اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
یہ مضمون ”غیبت کی تباہ کاریاں “ صفحہ 178 تا 194 ، 210 تا 214 سے لیا گیا ہے ۔
دُعائے عطار: یا اللہ پاک:جو کوئی 17صفحات کا رسالہ ”جوئے میں جیتا ہوا مال“ پڑھ یا سُن لے ،اُسےاوراُس کی آنے والی نسلوں کوجوئے کی بیماری سے محفوظ فرما کر رزقِ حلال پر قناعت عنایت فرمااور اپنے سوا کسی کا محتاج نہ کر۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
حضرتِ علّامہ مَجدُالدّین فیروز آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ سے منقول ہے :جب کسی مجلس میں (یعنی لوگوں میں)بیٹھواورکہو:بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ وَصَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدتواللہ پاک تم پر ایک فِرِشتہ مقرّر فرمادے گا جو تم کو غیبت سے بازرکھے گا۔اور جب مجلس سے اُٹھو تو کہو: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ وَصَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد توفِرِشتہ لوگوں کو تمہاری غیبت کرنے سے بازرکھے گا ۔(القول البدیع، ص278)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
ایک بُزُرگ رحمۃُ اللہِ علیہ سے کسی نے کہا: فُلاں شخص آپ کی اس قَدَر برائی بیان کرتا ہے کہ مجھے آپ پر رحم آتا ہے۔فرمایا :”قابلِ رحم تووہ شخص خود ہے ۔ “ (تفسیرِقُرطبی 8/242)
سُبْحانَ اللہ ! ہمارے بُزُرگوں کا اِخلاص و اَخلاق صَد کروڑ مرحبا!ان کی مَدَنی سوچ کی بھی کیا بات ہے!اپنی بے تحاشا برائیاں کرنے والے پر بھی غصّہ نہیں آ رہا بلکہ دل مطمئن ہے کہ میرا اپنا کیا جاتاہے!غیبت کرنے والا ہی نقصان اٹھاتا ہے اور وہ نادان ان معنوں میں قابلِ رحم ہی ہے کہ اپنی نیکیاں برباد کر رہا اور گنہگار ہو کر عذابِ نار کا حق دار قرار پارہا ہے۔
دردِ سر ہو یا بخار آئے تڑپ جاتا ہوں میں جہنّم کی سزا کیسے سہوں گا یا رب!
عَفْوْ کر اور سدا کیلئے راضی ہو جا گر کرم کر دے تو جنَّت میں رہوں گا یا رب!
تابِعی بُزُرگ حضرت سیِّدُنامُعاوِیہ بن قُرَّہ رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:”اگر تمہارے پاس سے کوئی لُنجا (یعنی لولا یا لنگڑا)گزرے اور تم اُس کے لُنجا پَن کے عیب کا تذکرہ کرو تو یہ بھی غیبت ہے۔“ (تفسیردر منثور،7/571)
معلوم ہوا کہ کسی لُنجے کو بھی بِلا اجازتِ شرعی پیٹھ پیچھے لُنجا کہنا غیبت ہے اِسی طرح کسی کو لنگڑا گنجا اندھا کانا لُولا تُتلا ہَکلا گونگابہراکُبڑا وغیرہ کہنا بھی غیبت ہے۔
غیبت کرنے سننے کی عادت نکالنے،نَمازوں اور سنّتوں پر عمل کی عادت ڈالنے کیلئے دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے ہر دم وابستہ رہے، سنّتوں کی تربیَت کیلئے مَدَنی قافِلوں میں عاشقانِ رسول کے ساتھ سنّتوں بھرا سفر کیجئے ، کامیاب زندگی گزارنے اور آخِرت سنوارنے کیلئے نیک اعمال کے مطابِق عمل کرکے روزانہ جائزہ کے ذریعے رسالہ پُر کیجئے اور ہر ماہ کی پہلی تاریخ کو اپنے ذمّے دار کو جمع کروایئے۔آپ کی ترغیب کیلئے ایک مَدَنی بہار گوش گزار کرتا ہوں چُنانچِہ سوئی ڈویژن ڈیرہ بُگٹی (بلوچستان )کے ایک اسکول ٹیچر نے کچھ اس طرح حلفیہ تحریر دی ہے کہ ایک اسکول ٹیچر تَمبُولا(ایک قسم کا کھیل جس میں پیسوں کا جُوا ہوتا ہے)کی دُکان چلا تے تھے۔ 2004ء میں پاکستان کے صوبہ سندھ سطح پر صحرائے مدینہ (کراچی)میں ہونے والے عاشقانِ رسول کی دینی تحریک، دعوتِ اسلامی کے تین دن کے سنّتوں بھرے اِجتِماع میں انہیں خوش قسمتی سے شرکت کی سعادت مل گئی آخِر میں جب دعا ہوئی تو اُن پر رِقَّت طاری ہو گئی۔ انہوں نے سابِقہ تمام گناہوں سے توبہ کرنے کے ساتھ ساتھ نَمازِ با جماعت پابندی سے ادا کرنے کی نیت کر لی۔ الحمدُ لِلّٰہ !اجتِماع سے واپس آتے ہی تَمبولا کا کام یکسر ختم کر دیا، داڑھی شریف رکھ لی اور اسکول میں درس بھی جاری کر دیا اور دعوتِ اسلامی کے مدرسۃُ المدینہ (برائے بالِغان) میں قرآنِ پاک پڑھنا شروع کر دیا۔
پیارے پیارےاسلامی بھائیو!دعوتِ اسلامی کے سُنَّتوں بھرے اجتِماعات کی بھی کیا
بات ہے!اللہ کریم کی رحمت سے ان میں شریک ہونے والوں میں سے نہ جانےکتنے ہی دلوں میں مَدَنی انقِلاب برپا ہو جاتا ہے، ان اجتِماعات میں شرکت دونوں جہانوں کیلئے باعثِ سعادت ہے۔ ابھی آپ نے مَدَنی بہار سماعت فرمائی اِ س میں تَمبولا کے کاروبار سے توبہ کا تذکِرہ ہے۔ تَمبولا”جُوا“ ہی کی ایک صورت ہے، جُوا میں ایک دوسرے کا مال ناحق کھایا جاتا ہے جوکہ شرعاً حرام ہے۔ جُوا کھیلنا ، جوئے کا اڈّہ چلانا جوئے کے آلات بیچنا خریدنا سب اسلام میں حرام اور جہنّم میں لے جانے والے کام ہیں۔ افسوس!آج کل مسلمانوں میں جُوا کافی عام ہے ، جوئےکی ایسی بھی صورتیں ہیں کہ لوگ لاعلمی کی وجہ سے اُن میں مبتَلا ہو جاتے ہیں ۔ لہٰذا اچّھی اچّھی نیتوں کے ساتھ جوئے کے بارے میں کچھ معلومات حاصِل کر لیجئے۔
پارہ2 سورۃُ البَقَرۃ کی آیت نمبر219میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِؕ-قُلْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ٘-وَ اِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَاؕ-
ترجَمۂ کنز الایمان : تم سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں تم فرمادو کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے کچھ دنیوی نفع بھی اور ان کا گناہ ان کے نفع سے بڑا ہے ۔
حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدین مُراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ خَزائنُ العرفان میں اس آیتِ کریمہ کے تحت لکھتے ہیں:جوئے میں کبھی مُفْت کا مال ہاتھ آتا ہے اور گناہوں اور مَفْسَدوں (یعنی خرابیوں)کا کیا شُمار!عَقل کا زوال،غیرت و حَمِیَّت کا زَوال ،عبادات سے محرومی لوگوں سے عداوتیں(یعنی دُشمنیاں )سب کی نظر میں خوار (یعنی ذلیل)ہونا دولت و مال کی اِضاعَت (یعنی بربادی ) ۔(خزائن العرفان، ص 73 )
پارہ7 سورۃُ المائدہ کی آیت نمبر 90تا91میں اللہُ رَحمٰن کا فرمانِ عبرت نشان ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ(۹۰) اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَكُمُ الْعَدَاوَةَ وَ الْبَغْضَآءَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِ وَ عَنِ الصَّلٰوةِۚ-فَهَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَهُوْنَ(۹۱)
ترجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو! شراب اور جُوااور بُت اور پانسے ناپاک ہی ہیں شیطانی کام تو ان سے بچتے رہنا کہ تم فلاح پاؤ ۔ شیطان یہی چاہتا ہے کہ تم میں بَیر اور دشمنی ڈلوا دے شراب اور جوئے میں اور تمہیں اللہ کی یاد اور نماز سے روکے تو کیا تم باز آئے؟
حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدین مُراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ خَزائنُ العرفان میں اس کے تحت لکھتے ہیں:اِس آیت میں شراب اور جُوئے کے نتائج اور وَبال بیان فرمائے گئے کہ شراب خوری اور جوئے بازی کا ایک وبال تو یہ ہے کہ اس سے آپس میں بُغض اور عداوتیں پیدا ہوتی ہیں اور جواِن بدیوں (یعنی برائیوں) میں مُبتلا ہو وہ ذِکرِ الٰہی اورنَماز کے اوقات کی پابندی سے محروم ہو جاتا ہے ۔(خزائن العرفان، ص 236 )
پارہ2 سورۃُ البَقَرۃ کی آیت نمبر188میں ارشادِ ربُّ العباد ہوتا ہے:
وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ (پ2، البقرہ: 188)
ترجَمۂ کنز الایمان : اورآپس میں ایک دوسرے کا مال نا حق نہ کھاؤ۔
حضرتِ علامہ مولانا سیِّد محمد نعیمُ الدّین مُراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ خَزائنُ العرفان میں فرماتے ہیں:اس آیت میں باطل طور پر کسی کا مال کھانا حرام فرمایا گیا خواہ لوٹ کر یا چھین کر یا چوری سے یا جوئے سے یا حرام تماشوں یا حرام کاموں یا حرام چیزوں کے بدلے یا رشوت یا جھوٹی گواہی یا چغلخوری سے یہ سب ممنوع و حرام ہے ۔ (خزائنُ العرفان، ص 63 )
سرکارِدوعالم،حضورِاکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے نَردشیر (جُوا کھیلنے کا سامان)سے جُوا کھیلاتو گویااُس نے اپنا ہاتھ خِنزیر کے گوشت اور خون میں ڈُبو یا۔ (ابن ماجہ ،4/231، حدیث:3763)
حُضُورنبیِ کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ارشادِ عبرت بُنیادہے:جس شخص نے اپنے ساتھی سے کہا : ”آؤ!جُوا کھیلیں ۔“تواُس (کہنے والے)کو چاہیئے کہ صدقہ کرے ۔(صحیح مسلم، ص692، حدیث:4260)حضرت علامہ یحییٰ بن شرف نَوَوِی رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : علما فرماتے ہیں کہ سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے صَدَقہ کرنے کا حکم اس لئے دیا ہے کہ اس شخص نے گناہ کی دعوت دی تھی ، حضرت علامہ خِطابی رحمۃُ اللہِ علیہ نے کہا کہ جتنے پیسوں کا جُوا کھیلنے کا کہا تھا اُتنے پیسوں کا صَدَقہ کرے مگر صحیح وہ ہے جو مُحَقِّقِین نے کہا ہے اوریِہی حدیثِ پاک کا ظاہِر ہے کہ صَدَقہ کی کوئی مِقدارمُعَیَّن نہیں ، آسانی سے جتنا صَدَقہ کرسکے کردے ۔(شرح مسلم للنووی ،11/107 )
میرے آقا اعلیٰ حضرت ، اِمامِ اَہلسنّت، مولانا شاہ امام اَحمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فتاویٰ رضویہ جلد 19صَفْحَہ646پر فرماتے ہیں :سود اور چوری اورغصب او رجوئے کا روپیہ قطعی حرام ہے۔ (فتاوٰی رضویہ ،19/646)
جُوا کو عربی میں قِمار کہتے ہیں اس کی تعریف ملاحَظہ فرمایئے:حضرت میرسیِّد شریف جُرجانی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:ہر وہ کھیل جس میں یہ شر ط ہو کہ مَغْلوب(یعنی ناکام ہونے والے)کی کوئی چیز غالِب (یعنی کامیاب ہونے والے )کو دی جائے گی یہ ”قِمار“(یعنی جُوا)ہے ۔ (التعریفات ،126)