30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط یہ مضمون”نیکی کی دعوت“کے صفحہ414تا437 سے لیا گیا ہے۔مسجد کا احتِرام
دُعائے عطار:یاربَّ المصطفیٰ !جوکوئی 17صفحات کا رسالہ’’ مسجد کا احتِرام‘‘پڑھ یاسُن لے اُسے مسجدوں سے محبت اور ان کا ادب و احترام کرنے والا بنا اور اسےوالدین و خاندان سمیت بے حساب بخش دے ۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبیِّین صلّی اللہ علیه واٰلهٖ وسلّمدُرُود شریف کی فضیلت
فرمانِ آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم: ”اے لوگو! بے شک بروزِ قیامت اسکی دَہشتوں اورحساب کتاب سے جلد نَجات پانے والا شخص وہ ہوگا جس نے تم میں سے مجھ پر دنیا کے اندر بکثرت دُرود شریف پڑھے ہوں گے ۔“ (فردوس الاخبار،5/277، حدیث:8175)ہم دنیا میں کس لئے آئے ہیں؟
دعوتِ اسلامی کےمکتبۃُ المدینہ کے ترجمے والے قرآن،”کنزالایمان مَع خزائنُ العرفان “ صفحہ647پر پارہ 18سُوْرَۃُ الْمُؤمِنُوْن آیت نمبر 115میں اللہ پاک کا ارشادِ مبارک ہے:( اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ(۱۱۵))” ترجَمۂ کنز الا یما ن : تو کیا یہ سمجھتے ہو کہ ہم نے تمہیں بیکار بنایا اور تمہیں ہماری طرف پھرنا نہیں۔“ حضرت علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادی رحمۃُ اللہ علیہ اس آیتِ کریمہ کے تحت فرماتے ہیں:اور(کیا تمہیں)آخِرت میں جزا کے لئے اُٹھنانہیں؟ بلکہ تمہیں عبادت کے لئے پیدا کیاکہ تم پر عبادت لازم کریں اور آخِرت میں تم ہماری طرف لوٹ کر آؤ تو تمہیں تمہارے اعمال کی جَزا دیں۔ (خزائن العرفان) پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہم سبھی کو اپنی زندگی کے حقیقی مقصد کے حُصُول کے لئے ہر دم کوشاں رہنا چاہئے،گناہوں سے بچنا اور ثواب کے کاموں کو کرتے رہنا چاہئے۔ مَدَنی چینل دیکھتے دِکھاتے رہئے کہ اچھی اچھی نیّتوں کے ساتھ مَدَنی چینل کےپروگرامزدیکھنا اور دوسروں کو دیکھنے کی دعوت دینا بھی باعثِ رِضا ئے ربُّ الْاَنام اورجنَّت میں لے جانے والا کام ہے۔موت کی ہر دم یاد رکھئے! موت دولہا کو عین بارات سے اور دُلہن کوحَجَلۂ عَروسی میں بسترِ راحت و مَسرَّت سے یکدم اُچَک لیتی ہے۔ ؎ بولی خَلوت میں اَجَل دولہا دولہن سے وقتِ عیش ہے تمہیں بھی قبر کے گوشے میں سونا ایک دن صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدجب مسجِد میں زور سے قَدَم رکھ کر چلنا بھی منع ہے تو....
میرے آقا اعلیٰ حضرت،اِمامِ اَہلسنّت،مولاناشاہ امام اَحمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ کا نیکی کی دعوت دینے کا جذبہ مرحبا! آپ رحمۃُ اللہ علیہ نیکی کی دعوت کا ثواب کمانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے چُنانچِہ خلیفۂ اعلیٰ حضرت،ملِکُ العُلَماء حضرتِ علّامہ مولانا مفتی ظَفَرُ الدِّین بِہاری رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں:ایک صاحِب جنہیں ”نواب صاحِب “کہا جاتا تھا،مسجِد میں نَماز پڑھنے آئے اور کھڑے کھڑے بے پَروائی سے اپنی چھڑی(یعنی ہاتھ میں رکھنے کی لکڑیWALKING STICK)مسجِد کے فرش پر گِرا دی،جس کی آواز حاضِرین نے سنی۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ نے(نیکی کی دعوت دیتے ہوئے)فرمایا:”نواب صاحِب! مسجِد میں زور سے قَدَم رکھ کر چلنا بھی منع ہے،پھر کہاں چَھڑی کو اتنی زور سے ڈالنا!“ نواب صاحِب نے میرے سامنے وَعدہ کیا کہ اِن شاءَ اللہ آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔ اللہ پاک کی اعلیٰ حضرت پَر رَحمت ہو اور اُن کے صَد قے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیِّیْن صلّی اللہ علیه واٰلهٖ وسلّممسجِد میں موبائل فون کی گھنٹی بند رکھئے
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ہر مسلمان کیلئے ضَروری ہے کہ وہ مسجِدکا اِحترام کرے ، مسجِد میں چلتے وقت پاؤں کی دھمک(دَھ۔مَک)پیدا نہ ہو اِس کا خیال رکھنا ضَروری ہےنیز چھڑی(WALKING STICK)،چھتری،ہاتھ کا پنکھا،چَپّل،تھیلا(BAG) ، برتن وغیرہ کوئی چیز بھی اِس طرح نہ ڈالے کہ آواز پیدا ہو۔اگر موبائل فون ہو تو مسجِد میں اس کی گھنٹی بند رکھی جائے،افسوس! اس کی احتیاط کم کی جاتی ہے یہاں تک کہ مَسجدُ الحرام شریف میں اور وہ بھی عین خانۂ کعبہ کے طواف میں لوگوں کے موبائل فون کی گھنٹیاں بلکہ معاذ اللہ میوزیکل ٹیونز گونجتی رہتی ہیں،حالانکہ میوزیکل ٹیون تو مسجِد کے علاوہ بھی ناجائز ہے۔”بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم“کے اُنیس حروف کی نسبت سے مسجِدکے متعلق 19مَدَنی پھول
اِحترامِ مسجِد کے ضِمن میں دعوتِ اسلامی کے مکتبۃُ المدینہ کی 1574 صفحات کی کتاب،فیضانِ سنَّت (جلد اوّل،1574 صَفحات) صفحہ1202تا1207پر بیان کردہ مَدَنی پھول کہیں کہیں رَدّو بَدل کے ساتھ پیش کئے جا رہے ہیں انہیں قبول فرما کر اپنے دل کے مَدَنی گلدستے میں سجا لیجئے: (1) مَروی ہوا کہ ایک مسجِد اپنے ربِّ کریم کے حُضُور شکایت کرنے چلی کہ لوگ مجھ میں دنیا کی باتیں کرتے ہیں۔ملائکہ اُسے آتے ہوئے ملے اور بولے:ہم ان(مسجِد میں دنیا کی باتیں کرنے والوں)کے ہَلاک کرنے کو بھیجے گئے ہیں۔(فتاویٰ رضویہ ،16/312) (2) روایت کیا گیا ہے کہ” جو لوگ غیبت کرتے اور جو لوگ مسجِد میں دنیا کی باتیں کرتے ہیں ان کے منہ سے گندی بدبو نکلتی ہے جس سے فِرِشتے اللہ پاک کے حُضُور ان کی شکایت کرتے ہیں۔“سبحانَ اللہ !جب مُباح و جائز بات بِلا ضَرورت ِ شَرْعِیّہ کرنے کو مسجِد میں بیٹھنے پر یہ آفتیں ہیں تو(مسجِد میں)حرام و ناجائز کام کرنے کا کیا حال ہو گا! (فتاویٰ رضویہ ،16/312) (3)دَرزی کواجازت نہیں کہ مسجِد میں بیٹھ کر کپڑے سئیے۔ہاں اگربچّوں کو روکنے اور مسجِدکی حفاظت کیلئے بیٹھا توحَرَج نہیں۔اسی طرح کاتِب کو(مسجِد میں)اُجرت پرکِتابت کرنے کی اجازت نہیں۔ (عالمگیری ،1/110) (4) مسجِدکے اندر کسی قسم کاکُوڑاہرگزنہ پھینکیں۔شیخ عَبدُالحق مُحَدِّث دِہلوی رحمۃُ اللہ علیہ ”جَذْبُ الْقُلُوب “میں نقل کرتے ہیں کہ مسجِدمیں اگر خَس(یعنی معمولی سا تنکا یا ذَرّہ)بھی پھینکا جائے تواس سے مسجِدکو اس قَدَر تکلیف پہنچتی ہے جس قَدَر تکلیف انسان کواپنی آنکھ میں خَس(یعنی معمولی ذَرّہ)پڑجانے سے ہوتی ہے۔(جذب القلوب ،ص222) (5) مسجِدکی دیوار،اِس کے فَرش،چَٹائی یادَری کے اوپریااس کے نیچے تھوکنا،ناک سِنکنا، ناک یاکان میں سے مَیل نکال کرلگانا،مسجِدکی دَری یا چٹائی سے دھاگہ یا تِنکا وغیرہ نوچناسب مَمنوع ہے۔ (6) ضَرورتًا(مسجِد کے اندر)اپنے رومال وغیرہ سے ناک پُونچھنے میں کوئی مُضایقہ نہیں۔ (7) مسجِد میں جھاڑو دینے میں جو گَرد اور کُوڑا وغیرہ نکلے وہ ایسی جگہ مت ڈالئے جہاں بے اَدَبی ہو۔(8)جُوتے اُتارکرمسجِدمیں ساتھ لے جاناچاہیں توگَردوغیرہ باہَر جھاڑ لیجئے ۔ اگر پاؤں کے تَلووں میں گَرد کے ذَرّات لگے ہوں تو اپنے رومال وغیرہ سے پُونچھ کر مسجِد میں داخِل ہوں۔مسجِد میں گرد کا کوئی ذرّہ نہ گرنے پائے اِس کا خیال رکھئے۔ (9) مسجِد کے وُضو خانے پر وُضو کرنے کے بعدپاؤں وضوخانے ہی پراچّھی طرح خشک کر لیجئے،گیلے پاؤں لیکرچلنے سے مسجدکافرش گندا اور دریاں مَیلی اور بدنُما ہوجاتی ہیں۔ اب میرے آقااعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنّت،مُجَدِّدِدین وملّت مولاناشاہ احمدرضا خان رحمۃُ اللہ علیہ کے ملفوظات شریفہ سے بعض آدابِ مسجِد پیش کئے جارہے ہیں: (10) مسجِد میں دوڑنایازورسے قدم رکھنا،جس سے دَھمک پیداہومنع ہے۔ (11) وُضُوکرنے کے بعد اَعضائے وُضُوسے ایک بھی چِھینٹ پانی فرشِ مسجد پر نہ گرے۔ (یادرکھئے!اعضائے وُضُوسے وُضُوکے پانی کے قطرے فرشِ مسجِدپرگِرانا،ناجائز وگناہ ہے) (12)مسجِدکے ایک دَرَجے سے دوسرے دَرَجے کے داخِلے کے وَقت(مثلًا صِحن میں داخل ہوں تب بھی اورصحن سے اندرونی حصّے میں جائیں جب بھی)سیدھا قدم بڑھایاجائے حتّی کہ اگر صَف بچھی ہو اس پربھی سیدھاقدم رکھیں اور جب وہاں سے ہٹیں تب بھی سیدھا قدم فرشِ مسجد پر رکھیں(یعنی آتے جاتے ہر بچھی ہوئی صَف پر پہلے سیدھا قدم رکھیں)یا خَطِیب جب مِنبرپر جانے کاارداہ کرے پہلے سیدھاقدم رکھے اور جب اُترے تو(بھی)سیدھاقدم اُتارے۔ (13)مسجِدمیں اگرچِھینک آئے توکوشِش کریں آہِستہ آوازنکلے اسی طرح کھانسی۔ سرکارِمدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسجِدمیں زورکی چھینک کو نا پسند فرماتے۔اِسی طرح ڈَ کار کو ضَبط کرناچاہیے اورنہ ہو توحتَّی الْاِمکان آواز دبائی جائے اگرچِہ غیرِمسجِدمیں ہو۔ خُصُوصاً مجلس میں یاکسی معظَّم(یعنی بزر گ)کے سامنے بے تَہذیبی ہے۔ حدیث میں ہے:ایک شخص نے دربارِ اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم میں ڈکارلی ،آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ہم سے اپنی ڈکار دُور رکھ کہ دنیامیں جوزیادہ مُدَّت تک پیٹ بھرتے تھے وہ قِیامت کے دن زیادہ مدّت تک بھوکے رہیں گے۔‘‘ (شرح السنۃ ،7/294، حدیث:2944)اورجَماہی میں آوازکہیں بھی نہیں نکالنی چائیے۔اگرچِہ مسجِدسے باہَر تنہا ہو کیونکہ یہ شیطان کا قَہْقَہَہ ہے۔جَماہی جب آئے حتَّی الْاِمْکان منہ بند رکھیں منہ کھولنے سے شیطان منہ میں تھوک دیتاہے۔اگر یوں نہ رُکے تو اُوپرکے دانتوں سے نیچے کاہونٹ دَبا لیں اوراس طرح بھی نہ رُکے تو حتَّی الاِمکان منہ کم کھولیں اور اُلٹا ہاتھ اُلٹی طرف سے منہ پر رکھ لیں۔چُونکہ جَماہی شیطان کی طرف سے ہے اورانبِیاءِکرام علیہمُ السّلام اس سے محفوظ ہیں۔لہٰذ ا جماہی آئے تویہ تصوُّرکریں کہ”انبِیاءِکرام علیہمُ السّلام کو جماہی نہیں آتی۔“ اِن شاءَ اللہ فو رًا رُک جائے گی۔ (ردالمحتار ،2/498 ،499) (14) تَمَسْخُر(مَسْخَرہ پن)ویسے ہی ممنوع ہے اور مسجِدمیں سخت ناجائز۔ (15) مسجِدمیں ہنسنامَنع ہے کہ قبرمیں تاریکی(یعنی اندھیرا)لاتاہے۔موقع کے لحاظ سے تَبَسُّم میں حَرَج نہیں۔ (16) مسجِدکے فرش پرکوئی چیزپھینکی نہ جائے بلکہ آہِستہ سے رکھ دی جائے۔موسِمِ گرما میں لوگ پنکھا جَھلتے جَھلتے پھینک دیتے ہیں(مسجِدمیں ٹوپی،چادر وغیرہ بھی نہ پھینکیں اسی طرح چادریا رومال سے فرش اس طرح نہ جھاڑیں کہ آواز پیداہو) یا لکڑی،چَھتری وغیرہ رکھتے وقت دُور سے چھوڑ دیا کرتے ہیں۔اِس کی مُمَانَعت ہے۔غَرَض مسجدکااِحترام ہرمسلمان پر فرض ہے ۔ (17) مسجِدمیں حَدَث(یعنی رِیح خارِج کرنا)منع ہے ضَرورت ہو تو(جو اعتکاف میں نہیں ہیں وہ)باہَرچلے جائیں۔لہٰذامُعتکف کوچاہیے کہ ایّامِ اعتِکاف میں تھوڑا کھائے،پیٹ ہلکا رکھے کہ قَضائے حاجت کے وَقت کے سوا کسی وَقت اِخراجِ رِیح کی حاجت نہ ہو۔وہ اس کے لئے باہَر نہ جاسکے گا۔(البتہ اِحاطۂ مسجِد میں موجود بیتُ الْخَلا میں رِیح خارِج کرنے کیلئے جاسکتا ہے) (18) قبلے کی طرف پاؤں پھیلاناتوہرجگہ مَنع ہے۔مسجِدمیں کسی طرف نہ پھیلائے کہ یہ خِلافِ آدابِ دربار ہے۔حضرتِ سَرِی سَقَطی رحمۃُ اللہ علیہ مسجِد میں تنہابیٹھے تھے،پاؤں پھیلا لیا،گوشۂ مسجِدسے ہاتِف نے آواز دی:”سَرِی ! بادشاہوں کے حُضُورمیں یوں ہی بیٹھتے ہیں؟ “ مَعًا(یعنی فوراً)پاؤں سَمیٹے اورایسے سمیٹے کہ وَقتِ انتقِال ہی پھیلے۔(سبع سنابل، ص131) (چھوٹے بچوں کوبھی پیار کرتے،اُٹھاتے،لِٹاتے وقت احتیاط کریں کہ ان کے پاؤں قبلہ کی طرف نہ ہوں اور مُتاتے(پوٹی کرواتے)وقت بھی ضروری ہے کہ اُس کا رُخ یا پیٹھ قِبلہ کی طرف نہ ہو) (19) استِعمال شُدہ جُوتا مسجِد میں پہن کرجانا گستاخی وبے ادبی ہے۔ (ملفوظات اعلٰی حضرت، ص317تا323ملخصاً) الٰہی کرم بہرِ شاہِ عَرَب ہو ہمیں مسجِدوں کا مُیَسَّر ادب ہو صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدکینسر کا مریض ٹھیک ہو گیا
اَلحمدُ لِلّٰہ دعوتِ اسلامی پر اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کابے حد کرم ہے۔بارہا سننے میں آیا کہ ڈاکٹروں نے جن مریضوں کو لا علاج قرار دے دیا ان کا مَدَنی قافِلوں میں سفر کر کے دعائیں مانگنے کے سبب خیر سے علاج ہو گیا چُنانچِہ ماڑی پور(کراچی، پاکستان)کے کسی اسلامی بھائی نے ایک ایمان افروز واقِعہ لکھ کر دیا جس کا مضمون کچھ یوں تھا:ہاکس بے(کراچی، پاکستان)کے مقیم ایک اسلامی بھائی جو کہ” کینسر “ کے مریض تھے،اُنہوں نے عاشقانِ رسول کی دینی تحریک ،دعوتِ اسلامی کے مَدَنی قافِلے میں عاشِقانِ رسول کے ساتھ سفر کی سعادت حاصِل کی۔دَورانِ سفر بے چارے کافی سہمے ہوئے اور مایوس سے تھے۔عاشقانِ رسول ڈھارس بندھاتے اوران کیلئے دعائیں بھی فرماتے۔ایک دن صبح کے وقت بیٹھے بیٹھے اچانک انہیں قَے ہوئی اور اُس میں ایک گوشت کی بوٹی حَلْق سے نکل پڑی!قَے کے بعد اُن کو کافی سُکون مل گیا۔مَدَنی قافِلے سے واپسی پر جب ڈاکٹر سے رُجوع کیا اور دوبارہ ٹیسٹ کروائے تو حیرت بالائے حیرت کہ اُن کا مَرَضِ سرطان یعنی کینسر ختم ہو چکا تھا۔اَلْحَمْدُ للہ عَلٰی اِحسانهٖ۔ مَرَضِ نِسیان ہو چاہے سَرطان ہو کوئی سی ہو بَلا،قافِلے میں چلو دُور بیماریاں اور پریشانیاں ہوں بَفَضلِ خُدا،قافِلے میں چلو صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّدمَدَنی قافِلے کے مریض مسافِروں کے بارے میں5مَدَنی پھول
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! دیکھا آپ نے! اللہ پاک نے مَدَنی قافِلے کی بَرَکت سے کینسر کے مریض کو صحّت عنایت فرما دی۔مَدَنی قافِلے کے مریض مسافِروں کے بارے میں 5 مَدَنی پھول قَبول فرمایئے (1)اللہ پاک ہی حقیقت میں شافِیُٔ الْاَمراض یعنی بیماریوں سے شِفا دینے والا ہے۔سبھی جانتے ہیں کہ بعض اوقات بڑے بڑے ماہرطبیب بہتر سے بہترین دوائیں دیتے ہیں مگر”مَرَض بڑھتا گیا جُوں جُوں دوا کی“ کے مِصداق مَرَض میں مسلسل اِضافہ ہوتا اوربِالآخِر مریض دم توڑ دیتا ہے۔لہٰذا مَدَنی قافلے میں کسی مریض کو اگرشِفا نہ ملے تو شیطان کے وَسوسوں میں نہ آئیں (2) ایسے مریضوں کو مَدَنی قافِلے میں سفر نہ کروائیں نیز اعتِکاف میں بھی نہ بٹھائیں جِن سے دوسروں کوگِھن آئے یا ایذا پہنچے۔ ایک بار دعوتِ اسلامی کے عالمی مَدَنی مرکز فیضانِ مدینہ کراچی کے اندر ایک کینسر کے مریض مُعْتَکِف ہوگئے،وہاں ہزاروں مُعْتَکِفِیْن ہوتے ہیں،حلقے بنائے جاتے ہیں، ایک حلقے میں وہ بھی شامل کر لئے گئے۔اسلامی بھائی جب سحری اور اِفطاری کرتے وہ اُن کے ساتھ بیٹھ بھی جاتے تومنہ یا گلے کا کینسر ہونے کے سبب بے چارے کھانہیں سکتے تھے، بے شک وہ غریب بڑے قابلِ رَحم تھے مگر ہر شخص یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ اُن کے حلقے والے معتکفین کو اُس مریض کے سبب کس قَدَر کوفت(یعنی تکلیف)کا سامنا ہوتا ہو گا!واقعی اگر کوئی کھانے سے معذور مریض جب بیٹھے بیٹھے کسی کے نِوالے تاڑے گا تو اُس کھانے والے پر جو کچھ گزرے گی وہ ہر ذِی شُعُور آدمی سمجھ سکتا ہے (3) بعض مریضوں کے زخم خراب ہو چکے ہوتے ہیں،اُن سے مَواد رِستا اوربد بُو اٹھ رہی ہو تی ہے گو وہ ہر طرح سے ہمدردی کے لائق اورقابلِ رَحم ہیں مگر ان کا مَرَض دوسروں کیلئے تکلیف دِہ ہوتا ہے اِس لئے انہیں اعتکاف اور مَدَنی قافِلے میں سفر نہیں کرنا چاہئے اِس حالت میں مسجِد میں داخِل ہونا بھی شرعًا حرام ہے کہ بد بُو سے عام مسلمانوں اور فِرِشتوں کو اِیذا ہوتی ہے (4) ایسا آدمی جس کے منہ سے رال بہتی ہو،جس نے URINE BAGیا STOOL BAG لگائی ہونیز جُذامی (یعنی کوڑھی)وغیرہ بھی مَدَنی قافِلے میں سفر اور اعتکاف نہ کریں۔میرے آقااعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت مُجدِّدِ دین وملّت مولانا شاہ امام احمد رضاخان رحمۃُ اللہ علیہ فتاوٰی رضویہ(جلد24)صفحہ 220پر نقل کرتے ہیں:ایک جُذامی عورت کعبۂ مُعَظَّمَہ کا طواف کر رہی تھی امیرُالمؤمنین فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے اُس سے فرمایا:اے اللہ کی بندی! لوگوں کو اِیذا نہ دے،اچھا ہو کہ تم اپنے گھر میں بیٹھی رہو،پھر وہ گھر سے نہ نکلیں (موطا امام مالک، 1/388، رقم:988)(5) ایسے نفسیاتی مریض یا آسیب زَدہ بھی مَدنی قافِلے اور مسجِد سے دُور رکھے جائیں،جو دَورہ پڑنے کی صورت میں بے ہوش ہو جاتے یا چیختے یا بے تحاشا ہاتھ پیراُچھال کر مسجِد کی بے ادبی اور دوسروں کیلئے پریشانی کا سبب ہوں۔اس طرح کے مریضوں کو اعتکاف میں بٹھانے یا مَدَنی قافِلوں میں سفر کروانے کے بجائے ان کے نُمائندے سفر کریں یا اعتکاف کر کے ان کیلئے دعاکریں۔یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ایسا مریض یا اُن کے گھر والے ایک اسلامی بھائی کایا حسبِ توفیق جتنوں کا دے سکیں اتنوں کا خرچ دیکر تین دن، 12دن،ایک ماہ،12ماہ یا25ماہ کے مَدَنی قافلے میں ثواب کی نیّت سے سفر کروائیں۔ مریض کا نمائندہ دعائیں مانگتا رہے گااللہ غَفورٌ رَّحیم اپنی رَحمت سے شِفا دیدے گا۔مگر یاد رہے ! رقم صِرف دعوتِ اسلامی کی طرف سے نامزد قافلہ ذمّے دار کو جمع کروائی جائے کہ وہ اپنی ترکیب سے سفر کروائیں گے،آپ کسی کو رقم دے بھی دیں تو ضَروری نہیں کہ وہ سفر کرے یا ممکن ہے اَدھورے سفر سے واپَس لوٹ جائے۔یاد رہے! مریض کی بے جا دل آزاری نہ ہونے پائے،اُس کی عِیادت کی جائے،اُس سے میل مِلاپ بھی رکھا جائے بلکہ جہاں مَدَنی قافلہ بجائے مسجِد کے کِسی کے مکان وغیرہ پر ٹھہرتا ہو اورمَدَنی قافِلے والے مُتَّفِقہ طور پر کِسی گِھن لانے والے مریض کو اپنے ساتھ رکھنا چاہیں تب بھی حَرَج نہیں۔ لیکن اِس میں یہ دیکھ لیا جائے کہ باہَر سے آنے والے عام اسلامی بھائیوں کے آنے سے کترانے یا ایذا پانے کا اندیشہ نہ ہو۔ صَدقہ نبی دی آل دا بخشے خدا شِفا منگو دعاواں میرے جَے بیمار واسِطےہر بیماری کی دواء ہے
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! کینسر ایک مہلک(مُہ۔لِک یعنی ہلاک کرنے والا)مَرَض ہے،یہ بیماری ڈاکٹروں کے یہاں ”لاعلاج“سمجھی جاتی ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں،جیسا کہ مُسلم شریف میں وارِد ہوا،اللہ کریم کے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ صحّت نشان ہے:”ہر بیماری کی دوا ہے،جب دوا بیماری تک پہنچا دی جاتی ہے تو اللہ پاک کے حکم سے مریض اچھا ہو جاتا ہے۔“(مسلم ،ص1210،حدیث:2204)یقیناًبڑھاپے اور موت کے سوا ہر بیماری کا علاج ہے۔ہاں یہ بات الگ ہے کہ کئی اَمراض کا علاج اَطِبّا (یعنی ڈاکٹرز)اب تک دریافت نہیں کر پائے۔لہٰذا یہ کہنے کے بجائے کہ ”فلاں مَرَض کا علاج نہیں ہے“ مناسب یہ ہے کہ یوں کہا جائے کہ ہمارے پاس اِس بیماری کا علاج نہیں یا ڈاکٹرز ابھی تک اِس مَرَض کا علاج دریافت نہیں کرسکے۔بَہَر حال ربِ کریم چاہے تو دوا شِفا کا ذَرِیعہ (ذَ۔ری۔عَہ) بنے ورنہ عین ممکِن ہے کہ وُہی دوا موت کا پیغام ثابت ہو! اور یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ ماہر ڈاکٹر کی طرف سے ملنے والی دُرُست دواکے باوُجُود کسی مریض کو مَنْفی اثر (REACTION) ہو جاتا اور وہ مزید شدید بیمار یا معذور ہو جاتا یا دم توڑ دیتا ہے اورپھر بعض لوگوں کی جَہالت کے باعِث بے چارے ڈاکٹر کی شامت آجاتی ہے۔حالانکہ یہ بات عَقل سے بَہُت بعید(یعنی کافی دُور)ہے کہ کوئی ڈاکٹر کسی مریض کو نُمایاں جسمانی نقصان پہنچائے یا مار ڈالے ! ظاہر ہے اگر وہ ایسا کرے گا تو اُس کی اپنی بدنامی ہو گی اور لوگ اُس کے پاس علاج کروانے سے کترائیں گے۔ہاں دینی تَعصُّب اوراسلام دشمنی جُدا چیز ہے،اِسی اندیشے کے پیشِ نظر مشہور عُلَمااور دینی پیشواؤں کوغیر مسلموں سے علاج نہ کروانے ہی میں عافِیَت ہے کہ مَبادا(یعنی ایسا نہ ہو ) کوئی شدید جانی نقصان پہنچ جائے۔عام مسلمانوں کو غیر مُسلم ڈاکٹر سے اِس طرح کے مرض میں علاج کروانے کی اجازت ہے جس میں غیر مُسلم طبیب کی بدخواہی(یعنی بُرا چاہنا)چل نہ سکے ۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع