اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
شیطان لاکھ سُستی دلائے یہ بیان (39صَفحات) مکمّل پڑھ لیجئے۔ اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ
آپکوفکْرِ آخِرت کی دولت اور دُنیا سے بے رَغبَتی کی نِعمت مُیَسَّر آئے گی ۔
سلطانِ دوجہان، مدینے کے سلطان، رَحمتِ عالَمِیان، سروَرِ ذیشان صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ جنَّت نشان ہے: ’’جو مجھ پر جُمُعہ کے دن اور رات 100 مرتبہ دُرُود شریف پڑھے اللہ تَعَالٰی اُس کی 100 حاجتیں پوری فرمائے گا، 70 آخِرت کی اور30 دُنیا کی اور اللہ تَعَالٰی ایک فِرِشتہ مقرَّر فرمادے گا جو اُس دُرُودِ پاک کو میری قبر میں یوں پہنچائے گا جیسے تمہیں تحائف پیش کئے جاتے ہیں ، بِلاشبہ میرا علْم میرے وِصال کے بعد وَیسا ہی ہوگا جیسا میری حیات میں ہے۔ ‘‘ (جَمْعُ الْجَوامِع لِلسُّیُوطی ج۷ ص۱۹۹ حدیث۲۲۳۵۵ )
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
امیرُالْمُؤمِنِین، غَیْظُ الْمُنافقِین، امامُ الْعادِلِین، مُتَمِّمُ الْاَربَعِین، خلیفۃُ الْمُسلمین حضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کے دَورِ خِلافت میں حضرتِ سیِّدُنا سَعد بن ابی وقّاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی سِپَہ سالاری میں ’’ جنگِ قادِسِیہ‘‘ میں لشکرِ اسلام نے شاندار کامیابی حاصل کی، اِس جنگ میں 30ہزارمَجوسی یعنی آتَش پَرَست موت کے گھاٹ اُترے جب کہ 8ہزار مسلمانوں نے جامِ شہادت نوش کیا۔ ’’ قادِسِیہ‘‘ کی عظیم ُ الشّان فَتْح کے بعد حضرتِ سیِّدُنا سَعدبن ابی وقّاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بابِل تک آتَش پرستوں کا تعاقُب کیا اور آس پاس کے سارے عَلاقے فَتْح کرلئے۔ ایران کا پایۂ تَخت (CAPITAL) مَدائِن جو کہ دریائے دِجلہ کے مشرِقی کَنارے پرواقِع تھا، یہاں سے قریب ہی تھا۔ امیرُالْمُؤمِنِین حضرتِ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی ہِدایت کے مطابِق حضرتِ سیِّدُنا سعد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ مَدائِن کی طرف بڑھے، آتَش پرستوں نے دریا کا پُل توڑ دیا اور تمام کِشتیاں دوسرے کَنارے کی طرف لے گئے۔ اُس وقت دریا میں خوفناک طوفان آیا ہواتھااور اُس کو پار کرنا بظاہِرناممکِن نظر آتا تھا، حضرتِ سیِّدُنا سَعد بن ابی وقّاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے یہ کیفیت دیکھی تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا نام لے کر اپنا گھوڑا دریامیں ڈال دیا! دوسرے مجاہِدین نے بھی آپ کے پیچھے پیچھے اپنے گھوڑے دریا میں اُتار دیئے گویا ـ ؎
دَشْت تو دَشْت ہیں دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے بَحرِ ظُلمات میں دَوڑادیئے گھوڑے ہم نے
دُشمنوں نے جب دیکھا کہ مجاہِدین اسلام دریائے دِجلہ کے پھُنکارتے ہوئے پانی کا سینہ چیرتے ہوئے مردانہ وار بڑھے چلے آرہے ہیں تو اُن کے ہوش اُڑ گئے اور ’’دَیواں آمَدَنْددَیواں آمَدَنْد‘‘ (یعنی دَیوآگئے دَیوآگئے) کہتے ہوئے سر پر پَیر رکھ کربھاگ کھڑے ہوئے۔ شاہِ کِسریٰ کا بیٹا یَزد گرد اپنا حَرَم ( یعنی گھر کی عورَتیں ) اور خزانے کا ایک حِصّہ پہلے ہی ’’ حُلوَان‘‘ بھیج چکا تھا اب خود بھی مَدائِن کے درود یوار پر حسرت بھری نظر ڈالتا ہوا بھاگ نکلا۔ حضرتِ سیِّدُنا سَعد بن ابی وقّاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ’’ مدائن‘‘ میں داخِل ہوئے تو ہر طرف عبرتناک سنّاٹا چھایا ہو اتھا، کِسریٰ کے پُرشِکوہ (پُر۔ شِ۔ کَو۔ ہ) مَحَلّات ، دوسری بلند و بالا عمارات اور سرسبزو شاداب باغات زَبانِ حال سے دنیائے دُوں (یعنی حقیر دنیا ) کی بے ثَباتی (یعنی نا پائیداری ) کا اِعلان کر رہے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر بے اختیار حضرتِ سیِّدُنا سَعد بن ابی وقّاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے کی زَبانِ مبارک پر پارہ 25سُوْرَۃُ الدَّخَان کی آیت نمبر25تا29جاری ہوگئیں ۔
كَمْ تَرَكُوْا مِنْ جَنّٰتٍ وَّ عُیُوْنٍۙ (۲۵) وَّ زُرُوْعٍ وَّ مَقَامٍ كَرِیْمٍۙ (۲۶) وَّ نَعْمَةٍ كَانُوْا فِیْهَا فٰكِهِیْنَۙ (۲۷) كَذٰلِكَ وَ اَوْرَثْنٰهَا قَوْمًا اٰخَرِیْنَ (۲۸) فَمَا بَكَتْ عَلَیْهِمُ السَّمَآءُ وَ الْاَرْضُ وَ مَا كَانُوْا مُنْظَرِیْنَ۠ (۲۹)
ترجَمۂ کنزُ الایمان: کتنے چھوڑ گئے باغ اور چشمے او رکھیت اور عمدہ مکانات، اورنعمتیں جن میں فارِغُ البال تھے، ہم نے یونہی کیا، اور ان کا وارِث دوسری قوم کو کردیا، تو ان پر آسمان اور زمین نہ روئے اور انہیں مُہلَت نہ دی گئی ۔
مدائن سے مسلمانوں کو مالِ غنیمت میں کروڑوں دینار (یعنی کروڑوں سونے کے سکّوں ) کا خزانے کا انبار ہاتھ آیا جس میں نہایت ہی نادِر و نایاب چیزیں تھیں ، ان میں سے کچھ کے نام یہ ہیں : ایران کے مشہورآتَش پرست بادشاہ نَوشیرواں کا زَرنِگار (یعنی سونے کا) تاج، شاہانِ سَلَف ( یعنی ایران کے گزرے ہوئے بادشاہوں کے یادگار ہیروں ) سے جَڑاؤخنجر ، زِرہیں ، خَود اور تلواریں ، خالِص سونے کا قد آور گھوڑا جس کے سینے پر یاقُوت جَڑے تھے، اُس پر سونے کا بنا ہوا ایک سُوارتھا جس کے سر پر ہیروں کا تاج تھا، اِسی طرح ایک طِلائی ( یعنی سونے کی) اُونٹنی اور اس کا طِلائی ( یعنی سونے کا) سُوار ۔ اَیوانِ کِسریٰ (یعنی ایران کے بادشاہوں کے شاہی مَحَل) کا طِلائی فرش یعنی سَونے کا قالین (CARPET) جو بیش قیمت جواہِرات سے آراستہ تھا اور اس کا رَقبہ 60مُرَبَّع گز تھا وغیرہ وغیرہ ۔ مسلمان مالِ غنیمت جَمع کرنے میں ایسے دِیانت دار ثابت ہوئے کہ تاریخِ عالَم اِس کی مثال پیش کرنے سے قاصِرہے، اگر کسی مجاہِد کو ایک معمولی سی سُوئی ملی یا قیمتی ہیرا، اُس نے بِلاتاَ مُّل (تَ ۔ اَم ْ۔ م ُل ) اسے خزانے کے انبار (اَم ۔ بار) میں شامِل کروادیا۔ (البدایۃ والنھایۃ ج۵ص۱۳۵تا۱۴۰ بتصرف وغیرہ)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے، ہمارے اَسلافِ کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام نے بَقائے اسلام کے لیے کیسے کیسے جانبازانہ اِقدام فرمائے! اِس حِکایت سے حضرتِ سیِّدُنا سَعدبن ابی وقّاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ کی بے مثال کرامت بھی سامنے آئی کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بے خَطَراپنا گھوڑا دریائے دِجلہ کی بِپھری ہوئی موجوں میں ڈال دیا! اور یہ بھی معلوم ہوا کہ خواہ کتنا ہی بڑا خزانے کا انبار ہو بِالآخِر بے کار ہو کر رہ جاتا ہے۔ اب ایک بَہُت بڑے غفلت شِعاراسرائیلی مالدار کی عبرتناک حکایت آپ کے گوش گزار کرتا ہوں ، اگر آپ کا دل زندہ ہوا تو اسے سُن کر اِنْ شَآءَاللہ عَزَّ وَجَلَّ آپ کو خَزانے کے انبار بالکل بیکار محسوس ہونے لگیں گے چُنانچِہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعتی اِدارے مکتبۃُ المدینہ کی مَطْبُوعہ 412 صفْحات پرمُشتمِل کتاب ’’ عُیُونُ الحِکایات‘‘ حصّہ اوّل، صفْحہ74 پر نقْل کردہ حِکایَت کا خُلاصہ مُلاحَظہ فرمائیے: حضرتِ سیِّدُنا یزیدبن مَیْسَرَہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ پہلی اُمَّتوں میں ایک مال دار مگر کنجوس شخْص تھا، وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی راہ میں کچھ بھی خرچ نہ کرتا، ہر وقْت کثرتِ دَھن کی دُھن (یعنی دولت کی لگن) میں مگن رہتا اوراِس کی پَیہَم کوشش رہتی کہ بس کسی طرح مال بڑھتا رہے۔ اُس ناعاقِبت اَندیش، حریصِ مال ودولت کی زندَگی کے شب وروز اپنے اَہل وعیال کے ساتھ خوب عَیْش وعِشْرت اور نہایت غَفْلت کے ساتھ بَسَرہو رہے تھے۔ ایک دن اُس کے گھر کے دروازے پر کسی نے دَستک دی۔ اُس غافِل دولت مند کے غلام نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک فقیر کو پایا، آنے کا مقصد پوچھا، جواب ملا: جاؤاور اپنے مالِک کو باہَربھیجو، مجھے اُس سے کام ہے۔ غلام نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا: ’’ وہ تو تیرے ہی جیسے کسی فقیر کی مدَد کرنے باہَر گئے ہیں ۔ ‘‘ فقیر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد دَوبارہ دروازے پر دَستک پڑی، غلام نے دروازہ کھولا تووُہی فقیر نظر آیا ، اب کی بار اُس نے کہا: جاؤ! اپنے آقا سے کہو، مَیں مَلَکُ الْمَوت (عَلَیْہِ السَّلام) ہوں ۔ اُس مال کے نَشے میں دُھت اور یادِ خدا عَزَّوَجَلَّ سے غافِل شخص کوجب یہ پتا چلا توتھرّا اُٹھااور گھبرا کر اپنے غلاموں سے کہنے لگا: ’’ جاؤ! اور اُن سے اِنتِہائی نَرمی کے ساتھ پیش آؤ۔ ‘‘ غُلام باہَر آئے اور مَلَکُ الْمَوت عَلَیْہِ السَّلام کی مِنّت سَماجت کرتے ہوئے عرض گزار ہوئے : ’’ آپ ہمارے آقا کے بدلے کسی اور کی رُو ح قَبْض کر لیجئے اور اُسے چھوڑ دیجئے ۔ ‘‘ آپ عَلَیْہِ السَّلام نے فرمایا: ‘‘ ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا۔ ‘‘ پھر اُس مالدار شخص سے کہا: تجھے جو وَصِیَّت کرنی ہے ابھی کرلے، میں تیری رُوح قبْض کئے بِغیر یہاں سے نہیں جاؤں گا ۔ یہ سُن کروہ مالدار شخص اور اُس کے اَہْل وعِیال چیخ اُٹھے اور رَو نا دَھونا مچا دیا، اُس شخص نے اپنے گھر والوں اور غلاموں سے کہا: سونے چاندی اور خزانوں کے صَندُو ق کھول کر میرے سامنے ڈھیر کردو۔ فوراً حُکْم کی تعمیل ہوئی اوراس کے سامنے زندَگی بھر کے جمْع کئے ہوئے خزانے کا اَنبار لگ گیا۔ خزانے کے اَنبار کو مخاطَب کرکے وہ مالدار شخص کہنے لگا: ’’ اے ذلیل وبَدترین مال ودولت! تجھ پر لعنت! میں تیری مَحَبَّت کی وجہ سے برباد ہوا، ہائے ! ہائے ! میں تیرے ہی سبب سے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت اورتیاریٔ آخِرت سے غافِل رہا ۔ ‘‘ خزانے کے اَنبار سے آوازآئی: اے مال و دولت کے پَرَستارپکّے دنیا دار اور غفلت شِعار! مجھے مَلامَت کیوں کرتا ہے؟ کیا تُو وُہی نہیں جو دُنیا داروں کی نظروں میں ذلیل وخوار تھا! پھرمیری وجہ سے آبرو دار بنا اورتیری رَسائی شاہی دَربار تک ہوئی، میری ہی بدولت تیرا نِکاح مالدار خاندان میں ہوا، یقینایہ تیری ہی بَدبختی ہے کہ تو مجھے شیطانی کاموں میں اُڑاتا رہا ، اگر توراہِ خدا میں خَرچ کرتا تو یہ ذِلّت ورُسوائی تیرا مُقَدّر نہ بنتی، بتا! کیا بُرے کاموں میں خرچ کرنے اور نیک کاموں میں صَرف نہ کرنے کا مشوَرہ میں نے دیا تھا؟ نہیں ، ہرگز نہیں ، تجھے پیش آنے والی تمام تَرتباہی کا ذِمّے دارتُو خود ہی ہے ، (اس کے بعد سیِّدُنا مَلَکُ الْمَوت عَلَیْہِ السَّلام نے اُس کنجوس مالدار کی روح قبض کر لی ) ۔ (عُیُونُ الحِکایات (عَرَبی) ص۴۹مُلَخَّصًا دار الکتب العلمیۃ بیروت )
دولتِ دُنیا کے پیچھے تُو نہ جا آخِرت میں مال کا ہے کام کیا؟
مالِ دُنیا دوجہاں میں ہے وبال کام آئے گا نہ پیشِ ذُوالْجَلال (وسائل بخشش ص۳۷۵)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آپ نے مال ودولت کے دیوانے کی قابِلِ عِبْرَت حِکایَتسماعت فرمائی کہ ایسا شخص جو عُمْر بھر عیش کوشیوں اورنفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑا رہا، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے ملی ہوئی ڈھیل سے بجائے سنبھلنے کے اُس کی غفلتوں کا سِلسِلہ طویل ہوتاچلا گیا، مال کے نَشے میں مَخمور، غریبوں اورمُحتاجوں کی امداد سے دُور اور عیّاشیوں میں مَسرور رہا۔ آخِر کار ’’ ایک دن مرنا ہے آخِر موت ہے ‘‘ کے مِصداق موت کافِرِشتہ آپہنچا، اگرچِہ اُس وقت مال کا خُمار اُترا، ہوش ٹھکانے آئے لیکن ’’ اب پچھتائے کیا ہَوت جب چِڑیاں چُگ گئیں کھیت۔ ’‘ مال و دولت کے حَریص اَفراد جنہیں دُنیا و آخِرت کے بربادہونے کی کوئی فکْر نہیں ہوتی اُن کے لئے اِس حِکایت میں درسِ عِبرت کے بے شمار مَدَنی پھولہیں ۔
گھپ اندھیری قبر میں جب جائے گا بے عمل! بے انتِہا گھبرائے گا
کام مال و زر وہاں نہ آئے گا غافِل انساں یاد رکھ پچھتائے گا
جب ترے ساتھی تجھے چھوڑ آئیں گے قبر میں کیڑے تجھے کھا جائیں گے (وسائل بخشش ۳۷۶)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! یہ حقیقت ہے کہ بعض اَوقات اللہ عَزَّوَجَلَّ کثرتِ مال ومَنال سے نواز کر بھی آزمائش میں ڈال دیتا ہے، جیسا کہ دعوتِ اسلامی کے اِشاعَتی ادارے مکتبۃُ المدینہ کی مطبوعہ 1548 صفْحات پر مشتمل کتاب ’’ فیضانِ سنّت‘‘ جلد اوّل صَفْحہ682پر ہے: صِحّت کی نعمت اور دولت کی کثرت اکثر مُبتَلائے مَعصِیَت کر دیتی ہے، لہٰذا جو (حسین وشانداریا) خوب جاندار یا (زبردست) مالدار یا صاحِبِ اقتِدارہو اُس کو خدائے علیم و خبیرعَزَّوَجَلَّ کی خُفیہ تدبیرسے بَہُت زیادہ ڈَرنے کی ضَرورت ہے، جیسا کہ حضرتِ سیِّدُنا حَسَن بصری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں : ’’ جس شخص پر اللہ عَزَّوَجَلَّ دُنیا میں (روزی میں خوب کثرت ، فرمانبردار اولاد کی نعمت، مال و دولت ، حسین صورت، اچھی صِحّت، منصبِ وَجاہت، عُہدۂ وَ زارت یا صدارت یا حکومت وغیرہ کے ذَرِیعے) فراخی (فَ۔ رَا۔ خی) کرے مگر اُسے یہ اندیشہ نہ ہو کہ کہیں یہ (آسائشیں ) اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خُفیہ تدبیر تو نہیں، تو ایسا شخص اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خُفیہ تدبیر سے غافِل ہے۔ ‘‘ (تَنبِیہُ الْمُغتَرِّیْن ص۱۲۸دارالمعرفۃ بیروت)
خبردار اے جاندار! خبردار اے شاندار! خبر دار اے مالدار! رخبر دار اے سرمایہ دار! خبر دار اے صاحِبِ اقتِدار! خبر دار اے افسر وعہدیدار! ربِّ عزیز و قدیر عَزَّوَجَلَّ کی خُفیہ تدبیرسے خبر دار ! خبر دار! خبردار! کہیں ایسا نہ ہو کہ ملی ہوئی جانی ، مالی یاحکومتی نعمتوں کے ذَرِیْعے ظلم، تکبُّر ، سر کشی اور طرح طرح کے گناہوں کا سِلسِلہ بڑھتا رہے اور کَسا کَسایا سُڈَول (یعنی خوبصورت) بدن اورمال و دَھن جہنَّم کا ایندھن بننے کا سبب بن جائے ۔ اِس ضِمْن میں حدیثِ نبَوِی علٰی صاحِبِہا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلام مَع آیتِ قراٰنی سنئے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی خُفیہ تدبیر سے تھرّایئے: حضرتِ سیِّدُنا عُقْبہ بن عامِر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے رِوایت ہے، نبیِّ اَکرم، نورِ مُجَسَّم، رسولِ مُحتَشَم، شاہِ بنی آدم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عِبرَت نشان ہے: ’’جب تم دیکھو کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ دُنیا میں گناہ گار بندے کو وہ چیزیں دے رہا ہے جو اُسے پسند ہیں تو یہ اُس کی طرف سے ڈِھیل ہے۔ پھر یہ آیَتِ کریمہ تِلاوت فرمائی:
فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ فَتَحْنَا عَلَیْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَیْءٍؕ-حَتّٰۤى اِذَا فَرِحُوْا بِمَاۤ اُوْتُوْۤا اَخَذْنٰهُمْ بَغْتَةً فَاِذَا هُمْ مُّبْلِسُوْنَ (۴۴) (پ۷، اَلْانعام: آیت۴۴)
ترجَمَۂ کنزالایمان: پھر جب اُنہوں نے بُھلا دیا جو نصیحتیں اُن کو کی گئی تھیں ، ہم نے اُن پر ہر چیز کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ جب خوش ہوئے اُس پرجو اُنہیں ملا تو ہم نے اچانک اُنہیں پکڑ لیا اب وہ آس ٹوٹے رَہ گئے۔ (مُسندِ اِمام احمد ج ۶ ص۱۲۲حدیث۱۷۳۱۳ دارالفکربیروت)
مُفسِّرِشَہِیر ، حکیم ُ الا ُمّت مفتی احمد یا ر خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنَّان اِس آیَتِ کریمہ کے تَحت ’’ تفسیرِ نورُ العِرفان‘‘ میں فرماتے ہیں : اِس آیَتِ کرِیمہ سے معلوم ہوا کہ گناہ ومَعاصی کے باوُجُود دُنیو ِی راحتیں ملنا اللہ عَزَّوَجَلَّ کا غضَب اور عذاب (بھی ہو سکتا) ہے کہ اِس سے انسان اور زیادہ غافِل ہو کر گناہ پر دِلَیرہو جاتا ہے ، بلکہ کبھی خیال کرتا ہے کہ’’ گناہ اچّھی چیز ہے ورنہ مجھے یہ نعمتیں نہ ملتیں ‘‘ یہ کُفْرہے ۔ (یعنی گناہ کو گناہ تسلیم کرنا فرض ہے اِس کو جان بوجھ کر اچّھا کہنا یا اچّھا سمجھنا کُفْر ہے۔ کفریہ کلمات کی تفصیلات جاننے کے لئے دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 692 صفْحات پر مشتمل کتاب ‘’ کفریہ کلِمات کے بارے میں سُوال جواب’‘ کا مُطالَعہ فرمایئے) مزید فرمایا: نعمت پر خوش ہونا اگر فخر، تکبُّر اور شیخی کے طور پر ہو تو بُرا ہے اورطریقۂ کُفّار ہے اور اگر شُکْر کے لئے ہو تو بہتر ہے، طریقۂ صالحین ہے۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد