اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
جسے کوئی مشکل پیش آئے اسے مجھ پر کثرت سے دُرُود پڑھنا چاہئے کیونکہ مجھ پر دُرُود پڑھنا مصیبتوں اور بلاؤں کو ٹالنے والا ہے ۔(القول البدیع ،ص 414،بستان الواعظین ص274)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد
سُوال :نیک بیوی کا کوئی واقعہ سنادیجئے۔
جواب :حضرت طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہُ عنہصحابیٔ رسول تھے ، ایک بار آپ کو حَضْر مَوْت سے سات لاکھ درہم موصول ہوئے تو رات بھر بے چین رہے، آپ کی زوجہ نے پوچھا : آپ کو کیا ہوا ہے؟ فرمایا : میں رات سے فکر مند ہوں کہ وہ شخص اپنے رب کی بارگاہ میں کیسے حاضر ہوگا جو اس حال میں رات گزار رہا ہو کہ اس کے گھر میں یہ مال موجود ہو ۔ سعادت مند بیوی نے عرض کی: اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟ آپ اپنے نادار دوستوں کو کیوں بھول رہے ہیں؟ صبح ہوتے ہی انہیں بُلا کر یہ سارا مال ان میں تقسیم کردیجئے ۔ نیک بخت بیوی کی یہ تجویز سن کر آپ رضی اللہُ عنہ خوش ہوگئے اور فرمایا: اللہ پاک آپ پر رحم فرمائے ، آپ واقعی نیک باپ کی نیک بیٹی ہیں۔چنانچہ صبح ہوتے ہى آپ رضی اللہُ عنہ نے مہاجرىن و اَنصار صَحابۂ کِرام علیہمُ الرضوان مىں سارا مال تقسىم کرنا شروع کر دىا ۔ ( )
اَللہ ُاَکْبَر! ہمارے صَحابۂ کرام علیہم الرضوان کى سخاوتىں ایسی تھیں ۔ ہمارے پاس پىسے آجائىں تو خوشى کے مارے بے چىن ہو جائىں جبکہ ان حضرات کے پاس جب دولت آتى تو صَدمے کے مارے ان کى حالت مُضطَرِب ہو جاتى کہ ىہ دولت کہاں سے آٹپکی؟اب مىں اِس کا کىا کروں؟ حضرت طلحہ بن عُبَیْدُاللہ رضی اللہُ عنہ کى تو بات ہى کچھ اور ہے اور ان کی زوجۂ محترمہ بھى ما شاءَ اللہ کىسى نىک عورت تھیں ۔ وہ دور ہى نىکوں کا دور تھا ۔
(ملفوظاتِ امیرِاہلِ سنت،قسط:20)
ہر صحابیٔ نبی جنّتی جنّتی
سب صحابیات بھی جنّتی جنّتی
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد