30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
الحمدُ للہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی خَاتَمِ النَّبِیّٖن ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم طامیرِ اہلِ سنّت سےمَحبّتِ رسول کے بارے میں14 سُوال جَواب
دُعائے خلیفۂ عطّار: یاربَّ المصطفےٰ !جوکوئی 14صفحات کا رسالہ’’ امیرِ اہلِ سنّت سے مَحبّت ِ رسول کے بارے میں 14سوال جواب‘‘پڑھ یاسُن لے اُسے محبتِ رسول میں تڑپنے والا دل اور عشقِ نبی میں آنسو بہانے والی آنکھیں عطا فرما اور اس کی ماں باپ سمیت بےحساب مغفرت فرما۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّٖن صلّی اللہ علیهِ واٰلهٖ وسلّمدُرُود شریف کی فضیلت
فرمانِ آخِری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : جو مومن جمعہ کی رات دو رکعت اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد 25 مرتبہ” قُلْ ھُوَ اللہ اَحَدٌ “ پڑھے، پھر یہ دُرُود ِپاک ’’ صَلَّی اللہ عَلٰی مُحَمَّدِ النَّبِیِّ الاُمِّیِّ ‘‘ہزار مرتبہ پڑھے تو آنے والے جمعہ سے پہلے خواب میں میری زِیارت کرے گا اور جس نے میری زِیارت کی اللہ پاک اس کے گُناہ مُعاف فرمادے گا ۔ (القول البدیع ، ص 383 ) مُندرجہ بالا دُرُود شریف کے فضائل میں شیخ عبدُ الحق مُحدِّث دِہلَوِی رحمۃُ اللہ علیہ نقل کرتے ہیں: جو شخص جمعہ کے دن ایک ہزار بار یہ دُرُود شریف پڑھے گا تو وہ سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خواب میں زیارت کرے گایا جنَّت میں اپنی مَنزِل دیکھ لے گا ، اگر پہلی بار میں مقصد پورا نہ ہو تو دوسرے جمعہ بھی اِس کو پڑھ لے ، اِن شاءَ اللہ پانچ جمعوں تک اس کو سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زیارت ہوجائے گی ۔ (تاریخِ مدینہ، ص343) صَلُّوا عَلَی الْحَبِیب صَلَّی اللهُ علٰی مُحَمَّد سوال: پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے کتنی محبّت کرنی چاہیے؟ جواب: پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے اپنے ماں باپ، آل اَولاد اور ہر پیاری چیز سے بڑھ کر محبت کرنا ضَروری ہے۔(1) ہر جمعہ کو آپ خطباتِ رَضویہ میں سنتے ہوں گے: اَلَا لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لَّا مَحَبَّۃَ لَہٗ یعنی خبر دار! اس کا اِیمان نہیں جس کو سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے محبت نہیں۔ (خطباتِ رضویہ،ص 6۔دلائل الخیرات ،ص47) محبت غیر کی دِل سے نکالو یَارَسُوْلَ اللہ مجھے اپنا ہی دِیوانہ بنالو یَارَسولَ اللہ (ملفوظاتِ امیر اہل سنّت، 4/419) سوال:اعلىٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ کے عشقِ رَسُول کے بارے میں کچھ بیان فرما دیجیے۔(2) جواب:اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ کا عشقِ رَسُول بھی بے مثال تھا۔ اگر کسی کو تھوڑی بہت سمجھ پڑتی ہو تو وہ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ کے نعتیہ کلام حَدائقِ بخشش کو تھوڑا تھوڑا رَٹنا شروع کردے اِن شاءَ اللہ بہت بڑا عاشقِ رَسُول بن جائے گا۔ جس شے کو سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے نسبت حاصِل ہے اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ اُس شے کا ادب فرماتےیہاں تک کہ آپ رحمۃُ اللہ علیہ مدینۂ منورہ کے کُتے کا بھی ادب فرمایا کرتے اور اِس حوالے سے آپ رحمۃُ اللہ علیہ نے حَدائقِ بخشش میں اَشعار بھی لکھے ہیں چنانچہ ایک مقام پر آپ رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : رضا کسى سگِ طىبہ کے پاؤں بھى چُومے تم اور آہ کہ اتنا دماغ لے کے چلے (حدائقِ بخشش، ص371) اِس شعر میں اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ اپنے آپ کو مخاطَب کر کے اِرشاد فرما رہے ہیں کہ” اے رضا!کبھی تو نے مدینے کے کُتے کے پاؤں بھی چومے ہیں؟تجھے اتنی سمجھ نہیں کہ مدینے کے کتے کے پاؤں چُومے جاتے ہیں۔“بعض عقلمندوں کی سمجھ میں ایسے اَشعار نہیں آتے جس کے باعِث وہ تنقید کرنے لگتے ہیں ۔ یہ نصیب کی بات ہے کہ کوئی تنقید کرتا ہے اور کوئی اللہ پاک کے ولیوں کے پیچھے چل کر اپنے لیے جنَّت کا سامان کرتا ہے۔ جب اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ مدینے کے کُتوں کا اتنا اَدب کرتے ہیں تو مدینے کے ساتھ نسبت رکھنے والے دِىگر جانوروں کا کتنا اَدب کرتے ہوں گے،پھر جو مدىنے والے سے نسبت رکھتے ہیں جىسے صَحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ، اہلِ بیتِ اَطہار اور ساداتِ کِرام ا ن کا کتنا ادب و اِحترام کرتے ہوں گے۔ عام لوگ ساداتِ کِرام کا کتنا اَدب کرتے ہیں یہ مجھے پتا ہے اور آپ کو بھی اِس کا تجربہ ہو گا۔ الحمدُ للہِ ! دعوتِ اسلامی والے ساداتِ کِرام کا بڑا ادب کرتے ہىں اور ىہ سارا ادب میرے آقا اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ کے فىضان سے تقسیم ہوا ہے ۔ مصطفےٰ کا وہ لاڈلا پیارا واہ کىا بات اعلىٰ حضرت کى غوثِ اعظم کی آنکھ کا تارا واہ کىا بات اعلىٰ حضرت کى سُنّیوں کے دِلوں میں جس نے تھی شمعِ عشقِ رسُول روشن کی وہ حبیبِ خُدا کا دِیوانہ واہ کىا بات اعلىٰ حضرت کى (وسائل بخشش، ص575) ( ملفوظات امیراہل سنّت، 1/303) سوال:جس کو مدىنے جانے کى تڑپ نہ ہو اور نہ ہی اُس کا دِل ہجرِ نبى صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مىں غمگىن ہوتا ہو تو وہ کىا کرے؟ جواب:جس کو سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے عشق مىں رونا نہ آتا ہوغم کى کىفىت پىدانہ ہوتى ہو تو وہ بَکوشش رونے جىسى شکل بنائے کہ اچّھوں کى نقل بھى اچھى ہے مگر یہ رونا رِىاکارى کے لىے نہ ہو۔ جو آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہمارے غم مىں غمِ اُمَّت مىں آنسو بہاتے رہے، ہمىں ىاد فرماتے رہے،جب دُنىا مىں تشرىف لائے پىدا ہوتے ہى رَبِّ ھَبْ لِیْ اُمَّتِی (3 ) (یعنی اے اللہ !مىرى اُمَّت مجھے بخش دے، مجھے دے دے، مجھے ہِبہ کر دے۔)جن کے لبوں پر تھا ۔ اس آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے مِعراج مىں بھى اُمَّت کو ىاد کىا۔ (سرور القلوب بذکر المحبوب، ص 95) جب قبرِ اَنور مىں تشرىف لے گئے تب بھى ہونٹ مُبارَک ہِل رہے تھے کان قرىب کر کے سُنا گىا تو اُمَّتِی اُمَّتِی(یعنى مىرى اُمَّت میری اُمَّت)فرما رہے تھے۔ (4 )آج بھى اُمَّتِی اُمَّتِی فرما رہے ہىں۔( کنز العمال ، جز:14 ، 7/178،حدیث:39108) بعض اوقات بندے کے کان بجتے ہىں تو اس وقت دُرُود شرىف پڑھنا مستحب ہے۔اعلىٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ ىہ سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اُمَّتِی اُمَّتِی فرمانے کی آواز ہے۔ (فتاویٰ رضویہ،30/712) بسا اوقات ىہ آواز جس کو رَبّ چاہتا ہے اُس کو سُنائى دىتى ہے، اس کى اىک علامت ىہ ہوتى ہے کہ اس کے کان بجتے ہىں لہٰذا اس وقت دُرُود شرىف پڑھا جائے۔ جو آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہمىں اتنا ىاد فرمائىں،مىزانِ عمل پر اپنے گناہ گار اُمَّتىوں کی نىکىوں کے پَلڑے کو بھارى بنائىں اور جب پُل صِراط سےغُلام گزرىں تواس وقت سجدے مىں جاکر رَبِّ سَلِّمْ اُمَّتِىْ ”ىعنى اے پَروَرْدَگار مىرى اُمَّت کو سَلامتى سے گزار “ کى دُعائیں دىں۔(ترمذی،4/195،حدیث:2441بتغیر قلیل) اور شَفاعت فرمائىں اب اىسے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کى محبت دِل مىں کیوں نہ پیدا ہو گی۔اِس طرح اِن باتوں کو اور ان کے رونے کو ىاد کرىں اِن شاءَ اللہ دِل مىں عشق کى کىفىات پىدا ہوں گى اور رونے کى بھى کىفىت بن سکے گى جىسا کہ مولانا حسن رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ کا دِل پر چوٹ کرنے والا ىہ شعر ہے : ہائے پھر خندۂ بیجا مِرے لَب پر آىا ہائے پھر بھول گىا راتوں کا رونا تىرا (ذوقِ نعت، ص 25) خندۂ بےجامعنىٰ فضول ہنسى، لب معنىٰ ہونٹ ىعنى مولانا حسن رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ اپنے آپ کو مخاطَب کرکے فرما رہے ہىں:”افسوس! میری فضول ہنسى نکل گئى،یَارَسُوْلَ اللہ ! آپ ہم اُمّتىوں کے لىے راتوں کو جو روتے رہے میں وہ بھول گىا،غفلت کا شِکار ہوگىا کہ مىں فضول ہنس رہا ہوں۔“ىہ بھى ىاد کرنے کا اىک انداز ہے۔اِس کے عِلاوہ عاشقانِ رَسُول کى صحبت میں بیٹھیں،72نیک اعمال پرعمل کریں اور عاشقانِ رَسُول کے ساتھ مَدَنی قافلوں میں سفر فرمائىں اِن شاءَ اللہ عشقِ رَسُول مىں رونے والى خوبی نصىب ہوہى جائے گى۔ اللہ پاک ہم سب کو پیارے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی یاد میں رونے والی آنکھیں عطا فرمائے۔ اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّٖن صلّی اللہ علیهِ واٰلهٖ وسلّم ىاد ِ نبىِ پاک مىں روئے جو عمر بھر مولیٰ مجھے تلاش اُسى چشمِ تَر کى ہے (ذوقِ نعت، ص144) (ملفوظات امیراہل سنّت، 1/385) سوال: مىں اىک بىکرى مىں کام کرتا تھا،وہاں پر 12 ربیعُ الاوّل کے مہینے میں نعلىن مبارک کے کىک بنائے جاتے تھے، بعض کیکوں کے اوپر ” اللہ “یا ”محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم “نام لکھا جاتا تھا،لوگ ان کیکوں کو گھر لے جا کر چُھرى سے کاٹ دىتے تھے ۔مىرا سُوال یہ ہے کہ ایسا کرنا ٹھىک ہے ىا غلط ؟ نیز نام لکھنے والوں کو بھى گناہ ہوسکتا ہے ىا نہىں؟ جواب: کىک پر لکھنے کے تعلق سے کئى بار عاشقانِ رَسُول کو سمجھاىا ہے ۔بہت سے لوگ اب ایسا نہیں کرتے اور جو اب بھی ایسا کرتے ہیں تو انہیں سمجھنا چاہىے کہ جس پىارے نبى صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا مبارک نام چومتے ہىں،فرىم کروا کر لگاتے ہىں،ان کے نام پر جان قربان کرتے ہىں اور پھراسى مُقَدَّس نام کو کىک پر لکھوا کر ہاتھ مىں چھرى پکڑلىتے ہىں۔ آپ کے عشق کو کىا ہوگىا ہے؟سوچیں تو سہی آپ کیا کرنے لگے ہىں؟ مجھے تو ىہ بولتے ہوئے بھى مزہ نہىں آرہا کہ مىں الفاظ میں اسے بیان کروں۔پھر یہ کہ نعلِ پاک جو ہم سر پر لگاتے ہىں اور تمنا کرتے ہیں : جو سَر پہ رکھنے کو مِل جائے نعلِ پاکِ حضور تو پھر کہىں گے کہ ہاں تاجدار ہم بھى ہىں (ذوقِ نعت، ص188) نقشِ نعلِ پاک کى عظمت پہ قربان ! عاشقانِ رَسُول خوب سمجھ سکتے ہىں کہ نعلِ پاک کى کتنى شان وعظمت ہے لیکن پھر نہ جانے بعض کو کیا ہوجاتا ہے کہ اسے کیک پر بنا کر ہاتھ مىں چُھرى پکڑ لیتے ہىں۔ایسا کرنا بے اَدبی ہے لہٰذا اس بے اَدبى سے بچنا چاہىے کہ باادب با نصیب۔(5) (ملفوظات امیراہل سنّت، 2/399) سوال:مَدَنی چینل پر آپ کے مکّۃُ المُکَرّمَہ اور مدینۃُ المُنوّرہ کی حاضری کے مَناظِر تو ہم نے دیکھے ہیں مگر مُواجَہَہ شریف پر آپ کی حاضری کے مَناظِر نہیں دیکھے اِس حوالے سے کچھ اِرشاد فرما دیجئے ۔ جواب:کافی سال ہوئے میں نے مُواجَہَہ شریف پر حاضری نہیں دی کیونکہ میں نے اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھا کہ میں رُو بَرو حاضر ہوجاؤں تو یوں ہر ایک کا اپنا اپنا ذوق ہوتا ہے۔
1… رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اِرشاد فرمایا: لَا يُؤْمِنُ اَحَدُكُمْ حَتّٰى اَكُوْنَ اَحَبَّ اِلَـيْهِ مِنْ وَّالِدِهٖ وَوَلَدِهٖ وَالنَّاسِ اَجْمَعِينَ یعنی تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتا جب تک میں اسے اس کے باپ، اَولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ۔(بخاری ،1 / 17، حدیث: 15) اِس حدیث ِ پاک کے تحت شیخ عبد الحق محدّث دِہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :مومن ِکامل کے اِیمان کی نشانی یہ ہے کہ مومن کے نزدیک رَسولِ خدا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تمام چیزوں اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب ومُعظّم ہوں ، اس حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے زیادہ محبوب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ حقوق کی ادائیگی میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اُونچا مانے اِس طرح کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے لائے ہوئے دِین کو تسلیم کرے، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنتوں کی پیروی کرے، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعظیم و ادب بجا لائے اور ہر شخص اور ہر چیز یعنی اپنی ذات، اپنی اولاد،اپنے ماں باپ، اپنے عزیز واَقارِب اور اپنے مال و اسباب پر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رضا و خوشی کو مُقَدَّم رکھے، جس کے معنیٰ یہ ہیں کہ اپنی ہر پیاری چیز یہاں تک کہ اپنی جان کے چلے جانے پر بھی راضی رہے لیکن حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے حق کو دَبتا ہوا گوارا نہ کرے۔ (اشعۃ اللمعات،1/50 ملخصاً) 2….یہ سوال شعبہ ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنّت نے قائم کیا ہے جبکہ جواب امیرِ اہلِ سنّت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ کا ہی عطا کیا ہوا ہے ۔ 3… فتاویٰ رضویہ،30/712 4…مدارج النبوت،2/442 5…اعلیٰ حضرت،امامِ اہل ِسنّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:(کھانے کی کسی چیز پر)غیرجاندار کی تصویر بنانی اگرچہ جائز ہے مگر دِینی معَظَم چیز مثل مسجد جامع وغیرہ کی تصویروں میں انہیں توڑنا اور کھانا خلافِ ادب ہوگا اور وہی بُری نسبت بھی لازم آئے گی کہ فلاں شخص نے مسجد توڑی مسجد کو کھا لیا کہ اہلِ عُرف تصویر کو اصل ہی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ،24/560 بتقدم و تاخر)
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع