30 سے زائد لینگوئجز میں 5000 سے زائد اسلامی کتب کا خزانہ آن لائن پڑھیں اور ڈاؤن لوڈ کریں
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ علٰی سَیِّدِ الْمُرْسَلِیْنَ ط
اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ ط بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّ حِیْم ط
براہِ کرم! یہ رسالہ (17صَفحات) مکمَّل پڑھ لیجئےاس کے فوائد خود ہی دیکھ لیں گے۔
سرورِ ذیشان ، محبوبِ رحمٰن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا فرمانِ مغفرت نشان ہے : ’’ جب جمعرات کا دِن آتا ہے اللہ عَزَّ وَجَلَّفرشتوں کو بھیجتا ہے جن کے پاس چاندی کے کاغذ اور سونے کے قلم ہوتے ہیں وہ لکھتے ہیں ، کون یوم جمعرات اورشبِ جمعہ مجھ پر کثرت سے درود پاک پڑھتا ہے ۔ ‘‘ (اِبنِ عَساکر ج ۴۳ ص ۱۴۲)
صَلُّوا عَلَی الْحَبِیْب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
اللہ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی سُوْرَۃُ النِّسَآءکی آیت نمبر101میں ارشاد فرماتا ہے:
وَ اِذَا ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَلَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَقْصُرُوْا مِنَ الصَّلٰوةِ ﳓ اِنْ خِفْتُمْ اَنْ یَّفْتِنَكُمُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْاؕ-اِنَّ الْكٰفِرِیْنَ كَانُوْا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِیْنًا (۱۰۱)
ترجَمۂ کنزالایمان: اور جب تم زمین میں سفر کرو تو تم پر گُناہ نہیں کہ بعض نَمازیں قَصر سے پڑھو، اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ کافر تمہیں اِیذا دیں گے، بے شک کُفّار تمہارے کھلے دشمن ہیں ۔
اب تو اَمن ہے پھر بھی قَصر کیوں ؟
صدرُ الافاضل حضرتِ علّامہ مولاناسیِّد محمد نعیم الدین مُراد آبادی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الْھَادِیفرماتے ہیں : خوفِ کفارقصرکے لئے شرط نہیں ۔حضرتِ (سیِّدُنا ) یعلٰی بن اُ میہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہنے حضرتِ (سیِّدُنا ) عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے عرض کی کہ ہم تو امن میں ہیں ، پھرہم کیوں قصرکرتے ہیں ؟ فرمایا: اس کا مجھے بھی تعجب ہوا تھا تو میں نے سیِّدِ عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے دریافت کیا ۔ حضورِ اکر م صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ’’ تمہارے لئے یہ اللہ عَزَّ وَجَلَّکی طرف سے صَدَقہ ہے تم اس کا صدقہ قبول کرو۔ ‘‘ (مُسلِم ص۳۴۷حدیث۶۸۶، خزائن العرفان ص۱۸۵)
پہلے چار نہیں بلکہ دو رکعتیں ہی فرض کی گئیں
اُمُّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتنا عائِشہ صِدّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا رِوایت فرماتی ہیں : نَماز دورَکعَت فرض کی گئی پھرجب سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ہجرت فرمائی تو چار فرض کی گئی اور سفر کی نَماز اُسی پہلے فرض پر چھوڑی گئی ۔ (بُخاری ج۲ص۶۰۴حدیث۳۹۳۵)
حضرتِ سیِّدُنا عبداللّٰہ بن عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا اور حضرتِ سیِّدُناعبداللّٰہ بن عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے روایت ہے کے حبیب ، حبیبِ لبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے نَمازِ سفر کی دو رکعتیں مقرر فرمائیں اور یہ پوری ہے کم نہیں ۔ ( اِبنِ ماجہ ج۲ ص۵۶ حدیث ۱۱۹۴) یعنی اگر چِہ بظاہردو رکعتیں کم ہو گئیں مگر ثواب میں دو ہی چار کے برابر ہیں ۔
شرعاً مسافروہ شخص ہے جو تین دن کے فاصلے تک جانے کے ارادے سے اپنے مقامِ اِقامت مَثَلاً شہریاگاؤں سے باہَرہوگیا۔ خشکی میں سفرپرتین دن کی مسافت سے مراد ساڑھے ستاون میل (تقریباً 92 کِلو میٹر ) کا فاصلہ ہے۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۸ص۲۴۳، ۲۷۰ ، بہارِ شریعت ج۱ص۷۴۰، ۷۴۱ )
محض نیّتِ سفرسے مسافرنہ ہوگا بلکہ مسافر کا حکم اُس وَقت ہے کہ بستی کی آبادی سے باہرہوجائے، شہرمیں ہے تو شہرسے ، گاؤں میں ہے تو گاؤں سے اور شہروالے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ شہرکے آس پاس جو آبادی شہرسے متصل (مُتْ۔تَ ۔صل یعنی ملی ہوئی ) ہے اس سے بھی باہرآجائے ۔ (دُرِّمُختار ورَدُّالْمُحتار ج۲ص۷۲۲ )
آبادی سے باہر ہونے سے مراد یہ ہے کہ جدھر جارہا ہے اُس طرف آبادی ختم ہو جائے اگرچہ اُ س کی محاذات ( مثَلاً اس کی کسی اور سمت ) میں دوسری طرف ختم نہ ہوئی ہو۔ (غُنْیہ ص ۵۳۶ )
کتاب کا موضوع
کتاب کا موضوع