Khof e Khuda Me Izafa
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Khauf e Khuda Main Izafa Kaise Ho | خوف خدا میں اضافہ کیسے ہو؟

    Khof e Khuda Me Izafa

    book_icon
    خوف خدا میں اضافہ کیسے ہو؟
    اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
    اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
    خوفِ خدا میں اضافہ کیسے ہو؟  ( )
    شیطان لاکھ سُستی دِلائے یہ رِسالہ(۲۳ صَفحات) مکمل پڑھ لیجیے  اِنْ  شَآءَ اللّٰہ  معلومات کا اَنمول خزانہ  ہاتھ آئے  گا۔

    دُرُود شریف کی فضیلت

    فرمانِ مصطفےٰ  صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم : جس نے مجھ پر دن میں ایک ہزار مرتبہ دُرُودِ پاک پڑھا، وہ مرے گا نہیں جب تک جنت میں اپنا ٹھکانا نہ دیکھ لے۔   ( )
    صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب!   صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد

    خوفِ خدا میں اضافہ کیسے ہو؟

    سُوال:ہم گناہ کرکے اس قدر بے باک ہوجاتے ہىں کہ اللہ پاک کا خو ف بھى کم ہوجاتا ہے، اىسى صورت مىں کىا کِىا جائے ؟  
    جواب: خوفِ خدا کے حصول  کے لئے مسلسل کوشش جاری رکھئے ، گناہوں کو ترک کیجئےاور توبہ کرتے رہیے توبہ کرتے رہیں گے تو اِنْ شَآءَ اللہ خوفِ خدا کی برکت سے گناہوں کو چھوڑنے کی عادت بن جائے گی۔  خوفِ خدا کے حصول کے لئے اچھی صحبت اختیار کرنا بھی بہت ضروری ہےجوکہ آج کل بہت کم ہے ، افسوس ، غیبت ، مذاق مسخری وغیرہ جیسے برے کاموں کا سلسلہ زور پکڑتا جا رہا ہے، لہٰذا لوگوں کی صحبت سے دور بھاگئے، نیز یاد رہے کہ اچھی صحبت سے مراد عاشقانِ رسول کی صحبت ہے ، بدمذہب چاہے کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو اس کی صحبت بری صحبت ہے اس کے سائے سے بھی دور بھاگیے کہ ان کے عقیدے میں خرابی ہےاور جس کے عقیدے میں خرابی ہو اس کا عمل اس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتا اور ایسوں کی صحبت اختیار کرنا ایمان کو تباہ و برباد کرسکتا ہے۔
    لباسِ خضر مىں ىہاں سىنکڑوں رہزن بھى پھرتے ہىں
    اگر جىنے کى خواہش ہے تو کچھ پہچان پىدا کر
    لباسِ خضر  سے مراد ”راہ نما“ ہیں ،  اور رہزن کا مطلب ”ڈاکو“ ہے لہٰذا اس کا معنیٰ یہ ہوا کہ یہاں راہ نما کے لباس میں ایمان کے ڈاکو بھی پھرتے ہیں،اگر جىنے کى خواہش ہے تو کچھ پہچان پىدا کر ىعنى پہچان کہ حقىقی راہ نما کون ہے، ورنہ تو ىہى  بد مذہب راہ نما اگر عقىدہ خراب کردےتو ىہ ڈاکوؤں سے بدتر ہے، ان کى صحبت اىمان لوٹ سکتى ہے، لہٰذا پہچان پىدا کر کہ کس کى صحبت اختىار کرنی ہے،مىں آپ سب کو یہی مشورہ دوں گا کہ دعوتِ اسلامى کے دینی ماحول کو مضبوطی سے تھام لیں ، ىک در گىر و محکم گىر یعنی اىک دروازہ پکڑیں  اور مضبوطى کے ساتھ پکڑیں۔ دعوتِ اسلامى والوں کی صحبت میں رہیں گے تو  اِنْ شَآءَ اللہ ایمان کی حفاظت کا سامان ہوتا رہے گا۔

    حضرتِ سَیِّدُنا آدم کا قد مبارک کتنا تھا؟

    سُوال: جب آپ سری لنکا تشریف لائے تھے تو  کیا اس وقت آپ نے حضرت آدم  عَلَیْہِ السَّلَام  کے قدم مبارک کے نشان کی زیارت کی تھی؟(سائل: محمد زین رضا، سری لنکا)
    جواب: جی ہاں ! جب میرا سری لنکا جانا ہوا تو وہاں حضرتِ سَیِّدُنا آدم  عَلٰی نَبِیِّنا وَعَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام    کى طرف منسوب قدم مبارک کی زیارت کی تھی،  آپ کا قدم مبارک بڑا تھا  کیونکہ آپ کا قد بھی بہت بڑا تھا، یہاں تک کہ آپ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ آپ کا قد مبارک  60ہاتھ جتنا تھا( )  یعنی تقریباً 30 میٹر ۔

    بعد وضو پاؤں کے تلوے چادر سے صاف کرنا کیسا؟

    سُوال: آپ وضو کے بعد چادرسے اپنے اعضاء خشک کرتے ہیں  ىہاں تک کہ اپنے پاؤں کے تلووں کو بھى چادر سے صاف کرتے ہیں، اس میں کیا حکمت ہے؟ (سائل: محمد على عطارى، اولڈ سٹى اىرىا )
     جواب: ہر مسلمان کی کوشش ہونی چاہیے کہ  اس کی طرف سے مسجد کی کسی بھی قسم کی کوئی بے ادبی نہ ہو۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میرا شروع سے احتیاط کا ذہن ہے کہ  مسجد کا فرش آلودہ  نہ ہو اور اس پر وضو کے قطرے نہ ٹپکیں۔ شہید مسجد  میں عینِ مسجد اور وضو خانے کے درمیان فاصلہ بہت کم ہے اس لئے میں اس وقت بھی  وضو کے بعد اپنے اعضاء  سے پانی جذب کرلیا کرتا تھا، یہاں تک کہ داخلِ مسجد ہوتے وقت  اپنی داڑھی کے نیچے چادر رکھ لیتا تاکہ  پانی کے قطرے فرشِ مسجد پر نہ گریں۔ البتہ تھوڑی سی تری باقی ہونی چاہیے کہ جس میں سے قطرے نہ ٹپکیں  یعنی صرف تری ہو کہ  احادیثِ کریمہ میں اس کے فضائل موجود ہیں۔ چنانچہ ایک حدیثِ پاک ہے کہ یہ تَرِی قیامت کے دن نیکیوں کے پلڑے میں رکھی جائے گی۔ ( )

    امیرِ اہلِ سُنَّت کے بچپن کا دلچسپ واقعہ!

    سُوال: آپ نے ایک مدنى مذاکرے مىں فرماىا تھا کہ مىں روڈ پار کرکے  ککڑی گراؤنڈ میں کھیلنے نہیں جاتا تھا  کیونکہ میری والدہ نے منع کیا تھا،حالانکہ کچھ دن پہلےآپ کے ایک دوست سے میری ملاقات ہوئى توانہوں نے اىک واقعہ بتاىا کہ ہم ایک گلى مىں کھىلا کرتے تھے  تو مىں نے الیاس قادری سے کہا  کہ ”چلو الىاس! ککڑى گراؤنڈ مىں کھىلتے ہىں“ آپ نے فرمایا: ”میری ماں نے منع کىا ہے“ انہوں نے کہا: ماں تو گھر مىں ہے ان کو کىا پتا؟  تو آپ نے فرمایا کہ ”نہىں جھوٹ نہىں بولنا“   پیارے مرشدِ کریم! میری آپ سے درخواست ہےکہ ىہ واقعہ بچوں کو بتائىں تاکہ  وہ جہاں بھى جائىں والدىن کو بتا کر جائىں اورجھوٹ نہ بولىں۔  (سائل: محمد فاروق اىدھى، کراچى)
    جواب: ککڑی گراؤنڈ اور ہمارے گھر کے درمیان ایک بڑا روڈ واقع  تھا، اور اس روڈ پر گاڑیاں بہت رفتار سے چلتی تھیں اس لئے  میری والدہ مجھے  اس گراؤنڈ میں کھیلنے کے لئے جانے سے منع کرتی تھیں تاکہ مجھے کسی قسم کی کوئی تکلیف نہ پہنچے  یقیناً  یہ ان کی  مجھ سے محبت تھی ۔ نیز میں اپنی ماں سے جھوٹ نہیں بول سکتا تھا کیونکہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہ  مجھے  بچپن سے ہی اللہ پاک  سے ڈر لگتا تھا۔

    اُمِّ عطار کی امیرِ اہلِ سُنَّت پر شفقت!

    سُوال:  کیا آپ کو کبھى ایسا محسوس نہیں ہوا کہ مىرى والدہ مجھے باہر کھىلنے نہىں دىتىں اور نہ ہی  مجھے مىرى خواہش کے مطابق چلنے دیتی ہیں؟ (سائل: سلمان بٹ ، کراچی)
    جواب:  مىرى ماں نے نہ مجھے کھىلنے سے روکا تھا  نہ باہر نکلنے سے روکا تھا، ککڑى گراؤنڈ والا روڈ چونکہ بچوں کے لیے خطرناک تھا اس لئے مجھے اس طرف جانے سے منع کیا جاتا تھا ، اس روڈ پر پہلے بھی کئی حادثات ہوچکے تھے،  اسی روڈ پراىک بار  کتىانہ اسکول کے غالباً ایک طالبِ علم کا بھى اىکسیڈنٹ ہوا تھا جس پر وہاں کے لوگوں نے احتجاج کیا اور شاىد دھرنا بھى ہوا تھا ، اس کے بعد اس روڈ پر”  پل“ بنا  دیا گیا، اس لئے میری والدہ مجھے روک کر ٹھیک ہی  کرتی تھیں۔

    کیا والدین بچوں کی خواہش پوری نہیں کرتے؟

    سُوال: آج کل کی اولاد یہ کہتی نظر آتی ہے کہ ہمارے ماں باپ کو ہمارى خواہش کا خىال نہىں ہے ،والدین ہماری بات نہیں مانتے ہم پر پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں، اس حوالے سے آپ کىا فرمائیں گے؟ (سائل:سلمان بٹ، کراچی)
    جواب: بچوں کو بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ والدین کو ہماری کوئی فکر نہیں ہے، یہ ہم پر سختیاں کرتے رہتے ہیں، ہماری بات نہیں مانتے ، ہماری خواہشات پوری نہیں کرتے، حالانکہ ایسا نہیں ہے ، اگر بچے  گھر سے کہیں دور گئے ہوئے ہوں یا رات کو گھر دیر سے آئیں تو والدین کو اپنی اولاد کی فکر ہونے لگتی ہے، ان کا احساس ہونے لگتا ہے، انہیں اس بات کا خوف ہوتا ہے کہ انہیں کوئی نقصان یا  تکلیف نہ پہنچ جائے۔ ایسا والدین شفقت کى وجہ سے کرتے ہیں،   کاش!  والدین  کى اس ہمدردى کااحساس   اولاد کو ہوجائے اور اولاد اپنےوالدین کی خوب خدمت کرنے والی بن جائے۔ اولاد کو چاہیے  والدین جو مانگیں فورا ًحاضر کردے،  جو  جائز کام کاحکم دیں فورا ً اس کی تعمیل کرے۔ یاد رکھئے! والدین کا حق اولاد کبھی بھی ادا نہیں کرسکتی، لہٰذا والدین کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی جائے،  والدین  میں سے کسی کو بھی ناراض نہ کیا جائے،ان کے احسانات کو یاد رکھا جائے  کہ کس طرح انہوں نےتکالیف برداشت کرکے اپنی اولاد کو  راحت اور  آسائشیں مہیا کی ہیں۔
    ایک واقعہ مجھےاچھی طرح یاد ہے کہ کسی شخص کو کوئی مرض تھا ڈاکٹرز نے کہا تمہیں کینسر ہوگیا ہے، یہ سن کر وہ شخص بہت سخت  پریشان اور غمگین  ہوگیا   اور اسی عالم میں اپنے بیٹے کو یاد کرنے لگا لیکن اس کے بد نصیب بیٹے کے پاس اتنا وقت نہیں تھا کہ اپنے والد کی خدمت میں حاضر ہوسکے!  ذرا سوچئے اگر آپ آج اپنے والدین کے ساتھ ایسا کریں گے تو کل آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوسکتا ہے، لہٰذا اپنے انجام پر نظر رکھنی چاہیے، والدین کى قدر  اگر زندگى مىں ہی ہوجائے تو اچھا ہے، والدین کی دعاؤں سے مسائل حل ہوتے ہیں، پریشانیاں دور ہوتی ہیں، مصیبتیں، بلائیں، آفات اور فتنے دفع ہوجاتے ہیں یقیناً  اس مىں کوئى شک نہىں ہے  کہ ماں باپ کى دعا اولاد کے حق مىں قبول  ہوتی ہے۔

    کیا امام مسجد کو زکوٰة دے سکتے ہیں؟

    سُوال:  کىا امام مسجد کو زکوٰة دے سکتے ہىں؟ (سائل:سلمان بٹ، کراچی)
    جواب: اگر امام مسجد زکوٰة      کا حق دار ہے توبے شک اس کو بھى   زکوٰۃ دے سکتے ہىں لیکن سوچنا چاہیے کہ جو اللہ  کى بارگاہ مىں آپ کا سفارشى ہے، آپ کو نماز پڑھاتا ہے، آپ کا امام ہے تو        کیا اس کو زکوٰۃ ہی دینا ضروری ہے۔ مشورةً عرض ہے  کہ اپنے امام کوصاف کمائی سے پىسے دیجئے اور زہے نصىب اتنے دىں کہ ىہ بھى آپ کى طرح خوشگوار زندگى گزار سکىں انہیں پریشانی یا مال کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے ورنہ ان کا دل بٹے گا اور امامت کے ساتھ ساتھ ان کو کوئی اور ملازمت یا  کچھ اور کام بھی کرنا پڑے گا،  کیونکہ  ان کے بھی بچے ہیں،  گھر کی ذمہ داریاں اور اخراجات ہیں وہ تو انہوں نے پورے کرنے ہی ہیں، اگرچہ بعض ائمہ کے حالات اچھے ہوتے ہیں لیکن سب ائمہ ایسے نہیں ہوتے لہٰذا  مىں آپ سب سے درخواست کروں گا کہ برائے کرم خصوصیت کےساتھ ان حضرات کی دل کھول کر مدد کریں ، کیونکہ یہ لوگ سفید پوش ہوتے ہیں، کسی سے کوئی  چیز  نہ مانگتے ہیں نہ   کسی سے اپنی حاجت بیان کرتے ہیں، ایسی صورتِ حال میں ہمىں چاہىے کہ  اپنى مساجد کے ائمہ ،  مؤذنین اور خادمین کی خدمت کرىں۔ نیز علمائے کرام کى خدمت کرىں، ہر مقتدى کو اپنا ذہن بنانا چاہیے کہ مىں کم از کم رمضان شرىف مىں ضرور ائمہ حضرات کی خدمت کروں گا اللہ دے  تو زندگى بھر خدمت کرتے رہىں اور جب  ان کی خدمت کریں تو ایسا  نہ  ہو کہ مٹھائی کے ڈبوں یا مصلے،  تسبیح وغیرہ سے ان  کا گھر بھر دیں ، مٹھائى کے ڈبے سے پىٹ نہىں بھرتا، آپ مٹھائى کا ڈبا دے دىں گے  یا اچھا سا جا نماز  ڈھونڈ کر دىں گے تو  اس کا  امام صاحب  کىا کریں گے، اگر  آپ 2000  روپے کا مٹھائى کا ڈبا دینا چاہتے ہیں تو بہتر یہ ہے کہ اس کے بدلے 1200 روپے کىش دے دیجئےتاکہ وہ  اپنے بچے کے لىے دوا لے سکیں،ان کے بچوں کى امى کے لىے ضرورت کی چیزیں خرىد سکىں، گھر مىں کوئى اچھى چىز پکا سکىں، اس لىے مناسب یہ ہے کہ رقم پیش کردی جائے تاکہ وہ ضروریات زندگی پوری کر سکیں۔
    اسی طرح پىرانِ عظام اور مشائخِ   کِرام  کى بھى خدمت کرىں،کیونکہ ہر پىر مال دار نہىں ہوتا ان کا اپنا ایک انداز ِزندگی ہوتا ہے، دکانیں یا ٹھیلا لگانا ان حضرات کی شان کے خلاف ہے،  لہٰذا ان کے مریدوں کو چاہیے کہ بڑھ چڑھ کر  ان کی  مدد اور خدمت کریں، یہاں میں یہ وضاحت کردوں کہ یہ سب میں اپنے لئے نہیں کہہ رہا مجھے کچھ نہىں دىنا مىں خدا کى قسم کھا کر کہتا ہوں مىں حاجت مند نہىں ہوں۔  اَلْحَمْدُ لِلّٰہ  مجھے پىسوں کى ضرورت نہىں ہے، مىرے پاس اللہ  پاک کى رحمت سے بہت کچھ ہے آپ مىرى برادرى ىعنى امام صاحبان کو دے دیجئے، اگر کسی کی مجھے کچھ دىنے کى نىت ہے تو  اسے چاہیے کہ اپنے محلے کے امام صاحب کو مىرے اىصالِ ثواب کے لىے دے دے ۔

    کیا اعتکاف میں بیٹھنے والا فرض نماز پڑھا سکتا ہے؟

    سُوال:  جو امام صاحب  اعتکاف مىں بىٹھے ہوں کیا وہ فرض نماز پڑھا سکتے  ہیں؟
    جواب: جی ہاں!  جو امام  صاحب اعتکاف مىں بىٹھے ہوں  وہ جماعت سے نماز پڑھا سکتے ہیں۔

    وحى کیا ہوتى ہے؟

    سُوال:  وحى کىا ہوتى ہے؟ (سائل: منىر رضا، برمنگھم)
    جواب: اللہ پاک  اپنے انبىائے کرام  عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ  وَالسَّلَام  کو جو پىغامات ارشاد فرماتا ہے اس کو ”وحی“    کہا جاتا ہے،وحی کی دو قسمیں ہیں : (1)وحیِ مَتْلُو  یعنی جس کی تلاوت کی جاتی ہے  جیسے قرآنِ پاک(2) وحیِ غیرِ مَتْلُو  یعنی جس کی تلاوت نہیں کی جاتی جیسے احادیثِ مبارکہ ( )۔ ( )
    کیا طویل اذان دینا درست ہے؟
    سُوال:   کىا طویل اذان دی جاسکتی ہے؟
    جواب: اذان اتنى طویل نہ کى جائے کہ لوگ گھبرا جائىں اور جواب دىنے سےبھى کترائىں صرف اتنا وقفہ کیا جائے کہ کلمات مىں ”        اَللہُ اَکْبَرُ، اَللہُ اَکْبَر   “      کہہ کر اتنا  رکے کہ اذان سننے والا بھی  جواب کہہ لےیہ مستحب ہے،( )  طویل وقفہ  نہ کىا جائے۔ نیز جو بھی اذان دےوہ  درست تلفظ اور مخارج کا خاص  خىال رکھے، بعض لوگ ویسے درست پڑھتے ہیں لیکن جب ىہ کان مىں انگلىاں ڈال کر سُر لگاتے ہىں اس وقت غلطی کرجاتے ہیں اور مخارج بھی غلط ہوجاتے ہیں نیز بعض صورتوں میں معنىٰ بھى بدل جاتے ہىں ، اس سے بچنا چاہیے۔
    شفاعت کا ثبوت؟
    سُوال:  شفاعت کے بارے میں کچھ ارشاد فرمادیجئے؟
    جواب: شفاعت  کا ثبوت قرآنِ کریم سے ہے   اور شفاعت کا مطلقاً انکار کرنا کفر ہے( )اور کوئى بھى مسلمان شفاعت کا انکار نہىں کر سکتا سرکارِ مدینہ    صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم   اللہ پاک کى اجازت سےگناہ گار مسلمانوں کی شفاعت کرىں گے اور بڑے بڑے گناہ گار آپ کی شفاعتِ کبریٰ سے داخلِ جنت ہوں گے۔( ) نیز قیامت کے دن انبیائے کرام،اولیائے کرام، علمائے کرام اور صالحین بھی شفاعت کریں گے یعنی ان کی شفاعت سے لوگ جنت میں داخل ہوں گے، ىہاں تک کہ کوئى عالم صاحب سے کہے گا حضور!  مىں نے آپ کو پانى پلاىا تھاتو ایسے لوگوں کی بھی شفاعت ہوگی۔لیکن شفاعتِ کبریٰ یعنی سب سے بڑی  شفاعت ہمارے پیارے آقا   صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم   کی  ہی ہوگی۔
    نیکی  کرنے کے بعد تعریف کی خواہش  کرنا کیسا؟
    سُوال: کوئی بھی نیک کام مثلاًصدقہ وغیرہ کرنے کے بعد اس بات کی خواہش کرنا  کہ کوئی میری  تعریف کرے  کیسا؟ 
    جواب: کوئی بھی  نیک کام کرنے کےبعد اپنی تعریف کی خواہش رکھنا کہ اب کوئی میری تعریف بھی کرے نہایت مذموم عمل ہے! اس سے بچنا چاہیے اور اپنے عمل میں اخلاص پیدا کرنا چاہیے،  مسئلہ یہ ہے کہ  اگر کسی کی تعرىف نہ کى جائے تو  اس کا دل ٹوٹ جاتا ہےکہ دیکھو میں نے اتنا اچھا         کام کیا کسی نے کوئی حوصلہ افزائى   نہىں کی، اسی بنا پر نگران کو بھى پىٹھ  تھپک کر  اپنے ماتحتوں کی حوصلہ افزائى کرنی پڑتى ہے ۔اے کاش!  ہمارا ہر عمل  اللہ پاک کی رضا کے لئے ہو اور ہمارى ىہ  خواہش ہی نہ ہو کہ کوئى ہمارى تعرىف کرے۔ اخلاص کى اىک تعرىف یہ ہے کہ اس کو اپنی تعریف سننے کی خواہش تو نہ ہولیکن  کوئى اس کی تعرىف کرے تو اس کو برا لگے۔ ( ) اسى طرح اخلاص کى ایک تعریف یہ ہے کہ جس طرح بندہ گناہوں کو چھپاتا ہے اسى طرح نىکىوں کو چھپائے۔ ( )  افسوس ہمارا حال یہ ہے کہ اگر ہماری کوئی تعریف کردے تو ہم نہ صرف خوش ہوتے ہیں بلکہ خوب غور سے سنتے ہیں کہ وہ  ہماری تعریف میں کیا کہہ رہا ہے۔ 
    کیا بزرگانِ دین نے ہجرت فرمائى ہے؟
    سُوال:  کىا بزرگانِ دِىن نے  ہجرت فرمائى ہے؟
    جواب:  جی ہاں! بزرگانِ دِین نے ہجرت فرمائى ہے۔جیساکہ  قُرآنِ کرىم  کی سورۂ  کہف (کی آیت نمبر 9تا26)  مىں اصحابِ کہف کا واقعہ موجود ہے،  واقعہ طویل ہے میں اس کا خلاصہ عرض کرتا ہوں چنانچہ اس زمانے میں جو بادشاہ تھا  وہ ظالم وکافر تھا ، مسلمانوں کو سخت تکالیف پہنچاتا تھا، لہٰذا اصحابِ کہف کو بھی خطرہ لاحق ہوا کہ یہ ظالم بادشاہ  کہیں ہمیں شہید نہ کروادے، لہٰذا اس کے شر سے بچنے کے لئے ان حضرات نے ہجرت فرمائی اور ایک غار میں پناہ لی، اسی طرح  اور بھى بزرگانِ دىن نے اىمان بچانے کے لىے ىا  گناہوں سے بچنے کے لئے ہجرت فرمائی۔ اور حدیثِ پاک میں بھی ہے کہ مہاجر وہ ہے جو  گناہوں سے ہجرت کرے یعنی  گناہ تر  ک کردے۔( ) 
    (اس موقع پر مفتى صاحب نے فرمایا:) حدىثِ پاک مىں یہ بھی موجود ہے کہ ہجرت کبھى منقطع نہىں ہوگى، ىہاں تک کہ توبہ منقطع ہو اور  توبہ اس وقت منقطع ہوگى جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا۔ ( )
    غوثِ اعظم  کا حلیہ مبارک
    سُوال: ہمارے پیرانِ پیر، روشن ضمیر حضرتِ سَیِّدُنا شیخ عبد القاد ر جیلانی  رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ  کا حلیہ مبارک کیسا تھا ؟
     جواب: بہجۃ الاسرار شرىف کے حوالے سے حضرت شىخ ابو عبدُ اللہ بن احمد بن قُدامَہ مَقْدِسِی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ فرماتے ہىں کہ ہمارے امام شىخ الاسلام محىُّ الدىن سىّد عبدالقادر جىلانى رَحْمَۃُ اللّٰہِ  عَلَیْہِ ضعىف البدن ىعنى ظاہرى طور پر کمز ور بدن والے، درمىانہ قد، فراخ سىنہ ، چوڑى داڑھى،  اونچى گردن، گندمى رنگ ، ملے ہوئے ابرو، سىاہ آنکھىں ، بلند آواز ، اور وافِر علم و فضل  والے تھےىعنى آپ  بہت بڑے عالِم  اورمفتى بھی تھے۔( ) 

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن