سلسلہ:
حمد
ہے پاک رُتبہ فکر سے اُس بے نیاز کا
ہے پاک رُتبہ فکر سے اُس بے نیاز کا
کچھ دخل عقل کا ہے نہ کام امتیاز کا
غش آ گیا کلیم سے مشتاقِ دید کو
جلوہ بھی بے نیاز ہے اُس بے نیاز کا
مانندِ شمع تیری طرف لَو لگی رہے
دے لطف میری جان کو سوز و گداز کا
تو بے حساب بخش کہ ہیں بے شمار جرم
دیتا ہوں واسطہ تجھے شاہِ حجاز کا
بندہ پہ تیرے نفسِ لعیں ہو گیا محیط
اﷲ کر علاج مری حرص و آز کا
کیوں کر نہ میرے کام بنیں غیب سے حسنؔ
بندہ بھی ہوں تو کیسے بڑے کارساز کا
ذوقِ نعت ، ص17
از برادرِ اعلیٰ حضرت مولانا حسن رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ
نعت
نعمتیں بانٹتا جس سَمْت وہ ذیشان گیا
نعمتیں بانٹتا جِس سَمْت وہ ذِیشان گیا
ساتھ ہی مُنشِیِ رَحمت کا قلم دَان گیا
لے خبر جلد کہ غیروں کی طرف دِھیان گیا
میرے مولیٰ مِرے آقا تِرے قربان گیا
دِل ہے وہ دِل جو تِری یاد سے مَعمور رہا
سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا
انھیں جانا انھیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
لِلّٰہِ الْحَمْد میں دُنیا سے مسلمان گیا
آج لے اُن کی پناہ آج مدد مانگ اُن سے
پِھر نہ مانیں گے قِیامت میں اگر مان گیا
جان و دل ہوش و خِرَد سب تو مدینے پہنچے
تم نہیں چلتے رضاؔ سارا تو سامان گیا
حدائقِ بخشش ،ص 55
از اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ
سلسلہ: تفسیر ِقرآنِ کریم
موضوع:
اللہ پاک قرآنِ کریم، بُرہانِ رشید میں ارشاد فرماتا ہے:
لَا یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَ لَا نِسَآءٌ مِّنْ نِّسَآءٍ عَسٰۤى اَنْ یَّكُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّۚ- (پ26،الحجرات:11) ترجمہ کنز العرفان: مرد دوسرے مردوں پر نہ ہنسیں ،ہوسکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں پر ہنسیں، ہو سکتا ہے کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں۔
شانِ نزول:اس آیت کے شانِ نزول کے متعلق 2 قول ہیں: (1)حضرت انس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: یہ آیت حضور نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہُ عنہن کے متعلق نازل ہوئی ہے کہ انہوں نے حضرت اُمِّ سلمہ رضی اللہُ عنہا کو چھوٹے قد کی وجہ سے شرمندہ کیا تھا۔
(2) حضرت عبدُ اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں: آیت کا یہ حصہ اُمُّ المومنین حضرت صفیہ بنتِ حُیَیْرضی اللہُ عنہا کے حق میں اس وقت نازل ہوا جب انہیں حضورِ اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ایک زوجہ مطہرہ نے یہودی کی بیٹی کہا۔ ( ) حضرت انس رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: اُمُّ المومنین حضرت صفیہرضی اللہُ عنہا کو معلوم ہوا کہ اُمُّ المومنین حضرت حفصہ رضی اللہُ عنہا نے انہیں یہودی کی لڑکی کہا ہے،(تو اس پر انہیں رنج ہوا اور)وہ رونے لگیں ۔ حضور نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا: تم نبی زادی ہو، تمہارے چچا نبی ہیں اور تم نبی کی بیوی ہو۔ تو تم پر وہ کیا فخر کرتی ہے؟ پھر(حضرت حفصہ رضی اللہُ عنہا سے)فرمایا:اے حفصہ!خدا سے ڈرو۔(2)
آیتِ مبارکہ میں عورتوں کا الگ سے ذکر کرنے کی وجہ: آیتِ مبارکہ میں عورتوں کا جداگانہ ذکر اس لئے کیا گیا ہے کہ عورتوں میں ایک دوسرے کا مذاق اڑانے اور اپنے آپ کو بڑا جاننے کی عادت بہت زیادہ ہوتی ہے،نیز آیتِ مبارکہ کا یہ مطلب نہیں کہ عورتیں کسی صورت آپس میں ہنسی مذاق نہیں کر سکتیں، بلکہ چند شرائط کے ساتھ ان کا آپس میں ہنسی مذاق کرنا جائز ہے، جیسا کہ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:(عورتوں کی ایک دوسرے سے)جائز ہنسی، جس میں نہ فحش ہو، نہ ایذائے مسلم، نہ بڑوں کی بے ادبی ،نہ چھوٹوں سے بد لحاظی، نہ وقت و محل کے نظر سے بے موقع، نہ اس کی کثرت اپنی ہمسر (اپنے جیسی)عورتوں سے جائز ہے(3)۔(4)
گفتگو کرتے ہوئے مذکورہ چیزوں کو مدِّ نظر رکھئے اور اس بات کا خوب خیال رکھئے کہ ہماری گفتگو ان الفاظ پر مشتمل نہ ہو جن سے کسی مسلمان کو تکلیف پہنچے کہ ہمارے پیارے آقا، آخری نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:مَنْ اٰذیٰ مُسْلِمًا فَقَدْ اٰذَانِیْ وَ مَنْ اٰذَانِیْ فَقَدْ اٰذَی اللّٰهَ یعنی جس
نے کسی مسلمان کو ایذا دی، اُس نے مجھے ایذا دی اور جس نے مجھے ایذا دی،اُس نے اللہ پاک کو ایذا دی۔(5)
اللہ پاک ہمیں ایذائے مسلم جیسے کبیرہ گناہ سے محفوظ فرمائے۔اٰمین بجاہِ النبی الکریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم
مذاق اُڑانے کا شرعی حکم:مذاق اُڑانے کا شرعی حکم بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ عبدُ المصطفیٰ اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اہانت (توہین) اور تحقیر (بے حُرمتی کرنے)کے لئے زبان یا اشارات یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اُڑانا حرام و گناہ ہے، کیونکہ اس سے ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذا رسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اور اسے دکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔(6)
کثیر احادیث میں مسلمان کا مذاق اڑانے کی ممانعت بیان ہوئی ہے۔ جیسا کہ حضرت حسن رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کا مذاق اڑانے والے کے سامنے جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا اور کہا جائے گا: آؤ! آؤ! تو وہ بہت ہی بے چینی اور غم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے سامنے آئے گا، مگر جیسے ہی دروازے کے پاس پہنچے گا وہ دروازہ بند ہو جائے گا۔ پھر ایک اور دروازہ کھلے گا اور اس کو پکارا جائے گا: آؤ! آؤ! تو وہ بے چینی اور رنج وغم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے پاس جائے گا ،مگر وہ بھی بند ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ یہ معاملہ ہوتا رہے گا، یہاں تک کہ ایک شخص کے لئے دروازہ کھلے گا اور اس کو پکارا جائے گا: آؤ! آؤ! مگر وہ ناامیدی کی وجہ سے اس دروازے پر نہیں آئے گا۔ (7)
آیت کے دوسرے حصّے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی مسلمان میں فقر، محتاجی اور غریبی کے آثار نظر آئیں تو اس بنا پر اس کا مذاق نہ اُڑایا جائے، ہو سکتا ہے جس کا مذاق اڑایا جا رہا ہے، وہ مذاق اُڑانے والی کے مقابلے میں دین داری کے لحاظ سے کہیں بہتر ہو۔جیسا کہ امام ابنِ حجر مکی ہیتمی رحمۃُ اللہِ علیہ فر ماتے ہیں:کسی کو حقیر نہ سمجھو، ہو سکتا ہے وہ اللہ پاک کے نزدیک تم سے بہتر ،افضل اور زیادہ مقرب ہو۔(8)
یاد رہے!کسی مسلمان سے ایسا مذاق کرنا حرام ہے،جس سے اُسے اذیت پہنچے،البتہ ایسا مذاق جو اُسے خوش کر دے، جسے خوش طبعی اور خوش مزاجی کہتے ہیں یہ جائز ہے۔بلکہ کبھی کبھی خوش طبعی کرنا سنت بھی ہے،جیسا کہ مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:حُضور پُر نور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے کبھی کبھی خوش طبعی کرنا ثابت ہے،اسی لئے علمائے کرام فرماتے ہیں:کبھی کبھی خوش طبعی کرنا سنتِ مستحبہ ہے۔(9)
امام محمد غزالی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: وہ مزاح(جس سے اپنا اور سننے والے کا دل خوش ہو(10))ممنوع ہے، جو حد سے زیادہ کیا جائے یا ہمیشہ اس میں مصروف رہا جائے۔ جہاں تک ہمیشہ مزاح کرنے کا تعلق ہے تو اس میں خرابی یہ ہے کہ یہ کھیل کود اور غیر سنجیدگی ہے، کھیل اگرچہ(بعض صورتوں میں)جائز ہے، لیکن ہمیشہ اسی کام میں لگ جانا مذموم ہے اور حد سے زیادہ مزاح کرنے میں خرابی یہ ہے کہ اس کی وجہ سے زیادہ ہنسی پیدا ہوتی ہے اور زیادہ ہنسنے سے دل مر دہ ہو جاتا ہے، بعض اوقات دل میں بغض پیدا ہو جاتا ہے اور ہیبت و وقار ختم ہو جاتا ہے، لیکن جو مزاح ان اُمور سے خالی ہو وہ قابلِ مذمت نہیں،جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:بے شک میں بھی مزاح کرتا ہوں اور میں(خوش طبعی میں)سچی بات ہی کہتا ہوں(11)۔ (12)
اللہ کریم ہمیں جائز خوش طبعی کرنے اور نا جائز خوش طبعی سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم