اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
یہ مضمون ”نیکی کی دعوت“ صفحہ259تا 271سے لیا گیا ہے ۔
دُعائے عطار:یاربَّ المصطفےٰ !جوکوئی 14 صفحات کا رسالہ’’ کون سی دُنیا بُری ہے ‘‘پڑھ یا سُن لے اُس کے دِل سے دُنیا کی محبت دُور فرما کر اُسے اپنی اور اپنے پیارے پیارے سب سے آخِری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت عنایت فرما اور اُس کو بے حساب بخش دے۔
اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیه واٰ لهٖوسلّم
سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے: قیامت کے روز لوگوں میں میرے نزدیک تر وہ ہوگا جس نے مجھ پر زِیادہ دُرُودشریف پڑھے ہوں گے۔
(ترمذی،2/27،حدیث:484)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
افسوس !آج اُمَّت کی اکثریت دنیا کو بَہُت زیادہ اَہمیّت دینے کے سبب اسلام کی حقیقی محبّت سے محروم ہو تی جا رہی ہے،اس کے بھیانک نتائج کے ضِمن میں ایک حدیثِ پاک ملاحظہ ہو چُنانچِہ حضرت ابو ہُریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ پاک کے سچے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:جب میری اُمَّت دنیا کو بڑی چیز سمجھنے لگے گی تو اسلام کی ہیبت اس سے نکل جائے گی اور جب نیکی کاحکم دینا اور بُرائی سے منع کرنا چھوڑ دے گی تو وحی کی بَرَکت سے مَحروم ہوجائے گی اور جب آپس میں گالی گلوچ اختیار کرے گی تو اللہ پاک کے ہاں مقامِ عزّت سے گِر جائے گی۔ (نوادرالاصول،1/679، حدیث:933)
دنیا کی محبَّت سے دل پاک مرا کر دو بُلوا کے شہنشاہِ اَبرار مدینے میں
(وسائلِ بخشش ،ص198)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اِس رِوایت میں بیان کیا گیا ہے کہ جب اُمّت دنیا کو خوب اَہمیّت د ینے لگے گی تو اسلام کی ہیبت اس سے نکل جائے گی۔واقعی دنیا کو”بڑی چیز“سمجھنا بَہُت بُرا ہے۔ثوابِ آخِرت کمانے کی نیَّت سے دُنیا کے بارے میں خُصوصی معلومات پر مبنی کچھ مَدَنی پھول پیش کرنے کی سعادت حاصِل کرتا ہوں،دعوتِ اسلامی کے مکتبۃُ المدینہ کے ترجمے والے پاکیزہ قرآن،”کنزالایمان مع خزائن العرفان“صفحہ 252
پر پارہ 7 سورۃُ الانعام آیت نمبر 32میں فرمانِ ربُّ الْانام ہے:( وَ مَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَاۤ اِلَّا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌؕ-وَ لَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَؕ-اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ(۳۲))ترجَمۂ کنز الایمان:”اور دنیا کی زندگی نہیں مگر کھیل کود اور بے شک پچھلا گھر بھلا ان کے لئے جو ڈرتے ہیں تو کیا تمہیں سمجھ نہیں۔“
صدرُالْاَ فاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ خَزائِنُ العِرفان میں اِس آیتِ مبارَکہ کے تَحت فرماتے ہیں:نیکیاں اور طاعتیں(یعنی عبادتیں ) اگرچِہ مؤمنین سے دنیا ہی میں واقِع ہوں لیکن وہ اُمُورِ آخِرت میں سے ہیں۔اس سے ثابِت ہوا کہ اعمالِ متقین(یعنی نیک بندوں کے اَعمال )کے سوا دنیا میں جو کچھ ہے سب لَہو ولَعب(یعنی کھیل کود)ہے۔
دنیا کے غموں کی تم للہ دوا دیدو بُلوا کے غم اپنا دو سرکار مدینے میں
(وسائلِ بخشش، ص196)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
دعوتِ اسلامی کے مکتبۃُ المدینہ کی کتاب”اصلاحِ اعمال “جلداوّل (868 صفحات) صفحہ 128 تا 129 پر ہے:
دُنیا کا لغوی معنیٰ ہے:”قریب“اور دُنیاکو دُنیااِس لئے کہتے ہیں کہ یہ آخرت کی نسبت انسان کے زیادہ قریب ہے یا اس وجہ سے کہ یہ اپنی خواہِشات ولذّات کے سبب دل کے زیادہ قریب ہے۔(حدیقۃ الندیہ ،1/17)
حضرت علّامہ بدرُ الدین عینی رحمۃُ اللہِ علیہ بخاری شریف کی شَرح ”عُمدۃُ القاری“ جلد 1 صفحہ 52پر لکھتے ہیں:”دارِآخِرت سے پہلے تمام مخلوق دُنیا ہے۔“(عمدۃ القاری،1/52) پس اس اعتبارسے سونا چاندی اور ان سے خریدی جانے والی تمام ضَروری وغیر ضَروری اَشیا دنیامیں داخِل ہیں۔( حدیقۃ الندیہ ،1/17)
دنیاوی اَشیا کی تین قسمیں ہیں:(1)وہ دُنیاوی اَشیا جو آخِرت میں ساتھ دیتی ہیں اور ان کا نَفع موت کے بعد بھی ملتا ہے،ایسی چیزیں صِرف دو ہیں:عِلم اور عمل۔عمل سے مُراد ہےاخلاص کے ساتھ اللہ پاککی عبادت کرنا اور دنیا کی یہ قسم مَحْمود(یعنی بَہُت عمدہ)ہے (2)وہ چیزیں جن کا فائدہ صِرف دنیا تک ہی مَحدود رہتا ہے آخِرت میں ان کا کوئی پھل نہیں ملتا جیسے گناہوں سے لذّت حاصل کرنا،جائز چیزوں سے ضَرورت سے زیادہ فائدہ اُٹھانا مثلاً زمین،جائیداد،سونا چاندی،عمدہ کپڑے اور اچھے اچھے کھانے کھانااور یہ دنیا کی مذموم(یعنی قابلِ مذمَّت)قسم میں شامل ہیں(3)وہ اشیا جو نیکیوں پر مدد گار ہوں جیسے ضَروری غذا،کپڑے وغیرہ۔یہ قسم بھی مَحْمود (اچھی) ہے لیکن اگر محض دنیا کا فوری فائدہ اور لذّت مقصود ہو تو اب یہ دنیا مذموم(قابلِ مذمَّت)کہلائے گی۔(احیاء العلوم،3/270-271)
دنیا کے نظاروں سے بھلا کیا ہو سَروکار عُشَّاق کو بس عشق ہے گلزارِنبی سے
(وسائلِ بخشش، ص202)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
دنیاوی کاموں کی تین اقسام ہیں:(1)بعض کام وہ ہیں جن کے بارے میں یہ تصوُّر بھی نہیں کیا جاسکتا کہ یہ اللہ پاک کے لئے کئے گئے ہیں مثلاً ناجائزوحرام کام(2)بعض وہ ہیں جو اللہ پاک کے لئے بھی ہوسکتے ہیں اور اُس کے غیر کے لئے بھی مثلاً غور و تفکّر کرنا اور خواہِشات سے رُکنا کیونکہ اگر لوگوں میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے لئے اور بُزرگی کے حُصُول کی خاطِر غوروفکر کیا یا خواہِشات کو صِرف اس لئے چھوڑ ا کہ مال کی بَچت ہویا صحّت اچھی رہے تو اب یہ کام رِضائے الٰہی کے لئے نہ ہوں گے(3) بعض کام وہ ہیں جو بظاہر نفس کے لئے ہوں مگر حقیقت میں اللہ پاک کی رضا کی نیّت سے کئے گئے ہوں جیسے غذا کھانا،نکاح کرنا وغیرہ۔ (احیاء العلوم،3/273)
تاجِ شاہی اس کے آگے ہیچ ہے مصطَفٰے کی جس کو اُلفت مل گئی
(وسائلِ بخشش، ص209)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب! صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
جب بندہ آخِرت کی بہتری کی غَرَض سے دنیا میں سے کچھ لے گا تو اُسے دنیا دار نہیں کہیں گے بلکہ اس کے حق میں دنیا آخِرت کی کھیتی ہوگی اور اگر ذاتی خواہِش اور حصولِ لذّت کے طور پر یہ چیزیں حاصل کرتا ہے تو وہ دُنیا دار ہے۔(احیاء العلوم،3/272)
دنیا میں حقیقی لذّت کسی شے میں نہیں،البتہ لوگ تکالیف کا خاتمہ کرنے والی چیزوں کو لذَّت کا نام دیتے ہیں مثلاً کھانے میں اِس لئے لذّت ہے کہ وہ بھوک کی تکلیف کو ختم کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب بھوک ختم ہوجائے تو کھانے میں لذّت محسوس نہیں ہوتی۔اسی طرح پانی اس لئے لذیذ لگتا ہے کہ پیاس کو ختم کرتا ہے،جب پیاس بجھ گئی تو لذّت بھی جاتی رہی۔حقیقی لذّتیں تو جنَّت میں نصیب ہوں گی کیونکہ اہلِ جنّت کو جب کوئی تکلیف ہی نہ ہوگی تو اِس سے چھٹکارا دینے والی اشیا کا وُجُود کہاں سے ہو گا؟ لہٰذا ان کی لذّات حقیقی ہوں گی مثلاً ان کے کھانے پینے کی لذّتیں اصلی ہوں گی،محض بھوک اور پیاس ختم کرنے کے لئے نہ ہوں گی۔ (حدیقۃ الندیہ ،1/19ملخصا)