30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
دُعائے عطار : یااللہ پاک!جو کوئی 17صفحات کا رِسالہ’’میٹھی عیداورمیٹھی باتیں “ پڑھ یا سُن لے ، اُسےدیدارِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی حقیقی عید نصیب فرما ، مرتے وقت اُس کا ایمان سلامت رہےاوراُس کی بے حساب مغفرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
حضرت جابر رضی اللہُ عنہ کے ابو جان حضرت سَمُرَہ سُوَائی رضی اللہُ عنہ رِوایت فرماتے ہیں کہ ہم نبیِ پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر تھے کہ ایک شخص نے حاضِر ہو کر عرض کی : یارَسُولَ اللہ!اللہ پاک کی بارگاہ میں سب سے اچھا عمل کون سا ہے؟ تو محبوبِ خُدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اِرشادفرمایا : سچ بولنا اور امانت ادا کرنا۔ میں نے عرض کی : یارَسُول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ! کچھ مزید ارشاد فرمائیے! فرمایا : ذِکر کی کثرت اور مجھ پر دُرودِ پاک پڑھنا کہ یہ عمل فقر(غُربت ) کو دُور کرتا ہے۔ (القول البدیع ، ص273مختصرا)
بہرِ رَفعِ مَرَض و زَحمت و رنج و کلفت ڈھونڈتے پھرتے ہیں وہ لوگ کہاں کا تعویذ
تم پڑھو صاحبِ لَولاک پہ کثرت سے دُرُود ہے عجب دردِ نِہاں اور اَماں کا تعویذ
بہر ِرفع : دُور کرنے کے لئے۔ زحمت : تکلیف۔ رَنج : غم۔ کلفت : تنگی ، پریشانی۔ دردِ نہاں : چُھپے دَرد۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
سلسلۂ قادریہ رضویہ عطّاریہ کے عظیم بُزرگ حضرت سِری سَقطی رحمۃُ اللہِ علیہ (بطورِ عاجزی)فرماتے ہیں کہ میں دل کی سختی کے مرض میں مبتلاتھا لیکن حضرت معروف کرخی رحمۃُ اللہِ علیہ کی دُعا کی برکت سے مجھے چھٹکارا مل گیا۔ ہوا یوں کہ میں ایک بار نمازِ عید پڑھنے کے بعد واپس لوٹ رہا تھا تو حضرت معروف کرخی رحمۃُ اللہِ علیہ کو دیکھا۔ آپ کے ساتھ ایک بچہ بھی تھاجس کے بال بکھرے ہوئے تھےاوروہ ٹوٹے دل کے ساتھ رورہا تھا ۔ میں نے عرض کی : یاسیدی! کیا ہوا؟ آپ کے ساتھ یہ بچہ کیوں رو رہا ہے؟ آپ نے جواب دیا : میں نے چند بچوں کو کھیلتے ہوئے دیکھاجبکہ یہ بچہ غمگین حالت میں ایک طرف کھڑا تھا اوراُن بچوں کے ساتھ نہیں کھیل رہا تھا ۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میں یتیم(Orphan) ہوں ، میرےابوجان انتقال کر گئے ہیں ، ان کے بعد میرا کوئی سہارا نہیں اور میرے پاس کچھ رقم بھی نہیں کہ جس کے بدلے اَخروٹ خرید کر اِن بچوں کے ساتھ کھیل سکوں ۔ چنانچہ میں اس بچےکو اپنے ساتھ لے آیا تاکہ اِس کے لئے گٹھلیاں (Endocarps)جمع کروں جن سے اخروٹ خرید کر یہ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل سکے۔ میں نے عرض کی : آپ یہ بچہ مجھے دے دیں تاکہ میں اِس کی یہ خراب حالت بدل سکوں ۔ آپ نے فرمایا : کیا تم واقعی ایسا کرو گے؟میں نے کہا : جی ہاں۔ فرمایا : چلو اسے لے لو ، اللہ پاک تمہارا دل ایمان کی برکت سے غنی کرے اور اپنے راستے کی ظاہری و باطنی پہچان عطا فرمائے۔ حضرت سِری سقطی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ میں اس بچے کو لےکر بازار گیا ، اسے اچھے کپڑے پہنائے اوراخروٹ خرید کر دیے جن سے وہ دن بھر بچوں کے ساتھ کھیلتا رہا۔ بچوں نے اس سے پوچھا کہ تجھ پر یہ احسان کس نے کیا؟ اُس نے جواب دیا : حضرت سری سقطی رحمۃُ اللہِ علیہ اور معروف کرخی رحمۃُ اللہِ علیہ نے۔ جب بچے کھیل کود کے بعد چلے گئے تو وہ خوشی خوشی میرے پاس آیا۔ میں نے اس سے پوچھا : بتاؤ! تمہاراعید کا دن کیسا گزرا؟اس نے کہا : اے چچا ! آپ نے مجھے اچھے کپڑے پہنائے ، مجھے خوش کر کے بچوں کے ساتھ کھیلنے کے لئے بھیجا ، میرے غمگین اور ٹوٹے ہوئے دل کو جوڑا ، اللہ کریم! آپ کو اپنی بارگاہ سے اس کا بدلہ عطا فرمائے اور آپ کے لئےاپنی بارگاہ کا راستہ کھول دے۔ حضرت سری سقطی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : مجھے بچے کے اس کلام سے بے حد خوشی ہوئی اور اس سے میری عید کی خوشیاں مزید بڑھ گئیں ۔ (الروض الفائق ، ص185) اللہ ربُّ العزّت کی اُن پر رحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو۔ اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
پیارے پیارے اسلامی بھائیو! ایک یتیم بچے سے ہمدردی اور خیرخواہی کی ایمان اَفروز حکایت آپ نے پڑھی۔ عید الفطر کی خوشیاں ہیں ، خُوب نعمتوں کی کثرت ہے ، گھر میں کھانے کےلئےایک سے ایک لذیذ ڈِش تیار ہورہی ہے ، بہترین عمدہ لباس پہنے ہوئےہیں ، گھر میں مہمانوں کاآنا جانا اورعیدیاں لینے دینے کاسلسلہ جاری ہے ، ایسےمیں کیا ہی اچھا ہوکہ پڑوسیوں ، غریبوں ، یتیموں اورسفید پوش عاشقانِ رسول کے گھروں میں بھی خوشی و راحت پہنچانے کی کوئی صورت ہوجائے تاکہ یہ ’’عید ‘‘ہمارے لئے’’سعید‘‘یعنی سعادت مندی کاسبب بن جائے۔ کاش!ایسا ہوجائے۔
نابالغ بچہ یا بچّی جس کا باپ فوت ہو گیا ہو وہ “ یتیم “ ہے ۔ ( درمختار ، 10 / 416)بچّہ یا بچّی اس وقت تک یتیم رہتے ہیں جب تک بالغ نہ ہوں ، جونہی بالغ ہوئے تو اب یتیم نہ رہےجیسا کہ حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : بالغ ہو کر بچہ یتیم نہیں رہتا۔ انسان کا وہ بچہ یتیم ہے جس کا باپ فوت ہو گیا ہو ، جانور کا وہ بچہ یتیم ہےجس کی ماں مر جائے ، موتی وہ
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع