30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ تقرُّب نشان ہے : ’’ اَوْلَی النَّاسِ بِیْ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ اَکْثَرُہُمْ عَلَیَّ صَلَاۃً یعنی بروزِ قیامت لوگوں میں میرے قریب تَروہ ہوگا، جس نے دُنیا میں مجھ پر زیادہ دُرُودِ پاک پڑھے ہونگے۔‘‘(جامع الترمذي، أبواب الوتر، باب ماجاء في فضل الصلاۃ علی النبی صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، ۲/ ۲۷، الحدیث۴۸۴)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!قیامت میں سب سے آرام میں وہ ہو گا جو رَحْمت ِعالَم، نُورِ مُجَسَّم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ساتھ رہے اور حضورِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی ہمراہی نصیب ہونے کا ذریعہ دُرُود شریف کی کثرت ہے ۔ اِس سے معلوم ہوا کہ دُرُود پاک بہترین نیکی ہے کہ تمام نیکیوں سے جنّت ملتی ہے اور اس (یعنی دُرُودِ پاک ) سے بزمِ جنّت کے دُولہا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ۔( مراٰۃ المناجیح۲/ ۱۰۰)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہ تعالٰی علٰی محمَّد
دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کے مطبوعہ رسالے ’’بادشاہوں کی ہڈیاں ‘‘کے صفحہ 1پرشیخِ طریقت امیرِ اہلسنّت بانیٔ دعوتِ اسلامی حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطارؔ قادری دَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہلکھتے ہیں : منقول ہے کہ ایک بادشاہ شکار کیلئے نکلا مگر جنگل میں اپنے مُصاحِبوں سے بچھڑ گیا ۔ اُس نے ایک کمزور اور غمگین نوجوان کو دیکھا جو انسانی ہڈّیّوں کو اُلَٹ پلَٹ رہا ہے ، پوچھا : تمھاری یہ حالت کیسے ہو گئی ہے ؟ اور اس سُنسان بِیابان میں اکیلے کیا کر رہے ہو؟ ، اُس نے جواب دیا : میرا یہ حال اِس وجہ سے ہے کہ مجھے طویل سَفَردر پیش ہے ۔ دو مُوَکَّل( دن اور رات کی صورت میں ) میرے پیچھے لگے ہوئے ہیں اور مجھے خوف زدہ کر کے آگے کو دوڑا رہے ہیں یعنی جو بھی دن اور رات گزرتے ہیں وہ مجھے موت سے قریب کرتے چلے جا رہے ہیں ، میرے سامنے تنگ و تاریک تکلیفوں بھری قَبْرہے ، آہ ! گلنے سڑنے کیلئے عنقریب مجھے زیرِزمین رکھ دیا جائے گا ، ہائے !ہائے !وہاں تنگی و پریشانی ہوگی، وہاں مجھے کیڑوں کی خُوراک بننا ہوگا، میری ہڈّیّا ں جُدا جُدا ہو جائیں گی اور اسی پر اِکْتِفاء نہیں بلکہ اسکے بعدقِیامت برپا ہوگی جو کہ نہایت ہی کٹھن مرحلہ ہوگا ۔ معلوم نہیں بعد ازاں میرا جنّت ٹھکانہ ہوگا یا معاذَاﷲ جہنَم میں جانا ہوگا ۔ تم ہی بتاؤ، جو اتنے خطرناک مَراحِل سے دوچار ہو وہ بھلا کیسے خوشی منائے ؟ یہ باتیں سن کر بادشاہ رنج و ملال سے نڈھال ہو کر گھوڑے سے اُترا اور اُسکے سامنے بیٹھ کر عرض گزار ہوا : اے نوجوان!آپ کی باتوں نے میرا سارا چَین چھین لیا اور دل کو اپنی گَرِفت میں لے لیا ، ذرا ان باتوں کی مزید وَضاحت فرما دیجئے !تو اُس نے کہا ، یہ میرے سامنے جو ہڈّیّاں جمع ہیں انہیں دیکھ رہے ہو ! یہ ایسے باد شاہوں کی ہڈِّیاّں ہیں جنہیں دنیا نے اپنی زینت میں اُلْجھا کر فریب میں مُبتَلا کر دیا تھا، یہ خودتو لوگوں پر حُکومت کرتے رہے مگر غفلت نے انکے دلوں پرحُکمرانی کی ، یہ لوگ آخِرت سے غافِل رہے یہاں تک کہ انہیں اچانک موت آگئی! ان کی تمام آرزوئیں دھر ی کی دھری رہ گئیں ، نعمتیں سَلْب کر لی گئیں ، قبروں میں ان کے جِسْم گل سڑ گئے اور آج انتِہائی کَسْمپُرسیکے عالَم میں انکی ھڈِّیّاں بِکھری پڑی ہیں ۔ عنقریب انکی ہڈّیّو ں کو پھر زندگی ملے گی اور ان کے جِسْم مکمَّل ہو جائیں گے، پھر انہیں انکے اعمال کا بدلہ ملے گا، اور یہ نِعمتوں والے گھر جنّت یا عذاب والے گھر دوزخ میں جائیں گے ۔ اِتنا کہنے کے بعد وہ نوجوان بادشاہ کی آنکھوں سے اَوجھل ہو کرمعلوم نہیں کہاں چلا گیا ! اِدھرخُدّام جب ڈھونڈتے ہوئے پہنچے تو بادشاہ کا چہرہ اُداس اور اس کی آنکھوں سے سَیلِ اَشک رَواں تھا ۔ رات آئی تو بادشاہ نے لباسِ شاہی اتارا اور دو چادَریں جسم پر ڈال کر عبادت کیلئے جنگل کی طرف نکل گیا ۔ پھر اسکا پتا نہ چلا کہ کہاں گیا۔(بادشاہوں کی ہڈیاں ، بحوالہ روضُ الرِّیاحِین ص۱۰۷)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب ! صلَّی اللہ تعالٰی علٰی محمَّد
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! دنیا کے بادشاہوں کی حکومت اَجسام پر ہوتی ہے جو نہایت ناپائیدار ہوتی ہے، انہیں یا تو لوگ اِحتجاج کرکے شور مچا کر یا ہنگامے کرکے اِقتدار سے محروم کرتے ہیں ورنہ بالآخر موت ان سے تاج و تخت چھین کر انہیں اندھیری قبر میں اُتار دیتی ہے۔اس دنیا میں بڑے بڑے بادشاہوں نے دَم توڑا، بڑے بڑے وزیروں نے موت کا جام پیا ، بڑے بڑے سرمایہ دار اوراپنی قوموں کے سردار راہیٔ مُلکِ عَدَم ہوئے ، عارضی طور پر ان کے ساتھ بھیڑ بھاڑ بھی ہوئی ، لوگوں کی کثیر تعداد ان کے جنازوں میں بھی گئی مگر وَقْت کے ساتھ ساتھ سب بھلا دیئے گئے، آج ان کی قبروں پر کوئی جانے والا نہیں ، ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ، ان کو اِیصالِ ثواب کرنے والا بھی کوئی نہیں ، لیکن جو بظاہر بے شک غربت کے مارے ہوں ، بظاہر ان کے پاس کوئی اِقتدار نہ ہو لیکن ان میں سے بعض ایسے بھی ہوئے ہیں جولوگوں کے دلوں کے تاجدار ہوتے ہیں ، اُن کی حکومتیں دلوں پر ہوتی ہیں اورایسی پائیدار کہ برسہابرس گزر جاتے ہیں وہ بھلائے نہیں جاتے لوگ بھلائی کے ساتھ ان کا چَرچا کرتے ہیں ، ان کے لیے خوب اِیصالِ ثواب کرتے ہیں ، ان کی یاد مناتے ہیں ، ان کی باتوں سے نفع اٹھاتے ہیں ۔ ایسوں کا تذکرہ باعثِ نُزُولِ رحمت ہوتا ہے جیسا کہ حضرتِ
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع