30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ طکیا صدقے میں کالی مرغی دینا ضروری ہے؟(1)
شیطان لاکھ سُستی دِلائے یہ رِسالہ(۱۹صَفحات) مکمل پڑھ لیجیے اِنْ شَآءَ اللّٰہ معلومات کا اَنمول خزانہ ہاتھ آئے گا۔دُرُود شریف کی فضیلت
فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم : مسلمان جب تک مجھ پر دُرُود شریف پڑھتا رہتا ہے فرشتے اُس پر رحمتیں بھیجتے رہتے ہیں ، اب بندے کی مرضی ہے کم پڑھے یا زیادہ ۔(2) صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّدکیاصدقے میں کالی مرغی دینا ضروری ہے؟
سُوال: مجھے مرغی کا کام کرتے ہوئے تقریباً 15 سال ہوگئے ہیں۔میرے چند سوالات ہیں۔(1) اکثر لوگ صدقے کے لئے کالی مرغی مانگتے ہیں، کیا صدقے کے لئے کالی مرغی ضروری ہے؟ (2)کیا مرغی کے پنجے بیچ سکتے ہیں، نیز انہیں کھانا کیسا؟ (3) مرغی کو ذبح کرتے ہوئے اگر بے دھیانی میں اس کا سر الگ ہوگیا تو کیا وہ مرغی بیچنا جائز ہوگا؟ جواب: مَاشَآءَ اللہ ! اللہ پاک آپ کو برکتیں عطافرمائے(1) مرغی کا صدقہ دینے کے لئے کسی رنگ کی شرط نہیں ہے، کسی بھی رنگ کی مرغی کا صدقہ دیا جاسکتا ہے۔ البتہ بعض عاملین ایسے ہوتے ہیں جو کہتے ہیں کہ کالی مرغی یا کالا بکرا لے کر آؤ! جس میں ایک بھی سفید بال نہ ہو۔ اس کے بارے میں مجھے معلومات نہیں ہے، ان کا اپنا حساب کتاب ہوتا ہوگا، البتہ اگر کوئی کالے رنگ کا مطالبہ کرتا ہے تو اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے۔بعض اوقات سفید مرغے کا مطالبہ بھی ہوتا ہے، بلکہ احادیثِ مبارکہ میں سفید مرغا پالنے کی فضیلت آئی ہے کہ اس سے جنات اور بلاؤں سے حفاظت ہوتی ہے۔(3) (2) مرغی کے پنجے کھانا اور انہیں بیچنا دونوں حلال ہیں۔ مرغی کے پنجوں کے بہت سے فوائد ہیں، جوڑوں اور ہڈیوں کے درد میں مرغی کے پنجوں کی یخنی بہت مفید ہوتی ہے، لیکن اسے ہر ایک نہیں کھاتا بلکہ مخصوص غریب لوگ اسے کھاتے ہیں، یہ اتنے مہنگے بھی نہیں ہوتے۔(3) ” بِسْمِ اللہِ اَللہُ اَکْبَرُ “پڑھ کر ذبح کیا اور ذبح کرتے ہوئے سر الگ ہوگیا تو سر بھی حلال ہوگا اور اس مرغی کا گوشت بھی حلال ہوگا، لیکن جان بوجھ کر ایسا نہ کیا جائے کہ اس سے بلاوجہ بے زبان جانور کو تکلیف ہوگی۔ اگر بے خیالی میں کبھی کبھار ایسا ہوجائے تو کوئی حرج نہیں۔کیا اولاد پر ماں کی طبیعت کا اثر ہوتا ہے؟
سُوال: اولاد کی تربیت میں ماں کا کتنا کردار ہوتا ہے؟(نگرانِ شوریٰ کا سُوال) جواب: ماں کی گود پہلا مدرسہ ہوتی ہے۔(4) اگر ماں درست ہو تو بچہ بھی درست ہوگا، ماں حلال کھاتی ہوگی، گناہوں سے بچتی ہوگی، ماں کی طبیعت میں نیکی اور عبادت ہوگی تو بچے میں بھی ایسے ہی اثرات پیدا ہوں گے۔ اگر ماں دودھ پلاتے ہوئے گناہوں بھرے چینلز، میوزک اور ڈانس دیکھ رہی ہے تو پھر بچہ بھی بڑا ہوکر ایسا ہی بنے گا۔ آج کل ایسا ہی ہورہا ہے، کیونکہ فی زمانہ بچے کی پہلی تربیت گاہ یعنی ماں کی گود سے اچھی تربیت نہیں ہورہی ، اِلَّا مَاشَآءَ اللہ کچھ اچھے لوگ بھی موجوہیں جن کی اولادیں اچھے اخلاق والی ہوتی ہیں، لیکن عام طور پر اسی طرح چل رہا ہے کہ ماں گالیاں بک رہی ہوتی ہے، یہاں تک کہ اگر بچہ روتا ہے تو اسے بھی گالیاں پڑجاتی ہیں۔ اگر ماں کی طرف سے بچے کی تربیت اچھی ہوجائے تو ہمارا معاشرہ سدھر جائے گا۔ (نگرانِ شوریٰ نے پوچھا:) ماضی میں اگر والدین نے اچھی تربیت نہیں کی تو کیا اولاد کو اپنے والدین سے اس طرح کی بات کرنے کاحق حاصل ہوگا کہ ”اگر آپ لوگوں نے بچپن میں میری اچھی تربیت کی ہوتی تو میں ایسا نہ ہوتا؟“ (امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے فرمایا:) اولاد پر ماں باپ کی اطاعت کرنا اور ان کے ساتھ ہمیشہ تعظیم اور نرمی والا برتاؤ کرنا لازم ہے۔ اس بات کی کیا دلیل ہے کہ ماں نے غلط تربیت کی ہے!! یہ ضروری نہیں کہ ہر ماں غلط تربیت کرتی ہو۔ میں نے ایک عمومی بات کی ہے۔ جب میں نےآنکھیں کھولیں تو گھر میں یہی دیکھا کہ میری والدہ اور بڑے بھائی دونوں نماز کے پابند تھے جبکہ والد صاحب کو میں دیکھ نہیں سکا کیونکہ وہ پہلے ہی انتقال فرماچکے تھے۔ میرے بڑے بھائی مجھے اپنے ساتھ مسجد لے جایا کرتے تھے۔گھر میں ایک بوتل تھی جس میں چھلکوں والے بادام تھے ، روزانہ سفید کپڑا بچھاکر اس پر وہ بادام ڈالے جاتے اور میرے بہن بھائی اور والدہ ان باداموں پر کچھ پڑھا کرتے تھے، اب اللہ بہترجانے وہ لوگ کیا پڑھتے تھے لیکن اتنا توظاہر ہے کہ وہ اللہ رسول کا ذکر ہی کرتے تھے۔تو یوں میں نے بچپن ہی سے نماز، دُرُود اور اللہ رسول کا نام ہی سنا ہے۔اگر اولاد بگڑ جائے تو والدین کیا کریں؟
سُوال: کیا اولاد کے بگڑنے کی صرف یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ والدین نیک نہیں تھےیا والدین نے اپنی اولاد کی تربیت صحیح نہیں کی؟ اگر بالفرض اولاد بگڑ گئی ہے تو اب والدین کو کیا کرنا چاہیے؟ (نگرانِ شوریٰ کا سُوال) جواب:کوئی بھی اولاداس طرح نہیں کہہ سکتی کہ اس کے والدین نے غلط تربیت کی ہے کیونکہ اس بارے میں اولاد کو کچھ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ والدین نے کس طرح تربیت کی ہے! بالفرض اگر والدین نے اپنے حقوق ادا نہیں کئے پھر بھی اولاد پر والدین کے حقوق باقی رہیں گے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے: ہم وفا کرتے رہے، وہ جفا کرتے رہے اپنا اپنا فرض تھا دونوں ادا کرتے رہے اس لئے اگر ماں باپ نے غلط تربیت کی ہے تو بھی اولاد کو اپنے والدین کی خدمت اور ان کی تعظیم کرنی ہے۔ انہیں یہ طعنہ بھی نہیں دینا کہ ”آپ نے میری غلط تربیت کی ہے۔“ کیونکہ اس سے ان کی دل آزاری ہوگی اور آپ گناہ گار ہوں گے۔ بعض لوگوں کی فطرت میں شرارت ہوتی ہے۔ ماں باپ لاکھ اچھے ہوں لیکن اولاد فسادی نکلتی ہے۔جیسے یزید جوکہ جنتی صحابی حضرتِ سَیِّدُنا امیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ کا بیٹا تھا لیکن اس نے ایسا گندا اور گھناؤنا کام کیا ہے کہ قیامت تک لوگ اس پر ملامتیں اور لعنتیں بھیجتے رہیں گے، حالانکہ وہ بیٹا کس کا تھا!! اسی طرح اللہ پاک کے معصوم نبی حضرتِ سَیِّدُنا نوح عَلَیْہِ السَّلَام کا بیٹا کافروں میں سے تھا اور جب طوفانِ نوح آیا تو وہ اُس طوفان میں ڈوب کر مرگیا۔(5) اس لئے کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ اولاد کے برا ہونے پر اس کے والدین کو مُورِدِ اِلزام ٹھہرائے۔ بالفرض اگر کسی نے اپنے بچے کی صحیح تربیت نہیں کی تو اب پچھتانے سے کچھ نہیں ہوگا، جیسے ایک مقولہ بھی ہے: ”اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت!!“ اس لئے اب صرف دعاکریں ۔ جوانی میں بھی تربیت کے مواقع موجود ہیں، انہیں دینی تعلیم دلوائیں ،دینی درس گاہ میں داخلہ دلوائیں اور دینی ماحول فراہم کریں، لیکن میری تو یہ دیکھتے دیکھتے زندگی گزر گئی ہے کہ لوگوں کی ایک تعداد وہ ہوتی ہے جو اپنے بچوں کو دینی ماحول سے روکتی ہے، وہ بھی اس لئے کہ یہ ’’مُلّا‘‘ بن جائے گا۔یعنی دوسرے لفظوں میں ہمارے دینی ماحول سے روکنے کی وجہ یہ ہے کہ جس نبی کا ہم نے کلمہ پڑھا ہے اس کی شریعت پر عمل کرکے تو جنت کی طرف جارہا ہے، جبکہ ہم جہنم کی طرف جارہے ہیں ، اس لئے ہم تجھے جنت کی طرف نہیں جانے دیں گے بلکہ ہم دونوں ایک ساتھ جہنم میں کودیں گے۔( مَعَاذَ اللہ ) ہمارے ہاں اسی طرح کا ماحول ہے کہ والدین اپنی اولاد کو نیک کاموں سے روکتے ہیں۔ اکبر الٰہ آبادی کا ایک شعر ہے: رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجا کے تھانے میں کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں پہلے کئی اسلامی بھائیوں کے ساتھ ایسا ہوا ہے کہ ان کے گھر والوں نے عمامے پھاڑدئیے اورجلادئیے۔ رات کے وقت نیند کی حالت میں داڑھیوں پر قینچیاں چلائی گئیں۔کافی پہلے جب کوئی سیکورٹی نہیں تھی، کوئی فیضان مدینہ نہیں تھا اُس وقت اَلْحَمْدُ لِلّٰہ میں نے عوام کی صفوں میں جاجا کر جو ہوسکا وہ کوشش کی ہے۔ اُن دنوں کئی والدین اپنے بچوں کے لئے مجھ سے لڑاکرتے تھے۔اس طرح کے بہت سے واقعات دیکھنے کی وجہ سے میں معاشرے سے بہت دل بَرداشتہ ہوں۔اس معاملے میں کئی لوگوں نے میرا مقابلہ کیا لیکن میرے رب نے مجھے بچا ئے رکھا۔کافی عرصہ پہلے میں نے ایک بات کہی تھی کہ”جو معاشرے کے پیچھے چلے وہ مرد نہیں بلکہ معاشر ہ جس کے پیچھے چلے وہ مرد ہے۔“ (نگرانِ شوریٰ نے فرمایا:)میں کراچی آرہا تھا ۔ مجھے جہاز میں ایک صاحب ملے، انہوں نے اپنے نوجوان بیٹے کے کچھ مسائل بیان کئے اور کہا کہ کوئی حل نکال کر دیں۔میں نے ہمدردی کی اور کہا: کیا آپ اپنی اولاد کے لئے مہینے میں تین دن دے سکتے ہیں؟انہوں نے کہا: ہاں۔ تو میں نے کہا کہ ’’آپ اپنے بیٹے کے ساتھ ہر مہینے تین دن کے مدنی قافلے میں سفر کیا کریں۔‘‘ جو حضرات اپنی اولاد کی طرف سے پریشانی کا شکار ہیں وہ بھی ہمت کریں اور ہر ماہ اپنے بیٹے کے ساتھ تین دن کے مدنی قافلے میں سفر کیا کریں۔ (امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے فرمایا:) مدنی قافلے کے لئے ٹائم نہیں ہوگا۔ ایک چٹکلا بیان کرتا ہوں کہ جن دنوں میں ’’شہید مسجد(کھارادر)‘‘ میں امام تھا تو عوام میں بیٹھا رہتا تھا، ایک مرتبہ ایک صاحب آئے اور کہنے لگے کہ پنجاب کے کسی علاقے میں دینی کام کی بہت زیادہ ضرورت ہے تو میں نے کہا: آپ بھی ساتھ چلیں گے؟ تو وہ کہنے لگا کہ ”ٹائم نہیں ہے“ یعنی اس کے پاس مگرمچھ کے آنسو بہانے کا ٹائم تھا لیکن قربانی دینے کے لئے ٹائم نہیں تھا۔
1…… ابن ماجه ، کتاب اقامة الصلاة والسنة فیھا ، باب الصلاة علی النبى ، ۱/۴۹۰، حدیث:۹۰۷ ۔ 2…… ابن ماجه ، کتاب اقامة الصلاة والسنة فیھا ، باب الصلاة علی النبى ، ۱/۴۹۰، حدیث:۹۰۷ ۔ 3…… معجم اوسط ، من اسمه احمد ، ۱/۲۰۱، حدیث:۶۷۷۔ لقط المرجان فی احکام الجان ، ص۱۶۵۔ 4…… مراٰۃ المناجیح ، ۵/۳۵۲۔ 5…… تفسیر صاوی ، پ۱۲، ھود، تحت الآیة :۴۳، ۳/۹۱۴۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع