Josh e Imani
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Josh e Imani | جوش ایمانی

    Madani Munne Ka Josh e Imani

    book_icon
    جوش ایمانی
    اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
    اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط  بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط

    جوش ایمانی

    غالباً آپ کو شیطٰن یہ رسالہ (24صَفحات) پورا نہیں پڑھنے دے گا
    مگر آپ کو شش کرکے پورا پڑھ کر شیطٰن کے وار کو ناکام بنا دیجئے۔ 

    دُرُود شریف کی فضیلت

              ’’سَعادَۃُ الدَّارَین‘‘  میں ہے،  حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم بن علی بن عَطِیَّہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں :  میں نے خواب میں جنا بِ رسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا دیدار کیاتو عرض کی: سرکار!   صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ آپ کی شَفاعت کا طلب گار ہوں ۔  سرکار  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا:اَکْثِرْ مِنَ الصَّلٰوۃِ عَلَیَّ یعنی’’ مجھ پر کثرت کے ساتھ دُرُود ِپاک پڑھا کرو۔  ‘‘ (سعادۃُ الدّارَین ص۱۳۷)   
    کعبے کے بدر الدُّجٰے تم پہ کروڑوں دُرُود
      طیبہ کے شمس الضُّحٰی تم پہ کروڑوں دُرُود  (حدائق بخشش شریف ص۲۶۴)  
    صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
         رات کا پچھلاپہر تھا ، سارے کا سارا مدینہ نُور میں ڈوبا ہوا تھا۔  اہلِ مدینہ رحمت کی چادر اوڑھے مَحوِ خواب تھے،  اتنے میں مُؤَذِّنِ رَسولُ اللّٰہ حضرتِ سیِّدُنابِلال حبشی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی پُر کیف صدا مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی گلیوں میں گونج اٹھی:’’ آج نَمازِ فجر کے بعد مجاہِدین کی فوج ایک عظیم مُہِم پر روانہ ہورہی ہے۔  مدینۂ منوَّرہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً کی مقدَّس بیبیاں اپنے شہزادوں کو جنَّت کا دولھا بنا کر فوراً دربارِ رسالت میں حاضِر ہوجائیں ۔ ‘‘ ایک بیوہ صحابیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا اپنے چھ سالہ یتیم شہزادے کو پہلو میں لٹائے سورہی تھیں ۔  حضرتِ سیِّدُنابِلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کا اعلان سن کر چونک پڑیں !  دل کا زخم ہرا ہوگیا،  یتیم بچّے کے والِدِ گرامی گُزَشتہ برس غزوئہ بدر میں شہید ہوچکے تھے۔  ایک بار پھر شَجرِ اسلام کی آبیاری کیلئے خون کی ضَرورت درپیش تھی مگر ان کے پاس چھ سالہ مَدَنی مُنّے کے علاوہ کوئی اور نہ تھا۔  سینے میں تھما ہوا طوفان آنکھوں کے ذَرِیعے اُمنڈ آیا۔  آہوں اور سسکیوں کی آواز سے مَدَنی مُنّے کی آنکھ کُھل گئی،  ماں کو روتا دیکھ کر بیقرار ہوکر کہنے لگا:ماں !  کیوں رو تی  ہو ؟  ماں مَدَنی مُنّے کو اپنے دل کا درد کس طرح سمجھاتی!  اس کے رونے کی آواز مزید تیز ہوگئی۔  ماں کی گِریہ و زاری کی تَأَثُّر سے مَدَنی مُنّا بھی رونے لگ گیا۔  ماں نے مَدَنی مُنّے کو بہلانا شروع کیا،  مگر وہ ماں کا درد جاننے کیلئے بَضِد تھا۔  آخِرکار ماں نے اپنے جذبات پر بکوشِش تمام قابوپاتے ہوئے کہا: بیٹا!  ابھی ابھی حضرتِ سیِّدُنابِلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے  اِعلان کیا ہے: مجاہِدین کی فوج میدان جنگ کی طرف روانہ ہو رہی ہے۔  آقائے نامدار  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے جاں نثار طلب فرمائے ہیں ۔  کتنی بخت بیدار ہیں وہ مائیں جو آج اپنے نوجوان شہزادوں کا نذرانہ لئے دربارِ رسالت میں حاضِر ہوکر اشکبار آنکھوں سے التجائیں کررہی ہوں گی: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!  ہم اپنے جگر پارے آپ کے قدموں پر نثار کرنے کیلئے لائی ہیں ،  آقا!  ہمارے ارمانوں کی حقیر قربانیاں قَبول فرمالیجئے،  سرکار!  عمر بھر کی محنت وُصُول ہوجائے گی۔ اتنا کہہ کر ماں ایکبار پھر رونے لگی اور بَھرّائی ہوئی آواز میں کہا: کاش!  میرے گھر میں بھی کوئی جوان بیٹا ہوتااور میں بھی اپنا نذرانۂ شوق لے کرآقا کی بارگاہ میں حاضِر ہوجاتی۔  مَدَنی مُنّاماں کو پھر روتا دیکھ کر مچل گیا اور اپنی ماں کوچُپ کرواتے ہوئے جوشِ ایمانی کے جذبے کے ساتھ کہنے لگا: میری پیاری ماں !  مَت رو،  مجھی کو پیش کردینا۔  ماں بولی : بیٹا!  تم ابھی کمسن ہو،  میدانِ کار زار میں دشمنانِ خونخوار سے پالا پڑتا ہے،  تم تلوار کی کاٹ برداشت نہیں کرسکو گے۔  مَدَنی مُنّے کی ضد کے سامنے بِالآخِر ماں کو ہتھیار ڈالنے ہی پڑے۔  نَمازِ فَجر کے بعد مسجدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام  کے باہَر میدان میں مُجاہِدین کا ہُجوم ہوگیا۔  ان سے فارِغ ہوکر سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   واپَس تشریف لا ہی رہے تھے کہ ایک پردہ پوش خاتون پر نظر پڑی جو اپنے چھ سالہ مَدَنی مُنّے کو لئے ایک طرف کھڑی تھی۔  شاہِ شیریں مَقا ل، صاحِبِ جُودونَوال، شَہَنشاہِ خوشخصال ،  محبوبِ ربّ ذوالجلال،  آقائے بِلال صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ِسیِّدُنا بِلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کو آمد کا سبب دریافت کرنے کیلئے بھیجا۔  سیِّدُنا بِلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے قریب جاکر نگاہیں جھکائے آنے کی وجہ دریافت کی۔  خاتون نے بَھرّائی ہوئی آواز میں جواب دیا: آج رات کے پچھلے پَہر آپ اِعلان کرتے ہوئے میرے غریب خانے کے قریب سے گزرے تھے،  اِعلان سُن کر میرا دل تڑپ اُٹھا۔  آہ!  میرے گھر میں کوئی نوجوان نہیں تھا جس کا نذرانۂ شوق لے کرحاضِر ہوتی فَقَط میری گود میں یِہی ایک چھ سالہ یتیم بچّہ ہے جس کے والِدگُزَشتہ سال غَزوئہ بدر میں جامِ شہادت نوش کرچکے ہیں میری زندگی بھرکی پونجی یہی ایک بچّہ ہے،  جسے سرکارِ عالی وقار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کے قدموں پر نثار کرنے کیلئے لائی ہوں۔  حضرتِ سیِّدُنا بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے پیار سے مَدَنی مُنّے کو گود میں اُٹھا لیا اور بارگاہِ رسالت میں پیش کرتے ہوئے سارا ماجرا عرض کیا۔  سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے مَدَنی مُنّے پر بَہُت شفقت فرمائی ۔  مگر کمسِنی کے سبب میدانِ جہاد میں جانے کی اجازت نہ دی۔  (ماخوذاز: زلف و زنجیر ص ۲۲۲ )   اللہ  عَزَّ وَجَلَّ  کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری         بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
    صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

    دنیا کیلئے تو وقت ہے مگر ۔ ۔ ۔

    میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے مَدَنی مُنّے کا جوشِ ایمانی!    اللّٰہ!   اللّٰہ!  پہلے کی مائیں اللہ و رسول عَزَّ وَجَلَّ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اور دینِ اسلام سے کس قَدَر والہانہ مَحَبَّت کرتی تھیں ۔  جو لوگ اپنے جگر پاروں کو بے وفا دنیا کی دولت کے حُصُول کی خاطِر اپنے شہر سے دوسرے شہر بلکہ دوسرے ملک تک میں اور وہ بھی برسوں کیلئے بھیجنے کیلئے تیّار ہو جاتے ہیں مگر اپنے ہی شہر میں ہونے والے دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں تھوڑی دیر کیلئے بھی جانے سے روک دیتے ہیں ،  سنّتوں کی تربیت کی خاطِر مَدَنی قافِلوں میں عاشقانِ رسول کے ہمراہ چند روز سفر کرنے سے مانِع ہوتے ہیں ،  ان کو اس ایمان افروزحِکایت سے درسِ عبرت حاصل کرنا چاہئے۔  آہ!  ہم تھوڑے سے وقت کی قربانی دینے سے بھی کتراتے ہیں اور ہمارے اَسلاف اپنا جان ومال سب کچھ راہِ خدا عَزَّ وَجَلَّ میں قربان کرنے کیلئے ہر پل تیّار رہتے تھے۔  
    تھے تو آبا وہ تمہارے ہی مگر تم کیا ہو
    ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فردا  ا؎  ہو
    صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

    چار شہیدوں کی ماں

       اُسْدُالْغَابَہ جلد7 صَفْحَہ 100 پر ہے: جنگِ قادِسِیہ (جو امیر المؤمنین حضرتِ سیِّدنا عمر فاروق اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے دورِ خلافت میں لڑی گئی تھی) میں حضرتِ سیِّدَتُنا خَنساء  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاچاروں شہزادوں سَمیت شریک ہوئی تھیں ۔  آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَانے جنگ سے ایک روز قبل اپنے چاروں شہزادوں کو اس طرح نصیحت فرمائی: ’’میرے پیارے بیٹو!  تم اپنی خوشی سے مسلمان ہوئے اور اپنی ہی خوشی سے تم نے ہجرت کی،  اس ذات کی قسم!  جس کے سوا کوئی معبود نہیں ،  تم ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہو،  میں نے تمہارے نَسَب کو خراب نہیں کیا،  تمہیں معلوم ہے کہ اللّٰہُ غفّار عَزَّ وَجَلَّ نے کُفّار سے مقابَلہ   (مُقا۔ بَ۔ لہ)   کرنے میں مجاہِدین کے لئے عظیمُ الشّان ثواب رکھا ہے۔  یاد رکھو!  آخِرت کی باقی رہنے والی زندگی دنیا کی فنا ہونے والی زندگی سے بَدَرَجہا بہتر ہے۔  سنو!  سنو!  قراٰنِ پاک کے پارہ4 سُوْرَۃُ اٰ لِ عِمْرٰن کی آیت نمبر 200 میں ارشاد ہوتاہے:  
    یٰۤاَیُّهَا  الَّذِیْنَ  اٰمَنُوا  اصْبِرُوْا  وَ  صَابِرُوْا  وَ  رَابِطُوْا وَ  اتَّقُوا  اللّٰهَ  لَعَلَّكُمْ  تُفْلِحُوْنَ۠   (۲۰۰)  
    ترجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو!  صبر کرو اور صبر میں دشمنوں سے آگے رہو اور سرحد پر اسلامی ملک کی نگہبانی کرو اوراللہ  سے ڈرتے رہو،  اس امّید پر کہ کامیاب ہو۔ 
      صُبح کو بڑی ہوشیاری کے ساتھ جنگ میں شرکت کرو اور دشمنوں کے مقابلے میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے مدد طلب کرتے ہوئے آگے بڑھو اور جب تم دیکھو کہ لڑائی زور پر آگئی اور اس کے شُعلے بھڑکنے لگے ہیں تو اس شعلہ زن آگ میں کود جانا،  کافِروں کے سردار کا مقابلہ کرنا،  اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ عزّت و اکرام کیساتھ جنّت میں رہو گے۔ ‘‘ جنگ میں حضرت سیِّدتُنا خنساء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے چاروں شہزادوں نے بڑھ چڑھ کرکُفّار کا مُقابَلہ کیا اور یکے بعد دیگرے جامِ شہادت نوش کرگئے۔  جب ان کی والِدۂ محترمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا  کو ان کی شہادت کی خبر پہنچی تو اُنہوں نے بجائے واوَیلا مچانے کے کہا:  اُس پیارے اللہ عَزَّ وَجَلَّ   کا شکر ہے جس نے مجھے چار شہید بیٹوں کی ماں بننے کا شَرَف عطا فرمایا۔  مجھے اللّٰہُ رَبُّ الْعِزَّت کی رحمت سے اُمّید ہے کہ میں بھی ان چاروں شہیدوں کے ساتھ جنت میں رہوں گی۔  (اُسْدُ الْغابَۃ فِی مَعْرِفَۃِ الصَّحابَۃ ج۷ ص۱۰۰ ۔ ۱۰۱)   
    غلامانِ محمد جان دینے سے نہیں ڈرتے
    یہ سر کٹ جائے یا رہ جائے کچھ پروا نہیں کرتے
     اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔     اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
    صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

    گُفتار کے غازی

          میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!  آخِر وہ کون سا جذبہ تھا جس نے ہر مرد و عورت بلکہ بچّے بچّے کو اسلام کا شیدائی بنادیا تھا۔   وہ کامِلُ الایمان مومِن تھے،  وہ جوشِ ایمانی کے جذبے سے  سرشار تھے اور آہ!  آج کا مسلمان اکثر کمزوریٔ ایمان کا شکار ہے۔   اُن کے پیشِ نظر ہر دم اللہ و رسول  عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی رضا ہوا کرتی تھی مگر ہائے افسوس!  آج کے مسلمانوں کی اکثریت کی اب اس طرف کوئی توجُّہ نہیں ۔  وہ اللہ و رسول  عَزَّ وَجَلَّ و صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی مَحَبَّت سے سرشارتھے اور وائے بدنصیبی!  آج کے مسلمانوں کی بھاری اکثریت دنیا کی مَحَبَّت میں مُستغرق (مُسْ۔  تغْ۔ رَق)  ہے۔  وہ اعلیٰ کردار کے مالک ہوا کرتے تھے مگر آج کے اکثر مسلمان فَقَط گُفتار (یعنی باتوں )   کے غازی بن کر رہ گئے ہیں ۔  آہ!  صد ہزار آہ!  ہم نے دنیا کی مَحَبَّت میں ڈوب کر،  رِضائے الٰہی کے کاموں سے دور ہو کر،  اپنی زندگیوں کو گناہوں سے آلود کر کے،  اپنے میٹھے میٹھے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   کی پیاری پیاری سنّتوں کے سانچے میں خود کو ڈھالنے کے بجائے اغیار کے فیشن کو اپنا کر اپنی حالت خود آپ بِگاڑ ڈالی ہے۔  پارہ 13 سُوْرَۃُ  ا لرَّعْدکی گیارہویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:  
    اِنَّ اللّٰهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰى یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْؕ-
    ترجَمۂ کنزالایمان: بیشک اللہ  کسی قوم سے اپنی نعمت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدل دیں ۔  
          افسوس!  صد ہزار افسوس ! بے عملی کے سبب ہم ذلّت ورُسوائی کے عمیق گڑھے میں نہایت ہی تیزی کے ساتھ گرتے چلے جارہے ہیں ۔  ایک وقت وہ تھا جب کُفّار مسلمان کے نام سے لَرزَہ بَراَنْدام ہو جایا کرتے تھے اور آج اِنقلابِ مَعکُوس نے مسلمانوں کو کفّار سے خوفزدہ کر رکھا ہے۔       ؎
    اے خاصۂ خاصانِ رُسُل وَقتِ دُعا ہے اُمّت پہ تِری آ کے عجب وقت پڑاہے
    جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے پَردَیس میں وہ آج غریبُ الغُربا ہے
    جس دین کے مدعو تھے کبھی قیصر و کِسریٰ خود آج وہ مہمان سَرائے فُقَرا ہے
    وہ دین ہوئی بزمِ جہاں جس سے فَرُوزاں اب اس کی مجالس میں نہ بَتی نہ دِیا ہے
    جس دین کی حُجت سے سب اَدیان تھے مغلوب اب مُعترِض اس دین پہ ہر ہَر زہ سَرا ہے
    چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں پیاروں میں مَحبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے
    گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی پر نام تری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے
    ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر مُدّت سے اسے دَورِ زماں میٹ رہا ہے
    وہ قوم کہ آفاق میں جو سَر بَفلک تھی وہ یاد میں اَسلاف کے اب رُو بَقضا ہے
    جو قوم کہ مالِک تھی عُلُوم اور حِکَم کی اب علم کا واں نام نہ حکمت کا پتا ہے
    کھوج ان کے کمالات کا لگتا ہے اب اتنا گم دَشت میں اک قافِلہ بے طَبَل و دَرا ہے
    جو کچھ ہیں وہ سب اپنے ہی ہاتھوں کے ہیں کرتُوت شکوہ ہے زمانے کا نہ قسمت کا گِلا ہے
    دیکھے ہیں یہ دن اپنی ہی غفلت کی بدولت سچ ہے کہ بُرے کام کا انجام بُرا ہے
    فریاد ہے!  اے کشتی ٔ امّت کے نگہباں ! بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
    اے   چشمۂ   رحمت   بِاَبِی   اَنتَ   وَ   اُمِّی دنیا پہ ترا لطف سدا عام رہا ہے
    جس قوم نے گھر اور وطن تجھ سے چُھڑایا جب تُو نے کیا نیک سُلوک ان سے کیا ہے
    سو بار ترا دیکھ کے عَفو اور تَرَحُّم ہر باغی و سرکش کا سر آخر کو جھکا ہے
    برتاؤ ترے جبکہ یہ اَعدا سے ہیں اپنے اَعدا سے غلاموں کو کچھ امّید سِوا ہے
    کر حق سے دعا اُمّتِ مرحوم کے حق میں خطروں میں بہت اِس کا جہاز آکے گھرا ہے
    اُمّت میں تری نیک بھی ہیں بد بھی ہیں لیکن دِلدادہ ترا ایک سے ایک ان میں سِوا ہے
    ایماں جسے کہتے ہیں عقیدے میں ہمارے وہ  تیری  مَحَبَّت  تری  عِتْرَت کی  وِلا  ہے
    جو خاک ترے در پہ ہے جارُوب سے اُڑتی وہ خاک ہمارے لئے داروئے شِفا ہے
    جو شہر ہوا تیری ولادت سے مشرَّف اب تک وُہی قبلہ تری اُمّت کا رہا ہے
    جس شہر نے پائی تری ہجرت سے سعادت مکّے سے کشِش اُس کی ہر اک دل میں سِوا ہے
    کل دیکھئے پیش آئے غلاموں کو ترے کیا اب تک تو ترے نام پہ ایک ایک فِدا ہے
    ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخِر ہیں تمہارے نسبت بہت اچھی ہے اگر حال برا ہے
    تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی ہاں ایک دعا تیری کہ مقبولِ خدا ہے
    خود جاہ  کے طالِب ہیں نہ عزّت کے ہیں  خواہاں
    پر فکر تِرے  دین کی عزت  کی سَدا  ہے
    صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب!  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن