَرج نہىں اور ضَرورت ہو تو اُٹھا بھى سکتا ہے مگر ىہ قسم کو بہت سخت کرتا ہے۔ کسی خاص ضرورت کے بغیر نہیں اٹھانی چاہىے ۔ (ملفوظات امیر اہل سنت ،1/494) سوال:مذاق میں جھوٹ بولنا کیسا؟ جواب:مذاق میں جھوٹ بولنے سے متعلق چند رِوایات ملاحظہ کیجیے: سرکارِ عالی وقار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اِرشاد فرمایا:بندہ پورا مومن نہیں ہوتا جب تک مذاق میں بھی جھوٹ کو نہ چھوڑ دے اور جھگڑا کرنا نہ چھوڑ دے اگرچہ سچا ہو۔ (مسند امام احمد، 3/268، حدیث: 8638) نبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اِرشاد فرمایا: جو بات کرتا ہے اور لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے اس کے لیے ہلاکت ہے، اس کے لیے ہلاکت ہے یعنی بربادی اور تباہی ہے۔ (ترمذی، 4/141، حدیث: 2322) پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اِرشاد فرمایا: بندہ بات کرتا ہے اور مَحْض اس لیے کرتا ہے کہ لوگوں کو ہنسائے لیکن وہ اس کی وجہ سے جہنَّم کی اِتنی گِہرائی میں گِرتا ہے جو آسمان اور زمین کے درمیانی فاصلے سے بھی زیادہ ہے اور زبان سے جتنی لَغْزِش (غَلَطی) ہوتی ہے یہ اس لَغْزِش سے زیادہ ہے جو قدم سے ہوتی ہے۔ (کتاب الزہد لابن المبارک، 255، حدیث: 734) (ملفوظات امیر اہل سنت ، 3/289) سوال:کسی کو ہنسانے کے لیے مذاق میں جھوٹ، غیبت یا تہمت کا سہارا لے سکتے ہیں؟ جواب:جی نہیں! ایسا کرنا گناہ ہے۔آج کل جھوٹے چُٹکلے (مذاق)بہت چل رہے ہیں یہ سب گناہ ہیں۔ جیسے کامیڈین، لوگوں کو ہنساتے ہیں یا کتابوں اور اَخباروں میں ویسے ہی بے مقصد چُٹکلے لکھے ہوتے ہیں جن کا مقصد صِرف سامنے والے کو ہنسانا ہوتا ہے، یہ نہیں ہونے چاہئیں۔ رِوایت میں ہے:جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹی بات کرتا ہے تو وہ جہنَّم کی گہرائی میں گرتا ہے۔ (کتاب الزہد ، لابن المبارک، ص 255، حدیث: 734) البتّہ بعض جھوٹے چُٹکلے ایسے بھی ہوتے ہیں جن سے مقصود ہنسانا نہیں ہوتا بلکہ عِبْرت یا سبق آموز بات سمجھانا ہوتا ہے اور سُنانے والے کی نیت بھی یہی ہوتی ہے تو ان میں جواز کی گنجائش ہو گی۔ (ملفوظات امیر اہل سنت ،3/446) سوال:کیا دو دوستوں کے درمیان صلح کروانے کے لیے جھوٹ بول سکتے ہیں؟ جواب:لفظ صلح کے لام پر پیش نہیں ہے بلکہ یہ ساکن ہے یعنی صُلْح۔ جھوٹ بولنے کی صورت تو موجود ہے مگر جب تک بغیر جھوٹ بولے صُلْح ممکن ہو تو جھوٹ نہ بولا جائے ، ہر صورت میں جھوٹ بولنے کی اِجازت نہیں ہے۔ اگر سب راستے بند ہوگئے اور سچ بولیں گے تو صلح نہیں ہوگی تو اب جھوٹ کی گُنْجائش نکلے گی لیکن اب بھی اگر توریہ سے کام ہوسکتا ہے(توریہ کا مطلب ہے لفظ کا دوسرا کوئی دور کا معنیٰ مراد لینا) تو اسی سے کام چلائے صریح (واضح) جھوٹ نہ بولے۔( بہارِ شریعت ، 3/ 517، 518، حصہ:16 مفہوماً) یہ سب اِحتیاطیں وہی کرسکے گا جس کو عِلم ہوگا۔ (ملفوظات امیر اہل سنت ،3/317) سوال: ہم لوگ آپس میں بات کرتے ہوئے جھوٹ سچ کا خیال نہیں رکھتے، ایسی نصیحت فرمائیے کہ جھوٹ سے نفرت ہوجائےاور ہم کبھی جھوٹ نہ بولیں۔ جواب: جھوٹ واقعی بہت بُری چیز ہے۔جھوٹ حَرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔ہر مسلمان کو اِس سے بچنا چاہیے اور ہمیشہ سچ بولنا چاہیے۔ کہتے ہیں: ’’سانچ کو آنچ نہیں۔‘‘ اُمُّ المُؤمِنِیْن حضرتِ بی بی عائشہ صِدّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو جھوٹ سے زیادہ ناپسند کوئی چیز نہیں تھی، جب آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کسی کے جھوٹ پر آگاہ ہوتے اگرچہ وہ جھوٹ چھوٹا سا ہوتا تو اُس جھوٹ بولنے والے کو اپنے قَلْبِ اَطہر (یعنی مُبارَک دل) سے نکال دیتے یہاں تک کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم جان لیتے کہ اُس نے توبہ کرلی ہے۔ (مستدرک،5/133، حدیث: 7126 ) سرکارِ نامدار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو اُس کی بدبو سے فَرشتہ ایک میل دُور ہوجاتا ہے۔ (ترمذی، 3/392، حدیث: 1979) جھوٹ سے بچنے کے لئے جھوٹ بولنے کے عذابات اور سچ بولنے کے فضائل کی معلومات حاصل کیجئے اور اِس کے لئے بہارِ شریعت کے سولہویں حصّے میں موجود ’’جھوٹ کا بیان‘‘، نیز اِحیاءُ الْعُلُوم کی تیسری جِلد کا مطالعہ کیجئے، اِن میں جھوٹ کے متعلِّق کافی تفصیلات موجود ہیں، اِن شاءَ اللہ جھوٹ سے نفرت پیدا ہوگی۔ اللہ کریم ہم سب کو سچّے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے صدقے سچا بنادے۔ (ملفوظات امیر اہل سنت ،3/305) سوال: ہم مارکیٹ میں دُکان داری کرتے ہیں جہاں جھوٹ کی بہت زیادہ مُداخلت ہوتی ہے اِس سے بچنے کا کوئی طریقہ اِرشاد فرما دیجئے۔ جواب:جب روزہ رکھتے ہیں تو بھوک اور پیاس لگتی ہے مگر پھر بھی روزہ رکھ لیتے ہیں اور تَراویح پڑھنے کا پُخْتہ عَزم ہوتا ہے تو تَراویح پڑھنے میں بھی کامیاب ہو جاتے ہیں تو اِسی طرح جھوٹ سے بچنے کا پُخْتہ عَزم کر لیں تو اِس سے بھی بچ جائیں گے۔ جھوٹ بولنا چھوڑ دیں چاہے سچ بولنے سے کروڑوں روپے کا نقصان ہو رہا ہو یا سودا خراب ہو رہا ہو تو ہونے دیں ، کیا پتا کروڑوں روپے کا سودا طے ہوتے ہی ہارٹ فیل ہو جائے ، زندگی کا کوئی بھروسا نہیں ہے۔ اگر ہارٹ فیل نہ بھی ہو تو یہ کروڑ روپیہ کب تک کھا لیں گے؟ایسا پیسا دَواؤں میں چلا جاتا ہے، ڈاکوؤں کے پاس اور نہ جانے کہاں کہاں نکل جاتا ہے۔ بہرحال جھوٹ میں بَرکت نہیں بلکہ نُحُوست و بَربادی ہے اور جھوٹ بولنا جہنّم میں لے جانے والا کام ہے اِس لئے جھوٹ کو اپنی ڈکشنری سے نکال دیجیے۔ یاد رَکھئے! سچ بولنے والا ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے،ایک مُحاورہ ہے:”سانچ کو آنچ نہیں “ یعنی سچ کو کوئی ضَرر نہیں پہنچ سکتا۔ گاہک جاتا ہے تو چلا جائے کوئی بات نہیں، سچ بولتے رہنے سے آہِستہ آہِستہ امیج قائم ہو جائے گا، حتّٰی کہ ایک وقت ایسا آئے گا کہ لوگ بولیں گے کہ یار یہ دُکاندار سَچّاہے اور خود بخود آپ کی دُکان پر گاہَک بڑھنا شروع ہو جائیں گے پھر آپ جو بولیں گے گاہَک آنکھ بند کر کے مان لیں گے۔ حضرتِ عبدُ اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رِوایت ہے کہ رَسولُ اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کہ سچ بولنے والا اور امانت دار تاجر اَنبیا،صِدِّیقین اور شُہَدا کے ساتھ ہو گا۔( ابن ماجہ، 3/6، حدیث:2139) ( ملفوظات امیر اہل سنّت، 8/298) سوال: مىرا فرنىچر کا کام ہے۔ بعض دُکاندار ایسا کرتے ہیں کہ ہَلْکے مال کو بھارى اور بھارى مال کو ہَلْکا کہہ کر بىچ دیتے ہىں، ایسا کرنا کیسا؟ جواب: بعض چیزیں وزْن دار ہوں تو اُن کی اچّھی قیمت لگتی ہے جبکہ بعض چیزیں اگر ہَلْکی ہوں تو تب اُن کی قیمت اچّھی لگائی جاتی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی چیز کو ہلکا یا بھاری کہہ کر بیچ رہا ہے اور گاہَک کو معلوم ہے کہ کس چیز میں ہلکا یا بھاری کہہ رہا ہے نیز کوئی دھوکے کی صُورَت نہیں ہے اور دُکاندار جھوٹ بھی نہیں بول رہا تو ایسا کرنا صحیح ہے۔ البتّہ اگر وہ ہلکی چیز کو بھاری یا بھاری چیز کو ہلکی کہہ رہا ہے، یا گھٹیا Quality (یعنی مِعْیار)کی چیز کو اچّھی Quality کہہ کر بیچ رہا ہے اور جھوٹ و دھوکا دہی سے کام لے رہا ہے تو ایسا کرنا جائز نہیں ہے ( در مختار، 7/229) کیونکہ جب گاہک کو معلوم ہوگا کہ مجھ سے دُکاندار نے جھوٹ بولا ہے، دھوکا دیا ہے یا چیز کے عیب کو چُھپایا ہے تو وہ چیز ہی نہیں لے گا یا اگر لے گا تو دام کم کرے گا۔ جو دُکاندار جھوٹ یا دھوکا دہی سے کام لے گا وہ گُناہ گار ہوگا۔ (ملفوظات امیر اہل سنت، 9/242، 243) سوال:آج کل مارکىٹ مىں کسى بھى قسم کے دھوکے سےبچا نہىں جاتا ىہاں تک کہ پُرانے Spare Parts(یعنی پُرزوں)کو نىا اور لوکل کو Genuine Parts (یعنی اصل پُرزے)کہہ کر بىچ دىا جاتا ہے ، ایسا کرنا کیسا ہے ؟ جواب:اگر پُرانے Spare Parts کو نیا، گھٹیا کو اعلیٰ اور دوسرے مُلک کے Spare Parts کو اُس ملک کا کہہ کر بیچا کہ جس مُلک کا مشہور ہوتا ہے تو یہ سب دھوکا اور جھوٹ ہے اور ایساکرنا حرام اور جہنّم میں لے جانے والا کام ہے۔ البتّہ اگر بىچنے والے نے خریدنے والے پر یہ بات واضح کر دی ہو کہ میرے پاس نیا نہیں پُرانا Spare Parts ہے جسے لوگ نیا کرکے بیچتے ہیں اور یوں گاہک کو Spare Parts کی Condition(یعنی حالت) بتا دی تو اب خرید و فَروخت میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ (ملفوظات امیر اہل سنت ، 1/505) سوال: بزرگانِ دِین رحمۃُ اللہ علیہم کی تحریر کے معاملے میں کیا اِحتیاطیں تھی،اس بارے میں کچھ ارشاد فرما دیجئے؟ جواب: ہمارے بُزُرگانِ دِین رحمۃُ اللہ علیہم الفاظ کے اِستعمال میں بہت مُحْتاط ہوتے تھے چنانچہ اِحیاءُ العلوم کی تیسری جلد میں ہے:حضرت مَیْمون بن ابو شَبِیْب رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں بیٹھا خط لکھ رہا تھا کہ ایک حرف پر آکر رُک گیا کہ اگر یہ لفظ لکھ دیتا ہوں تو خط خوبصورت ہوجائے گا لیکن جھوٹ سے دامن نہیں بچا سکوں گا۔ پھر میں نے وہ لفظ چھوڑنے کا عزم کرلیا کہ بھلے میرا خط خوبصورت نہ ہو مگر میں یہ لفظ نہیں لکھوں گا تو مجھے گھر کے کونے سے ندا کی گئی جس میں قرآنِ کریم کی اِس آیت کی آواز تھی: (یُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِۚ-) (پ 13، ابراہیم: 27) ترجمہ کنزالایمان:” اللہ ثابت رکھتا ہے ایمان والوں کو حق بات پر دُنیا کی زندگی میں اور آخرت میں ۔“ (احیاء العلوم، 3/ 169) یہ تو ہمارے بزرگانِ دین رحمۃُ اللہ علیہم کی تحریر میں اِحتیاطیں تھی لیکن آج کل کے مَضامین اور آرٹیکل میں اتنا جھوٹ ہوتا ہے کہ زمین و آسمان کے قَلابے ملا دئیے جاتے ہیں۔(یعنی جھوٹی سچی باتیں لکھ دی جاتی ہیں) ایسا جھوٹ لکھنے سے بہتر ہے قلم رکھ دیں۔ گزشتہ زمانے میں مُعتَزِلہ نامی ایک بَدْمذہب فرقہ گزرا ہے، ان کا جاحِظْ نامی ایک بہت بڑا عالِم تھا، جب وہ مرگیا تو کسی نے اسے خواب میں دیکھ کر پوچھا کہ تیرے ساتھ کیا گزری ؟ تو اس نے کہا کہ اپنے قلم سے وہی لکھو جس کو دیکھ کر تم خوش ہو جاؤ۔ (احیاء العلوم، 5/ 266۔احیاء العلوم(مترجم)، 5/662) فی زمانہ قلم سے کیا کیا لکھ رہے ہوتے ہیں کچھ ہوش ہی نہیں ہوتا نیز اس واقعے سے سوشل میڈیا اور تحریری میسج پھیلانے والے عبرت حاصل کریں کہ اپنی زبان سے وہی کہیں جو آخرت میں چُھڑاسکے، ایک ایک حرف سنبھل سنبھل کر لکھیں اور بولیں لیکن یہاں تو اتنا مُبالغہ کر رہے ہوتے ہیں کہ بس۔
    1یہ سوال شعبہ ملفوظاتِ امیر ِاہل ِسنّت کا قائم کردہ ہے اور جواب امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کا عنایت کیا ہوا ہے۔

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن