30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ط اَمَّا بَعۡدُ فَاَعُوۡذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیۡطٰنِ الرَّجِیۡمِ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ طماں کی دعا
درود شریف کی فضیلت
بی بی آمنہ کے پھول، رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے: اَسْمَعُ صَلٰوةَ اَھْلِ مَحَبَّتِیْ وَ اَعْرِ فُھُمْ یعنی اَہْلِ مَحبَّت کا دُرُود میں خود سنتا ہوں اور انہیں پہچانتابھی ہوں۔ وَتُعْرَضُ عَلَیَّ صَلٰوةُ غَیْرِھِمْ عَرْضًا جبکہ دوسروں کا دُرُود مجھ پر پیش کیا جاتا ہے۔1 صَلُّوا عَلَی الحبیب صلی اللہ علیٰ محمدحکایت 1: ماں کی رضا خدا کی رضا
حضرتِ با یزید بِسْطامی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ سردیوں کی ایک سخت رات میری ماں نے مجھ سے پانی مانگا، میں گلاس بھر کر لے آیا مگر ماں کو نیند آ گئی تھی، میں نے جگانا مناسِب نہ سمجھا، پانی کا گلاس لئے اِس اِنتِظار میں ماں کے قریب کھڑا رہا کہ بیدار ہوں تو پانی پیش کروں۔کھڑے کھڑے کافی دیر ہو چکی تھی اور گلاس سے کچھ پانی بہ کر میری اُنگلی پر جم کر بَرف بن گیا تھا۔ بہرحال جب والِدۂ محترمہ بیدار ہوئیں تو میں نے گلاس پیش کیا،برف کی وجہ سے چِپکی ہوئی انگلی جُوں ہی پانی کے گلاس سے جدا ہوئی اس کی کھال اُدھڑ گئی اور خون بہنے لگا،ماں نے دیکھ کر پوچھا: یہ کیا؟میں نے سارا ماجَرا عرض کیا تو اُنہوں نے ہاتھ اٹھا کر دُعا کی:اے اللہ!میں اس سے راضی ہوں تُو بھی اِس سے راضی ہو جا۔2 فقط محنت مشقت کا نتیجہ کم نکلتا ہے دعا جب ماں کی شامل ہو تو پھر زمزم نکلتا ہےوالدین کی خدمت
سبحانَ اللہ! حضرت با یزید بسطامی رحمۃُ اللہ علیہ کے حق میں ماں کی دعا قبول ہوئی اور اللہ پاک ان سے ایسا راضی ہوا کہ انہیں اپنے اولیائے مُقَرَّبین میں شامِل فرما لیا۔معلوم ہوا! حالات کیسے بھی ہوں سخت سردی ہو یا تپتی دھوپ، آندھی ہو یا طوفان،آسانی ہو یا تنگی، دن ہو یا رات، ہر حال میں ماں باپ کی خدمت کے لئے تیار رہنا چاہئے، وہ جب بھی جو بھی فرمائیں شرعاً ممنوع نہ ہو تو فوراً کرنا چاہئے کہ ان کی خدمت بجا لانے میں بلاشبہ بھلائی ہی بھلائی ہے۔ جیسا کہ قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے: وَ قَضٰى رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًاؕ-اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا(۲۳) (پ15،بنی اسرائیل:23) ترجمۂ کنز الایمان:اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو اگر تیرے سامنے ان میں ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے ہُوں (اُف تک)نہ کہنا اور انہیں نہ جھڑکنا اور ان سے تعظیم کی بات کہنا۔ اَمِیْرِ اَہْلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ اپنے رسالے سمندری گنبد میں فرماتے ہیں: اللہ پاک نے بھی والدین کے ساتھ حُسْنِ سُلُوک کا حکم دیا ہے اور خصوصاً ان کے بڑھاپے میں زیادہ خدمت کی تاکید فرمائی ہے، یقیناً ماں باپ کا بڑھاپا انسان کو امتحان میں ڈال دیتا ہے،سخت بڑھاپے میں بسا اَوقات بستر ہی پر بول و براز (یعنی گندگی) کی ترکیب ہوتی ہے جس کی وجہ سے عموماً اولاد بیزار ہو جاتی ہے، مگر یاد رکھئے! ایسے حالات میں بھی ماں باپ کی خدمت لازمی ہے، بچپن میں ماں بھی تو آخر بچے کی گندگی برداشت کرتی ہی ہے۔ بڑھاپے اور بیماریوں کے باعث ماں باپ کے اندر خواہ کتنا ہی چِڑچِڑا پن آجائے، سَٹھیا جائیں، خوب بڑبڑائیں، بلا وجہ لڑیں، خواہ کتنا ہی جھگڑیں، بے شک پریشان کر کے رکھ دیں مگر صبر، صبر اور صبر ہی کرنا اور ان کی تعظیم بجا لانا ہے۔3 خدا کے بعد کرو شکر ماں باپ کا لوگو زباں سے اف نہ کہو چاہے لاکھ ہو گلہ لوگو پیارے آقا، مکی مدنی مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بھی یہی تعلیم ارشاد فرمائی، چنانچہ ایک روایت میں ہے:ماں باپ تیری دوزخ اور جنت ہیں۔4 یعنی تیرے ماں باپ تیرے لیے جنت دوزخ میں داخلہ کا سَبَب ہیں کہ انہیں خوش رکھ کر تو جنتی بنے گا انہیں ناراض کر کے دوزخی۔5 لینا ہے تو لے لے ابھی جنت کی دعائیں گر ماں نہ رہے گی تو دعا کون کرے گا صَلُّوا عَلَی الحبیب صلی اللہ علیٰ محمدمقبول حج کا ثواب
موجودہ نفسا نفسی کے دور میں عِلمِ دین سے دوری کی بنا پر اَخلاقی اَقدار کا جنازہ نکل چکا ہے، والدین کی عزت کرنا تو دور!انہیں ان کا صحیح حق دینا بھی گوارا نہیں کیا جاتا، حالانکہ سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کافرمانِ رَحمت نشان ہے:جب اولاد اپنے ماں باپ کی طرف رَحْمَت کی نظر کرے تو اللہ پاک اُس کے لئے ہر نظر کے بدلے مقبول حج کا ثواب لکھتاہے۔صَحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان نے عرض کی:اگرچِہ دن میں 100 مرتبہ نظر کرے! فرمایا:نَعَمْ،اَللّٰهُ اَکْبَرُ وَ اَطْیَبُ یعنی ہاں،اللہ سب سے بڑا ہے اور سب سے زِیادَہ پاک ہے۔6یقیناً اللہ پاک ہر شے پر قادِر ہے،وہ جس قدر چاہے دے سکتا ہے،ہرگز عاجِز و مجبور نہیں، لہٰذا اگر کوئی اپنے ماں باپ کو روزانہ 100 بار بھی رَحمت کی نگاہ سے دیکھے تو وہ اُسے 100 مَقْبول حج کا ثواب عِنَایَت فرمائے گا۔ جب والدین کو دیکھنے کا ثواب اس قدر عظیم ہے تو ان کی خدمت بجا لانے پر ملنے والے ثواب کا عالَم کیا ہوگا!ماں باپ دونوں کی شان اپنی جگہ، مگر ماں کی خدمت کے متعلق فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے: ماں کی خدمت میں اللہ پاک کی اطاعت کرو جب تم ایسا کر لو گے تو تم حج و عمرہ اور جہاد کرنے والے کا مرتبہ پا لو گے ۔7مگر افسوس! آج کل دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ اکثر نوجوان لڑکیاں باپ کے سامنےتو نہیں بولتیں مگر ماں سے بدتمیزی کرنا اور اس کی بات نہ ماننا گویا کہ ان کی فطرت کا حِصّہ بنتا جا رہا ہے۔ چنانچہ اگر دنیا و آخرت کی بھلائیاں چاہتی ہیں تو ماں باپ بالخصوص ماں کے اَدَب و احترام کو لازم پکڑ لیجئے اور اسے دُور سے آتا دیکھ کر تعظیماً کھڑی ہو جایئے، آنکھیں ملا کر بات بھی نہ کیجئے، ماں بُلائے تو فوراً لَبَّیْك (یعنی حاضِر ہُوں)کہئے،تمیز کے ساتھ آپ جناب سے بات کیجئے،ماں کی آواز پر ہرگز اپنی آواز بلند نہ ہونے دیجئے۔حضرتِ عبد اللہ بن عَون رحمۃُ اللہ علیہ کو ان کی ماں نے بُلایا تو جواب دیتے وَقت ان کی آواز قَدرے (یعنی تھوڑی سی) بلند ہو گئی،اس وجہ سے انہوں نے 2غلام آزاد کئے۔8 سبحانَ اللہ!ہمارے بزرگانِ دین ماں باپ کے کتنے فرماں بردار تھے اور ان کی سوچ کتنی عظیم تھی۔ ہم 2غلام کہاں سے لائیں گی! کیونکہ اس طرح کے مُعامَلات میں 2مرغیاں بلکہ 2انڈے بھی راہِ خُدا میں دینے کا ہم میں تو جذبہ نہیں، اللہ کریم ہمیں ماں باپ بالخصوص ماں کی عزّت کرنے کی توفیق بخشے۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ان کی خدمت میں نہاں عزت ہے تیری ان کے قدموں کے تلے جنت ہے تیری صَلُّوا عَلَی الحبیب صلی اللہ علیٰ محمد آج ہماری حالت کیا ہو چکی ہے، اسے ذیل کی حکایت سے بخوبی جانا جا سکتا ہے:حکایت 2: بیٹی کے انتظار نے مار ڈالا
انگلینڈ کے ایک جَریدے میں کچھ اِس طرح کا سنسی خیز قِصّہ لکھا تھا، ایک ماں کی ایک ہی اکلوتی بیٹی مَیری (Mary) کے علاوہ کوئی اولاد نہیں تھی، مَیری جب جوان ہوئی تو ماں نے ایک کھاتے پیتے اورسماجی طور پر معزّز نوجوان سے اُس کی شادی کردی اور خود بھی انہیں کے ساتھ مقیم ہو گئی۔ ان کے یہاں ایک چاند سی بچی پیدا ہوئی، اُس کا نام اِلزَبیتھ (Elizabeth) رکھا گیا، نانی کو گویا ایک کھلونا مل گیا، نواسی اِلزَبیتھ اُس کے ساتھ خوب ہِل گئی، وَقت گزرتا گیا اِدھر اِلزَبیتھ بڑی ہوتی جا رہی تھی تو اُدھر نانی بڑھاپے کی طر ف رواں دواں تھی۔ اب ننھی اِلزَبیتھ اتنی سنبھل گئی تھی کہ اپنے کپڑے وغیرہ خود تبدیل کر لیتی تھی۔ مَیری نے سوچا ماں اب بوڑھی ہو چکی ہے، مہمان وغیرہ آتے ہیں تو اُن میں یہ جچتی نہیں ہے، لہٰذا اُس نے ماں کو بوڑھوں کے خُصُوصی گھر یعنی اَولڈ ہاؤس (Old House) میں داخِل کروا دیا، ماں نے بہت احتجاج کیا، گھر میں اپنی ضرورت کا اِحساس دلایا، نواسی اِلزَبیتھ کی پرورش کا عُذر کیا،مگر اس کی ایک نہ چلی۔ اِلزَبیتھ کو بھی نانی سے پیار ہو گیا تھا،اُ س نے بھی نانی کی بہت حمایت کی مگر اُس کی بھی شِنوائی نہ ہوئی۔ مَیری حیلے بہانے کرتی رہی کہ مکان میں تنگی ہو رہی ہے، آپ بے فکر رہیں ہم وقتاً فوقتاً اولڈ ہاؤس ملنے آیا کریں گے، ہفتہ اتوار(دو دن) گھر پربھی لایا کریں گے، بھلا اولڈ ہاؤس میں جانے سے کوئی رشتے بھی ٹوٹتے ہیں! شروع شروع میں مَیری نے ماں سے ملاقاتیں بھی کیں مگر رفتہ رفتہ اِس میں فاصلے بڑھتے گئے۔ اور بالآخِر انتظار بڑھیا کا مقدّر بن گیا۔ وہ محبَّت بھرے لمبے لمبے خط تیّار کرتی، نواسی اِلزَبیتھ کو پیار لکھتی مگر کوئی خاص فرق نہ پڑا۔ ایک بار خط میں بیٹی نے لکھا کہ اب کی بار کرسمس (Christmas) کی اگلی رات میں آپ کو لینے آؤں گی، گھر چلیں گے۔ بڑھیا کی خوشی کی انتِہا نہ رہی، اُس نے اُون(Wool)سے اپنی پیاری نواسی کے لئے سوئیٹر وغیرہ بُنا تا کہ اُسے تحفے میں دے۔ 24دسمبر کو رات سخت برفباری تھی مَیری نے لینے کے لئے آناتھا اس لئے وہ اپنا تحفۂ محبَّت لئے انتظار میں بلڈنگ کی بالکونی میں بیٹھی بے قراری کے ساتھ سڑک پر آنے جانے والی ہر گاڑی کو غور سے دیکھ رہی تھی کہ دیکھو مَیری کی گاڑی کب آتی ہے! اولڈ ہاؤس کی ایک خادِمہ لڑکی نینسی (Nensi) کو بڑھیا کی بے قراری دیکھ کر بڑا ترس آرہا تھا، اُس نے ہیٹر والے کمرے میں چلنے کے لئے بہت اِصرار کیا مگر بڑھیا نہ مانی۔ نَینسی نے ایک گرم شال لا کر اُسے اُڑھا دی اور ہمدردی کے ساتھ بار بار گرما گرم چائے پیش کرتی رہی،بُڑھیا نے سخت سردی کے اندر ٹھٹھرتے ٹھٹھرتے انتظار میں ساری رات جاگ کر گزار دی مگر بیٹی نے نہ آنا تھا، نہ آئی۔ شدید سردی کی وجہ سے بُڑھیا کو سخت نَمونیا ہو گیا،جو کہ سردی لگنے،کھانسی ہو جانے اور گلا خراب ہونے سے لاحق ہوتا ہے، اِس میں پھیپھڑے کے کسی حصّے میں سُوجن ہو جاتی ہے، جس سے وہاں ہوا نہیں جا سکتی اور مریض کو سانس لینے میں سخت تکلیف ہوتی ہے اور اِس کا درجۂ حرارت (یعنی بخار) 105 ڈگری تک بڑھ جاتا ہے۔ اِس بیماری کی تاب نہ لاتے ہوئے بُڑھیا نے دم توڑدیا۔ کچھ دن بعد مَیری اپنی ماں کا سامان لینے اولڈ ہاؤس آئی، اُس نے وہاں کی خادِمہ نینسی کا بہت شکریہ ادا کیا کیوں کہ وہ آخِری وَقت تک اُس کی بوڑھی ماں کی خدمت کرتی رہی تھی، چونکہ نَینسی ابھی جوان تھی اورکافی خدمت گزار بھی، اِس لئے مَیری نے بہتر تنخواہ کا لالچ دے کر اُسے اپنے گھر خدمت گاری کے کام کے لئے چلنے کی آفر کی۔نَینسی نے چوٹ کرتے ہوئے کہا: آپ کے گھر ضَرور آؤں گی، مگر ابھی نہیں، جس دن آپ کی بیٹی اِلزَبیتھ آپ کو یہاں اَولڈ ہاؤس میں چھوڑ جائے گی، میں اُس کے ساتھ اُس کی خدمت کے لئے چلی جاؤں گی۔ یہ تو ایک غیر مسلم خاندان کا واقِعہ تھا، اسے جان کر آپ کو شاید کچھ عجیب سا محسوس ہو رہا ہو گا۔ غیر اسلامی ممالک میں بکثرت اولڈ ہاؤس ہیں اور افسوس! اب ان کی دیکھا دیکھی اسلامی ملکوں یہاں تک کہ پاکستان میں بھی ان کا آغاز ہو چکا ہے! مطیع اپنے ماں باپ کا کر میں ان کا ہر اِک حکم لاؤں بجا یا الٰہی صَلُّوا عَلَی الحبیب صلی اللہ علیٰ محمد
1…مطالع المسرات شرح دلائل الخیرات،ص82 2 … نزہۃ المجالس ، الجزء الاول، 1/261 3 … سمندری گنبد، ص 16 4 … ابن ماجہ، 4/186،حدیث:3662 5 … مراٰۃ المناجیح، 6/540 6 … شعب الایمان، 6/186، حدیث: 7856 7 … معجم اوسط ، 2/171 ، حدیث: 2915 8…حلیۃ الاولیاء،3/45،رقم:3103
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع