اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّـلٰوةُ وَالسَّـلَامُ عَلٰی سَیِّدِالْمُرْسَـلِیْن ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْم ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم ط
یہ رسالہ امیرِ اہلِ سنت دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ سے کیے گئے سوالات اور ان کے جوابات پر مشتمل ہے ۔
امیرِ اہلِ سنّت سے مُحرّم کے بارے میں سوال جواب
دُعائے جانشینِ امیرِ اہلِ سنّت: یاربَّ المصطفےٰ !جو کوئی 17صفحات کا رسالہ ”امیرِ اہلِ سنّت سےمحرّم کے بارے میں سوال جواب “ پڑھ یا سُن لے اُسے اہلِ بیت کے فیضان سے مالا مال فرما اور سیّدالشہداء امام حسین رضی اللہُ عنہ کے صدقے بے حساب جنّت میں داخلہ عطا فرما ۔
اٰمین بِجاہِ خاتَمِ النَّبِیّیْن صلّی اللہُ علیه واٰله وسلّم
حضرتِ ابو دَرْداء رضی اللہُ عنہ سے رِوایت ہے کہ میٹھے میٹھے مصطفی صلی اللہ علیہ واٰ لہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شَخص صُبح و شام مجھ پر دس دس بار دُرُود شریف پڑھے گا بروزِ قِیامت میری شَفَاعت اُسے پَہُنچ کر رہے گی۔“(الترغیب والترہِیب ،1/261،حدیث:29)
سُوال: ’’مُحرَّمُ الحَرام‘‘ میں ’’مُحرَّم‘‘ کے ساتھ ’’حَرام‘‘ کا لفظ کیوں ہے ؟
جواب: ’’حَرام‘‘ کا لفظ ’’حَلال‘‘ کے مقابَلے میں نہیں ہے ، بلکہ اِس لفظِ حَرام سے مراد عزّت و حُرمَت ہے ، چونکہ مُحرَّم کا مہینا عزّت و حُرمت والا ہوتا ہے ، اِس لئے اِس کے ساتھ لفظِ حَرام بولا جاتا ہے ، جس طرح کعبہ شریف جس مسجد میں ہے اُس کانام مسجدُ الحَرام ہے ، جس کا مطلب ہے : عزّت و حُرمت والی مسجد ۔(ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت، 3/197)
سُوال: مُحرّم کے دِنوں میں یہ شعر کافی پڑھا جاتا ہے ، اِس کی تشریح فرمادیجئے : ۔
قتلِ حسین اصل میں مَرگِ یزید ہے
اِسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
جواب: معلوم نہیں کہ یہ کس کا شعر ہے؟ لیکن اِس کا ظاہِری معنیٰ دُرُست ہے کہ اِمامِ عالی مقام اِمامِ حسین رضی اللہُ عنہ بظاہِر شہید ہوئے لیکن قیامت تک کے لئے یزید کی عزّت مر چکی۔ یزید نے تین سال اور کچھ مہینے تخت پر شَیْطَنَت کی ، آلِ رسول کا خُون کیا اور بڑے مظالِم ڈھائے ، اِس کے بعد 39 سال کی عمر میں بُری موت مرگیا۔( تاریخ الطبری ، 4 / 87)شہید تو زندہ ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم میں ہے :(وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌؕ-بَلْ اَحْیَآءٌ وَّ لٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ(۱۵۴))(پ2، البقرة : 154)” ترجمۂ کنز الایمان: اور جو خُدا کی راہ میں مارے جائیں ، اُنہیں مُردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ، ہاں تمہیں خبر نہیں“۔
اِس لئے جو راہِ خدا میں قتل کردئیے جاتے ہیں اُنہیں مُردہ کہنا تو دُور ، مُردہ سمجھنا بھی نہیں ہے ، کیونکہ وہ زندہ ہوتے ہیں لیکن لوگوں کو اِس کی سمجھ نہیں آتی۔ یہی وجہ ہے کہ اِمام حسین رضی اللہُ عنہ شہید ہوکر حیاتِ اَبَدی پاگئے ہیں۔ دوسرے مِصرعے کا مطلب یہ ہے کہ قربانیوں کے ذریعے اور دین کی خاطِر مَرمٹنے کے ذریعے اِسلام زندہ ہوتا ہے ، جب مسلمان اور اُس کا اِیمان مضبوط ہوتا ہے تو اِسلام مضبوط ہوتا ہے ، اِسلام کی حیات اِسی میں ہے کہ مسلمان ہر صورت میں قُربانی دینے کےلئے تیّار رہے۔ جب مسلمان 313 تھے تو اُنہوں نے بدر کے میدان میں 1000 افراد پر مشتمل لشکرِ جرّار کے دانت کھٹّے کردئیے تھے اور اُنہیں مار بھگایا تھا ، لیکن آج مسلمان غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ، ہر طرف گناہوں کا دور دورا ہے اور غیر مسلم ہم پر غالِب ہوچکے ہیں۔ کوئی قُربانی دیتا بھی ہے تو دنیا کے لئے دیتا ہے ، آخرت کا تصوُّر کم ہوتا جارہا ہے ، اِتنی قُربانی تو ہمیں دینی ہی چاہئے کہ نَماز پڑھ لیا کریں ، نیند کی قربانی دے کر فجر کے لئے اُٹھ جایا کریں ، اللہ پاک توفیق دے تو تہجد بھی ادا کر لیا کریں ، اپنی عبادتوں کو دُرُست کریں اور اپنے وقت کی قُربانی دیتے ہوئے مَدَنی قافلوں میں سَفَر کریں۔(ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت، 3/392)
غریب و سادہ و رنگین ہے داستانِ حَرَم نہایت اِس کی حسین ، اِبتِدا ہیں اِسماعیل
سُوال: یہ بات کہاں تک دُرُست ہے کہ جن کے مقام جتنے بڑے ہوتے ہیں اُن کے اِمتحان بھی اُتنے بڑے ہوتے ہیں؟
جواب: ایسا ہوتا ہے۔ سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اِرشاد فرمایا : راہِ خدا میں تم سب سے زیادہ میں ستایا گیا ہوں۔( ترمذی ، 4 / 213، حدیث : 2480 ماخوذا)سب کا اِمتحان مختلف انداز سے تھا ، میرے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اِمتحان کا انداز الگ تھا ، دیگر انبیائے کِرام علیہمُ السّلام کے اِمتحان کا انداز جُدا تھا اور صحابۂ کِرام رضی اللہُ عنہ کے اِمتحان کا انداز منفرِد تھا۔ صحابیٔ رسول حضرتِ خَبّاب رضی اللہُ عنہ کو اَنگاروں پر لِٹایا جاتا اوراوپر پتّھر رکھ دیا جاتا تھا ، بعض اوقات آپ کا آقا بھی سینے پر چڑھ جاتا تھا ، جب آپ کی چربی نکل کر اَنگاروں پر گِرتی تھی تب اَنگارے بجھا کرتے تھے ، لیکن اِس کے باوُجود آپ رضی اللہُ عنہ نے کبھی اِسلام نہیں چھوڑا ۔
( طبقات ابن سعد ،3 /123 ماخوذا) (ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت، 3/393)
سُوال : بعض لوگ مُحرّم ُالْحَرام میں سَفَر کرنے سے منع کرتے ہیں ، کیا مُحرّم ُالْحَرام میں سَفَر کرسکتے ہیں ؟
جواب : جس کی جو مَرضی ہوتی ہے وہ اپنے پاس سے کوئی بات چلا دیتا ہے۔ ایسا کہنے والے کو اگر مُحرّم میں مدینے کا ٹکٹ مِلے تو کیا وہ سوچے گا کہ میں مدینے جاؤں یانہ جاؤں؟ مُحرّمُ الْحَرام میں سَفَر کر سکتے ہیں۔ اللہ پاک مُحرّم ُالْحَرام میں بھی ہمیں مدینہ دِکھائے تو سَفَر کریں گے۔ اِن شاءَ اللہ ۔(ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت،قسط:217،ص10)
سُوال : مُحرّم ُالْحَرام کے 10دِنوں میں ایسا کونسا عَمَل کیا جائے جو شرعاً دُرُست اور اِىصالِ ثواب کے لئے بہتر ہو؟
جواب : مُحرّم کے روزوں کے فضائل اَحادیثِ کریمہ میں بیان کئے گئے ہیں۔( )اِس کےعلاوہ نَماز تو سارا سال ہی فرض ہے۔ یُوں ہی گُناہوں سے بچنا بھی سارا سال ہی ضروری ہے ۔ مُحرّم ُالْحَرام چُونکہ حُرمت والا مہینہ ہے ، اِس لئے اِس میں کئے جانے والے گُناہ کی شدّت بھی زِیادہ ہوگی ، یعنی عام دِنوں کے مُقابَلے میں مُحرّم میں حَرام کام کا گُناہ اور بڑا ہوجائے گا ، جس طرح جُمُعہ کی ایک نیکی ، 70 نیکیوں کے برابر ہوتی ہے اور ایک گُناہ ، 70 گُناہوں کے برابر ہوتا ہے ،( مراٰۃ المناجیح ، 2 / 323 -325 -336 ملخصاً)اِس کے علاوہ رَمَضان شریف اور لَیْلَۃُ الْقَدْر میں اگر کوئی گُناہ کرتا ہے تو یہ عام دِنوں کے مُقابَلے میں زِیادہ بڑا گُناہ شُمار ہوتا ہے۔
( معجم صغیر ، 1/ 248) (ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت،قسط:217،ص15)
سُوال: کیا قیامت 10 مُحرّم کو قائم ہوگی؟
جواب: جی ہاں! عاشُورا کےدن قیامت قائم ہوگی اور جمعہ کا روز ہوگا۔( ابو داؤد ، 1 / 390 ، حدیث : 1046) ویسے تو کئی جمعے ایسے گزرے ہیں جن میں عاشُورا تھا ، لیکن ابھی قیامت کی کئی نشانیاں باقی ہیں۔ بہر حال! قیامت ضرور آئے گی ، اِس پر اِیمان رکھنا لازِم ہے۔
( تفسیر روح البیان ، پ 24 ، المؤمن ، تحت الآیۃ :59 ،8 /199 -200) (ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت، 3/402)
سُوال : حدیثِ پاک میں 10 مُحرّم کے روزے کے ساتھ 9 مُحرّم یا 11 مُحرّم کا روزہ مِلاکر رکھنے کی تاکید ہے ، ( ) اگر کوئی شخص اِن تینوں دِن لگاتار روزے رکھے توکیا اُس کا حدیث پر عمل ہوگا؟
جواب : اگرکسی نے تینوں دن روزے رکّھے تو حدیث کے خِلاف نہیں ہوگا ، کیونکہ حدیثِ پاک میں تین روزے رکھنے سے منع نہیں کیا گیا۔ اگر یہ مُمانَعت ہوتی کہ صرف 9 کا روزہ رکھو یا 11 کا روزہ رکھو ، تو اَلگ بات تھی ، لیکن حدیثِ پاک میں اِس سے منع نہیں کیا گیا۔ اگر کوئی پُورے ماہِ مُحرّم کے روزے رکّھے تو اِس میں بھی کوئی حَرَج نہیں ، یہ اچّھی چیز ہے۔
(ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت،قسط:217،ص5)
سُوال: 10 مُحرّم کو اِثْمِد سُرمہ لگانے کی ترغیب ہے ، اگر اُس دن روزہ ہوتو کیا کیا جائے؟
جواب: روزے کی حالت میں سُرمہ لگانا جائز ہے ، بلکہ اگر گلے میں سُرمے کا اَثَر بھی آ جائے تب بھی جائز ہے ، روزہ نہیں ٹوٹے گا۔( ردالمحتار ،3/ 421) (ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت، 3/405)
سُوال : اگر اسلامی بہن کو قضا روزے رکھنے ہوں تو کیا وہ نو اور دس مُحَرَّمُ الْحَرام کو رکھ سکتی ہے ؟
جواب : جی ہاں! اگر قضا کی نیت سے رکھے گی تو دُرُست ہے نفل کی نیت نہ کرے ۔( اگر کسی نے قضااور نفل کی نیت سے ایک ہی روزہ رکھا تو قضا روزہ ادا ہو گا کیونکہ قضا روزے کی اَدائیگی نفل کے مقابلے میں زیادہ اَہم ہے ۔) ( الاشباہ والنظائر، ص 35 ماخوذا) (ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت، 3/288)
سُوال : کیا محرم الحرام میں ناخن کاٹ سکتے ہیں؟
جواب : جی ہاں!محرم الحرام شریف میں ناخن کاٹ سکتے ہیں۔(ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت، 6/50)
سُوال: مُحَرَّمُ الْحَرَام کا چاند نظر آتے ہی بعض عورتىں اور مَرد چپل پہننا چھوڑ دىتے ہىں اور کہتے ہىں کہ یہ ہماری مَنَّت ہے تو ان کا اس طرح کرنا کیسا ہے ؟
جواب : مُحَرَّمُ الْحَرَام کا چاند نظر آتے ہی چپل نہ پہننا اور ننگے پاؤں رہنا اگر سوگ کی نیت سے ہو تو حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے ۔ شَریعتِ مطہرہ میں تین دن سے زیادہ سوگ جائز نہیں ، البتہ عورت شوہر کے مرنے پر چار مہینے دس دن سوگ کرے گی ۔ اگر کوئی سوگ کی نیت سے نہیں بلکہ ویسے ہی ننگے پاؤں رہتا ہے تو کوئی حَرج نہیں اور نہ ہی وہ گناہ گار ہو گا ، البتہ مُحَرَّمُ الْحَرَام کے اِبتدائی دَس دِنوں میں لوگ غم اور سوگ کی وجہ سے ہی ننگے پاؤں رہتے ہیں لہٰذا ان کی مُشابَہَت سے بچنا چاہیے ۔ نیز ننگے پاؤں رہنے کی مَنَّت کوئی شَرعی مَنَّت نہیں کہ جس کا پورا کرنا واجب ہو اور نہ ہی اس طرح کی مَنّت ماننا کسی فضیلت کا باعِث ہے ۔(ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت،1/178)
سُوال : یہ بات کہاں تک دُرست ہے کہ دُلہن نکاح کے پہلے سال مُحَرَّمُ الْحَرَام ىا صَفَرُ الْمُظَفَّر کا چاند سُسرال مىں نہ دىکھے ؟
جواب : یہ بھی ایک ڈھکوسلا اور غَلَط بات ہے کہ دُلہن نکاح کے پہلے سال مُحَرَّمُ الْحَرَام ىا صَفَرُ الْمُظَفَّر کا چاند سُسرال مىں نہ دىکھے ۔ بالفرض اگر دُلہن کی آنکھیں کمزور ہوں یا وہ نابینا ہو یا اُس کا گھر کسی پلازے میں ہو تو وہ میکے میں چاند کیسے دیکھ پائے گی؟نیز اگر دُلہن کے ماں باپ فوت ہو چکے ہوں اور اُس کا کوئی وارث نہ ہو تو کیا چاند دیکھنے کے لیے اُسے دارُ الامان بھیجا جائے گا؟یاد رَکھیے ! شرعی لحاظ سے ایسا کوئی مسئلہ نہیں کہ دُلہن نکاح کے پہلے سال مُحَرَّمُ الْحَرَام ىا صَفَرُ الْمُظَفَّر کا چاند سُسرال میں نہ دیکھے بلکہ یہ سب عوامی توہمات ہیں جن کو ختم كرنا ضَروری ہے ۔(ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت،1/917)
سُوال : اگر عورت عِدَّت میں بیٹھی ہو اور ساس اُسے شوہر کے مارنے کا طعنہ دے بلکہ گالیاں تک دے ، ایسے میں وہ عورت کیا کرے؟
جواب : صبر کرے۔
ہے صبر تو خزانۂ فردوس بھائىو! عاشق کے لب پہ شکوہ کبھى بھى نہ آسکے
ماہِ محرّم الحرام بھی صبر ہی کا دَرس دیتا ہے ، میدانِ کربلا میں اہلِ بیتِ اَطہار پر کس قدر مَظالم ڈھائے گئے انہوں نے اس پر صبر ہی فرمایالہٰذا وہ اسلامی بہن بھی صبر ہی کرے کہ اِس کے علاوہ کوئی حل بھی نہیں ہے۔ بے چاری ساس اس طرح بول کر خواہ مخواہ گناہ گار ہو رہی ہے ، اسے سمجھانے کے سِوا کوئی راستہ نہیں ہے۔(ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت،6/46)
سُوال : مُحَرَّمُ الْحَرَام میں مچھلی نہ کھانا اور نیا کپڑا پہننے کو معیوب سمجھنا کیسا ہے ؟
جواب : مُحَرَّمُ الْحَرَام میں اگر کوئی سوگ کے باعِث مچھلی نہیں کھاتا اور نیا کپڑا پہننے کو معیوب سمجھتا ہے تو وہ گناہ گار ہو گا ۔ عوام میں یہ مشہور ہے کہ عاشورہ کے دِن گوشت نہیں کھانا چاہیے اور کراچی میں جہاں ہمارا پُرانا گھر تھا وہاں گوشت کی دُکانیں عاشورہ کے دِن بند رہتی تھیں ، پھر آہستہ آہستہ عاشورہ کے دِن گوشت کی دُکانیں کھلنا شروع ہوئیں اور یوں دُکانیں بند کرنے کا رواج ختم ہو گیا ۔ اب بھی بعض لوگ عاشورہ کے دِن گوشت نہیں کھاتے جبکہ کھچڑا کھا لیتے ہیں حالانکہ کھچڑے میں بھی گوشت ہوتا ہے ۔ یہ ایک عجیب بات ہے کہ کھچڑے کی صورت میں تو گوشت کھا لیتے ہیں جبکہ گوشت کا سالن اور پلاؤ بنا کر کھانے سے منع کرتے ہیں ۔ یاد رکھیے !مُحَرَّمُ الْحَرَام بلکہ پورے سال میں کوئی گھڑی یا گھنٹا ایسا نہیں کہ جس میں مچھلی یا گوشت کھانا شَرعاً منع ہو البتہ کسی اور خاص وجہ سے منع ہو جائے تو الگ بات ہے ۔(ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت،1/178)
سُوال: عاشُورا کے دن صَدَقہ کرنے کی کوئی فضیلت ہو تو بتادیجئے۔ (3)
جواب: جو عاشُورا کے دن صَدَقہ کرے گا اُس کو سارا سال صَدَقہ کرنے کا ثواب ملے گا۔
( کشف الخفاء ، حرف المیم ، 2 / 253 ، حدیث : 2641)عوامُ الناس صَدَقہ کا مطلب یہ سمجھتی ہے آٹے میں انڈا رکھ کر دے دیا جائے ، ساتھ میں تیل رکھ دیا جائے ، یوں ہی کالا بکرا یا کالا مُرغا دینے کو صَدَقہ سمجھا جاتا ہے ، حالانکہ صَدَقہ صرف اِسی کا نام نہیں ہے ، صَدَقہ کا مطلب خیرات ہے یعنی راہِ خدا میں خرچ کرنا ، تو جو چیز بھی راہِ خدا میں خرچ کی جائے گی وہ صَدَقہ اور خیرات کہلائے گی۔(ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت،3/403)
سُوال: ایک تعداد ہے جو ماہِ مُحرَّم الحَرام میں نیاز کا اہتمام کرتی اور کھچڑا بناتی ہے ۔ اِس کے لئے دکانوں، مارکیٹوں (Markets) اور بلڈنگوں (Buildings) سے چندہ (Donation) بھی جمع کیا جاتا ہے ۔ اِس میں کیا کیا احتیاطیں کرنی چاہئیں؟
جواب: اس کی باقاعدہ انجمنیں (Associations) ہوتی ہیں جو سالانہ نیاز کا اِہتِمام کرتی ہیں اور اِس میں بے احتیاطیاں بھی بہت کرتی ہیں ۔ بعض لوگ تو دھمکیاں دے کر چندہ مانگتے ہیں اور سامنے والا اُن کے شر سے بچنے کے لئے چندہ دے رہا ہوتا ہے ۔ ظاہِر ہے کہ اب یہ چندہ رشوت ہوجائے گا۔( فتاوی ٰرضویہ، 19/ 653) اور اِس رقم سے نیاز کرنے کی اجازت نہیں ہوگی بلکہ اُس شخص کو اُتنی رقم واپس کرنی ہوگی ۔( فتاویٰ رضویہ، 23 / 551) پھر اِس میں یہ بھی ہوتا ہے کہ ساری رات جاگ کر جب دیگیں پکائی جارہی ہوتی ہیں تو اِس دوران خوب ہُلَّڑ بازی کی جاتی ہے ، میوزک(Music) چلایا جاتا ہے ، محلّے والے بھی شورو غل اور دھوئیں وغیرہ سے تنگ ہوتے ہیں، نمازوں کا کوئی ٹھکانا نہیں ہوتا، مزید یہ کہ سڑک بھی خراب کی جاتی ہے ، توڑ پھوڑ کی جاتی ہے ، نشانات پڑجاتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو گڑھے بھی پڑجاتے ہیں جن میں بارِش کا پانی جمع ہوتا اور کیچڑ بنتی ہے ، اِس طرح مکھیاں اور مچّھر بھی بڑھ جاتے ہیں اور آنے جانے والوں کو بھی بہت تکلیف ہوتی ہے ، کوئی گِرجاتا ہے ، کوئی زخمی ہوجاتا ہے ، کسی کا نقصان ہوجاتا ہے ۔ اتنا ہی نہیں ! کچھ لوگ تو جانور بھی ذبح کرتے ہیں جس میں اچّھا خاصا جشن کا سماں بن جاتا ہے ۔
… حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے رِوایت ہے کہ نبیٔ اَکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : رَمَضان کے بعد سب سے اَفضل روزے اللہ پاک کے مہینے مُحرّم کے ہیں۔ (مسلم ، ص456 ، حدیث : 2755)
… فرمانِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم : عاشورا کے دن روزہ رکّھو اور اِس میں یہودیوں کی اِ س طرح مُخالَفت کرو کہ عاشورا سے ایک دِن پہلے یا ایک دن بعد بھی روزہ رکھو۔ (مسند امام احمد ،1 /518 ، حدیث :2154)