my page 1
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Khawateen Ke Makhsoos Masail | خواتین کے مخصوص مسائل

    book_icon
    خواتین کے مخصوص مسائل
                

    مقدمہ

    اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ؕ بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ

    علم سیکھنا فرض ہے:

    نبی اکرم نور مجسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان عالیشان ہے: ” طلب العلم فريضۃعلى كل مسلم “ ترجمہ: ہر مسلمان پر علم حاصل کرنا فرض ہے۔(سنن ابن ماجہ، 1/ 81) اس حدیث پاک کی روشنی میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ ہر مسلمان پر اس کی موجودہ حالت و کیفیت کےمتعلق شرعی مسائل سیکھنا فرض عین ہوتا ہےمثلا جب کوئی بالغ ہو تو اس وقت طہارت اور نماز کے مسائل سیکھنا فرض ہوجاتاہے، رمضان کے روزے فرض ہوجائیں تو روزوں کے ضروری مسائل سیکھنا فرض ہوتا ہے۔ یونہی زکوۃ و حج ودیگر معاملات جیسے نکاح، طلاق ، خریدو فروخت اور اجارہ وغیرہ کا موقع آئے تو ان چیزوں کے متعلق شریعت کے احکام سیکھنا فرض ہو جاتا ہے۔

    عورتوں کے لیے حیض و نفاس کے مسائل جاننا:

    عورت پر جو طہارت کے مسائل سیکھنا فرض ہیں ان میں حیض و نفاس کے ضروری مسائل بھی شامل ہیں جیسا کہ حضرت مولانا مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:”ہرمسلمان مردعورت پرعلم سیکھنا فرض ہے،علم سے بقدر ضرورت شرعی مسائل مراد ہیں۔لہذا روزے نماز کے مسائلِ ضروریہ سیکھنا ہرمسلمان پرفرض،حیض و نفاس کے ضروری مسائل سیکھنا ہر عورت پر،تجارت کے مسائل سیکھنا ہر تاجر پر،حج کے مسائل سیکھنا حج کو جانے والے پر عین فرض ہیں۔ “ (مراٰۃالمناجیح،1/202)

    حیض و نفاس کےمتعلق شرعی مسائل جاننے کی اہمیت:

    حیض کے مسائل کا علم انتہائی اہم اور ضروری ترین علم ہے ۔ کسی بھی علم کی اہمیت ، عظمت اور مقام کا اندازہ اس بات سے لگایا جاتا ہے کہ اس علم سے جاہل رہنے میں ضرر و نقصان کتنا ہے۔اور جب ہم حیض کے شرعی مسائل کا جائزہ لیں تو بلا شبہ اس علم سے جاہل رہنے کا نقصان اور ضرر دوسرے کئی علوم کی جہالت سے بڑا ہے کیونکہ اس کے ساتھ متعلق ہونے والے مسائل بے شمار ہیں حتی کہ کئی فقہ کے ابواب کا تعلق اس کے ساتھ جڑتا ہے جیسے * وضو * غسل * نماز * روزہ * حج * اعتکاف * نکاح * طلاق * عدت * استبراء * ازدواجی تعلقات * قرآن پاک کی تلاوت * قرآن پاک کو چھونا * مسجد میں داخل ہونا * بلوغت وغیرہ۔یہ صرف ابواب کے نام لکھے گئے ورنہ تفصیل کی جائے توان میں سے ہر ایک کے تحت حیض سے متعلق بیسیوں مسائل ہیں ۔ اور ان مسائل سے غفلت و جہالت کا اثر کیساہوتا ہے، اس کااندازہ اس مسئلے سے لگائیں کہ مثلا عورت کو عادت کے دن شروع ہونے سے چند دن پہلے ہی خون آنا شروع ہو جاتا ہے اور پھر خون دس دن مکمل ہونے پر بھی نہیں رکتا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ عورت کون سے دنوں کو حیض سمجھے او رکونسے دنوں کو استحاضہ ؟دس دن پورے ہونے کے بعد کیا کرے گی ؟ ان سب دنوں میں سے کون سے دنوں میں نماز پڑھنی ہے اور کون سے دنوں میں نہیں؟رمضان کا روزہ رکھنا ہے یا نہیں؟ ازدواجی تعلقات حلال ہیں یا حرام ؟قرآن پڑھنااور چھونا حلال ہے یا حرام؟ان سب باتوں کا فیصلہ اس خون کے حیض ہونے یا نہ ہونے پر موقوف ہے۔ اور نماز کا معاملہ تو ایسا ہے کہ علم نہ ہونے کی وجہ سے اگر عورت نے خون کو حیض سمجھ کر نماز چھوڑ دی اور وہ خون حیض نہ تھا تو حرام میں مبتلا ہوگی اور اگر خون کو استحاضہ سمجھ کر نماز پڑھ لی اور وہ خون حیض تھا تو اب بھی حرام میں مبتلا ہوگی۔اور یہ معاملہ پانچوں نمازوں کے وقت درپیش ہوگا۔ یہی صورت رمضان کے روزوں میں بھی پیش آئے گی ۔لہذا جب تک عورت کوخون کے حیض ہونے یا نہ ہونے کا مسئلہ معلوم نہ ہو جائے وہ شرعی احکام پر عمل نہ کرپائے گی اور قدم قدم پر گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ رہے گا۔اور یاد رکھیں سیکھنے کی قدرت ہونے کے باوجودضروری علم نہ سیکھنا یہ خود ایک الگ گناہ ہے لہذا ایسی جگہ مسئلہ معلوم نہ ہونے کا عذر بھی مقبول نہ ہوگا ۔

    حیض و نفاس کےمسائل کی پیچیدگی :

    ایک طرف تو حیض کے ان مسائل کی اہمیت ہے اور دوسری طرف حیض کے متعلق بعض مسائل اور مباحث کی پیچیدگی کا معاملہ ہے ۔علماء فرماتے ہیں کہ حیض کی عادت بدل جانے کے مسائل بہت زیادہ درپیش ہوتے ہیں اور انہیں سمجھنا اور پھر مختلف صورتوں پر ان کو اپلائی کرنا بھی ایک مشکل کام ہے حتی کہ علماء اس قسم کے مسائل بیان کرنے سے پہلےلکھتے ہیں کہ آستین چڑھا کر ، کمر بستہ ہو کر یہ مسائل سیکھنا شروع کریں(کما قال فی شرح ذخر المتاھلین،ص66) اور عورتوں کی عادت نوٹ نہ کرنے اور یاد نہ رکھنے جیسی غفلت مسائل کی پیچیدگی میں اوراضافہ کردیتی ہے۔

    کتاب لکھنے کی وجہ:

    ان حالات میں جب اس علم کے ماہرین کا فقدان ہواور آسان اور عام فہم انداز سے لکھے ہوئے مسائل بھی دستیاب نہ ہوں تو شرعی احکام پر عمل کرنا مشکل سے مشکل تر بن جاتا ہے۔ انہیں حالات اور وجوہات کے پیش نظر کچھ عرصہ قبل شیخ الحدیث و التفسیر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد قاسم عطاری دام ظلہ العالی نے راقم الحروف کو ارشاد فرمایا کہ طہارت کے ان مسائل کو ایک کتاب میں اس انداز سے جمع کریں کہ ان کو سمجھنا آسان ہو ۔

    امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی نصیحت:

    اور جب اس ارادے کاتذکرہ قبلہ مفتی صاحب نے شیخ طریقت حضرت علامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ سے کیا تو انہوں نے کتاب لکھنے کے حوالے سے کچھ نصیحتوں پر مشتمل ایک پیغام بھیجا، جوافادہ عام کے لئے یہاں نقل کیا جاتا ہے: ” اس دور میں کتاب لکھنے والا یہ ذہن بنائے کہ میں گویا بچّوں کو سمجھا رہا ہوں۔ اگرچِہ یہ جملہ مبالغے پر مبنی ہے تاہم لوگوں کی اُردو بہت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔مثلاً ایک تعداد ملے گی جو سلام، کلام، فرحت ، زینت ، آمد ، شِکم ، اَلم، درآمد، برآمد، دائیں بائیں۔ ملاحظہ، مطبوعہ وغیرہ وغیرہ کے مَعانی نہیں سمجھتی ۔ انقص مشورہ ہے کہ اصطلاحات کے حتَّی الامکان آسان لفظوں میں معانی لکھے جائیں۔ ضرورتاً انگلش الفاظ کا بھی استعمال کیاجائے۔ صحیح بات یہ ہے کہ آسان لکھنے کیلئے بھی تجربہ ہونا چاہئے ورنہ ہم جن الفاظ کو ’’بہت آسان‘‘ سمجھ رہے ہوتے ہیں بارہا وہ عوام کیلئے ’’ بہت مشکل ‘‘ ہوا کرتے ہیں۔آگے چل کر شاید اِس سے بھی زیادہ کمزوری آئے۔ باہر ملکوں میں آپ]مراد مفتی قاسم صاحب ہیں[ جا چکے ہیں وہاں کے پاکستانیوں کی نئی پود کی اردو کا حال آپ سے مخفی نہ ہوگا۔ بہرحال کوشش نہ چھوڑی جائے۔ السَّعی مِنّی والا ِتْمام مِنَ اللہ ۔“

    اندازِ کتاب:

    سیدی امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کی درج بالا باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس کتاب کو لکھتے ہوئے آسان سے آسان انداز اپنانے کی کوشش کی ہے۔ مسائل بھی سوالاً جواباً لکھے ہیں کہ آسانی بھی رہے او رقدرے دلچسپ بھی ہو جائے۔ اس کے علاوہ جگہ جگہ مثالوں کے ذریعے تفہیم کی گئی ہے۔ بالخصوص حیض کی عادت بدلنے کی مختلف صورتوں کی دقت دیکھتے ہوئے کتاب کے آخر میں خاتمہ کا اضافہ کیا گیا اور اس میں ان صورتوں کی تفہیم کے لئےکلر فل نقشے کی مدد سے صورت کو واضح کیا گیا اور ہر مرحلے پر کیا شرعی حکم بنتا ہے ؟اس کی وضاحت کی گئی ۔ امید ہے کہ اس کی مدد سے ان مسائل کو سمجھنا بہت آسان ہوگا لیکن بہرحال ان کو پڑھنے اورسمجھنے کے لئے غور وفکر اور حاضر دماغی اور یکسوئی کے ساتھ مطالعہ کرنا ہوگا اور ہو سکتا ہے کسی صاحب ِعلم سے سیکھنااور مشورہ بھی کرنا پڑے۔

    احادیث سے استفادہ :

    اس کتاب کے پہلےباب میں حیض ، نفاس اور استحاضہ کے موضوع پر مروی احادیث و روایات کو جمع کیا گیا ہے۔ ان احادیث کو مختلف عناوین کے تحت مرتب بھی کیا گیا ہے اور ان کے ساتھ مختصر تشریح اور متعلقہ ضروری مسئلہ بھی واضح کیا گیا ہے تاکہ حدیث کا مفہوم سمجھنا آسان ہو ۔ بالخصو ص استحاضہ کے موضوع پر آنے والی مختلف احادیث میں چونکہ جو احکام بیان ہوئے وہ بظاہر ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں لیکن حقیقتاً یہ اختلاف سوال کرنے والی خواتین کی کیفیات کے مختلف ہونے کی وجہ سے تھا ۔ تو اس طرح کی احادیث کاموقع و محل اور صحیح مفہوم واضح کرنے کی بہت زیادہ حاجت تھی لہذا اس مجموعہ احادیث میں اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ان احادیث کا موقع و محمل واضح کرتے ہوئے تطبیق دی گئی ہے۔ ساتھ ہی ان احادیث کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ صحابیات رضی اللہ عَنہُنَّ اس طرح کے مسائل کو بھی سیکھا اور سکھایا کرتی تھیں بالخصوص حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے اس موضوع پر بہت سی احادیث مروی ہوئی ہیں۔ نیز ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض صحابیات کو استحاضہ کا مسئلہ بھی رہااوران میں سے بعض کو یہ حکم بھی دیا گیا کہ وہ ہر نماز کے وقت غسل کر کے نماز پڑھا کریں ۔ چنانچہ وہ ایک عرصے تک اس حکم پر عمل کرتی رہیں۔ ان صحابیات کا یہ عمل ہمارے لئے نمونہ اور اعلی مثال ہے ، جس سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ شریعت کی طرف سے بعض صورتوں میں اگر ایسا حکم ملے جس میں آزمائش آئے تو اس وقت شریعت کے حکم سے روگردانی کرنے کے بجائے اس پر عمل کرنا چاہیے اور رضائے الٰہی و اخروی ثواب کی امید رکھنی چاہیے۔ یقیناً جس عمل میں مشقت زیادہ ہوگی اس کا ثواب بھی زیادہ ہوگا۔

    وہ کتب جن سے مدد لی گئی:

    اس کتاب کو تیار کرتے ہوئے بنیادی طور پر علامہ برکوی علیہ الرحمۃ کے رسالے ” ذخر المتاھلین والنساء فی تعریف الاطھار والدماء “ اور اس پر علامہ شامی علیہ الرحمۃ کی شرح” منھل الواردین من بحار الفیض علی ذخر المتاھلین فی مسائل الحیض “کو سامنے رکھا گیا ہے۔ اور کتاب کا خاکہ و ابواب بندی بھی تقریبا اسی طرح کی ہے جو اس رسالے کی تھی۔ البتہ بعینہ اسی ترتیب سے مسائل کو نقل کرنے کا التزام نہیں کیا گیا، نہ ہی اس رسالے کےتمام مسائل نقل کئے گئے ہیں۔ اس رسالے کے علاوہ دیگر فقہی کتب جیسے درمختار و رد المحتار،فتاوی تاتار خانیہ،مبسوط سرخسی ، فتاویٰ ہندیہ، جد الممتار، فتح القدیر، فتاوی ٰرضویہ اور بہار شریعت وغیرہ سے بھی کافی مدد لی گئی او ران کتب سے استفادہ کرتے ہوئے مسائل کا اضافہ کیا گیا ہے۔اس کے علاوہ خاتمہ میں جو مثالوں کی وضاحت کی گئی اس کا بنیادی خاکہ ایک عربی رسالے سے لیا گیا ہے جو شرح” منہل الواردین “مطبوعہ دار الفکر ، دمشق کے آخر میں بطور ضمیمہ بنام” ارشاد المکلفین الی دقائق ذخر المتأھلین “شامل ہے۔

    حوالہ جات کا انداز:

    کتاب میں جو مسائل لکھے گئے ہیں ، ان کا حوالہ مسئلے کے ساتھ دیا گیا ہے۔ لیکن محولہ کتب سے مسئلہ لفظ بہ لفظ نقل نہیں کیا گیا( اِلّا ما شاء اللہ ) بلکہ اکثر و بیشتر تسہیل کی خاطر اپنے الفاظ میں مسائل بیان کئے ہیں۔اوربعض اوقات ایک مسئلے کے ساتھ دو یا زیادہ کتب کے حوالے دیئے گئے ہیں۔ایسی جگہوں پر یا تو وہ پورا مسئلہ ہی دونوں کتابوں میں ہےاور تاکید کے طور پر دو حوالے دیئے گئے ہیں یا اس پہلو سے بھی دو یا زیادہ حوالے دیئے گئے ہیں کہ مسئلہ ان دو یا تین کتب سے ملا کر نقل کیا گیا ہے۔

    دعائے خیر:

    اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو شش کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور اس کتاب کو عوام و خواص کے لئے نفع مند بنائے ۔اور اس کتاب کو میری ، میرے اساتذہ بالخصوص مفتی قاسم صاحب دامت برکاتہم العالیہ ، میرے والدین و اہل و عیال کی بخشش کا ذریعہ بنائے۔اس کتاب میں جو خوبی ہے یقینا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے او رجو نقص ، خامی یا غلطی ہے وہ میری طرف سے ہے۔ اہل علم حضرات کتاب میں کسی قسم کی غلطی پائیں تو وہ ضرور درج ذیل میل ایڈریس پر مطلع فرمائیں: sajid2526@gmail.com اِ ن شاءَاللہ اس غلطی کی تصحیح کی مقدور بھر کوشش کی جائے گی۔

    مجلس آئی ٹی اور مجلس افتا کی اہم کاوش:

    طہارت کے ان مسائل کو مزید آسان انداز سے خواتین تک پہنچانے کے لئے اَلحمدُلِلّٰہ دعوتِ اسلامی کے شعبہ آئی ٹی اور دار الافتاء اہلسنّت کے تحت ایک موبائل ایپلی کیشن پر بھی کام ہو رہا ہے۔ اس ایپلی کیشن کے ذریعے خواتین نہ صرف اپنے حیض کی روٹین بآسانی محفوظ رکھ سکیں گی بلکہ اپنی کیفیت کے مطابق بہت حد تک شرعی احکام کو بھی بآسانی جان سکیں گی۔ دعاہے اللہ پاک اس کام کو بھی جلد پایہ تکمیل تک پہنچائے اور مسلمانوں کے لئے نفع مند بنائے۔ محمد ساجد عطاری 30شوال المکرم، 1442ھ/11 جون 2021 پہلا باب

    حیض و نفاس کے متعلق آیات و احادیث

    کتاب کے اس پہلے باب میں ان احادیث اور روایات کو جمع کیا گیا ہے جو حیض و نفاس اور استحاضہ کے متعلق مروی ہیں۔اس باب میں حیض و نفاس سے متعلقہ فقہی مسائل کو تفصیل سے بیان نہیں کیا جائے گا ، بلکہ احادیث و روایات کی مختصر شرح اور مختلف احادیث کا صحیح محمل و مفہوم بیان کرنے کے ساتھ ساتھ فقط حدیث سے متعلق ضروری فقہی مسئلے پر گفتگو ہوگی۔ اور حیض و نفاس وغیرہ کے متعلق فقہی احکام کی تفصیل اس سے اگلے باب میں بیان کی جائے گی۔ یوں یہ باب گویا اگلے باب میں آنے والے فقہی مسائل کے لئے نہ صرف ایک تمہیدکی حیثیت رکھتا ہے بلکہ ان مسائل کے ماخذ ، دلیل اور سند کی بھی حیثیت رکھتا ہے۔ حیض و نفاس اور استحاضہ کے متعلق جو احادیث مروی ہوئی ہیں وہ مختلف کتب احادیث میں ہیں ۔ اور سنن دارمی وغیرہ بعض کتب حدیث میں اگرچہ کافی بڑی تعداد میں یہ روایات ہیں لیکن پھر بھی بہت سی روایات اس کے بجائے دوسری کتب میں ہیں ۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہ اس باب کے اندر اس موضوع پر مروی ہونے والی احادیث وروایات کو کافی حد تک جمع کر دیا گیا ہے ۔ اور نہ صرف جمع کیا گیا ہے بلکہ عنوانات دے کر مرتب بھی کیا گیا ہے اورساتھ مختصر شرح بھی بیان کی گئی ہے۔ بالخصوص وہ احادیث جن میں ظاہری طور پر اختلاف دکھائی دیتا تھا کہ ایک ہی مسئلے کے متعلق مختلف حکم بیان کیا گیا تھا ، ان احادیث کا صحیح محمل بیان کر کے تطبیق واضح کر دی گئی ہے۔ امید ہے اب ان احادیث سے استفادہ کرنا بہت آسان ہوگا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان احادیث کے انوار سے منور فرمائے۔

    حیض سے متعلق ارشاد باری تعالیٰ:

    اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ یَسْــٴَـلُوْنَكَ عَنِ الْمَحِیْضِؕ-قُلْ هُوَ اَذًىۙ-فَاعْتَزِلُوا النِّسَآءَ فِی الْمَحِیْضِۙ-وَ لَا تَقْرَبُوْهُنَّ حَتّٰى یَطْهُرْنَۚ-فَاِذَا تَطَهَّرْنَ فَاْتُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَكُمُ اللّٰهُؕ-اِنَّ اللّٰهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَهِّرِیْنَ(۲۲۲) ترجمۂ کنزُالعِرفان : اور تم سے حیض کے بارے میں پوچھتے ہیں تم فرماؤ: وہ ناپاکی ہے تو حیض کے دنوں میں عورتوں سے الگ رہو اور ان کے قریب نہ جاؤ جب تک خوب پاک نہ ہوجائیں پھر جب پاک ہوجائیں تو ان کے پاس وہاں سے جاؤ جہاں سے تمہیں اللہ نے حکم دیاہے ، بیشک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب صاف ستھرے رہنے والوں کو پسند فرماتا ہے۔ (سورہ بقرہ:222) اس آیت کا شان نزول اور پس منظر بیان کرتے ہوئے شیخ الحدیث والتفسیر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد قاسم قادری مُدَّ ظِلُّہُ العالی تفسیر صراط الجنان میں لکھتے ہیں:”عرب کے لوگ یہودیوں اور مجوسیوں کی طرح حیض والی عورتوں سے بہت نفرت کرتے تھے، ان کے ساتھ کھانا پینا، ایک مکان میں رہنا انہیں گوارا نہ تھا بلکہ یہ شدت یہاں تک پہنچ گئی تھی کہ ان کی طرف دیکھنا اور ان سے کلام کرنا بھی حرام سمجھتے تھے جبکہ عیسائیوں کا طرزِ عمل اس کے بالکل برعکس تھا یعنی وہ ان دنوں میں عورتوں سے ملاپ میں بہت زیادہ مبالغہ کرتے تھے۔ مسلمانوں نے حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے حیض کا حکم دریافت کیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی (جو اوپر مذکور ہے)۔ اور اِفراط و تفریط کی راہیں چھوڑ کر اعتدال کی تعلیم فرمائی گئی اور بتادیا گیا کہ حیض کی حالت میں عورتوں سے ہم بستری کرنا حرام ہے۔“ (صراط الجنان، 1/ 342)

    حیض کی ابتداء کے متعلق روایات:

    حیض کی ابتداء کب سے ہوئی ؟ اس کے متعلق روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضرت حواء رضی اللہ عنہا کو جنت سے زمین پر اتارا گیا تو اس کے بعد حضرت حواء رضی اللہ عنہا سے ہی اس کی ابتداء ہوئی تھی ،چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:” اخبرني حبيبي جبريل ان الله بعثه الى امنا حواء حين دميت فنادت ربها: جاء منی دم لا أعرفه فناداها لادمينك وذريتك ولاجعلنه كفارة وطهورا “ترجمہ: مجھے میرے حبیب جبریل ( علیہ السلام )نے خبر دی کہ اللہ پاک نے ان کو ہماری ماں حواء کی طرف بھیجا جب انہیں خون آیا تھا اور انہوں نے اپنے رب کو پکار کر عرض کی تھی : ”(اے میرے مولا): مجھے ایسا خون آیا ہے کہ جسے میں نہیں پہچانتی ۔“ پھر اللہ تعالیٰ نے اماں حواء کو ندا ء دی اور فرمایا: ”میں تمہیں اور تمہاری اولاد کو اس خون میں ضرور مبتلا کروں گا اور اسے ( گناہوں کا )کفارہ اور(گناہوں سے ) پاک کرنے والا بنا دوں گا۔“ (كنز العمال بحوالہ الافراد للدارقطنی و الدیلمی، 9/ 623) اسی طرح امام ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ امام حاکم اور امام ابن منذر رحمۃ اللہ علیہما نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی ہے کہ آپ نے فرمایا: ” ان ابتداء الحيض كان على حواء بعد ان اهبطت من الجنة “ ترجمہ: جب حضرت حواء ( رضی اللہ عنہا ) کو جنت سے اتار دیا گیا تو اس کے بعد ان سے حیض کی ابتداء ہوئی تھی۔ (فتح الباری، 1/ 400، دار المعرفہ، بيروت) امام بخاری رضی اللہ عنہ نے بھی ایک حدیث پاک سے یہ بات ثابت کی ہے۔ وہ روایت یہ ہے کہ حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ہم حج کے لیے نکلے ۔ جب سرف کے مقام پر پہنچے مجھے حَیض آیا تو میں رو رہی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میرے پاس تشریف لائے ۔ فرمایا: ”تجھے کیا ہوا؟ کیا تو حائض ہوئی؟“ عرض کی: ہاں۔ فرمایا:” ان هذا امر كتبه الله على بنات آدم، فاقضی ما يقضی الحاج، غير ان لا تطوفی بالبيت “ ترجمہ: یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے بناتِ آدم (آدم علیہ السلام کی بیٹیوں )پر لکھ دیا ہے ۔تو آپ وہ تمام مناسک (افعال حج) ادا کریں جو ایک حاجی کرتا ہے ، مگر یہ کہ خانہ کعبہ کا طواف نہ کریں ۔ (صحيح البخاری، کتاب الحیض ، 1/ 67، دار طوق النجاۃ)

    حیض کی کم از کم اور زیادہ سے زیادہ مدت کے متعلق احادیث:

    حیض کی کم از کم مدت تین دن اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن ہے ۔اس بارے میں کثیر روایات مروی ہیں ۔ چنانچہ حضرت ابو امامہ باہلی، حضرت واثلہ بن اسقع ، حضرت ابو سعید خدری اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:” اقل الحيض ثلاث، واكثره عشر “ترجمہ: کم از کم حیض تین( دن رات) اور زیادہ سے زیادہ دس (دن رات) ہوتا ہے۔ (المعجم الكبير،8/ 129، مطبوعہ قاھرہ) (التحقيق لابن جوزی، 1/ 261، دار الكتب العلميہ، بيروت) (سنن الدارقطني،1/ 406، مؤسسۃ الرسالہ، بیروت) (العلل المتناهيۃ لابن الجوزی ،1/ 384، مطبوعہ فيصل آباد ) اوپر مذکور جو الفاظ ہیں وہ المعجم کے ہیں اوردار قطنی نے جو ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ، اس کے الفاظ یہ ہیں :” اقل ما يكون من الحيض للجارية البكر والثيب ثلاث واكثر ما يكون من المحيض عشرة ايام “ ترجمہ: باکرہ (کنواری) اور ثیبہ (شادی شدہ) لڑکی کا کم از کم حیض جو ہو سکتا ہے وہ تین دن ہے اور زیادہ سے زیادہ دس دن ۔ (سنن الدارقطنی،1/ 405، مؤسسۃ الرسالہ ، بیروت) اسی طرح حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا: ” لا حيض دون ثلاثة ایام ولا حيض فوق عشرة ايام “ترجمہ: حیض نہیں ہے تین دن سے کم اور حیض نہیں ہے دس دن سے زیادہ۔ (الكامل فی ضعفاء الرجال ، 7/ 322، دار الكتب العلميہ، بيروت) اس کے علاوہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ” الحيض ثلاثة أيام وأربعة وخمسة وستة وسبعة وثمانية وتسعة وعشرة فإذا جازت العشرة مستحاضة “ترجمہ: حیض تین دن ہے اور چار اور پانچ اور چھ او رسات اور آٹھ اور نو اور دس دن (تک)ہے ۔ پھر جب دس دن سے زیادہ ہو جائے تو وہ (عورت )استحاضہ والی ہے۔ (1) (الكامل فی ضعفاء الرجال ، 3/ 127، دارالكتب العلميہ، بيروت) ان تمام روایات سے حیض کی کم از کم مدت اور زیادہ سے زیادہ مدت ثابت ہوتی ہے۔اور آخری روایت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اگر خون دس دن سےبھی زیادہ ہو جائےتو وہ حیض نہیں بلکہ استحاضہ کہلائے گا۔

    طُہر (پاکی) کی کم از کم مدت کے متعلق حدیث:

    شرعی طور پر ایک حیض کے بعد دوسرا حیض اس کے متصل نہیں ہو سکتا ، بلکہ درمیان میں کچھ ایام کا فاصلہ ہوتا ہے جسے طُہر یا پاکی کا زمانہ کہا جاتا ہے ۔اس طُہر کی زیادہ سے زیادہ تو کوئی حد متعین نہیں ہے ، لیکن کم از کم حد شرعی طور پر 15 دن متعین ہے جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:” اقل الحيض ثلاث واكثره عشر واقل ما بين الحيضتين خمسة عشر يوما “ترجمہ: کم از کم حیض تین( دن رات) اور زیادہ سے زیادہ دس (دن رات) ہوتا ہے۔اور دو حیضوں کے درمیان کم از کم مدت پندرہ دن ہے۔(2) (التحقيق لابن جوزی،1/ 262، دار الكتب العلميہ، بيروت)(العلل المتناهيۃ، 1/ 383، مطبوعہ فيصل آباد)

    نفاس کی مدت کے متعلق چند احادیث :

    بچے کی پیدائش کے بعد عورت کو جو خون آتا ہے، اسے نفاس کہا جاتا ہے ۔ اس کی کم سے کم تو کوئی مدت متعین نہیں ہے یہ ایک دن یا اس سے بھی کم ہو سکتا ہے لیکن اس کی زیادہ سے زیادہ مدت شرعی طور پر چالیس دن متعین ہے ، اس سے زیادہ نہیں ہو سکتا ۔ جیسا کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :” كانت النفساء على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم تقعد بعد نفاسها أربعين يوما - أو أربعين ليلة “ترجمہ: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانہ مبارکہ میں نفاس والی عورتیں نفاس کے بعد چالیس دن (یا چالیس راتیں) بیٹھا کرتی تھیں۔(یعنی نمازیں نہیں پڑھا کرتی تھیں۔) (سنن ابی داؤد، 1/ 83، مکتبۃ عصریہ ، بیروت) اسی طرح سنن ابن ماجہ و سنن دارقطنی میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، فرمایا: ” كان رسول الله صلى الله عليه وسلم وقت للنفساء أربعين يوما، إلا أن ترى الطهر قبل ذلك “ترجمہ: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے نفاس والی عورتوں کے لئے چالیس دن میعاد مقرر فرمائی، الا یہ کہ وہ عورت اس سے پہلے پاک ہو جائے۔ (سنن ابن ماجہ، 1/ 213، دار احياء الكتب العربيۃ) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہونے والی اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ نفاس کی مدت چالیس دن، اس عورت کے لئے ہے جس کو خون جاری رہے ، ورنہ اگر کسی عورت کا خون چالیس دن سے پہلے ہی رک جائے تواس کو پاک ہونے کے بعدسے ہی نمازیں شروع کردینے کا حکم ہے ۔ آگے آنے والی حدیث میں بھی اس بات کا بیان ہے ۔لہذا خون رکنے کے بعد خوامخواہ چالیس دن مکمل ہونے تک نمازیں نہ پڑھنا حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔

    حیض کا خون دس دن سے اور نفاس کا چالیس دن سے بڑھ جانے کے متعلق احادیث:

    حیض کا خون اگر دس دن مکمل ہونے کے بعد بھی جاری رہے یا نفاس کا خون چالیس دن مکمل ہونے کے بعد بھی جاری رہے ، تو اب مزید نمازوں سے رکے رہنے کی اجازت نہیں ہوتی بلکہ حکم ہوتا ہے کہ غسل کرکے نمازیں شروع کر دے اگرچہ خون جاری ہو،کیونکہ اس مدت کے بعد آنے والا خون حیض یا نفاس نہیں ہوتا بلکہ یہ استحاضہ (بیماری کا خون) کہلاتا ہے ۔ جیسا کہ المعجم الاوسط للطبرانی، سنن دارقطنی ، اور المستدرک للحاکم میں حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سےاور تاریخ دمشق لابن عساکر میں حضرت ابو درداء اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ( والنظم للدارقطنی ): ” تنتظر النفساء اربعين ليلة فان رات الطهر قبل ذلك فهي طاهر وان جاوزت الاربعين فهي بمنزلة المستحاضة تغتسل وتصلي فان غلبها الدم توضات لكل صلاة “ترجمہ: نفاس والی عورتیں چالیس دن تک انتظار کریں ، پھر اگر وہ اس سے پہلے پاکی دیکھ لے(یعنی خون آنا رُک جائے ) تو وہ پاک ہے۔اور اگر چالیس دن سے بھی زیادہ خون آئے تووہ عورت مستحاضہ(استحاضہ والی عورت) کے قائم مقام ہے، لہذا وہ غسل کر کے نماز پڑھے پھر اگر خون غالب ہو تو ہر نماز کے لئے وضو کر لیا کرے۔ ( سنن دارقطنی، 1/ 410، مؤسسۃ الرسالۃ، بيروت)(المستدرك للحاكم، 1/ 283، دار الكتب العلميۃ، بيروت) اوپر مذکور روایت میں حیض والی عورت کا بیان نہیں ہے ، لیکن المعجم الاوسط کی روایت میں حیض والی عورت کا حکم بھی بیان ہوا ہے ۔ چنانچہ اس میں یہ بھی ہے:” الحائض تنظر ما بينها وبين عشر، فان رات الطهر فهي طاهر، وان جاوزت العشرة فهي مستحاضة تغتسل وتصلي، فان غلبها الدم احتشت، واستثفرت، وتوضات لكل صلاة “ترجمہ: حیض والی عورت حیض کے شروع ہونے سے دس دن (مکمل ہونے )تک انتظار کرے۔ پھر اگر وہ (اس دوران ) پاکی دیکھ لے (یعنی خون آنا رُک جائے ) تو وہ پاک ہے اور اگر خون دس دن سے آگے بڑھ جائے تو وہ مستحاضہ ہے، لہذا اب وہ غسل کرے اور نماز پڑھے، پھر اگر خون اس پر غالب ہو تو روئی رکھ لے اورکپڑے کا لنگوٹ باندھ لےاور ہر نماز کے لئے وضو کر لیا جائے۔(المعجم الاوسط ،8/ 173، دار الحرمين ، القاهرة) ان روایات سےمعلوم ہوا کہ حیض کا خون دس دن یا نفاس کا خون چالیس دن مکمل ہونے کے بعد بھی جاری رہے تو اب عورت نےطہارت حاصل کرکے نمازیں شروع کر دینی ہیں۔ لیکن یہ بھی ساتھ واضح رہے کہ جس کو پہلے بھی حیض آچکا ہے ، اس کے لئے یہ پچھلے دس دن ، جن میں خون جاری رہا ، یہ سارے کے سارے حیض نہیں کہلائیں گے ، بلکہ پچھلی بار کی عادت کے مطابق جتنے دن بنتے ہیں ، فقط اتنے دن ہی حیض کہلائیں گے اور بقیہ دنوں کی نمازوں کی قضا کرنی پڑے گی۔(3) یہ مسئلہ بھی حدیث میں بیان ہوا ہے ۔ چنانچہ حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ” لا يكون الحيض للجارية والثيب التي قد أيست من الحيض أقل من ثلاثة ايام ولا اكثر من عشرة ايام فاذا رات الدم فوق عشرة ايام فهي مستحاضة فما زاد على ايام اقرائها قضت “ترجمہ: کنواری لڑکی اوروہ شادی شدہ عورت جو حیض سے مایوس ہو چکی ، ان کا حیض تین دن سے کم اور دس دن سے زیادہ نہیں ہو سکتا۔پس اگر وہ دس دن سے زیادہ خون دیکھے تو وہ مستحاضہ (استحاضہ والی ) ہےلہذا جو اس کی عادت سے زائد دن ہیں وہ ان دنوں کی (نمازوں کی) قضا کرے گی۔ ( سنن دارقطنی، 1/ 405، مؤسسۃ الرسالۃ، بيروت)
    (1) یہ جو اوپرروایات ذکر کی گئی ہیں ، یہ چھصحابہ کرام ( 1)حضرت ابو امامہ ( 2)حضرت واثلہ بن اسقع ( 3)حضرت معاذ بن جبل ( 4)حضرت ابو سعيد خدری ( 5) حضرت انس بن مالک ( 6) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہم سے مروی ہیں اور ان سب نے حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے حیض کی کم از کم مدت اور زیادہ سے زیادہ مدت کا بیان روایت کیا۔ان روایات کی اسناد میں اگرچہ فنی طور پر کلام ہے لیکن علماء فرماتے ہیں کہ مجموعی طور پر یہ احادیث حجت ہیں کہ بعض روایات سے دوسری بعض کو تقویت مل رہی ہے اور اس کے علاوہ کئی صحابہ کرام سے موقوفا صحیح اسناد سے بھی حیض کی مدت کے حوالے سے یہی تفصیل مرو ی ہے جس سے ان احادیث کو مزید تقویت ملتی ہے ۔ فتح القدیر میں ہے:” فهذه عدة أحاديث عن النبي - صلى الله عليه وسلم - متعددة الطرق، وذلك يرفع الضعيف إلى الحسن والمقدرات الشرعية مما لا تدرك بالرأي، فالموقوف فيما حكمه الرفع، بل تسكن النفس بكثرة ما روى فيه عن الصحابة والتابعين إلى أن المرفوع مما أجاد فيه ذلك الراوي الضعيف “(فتح القدير،1/ 162، دار الفکر) اور علامہ عینی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں :” قد شهد لمذهبنا عدة أحاديث من عدة عن الصحابة من طرق مختلفة كثيرة [يشد] بعضها بعضا، وإن كان كل واحد ضعيفا، لكن يحدث عند الاجتماع ما لا يحدث عند الانفراد، على أن بعض طرقها صحيحة، وذلك يكفي للاحتجاج؛ خصوصا في المقدرات “(بنایہ، 1/ 626، دار الکتب العلمیہ) علامہ عینی رحمۃُ اللہِ علیہ نے بنایہ کے باب الحیض میں اس مقام پر صحابہ واسلاف سے مروی روایات کو بھی نقل کیا ہے ، جو دیکھنا چاہے اس مقام سے دیکھ سکتا ہے۔ (2): اس حدیث پاک کی سند میں اگرچہ کلام ہے لیکن یہ حدیث موضوع نہیں اسی وجہ سے علامہ ابن جوزی نے اسے ”العلل المتناہیہ “میں لکھا ہے جس میں وہ شدید الضعف حدیث تو لاتے ہیں لیکن قطعی موضوع احادیث نہیں لاتے کما ذکرہ فی اللآلیء المصنوعۃ ۔ نیز مجتہدین ، اہل علم اور فقہاء کا اس حدیث پر عمل ہے اور اہل علم و مجتہدین کے عمل سے حدیث قوی ہو جاتی ہے جیسا کہ فن اصول حدیث کے ماہرین نےلکھاہے۔ (3): مثال کے طور پر اس عورت کی عادت سات (7) دن حیض کی تھی ۔ اور اس بار خون دس دن سے بھی بڑھ گیا تو دس دن مکمل ہوتے ہی وہ نمازیں شروع کر دے گی البتہ حیض کی عادت کے دنوں سے زائد جو خون آیا ہے یعنی آخری تین دنوں کی نمازوں کی قضا کرے گی۔ اس مسئلے کی مزید تفصیل آگے کتاب میں آئے گی۔

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن