Mufti Taqaddus Ali Khan Ki Seerat Ki Jhalkiyan Kiya Hain
دعوت اسلامی کی دینی خدمات دیگر ممالک میں بھی دیکھئے
  • فرض علوم
  • تنظیمی ویب سائٹ
  • جامعۃ المدینہ
  • اسلامی بہنیں
  • مجلس تراجم
  • مدرسۃ المدینہ
  • احکامِ حج
  • کنزالمدارس بورڈ
  • مدنی چینل
  • دار المدینہ
  • سوشل میڈیا
  • فیضان ایجوکیشن نیٹ ورک
  • شجرکاری
  • فیضان آن لائن اکیڈمی
  • مجلس تاجران
  • مکتبۃ المدینہ
  • رضاکارانہ
  • تنظیمی لوکیشنز
  • ڈونیشن
    Type 1 or more characters for results.
    ہسٹری

    مخصوص سرچ

    30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں

    Mufti Taqaddus Ali Khan Aik Ahad Saaz Shakhsiyat | مفتی تقدس علی خان ایک عہد سازشخصیت

    Mufti Taqaddus Ali Khan Ki Seerat Ki Jhalkiyan Kiya Hain

    book_icon
    مفتی تقدس علی خان ایک عہد سازشخصیت
                
    اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْمِ ط تلمیذِ اعلیٰ حضرت مفتی تقدس علی خان ایک عہدسازشخصیت شیطان لاکھ سُستی دِلائے یہ رِسالہ(43 صَفحات) مکمل پڑھ لیجیے اِنْ شَآءَ اللّٰہ معلومات کا اَنمول خزانہ ہاتھ آئے گا۔

    دُرُود شریف کی فضیلت

    فرمانِ مصطفےٰ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ہے: تم جہاں بھی ہو مجھ پردُرُود پڑھو کہ تمہارا دُرُود مجھ تک پہنچتا ہے۔ (1) صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّد

    تلمیذ ِاعلیٰ حضرت مفتی تقدس علی خان رحمۃ اللہ علیہ

    خاندانِ اعلیٰ حضرت کے عظیم فرد،یادگارِ اسلاف ،شیخ الحدیث حضرت علامہ مولانا مفتی تقدس علی خان صاحب، اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان (2)رحمۃ اللہ علیہ کے مرید و شاگرد اور حجۃا لاسلام علامہ مفتی حامدرضا خان (3) رحمۃ اللہ علیہ کے داماد و خلیفہ تھے ،والدکی جانب سے یہ رشتے میں اعلیٰ حضرت کے بھتیجے اور والدہ کی جانب سے نواسے تھے،انھوں نے ساری زندگی علمِ دین کی اشاعت،دارالعلوم منظرِاسلام بریلی شریف ہند(4) اورجامعہ راشدیہ پیرجوگوٹھ سندھ پاکستان(5)کی آبیاری وترقی کے وقف کئے رکھی،پاک وہندکے سینکڑوں علمانے آپ سےشرفِ تلمذحاصل کیااورچاردانگ عالم میں دینِ اسلام کی سربلندی کے لئے کوشاں ہوئے۔آپ کے حالاتِ زندگی میں سمجھنے، سیکھنے اورعمل کرنے کے کئی پہلو موجودہیں،آئیے آپ بھی ان کے حالات کا مطالعہ کیجئےاور ان سے حاصل ہونے والے دروس کو اپنی عملی زندگی میں نافذکیجئے:

    اعلیٰ حضرت سےوالدکی جانب سے رشتہ

    خاندانِ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا کا تعلق افغانستان (6) کے صوبےقندھار(7)کے پٹھان قبیلے بڑھیچ سے ہے،اس قبیلے کے ایک فردشجاعت جنگ بہادر سعیداللہ خان (8)مغلیہ دورمیں لاہور (9) اورپھردہلی (10) آئے اورکئی حکومتی عہدوں پر فائز رہے ،ان کے بیٹے سعادت یارخان (11)اورپوتے محمداعظم خان (12) تھے ، اللہ پاک نےانہیں ایک بیٹے حافظ کاظم علی خان اور چار بیٹیوں سے نوازا، حافظ کاظم علی خان، دربار اودھ کی طرف سے بدایون کے تحصیل دار (سٹی مجسٹریٹ) تھے، دوسو فوجیوں کی بٹالین آپ کی خدمت میں رہتی تھی،آپ کو آٹھ گاؤں معافی جاگیر میں ملےتھے، مال ومنصب کے باوجود آپ کا میلان دین کی جانب تھا،آپ حافظِ قرآن اورحضرت علامہ شاہ نورالحق قادری رازقی فرنگی محلی (13)کے مرید و خلیفہ تھے ،ہرسال بارہ ربیع الاول کو محفلِ میلادکیا کرتےتھے جوخانوادہ رضویہ میں اب بھی ہوتی ہے۔ (14) آپ کے تین بیٹے (1)امام العلماء مولانا رضا علی خاں (2)رئیس الحکماء حکیم تقی علی خان (3)جعفرعلی خان اورچاربیٹیاں تھیں۔ امام العلماء مولانا رضا علی خاں(15)اعلیٰ حضرت کے دادا تھے اور رئیس الحکماء حکیم تقی علی خان مفتی تقدس علی خان صاحب کے پڑدادا ہیں ۔ (16)حکیم تقی علی خان صاحب بہت بہادر ، قومی ہیکل، فنِ طِبّ میں خاص مہارت رکھتے تھے،یہ حکیم محمد اجمل خان دہلوی (17)کےشاگردتھے، ان کی شادی حکیم اجمل صاحب کے منجھلے بھائی حکیم محمد واصل خان صاحب(18) کی بیٹی سے ہوئی، یہ ریاست جے پور کے شاہی طبیب تھے، انہیں ریاست کی طرف سے اتنی جائیداد ملی جس کی سالانہ آمدن 3 لاکھ تھی، ا ن کے4 بیٹے تھے:(1)مہدی علی خان(2)حکیم ہادی علی خان(3) فتح علی خان(4) فدا علی خان،ان میں سے حکیم ہادی علی خان مفتی تقدس علی خان کے داداہیں،(19) حکیم ہادی علی خان کی شادی ریاست ٹونک کے عبدالعلیم خان صاحب کی بیٹی سے ہوئی جن سے 3 بیٹے اور ایک بیٹی پیدا ہوئی:(1)ہدایت علی خان (2)مولاناسردار ولی خان (3)محبوب علی خان۔ان میں سےمولانا سردارولی خان صاحب مفتی تقدس علی خاں صاحب کے والدمحترم ہیں ۔ (20)مولانا سردارولی خان صاحب کی پیدائش1302ھ مطابق 1885ء کو بریلی شریف میں ہوئی،انھوں نےطویل عمرپائی اور 1970ء /1390 ھ کو پیرجوگوٹھ میں انتقال فرمایا۔مفتی صاحب کے ایک مکتوب میں ہے:میرے والدصاحب کو اعلیٰ حضرت قبلہ سےخلافت نہیں تھی،وہ(سراج العارفین مولانا سیّدابوالحسین احمد) نوری میاں (21)
    سے بیعت تھے۔(22)

    والدہ کی جانب سے رشتہ

    اعلیٰ حضرت کے پڑداداحافظ کاظم علی خان صاحب کے دوبیٹے اورچاربیٹیاں تھیں،ان میں سے ایک بیٹی زینت موتی بیگم تھیں جن کا نکاح محمدحیات خان یوسف زئی سے ہوا،ان کے دوبیٹے نعمت (عرف بزرگ) علی خان اورکوچک خان تھے، نعمت (عرف بزرگ ) علی خان کے ایک بیٹے حاجی وارث علی خان تھے جن کی شادی اعلیٰ حضرت کی ہمشیرہ حجاب بیگم سے ہوئی۔ حجاب بیگم مفتی تقدس علی خان صاحب کی نانی صاحبہ ہیں، یوں اعلیٰ حضرت رشتے میں مفتی صاحب کے نانا ہوئے۔(23)حاجی وارث علی خان صاحب کے دوبیٹے اورتین بیٹیاں تھیں،ایک بیٹی کنیزفاطمہ کا نکاح مولاناسردارولی خان صاحب سے ہوا،ان کے چاربیٹے (1)مفتی تقدس علی خان(2)مفتی اعجازولی خان(3)عبدالعلی خان(4)مقدس علی خان اور 2بیٹیاں تھیں۔(24)مفتی صاحب کی والدہ محترمہ کنیز فاطمہ کی پیدائش1297ھ/ 1880ء کو بریلی میں ہوئی اور وصال 1377ھ /1957ء کو پیرجوگوٹھ میں ہوا۔(25)مفتی تقدس علی خان صاحب کی والدہ کی بہن(یعنی خالہ) کنیزعائشہ کا نکاح حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان صاحب سے ہوا،یوں حجۃ الاسلام آپ کےخالواوررشتے کےماموں ہیں،انہیں کی بیٹی کنیز صغریٰ بیگم سے آپ کا نکاح ہوا،اس لئے حجۃ الاسلام آپ کے سسربھی تھے ۔(26)حجۃ الاسلام کے بیٹے مفسرِاعظم ہند مولانا ابراہیم رضا خان (27) اور مولانا حماد رضا خان نعمانی میاں(28) آپ کے برادرِ نسبتی تھے، اس لئے آپ خاندان رضوی میں پھوپھا صاحب کے لقب سے مشہور تھے۔(29)بقول خوشترِملّت حضرت مولانا محمدابراہیم خوشترصدیقی رضوی: آپ (مفتی تقدس علی خان)حسب نسب کے اعتبارسے کاظمی اوربیعت کے اعتبارسے رضوی اوراجازت وخلافت کے اعتبارسے حامدی ہیں ۔ (30)

    پیدائش

    مفتی تقدس علی خان صاحب کی ولادت رجب المرجب 1325ھ/اگست 1907ءکو آستانہ عالیہ قادریہ رضویہ محلہ سوداگران بریلی شریف (یوپی، ہند)میں ہوئی، (31) شہنشاہِ سخن حضرت مولانا حسن رضا خان صاحب(32)نے آپ کا تاریخی نام ’’تقدس علی خان‘‘رکھا۔ (33) آپ اپنے بھائیوں میں سب سے بڑے ہیں ۔(34)

    تعلیم وتربیت

    آپ نے پانچ سال کی عمرمیں 1330ھ/1912ء کو ناظرہ قرآن مکمل کیا۔ (35) ٭ابتدائی کتب درسِ نظامی دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف(36) کے مدرس حضرت مولانا محمدخلیل الرحمٰن بہاری (37)سے پڑھیں ۔(38)٭درسِ نظامی کی متوسط کتب صاحبزادہ ٔ شہنشاہِ سخن اور داماد وخلیفۂ اعلیٰ حضرت علامہ حسنین رضا خان(39)اور مولانا عبدالمنان خان شہباز گڑھی(40) سےپڑھیں۔ شرح جامی(41) کا خطبہ اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان صاحب سے پڑھنے کی سعادت پائی۔ مفتی تقدس علی خان صاحب فرماتے ہیں : ’’میری عمر12یا 13سال کی تھی ،جب میں نے اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے شرح جامی کا درس لیا۔اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی عام نشست ایک مسہری تھی،جس پر آپ جلوہ فرماتے تھے۔ اس کے سامنے کرسیاں بچھی ہوتی تھیں جس پر لوگ آکربیٹھتے تھے۔ادب واحترام کا یہ عالم تھا کہ اعلیٰ حضرت کی مسہری پر کوئی نہیں بیٹھتاتھا۔‘‘ (42)٭آپ کے منتہی کتب کے اساتذہ صدرالمدرسین علامہ ظہورالحسین رامپوری(43)اور ان کے وصال کے بعد ان کے صاحبزادے علامہ نورالحسین رامپوری (44)، استاذالعلماءمولانا عبدالعزیز خان محدث بجنوری(45) [مفتی تقدس علی خان صاحب نےعلامہ عبدالعزیزصاحب کا ذکراپنے ایک مکتوب میں ان الفاظ سےکیاہے: مولانا عبدالعزیز خان صاحب نے دارالعلوم منظراسلام میں تقریبا بیس سال پڑھایا،اعلیٰ حضرت قبلہ سے انہیں خلافت حاصل تھی،جامع مسجدبریلی میں خطیب وامام رہے، پھر مدرسہ مظہرِاسلام مسجدبی بی جی بریلی میں اعلیٰ کتابیں پڑھاتے رہے اور منظرِاسلام میں بھی حدیث پڑھاتے رہے،انہیں بدرالطریقہ لقب سے یادکیا جاتاہے ، شام کوروزانہ مثنوی شریف کا درس ان کا معمول تھا،اپنے وطن مولوف میں وصال فرمایا۔ (46)] شیخ الحدیث علامہ رحم الہی منگلور ی (47) اورصدرالشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی رحمۃ اللہ علیہم ہیں۔)48 مفتی تقدس علی خان صاحب نے اپنے ان دونوں آخرالذکر اساتذہ کا ذکراپنے مکتوب میں اس طرح کیا ہے: مولانا رحم الہیٰ اور صدرالشریعہ مولانا امجدعلی[مدرسے کے صدرمدرس ہونےکے] اُمیدوار ہوئے، اعلیٰ حضرت [ان میں سے]کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دیتےتھے،لہٰذا لکھا کہ ایک میرادل، دوسرا میرا جگر ہے اور دونوں میری آنکھیں ہیں، ایک ماہ ایک کو مدرّسِ اول لکھا جائے اور دوسرے ماہ دوسرے کو مدرّس اول لکھا جائے اور تنخواہیں دونوں کی برابررکھی جائیں ۔(49)٭مفتی تقدس علی خان صاحب نے دورۂ حدیث حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان سے کیا ،انہیں سے ردالمحتارکا مقدمہ پڑھا اورفتاویٰ نویسی کی مشق بھی کرتے رہے ۔آپ کی صلاحیت،اطاعت ،حجۃ الاسلام سے محبت اورحجۃ الاسلام کی شفقت وکرم نوازی کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ زمانہ طالب علمی میں ہی آپ حجۃ الاسلام کے نائب مشہورہوگئے۔آپ سفر و حضرمیں حجۃ الاسلام کے رفیق وخادم اور اعزا میں سب سے قریب تھے۔(50)٭۱۳۴۵ھ /1927ء کوتقریبابیس سال کی عمرمیں آپ نے دارالعلوم منظراسلام بریلی سے درسِ نظامی سے فارغ التحصیل ہوکر سندِ فراغت حاصل کی ۔(51)

    سلسلہ قادریہ کی خلافت

    ٭ مفتی تقدس علی خان سات سال کی عمرمیں 1332ھ/1914ء کو اعلیٰ حضرت سےسلسلہ قادریہ رضویہ میں بیعت ہوئے، چنانچہ آپ کے ایک مکتوب میں ہے :مجھے اعلیٰ حضرت قبلہ سے 1332ھ میں ارادت حاصل ہوئی ۔ان کا دستخط شدہ شجرہ میرےپاس محفوظ ہے۔ (52)بعدمیں شرح جامی کا خطبہ پڑھ کرشرفِ تلمذبھی حاصل کیا ، جب اعلیٰ حضرت کا وصال ہوا تو آپ پندرہ سال کے تھے،خاندان کے دیگرافراد کے ساتھ مل کرتجہیز وتکفین میں شریک ہوئے۔ بعض کتب میں آپ کو خلیفۂ اعلیٰ حضرت لکھا گیاہے لیکن یہ بات درست نہیں ، آپ مریدوتلمیذِاعلیٰ حضرت ضرورہیں مگر خلیفہ اعلیٰ حضرت نہیں ،صاحبِ فوز المقال فی خلفائے پیر سیال حاجی مریداحمدچشتی صاحب(53)نےخلفائے اعلیٰ حضرت پر کام کے دوران مفتی تقدس علی خان صاحب کو کئی مکتوب بھیجے ،ان کی معلومات میں جوجوخلفائے اعلیٰ حضرت تھے ان کے نام مفتی صاحب کوروانہ کئے،اس فہرست میں آپ کا نام100نمبرمیں تحریرتھا،آپ نے جن ناموں کے بارے میں فرمایا کہ مندرجہ ذیل افرادکو (اعلیٰ حضرت قبلہ سے)خلافت نہیں ملی ،اس میں اپنا نام بھی شامل فرمایا۔(54)٭حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان صاحب نےآپ کو خاندانِ قادریہ کے اوراد و وظائف کی اجازت دے کر خلافت سے نوازا۔ اپنے ہاتھوں سے مصافحہ فرماتے ہوئے’’حدیثِ مصافحہ ‘‘سنائی جوکہ سات واسطوں سے حضورسیّدِکائنات صلی اللہ علیہ والہ وسلم تک پہنچتی ہے، آپ کو حجۃ الاسلام سے کتنا قرب تھا ،علامہ محمدابراہیم خوشترصدیقی قادری رضوی صاحب (55) تحریر فرماتے ہیں: (مفتی صاحب)حضرت حجۃ الاسلام کے سفروحضرمیں ساتھی،معاملات میں امین،دینی اوردنیوی ذمہ داریوں میں شریک و معین رہے، آپ فرزندنسبتی (داماد)تھے، مگر زندگی بھرحقِ فرزندی اداکرتے رہے۔ جامعہ منظراسلام کے انتظام و انصرام میں اور سلسلہ حامدیہ رضویہ کی ترویج واشاعت میں آپ حضرت حجۃ الاسلام کے مازون ومجاز اورخلیفہ ٔ برحق تھے۔(56)مزیدفرماتے ہیں:(فارغت کے بعد)اگرچہ آپ نائب مہتمم تھے مگردارالعلوم(منظراسلام )،عرس قادری وغیرہ کا ساراہتمام آپ سے متعلق تھا۔(57)حجۃ الاسلام کے علاوہ آپ کو قطب مدینہ ،شیخ العرب والعجم مولانا ضیاءالدین احمدمدنی صاحب سے بھی خلافت حاصل ہے، قطبِ مدینہ رحمۃاللہ علیہ آپ کا ذکرخیرکرتے ہوئے فرمایا کرتے : (مفتی تقدس علیٰ خان )سادہ لوح،بے تکلف،بس دین کی خدمت سے غرض رکھنے والے عالِم ہیں ۔(58)مفتیِ اعظم ہند مفتی محمدمصطفیٰ رضا خان(59)نے بھی آپ کو خلافت سے نوازا،اسی محبت وعقیدت کی بناء پرمفتی تقدس علی رضوی صاحب نے مکاشفۃ القلوب مترجم کا انتساب مفتیِ اعظم کے نام کیا،چنانچہ آپ تحریرفرماتےہیں :مُعنون باسمِ گرامی،آقائے نعمت حضرت مفتیِ اعظم ہند محمدمصطفیٰ رضاخاں دامت برکاتہم القدسیہ سجادہ نشین آستانہ عالیہ بریلی شریف ،جن کی عمدہ تربیت وشفقت سے ہیچمدان فقیراس درجہ پرفائزہوا،فقیرتقدس علی خان بریلوی۔ 60))

    شادی واولاد

    آپ کی شادی حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان صاحب کی بیٹی کنیز صغریٰ بیگم سے ہوئی،آپ کے چاربیٹے تھے: (1)مصدق علی خان(2)حاجی محمد اختر حامد خان[1364ھ تا 1384ھ،بیس سال کی عمر میں وصال فرماگئے] (3)اعزاز ولی خان (4)منورعلی خان (1365ھ تا1367ھ) اورچاربیٹیاں تھیں:(1)حلیمہ بی بی(1362ھ تا1364ھ) (2)کنیز ریحانہ (3)کنیز عذرہ(4) کنیز فاطمہ۔تمام اولادکا انتقال بچپن یا لڑکپن میں ہوا۔آپ کی زوجہ محترمہ کاوصال 1388ھ/1969 ء کو کراچی میں ہوا،تدفین فردوس کالونی کراچی کے قبرستان میں اپنے بھائی مولانا حماد رضا خان نعمانی میاں کی قبرکے پہلومیں ہوئی۔ (61) اتنی صبر آزما زندگی کے باوجودآپ کے چہرے پرہمیشہ تبسم دیکھا گیا ،آپ اِنَّ اللہَ مَعَ الصَّاْبِرِیْن کی جاگتی تصویرو تفسیرتھے ۔ (62)حضرت مولاناحکیم مفتی قاری محبوب رضا خان صاحب(63) آپ کے بارے میں تحریرفرماتے ہیں :(مفتی تقدس علی خان صاحب )صبروقناعت اورتوکل علی اللہ کا ایک ایسانمونہ تھے کہ ان کو دیکھ کر اسلاف کی یادتازہ ہوجاتی تھی،بڑے سے بڑےغم کو ہنس کر برداشت کرتے تھے ،ان کے چہرے پرایک مخصوص تبسم جوہروقت رہتا تھا، محبت کا ایک نورتھا جوہروقت جھلکتا تھا اور غمزدہ دلوں کے لئے وجہِ تسکین تھا۔ (64) شرفِ ملّت حضرت علامہ عبدالحکیم شرف قادری صاحب(65)تحریرفرماتے ہیں: باوجودیکہ بیوی، بچے، بھائی اور والدصاحب سب وصال فرماگئے اور آپ تنِ تنہارہ گئےتھے،لیکن ہروقت ہشاش بشاش رہتے،بلکہ ان کی خدمت میں حاضرہونے والاغم وآلام کو بھول کردل شاداورخوش وقت ہوجاتا،چہرے پر وہ ملاحت اوردلکشی کہ صرف بچوں کے چہرے پرہی دیکھی جاسکتی ہے ۔ کوئی تکلیف ہوتی توفرماتے :آبِ زم زم مل جائے تو مجھے افاقہ ہوجائےگا۔(66)آخری عمرمیں آپ کئی بیماریوں میں مبتلا ہوئے، اس کے باوجود صابر و شاکر رہے چنانچہ ذیقعدہ 1395ھ/نومبر1975ء میں آپ کو نمونیہ ہوگیا، صفر1396ھ /فروری 1976ء میں آپ کوضعیفِ نفس کاعارضہ ہوا،اوائل 1406ھ/نومبر1981ء میں بہت بیمارہوگئے اس لئے مفتی اعظم ہند کی وفات پر بریلی شریف نہ جاسکے،1986ء/1407ھ کے ایک مکتوب میں ہے: بلڈپریشراورشوگرکا مریض ہوں آنکھوں میں موتیااتررہا ہے ،خداکرم کرے ۔(67)
    1 …… معجم کبیر،حسن بن حسن بن علی عن ابیه ،3/82 ،حدیث:2729۔ 2 اعلیٰ حضرت ،مجدددین وملت، امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت10شوال 1272ھ /6جون 1856ءکو بریلی شریف (یو پی) ہند میں ہوئی، یہیں 25 صفر 1340 ھ /28،اکتوبر1921ءکو وصال فرمایا۔ مزار جائے پیدائش میں مرجع خاص وعام ہے۔آپ حافظ قرآن، پچاس سے زیادہ جدیدوقدیم علوم کے ماہر،فقیہ اسلام ،محدث وقت ،مصلح امت، نعت گوشاعر، سلسلہ قادریہ کے عظیم شیخ طریقت، تقریبا ایک ہزارکتب کے مصنف، مرجع علمائے عرب وعجم،استاذالفقہاومحدثین ،شیخ الاسلام والمسلمین ،مجتہدفی المسائل اور چودہویں صدی کی مؤثر ترین شخصیت کے مالک تھے۔ کنزالایمان فی ترجمۃ القرآن،فتاویٰ رضویہ (33جلدیں)، جد الممتارعلی ردالمحتار (7 جلدیں،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی) اور حدائق بخشش آپ کی مشہور تصانیف ہیں۔(حیاتِ اعلیٰ حضرت، 1/58، 3/295،مکتبۃ المدینہ،تاریخِ مشائخِ قادریہ رضویہ برکاتیہ،282، 301) 3 شہزادۂ اعلیٰ حضرت،حُجّۃُ الاسلام مفتی حامد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ علامۂ دہر، مفتی اسلام ،نعت گوشاعر،اردو،ہندی ،فارسی اورعربی زبانوں میں عبوررکھنے والےعالم دین ، ظاہری وباطنی حسن سےمالامال ،شیخ طریقت ،جانشینِ اعلیٰ حضرت اوراکابرین اہل سنت سے تھے ۔ بریلی شریف میں ربیعُ الاول1292ھ/اپریل1875ء میں پیداہوئے اور17جمادی الاولیٰ 1362ھ /22مئی 1943ءمیں وصال فرمایا ، مزار شریف خانقاہِ رضویہ بریلی شریف ہند میں ہے، تصانیف میں فتاویٰ حامدیہ مشہورہے۔(فتاویٰ حامدیہ،ص48،79) 4 اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قادری رحمۃ اللہ علیہ نے شہر بریلی(یوپی ہند) میں غالباماہ شعبان المعظم 1322ھ/ اکتوبر1904ء میں دارالعلوم(مدرسہ اہل سنت وجماعت) منظر اسلام بریلی کی بنیاد رکھی، اس مدرسے کے بانی اعلیٰ حضرت امام احمدرضا ،سربراہ حجۃ الاسلام مولانا حامدرضا قادری اورپہلے مہتمم برادراعلیٰ حضرت مولانا حسن رضا خان رحمۃ اللہ علیہم مقررہوئے ، ہر سال اس ادارے سے فارغ التحصیل ہونے والے حفاظ قرآن، قراء اور علماء کی ایک بڑی تعداد ہے۔(صدسالہ منظراسلام نمبرماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی،ماہ مئی 2001ء،قسط 1ص28،132) 5 جامعہ راشدیہ پیرجوگوٹھ ضلع خیرپورمیرس میں واقع ہے ،یہ اہل سنت وجماعت کا شمالی سندھ کابڑادینی مدرسہ ہے ، سلسلہ قادریہ راشدیہ کےعظیم بزرگ حضرت سیدمحمدراشدشاہ روزہ دھنی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا آغازتخمینا1195ھ/1781ء میں کیا ، 9شعبان 1371ھ/4مئی 1952ء کواس کی نشاۃ ثانیہ ہوئی،اس کے پہلے شیخ الجامعہ مفتی تقدس علی خان،شیخ الحدیث مفتی صاحبدادخان صاحب اور مہتمم رائس الافاضل حضرت مولانا محمدصالح مہرقادری رحمۃ اللہ علیہم مقررہوئے،اس سےہزاروں علما فارغ التحصیل ہوچکےہیں ،اوراسکی ذیلی شاخیں تین سوسےزائدہیں جس میں سے دوسودرسِ نظامی اورسوحفظ قرآن کی ہیں۔(انوارعلمائے اہل سنت سندھ،735 ،146،369) 6 افغانستان وسط ایشیا اور جنوبی ایشیا میں واقع ایک زمین بند ملک ہے یہ پاکستان سے جنوب مشرق میں واقع ہے۔اسکو یکم ربیع الآخر1121ھ/ 10جون1709ء کو احمدشاہ بابادرانی ابدالی نے قائم کیا،افغانستان چاروں طرف سے خشکی سے گھرا ہوا ہے جس کا کوئی ساحلِ سمندر نہیں۔ اس کی سمندری تجارت پاکستان کے ذریعے ہوتی ہے۔ زیادہ علاقہ پہاڑی ہے جو زیادہ تر کوہ ہندوکش پر مشتمل ہے۔ افغانستان میں پانی کی شدید کمی ہے اگرچہ چار دریا ہیں جن کے نام دریائے آمو، دریائے کابل، دریائے ہلمند اور دریائےھریرود ہیں،اس کا رقبہ 652230 مربع کلومیٹر ہے ۔اسلامی جموریہ افغانستان کادارالحکومت کابل ہے،اکثرآبادی پشتواوردری(فارسی)زبان بولتی ہے، 2020ء میں اس کی آبادی ساڑھے تین کروڑسےزیادتھی۔اس کے34صوبے ہیں ۔معاشرتی سسٹم قبائلی ہے ،تقریبا60 فیصدپشتون،20 فیصدتاجک،10 فیصدہزارہ اوربقیہ 10 فیصد دیگرقبائل ہیں ۔ افغانستان کے %99 لوگ مسلمان ہیں جن میں سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ 7 قندھارجنوبی افغانستان کا ایک شہر اور صوبہ قندھار کا دار الحکومت ہے، در یائے ارغنداب کے کنار ے واقع اس شہر کی آبادی تقریبا تین لاکھ 16 ہزار ہے۔ یہ افغانستان کا دوسرا سب سے بڑا شہر اور ایک اہم تجارتی مرکز ہے۔ بین الاقوامی ہوائی اڈے اور شاہراہوں کے وسیع جال کے ذریعے یہ شہر دنیا بھر سے منسلک ہے۔ پشاور کے بعد یہ پشتون عوام کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ 8 شجاعت جنگ بہادرسعیداللہ خان افغانستان سے ہندمیں آئے،شاہ دہلی محمدشاہ ان کی صلاحیتوں سےبہت متاثرہوااورانہیں لاہور کا شیش محل بطور جاگیردیا،پھردہلی میں بلاکرریاست رامپورمیں جاگیر دی،آخری عمرمیں آپ بریلی شریف میں مستقل رہائش پذیرہوگئے، یہیں انتقال ہوااور شہزادہ کا تکیہ محلہ معماران بریلی میں تدفین ہوئی۔)تجلیات تاج الشریعہ، (82 9 لاہورایک قدیم وتاریخی شہرہےمغلیہ عہدمیں لاہورکے اردگردفصیل اورتیرہ دروازے بنائےگئے، 372ھ/982ء کویہ ملتان سلطنت کا حصہ تھا،اب یہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کا دار الحکومت اور پاکستان کادوسرا بڑا شہر ہے۔ یہ پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکز ہے،اسےپاکستان کا دل اور باغوں کا شہر کہا جاتا ہے۔ یہ شہر دریائے راوی کے کنارے واقع ہے۔ اس شہر کی آبادی تقریباایک کروڑ 11لاکھ ہے۔ 10 دہلی یا دلی بھارت کے شمال میں واقع ہے۔ دہلی شہربھارت کا ممبئی کے بعد دوسرااوردنیابھرکا تیسراسب سے بڑاشہری علاقہ ہے ، اس کی آبادی اڑھائی کروڑسے زائدہے ، اس کا رقبہ 1،484 مربع کلومیٹر (573 مربع میل) ہےدریائے جمنا کے کنارے یہ شہر چھٹی صدی قبل مسیح سے آباد ہے۔1338ھ/ 1920ء کی دہائی میں قدیم شہر کے جنوب میں ایک نیا شہر "نئی دہلی" بسایا گیا جوکہ موجودہ بھارت کا دارالحکومت ہے ، فی زمانہ دہلی بھارت کا اہم ثقافتی، سیاسی و تجارتی مرکز سمجھا جاتا ہے۔ 11 سعادت یارخان دربارِ دہلی میں وزیرمالیات مقرر ہوئے،انہوں نے دہلی میں بازارسعادت گنج اورنہرسعادت خاں قائم کی ،انکی وفات وتدفین کےبارےمیں معلومات نہ ہوسکیں۔(تجلیات تاج الشریعہ،82) 12 محمداعظم خان بریلی تشریف لے آئے ،یہ حکومت کے عہدہ وزارت پر فائزتھےپھر وزرات کے عہدے سے علیحدہ ہوکرزہد و عبادات پر مصروف ہوگئے ،شہزادہ کا تکیہ محلہ معماران بریلی میں مقیم ہوئے ،یہیں آپ کا مزارہے آپ کا شماربریلی کے باکرامت اولیائے کرام میں ہوتاہے ۔(امام احمدرضا خان قادری ،ازعلامہ بدرالدین رضوی ،92) 13 حضرت شاہ نورالحق قادری رزاقی فرنگی محلی،بحرالعلوم علامہ عبدالعلی لکھنوی کےشاگرد،والدگرامی ملااحمدانوارالحق فرنگی محلی کے مرید و خلیفہ اورمدرس درسِ نظامی تھے، 23ربیع الاول1237ھ/17 دسمبر1821ءوصال فرمایا۔آپ عاجزی وانکساری میں مشہور تھے۔ )تذکرہ علمائےہند،452 ( 14 تجلیات تاج الشریعہ،83۔ 15 جدِّ اعلیٰ حضرت ،امام العلماءمفتی رضا علی خان صاحب عالم دین،اسلامی شاعر،مفتی اسلام،استاذالعلماء،علامہ فضل رحمن گنج مرادآبادی کے مرید، شیخِ طریقت اورصاحبِ کرامت ولی کامل تھے۔1224ھ/1809ء کو بریلی شریف کے صاحبِ حیثیت دینی گھرانے میں پیداہوئے اور 2جمادی الاولیٰ1286ھ/10،اگست 1869 ءکویہیں وصال فرمایا، مزار قبرستان بہاری پورنزدپولیس لائن سٹی اسٹیشن بریلی شریف (یوپی، ہند) میں ہے۔ (معارف رئیس اتقیا،ص17 16 رئیس الحکماء حکیم تقی علی خان صاحب مفتی تقدس علی خان اورمفتی اعجازولی خاں رحمۃ اللہ علیہما کے پڑداداہیں ۔ 17 حکیم محمداجمل خان کی پیدائش 1284ھ/1864ءکو دہلی میں ہوئی ،آپ بھائیوں میں سب سے چھوٹےتھے ،طب کےساتھ دیگراسلامی علوم پربھی نظرتھی،صاحب دیوان شاعربھی تھے،حافظ اورپھرشیداتخلص رکھا، اولیائے کرام اورتصوف کے محب تھے، تحریک خلافت میں حصہ لیا اورجیل بھی گئے ،زنانہ مدرسہ طیبہ شفاخانہ دہلی آپ نے ہی بنایا ،تقریبا سات سال جامعہ ملیہ اسلامیہ کے چانسلر رہے، 25جمادی الاخریٰ 1346ھ/20دسمبر1927ء کو انتقال ہوا۔(مسیح الملک حکیم اجمل خاں،18تا21،289،540) 18 حکیم محمدواصل خان ثانی، مشہوردہلوی حکیم خاندان کے اہم فردتھے ،آپ مشہورحکیم محمودخاں کے منجھلے بیٹےاورحکیم اجمل کے بڑے بھائی تھے،پیدائش1277ھ/ 1861ء کوہوئی ،اپنے بڑے بھائی حکیم عبدالمجید خان کے ساتھ مل کر1883ءمیں علم طب کی ترویج کے لیے مدرسہ طیبہ دہلی کا آغازکیا ،بڑے بھائی کے انتقال(وفات:1901ء) کے وفات کے بعد خاندان مطب اوراس درسگاہ کی ترقی میں تادم وفات مصروف رہے ،درس گاہ کے اخراجات کے لیے ایک دواسازادارہ بنایا جو بعدمیں ہندوستانی دواخانہ کے نام سے مشہورہوا،تقریبا 4سال یہ خدمات سرانجام دے کر صرف43سال کی عمرمیں1322ھ/ 1904ء کو انتقال کرگئے ،تدفین درگاہِ سیدحسن رسول نمانئی دہلی میں بڑے بھائی کی قبرکے قریب ہوئی۔(مسیح الملک حکیم اجمل خاں،17،18) 19 مفتی تقدس علی خان کا تذکرہ جن کتابوں میں ہے ان میں سے اکثر میں اعلیٰ حضرت کے دادامولانا رضا علی خان کوحکیم ہادی علی خان کاوالدلکھا گیا ہے جوکہ درست نہیں ،مفتی تقدس علی خان صاحب کے دادا حکیم ہادی علی خان ،امام العلما مولانا رضا علی خان صاحب کے بھائی رئیس الحکماءحکیم تقی علی خان کے بیٹے ہیں ۔ 20 حیات اعلیٰ حضرت ،مکتبۃ رضویہ کراچی،13تا18۔ 21 سِراجُ العَارِفِین حضرت مولانا سیّد ابوالْحُسَین احمد نُوری رَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ عالِمِ دین،شیخِ طریقت اورصاحِبِ تصانیف ہیں۔1255ھ /1840 ءمیں پیدا ہوئے اور 11رجب 1324ھ /31اگست 1906ءمیں وِصال فرمایا۔ مزارِ پُراَنوار مارہرہ شریف (ضلع ایٹہ یو پی) ہِند میں ہے۔ ” سِرَاجُ الْعَوَارِفِ فِیْ الْوَصَایَا وَالْمَعَارِفِ “ آپ کی اہم کتاب ہے۔(تذکرۂ نوری، ص 146،275،218) 22 حیات مفتی تقدس علی خان ،تحریک اہل سنت کراچی،5 ، ماہنامہ معارف رضا کراچی،جولائی 2013ء،ص57۔ 23 مفتی تقدس علی خان کا تذکرہ جن کتابوں میں ہے ان میں یہ لکھا گیا ہے کہ ’’آپ(یعنی مفتی تقدس علی خان صاحب) کی نانی صاحبہ کی بہن اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ کی زوجہ محترمہ تھیں۔‘‘یہ درست نہیں ہے ، درست یہ کہ مفتی تقدس علی خان صاحب کی نانی حجاب بیگم اعلیٰ حضرت کی بہن تھیں ،دیکھئے : حیات اعلیٰ حضرت ،مکتبۃ رضویہ کراچی، 17 ۔ 24 حیات اعلیٰ حضرت ،مکتبۃ رضویہ کراچی،16،17۔ 25 حیات مفتی تقدس علی خان ،تحریک اہل سنت کراچی،5 ۔ 26 حیات اعلیٰ حضرت ،مکتبۃ رضویہ کراچی، 17،18۔ 27 مُفسرِ اعظم حضرتِ مولانا محمد ابراہیم رضا خان رضوی جیلانی میاں رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت10ربیع الاخر1325ھ/ 23مئی 1907ء کو بریلی شریف (یوپی) ہند میں ہوئی۔ آپ عالمِ دین، مصنف، مہتمم دار العلوم منظرِ اسلام اور شیخ الحدیث تھے۔11 صفرالمظفر 1385ھ/11جون 1965ء کو وصال فرمایا، آپ کا مزار مبارک بریلی شریف (یوپی) ہند میں روضۂ اعلیٰ حضرت کے دائیں جانب ہے۔ (تجلیات تاج الشریعہ،ص93، تذکرہ جمیل ،205) 28 مولانا حمادرضا خان نعمانی میاں حجۃ الاسلام کے دوسرے فرزندہیں ،آپ کی ولادت 1334ھ/1915ء کو بریلی شریف میں ہوئی ، اعلیٰ حضرت کی زیارت سے مشرف ہوئے ،اعلیٰ حضرت نے اپنے ایک مکتوب میں آپ کو ’’چھوٹانبیرہ ‘‘تحریرفرمایاہے ،آپ نے علم دین حجۃ الاسلام سے حاصل کیا ،1357ھ/1937ءکوآپ کی شادی بریلی کے ایک سادات گھرانے میں ہوئی ،3بیٹے اور4بیٹیاں ہیں ،آپ نے پاکستان ہجرت فرمائی اور1375ھ/1956ءکو کراچی میں وصال فرمایا تدفین فردوس قبرستان کراچی میں ہوئی۔(تجلیات تاج الشریعہ،ص94 ) 29 حیات مفتی تقدس علی خان ،7۔ 30 ذکرجمیل،237۔ 31 حسن اتفاق آپ کی ولادت سے چنددن پہلے10ربیع الاخر1325ھ/23مئی1907ء کو حجۃ الاسلام علامہ رضا خان صاحب کے ہاں کئی بچیوں کی پیدائش کے بعدعلامہ ابراہیم رضا جیلانی میاں کی ولادت ہوئی ،جس سےخاندان بھرمیں خوشی کی لہردوڑگئی۔(تذکرہ جمیل ، 204)۔ 32 صاحبِ ذوقِ نعت، استاذِ زمن ،شہنشاہ سخن حضرت مولانا حسن رضا خان، اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان کےمنجھلے بھائی، قادِرُالکلام شاعر ، کئی کتب کے مصنف اور دارُالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف کےمہتممِ اوّل ہیں،22ربیع الاول 1276ھ/19،اکتوبر1859ءکو محلہ سوداگران بریلی میں پیدا ہوئے، 3شوال 1326ھ/29،اکتوبر1908ءکوبریلی شریف میں وصال فرمایا، مزارمبارک قبرستان بہاری پور نزد پولیس لائن سٹی اسٹیشن بریلی شریف (یوپی، ہند) میں ہے۔ (ماہنامہ سنی دنیابریلی،صفر1408ھ/اگست1994ء،ص205تا208) 33 ایک کتاب میں لکھاہے کہ یہ نام(اعلیٰ حضرت کے بھتیجے) مولانا حسنین رضا خان صاحب(پیدائش: 1310 ھ) نے رکھا مگریہ بات درست نہیں کیونکہ اس وقت ان کی عمرپندرہ سال تھی ، مولاناحسن رضا خان (وفات3شوال 1326ھ)بھی حیات تھے ، مفتی تقدس علی خان صاحب کا نام مولانا حسن رضا خان صاحب نے رکھا ہوگا،اس کی تائیدمفتی تقدس علی خان صاحب کے ایک مکتوب سے بھی ہوتی ہے چنانچہ آپ علامہ حسن رضا خان صاحب کا تذکرہ کرتےہوئے تحریرفرماتے ہیں :میری پیدائش 1325ھ کی ہے،میراتاریخ نام ’تقدس علی خاں‘(1325ھ)انہیں کا استخراج کردہ ہے۔ (ماہنامہ معارف رضا کراچی،جولائی 2013ء،ص51 ) 34 حیات مفتی تقدس علی خان ،5 35 حیات مفتی تقدس علی خان ،7۔ 36 مفتی تقدس علی خان صاحب کی تمام تعلیم دارالعلوم منظراسلام بریلی شریف میں ہوئی،بعض حضرات نے لکھا ہے کہ آپ نے مدرسہ عالیہ رام پور میں بھی تعلیم حاصل کی مگریہ بات درست معلوم نہیں ہوتی ، کیونکہ آپ کے رامپوری اساتذہ یعنی علامہ ظہورالحسین صاحب آپ کےزمانہ طالب علمی میں دارالعلوم منظراسلام کے مدرس تھے ان کا وصال 22جُمادَی الاُخریٰ 1342ھ/30جنوری 1924ء کو ہواتو حجۃ الاسلام علامہ حامدرضا خان صاحب نے تاریخ وصلہ کےعنوان سے منظوم تعزیت رقم فرمائی (تذکرہ جمیل ،28،64) اس کے بعدان کے بیٹے علامہ نورالحسین رامپوری صاحب دارالعلوم منظراسلام بریلی کے مدرس مقررہوئے۔الحاصل مفتی تقدس علی خان صاحب نے ان دونوں مدرسین سے بریلی شریف میں رہتے ہوئے تعلیم حاصل کی ۔واللہ اعلم بالصواب۔ 37 واعظ دلپزیرحضرت علامہ مولانا محمدخلیل الرحمٰن بہاری کا تعلق ہندکےصوبہ بہارسے ہے ،جب اعلی حضرت امام احمدرضاخان صاحب مدرسہ حنفیہ پٹنہ کےسالانہ اجلاس(15تا17رجب 1317ھ/19تا21نومبر1899ء) میں تشریف لائے تو اِنہوں نے جیسے ہی اعلیٰ حضرت کی زیارت کی تو بہت متاثرہوئے ،اجلاس کے اختتام پر بریلی شریف حاضر ہوئے ،اعلیٰ حضرت سے بیعت کی اورپھر خلافت سے نوازے گئے، آپ استاذدرس نظامی مدرسہ عربیہ متیال مٹھ مدراس (نیانام ،چینائی،ریاست تمل ناڈو،ہند)،جیدعالم دین،بہترین واعظ، مجاز طریقت ، جماعت رضائے مصطفیٰ اورجماعت انصارالاسلام کے ہمدردورکن تھے۔(تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت،415تا417) 38 حیات مفتی تقدس علی خان ،۵۔ 39 شہزادۂ استاذِ زمن، استاذُ العلما حضرتِ مولانا محمد حسنین رضا خان رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1310 ھ/1893 ء کو بریلی شریف (یوپی) ہند میں ہوئی۔ آپ اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان صاحب کے بھتیجے، داماد، شاگرد و خلیفہ، جامع معقول و منقول،ذہین و فطین ومحنتی، کئی کُتُب کے مصنف، مدرسِ دار العلوم منظرِ اسلام، صاحبِ دیوان شاعر، بانیِ حسنی پریس و ماہنامہ الرضا و جماعت انصار الاسلام تھے۔ وصال5 صَفَر 1401ھ /14ستمبر1980ء میں فرمایا اور مزار بریلی شریف میں ہے۔ (تجلیات تاج الشریعہ، ص95، صدر العلما محدث بریلوی نمبر، ص77تا81) 40 صاحبِ حق استاذالعلماعلامہ عبد المنان شہبازگڑھی،1895ء/ 1313ھ کو شہباز گڑھ ضلع مردان کے علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اپنے علاقے کے علماسے علوم عقلیہ ونقلیہ سے فارغت کے بعد مدرسہ اندرکوٹ میرٹھ (یوپی ہند)سے دورہ حدیث کیا ،مدرسہ نصرۃ الاسلام سے تدریس کا آغازکیا ،پھر دارالعلوم منظراسلام میں پڑھایا ،پھرپاکستان میں آکر دار العلوم حزب الاحناف لاہورمیں تدریس کی، پھراپنےگاؤں میں آخرزندگی تک سلسلہ تدریس جاری رکھا اورمسجدبہران خیل کے امام وخطیب مقررہوئے۔ ( تعارف علماء اہل سنت ص 210)مفتی تقدس علی خان صاحب کےبعض تذکروں میں آپ کی منتہی کتب کے اساتذہ میں علامہ عبدالمنان خان صاحب کا نام بھی لکھاگیا ہے لیکن یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ علامہ عبدالمنان صاحب کی فراغت کا سال 1341ھ /1923ءہے اورمنظراسلام میں آپ کی تدریس غالبا 1342ھ/1924ءکے بعدشروع ہوئی،قرین قیاس یہی ہے کہ آپ علامہ تقدس صاحب کے متوسط کتب کے استاذہیں،واللہ اعلم۔ 41 شرح جامی ،مشہورعاشق رسول علامہ عبدالرحمن جامی رحمۃ اللہ علیہ (پیدائش:23شعبان817ھ۔وفات:18محرم898ھ)کی کتاب ہے جس کا اصل نام الفوائدالضیائیہ ہے جوکہ علامہ ابن حاجب عثمان بن عمردوینی (پیدائش:اواخر570ھ۔ وفات:16شوال 646ھ) کی علم النحومیں کتاب الکافیہ کی شرح ہے ، یہ بہت اعلیٰ ،مشہور،معروف شرح ہے ،یہ کئی شروحات کافیہ کا خلاصہ ہے ،اس میں نحوی مباحث کو عقلیت کا رنگ دیا گیا تاہم ٹھوس استعداد پیداکرنے کے لیے بہت عمدہ کتاب ہے۔یہ اب بھی درسِ نظامی کےچوتھے سال (درجہ رابعہ)میں پڑھائی جاتی ہے۔ دعوتِ اسلامی کےادارۂ تصنیف وتالیف المدینۃ العلمیہ(اسلامک ریسرچ سینٹر)کےعالم دین، استاذالعلماء علامہ عبدالواحدعطاری مدنی صاحب نےشرح جامی کا عربی حاشیہ بنام الفرح النامی تحریرفرمایا ہے جسے مکتبۃ المدینہ نے بہت خوبصورت اندازمیں شائع کیا ہے ۔ 42 شمسُ العلماء حضرت علّامہ ظہور الحسین فاروقی مجددی رامپوری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 1274ھ/1857ء میں ہوئی اور وصال 12جُمادَی الاُخریٰ 1342ھ/20جنوری 1924ء کو رامپور (یوپی، ضلع لکھنؤ) ہند میں ہوا۔ آپ علومِ عقلیہ و نقلیہ میں ماہر،مدرس مدرسہ عالیہ رامپورو صدر مدرس دارُالعلوم منظراسلام بریلی ، بشمول مفتیِ اعظم ہند سینکڑوں علما کے استاذ اور کئی دَرسی کتب کے مُحَشِّی ہیں۔ ( تذکرہ کاملان رامپور،184تا186) 43 علامہ نورالحسین رامپوری اپنےوالدصاحب علامہ ظہورالحسین رامپوری کے علمی جانشین،مدرس درسِ نظامی،استاذالعلماء اورکئی کتب کے مصنف ہیں۔(تذکرہ کاملان رامپور،186)، بدرالطریقہ حضرت مولانا حافظ عبد العزیز خان محدث بجنوری رضوی رَحْمَۃُ اللہ عَلَیْہ کی ولادت بجنور(یوپی،ہند)میں ہوئی، آپ عالم، مدرس،صوفی باصفا اور خلیفہ اعلیٰ حضرت تھے،پہلے مدرسہ جامع مسجدپیلی بھیت کے مدرس مقررہوئے،پھر جامعہ منظر ِاسلام بریلی میں تقریباً 20 سال تدریس کی،اس دوران مدرسہ مظہراسلام مسجدبی بی جی بریلی میں بھی پڑھایا ،8جمادی الاولیٰ 1369ھ/26فروری1950ء میں بریلی شریف میں وصال فرمایا ۔تدفین انجمن اسلامیہ بریلی قبرستان میں ہوئی۔(تذکرہ خلفائے اعلی حضرت، ص181) 44 ماہنامہ معارف رضا کراچی،جولائی 2013ء،ص54،تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت ،185) 45 استاذُ العلما، حضرت مولانا رحم الٰہی منگلوری مظفر نگری قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت منگلور (ضلع مظفر نگر، یو پی) ہند میں ہوئی۔ آپ ماہرِ معقولات عالم دین، صدر مدرس، مجازِ طریقت اور دارالعلوم منظراسلام کےاولین( ابتدائی) اساتذہ میں سے ہیں ۔ آپ نے بحالتِ سفر آخر (غالباً28) صَفر 1363ھ /23فروری 1944ءکو وصال فرمایا۔ (تذکرہ خلفائے اعلی حضرت، ص138) 46 صاحب ِ بہارِ شریعت صدرُالشّریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللّٰہ علیہ کی ولادت 1300ھ/1883ء کو مدینۃ العُلَماء گھوسی (ضلع مؤ،یوپی)ہند میں ہوئی اور 2 ذیقعدہ1376ھ/31مئی 1957ء کووصال فرمایا،مزارمبارک گھوسی میں ہے۔ آپ جیّدعالم، بہترین مفتی ،مثالی مدرّس،متقی وپرہیزگار ،استاذالعُلَماء،مصنفِ کتب وفتاویٰ ، مؤثرشخصیت کے مالک اوراکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔اسلامی معلومات کا انسائیکلوپیڈیا بہارِ شریعت آپ کی ہی تصنیف ہے۔ (تذکرہ صدرالشریعہ،5، 41وغیرہ) (48)ماہنامہ معارف رضا کراچی،جولائی 2013ء، ص56) 47 جہان مفتی اعظم ہند ،1060۔ 48 انوارعلمائے اہل سنت سندھ،145۔ 49 ماہنامہ معارف رضا کراچی،جولائی 2013ء،ص56) 50 حاجی مریداحمدچشتی صاحب کی پیدائش ذوالحجہ1371ھ/ ستمبر1952ء کو چک جانی(تحصیل پنڈدادنخان ضلع جہلم)میں ہوئی اور قریبی علاقے پنڈی سیدپورمیں 10ذیعقدہ1435ھ/ 6ستمبر2014ء کو وصال فرمایا،آپ اسکول ٹیچر،پابندصوم و صلوۃ،مصنف کتب کثیرہ اورشیخ الاسلام خواجہ قمرالدین سیالوی صاحب کے مریدتھے،آپ کی تصانیف میں خیابان رضا،فوزالمقال(نوجلدیں)وغیرہ ہیں۔ (فوزالمقال، 3/874) 51 ماہنامہ معارف رضا کراچی،جولائی 2013ء،ص58،تجلیات خلفائے اعلیٰ حضرت ،186۔ 52 عالمی مبلغِ اسلام علّامہ محمد ابراہیم خَوشْتر صِدّیقی رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت1348ھ/1930ء کو بنڈیل (ضلع چوبیس پرگنہ،مغربی بنگال) ہند میں ہوئی۔آپ حافظ قرآن، تَلمیذِ محدّثِ اعظم پاکستان، خلیفۂ حجۃُ الاسلام و قُطبِ مدینہ، مُصنّف و شاعر، بہترین مدرّس، باعمل مبلغ، بانی سنّی رضوی سوسائٹی انٹرنیشنل اور امام و خطیب جامع مسجد پورٹ لوئس ماریشس تھے۔تصانیف میں ”تذکِرَۂ جمِیل“ اہم ہے۔5 جُمادَی الاُخریٰ 1423ھ/24،اگست2002ء کو ماریشس میں وِصال فرمایا، مَزارمُبارک سنّی رضوی جا مع مسجد عیدگاہ پورٹ لوئس ماریشس میں ہے۔(ماہنامہ اعلیٰ حضرت بریلی شریف، رجب 1435ہجری،ص 56،57،مفتیِ اعظم اور ان کے خلفاء، ص 125تا 129) 53 ذکرجمیل،278۔ 54 ذکرجمیل،238۔ 55 قُطْبِ مدینہ،شیخُ العَرَبِ والعَجَم، حضرت مولانا ضیاء الدین احمدقادری مدنی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت1294ھ / 1877ء کلاس والاضلع سیالکوٹ میں ہوئی اوروصال 4 ذوالحجہ 1401ھ/2 اکتوبر 1981ءکو مدینہ منورہ میں ہوا۔ تدفین جنت البقیع میں کی گئی ۔آپ عالم ِباعمل ،ولیِ کامل ، حسنِ اخلاق کے پیکراوردنیا بھرکے علماومشائخ کے مرجع تھے ۔آپ نے تقریبا75سال مدینۂِ منوّرہ میں قیام کرنے کی سعادت حاصل کی، اپنے مکان ِعالی شان پرروزانہ محفل میلادکا انعقادفرماتے تھے۔امیراہل سنت علامہ محمدالیاس عطارقادری صاحب آپ کے مریدہیں ۔ (سیدی قطب مدینہ،17،11،8،7) 56 شہزادۂِ اعلیٰ حضرت، مفتیِ اعظم ہند، حضرت علّامہ مولانا مفتی محمدمصطفےٰ رضا خان نوری رضوی رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت 22ذوالحجہ 1310ھ مطابق 7جولائی 1893ء کورضا نگر محلّہ سوداگران بریلی (یوپی،ہند) میں ہوئی۔ آپ فاضل دارالعلوم منظرِ اسلام بریلی شریف، جملہ علوم و فنون کے ماہر، جید عالِم، مصنفِ کتب، مفتی و شاعرِ اسلام، شہرۂ آفاق شیخِ طریقت، مرجعِ علما و مشائخ و عوامِ اہلِ سنّت تھے۔ 35سے زائد تصانیف و تالیفات میں سامانِ بخشش اور المکرمۃ النبویۃ فی الفتاوی المصطفویۃ المعروف فتاویٰ مفتی اعظم (یہ چھ جلدوں پرمشتمل ہے اس میں پانچ سوفتاویٰ اور22 رسائل ہیں )مشہور ہیں۔ 14 محرّمُ الحرام 1402ھ /13نومبر1981ءمیں وصال فرمایا اور بریلی شریف میں والدِ گرامی امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے پہلو میں دفن ہوئے۔(جہانِ مفتی اعظم، ص64تا130) 57 مکاشفۃ القلوب اردو،بزم تقدس کراچی، 688۔ 58 حیات مفتی تقدس علی خان ،6۔ 59 تذکرہ اراکین ادارہ تحقیقات امام احمدرضا ،113۔ 60 حضرت مولاناحکیم مفتی قاری محبوب رضا خان رضوی صاحب،کی پیدائش20محرم1335ھ/ 16نومبر1916ءکو بریلی شریف میں ہوئی اوروصال کراچی میں 2جمادی الاخریٰ 1412ھ/9دسمبر1991ءکو ہوا،عالیشان مزارمیوہ شاہ قبرستان میں ہے ،آپ فاضل دارالعلوم منظراسلام،شاگردصدرالشریعہ،حازق طبیب،بانی مدرسہ حنفیہ رضویہ کراچی،مدرس ومفتی دارلعلوم امجدیہ کراچی،مبلغ اسلام،خلیفہ مفتی اعظم ہند،مفتی امام وخطیب جامع مسجدمصلح الدین گارڈن اورصاحب تصنیف تھے۔(انوارعلمائےاہل سنت سندھ، 887 تا 889) 61 حیات مفتی تقدس علی خان ،14۔ 62 شرفِ ملت حضرت علّامہ محمد عبد الحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت23شعبان 1363ھ 13/ اگست 1944ء مزار پور (ضلع ہوشیار پور پنچاب) ہند میں ہوئی۔ آپ استاذالعلماء، شیخ الحدیث و التفسیر جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور ، مصنف و مترجم کتب، پیرِ طریقت اور اکابرینِ اہلِ سنّت سے تھے۔ 18شعبان 1428ھ/یکم ستمبر2007ء کو وصال فرمایا، مزار مبارک جوڈیشنل کالونی لالہ زار فیز-2 لاہور پاکستان میں ہے۔آپ کاترجمہ قرآن ’’انوارالفرقان فی ترجمۃ معانی القرآن ‘‘یادگارہے۔راقم کوکئی مرتبہ آپ کی بارگاہ میں حاضری کاشرف حاصل ہوا۔(شرفِ ملت نمبر لاہور، ص 126) 63 عظمتوں کے پاسباں،384،385۔ 64 ماہنامہ معارف رضا کراچی،جولائی 2013ء،ص،50،52،57۔ 65 مفتی اعظم اورانکے خلفاء،269۔ 66 مکاشفۃ القلوب اردو،بزم تقدس کراچی، 18۔ 67 حیات مفتی تقدس علی خان ،8۔

    کتاب کا موضوع

    کتاب کا موضوع

    Sirat-ul-Jinan

    صراط الجنان

    موبائل ایپلیکیشن

    Marfatul Quran

    معرفۃ القرآن

    موبائل ایپلیکیشن

    Faizan-e-Hadees

    فیضانِ حدیث

    موبائل ایپلیکیشن

    Prayer Time

    پریئر ٹائمز

    موبائل ایپلیکیشن

    Read and Listen

    ریڈ اینڈ لسن

    موبائل ایپلیکیشن

    Islamic EBooks

    اسلامک ای بک لائبریری

    موبائل ایپلیکیشن

    Naat Collection

    نعت کلیکشن

    موبائل ایپلیکیشن

    Bahar-e-Shariyat

    بہار شریعت

    موبائل ایپلیکیشن