30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ط
مسجد سے چپل چوری ہوجائے تو کیا کریں؟ ([1])
شیطان لاکھ سُستی دِلائے یہ رِسالہ(۱۹صَفحات) مکمل پڑھ لیجیے اِنْ شَآءَ اللّٰہ معلومات کا اَنمول خزانہ ہاتھ آئے گا۔
فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم : جبریل نے مجھ سے عرض کی کہ رب تعالیٰ فرماتا ہے : اے محمد! کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ تمہارا اُمّتی تم پر ایک سلام بھیجے اور میں اُس پر 10 سلام بھیجوں!! ([2])
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
مسجد سے چپّل چوری ہوجائے تو کیا کریں؟
سُوال : مسجد سے چپل چوری ہوجائے تو کیا کرنا چاہیے؟ نیز اگر چپل چور ہاتھ آ جائے تو کیا سُلوک کرنا چاہیے؟
جواب : اگر مسجد سے کسی کی چپل چوری ہوجائے تو اسے چاہیے کہ صبر کرے اور ننگے پاؤں چلا جائے ، اِنْ شَآءَ اللّٰہ اس پر ثواب ملے گا۔ کسی کا مال گم ہوجائے تو اسے ثواب ملتا ہے۔ ([3]) البتہ اگر کسی کی چپل چوری نہیں ہوئی ، بلکہ کسی کی چپل سے تبدیل ہوگئی ہےتو اس کے متعلق بہار شریعت میں یہ مسئلہ لکھا ہے کہ “ مجمعوں یا مساجد ميں اکثر جوتے بدل جاتے ہیں ، ان کو کام میں لانا جائز نہیں ، ہاں! اگر یہ کسی فقیر کو اگرچہ اپنی اولاد کو تصدّق(یعنی صدقہ) کردے ، پھر وہ (یعنی صدقہ لینےوالا) اِسے (یعنی صدقہ دینے والے کو) ہبہ کردے تو تصرف میں لاسکتا ہے ، یا اس کا اچھا جوتا کوئی اُٹھا لے گیا اور اپنا خراب چھوڑ گیاکہ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے اُس نے قصداً ایسا کیا ہے ، دھوکے سے نہیں ہوا ہے تو جب یہ شخص خراب جوڑا اُٹھالایا اس کو پہن سکتا ہے کہ یہ اُس کا عوض ہے۔ “ ([4])لیکن یہاں بھی بہت زیادہ غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا واقعی چپل تبدیل ہوئی بھی ہے یا نہیں؟ بہتر تو یہی ہوگا کہ وہاں سے ننگے پاؤں آجائیں اور نئی چپل خرید لیں۔ اگر کوئی غلطی سے آپ کی چپل سے اپنی چپل تبدیل کرگیا اور آپ کے ہتّھے چڑھ گیا تو اسے مارنے کے بجائے اس کی معذرت قبول کریں۔ ہمارے ہاں تو اگر کوئی بے چارہ معذرت بھی کررہا ہو کہ ’’میں چور نہیں ہوں ، بلکہ میری چپل آپ کی چپل سےتبدیل ہوگئی ہے‘‘ پھر بھی اسے صرف شُبہ کی وجہ سے دوتین لگا دیتے ہیں ، ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ اگر واقعی کوئی چور ہاتھ آگیا ہے تب بھی قانون ہاتھ میں لینے کے بجائےاسے قانون کے حوالے کردینا چاہیے۔
فحش گوئی کرنے والا قیامت کے دن کتّے کی شکل میں !!
سُوال : فحش گوئی سے کیسے بچیں؟
جواب : لفظ ’’فحش گوئی‘‘ عموماً بے حیائی کے معنیٰ میں اِستِعمال ہوتا ہے۔ اس کی تعریف یہ ہے کہ “ ایسی باتیں کرنا جس سے گندی لذّت حاصل ہو۔ “ ([5]) جیسے عام طور پر نوجوان شادیوں کی باتیں کرتے ہیں اور ان باتوں سے لذّت حاصل کرکے یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ شادی سنّت ہے اور ہم سنّت کی باتیں کررہے ہیں۔ اگرچہ شادی سنّت ہے ، بلکہ بعض اوقات تو فرض بھی ہوجاتی ہے ، ([6]) لیکن شادی کی باتوں سے لذّت حاصل کرنا فحش گوئی ہے جو بہت بری عادت ہے۔ ہمارے معاشرے میں بعض اوقات ایسی باتیں کی جاتی ہیں جن کے فحش ہونے کے بارے میں پتا نہیں ہوتا ، لیکن وہ فحش اور گناہ ہوتی ہیں۔ یاد رہے! فحش گوئی کا عذاب کوئی برداشت نہیں کرسکے گا ، فحش گوئی سے بچنے کے لئے اس کی بُرائیاں اور وعیدوں کی معلومات حاصل کریں۔ ایک حدیثِ مبارکہ میں ہے : “ چار طرح کے جہنمی کھولتے پانی اور آگ کے درمیان بھاگتے پھرتے اور وَیْل و ثُبُور (یعنی ہلاکت) مانگتے ہوں گے۔ ان میں سے ایک شخص کے مُنہ سے خون اور پیپ بہہ رہی ہوگی۔ جہنمی کہیں گے : اس بدبخت کو کیا ہوا کہ ہماری تکلیف میں اِضافہ کئے دیتا ہے؟ کہا جائے گا : یہ بدبخت بُری اور خبیث (یعنی گندی بات) کی طرف متوجہ ہو کر اس سے لذّت اُٹھاتا تھا ، جیسا کہ جماع کی باتوں سے۔ “ ([7])فحش گوئی کرنے والے کی وعید بیان کرتے ہوئے حضرتِ سَیِّدُنا ابر اہیم بن مَیْسَرَہ رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : “ فحش کلامی( یعنی بے حیائی کی باتیں) کرنے والا قیامت کے دن کتّے کی شکل میں آئے گا۔ “ ([8]) اللہ پاک کے پیارے نبی محمد عربی صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَ سَلَّم کا
[1] یہ رِسالہ۶ رَبِیْعُ الْآخِر ۱۴۴۲ ھ بمطابق21نومبر 2020 کو ہونے والے مَدَنی مذاکرے کا تحریری گلدستہ ہے ، جسے اَلْمَدِیْنَۃُ الْعِلْمِیَۃ کے شعبہ ’’ملفوظاتِ امیرِ اَہلِ سُنّت‘‘نے مُرتَّب کیا ہے۔ (شعبہ ملفوظاتِ امیرِ اَہلِ سُنّت)
[2] نسائى ، كتاب السهو ، باب الفضل فى الصلاة...الخ ، ص۲۲۲ ، حديث : ۱۲۹۲۔
[3] مسلم ، کتاب المساقاة ، باب فضل الغرس والزرع ، ص۶۴۶ ، حدیث : ۳۹۶۸ ماخوذاً۔
[4] بہار شریعت ، ۲ / ۴۸۲ ، حصّہ : ۱۰۔
[5] فحش گوئی سے مراد یہ ہے کہ ان باتوں کوواضح الفاظ میں ذکر کردیا جائے جن کاصراحۃً اظہار بُرا سمجھا جاتا ہو ، مثلاً پوشیدہ امراض کو (بلا حاجتِ شرعی) بیان کرنا۔ (احیاء العلوم ، کتاب آفات اللسان ، ۳ / ۱۵۱)
[6] مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں : یہ یقین ہو کہ نکاح نہ کرنے میں زنا واقع ہوجائے گا تو فرض ہے کہ نکاح کرے۔ (بہار شریعت ، ۲ / ۵ ، حصّہ : ۷)
[7] الزهد لابن المبارك مارواہ نعیم بن حماد فی نسخته ، باب صفة النار ، ص۹۴ ، حدیث : ۳۲۸۔ حلية الاولیاء ، شفی بن ماتع الاصبحی ، ۵ / ۱۹۰ ، رقم : ۶۷۸۶۔
[8] احیاء العلوم ، کتاب آفات اللسان ، الآفة السابعة...الخ ، ۳ / ۱۵۱۔ احیاء العلوم(مترجم) ، ۳ / ۳۷۱۔
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع